ازجمشید صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے یہ اگرسازش ہے توحضرت ابن تیمیہ نے جو تلخ وتند تنقیدات اشاعرہ پر کئے ہیں ان کو سازش کیوں نہ ماناجائے ۔اس لحاظ سے سازشیوں کی فہرست میں ابن تیمیہ کابھی نام شامل ہوگا۔ ان کی تلخ تنقیدات کی صرف ایک مثال پیش کرتاہوں۔
ومن رزقه الله معرفة ما جاءت به الرسل وبصرًا نافذًا وعرف حقيقة مأخذ هؤلاء، علم قطعًا أنهم يلحدون في أسمائه وآياته، وأنهم كذبوا بالرسل وبالكتاب وبما أرسل به رسله؛ ولهذا كانوا يقولون: إن البدع مشتقة من الكفر وآيلة إليه، ويقولون: إن المعتزلة مخانيث الفلاسفة، والأشعرية مخانيث المعتزلة.
(الرسالۃ المدنیۃ فی تحقیق المجاز الحقیقۃ فی صفات اللہ1/6)
اگرخود حضرت ابن تیمیہ اوران کے متعبین کو کسی دوسرے اعتبار سے مخانیث کہاجائے توشاید یہ بزرگان الزام لگائیں گے کہ تہذیب نہیں ہے اوربات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے لیکن دیکھئے اشاعرہ کے بارے میں خود حضرت ابن تیمیہ نے کیافرمایا ہے۔
یہ بیان ابن تیمیہ نے صرف ایک جگہ نہیں ہے بلکہ اپنی مختلف کتابوں میں متعدد باراس بیان کو دوہرایاہے۔اب چاہے اسے ابن تیمیہ نے ذکرکیاہو یاکسی دوسرے نے ۔یہ بہرحال قابل کراہت بیان ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن تیمیہ کے باب میں امام سخاوی اورصفدی نے کہاہے کہ مخالفین پر تشنیع کرنے میں وہ ابن حزم کی طرح ہیں۔
ملتقی اہل الحدیث فورم پر ایک صاحب نے بڑی کوشش کی ہے کہ اس مخانیث والے بیان کی تاویل وتوجیہ کرکے اسے قابل قبول بنایاجائے لیکن یہ ساری تاویلیں اسی وقت ہواہوجائیں گی جب موصوف سے پوچھاجائے کہ اگرکسی اعتبار سے موصوف کو ہی مخانیث کہاجائے یااہل حدیث حضرات کو ہی مخانیث قراردیاجائے تو درست ہوگا؟
کفایت اللہ صاحب نے وہاں پر کوئی حوالہ نہیں دیا کہ انہوں نے یہ بات کس سے اخذ کی ہے جب کہ یہی بات قبل ازیں مقبل الوادعی اپنی رسوائے زمانہ کتاب نشرالصحیفہ میں اورالبانی سلسلۃ الاحادیث الصحیفہ میں ذکر کرچکے ہیں ۔
یہ کہنامشکل نہیں ہے کہ کفایت اللہ کی اس تحقیق کا مصدر کیاتھالیکن ان چیزوں کے پیچھے پڑنا اپنی صلاحیت اوروقت کو ضائع کرناہے۔اگرکفایت اللہ صاحب نہ مانیں کہ وہ میری تحقیق ہے توانہیں کوئی مجبورتونہیں کرسکتا۔جیسے کہ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ غیرمقلدین صرف نام کے غیرمقلدین ہیں ورنہ وہ اندر سے پورے طورپر مقلد ہیں بلکہ مقلدین سے بھی زیادہ مقلد ہیں اوراسی کے ساتھ کمال درجہ کا تعصب بھی ان میں موجود ہے جیساکہ نواب صدیق حسن خان نے بیان کیاہے۔
اسی چیز کا اعتراف نواب وحیدالزمان لکھنوی ثم حیدرآبادی نے کیاہے ۔یہ ان کی اس وقت کی بات ہے جب وہ خود اہل حدیث تھے شیعہ نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
اگر کسی بحث میں نقول پیش کرکے یہ ثابت کیاجائے کہ چونکہ قبل ازیں دوسرے افراد بھی یہی نقوپیش کرکے اپناموقف ثابت کرچکے ہیں لہذا آپ نے بھی وہی نقول پیش کئے ہیں لہذا یہ آپ کی تحقیق نہیں ہوسکتی اس اعتبار سے توحضرت امام ابن تیمیہ کابھی مجتہد ہونا مشکوک ہوجائے گا۔
کچھ بھی لکھنے سے قبل ذراسوچیں کہ کیالکھ رہے ہیں اوراس کی زد میں کہیں آپ کے ممدوح خود تونہیں آرہے ہیں۔
اگرآپ یہ سمجھتے ہیں کہ سفیان ثوری نے کچھ کہہ دیاہے تو اسے دوہراسکتے ہیں تومیرایہ حق ابن تیمیہ کے سلسلے میں کیوں نہیں ہے کہ علماء نے جوکچھ کہاہے میں اس کو دوہراؤں؟
آپ نسبتاکا شاید مفہوم نہیں سمجھتے اس لئے اس کو معیوب کہہ رہے ہیں۔
میراکہنایہ ہے کہ تحریرمیں جو اعتدال وتوازن ابن عبدالبر،امام نووی وغیرہ کے یہاں ہیں وہ حضرت ابن تیمیہ کے یہاں نہیں ہے۔یہ نسبتا اس وقت ہے جب ہم ان کی تحریر کا تقابل کریں۔جب ہم ان کا تقابل ان سے زیادہ گہرے اورسنجیدہ علماء کی تحریروں سے کریں گے تب یہ فرق دکھائی پڑے گاکہ ان کے یہاں وہ اعتدال وتوازن نہیں ہے جو دیگر کے یہاں ہے ۔میرایہ کہنانہیں ہے کہ ان کی تحریریں بالکلیہ اعتدال اورتوازن سے خالی ہیں۔اس فرق کو نگاہ میں رکھیں۔
اس میں شک نہیں کہ بیشتر جگہوں پر انہوں نے اچھی باتیں اوراچھے الزامی جوابات دیئے ہیں لیکن بعض مواقع ایسے ہیں جہاں پر ان سے متفق ہونامشکل ہے کہ یہ الزامی جوابات ہیں بلکہ بادی النظر مین حضرت علی کی تنقیص معلوم ہوتی ہے۔اگرآپ کہیں گے تو ہم ان مقامات کی نشاندہی بھی کردیں گے تاکہ قارئین کو مزید آگاہی ہوسکے۔
دوباتیں ہیں کہ ایک ہے تنقیص کرنا۔اوردوسراہے تنقیص تک پہنچنا۔دونوں میں بہت فرق ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے گڈمڈ اورخلط ملط نہ کریں۔اگرکوئی شخص منہاج السنۃ کو غیرجانبداری سے پڑھے گا تویقینابعض مقامات اس کو ایسے پیش آئیں گے جہاں پر وہ ٹھٹکے گا اورسوچے کہ کہ جواب اس کے علاوہ بھی ہوسکتاتھایعنی امام شافعی کے الفاظ میں اس سے بہتر طورپر جواب دیاجاسکتاتھا ۔وجہ کیاہے کہ بات وہی ہے کہ چونکہ ان کی کتاب کا طرز یہ ہے کہ وہ شیعہ حضرات کے حضرات شیخین اورحضرت عثمان غنی پر الزام کے تعلق سے یہ کرتے ہیں کہ وہ الزامات حضرت علی کے تعلق سے بھی پیش کرتے ہیں اورپھرکہتے ہیں کہ اگران کے باوجود بھی حضرت علی ایسے ایسے ہوسکتے ہیں تویہ حضرات ان سے بدرجہااس کے مسحق ہیں۔اسی الزام جواب مین وہ بعض باتیں ایسی کہہ جاتے ہیں کہ اگر وہی باتیں ہم ابن تیمیہ کے تعلق سے لکھیں توپڑھنے والوں کو برامحسوس ہوگا۔
یہ صحیح ہے کہ حضرت لکھنوی کے اس کلام میں تھوڑاتشدد موجود ہے لیکن اس کو سازش سے تعبیر کرنا کفایت اللہ صاحب کی اپنی ذہنی اپج ہے وہ یہ بتائیں کہ اس سے سازش کا ثبوت کہاں سے مل رہاہے۔ اسے سازش وہی مان سکے گا جوتنقید میں تجاوز اورافراط اورسازش کے فرق سے ناواقف ہوگا۔آخر میں لکھنوی صاحب ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے خلاف اس شعلہ بیانی کے بعد اس کا مقصد بتلاتے ہوئے واضح طور پرلکھتے ہیں:
فنقول لما ثبت ان ابن تیمیہ موصوف بخفة العقل وبالتجاوز عن جد التوسط الذي يختاره اهل النقل لاسيما في رد منهاج الكرامة المسمى بمنهاج السنة فهل يعتبر قوله في باب الطحاوي انه ليست عاته نقد الحديث كنقد اهل العم ولم تكن له معرفة بالاسانيد كمعرعفة اهل العلم كلا والله لايقبل قوفه في حفه لما علم من تشدده وتجاوز عن حده كما لا يقبل قوله في حق اكاب الصوفيه الصافية واعظم الايمة الراضيه الواقع منه تشدد او تفنتا [إمام الكلام في القراءة خلف الإمام 3/ 14]۔
ویسے یہ اگرسازش ہے توحضرت ابن تیمیہ نے جو تلخ وتند تنقیدات اشاعرہ پر کئے ہیں ان کو سازش کیوں نہ ماناجائے ۔اس لحاظ سے سازشیوں کی فہرست میں ابن تیمیہ کابھی نام شامل ہوگا۔ ان کی تلخ تنقیدات کی صرف ایک مثال پیش کرتاہوں۔
ومن رزقه الله معرفة ما جاءت به الرسل وبصرًا نافذًا وعرف حقيقة مأخذ هؤلاء، علم قطعًا أنهم يلحدون في أسمائه وآياته، وأنهم كذبوا بالرسل وبالكتاب وبما أرسل به رسله؛ ولهذا كانوا يقولون: إن البدع مشتقة من الكفر وآيلة إليه، ويقولون: إن المعتزلة مخانيث الفلاسفة، والأشعرية مخانيث المعتزلة.
(الرسالۃ المدنیۃ فی تحقیق المجاز الحقیقۃ فی صفات اللہ1/6)
اگرخود حضرت ابن تیمیہ اوران کے متعبین کو کسی دوسرے اعتبار سے مخانیث کہاجائے توشاید یہ بزرگان الزام لگائیں گے کہ تہذیب نہیں ہے اوربات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے لیکن دیکھئے اشاعرہ کے بارے میں خود حضرت ابن تیمیہ نے کیافرمایا ہے۔
یہ بیان ابن تیمیہ نے صرف ایک جگہ نہیں ہے بلکہ اپنی مختلف کتابوں میں متعدد باراس بیان کو دوہرایاہے۔اب چاہے اسے ابن تیمیہ نے ذکرکیاہو یاکسی دوسرے نے ۔یہ بہرحال قابل کراہت بیان ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن تیمیہ کے باب میں امام سخاوی اورصفدی نے کہاہے کہ مخالفین پر تشنیع کرنے میں وہ ابن حزم کی طرح ہیں۔
ملتقی اہل الحدیث فورم پر ایک صاحب نے بڑی کوشش کی ہے کہ اس مخانیث والے بیان کی تاویل وتوجیہ کرکے اسے قابل قبول بنایاجائے لیکن یہ ساری تاویلیں اسی وقت ہواہوجائیں گی جب موصوف سے پوچھاجائے کہ اگرکسی اعتبار سے موصوف کو ہی مخانیث کہاجائے یااہل حدیث حضرات کو ہی مخانیث قراردیاجائے تو درست ہوگا؟
کفایت اللہ صاحب نے "امام ابوحنیفہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں"والے تھریڈ میں اس پر بحث کی ہے کہ امام ابوحنیفہ کے تعلق سے جو ابن معین کے توثیقی کلمات ہیں وہ توثیق لغوی ہیں نہ کہ توثیق اصطلاحی۔جمشید صاحب کے اس جملے سے لگتاہے کہ موصوف نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو جومتشدد بتلایا ہے ، وہ ان کا اپنا اجتہاد ہے جو ان کے مطالعہ کا نتیجہ ہے ، بلکہ دوسری جگہ پر جمشید صاحب نے اس کی صراحت بھی کردی ہے لکھتے ہیں:لیکن بعض قرائن کی بنا پر ہمیں اس پر یقین کرنے میں تامل ہورہا ہے ، اور اس کے برعکس ہمیں یہی لگ رہا ہے کہ آن جناب کی مذکورہ رائے ان کے اجتہاد اور مطالعہ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس سلسلےمیں موصوف اپنے اسلاف کی تقلید کررہے ہیں۔
کفایت اللہ صاحب نے وہاں پر کوئی حوالہ نہیں دیا کہ انہوں نے یہ بات کس سے اخذ کی ہے جب کہ یہی بات قبل ازیں مقبل الوادعی اپنی رسوائے زمانہ کتاب نشرالصحیفہ میں اورالبانی سلسلۃ الاحادیث الصحیفہ میں ذکر کرچکے ہیں ۔
یہ کہنامشکل نہیں ہے کہ کفایت اللہ کی اس تحقیق کا مصدر کیاتھالیکن ان چیزوں کے پیچھے پڑنا اپنی صلاحیت اوروقت کو ضائع کرناہے۔اگرکفایت اللہ صاحب نہ مانیں کہ وہ میری تحقیق ہے توانہیں کوئی مجبورتونہیں کرسکتا۔جیسے کہ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ غیرمقلدین صرف نام کے غیرمقلدین ہیں ورنہ وہ اندر سے پورے طورپر مقلد ہیں بلکہ مقلدین سے بھی زیادہ مقلد ہیں اوراسی کے ساتھ کمال درجہ کا تعصب بھی ان میں موجود ہے جیساکہ نواب صدیق حسن خان نے بیان کیاہے۔
الحطۃ فی ذکر الصحاح الستہ 154/155بخدا یہ امر انتہائی تعجب وتحیر کا باعث ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو خالص موحد گرادنتے ہیں اوراپنے ماسواسب مسلمانوں کو مشرک بدعتی قراردیتے ہیں حالانکہ یہ خود انتہائی متعصب اوردین مین غلو کرنے والے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مقصود یہ ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کادیکھنا آنکھوں کی چبھن اورگلوں کی گھٹن،جانوں کے کرب اوردکھ، روحوں کے بخار،سینوں کے غم اوردلوں کی بیماری کا باعث ہے ۔اگرتم ان سے انصاف کی بات کرو توان کی طبعیتیں انصاف قبول نہیں کریں گی۔
اسی چیز کا اعتراف نواب وحیدالزمان لکھنوی ثم حیدرآبادی نے کیاہے ۔یہ ان کی اس وقت کی بات ہے جب وہ خود اہل حدیث تھے شیعہ نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
ویسے کمال درجہ کی بات تویہ ہے کہ موصوف نے چند نقول پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ میری ذاتی رائے نہیں ہوسکتی میراخیال ہے کہ کوئی ایساہی اگرحضرت ابن تیمیہ کے ساتھ کرنے لگے کہ انہوں نے جن احادیث وآثار کے ساتھ استدلال کیاہے ان کو دوسرے متقدم علماء کے کتابوں میں تلاش کرکے بیان کردے پھر کہے کہ یہ ان کی تحقیق نہیں ہوسکتی بلکہ انہوں نے اپنے سے متقدم علماء کی تقلید کی ہے توکفایت اللہ صاحب کیاجواب دیں گے؟اہل حدیث گو امام ابوحنیفہ اورامام شافعی کی تقلید کو حرام کہتے ہیں لیکن ابن تیمیہ، ابن قیم،شوکانی اورنواب صدیق حسن خان کی اندھادھند تقلید کرتے ہیں(التوحید والسنۃ293)
اگر کسی بحث میں نقول پیش کرکے یہ ثابت کیاجائے کہ چونکہ قبل ازیں دوسرے افراد بھی یہی نقوپیش کرکے اپناموقف ثابت کرچکے ہیں لہذا آپ نے بھی وہی نقول پیش کئے ہیں لہذا یہ آپ کی تحقیق نہیں ہوسکتی اس اعتبار سے توحضرت امام ابن تیمیہ کابھی مجتہد ہونا مشکوک ہوجائے گا۔
کچھ بھی لکھنے سے قبل ذراسوچیں کہ کیالکھ رہے ہیں اوراس کی زد میں کہیں آپ کے ممدوح خود تونہیں آرہے ہیں۔
یہ عجیب وغریب دوہرامعیار ہے کہ موصوف اپنے ضال ومضل کے قول شنیع کیلئے توفوراکہہ اٹھتے ہین کہ یہ میری بات نہیں سفیان ثوری کی بات ہے توان کی تحریروں میں شدت،تنقیص علی کا الزام کیایہ سب میری باتیں ہیں ۔اول الذکر بات کئی علماء ذہبی، صفدی ،سخاوی وغیرہ سے ثابت ہے۔ ثانیاالذکر الزام خود حافظ ابن حجر نے لگایاہے اور اس سلسلے میں دوسرے علماء کے اقوال نقل کئے ہیں۔شرعی مسائل پر ان کی تحریروں کو پرشدت بتلانا ، تنقیص علی تک کا الزام لگانا ، یہ معیوب اوصاف سے متصف کرنا نہیں ہے؟؟؟
اگرآپ یہ سمجھتے ہیں کہ سفیان ثوری نے کچھ کہہ دیاہے تو اسے دوہراسکتے ہیں تومیرایہ حق ابن تیمیہ کے سلسلے میں کیوں نہیں ہے کہ علماء نے جوکچھ کہاہے میں اس کو دوہراؤں؟
طبعیت کی حدت وشدت کااثر تحریر پرہوتاہے اس سے انکار وہی شخص کرے گا جو کہ نفسیات کے مبادی تک سے ناواقف ہو۔جس کی طبعیت میں حدت وشدت ہوگی اس کی تحریر میں بھی اس کا اثرنظرآئے گا۔ جس کے مزاج میں لینت ونرمی ہوگی اس کابھی عکس اس کی تحریروں میں نظرآئے گا۔صرف طبیعت میں نہیں بلکہ شرعی مسائل پر مبنی ان کی تحریروں میں بھی آنجناب حدت وشدت کی بات کررہے ہیں، جیساکہ آپ کے اگلے جملے میں بھی ہے۔اگرنسبتااعتدال وتوازن کی کمی ہے تو نسبتایہ معیوب بات بھی ہے ۔
آپ نسبتاکا شاید مفہوم نہیں سمجھتے اس لئے اس کو معیوب کہہ رہے ہیں۔
میراکہنایہ ہے کہ تحریرمیں جو اعتدال وتوازن ابن عبدالبر،امام نووی وغیرہ کے یہاں ہیں وہ حضرت ابن تیمیہ کے یہاں نہیں ہے۔یہ نسبتا اس وقت ہے جب ہم ان کی تحریر کا تقابل کریں۔جب ہم ان کا تقابل ان سے زیادہ گہرے اورسنجیدہ علماء کی تحریروں سے کریں گے تب یہ فرق دکھائی پڑے گاکہ ان کے یہاں وہ اعتدال وتوازن نہیں ہے جو دیگر کے یہاں ہے ۔میرایہ کہنانہیں ہے کہ ان کی تحریریں بالکلیہ اعتدال اورتوازن سے خالی ہیں۔اس فرق کو نگاہ میں رکھیں۔
میں نے عمومی طورپر ایک بات بیان کی تھی اس کا تعلق آپ کے دیئے گئے اقتباس سے مکمل طورپر نہیں تھا ویسے آپ نے مذکورہ اقبتاس کا صحیح ترجمہ بھی نہیں کیاہے۔ اس پر بھی انشاء اللہ ہم آخر میں بات کریں گےاوربتائیں گے کہ آپ نے کیاسمجھا اورحضرت ابن تیمیہ کی منشاء کیاہے؟لیکن یہاں جو اقتباس پیش کیا گیا ہے اس کا تعلق کسی مناظرہ سے نہیں ہے ۔
یہ دورکی کوڑی ہے ماشاء اللہ۔رجال پر نقد کرنا بذات خود ایک شرعی امر ہے یانہیں۔ کفایت اللہ صاحب واضح کریں۔ اگرشرعی امر ہےہے توہمارامدعاثابت ہے اوراگرغیرشرعی امر ہے تومحدثین کرام ا غیرشرعی امر کے پیچھے کیوں پڑے رہے۔ویسے ابن حزم کو ہی دیکھ لیں کہ شری مسائل حلال وحرام کے بیان میں بھی وہ تشدد سے کام لیتے ہیں یانہیں؟دورکی کوڑی مت لائے ، رجال پر نقد کرنا اور شرعی مسائل بیان کرنا دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ، اوراگرنہیں ہے تو بتلائیے کہ جن ناقدین کو متشددین کی فہرست میں شمارکیا گیا ہے کہ وہ شرعی مسائل مثلا حلال وحرام کے بیان میں بھی تشدد سے کام لیتے تھے؟؟
اسی طرح ان لوگوں کی بھی باتیں رد کردی جاتی ہیں جن کے بارے میں معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے دلائل سے زیادہ زوربیان سے کام لیاہے اوردلائل پر نظریات رکھنے کے بجائے اپنے نظریات کو دلائل پر تھوپنے کی کوشش کی ہے۔بالکل اجازت نہیں ہے اسی لئے تو تشدد کے سبب جو نقد ہوتا ہے اسے رد کردیاجاتاہے۔
آپ کے اپنے قول کے مطابق نقد رجال میں تشدد جائز نہیں ہے اس کے باوجود بعض محدثین نے تشدد سے کام لیاہے ۔تویہ تشدد سے کام لینا ان کا دانستہ تھا یانادانستہ تھا۔اگردانستہ تھا تواس کا مطلب یہ ہواکہ انہوں نے جان بوجھ کر ناجائز کام کیااوراگرطبعیت کی حدت وشدت کی وجہ سے نادانستہ ہواتویہی نادانستگی دیگر شرعی مسائل کے بیان میں کیوں نہیں ہوسکتی ؟کیااللہ تبارک وتعالیٰ نے کوئی نص اس بارے میں نازل کی ہے کہ نقد رجال میں تو نادانستگی ہوگی لیکن شرعی مسائل کے بیان میں یہ نادانستگی آڑے نہیں آئے گی۔حدیث (نقدرجال)میں تشدد جائز ہے یہ ہم نے کب کہا ؟ یقینا اس میں بھی تشدد جائز نہیں اسی لئے تو متشددین کی جوجرحین تشدد کے نتیجہ میں صادر ہوتی ہیں انہیں رد کردیاجاتاہے۔یادرہے کہ تشدد سے متصف جارحین کی ہرجرح رد نہیں کی جاتی ہے بلکہ خاص وہ جرح رد ہوتی ہے جس کے بارے میں قرائن سے معلوم ہوجائے کہ یہ تشدد کے نتیجہ میں صادر ہوئی ہے۔
یاتوآپ نے خود منہاج السنۃ کا مطالعہ نہیں کیاہے یاپھر قارئیں کو مغالطہ دے رہے ہیں۔الزام کا جومفہوم ہم نے لیاہے وہی مفہوم درست ہے اوراسی اعتبار سے ابن حجر نے یہ کہاہے کہ بسااوقات وہ رافضی کی تردید مین حضرت علی کی تنقیص تک جاپہنچے۔اگر الزام کا وہ مفہوم ہوتاجوآپ بیان کرناچاہ رہے ہیں توابن حجر کی یہ بات قطعاغلط ہوتیجوبات آپ سمجھ رہے ہین۔الزاما کا آپ نے غلط مفہوم لے لیا ہے ، الزاما کا یہ مفہوم نہیں کہ ان کی گالیوں کا جوب گالیوں سے دیا جائے بلکہ اس کامفہوم یہ ہے کہ فریق ثانی کے مسلم اصولوں کی روشنی میں بات کی جائے ۔مثلا شیعہ حضرات شیخین رضی اللہ عنہما پر اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین میں تاخیر کی ، اب تحقیقی جواب کے ساتھ ساتھ الزاما اہل سنت کی طرف سے یہ جواب دیا جاسکتا ہے ، کہ اگرشیخین نے تاخیر کی تو علی رضی اللہ عنہ سے تاخیر کیسے ہوگئی ، کفن دفن کی ذمہ داری سب سے پہلے قریبی لوگوں ہی پر عائد ہوتی ہے ، پھر علی رضی اللہ عنہ کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ؟؟؟اس طرح کے الزامی جوابات مراد ہیں نہ کہ وہ جو آپ نے سمجھ رکھا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ بیشتر جگہوں پر انہوں نے اچھی باتیں اوراچھے الزامی جوابات دیئے ہیں لیکن بعض مواقع ایسے ہیں جہاں پر ان سے متفق ہونامشکل ہے کہ یہ الزامی جوابات ہیں بلکہ بادی النظر مین حضرت علی کی تنقیص معلوم ہوتی ہے۔اگرآپ کہیں گے تو ہم ان مقامات کی نشاندہی بھی کردیں گے تاکہ قارئین کو مزید آگاہی ہوسکے۔
شیعت کا یہ الزام بھی حافظ ابن حجر کے ہی سرجائے گا۔ کیونکہ یہ بات انہی کی ہے۔اس کے باجود بھی اس طرح کے الزامی جوابات کو بنیاد بناکر علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کا الزام لگانا شیعیت ہی کا نمونہ ہے۔
آپ کو الفاظ کے مدلولات اوران کے معانی کا شاید پتہ نہیں ہے ۔یہ بات کسی نے بھی نہیں کی ہے نہ حافظ ابن حجر نے اورنہ ہی میں نے اورنہ ہی کسی دوسرے نے کہ ابن تیمیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کی ہے۔انہوں نے یہی کہاہے کہ وہ رافضی کی تردید کرتے کرتے حضرت علی کی تنقیص تک جاپہنچے۔وعلي أفضل ممن هو أفضل من معاوية - رضي الله عنه -، فالسابقون الأولون الذين بايعوا تحت الشجرة كلهم أفضل من الذين أسلموا عام الفتح، وفي هؤلاء خلق كثير أفضل من معاوية، وأهل الشجرة أفضل من هؤلاء كلهم، وعلي أفضل جمهور الذين بايعوا تحت الشجرة، بل هو أفضل منهم كلهم إلا الثلاثة، فليس في أهل السنة من يقدم عليه أحدا غير الثلاثة، بل يفضلونه على جمهور أهل بدر وأهل بيعة الرضوان، وعلى السابقين الأولين من المهاجرين والأنصار. [منهاج السنة النبوية (4/ 396)]۔
نیزاسی کتاب میں فرماتے ہیں:
فضل علي وولايته لله وعلو منزلته عند الله معلوم ، ولله الحمد، من طرق ثابتة أفادتنا العلم اليقيني، لا يحتاج معها إلى كذب ولا إلى ما لا يعلم صدقه[منهاج السنة النبوية (8/ 165)]۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ان تصریحات کے ہوئے ہوئے کیا یہ سوچا جاسکتاہے کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کی نقیص کریں گے۔قابل غوربات یہ بھی ہے کہ امام ذھبی رحمہ اللہ نے اپنے استاذ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اسی کتاب کی تلخیص کی مگر ان انہوں نے بھی ان تیمیہ رحمہ اللہ پر ایسا کوئی الزام نہیں لگایاہے۔ہم جمشید صاحب سمیت ان کی پوری پارٹی سے گذارش کرتے ہیں کہ اگر امام ابن تیمہ رحمہ اللہ کی کوئی ایک عبارت پیش کریں جس میں علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کی گئی ہو۔
دوباتیں ہیں کہ ایک ہے تنقیص کرنا۔اوردوسراہے تنقیص تک پہنچنا۔دونوں میں بہت فرق ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے گڈمڈ اورخلط ملط نہ کریں۔اگرکوئی شخص منہاج السنۃ کو غیرجانبداری سے پڑھے گا تویقینابعض مقامات اس کو ایسے پیش آئیں گے جہاں پر وہ ٹھٹکے گا اورسوچے کہ کہ جواب اس کے علاوہ بھی ہوسکتاتھایعنی امام شافعی کے الفاظ میں اس سے بہتر طورپر جواب دیاجاسکتاتھا ۔وجہ کیاہے کہ بات وہی ہے کہ چونکہ ان کی کتاب کا طرز یہ ہے کہ وہ شیعہ حضرات کے حضرات شیخین اورحضرت عثمان غنی پر الزام کے تعلق سے یہ کرتے ہیں کہ وہ الزامات حضرت علی کے تعلق سے بھی پیش کرتے ہیں اورپھرکہتے ہیں کہ اگران کے باوجود بھی حضرت علی ایسے ایسے ہوسکتے ہیں تویہ حضرات ان سے بدرجہااس کے مسحق ہیں۔اسی الزام جواب مین وہ بعض باتیں ایسی کہہ جاتے ہیں کہ اگر وہی باتیں ہم ابن تیمیہ کے تعلق سے لکھیں توپڑھنے والوں کو برامحسوس ہوگا۔