• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے مزاج میں شدت تھی ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
ازجمشید صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخر میں لکھنوی صاحب ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے خلاف اس شعلہ بیانی کے بعد اس کا مقصد بتلاتے ہوئے واضح طور پرلکھتے ہیں:
فنقول لما ثبت ان ابن تیمیہ موصوف بخفة العقل وبالتجاوز عن جد التوسط الذي يختاره اهل النقل لاسيما في رد منهاج الكرامة المسمى بمنهاج السنة فهل يعتبر قوله في باب الطحاوي انه ليست عاته نقد الحديث كنقد اهل العم ولم تكن له معرفة بالاسانيد كمعرعفة اهل العلم كلا والله لايقبل قوفه في حفه لما علم من تشدده وتجاوز عن حده كما لا يقبل قوله في حق اكاب الصوفيه الصافية واعظم الايمة الراضيه الواقع منه تشدد او تفنتا [إمام الكلام في القراءة خلف الإمام 3/ 14]۔
یہ صحیح ہے کہ حضرت لکھنوی کے اس کلام میں تھوڑاتشدد موجود ہے لیکن اس کو سازش سے تعبیر کرنا کفایت اللہ صاحب کی اپنی ذہنی اپج ہے وہ یہ بتائیں کہ اس سے سازش کا ثبوت کہاں سے مل رہاہے۔ اسے سازش وہی مان سکے گا جوتنقید میں تجاوز اورافراط اورسازش کے فرق سے ناواقف ہوگا۔
ویسے یہ اگرسازش ہے توحضرت ابن تیمیہ نے جو تلخ وتند تنقیدات اشاعرہ پر کئے ہیں ان کو سازش کیوں نہ ماناجائے ۔اس لحاظ سے سازشیوں کی فہرست میں ابن تیمیہ کابھی نام شامل ہوگا۔ ان کی تلخ تنقیدات کی صرف ایک مثال پیش کرتاہوں۔
ومن رزقه الله معرفة ما جاءت به الرسل وبصرًا نافذًا وعرف حقيقة مأخذ هؤلاء، علم قطعًا أنهم يلحدون في أسمائه وآياته، وأنهم كذبوا بالرسل وبالكتاب وبما أرسل به رسله؛ ولهذا كانوا يقولون: إن البدع مشتقة من الكفر وآيلة إليه، ويقولون: إن المعتزلة مخانيث الفلاسفة، والأشعرية مخانيث المعتزلة.
(الرسالۃ المدنیۃ فی تحقیق المجاز الحقیقۃ فی صفات اللہ1/6)
اگرخود حضرت ابن تیمیہ اوران کے متعبین کو کسی دوسرے اعتبار سے مخانیث کہاجائے توشاید یہ بزرگان الزام لگائیں گے کہ تہذیب نہیں ہے اوربات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے لیکن دیکھئے اشاعرہ کے بارے میں خود حضرت ابن تیمیہ نے کیافرمایا ہے۔
یہ بیان ابن تیمیہ نے صرف ایک جگہ نہیں ہے بلکہ اپنی مختلف کتابوں میں متعدد باراس بیان کو دوہرایاہے۔اب چاہے اسے ابن تیمیہ نے ذکرکیاہو یاکسی دوسرے نے ۔یہ بہرحال قابل کراہت بیان ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن تیمیہ کے باب میں امام سخاوی اورصفدی نے کہاہے کہ مخالفین پر تشنیع کرنے میں وہ ابن حزم کی طرح ہیں۔

ملتقی اہل الحدیث فورم پر ایک صاحب نے بڑی کوشش کی ہے کہ اس مخانیث والے بیان کی تاویل وتوجیہ کرکے اسے قابل قبول بنایاجائے لیکن یہ ساری تاویلیں اسی وقت ہواہوجائیں گی جب موصوف سے پوچھاجائے کہ اگرکسی اعتبار سے موصوف کو ہی مخانیث کہاجائے یااہل حدیث حضرات کو ہی مخانیث قراردیاجائے تو درست ہوگا؟

جمشید صاحب کے اس جملے سے لگتاہے کہ موصوف نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو جومتشدد بتلایا ہے ، وہ ان کا اپنا اجتہاد ہے جو ان کے مطالعہ کا نتیجہ ہے ، بلکہ دوسری جگہ پر جمشید صاحب نے اس کی صراحت بھی کردی ہے لکھتے ہیں:لیکن بعض قرائن کی بنا پر ہمیں اس پر یقین کرنے میں تامل ہورہا ہے ، اور اس کے برعکس ہمیں یہی لگ رہا ہے کہ آن جناب کی مذکورہ رائے ان کے اجتہاد اور مطالعہ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس سلسلےمیں موصوف اپنے اسلاف کی تقلید کررہے ہیں۔
کفایت اللہ صاحب نے "امام ابوحنیفہ حافظ ذہبی کی نگاہ میں"والے تھریڈ میں اس پر بحث کی ہے کہ امام ابوحنیفہ کے تعلق سے جو ابن معین کے توثیقی کلمات ہیں وہ توثیق لغوی ہیں نہ کہ توثیق اصطلاحی۔
کفایت اللہ صاحب نے وہاں پر کوئی حوالہ نہیں دیا کہ انہوں نے یہ بات کس سے اخذ کی ہے جب کہ یہی بات قبل ازیں مقبل الوادعی اپنی رسوائے زمانہ کتاب نشرالصحیفہ میں اورالبانی سلسلۃ الاحادیث الصحیفہ میں ذکر کرچکے ہیں ۔
یہ کہنامشکل نہیں ہے کہ کفایت اللہ کی اس تحقیق کا مصدر کیاتھالیکن ان چیزوں کے پیچھے پڑنا اپنی صلاحیت اوروقت کو ضائع کرناہے۔اگرکفایت اللہ صاحب نہ مانیں کہ وہ میری تحقیق ہے توانہیں کوئی مجبورتونہیں کرسکتا۔جیسے کہ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ غیرمقلدین صرف نام کے غیرمقلدین ہیں ورنہ وہ اندر سے پورے طورپر مقلد ہیں بلکہ مقلدین سے بھی زیادہ مقلد ہیں اوراسی کے ساتھ کمال درجہ کا تعصب بھی ان میں موجود ہے جیساکہ نواب صدیق حسن خان نے بیان کیاہے۔
بخدا یہ امر انتہائی تعجب وتحیر کا باعث ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو خالص موحد گرادنتے ہیں اوراپنے ماسواسب مسلمانوں کو مشرک بدعتی قراردیتے ہیں حالانکہ یہ خود انتہائی متعصب اوردین مین غلو کرنے والے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مقصود یہ ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کادیکھنا آنکھوں کی چبھن اورگلوں کی گھٹن،جانوں کے کرب اوردکھ، روحوں کے بخار،سینوں کے غم اوردلوں کی بیماری کا باعث ہے ۔اگرتم ان سے انصاف کی بات کرو توان کی طبعیتیں انصاف قبول نہیں کریں گی۔
الحطۃ فی ذکر الصحاح الستہ 154/155

اسی چیز کا اعتراف نواب وحیدالزمان لکھنوی ثم حیدرآبادی نے کیاہے ۔یہ ان کی اس وقت کی بات ہے جب وہ خود اہل حدیث تھے شیعہ نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
اہل حدیث گو امام ابوحنیفہ اورامام شافعی کی تقلید کو حرام کہتے ہیں لیکن ابن تیمیہ، ابن قیم،شوکانی اورنواب صدیق حسن خان کی اندھادھند تقلید کرتے ہیں(التوحید والسنۃ293)
ویسے کمال درجہ کی بات تویہ ہے کہ موصوف نے چند نقول پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ میری ذاتی رائے نہیں ہوسکتی میراخیال ہے کہ کوئی ایساہی اگرحضرت ابن تیمیہ کے ساتھ کرنے لگے کہ انہوں نے جن احادیث وآثار کے ساتھ استدلال کیاہے ان کو دوسرے متقدم علماء کے کتابوں میں تلاش کرکے بیان کردے پھر کہے کہ یہ ان کی تحقیق نہیں ہوسکتی بلکہ انہوں نے اپنے سے متقدم علماء کی تقلید کی ہے توکفایت اللہ صاحب کیاجواب دیں گے؟

اگر کسی بحث میں نقول پیش کرکے یہ ثابت کیاجائے کہ چونکہ قبل ازیں دوسرے افراد بھی یہی نقوپیش کرکے اپناموقف ثابت کرچکے ہیں لہذا آپ نے بھی وہی نقول پیش کئے ہیں لہذا یہ آپ کی تحقیق نہیں ہوسکتی اس اعتبار سے توحضرت امام ابن تیمیہ کابھی مجتہد ہونا مشکوک ہوجائے گا۔
کچھ بھی لکھنے سے قبل ذراسوچیں کہ کیالکھ رہے ہیں اوراس کی زد میں کہیں آپ کے ممدوح خود تونہیں آرہے ہیں۔

شرعی مسائل پر ان کی تحریروں کو پرشدت بتلانا ، تنقیص علی تک کا الزام لگانا ، یہ معیوب اوصاف سے متصف کرنا نہیں ہے؟؟؟
یہ عجیب وغریب دوہرامعیار ہے کہ موصوف اپنے ضال ومضل کے قول شنیع کیلئے توفوراکہہ اٹھتے ہین کہ یہ میری بات نہیں سفیان ثوری کی بات ہے توان کی تحریروں میں شدت،تنقیص علی کا الزام کیایہ سب میری باتیں ہیں ۔اول الذکر بات کئی علماء ذہبی، صفدی ،سخاوی وغیرہ سے ثابت ہے۔ ثانیاالذکر الزام خود حافظ ابن حجر نے لگایاہے اور اس سلسلے میں دوسرے علماء کے اقوال نقل کئے ہیں۔
اگرآپ یہ سمجھتے ہیں کہ سفیان ثوری نے کچھ کہہ دیاہے تو اسے دوہراسکتے ہیں تومیرایہ حق ابن تیمیہ کے سلسلے میں کیوں نہیں ہے کہ علماء نے جوکچھ کہاہے میں اس کو دوہراؤں؟
صرف طبیعت میں نہیں بلکہ شرعی مسائل پر مبنی ان کی تحریروں میں بھی آنجناب حدت وشدت کی بات کررہے ہیں، جیساکہ آپ کے اگلے جملے میں بھی ہے۔اگرنسبتااعتدال وتوازن کی کمی ہے تو نسبتایہ معیوب بات بھی ہے ۔
طبعیت کی حدت وشدت کااثر تحریر پرہوتاہے اس سے انکار وہی شخص کرے گا جو کہ نفسیات کے مبادی تک سے ناواقف ہو۔جس کی طبعیت میں حدت وشدت ہوگی اس کی تحریر میں بھی اس کا اثرنظرآئے گا۔ جس کے مزاج میں لینت ونرمی ہوگی اس کابھی عکس اس کی تحریروں میں نظرآئے گا۔
آپ نسبتاکا شاید مفہوم نہیں سمجھتے اس لئے اس کو معیوب کہہ رہے ہیں۔
میراکہنایہ ہے کہ تحریرمیں جو اعتدال وتوازن ابن عبدالبر،امام نووی وغیرہ کے یہاں ہیں وہ حضرت ابن تیمیہ کے یہاں نہیں ہے۔یہ نسبتا اس وقت ہے جب ہم ان کی تحریر کا تقابل کریں۔جب ہم ان کا تقابل ان سے زیادہ گہرے اورسنجیدہ علماء کی تحریروں سے کریں گے تب یہ فرق دکھائی پڑے گاکہ ان کے یہاں وہ اعتدال وتوازن نہیں ہے جو دیگر کے یہاں ہے ۔میرایہ کہنانہیں ہے کہ ان کی تحریریں بالکلیہ اعتدال اورتوازن سے خالی ہیں۔اس فرق کو نگاہ میں رکھیں۔
لیکن یہاں جو اقتباس پیش کیا گیا ہے اس کا تعلق کسی مناظرہ سے نہیں ہے ۔
میں نے عمومی طورپر ایک بات بیان کی تھی اس کا تعلق آپ کے دیئے گئے اقتباس سے مکمل طورپر نہیں تھا ویسے آپ نے مذکورہ اقبتاس کا صحیح ترجمہ بھی نہیں کیاہے۔ اس پر بھی انشاء اللہ ہم آخر میں بات کریں گےاوربتائیں گے کہ آپ نے کیاسمجھا اورحضرت ابن تیمیہ کی منشاء کیاہے؟
دورکی کوڑی مت لائے ، رجال پر نقد کرنا اور شرعی مسائل بیان کرنا دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ، اوراگرنہیں ہے تو بتلائیے کہ جن ناقدین کو متشددین کی فہرست میں شمارکیا گیا ہے کہ وہ شرعی مسائل مثلا حلال وحرام کے بیان میں بھی تشدد سے کام لیتے تھے؟؟
یہ دورکی کوڑی ہے ماشاء اللہ۔رجال پر نقد کرنا بذات خود ایک شرعی امر ہے یانہیں۔ کفایت اللہ صاحب واضح کریں۔ اگرشرعی امر ہےہے توہمارامدعاثابت ہے اوراگرغیرشرعی امر ہے تومحدثین کرام ا غیرشرعی امر کے پیچھے کیوں پڑے رہے۔ویسے ابن حزم کو ہی دیکھ لیں کہ شری مسائل حلال وحرام کے بیان میں بھی وہ تشدد سے کام لیتے ہیں یانہیں؟
بالکل اجازت نہیں ہے اسی لئے تو تشدد کے سبب جو نقد ہوتا ہے اسے رد کردیاجاتاہے۔
اسی طرح ان لوگوں کی بھی باتیں رد کردی جاتی ہیں جن کے بارے میں معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے دلائل سے زیادہ زوربیان سے کام لیاہے اوردلائل پر نظریات رکھنے کے بجائے اپنے نظریات کو دلائل پر تھوپنے کی کوشش کی ہے۔
حدیث (نقدرجال)میں تشدد جائز ہے یہ ہم نے کب کہا ؟ یقینا اس میں بھی تشدد جائز نہیں اسی لئے تو متشددین کی جوجرحین تشدد کے نتیجہ میں صادر ہوتی ہیں انہیں رد کردیاجاتاہے۔یادرہے کہ تشدد سے متصف جارحین کی ہرجرح رد نہیں کی جاتی ہے بلکہ خاص وہ جرح رد ہوتی ہے جس کے بارے میں قرائن سے معلوم ہوجائے کہ یہ تشدد کے نتیجہ میں صادر ہوئی ہے۔
آپ کے اپنے قول کے مطابق نقد رجال میں تشدد جائز نہیں ہے اس کے باوجود بعض محدثین نے تشدد سے کام لیاہے ۔تویہ تشدد سے کام لینا ان کا دانستہ تھا یانادانستہ تھا۔اگردانستہ تھا تواس کا مطلب یہ ہواکہ انہوں نے جان بوجھ کر ناجائز کام کیااوراگرطبعیت کی حدت وشدت کی وجہ سے نادانستہ ہواتویہی نادانستگی دیگر شرعی مسائل کے بیان میں کیوں نہیں ہوسکتی ؟کیااللہ تبارک وتعالیٰ نے کوئی نص اس بارے میں نازل کی ہے کہ نقد رجال میں تو نادانستگی ہوگی لیکن شرعی مسائل کے بیان میں یہ نادانستگی آڑے نہیں آئے گی۔

الزاما کا آپ نے غلط مفہوم لے لیا ہے ، الزاما کا یہ مفہوم نہیں کہ ان کی گالیوں کا جوب گالیوں سے دیا جائے بلکہ اس کامفہوم یہ ہے کہ فریق ثانی کے مسلم اصولوں کی روشنی میں بات کی جائے ۔مثلا شیعہ حضرات شیخین رضی اللہ عنہما پر اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین میں تاخیر کی ، اب تحقیقی جواب کے ساتھ ساتھ الزاما اہل سنت کی طرف سے یہ جواب دیا جاسکتا ہے ، کہ اگرشیخین نے تاخیر کی تو علی رضی اللہ عنہ سے تاخیر کیسے ہوگئی ، کفن دفن کی ذمہ داری سب سے پہلے قریبی لوگوں ہی پر عائد ہوتی ہے ، پھر علی رضی اللہ عنہ کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ؟؟؟اس طرح کے الزامی جوابات مراد ہیں نہ کہ وہ جو آپ نے سمجھ رکھا ہے۔
یاتوآپ نے خود منہاج السنۃ کا مطالعہ نہیں کیاہے یاپھر قارئیں کو مغالطہ دے رہے ہیں۔الزام کا جومفہوم ہم نے لیاہے وہی مفہوم درست ہے اوراسی اعتبار سے ابن حجر نے یہ کہاہے کہ بسااوقات وہ رافضی کی تردید مین حضرت علی کی تنقیص تک جاپہنچے۔اگر الزام کا وہ مفہوم ہوتاجوآپ بیان کرناچاہ رہے ہیں توابن حجر کی یہ بات قطعاغلط ہوتیجوبات آپ سمجھ رہے ہین۔
اس میں شک نہیں کہ بیشتر جگہوں پر انہوں نے اچھی باتیں اوراچھے الزامی جوابات دیئے ہیں لیکن بعض مواقع ایسے ہیں جہاں پر ان سے متفق ہونامشکل ہے کہ یہ الزامی جوابات ہیں بلکہ بادی النظر مین حضرت علی کی تنقیص معلوم ہوتی ہے۔اگرآپ کہیں گے تو ہم ان مقامات کی نشاندہی بھی کردیں گے تاکہ قارئین کو مزید آگاہی ہوسکے۔
اس کے باجود بھی اس طرح کے الزامی جوابات کو بنیاد بناکر علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کا الزام لگانا شیعیت ہی کا نمونہ ہے۔
شیعت کا یہ الزام بھی حافظ ابن حجر کے ہی سرجائے گا۔ کیونکہ یہ بات انہی کی ہے۔
وعلي أفضل ممن هو أفضل من معاوية - رضي الله عنه -، فالسابقون الأولون الذين بايعوا تحت الشجرة كلهم أفضل من الذين أسلموا عام الفتح، وفي هؤلاء خلق كثير أفضل من معاوية، وأهل الشجرة أفضل من هؤلاء كلهم، وعلي أفضل جمهور الذين بايعوا تحت الشجرة، بل هو أفضل منهم كلهم إلا الثلاثة، فليس في أهل السنة من يقدم عليه أحدا غير الثلاثة، بل يفضلونه على جمهور أهل بدر وأهل بيعة الرضوان، وعلى السابقين الأولين من المهاجرين والأنصار. [منهاج السنة النبوية (4/ 396)]۔
نیزاسی کتاب میں فرماتے ہیں:
فضل علي وولايته لله وعلو منزلته عند الله معلوم ، ولله الحمد، من طرق ثابتة أفادتنا العلم اليقيني، لا يحتاج معها إلى كذب ولا إلى ما لا يعلم صدقه[منهاج السنة النبوية (8/ 165)]۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ان تصریحات کے ہوئے ہوئے کیا یہ سوچا جاسکتاہے کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کی نقیص کریں گے۔قابل غوربات یہ بھی ہے کہ امام ذھبی رحمہ اللہ نے اپنے استاذ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اسی کتاب کی تلخیص کی مگر ان انہوں نے بھی ان تیمیہ رحمہ اللہ پر ایسا کوئی الزام نہیں لگایاہے۔ہم جمشید صاحب سمیت ان کی پوری پارٹی سے گذارش کرتے ہیں کہ اگر امام ابن تیمہ رحمہ اللہ کی کوئی ایک عبارت پیش کریں جس میں علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کی گئی ہو۔
آپ کو الفاظ کے مدلولات اوران کے معانی کا شاید پتہ نہیں ہے ۔یہ بات کسی نے بھی نہیں کی ہے نہ حافظ ابن حجر نے اورنہ ہی میں نے اورنہ ہی کسی دوسرے نے کہ ابن تیمیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کی ہے۔انہوں نے یہی کہاہے کہ وہ رافضی کی تردید کرتے کرتے حضرت علی کی تنقیص تک جاپہنچے۔
دوباتیں ہیں کہ ایک ہے تنقیص کرنا۔اوردوسراہے تنقیص تک پہنچنا۔دونوں میں بہت فرق ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے گڈمڈ اورخلط ملط نہ کریں۔اگرکوئی شخص منہاج السنۃ کو غیرجانبداری سے پڑھے گا تویقینابعض مقامات اس کو ایسے پیش آئیں گے جہاں پر وہ ٹھٹکے گا اورسوچے کہ کہ جواب اس کے علاوہ بھی ہوسکتاتھایعنی امام شافعی کے الفاظ میں اس سے بہتر طورپر جواب دیاجاسکتاتھا ۔وجہ کیاہے کہ بات وہی ہے کہ چونکہ ان کی کتاب کا طرز یہ ہے کہ وہ شیعہ حضرات کے حضرات شیخین اورحضرت عثمان غنی پر الزام کے تعلق سے یہ کرتے ہیں کہ وہ الزامات حضرت علی کے تعلق سے بھی پیش کرتے ہیں اورپھرکہتے ہیں کہ اگران کے باوجود بھی حضرت علی ایسے ایسے ہوسکتے ہیں تویہ حضرات ان سے بدرجہااس کے مسحق ہیں۔اسی الزام جواب مین وہ بعض باتیں ایسی کہہ جاتے ہیں کہ اگر وہی باتیں ہم ابن تیمیہ کے تعلق سے لکھیں توپڑھنے والوں کو برامحسوس ہوگا۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
از:جمشید صاحب
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تغلیط کاالزام​
اس تعلق سے کفایت اللہ صاحب نے حضرت علیؓ کے کچھ فتاوی اورآثار پیش کئے ہیں۔ضروری ہے کہ ان کاجائزہ لے کر دیکھاجائے کہ یہ کس حد تک عقل اورعلم کی میزان پرپورے اترتے ہیں۔
مذکورہ اقتباس میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی غلطی بیان کی ، اول تو اس کا کوئی حوالہ نہیں ، دوم یہاں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ غلطی بیان کرنے سے کیا مراد ہے؟؟؟ کیا اجتہادی غلطی کی طرف اشارہ ہے ؟؟؟
اگر ایسا ہی ہے تو بتلائے کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اجتہادی غلطیاں نہیں ہوئی ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟
اگر نہیں تو ذیل میں علی رضی اللہ عنہ کے کچھ فتاوے و اعمال درج کئے جاتے ہیں اس بارے وضاحت کریں کہ احناف نظر میں یہ درست ہیں یا نہیں ؟؟؟
اگر درست ہیں تو احناف کے یہاں یہ قابل قبول کیونکہ نہیں اوردرست نہیں ہیں ؟؟ تو احناف کو یہ حق کہاں سےملا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کی تغلیط کریں:
یہ کفایت اللہ صاحب کی تحریر ہے۔ماقبل میں وضاحت ہوچکی ہے کہ کسی قول کو نہ ماننااورکسی قول کی تغلیط کرنا دونوں میں بہت فرق ہے۔صحابہ کرام کے اقوال کے تعلق سے عمومی طورپر علماء ومجتہدین کایہ طرزعمل رہاہے کہ انہوں نے اپنے ذوق اجتہاد اورعلم وفکر کی گہرائی وگیرائی کے اعتبار سے کسی قول کو اختیار کیا لیکن دوسراقول جس کو انہوں نے چھوڑااس کی تغلیط نہیں کی کہ فلاں صحابی نے غلطی کی ہے۔
آپ کہیں گے کہ کسی صحابی کے قول کونہ مانناصرف اس لئے ہی توہوتاہے کہ ان کی نگاہ میں وہ چیز غلط تھی درست نہ تھی اور ہم بھی تووہی بات کہہ رہے ہیں جوہری اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔جواب میں عرض کریں گے کہ فرق مراتب بھی کوئی چیز ہوتی ہے اورحفظ ادب بھی منجانب اللہ خداکاعطاکردہ سلیقہ ہے۔
مثلاًکوئی چھوٹالڑکااپنی دادی کو دادی کہہ کربلائے تودادی خوش ہوگی اورپیار بھی کرے گی لیکن وہی لڑکااگردادی کے بجائے داداکی بیوی کہہ کرپکارنے لگے توکیادادی خوش ہوگی یااس کی سرزنش کرے گی۔اورصرف دادی پرہی منحصر نہیں خاندان کے دوسرے بزرگ افراد بھی اسکی سرزنش اورتادیب کریں گے۔حالانکہ جوہری اعتبار سے دادی اورداداکی بیوی میں کوئی فرق نہیں ہے۔علی ہذاالقیاس اس مثال کو دوسرےرشتوں تک وسیع کرسکتے ہیں۔
اس میں کفایت اللہ صاحب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تعلق سے جوآثار پیش کئے ہیں۔کچھ کی سند کمزور ہیں اورکچھ اقوال حضرت علی کے ایسے ہیں جن میں احناف بھی ان کے ہم زبان ہیں اوراصولی بات یہ کہ اگرکسی مسئلہ میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف ہو تو اس میں تخییر توہوسکتاہے لیکن تخطئہ درست نہیں ہے ۔آپ مختلف اقوال میں سے کسی ایک کو پسند توکرسکتے ہیں لیکن دوسرے اقوال والوں کو غلط کار قرارنہیں دے سکتے۔
یزید کی بحث میں کفایت اللہ صاحب نے جوکچھ فرمایاہے وہ توکمال ہے۔
اگرکوئی کہے کہ یہ فتنہ دور یزید میں تو ہوا ، تو عرض ہے کہ اس سے بڑے فتنے علی رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئے ، جنگ جمل اورجنگ صفین میں صحابہ کی بہت بڑی تعداد شہید ہوئی ، بلکہ علی رضی اللہ عنہ کے دور میں جس قدر صحابہ کرام کا خون بہا اتنا خون یزیدبن معاویہ رضی اللہ عنہ کے پورے دور میں نہیں بہا اوران فتنوں کی طرف اشارہ صرف صحیح ہی نہیں بلکہ صحیح ومرفوع روایات میں ہے ، تو کیا ان تمام صحابہ کے خون کی ذمہ داری علی رضی اللہ عنہ پرہوگی ۔
ہرگز نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری تو اس سازشی ٹولہ کے سر جاتی ہے جس نے صحابہ کے بیچ خونریز جنگ کرائی ۔
ناطقہ سربہ گریباں ہے اسے کیاکہئے
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیالکھئے
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اقوال وافعال سے امت کو اس کا علم ہوا کہ مسلمانوں کی وہ جماعت جو حاکم وقت کی بیعت نہ کرے اس سے کیساسلوک کیاجائے۔ اگرکوئی غلط فہمی سے بغاوت کرے تواس سے کیساسلوک کیاجائے۔آپس میں خانہ جنگی کادور ہو تو اس وقت خلیفہ کو کیاکرناچاہئے۔
یزید لعین(حضرت شاہ ولی اللہ نے بھی اسے لعین ہی لکھاہے)کے دورامارت سے امت کو کس چیز کا علم ہوا۔کفایت اللہ صاحب استفادہ فرمائیں۔ بہرحال اس پر گفتگو کیلئے الگ موقع ہے۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
یہ اقتباس جو اردو اورعربی عبارت پرمشتمل ہے دونوں کو ایک ساتھ دیکھیں تو ان میں درج ذیل الزمات ہیں :
1. ابن تیمہ رحمہ اللہ نے سترہ مسائل میں علی رضی اللہ عنہ کی غلطی بیان کی۔
2. علی رضی اللہ عنہ پر کتاب اللہ کی مخالفت کا الزام لگایا۔
3. خلیفہ دوم عمر فارق رضی اللہ کی بھی غلطی بیان کی ۔
4. مذہب حنابلہ سے تعصب رکھتے تھے۔
5. اوراس کے سبب اشاعرہ پر نکتہ چینی کیا کرتے تھے۔
6. امام غزالی کو برابھلا کہا جس کے سبب لوگ ان کے قتل کے در پے ہوگئے۔

ان سب کا مختصرجواب تو یہ ہے کہ یہ باتیں بے حوالہ ہیں اگر واقعی ایسا ہے تو آپ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتابوں سے ان باتوں کا ثبوت دیں ، یا کسی اورکتاب سے نقل کررہے ہیں تو ابن تیمیہ رحمہ اللہ تک اس کی صحیح سند بیان کریں۔
آپ نے آخر میں جو بات بیان کی ہے اسے یاد رکھئے گا۔ کہ ابن تیمیہ کے تعلق سے ان باتوں کا ثبوت دیں یاکسی کتاب سے نقل کیاجارہاہوتو ابن تیمیہ رحمہ اللہ تک اس کی صحیح سند بیان کریں۔انہی باتوں کو دوسرے پیرائے میں ہم دیگر مواقع پر پیش کریں گے۔
واضح رہے کہ جب امام ابوحنیفہ کی طرف منع تقلید یا اس جیسی کوئی بات منسوب کی جاتی ہے ہے تواحناف فورا مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کی صحیح سند پیش کرو ، مجھے یاد ہے کہ میں نے بہت پہلے بھی جمشدصاحب کے سامنے یہ بات رکھی تھی ، اوراس پر جمشید صاحب اس کا ثبوت مانگنے لگے ! میں نے ان کی خواہش کے مطابق ویڈیو کی شکل میں ثبوت بھی فراہم کردیا مگر جمشیدصاحب اس پر مطمئن نہ ہوئے تفصیل اس دھاگہ میں ملاحظہ فرمائیں۔
کمال یہ ہے کہ آپ تو منع تقلید کی بات امام ابوحنیفہ سے پیش کرتے ہیں اورثبوت مین ایک نہایت متاخرحنفی عالم کا حوالہ دیتے ہیں۔آپ نے اوپرمتصل ماقبل میں جوبات کہی ہے کہ ابن تیمیہ کی کتابوں سے ان باتوں کا ثبوت دیں یاابن تیمیہ تک اس کی سند صحیح بیان کریں تو منع تقلید کیلئے بھی توایسے ہی ثبوت کی ضرورت ہوگی نا۔یہ تونہیں ہوگاکہ آپ ابن تیمیہ کے تعلق سے کسی بات کیلئے تو ابن تیمیہ کی کتابوں یاابن تیمیہ تک سند صحیح کی مانگ کرین اورجب ہماری باری آئے تو ایک چودہویں صدی کے حنفی عالم کا حوالہ دے کر مطمئن ہوجائیں۔

انور شاہ کاشمیری جو ابن تیمیہ رحمہ اللہ پرتشدد کا الزام لگانے میں سرفہرست ہیں ، یہی بزرگ فرماتے ہیں:
واعلم أن نفي الزيادة والنقصان وإن اشتهر عن الإمام الأعظم، لكني متردد فيه بعد. وذلك لأني لم أجد عليه نقلاً صحيحاً صريحاً، وأما مانسب إليه في «الفقه الأكبر» فالمحدِّثون على أنه ليس من تصنيفه. بل من تصنيف تلميذه أبي مطيع البلخِي، وقد تكلم فيه الذهبي، وقال: أنه جَهْمِيٌّ. أقول: ليس كما قال، ولكنه ليس بحجةٍ في باب الحديث، لكونه غير ناقد. وقد رأيت عدة نُسخ للفقه الأكبر فوجدتُها كلها متغايرة. وهكذا «كتاب العالم والمتعلم» «والوسيطين» الصغير والكبير، كلها منسوبة إلى الإمام، لكن الصواب أنها ليست للإمام.[فيض البارى: (1/ 63)]۔
ت
رجمہ :اورجان لو کہ گرچہ امام اعظم (ابوحنیفہ ) سے ایمان میں کمی وزیادتی کی نفی مشہورہے لیکن مجھے اس میں تردد ہے ، اورایسا اس لئے کیونکہ میں نے اس سلسلے میں کوئی ایسا قول نہیں پایا جو صریح اور نقلا (سندا) صحیح ہو۔ اورجہاں تک امام صاحب کی طرف منسوب فقہ اکبر نامی کتاب کی بات ہےتو محدثین کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ کتاب امام ابوحنیفہ کی تصنیف نہیں ہے ، بلکہ ان کے شاگر ابومطیع البلخی کی تصنیف ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس پر جرح کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جہمی تھا ۔ میں کہتاہوں کہ یہ ایسا نہیں تھا لیکن حدیث کے باب میں یہ حجت نہیں ہے کیونکہ یہ غیر ناقد تھا ، نیز میں نے فقہ اکبر کے کئی نسخے دیکھے ہیں ، اور ہرایک کو ایک دوسرے سے مختلف پایا ہے ، یہی حال ’’کتاب العالم والمتعلم‘‘ اور ’’ الوسيطين‘‘ الصغير والكبير نامی کتابوں کا بھی ہے ، یہ ساری کتابیں امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب ہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابوحنیفہ کی کتابیں نہیں ہیں ۔
قارئین غور فرمائیں کہ شاہ صاحب نے یہ ماننے سے انکار کردیا کہ امام ابوحنیفہ نے ایمان میں کمی وزیادتی کی نفی کی ہے ، کیونکہ امام صاحب سے یہ قول بسندصحیح ثابت نہیں ہے اور فقہ اکبر میں ابوحنیفہ کے جو اقوال ہیں وہ بھی حجت نہیں کیونکہ ان کا ناقل ابومطیع البلخی ہے اور یہ مجروح ہے۔اس حوالے سے یہ بات صاف ہوگئی کہ جب تک امام ابوحنیفہ کی کوئی بات بسند صحیح منقول نہ ہو تب تک وہ بات امام ابوحنیفہ کی نہیں مانی جاسکتی ۔ہم بھی ابن تیمہ رحمہ اللہ سے متعلق اسی اصول کے تحت کہتے ہیں کہ جب تک امام ابن تیمیہ کی کوئی بات بسند صحیح منقول نہ ہو تب تک وہ بات امام ابن تیمہ کی نہیں مانی جاسکتی ۔
کلام میں غورنہ کرنے کی وجہ سے بہت ساری جگہ آپ ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جس پر تعجب ہوتاہے اورمزید تعجب اس لئے ہوتاہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ائمہ مجتہدین کے تقلید سے تودوربھاگتے ہیں اوراپنے فہم کو حجت گردانتے ہین لیکن اس صلاحیت سے عاری ہیں کہ کسی کی بات کو صحیح طورپرسمجھ سکیں۔
ایک چیز ہے سند صحیح
دوسری چیز ہے نقل صحیح​
دونوں میں فرق کیاہے؟سند صحیح کسے کہتے ہیں؟وہ توشاید سبھی کو معلوم ہوگالیکن نقل صحیح اسے کہتے ہیں جس کو کوئی مثبت اورعلم میں رسوخ کا حامل عالم اپنی کتاب میں کسی متقدم پورے حزم واحتیاط کے ساتھ ذکرکرے اگرچہ وہ سند ذکر نہ کرے لیکن اس کی یہ نقل "نقل صحیح "ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ زیر بحث مثال میں حضرت علامہ انورشاہ کشمیری نے حضرت ابن تیمیہ کی نقل پر اعتماد نہ کیا لیکن ابن عبدالبر کی نقل پر اعتماد کرلیاحالانکہ ابن عبدالبر بھی امام ابوحنیفہ سے کافی متاخر ہیں۔دیکھئے اسی تعلق سے حضرت علامہ انورشاہ کشمیری فرماتے ہیں۔
واعلم أن نفي الزيادة والنقصان وإن اشتهر عن الإمام الأعظم، لكني متردد فيه بعد. وذلك لأني لم أجد عليه نقلاً صحيحاً صريحاً، وأما مانسب إليه في «الفقه الأكبر» فالمحدِّثون على أنه ليس من تصنيفه. بل من تصنيف تلميذه أبي مطيع البلخِي، وقد تكلم فيه الذهبي، وقال: أنه جَهْمِيٌّ. أقول: ليس كما قال، ولكنه ليس بحجةٍ في باب الحديث، لكونه غير ناقد. وقد رأيت عدة نُسخ للفقه الأكبر فوجدتُها كلها متغايرة. وهكذا «كتاب العالم والمتعلم» «والوسيطين» الصغير والكبير، كلها منسوبة إلى الإمام، لكن الصواب أنها ليست للإمام
اما الحافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ فانہ وان نسب الزیادۃ والنقصان الی امامنارحمہ اللہ تعالیٰ لکن فی طبعہ سورۃ وحدۃ ،فاذا عطف الی جانب عطف ولایبالی واذا تصدی الی احد تصدی ولایحاشی ،ولایومن مثلہ من الافراط والتفریط فالتردد فی نقلہ لھذا،وان کان حافظا متبحرا۔ونقل فی شرح (عقیدۃ الطحاوی)بسند ابی مطیع البلخی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم مامعناہ ان الایمان لایزید ولاینقص،قال بن کثیر وفی اسنادہ کلیم مجروحون۔ورایت ھذاالحدیث فی المیزان فی ترجمۃ البلخی فاسقطہ الذہبی۔ثم رایت فی طبقات الحنفیہ تحت ابراہیم بن یوسف (تلمیذ ابی یوسف )واحمد بن عمران،انہماکانایقولان بزیادۃ الایمان ونقصانہ،مع کونہمامن کبارالحنفیۃ،فھذاایضا یعنی یریبنی،ولماانعدمت النقول الصحیحۃ عن الامام رضی اللہ عنہ،کدت ان انفی عنہ تلک النسبۃ غیرانی رایت ان اباعمروالمالکی نسبہ فی شرح الموطا الی شیخ امامنا حماد،وھومن المتقنین المثبتین فی باب النقل فلامناص من تسلیم ذلک۔
(فیض الباری 1/60)
یہ پوری عبارت بتارہی ہے کہ علامہ انورشاہ کشمیری کاموقف "نقل صحیح "کاہے نہ کہ "سند صحیح"کا۔
کفایت اللہ صاحب کو چاہئے کہ وہ اس فرق کوملحوظ رکھیں۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
تمہید:یہ تحریرجس کا رد کیاجارہاہے درحقیقت ماقبل کی ہے جہاں کفایت اللہ صاحب نے ابن تیمیہ کی جانب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پرکتاب اللہ کی مخالفت کادفاع کیاہے۔اس تعلق سے وہاں پر انہوں نے جوکچھ تحریر فرمایاہے۔ ذیل میں اس پر اپنانکتہ نظرپیش کیاجارہاہے۔مجھے افسوس ہے کہ تحریر میں تسلسل قائم نہیں رہ سکااورجواب کچھ آگے پیچھے ہوگیا لیکن کیاکیجئے
"اس طرح توہوتاہے اس طرح کے کاموں میں"


مذکورہ اقتباس میں بغیر کسی حوالہ اوربغیر کسی تفصیل کے یہ بھی کہا گیا کہ شیخ الاسلام نے علی رضی اللہ عنہ پر کتاب اللہ کی مخالفت کا الزام لگایا، لاحول ولاقوۃ الاباللہ۔
قارئین ! آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسی فورم پر ’’مام ابوحنیفہ کا فتویٰ بابت مدت رضاعت ‘‘ کے عنوان سے ایک ٹھریڈ شروع کیا گیا جس میں بتلایا گیا کہ ابوحنیفہ نے قران کی صریح مخالفت کی ہے ، اور قران کے خلاف ابوحنیفہ نے جو بات کہی ہے اس کی تائید میں کوئی صحیح تو درکنار ، ضعیف حتی کی موضوع روایت تک کا بھی وجود نہیں۔
اس ٹھریڈ میں محترم شاہد نذیر بھائی جزاہ ربی خیرا مسلسل دریافت کرتے رہے کہ امام ابوحنیفہ نے قران کے خلاف فتوی کیوں دیا؟ اس سلسلے میں ان کےپاس کیادلیل تھی لیکن دنیائے حنفیت کے کسی ایک شخص سے بھی یہ نہ ہوسکا کہ ابوحنیفہ کی دلیل دریافت کرسکے ، جس سے یہی نتیجہ سامنے آیا کہ امام ابوحنیفہ نے کتاب اللہ کی مخالفت کی ہے۔
شاہد نذیر صاحب جس قسم کے مجتہد ہیں وہ شاید آپ کوبھی معلوم ہے۔اس بحث کو کوئی بھی شخص غیرجانبداری سے پڑھے تواس کوپتہ چلے گاکہ جواب دے دیاگیاہے کسی کومزید جواب کی تلاش ہوتو وہ احکام القرآن للامام جصاص الرازی کی جانب رجوع کرے۔ وہاں بھی انہوں نے امام ابوحنیفہ کے موقف اورمستدل پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔
اب جس نے طے کرلیاہو کہ مجھے صرف اپنی کہنی ہے اورکسی کی نہیں سننی ہے بالکل اسی چودھری کی طرح جس نے دواوردوتین ہوتاہے پربھینس کی شرط باندھ لی اورجب اس کی بیوی نے کہاکہ تم توہارجاؤگے اوربھینس بھی ہاتھ سے جائے گی تواس نے کہاکہ میں ہارنہیں سکتاکیونکہ میں مانوں گاہی نہیں کہ دواوردوچارہوتے ہیں۔جب شاہد نذیر سے کہاجاتاہے کہ اگریہ کتاب اللہ کی مخالفت ہے تومان لو کہ حضرت ابن تیمیہ نے شادی نہ کرکے ارشاد رسول کی مخالفت کی ہے تواس کو بھی ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔اب جس کا ذہنی دائرہ اورافق اتناتنگ ہو تواس سے بحث ومباحثہ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
شاہد نذیر صاحب نے ابھی حال میں ایک تھریڈ لگایاہے جس کا عنوان ہے "آپ کاجوتا آپ کا سر"یہ عنوان ان کے لطافت ذوق کا منہ بولتاثبوت ہے ۔میراتوجی چاہاکہ اہل حدیث حضرات کے وہ اقوال جوامام ابوحنیفہ کی تعریف میں ہیں اور کچھ دیگر اہل حدیث حضرات جوامام ابوحنیفہ سے بغض رکھناعین ایمان سمجھتے ہیں دونوں کا تقابل کرکے بتاؤں کہ اب کس کاجوتا کس کے سرپر رہاہے۔اس میں سوچاکہ آنجناب کی گلفشانیاں بھی ذکر کردوں اور دیگر اہل حدیث علماء نے جوکچھ امام ابوحنیفہ کے تعلق سے کہاہے وہ بھی ذکر کردوں پھر شاہد نذیر کے عنوان والاسوال کروں ۔لیکن پھر یہ سوچ کر چھوڑدیا کہ خواہ مخواہ ایسے مباحث میں وقت ضائع کرنے سے کیافائدہ۔

لیکن جب جمشدصاحب نے یہ دیکھا کہ ہمارے امام پر کتاب اللہ کی مخالفت کا الزام لگ رہا ہے تو موصوف نے کسی اورکی نہیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی تحریریں سامنے رکھ دیں کہ ، اورشیخ الاسلام رحمہ اللہ کی کتاب ’’رفع الملام‘‘ سےاقتباسات پیش کئے جس کا ماحصل یہ تھا کہ کوئی بھی امام کتاب اللہ یا حدیث رسول کی مخالفت عمدا نہیں کرسکتا بلکہ اس اگر اس نے کتاب وسنت کے خلاف کوئی بات کہی ہے تو ضرور اس کے پاس کوئی نہ کوئی عذر رہا ہو گا ، شیخ لاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے اس قبیل کے تمام اعذار کو بڑی تفصیل سے اپنی اس کتاب میں بیان کیا ہے، قارئین ابن تیمہ رحمہ اللہ کی یہ کتاب پڑھ کر پوری تفصیل سے آگاہی حاصل کرسکتے ہیں۔
شیخ الاسلام کی تحریر سامنے رکھنے کا منشاء صرف یہ تھاکہ اہل حدیث حضرات کو عموماانہی کی باتیں اپیل کرتی ہیں بقیہ کو وہ چاہے علم وفضل میں کتنے ہی بڑھے ہوئے کیوں نہ ہو کہتے پھرتے ہیں فلاں عقائد میں بدعتی تھا فلاں یہ ہے فلاں وہ ہے کہہ کر چھوڑدیتے ہیں۔ورنہ اس تعلق سے ایسی تحریروں کی کمی نہیں ہے جس میں علماء کرام کے اعذار بیان کئے گئے ہیں۔ دورکیوں جائیں مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کی کتاب "الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف"کی عبارتیں پیش کی جاسکتی تھیں لیکن مناسب یہ رہتاہے کہ جس کو جس سے تشفی ہو انہی کے اقوال پیش کردیئے جائیں۔
اب ذراغورکریں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جن علی رضی اللہ عنہ کو شیخ الاسلام تمام صحابہ میں بجز خلفاء ثلاثہ ، سب سے افضل قراردیں ، جن کی فضیلت و ولایت کو یقینی بتلائیں !!! دوسری طرف انہیں علی رضی اللہ عنہ پرکتاب اللہ کی مخالفت کا الزام لگائیں ۔جبکہ ابوحنیفہ اوران جیسے ائمہ ، علی رضی اللہ عنہ تو دور کی بات کسی ادنی صحابی تک کے مقام پر نہیں ، حتی کہ تابعین کی فہرست میں بھی ان کا شمار نہیں ، لیکن ان کے تعلق سے یہ کہاجانا قطعا گوارا نہ کریں کہ انہوں نے کتاب وسنت کی مخالفت کی ، بلکہ ایسا کہنے والوں کو روکنے کے لئے پوری کتاب لکھ ڈالیں!!!!!!!!!!
لطف بالائے لطف تو یہ کہ جمشید صاحب کو یہ سب پتہ ہے بلکہ اگر کوئی ان کے امام ابوحنیفہ سے متعلق اس طرح کی کوئی بات کہے تو موصوف کسی اور کی نہیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی کی تحریریں پیش کرکے حسن ظن کی تعلیم دیتے ہیں ۔مگرافسوس کہ خود ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی کو اس حسن ظن کے قابل نہیں سمجھتے ۔اللہ ہدایت دے !!!!!
جوکوئی اس پورے مباحثہ میں حضرت ابن تیمیہ کے تعلق سے میرے اقوال اورحضرت امام ابوحنیفہ کے تعلق سے آپ کے اقوال کا مطالعہ کرے گا وہ خود یہ بات جان جائے گاکہ کون کس کے ساتھ حسن ظن رکھتاہے اورکون کس کے ساتھ حسن ظن نہیں رکھتاہے؟۔میں اسی تھریڈ میں کئی مرتبہ دوہراچکاہوں کہ حضرت ابن تیمیہ ساتویں صدی ہجری کے مجدد ہیں علوم اسلامیہ کے متبحر عالم ہیں اوردیگر باتیں ذکر کرچکاہوں۔ اس کے باوجود کہناکہ ہم ان کے ساتھ حسن ظن نہیں رکھتے ۔سوئے ظن ہے۔

ہاں اگرآپ کے تعلق سے کہاجائے کہ اپنے ممدوح کے ارشاد کے برخلاف امام ابوحنیفہ کے تعلق سے ناملائم اقوال فرماتے ہیں اوراپنے ممدوح کے اقوال کو جانوروں کے نجس اورپلید لید سے بھی بدتر قراردیتے ہیں تویہ بات سوفیصد درست ہوگی۔
ویسے ہمیں یہ اصلاًکوئی گلہ نہیں ہے کہ آپ امام ابوحنیفہ کے بارے میں کچھ الٹے سیدھے ماضی کے بیانات کو حال میں دوہراتے ہیں۔ اگراس کام میں "سکون قلب"ملتاہوتوشوق سے دوہراتے رہیں۔مشہور کہاوت ہے کہ ہرکسے رابہرکارے ساختند ۔لگتاہے کہ آپ کی ساخت اسی "عالی مقصد"کیلئے بنی ہے۔تواپنی ساخت کے مطابق کام کرتے رہیں۔

ویسے آپ جیسے حضرات کا وجود نہ صرف مغتنم ہے بلکہ ضروری ہے کیونکہ اگررات نہ ہوتودن کی قدرکسے ہوگی۔ اگرغربت نہ ہوتوامارت کسے اچھے لگے گی۔اگربرائی نہ ہوتونیکی کا فضل کیسے عیاں ہوگا۔اگرآپ جیسے کچھ"دریدہ دہن"نہ ہوں گے تو پھر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مرتبہ عالی کیسے نمود میں آئے۔تعرف الاشیاء باضدادہا کا مشہورمقولہ توآنجناب نے پڑھ رکھ ہوگابلکہ گڑھ رکھاہوگا۔
یہ بات سابق میں ذکر کی جاچکی ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کاحوالہ کیوں دیاگیااورکیوں دیاجاتاہے۔ہم ان کے تعلق سے اس غلو کے شکار نہیں ہیں جس کااظہار غیرمقلدین حضرات کرتے ہیں۔بلکہ ان کو امت کے دیگر علماٗ کی طرح ایک متبحر عالم سمجھتے ہیں۔ امت کا سب سے بڑاعالم نہیں سمجھتے۔
جہاں تک حسن ظن کی بات ہے توخداکاشکر ہے کہ ہم سبھی سے حسن ظن رکھتے ہیں ۔ہم توشیخ الاسلام ابن تیمیہ سے بھی حسن ظن رکھتے ہیں اوران کے اقوال کو خواہ غلط ہوں یادرست ہوں دونوں صورت مین ایک متبحر عالم کی رائے قراردیتے ہیں۔ آپ کی طرح یہ نہیں کرتے کہ ہمیں ابن تیمیہ کی جس رائے سے اتفاق نہ ہو اس کو گوبر اورنجس جانوروں کی لید قراردے دیں۔اسی سے واضح ہے کہ کون کس سے حسن ظن رکھتاہے اورکون نہیں رکھتا۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
از:جمشیدصاحب
مذہب حنابلہ کے ساتھ تعصب کا الزام
مذکورہ اقتباس میں شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ پر حنابلہ کے ساتھ تعصب کا بھی الزام ہے لیکن یہ بات بھی بے بنیاد ہے، جس کسی کو بھی شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی کسی ایک بھی کتاب کے مطالعہ کی توفیق مل جائے وہ اس بکواس کی حقیقت سمجھ جائے گا۔
ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ امام طحاوی کی پرتعصب شخصیت کا دفاع کرتے ہوئے یہی جمشید صاحب رقم طرازہیں:جہاں تک ابن احمر کی تنقید کاسوال ہے تواس کی غلطی ہراس شخص پر ظاہر ہوجائے گی جس نے امام طحاوی کی تصنیفات کاکچھ بھی مطالعہ کررکھاہو۔ابن احمرکایہ کہناکہ امام طحاوی مسلک احنا ف کے خلاف حق سمجھتے ہی نہیں تھے صراحتا اوربداہتاًغلط ہے۔
جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے جس شخص نے بھی امام طحاوی کی کتابوں کادقت نظر اورگہرائی کے ساتھ مطالعہ کیاہوگا وہ جانتاہے کہ امام طحاوی نے کتنے مقامات امام ابوحنیفہ اوردیگر ائمہ احناف کی مخالفت کی ہے۔اورجہاں بھی جوبھی قول اختیار کیاہے تو وہ اپنے اجتہاد کی بدولت نہ کسی کے تعصب میں اورنہ کسی کی تقلید میں ۔
امام طحاوی حیات وخدمات
عرض ہے کہ اسی اصول کے تحت ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتابوں خصوصا مجموع الفتاوی کا مطالعہ کرلیا جائے ، یاکم ازکم اسی تھریڈ کے عنوان ’’کافر اورواجب القتل لوگوں کی ایک قسم شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی نظر میں‘‘ پرغورکرتے ہوئے اس کا پہلا مراسلہ ہی پڑھ لیا جائے ، حقیقت واضح ہوجائے گی بشرط یہ کہ خیرو شر کی تمیز سلب نہ کرلی گئی ہو۔

جہاں تک بات ہے امام طحاوی کے متعصب ہونے کی تو اس پر بحث کرنے کے لئے دفاتر درکارہیں ، ہم سردست صرف ایک گھریلو گواہی پیش کرنے پراکتفاء کرتے ہیں:
مولانا عبدالحیی لکھنوی امام طحاوی سے متعلق لکھتے ہیں :
قدسلک فيه مسلک الإنصاف و تجنب عن طريق الإعتساب إلافي بعض المواضع قد عزل النظر فيها عن التحقيق و سلک مسلک الجدل والخلاف الغيرالأنيق کمابسطته في تصانيفي في الفقه. [الفوائد البهية فى تراجم الحنفية لعبدالحیی اللکنوی : ص ٣٣]۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے غیرمتعصب ہونے پر امام ذھبی رحمہ اللہ کی گواہی:
ولقد نصر السنة المحضة والطريقة السلفية، واحتج لها ببراهين ومقدمات، وأمور لم يسبق إليها، وأطلق عبارات أحجم عنها الأولون والآخرون وهابوا وجسر هو عليها، حتى قام عليه خلق من علماء مصر والشام قياما لا مزيد عليه، وبدَّعوه وناظروه وكابروه، وهو ثابت لا يداهن ولا يحابي، بل يقول الحق المر الذي أداه إليه اجتهاده، وحدة ذهنه، وسعة دائرته في السنن والأقوال؛ مع ما اشتهر منه من الورع، وكمال الفكر، وسرعة الإدراك، والخوف من الله، والتعظيم لحرمات الله [الدرة اليتيمية في السيرة التيمية للذهبي: ص: 4]

خود شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تصریح:
امام طحاوی کے تعصب کے دفاع میں جمشید صاحب کہتے ہیں:
کتاب الشروط امام طحاوی کی مفقود کتابوں میں سے ہیں لیکن اس کے کچھ اجزاء دستیاب ہوئے ہیں جوشائع ہوچکے ہیں۔ کتاب الشروط کے مقدمہ میں امام طحاوی واشگاف اورعلی الاعلان لکھتے ہیں۔
قد وضعت ھذاالکتاب علی الاجتہاد منی لاصابۃ ماامراللہ عزوجل بہ من الکتاب بین الناس بالعدل علی ذکرت فی صدرھذاالکتاب مماعلی الکاتب بین الناس وجعلت ذلک اصنافا ،ذکرت فی کل صنف فیہااختلاف الناس فی الحکم فی ذلک ،وفی رسم الکتاب فیہ وبینت حجۃ کل فریق منھم وذکرت ماصح عندی من مذاھبھم وممارسموابہ کتبھم فی ذلک واللہ اسالہ التوفیق فانہ لاحول ولاقوۃ الابہ(مقدمہ کتاب الشروط1/21،بحوالہ مقدمہ مشکل الآثارلشعیب الارنوئوط،ص61)
امام طحاوی نے کتنے صاف اورصریح اندازمیں اعلان کردیاہے کہ وہ جوکچھ بھی لکھیں گے وہ ان کے اپنے اجتہاد پر مبنی ہوگااوردلائل کی روسے وہ جوبات راجح ہوگی وہ اسی کواختیار کریں گے امام طحاوی حیات وخدمات
عرض ہے کہ اس عبارت میں طحاوی صاحب نے فقط اپنے مجتہد ہونے کا دعوی کیا ہے وہ بھی صرف مذکورہ کتاب کی حدت ، مگر حنفیت سے متعلق تعصب کی نفی نہیں کی ہے !!!!!
مگرہم آپ کی خدمت میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ایسی عبارت پیش کرتے ہیں جس میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کسی ایک موقع سے متعلق نہیں بلکہ اپنی پوری زندگی سے متعلق ، واضح طور پر حنبلیت کے ساتھ عدم تعصب کی صراحت کی ہے۔
شیخ الاسلام فرماتے ہیں:
مَعَ أَنِّي فِي عُمْرِي إلَى سَاعَتِي هَذِهِ لَمْ أَدْعُ أَحَدًا قَطُّ فِي أُصُولِ الدِّينِ إلَى مَذْهَبٍ حَنْبَلِيٍّ وَغَيْرِ حَنْبَلِيٍّ ، وَلَا انْتَصَرْت لِذَلِكَ ، وَلَا أَذْكُرُهُ فِي كَلَامِي ، وَلَا أَذْكُرُ إلَّا مَا اتَّفَقَ عَلَيْهِ سَلَفُ الْأُمَّةِ وَأَئِمَّتُهَا[مجموع الفتاوى ( الباز المعدلة ) 3/ 229]۔

شیخ الاسلام کے شاگرد امام ابن القیم رحمہ اللہ نے نقل کیا کہ:
ولقد أنكر بعض المقلدين على شيخ الإسلام في تدريسه بمدرسة ابن الحنبلي وهي وقف على الحنابلة والمجتهد ليس منهم فقال: إنما أتناول ما أتناوله منها على معرفتي بمذهب أحمد لا على تقليدي له [إعلام الموقعين عن رب العالمين 2/ 272]۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ پر حنابلہ کے ساتھ تعصب کا الزام لگانا محض ایک بہتان اورشرارت ہے۔
حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ پرتعصب کے تعلق سے نہ ہماراادعا ہے اورنہ ہم نے اس تعلق سے کچھ عرض کیاہے۔نہ ہمیں ا س کے اثبات ونفی سے کوئی تعلق ہے۔ وہ بات محض الاقشھری کے بیان میں سخن گسترانہ بات تھی۔اس کی تردید کے درپے ہوکر کفایت اللہ صاحب نے خواہ مخواہ اپنی صلاحیت ضائع کی ہے۔

انہوں نے اس سلسلے میں حضرت ابن تیمیہ کی ایک تحریر کا حوالہ دیاہے۔ ذرااس تحریر کا ہم جائزہ لیتے چلیں کہ وہ کتنامطابق واقعہ ہے اورکتناخلاف واقعہ ہے۔

مَعَ أَنِّي فِي عُمْرِي إلَى سَاعَتِي هَذِهِ لَمْ أَدْعُ أَحَدًا قَطُّ فِي أُصُولِ الدِّينِ إلَى مَذْهَبٍ حَنْبَلِيٍّ وَغَيْرِ حَنْبَلِيٍّ ، وَلَا انْتَصَرْت لِذَلِكَ ، وَلَا أَذْكُرُهُ فِي كَلَامِي ، وَلَا أَذْكُرُ إلَّا مَا اتَّفَقَ عَلَيْهِ سَلَفُ الْأُمَّةِ وَأَئِمَّتُهَا[مجموع الفتاوى ( الباز المعدلة ) 3/ 229]۔
کفایت اللہ صاحب کی عربی کی حالت شاید انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔وہ شاید زیر بحث موضوع کو سمجھتے نہیں یامغالطہ دیناچاہتے یاکچھ اورکرناچاہتے ہیں یہ چیز راقم کی سمجھ سے باہر ہے۔
کفایت اللہ صاحب کا دعویٰ ہے کہ
م
گرہم آپ کی خدمت میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ایسی عبارت پیش کرتے ہیں جس میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کسی ایک موقع سے متعلق نہیں بلکہ اپنی پوری زندگی سے متعلق ، واضح طور پر حنبلیت کے ساتھ عدم تعصب کی صراحت کی ہے۔
لیکن اس تحریر میں کفایت اللہ صاحب نے غورنہیں کیاکہ اس میں لم ادع احدا فی اصول الدین الی الخ کا جملہ موجود ہے۔ اب کفایت اللہ صاحب ہمیں بتائیں کہ اصول دین سے کیامراد ہے۔ عقائد یافروعات ۔اگرعقائد مراد ہیں جوکہ صحیح اوردرست بھی ہے توہماری گفتگو عقائد کے تعلق سے چل نہیں رہی ہے کہ عقیدہ کے لحاظ سے کون متعصب ہے اورکون متعصب نہیں ہے۔اس پر خود کفایت اللہ صاحب کی تحریر شاہد عدل ہے کہ انہوں نے امام طحاوی پر جہاں کلام کیاہے وہیں فقہی اورفروعاتی مسائل کے تعلق سے گفتگو کی ہے لہذا ان کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی اس تحریر کے بجائے ایسی تحریر پیش کرنی چاہئے جس میں اصول دین نہیں بلکہ فروع دین کا تذکرہ ہو۔

اگربات عقائد کی ہے توکیا امام طحاوی عقائد میں متعصب تھے؟۔ ان کی العقائد الطحاویہ مشہور عالم کتاب ہے۔ اس سے ایک دنیا استفادہ کررہی ہے ۔کیااس میں انہوں نے کہیں بھی حنفیت کے تعلق سے تعصب برتاہے۔اگرنہیں توپھر کیسادوہرامعیار ہے کہ ابن تیمیہ کے تعلق سے گفتگو ہو تو اصول دین کاحوالہ پیش کیاجائے اورجب امام طحاوی کے تعلق سے گفتگو ہوتوفروع دین پر کلام کیاجائے۔
اگریہ مان لیاجائے کہ یہ تحریراصول دین پر ہونے کے باوجود فروعات دین پر بھی محیط ہے اوراس میں شیخ الاسلام نے اصول دین اورفروع دین دونوں کے تعلق سے اپنے تعصب کی نفی کی ہے تو اس باب میں ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں۔

جہاں تک اس جملہ کے پہلے دعوے کی بات ہے کہ میں نے کسی کو مذہب حنبلی اورغیرحنبلی اختیار کرنے کی دعوت نہیں دی ۔بالکل صحیح اورمطابق واقعہ ہے اورحقیقت بھی یہی ہے کہ چاروں مسالک میں سے کسی نے بھی عمومی طورسے کبھی بھی مسلک کی جانب دعوت دینے کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں بنایا یہ صرف اہل حدیث حضرات کاخاصہ ہے کہ وہ لوگوں کو آمین بالجہر اورقرات خلف الامام اوراسے طرح کے چند فروعی مسائل کی لوگوں کو دعوت دیتے پھرتے ہیں اوراس کو اپنامنتہائے مقصد سمجھتے ہیں۔

جہاں تک یہ بات ہے کہ میں نے کبھی مذہب حنبلی کی تائید اورنصرت نہیں کی تواس کے قبول کرنے میں ہمیں شدید تامل ہے۔اوراس کے آگے کا یہ جملہ کہ ولااذکرہ فی کلامی سے اگرمراد یہ ہے کہ میں مذہب حنبلی وغیرحنبلی کا ذکر نہیں کرتاہوں تویہ نہایت خلاف واقعہ ہے۔ان کی کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں۔ وہ بیشترفروعی مسائل میں اولاامام احمد بن حنبل کا ہی قول ذکر کرتے ہین اورامام احمد بن حنبل کے کلام کے ساتھ ان کو خاص لگاؤ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو فقہ حنبلی سے منسوب کیاجاتاہےاورفقہ حنبلی میں مجتہد فی المذہب سمجھاجاتاہے۔

پھران کی یہ بات کہ میں نہ مسلک حنبلی کا انتصار کرتاہوں اورنہ اس کو اپنے کلام میں ذکر کرتاہوں ۔اگرتاویلاکہاجائے تو صرف آخر عمر کے لحاظ سے کہاجاسکتاہے شیخ الاسلام کا اس بارے میں پوری زندگی کا دعویٰ کرنامحل نظر ہے۔ اس کی شہادت بھی ہم حافظ ذہبی سے ہی فراہم کردیتے ہیں۔بالخصوص اس لئے کہ حافظ ذہبی کاہی قول کفایت اللہ صاحب نے ان کے عدم تعصب کے باب میں پیش کیاہے۔اوراس سے محض پہلے جوجملے تھے اسے چھوڑدیاہے کیونکہ وہ شاید ان کے مطلب برآری میں خلل ڈال سکتے تھے۔

ح
افظ ذہبی لکھتے ہیں۔
ولہ الآن عدۃ سنین لایفتی بمذھب معین،بل بماقام الدلیل علیہ عندہ ۔
ترجمۃ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ص15
اس جملہ کا کیامطلب ہواکہ اب چندسالوں سے وہ کسی معین مذہب کے مطابق فتوی نہیں دیتے ہیں
یعنی قبل ازیں وہ کیاکرتے تھے ؟کیایہ بھی بتانے کی ضرورت ہے۔اسی طرح یہ کہناکہ میں صرف اسی کو ذکرکرتاہوں جس پر سلف امت متفق ہیں خلاف واقعہ ہے۔ان کے بعض مسائل میں شذوذو انفراد اورجمہورامت سے الگ راہ کے باوجود یہ کہناکہ وہ صرف سلف امت کے متفق مسائل ہی ذکر کریں گے واقعہ کے مطابق نہیں ہے۔
ہم ذیل میں ابن تیمیہ کے کچھ ایسے انفرادی مسائل پیش کریں گے جس میں وہ جمہورامت سے الگ ہیں۔یہ مسائل ان کے شاگرد اورمشہور حنبلی محدث ابن عبدالہادی نے ابن تیمیہ کی سیرت پر لکھی گئی کتاب العقود الدریہ میں بیان کیاہے۔ قارئین ملاحظہ کریں۔
فَفِي بعض الْأَحْكَام يُفْتِي بِمَا أدّى إِلَيْهِ اجْتِهَاده من مُوَافقَة أَئِمَّة الْمذَاهب الْأَرْبَعَة وَفِي بَعْضهَا قد يُفْتِي بخلافهم أَو بِخِلَاف الْمَشْهُور من مذاهبهم
وَمن اختياراته الَّتِي خالفهم فِيهَا أَو خَالف الْمَشْهُور من اقوالهم
القَوْل بقصر الصَّلَاة فِي كل مَا يُسمى سفرا طَويلا كَانَ أَو قَصِيرا كَمَا هُوَ مَذْهَب الظَّاهِرِيَّة وَقَول بعض الصَّحَابَة
وَالْقَوْل بِأَن الْبكر لَا تستبرأ وَإِن كَانَت كَبِيرَة كَمَا هُوَ قَول ابْن عمر وَاخْتَارَهُ البُخَارِيّ صَاحب الصَّحِيح
وَالْقَوْل بِأَن سُجُود التِّلَاوَة لَا يشْتَرط لَهُ وضوء كَمَا يشْتَرط للصَّلَاة كَمَا هُوَ مَذْهَب ابْن عمر وَاخْتِيَار البُخَارِيّ أَيْضا
وَالْقَوْل بِأَن من أكل فِي شهر رَمَضَان مُعْتَقدًا أَنه ليل فَبَان نَهَارا لَا قَضَاء عَلَيْهِ كَمَا هُوَ الصَّحِيح عَن عمر بن الْخطاب رَضِي الله عَنهُ وَإِلَيْهِ ذهب بعض التَّابِعين وَبَعض الْفُقَهَاء بعدهمْ
وَالْقَوْل بِأَن الْمُتَمَتّع يَكْفِيهِ سعي وَاحِد بَين الصَّفَا والمروة كَمَا هُوَ فِي حق الْقَارِن والمفرد كَمَا هُوَ قَول ابْن عَبَّاس رَضِي الله عَنْهُمَا وَرِوَايَة عَن الإِمَام بن حَنْبَل رَوَاهَا عَنهُ ابْنه عبد الله وَكثير من أَصْحَاب الإِمَام أَحْمد لَا يعرفونها
وَالْقَوْل بِجَوَاز الْمُسَابقَة بِلَا مُحَلل وَإِن خرج المتسابقان
وَالْقَوْل باستبراء المختلعة بِحَيْضَة وَكَذَلِكَ الْمَوْطُوءَة بِشُبْهَة والمطلقة آخر ثَلَاث تَطْلِيقَات
وَالْقَوْل بِإِبَاحَة وَطْء الوثنيات بِملك الْيَمين
وَالْقَوْل بِجَوَاز عقد الرِّدَاء فِي الْإِحْرَام وَلَا فديَة فِي ذَلِك وَجَوَاز طواف الْحَائِض وَلَا شَيْء عَلَيْهَا إِذا لم يُمكنهَا أَن تَطوف طَاهِرا
وَالْقَوْل بِجَوَاز بيع الأَصْل بالعصير كالزيتون بالزيت والسمسم بالشيرج
وَالْقَوْل بِجَوَاز الْوضُوء بِكُل مَا يُسمى مَاء مُطلقًا كَانَ أَو مُقَيّدا
وَالْقَوْل بِجَوَاز بيع مَا يتَّخذ من الْفضة للتحلي وَغَيره كالخاتم وَنَحْوه بِالْفِضَّةِ مُتَفَاضلا وَجعل الزَّائِد من الثّمن فِي مُقَابلَة الصَّنْعَة
وَالْقَوْل بِأَن الْمَائِع لَا ينجس بِوُقُوع النَّجَاسَة فِيهِ إِلَّا أَن يتَغَيَّر قَلِيلا كَانَ أَو كثيرا
وَالْقَوْل بِجَوَاز التَّيَمُّم لمن خَافَ فَوَات الْعِيد وَالْجُمُعَة بِاسْتِعْمَال المَاء
وَالْقَوْل بِجَوَاز التَّيَمُّم فِي مَوَاضِع مَعْرُوفَة
وَالْجمع بَين الصَّلَاتَيْنِ فِي أَمَاكِن مَشْهُورَة
)العقود الدریہ فی مناقب ابن تیمیہ339)

جومسائل ذکر کئے گئے ہیں۔ ان کے بارے میں کفایت اللہ صاحب ثابت کردیں کہ یہ وہ مسائل ہیں جن پر سلف امت اورائمہ کرام متفق ہیں یاحضرت ابن تیمیہ کے الفاظ میں مَا اتَّفَقَ عَلَيْهِ سَلَفُ الْأُمَّةِ وَأَئِمَّتُهَا
تواس کو ماننے سے ہمیں بھی اعتراض نہ ہوگا ورنہ محض دعویٰ سے ہی کہاں کام چلاہے۔
ان انفرادی اوراختیاری مسائل کے ساتھ اس کو بھی ایڈکرلیں بلکہ ایڈجسٹمنٹ کرلیں

وَكَانَ يمِيل أخيرا لتوريث الْمُسلم من الْكَافِر الذِّمِّيّ وَله فِي ذَلِك مُصَنف وَبحث طَوِيل
وَمن أَقْوَاله الْمَعْرُوفَة الْمَشْهُورَة الَّتِي جرى بِسَبَب الْإِفْتَاء بهَا محن وقلاقل قَوْله بالتكفير فِي الْحلف بِالطَّلَاق
وَأَن الطَّلَاق الثَّلَاث لَا يَقع إِلَّا وَاحِدَة
وَأَن الطَّلَاق الْمحرم لَا يَقع
(المصدرالسابق)

کفایت اللہ صاحب نے حسب عادت کچھ مزید باتیں ارشاد فرمادی ہیں۔ انہوں نے حافظ ابن تیمیہ کی برات کے ساتھ (جس میں غیرمتعلقہ حوالے دیئے گئے ۔حافظ ذہبی کا حوالہ بھی غیرمتعلقہ ہی ہے کیونکہ حافظ ذہبی کے اقتباس کا زیادہ ترحصہ عقائد کے تعلق سے ہے)امام طحاوی پر کچھ کہناضروری سمجھاہے۔

اولاتوہمیں ابن تیمیہ کے تعصب اورعدم تعصب سے کوئی غرض ہی نہیں ہے۔زیر بحث موضوع ان کی حدت اورشدت مزاجی ہے۔

ثانیاًابن احمر کا قول تعصب سے بھی کچھ آگے کی چیز ہے۔
ابن احمر کہتے ہیں کہ امام طحاوی مسلک احنا ف کے خلاف حق سمجھتے ہی نہیں تھے ۔اتنی غلط بات ہے کہ بس وہی شخص ایساکہہ سکتاہے جس نے امام طحاوی کی کتابوں کا صرف نام سناہو کبھی اس کو پڑھنے کی توفیق نہ ہوئی ہو۔

ثالثاًکفایت اللہ صاحب نے مولانا عبدالحی لکھنوی کا حوالہ دیاہے اورارشاد فرمایاہے۔

ج
ہاں تک بات ہے امام طحاوی کے متعصب ہونے کی تو اس پر بحث کرنے کے لئے دفاتر درکارہیں
ہماری خواہش اوردرخواست ہے کہ اس باب میں ان کے پاس یاان کے کشکول میں جتنابھی بضاعت ردیہ ہے وہ سب نکال دیں ۔تاکہ اس کے بعد اس کا مفصل جواب دیاجاسکے اورقارئین کوبھی اندازہ ہوسکے کہ یہ الزامات کتنے لچر اوربیت عنکبوت کی طرح کمزور ہیں۔
تعجب ہے کہ کفایت اللہ ماقبل میں حضرت ابن تیمیہ کے باب میں کچھ تنقید کرنے پر انہی مولانا عبدالحی لکھنوی کے بارے میں کہہ چکے ہیں ۔
مولوی لکھنوی نے شیخ الاسلام کی شان میں بدتمیزی کی حد کردی ہے ،اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے تعلق سے اڑائی گئی جھوٹی اورمن گھڑت باتوں کو نقل کرکے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے خطرہ سے اپنے پیروکاروں کو آگاہ کیا ہے ۔

اوریہاں انہی کاکلام استشہاد میں پیش کررہے ہیں

کفایت اللہ صاحب شاہد نذیر کی طرح اپنی لطافت طبع اورذوق کا اظہار کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا جوتاآپ کاسر

لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ایک شخص جس مسلک سے وابستہ ہے ۔اس کے ایک نہایت قابل قدر عالم بلکہ مجتہد فی المذہب کے بارے میں اگرکوئی بات کھٹکٹی ہے تواس کااظہار کردیتاہے اورجس خامی پر اس کی نظرپڑتی ہے اس کوبھی بیان کردیتاہے کیاایساشخص متعصب ہوسکتاہے کیاایساشخص ابن تیمیہ کے حق میں خواہ مخواہ کوئی بات کہے گا۔یاوہی بات کہے گا جہاں اس کو اس کے علم اورفہم وفکر نے پہنچایاہے۔

مولانا عبدالحی لکھنوی کا جوکلام کفایت اللہ صاحب نے نقل کیاہے وہ یہ ہے۔

قدسلک فيه مسلک الإنصاف و تجنب عن طريق الإعتساب إلافي بعض المواضع قد عزل النظر فيها عن التحقيق و سلک مسلک الجدل والخلاف الغيرالأنيق کمابسطته في تصانيفي في الفقه. [الفوائد البهية فى تراجم الحنفية لعبدالحیی اللکنوی : ص ٣٣]۔
پوراترجمہ یہ ہے۔
ان کی پوری بات یہ ہے۔
قال الجامع(عبدالحی )قد طالعت من تصانیفہ معانی الآثار وقد یسمی بشرح معانی الآثار فوجدتہ مجمعا للفوائدالنفیسۃ والفرائدالشریفۃ ینطق بفضل مولفہ وینادی بمہارۃ مصنفہ قد سلک فیہ مسلک الانصاف وتجنب عن طریق الاعتساف الافی بعض المواضع قد عزل النظر فیہاعن التحقیق وسلک مسلک الجدل والخلاف الغیرالانیق کمابسطتہ فی تصانیفی فی الفقہ۔(الفوائد البھیۃ ص33)
کفایت اللہ صاحب نے شروع کے جملہ بالکلیہ چھوڑدیئے ہیں اورصرف وہ جملہ اخذ کیاہے جن سے ان کے مدعا کی تصدیق ہوتی ہو۔ویسے یہ حیرت کی بات یہ ہے کہ کفایت اللہ صاحب نے یہاں اپنااصول نافذ نہیں کیا۔
راقم الحروف کے امام طحاوی سے تعصب کے دفاع پرپیش کردہ امام طحاوی کی ایک تحریر کے اقتباس میں جویہ تھا۔
قد وضعت ھذاالکتاب علی الاجتہاد منی لاصابۃ ماامراللہ عزوجل بہ من الکتاب بین الناس بالعدل علی ذکرت فی صدرھذاالکتاب مماعلی الکاتب بین الناس وجعلت ذلک اصنافا ،ذکرت فی کل صنف فیہااختلاف الناس فی الحکم فی ذلک ،وفی رسم الکتاب فیہ وبینت حجۃ کل فریق منھم وذکرت ماصح عندی من مذاھبھم وممارسموابہ کتبھم فی ذلک واللہ اسالہ التوفیق فانہ لاحول ولاقوۃ الابہ(مقدمہ کتاب الشروط1/21،بحوالہ مقدمہ مشکل الآثارلشعیب الارنوئوط،ص61)
امام طحاوی نے کتنے صاف اورصریح اندازمیں اعلان کردیاہے کہ وہ جوکچھ بھی لکھیں گے وہ ان کے اپنے اجتہاد پر مبنی ہوگااوردلائل کی روسے وہ جوبات راجح ہوگی وہ اسی کواختیار کریں گے امام طحاوی حیات وخدمات
اس پر کفایت اللہ کاکہناتھا۔
عرض ہے کہ اس عبارت میں طحاوی صاحب نے فقط اپنے مجتہد ہونے کا دعوی کیا ہے وہ بھی صرف مذکورہ کتاب کی حدتک ، مگر حنفیت سے متعلق تعصب کی نفی نہیں کی ہے !!!!!
اس باب میں کفایت اللہ صاحب کو تویاد رھاکہ بات صرف کتاب الشروط تک ہورہی ہے لیکن افسوس کہ موصوف کو یہ یاد نہیں رہاکہ امام طحاوی کے تعصب کے اثبات میں جو دلیل مولانا عبدالحی لکھنوی کے کلام کی پیش کی ہے وہ بھی صرف ایک ہی کتاب تک محدود ہے۔ یہاں ان کے تعصب کا دعویٰ صرف ایک کتاب تک کیوں محدود نہیں رہا۔جب کہ مولانا لکھنوی واضح طورپر کہہ رہے ہیں کہ میں نے ان کی کتاب شرح معانی الآثار کا مطالعہ کیااور وہ ایسی ویسی ہے گویاجوکچھ وہ کہہ رہے ہیں اس کا تعلق محض شرح معانی الاثار تک ہے لیکن کفایت اللہ صاحب اس قول کو ان کی پوری تصانیف پر محیط سمجھ رہے ہیں اورجہاں عدم تعصب کی بات ہے اس کو صرف ایک کتاب تک محدود قراردے رہے ہیں۔ سبحان اللہ لینے اوردینے کے کیسے انوکھے پیمانے انہوں نے وضع کئے ہیں۔
ویل للمطففین
اب ذرادیکھتے چلیں کہ مولانا لکھنوی کے بیان سے قطع نظر خودامام طحاوی شرح معانی الاثار کے تعلق سے اپناطرزعمل کیابیان کرتے ہیں۔ امام طحاوی کہتے ہیں۔

قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْأَزْدِيُّ الطَّحَاوِيُّ رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهِ:
سَأَلَنِي بَعْضُ أَصْحَابِنَا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ أَضَعَ لَهُ كِتَابًا أَذْكُرُ فِيهِ الْآثَارَ الْمَأْثُورَةَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَحْكَامِ الَّتِي يَتَوَهَّمُ أَهْلُ الْإِلْحَادِ , وَالضَّعَفَةُ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ أَنَّ بَعْضَهَا يَنْقُضُ بَعْضًا؛ لِقِلَّةِ عِلْمِهِمْ بِنَاسِخِهَا مِنْ مَنْسُوخِهَا , وَمَا يَجِبُ بِهِ الْعَمَلُ مِنْهَا لِمَا يَشْهَدُ لَهُ مِنَ الْكِتَابِ النَّاطِقِ وَالسُّنَّةِ الْمُجْتَمَعِ عَلَيْهَا , وَأَجْعَلُ لِذَلِكَ أَبْوَابًا , أَذْكُرُ فِي كُلِّ كِتَابٍ مِنْهَا مَا فِيهِ مِنَ النَّاسِخِ وَالْمَنْسُوخِ , وَتَأْوِيلَ الْعُلَمَاءِ وَاحْتِجَاجَ بَعْضِهِمْ عَلَى بَعْضٍ , وَإِقَامَةَ الْحُجَّةِ لِمَنْ صَحَّ عِنْدِي قَوْلُهُ مِنْهُمْ بِمَا يَصِحُّ بِهِ مِثْلُهُ مِنْ كِتَابٍ أَوْ سُنَّةٍ أَوْ إِجْمَاعٍ أَوْ تَوَاتُرٍ مِنْ أَقَاوِيلِ الصَّحَابَةِ أَوْ تَابِعِيهِمْ , وَإِنِّي نَظَرْتُ فِي ذَلِكَ وَبَحَثْتُ عَنْهُ بَحْثًا شَدِيدًا، فَاسْتَخْرَجْتُ مِنْهُ أَبْوَابًا عَلَى النَّحْوِ الَّذِي سَأَلَ، وَجَعَلْتُ ذَلِكَ كُتُبًا
شرح معانی الآثار1/11


اس وضاحت کو دیکھئے کہیں بھی اس میں فقہ حنفی کی ترجیح وغیرہ کاذکر ہے کہیں اس میں مذکور ہے کہ میں جوبیان کروں گاوہ وہی ہوگاجوامام ابوحنیفہ اورمحمدوابویوسف کاقول ہوگا۔ اس مقدمے میں توامام ابوحنیفہ کانام تک نہیں لیاگیاہے۔بلکہ بیان کیاگیاہے کہ بعض ملحدین مسلمانوں کو ورغلاتے تھے اورکم علموں کو احادیث کے تناقص اورتعارض کے شبہے مین ڈال کر اسلام سے بدظن کرتے تھے۔ کچھ لوگوں نے درخواست کی کہ ایسے ملحدین کے اعتراضات کے شافی جوابات کے طورپر احکام کی احادیث جمع کرکے اس میں سے ناسخ ومنسوخ اورکتاب وسنت اوراجماع وقیاس کے لحاظ سے جو قول درست ہو اس کو بیان کردیں اورمختلف احادیث میں آثار میں کس طرح تطبیق ہوسکتی ہے یاان میں سے کون ناسخ ومنسوخ ہے وہ بھی بیان کردیں۔

اب کوئی یہ اعتراض کرے کہ پھراس میں اکثر جگہ امام ابوحنیفہ اورصاحبین کے قول کوترجیح دی گئی ہے کیوں توجواب یہ ہوگاکہ یہ بالکل ویساہی ہے جیساکہ ابن تیمیہ اکثر امام احمد کے قول کو ترجیح دیاکرتے ہیں۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
اشاعرہ پر نکتہ چینی اوران کی توہین کاالزام

اول تو یہ بات بھی بے بنیاد ہے ۔
دوم اس سے کیا مراد ہے ؟؟؟؟؟؟؟ اگر یہ مراد ہے شیخ الاسلام نے ان کےغلط عقائد پر تعاقب کیا اوران کی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے تو یہ ہرعالم کا خاصہ ہے ، اس میں تو کوئی عیب کی بات نہیں ۔
لیکن اگریہ مراد ہے کہ شیخ الاسلام ان کی توہین کرتے تھے ، تو یہ ایک بہتان ہے ۔
شیخ الاسلام نے اشاعرہ پر مہذب تنقید کے ساتھ ساتھ ان کی خوبیوں کو بھی تسلیم کیا ہے۔

ایک مقام پر اشاعرہ کو اہل سنت والجماعت سے قریب بتلاتے ہوئے کہتے ہیں:
لَكِنْ أُولَئِكَ أَشَدُّ اتِّبَاعًا لِلْأَثَارَةِ النَّبَوِيَّةِ وَأَقْرَبُ إلَى مَذْهَبِ أَهْلِ السُّنَّةِ مِنْ الْمُعْتَزِلَة وَنَحْوِهِمْ مِنْ وُجُوهٍ كَثِيرَةٍ [مجموع الفتاوى ( الباز المعدلة ) 12/ 33]۔

بلکہ معتزلہ و رافضہ کے مقابلہ میں انہیں اہل سنت والجماعت بتلاتے ہوئی رقم طراز ہیں:
وإن كان في كلامهم من الأدلة الصحيحة وموافقة السنة ما لا يوجد في كلام عامة الطوائف، فإنهم أقرب طوائف أهل الكلام إلى السنة والجماعة والحديث، وهو يعدون من أهل السنة والجماعة عند النظر إلى مثل المعتزلة والرافضة وغيرهم، بل هم أهل السنة والجماعة في البلاد التي يكون أهل البدع فيها هم المعتزلة والرافضة ونحوهم [نقض تأسيس المطبوع (2/87) ]۔

اشاعرہ نے ملحدین اورباطنیہ پر رد کرکے جو خدمات انجام دی ہیں شیخ الاسلام نے ان کی ان خدمات کو بھی سراہا ہے ، چنانچہ ایک مقام پر اشاعرہ کے ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ثم إنه ما من هؤلاء إلا من له في الإسلام مساع مشكورة وحسنات مبرورة وله في الرد على كثير من أهل الإلحاد والبدع والانتصار لكثير من أهل السنة والدين ما لا يخفى على من عرف أحوالهم وتكلم فيهم بعلم وصدق وعدل وإنصاف لكن لما التبس عليهم هذا لأصل المأخوذ ابتداء عن المعتزلة وهم فضلاء عقلاء احتاجوا إلى طرده والتزام لوازمه فلزمهم بسبب ذلك من الأقوال ما أنكره المسلمون من أهل العلم والدين وصار الناس بسبب ذلك : منهم من يعظمهم لما لهم من المحاسن والفضائل ومنهم من يذمهم لما وقع في كلامهم من البدع والباطل وخيار الأمور أوساطها وهذا لي مخصوصا بهؤلاء بل مثل هذا وقع لطوائف من أهل العلم والدين والله تعالى يتقبل من جميع عباده المؤمنين الحسنات ويتجاوز لهم عن السيئات { ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان ولا تجعل في قلوبنا غلا للذين آمنوا ربنا إنك رؤوف رحيم } ( الحشر : ١٠) [درء التعارض 1/ 283]


اور تو اور ہے بلکہ جن لوگ اشاعرہ پرلعن طعن کرتے ہیں شیخ الاسلام نے ان کی بھی مذمت کی ہے ، چنانچہ منہاج السنہ میں لکھتے ہیں:
فإن غالب شناعته على الأشعرية ومن وافقهم والأشعرية خير من المعتزلة والرافضة عند كل من يدري ما يقول ويتقي الله فيما يقول وإذا قيل إن في كلامهم وكلام من قد وافقهم أحيانا من أصحاب الأئمة الأربعة وغيرهم ما هو ضعيف فكثير من ذلك الضعيف إنما تلقوه من المعتزلة فهم أصل الخطأ في هذا الباب وبعض ذلك أخطاؤا فيه لإفراط المعتزلة في الخطأ فقابلوهم مقابلة انحرفوا فيها كالجيش الذي يقاتل الكفار فربما حصل منه إفراط وعدوان [منهاج السنة النبوية 1/ 444]۔

صرف یہی نہیں بلکہ شیخ الاسلام نے اشاعرہ کی غلطیوں کو اجتہادی غلطی کی صورت میں ان کی مغفرت کی بھی بات کرتے ہیں :
ولكنّ بعضهم أقرب إلى السنة من بعض، وقد يكون هذا أقرب في بعض، وهذا أقرب في مواضع؛ وهذا لكون أصل اعتمادهم لم يكن على القرآن والحديث؛ بخلاف الفقهاء؛ فإنّهم في كثيرٍ ممّا يقولونه إنّما يعتمدون على القرآن والحديث، فلهذا كانوا أكثر متابعة، لكن ما تكلّم فيه أولئك أجلّ، ولهذا يُعظَّمون من وجه، ويذمّون من وجه؛ فإنّ لهم حسنات، وفضائل، وسعياً مشكوراً، وخطأهم بعد الاجتهاد مغفورٌ. [النبوات 21/ 34]۔


بالخصوص اشاعرہ کے امام اشعری کے بارے میں کہتے ہیں:
وهذا مما مدح به الأشعري فإنه من بين من فضائح المعتزلة وتناقض أقوالهم وفسادها ما لم يبينه غيره لأنه كان منهم وكان قد درس الكلام على أبي على الجبائي أربعين سنة وكان ذكيا ثم إنه رجع عنهم وصنف في الرد عليهم ونصر في الصفات طريقة ابن كلاب لأنها أقرب إلى الحق والسنة من قولهم ولم يعرف غيرها فإنه لم يكن خبيرا بالسنة والحديث وأقوال الصحابة والتابعين وغيرهم وتفسير السلف للقرآن والعلم بالسنة المحضة إنما يستفاد من هذا [منهاج السنة النبوية 5/ 277]۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ فریق مخالف سے اختلاف کی صورت میں اس پر طعن وتشنیع کوقطعا پسند نہیں کرتے تھے بلکہ پوری صراحت کے ساتھ اسے غلط کہتے تھے:
ومن اتبع ظنه وهواه فأخذ يشنع على من خالفه بما وقع فيه من خطأ ظنه صوابا بعد اجتهاده وهو من البدع المخالفه للسنة فإنه يلزمه نظير ذلك أو أعظم أو أصغر في من يعظمه هو من أصحابه فقل من يسلم من مثل ذلك من المتأخرين لكثرة الإشتباه و الإضطراب وبعد الناس عن نور النبوة وشمس الرسالة الذي به يحصل الهدى والصواب ويزول به عن القلوب الشك والاتياب [درء تعارض العقل والنقل 2/ 103]۔
مسئلہ یہ ہے کہ کفایت اللہ صاحب دوہرے اصول پرعمل کرتے ہیں
اگربات ابن تیمیہ کی ہو توان کی کتابوں سے چند نقول پیش کرتے ہیں اوران کے تعلق سے مورخین نے جوکچھ لکھاہے چاہے وہ کتنے ہی قریب العہد کیوں نہ ہوں اس سے صرف نظرکرلیتے ہیں۔اوران کی کتابوں کے پیش کردہ اقتباسات (ویسے یہ بھی جاننے کی چیز ہے کہ وہ جن کتابوں کے اقتباسات پیش کررہے ہیں وہ کتابیں سند صحیح سے مولف تک ثابت شدہ ہیں یانہیں۔ہمیں امید ہے کہ کفایت اللہ صاحب اگلی بحثوں میں ان تمام کتابوں کے سند صحیح سے مصنف تک اثبات کردیں گے)کومورخین کے بیانات کی تردید کیلئے کافی سمجھتے ہیں لیکن افسوس کہ وہ اسی اصول کو امام طحاوی یاکسی دوسرے کے ساتھ کام میں نہیں لاتے۔اوران کی کتابوں سے پیش کردہ اقتباسات کو برطرف رکھ کر مورخین کے بیانات پر اعتماد کرتے ہیں۔یہ تطفیفی عمل انہوں نے کن سے اخذ کیاکہاں سے سیکھاہم اس بارے میں کچھ نہیں عرض کرسکتے ۔کفایت اللہ صاحب ہی بتاکرہمیں مشکورکریں ویسے قرینہ یہی کہتاہے کہ یہ ان کے مسلک کی خصوصیت ہے۔
ومن اتبع ظنه وهواه فأخذ يشنع على من خالفه بما وقع فيه من خطأ ظنه صوابا بعد اجتهاده وهو من البدع المخالفه للسنة فإنه يلزمه نظير ذلك أو أعظم أو أصغر في من يعظمه هو من أصحابه فقل من يسلم من مثل ذلك من المتأخرين لكثرة الإشتباه و الإضطراب وبعد الناس عن نور النبوة وشمس الرسالة الذي به يحصل الهدى والصواب ويزول به عن القلوب الشك والاتياب والاتياب [درء تعارض العقل والنقل 2/ 103]
ویسے اس اقتباس میں خودشیخ الاسلام نے اس کی تصریح کردی ہے کہ متاخرین مخالفین پر طعن وتشنیع کے شکار ہوئے ہیں اوربہت کم اس سے بچ سکے ہیں۔خود شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا شمار متاخرین میں ہے اوراسی بناء پر اوردوسرے بیانات کی بناء پر ہماراگمان ہے کہ ان سےاس کاصدور ہواہے۔
ماقبل میں پیش کردہ ایک اقتباس حاضر ہے۔
ومن رزقه الله معرفة ما جاءت به الرسل وبصرًا نافذًا وعرف حقيقة مأخذ هؤلاء، علم قطعًا أنهم يلحدون في أسمائه وآياته، وأنهم كذبوا بالرسل وبالكتاب وبما أرسل به رسله؛ ولهذا كانوا يقولون: إن البدع مشتقة من الكفر وآيلة إليه، ويقولون: إن المعتزلة مخانيث الفلاسفة، والأشعرية مخانيث المعتزلة.
(الرسالۃ المدنیۃ فی تحقیق المجاز الحقیقۃ فی صفات اللہ1/6)
یہ بات حضرت ابن تیمیہ نے اشعریہ کے مخانیث ہونے کی کئی مرتبہ دوہرائی ہے ایسالگتاہے کہ ان کو اس کے ذکر سے ایک خاص قسم کی لذت ملتی ہے۔ دیکھئے وہ مواقع جہاں انہوں نے یہ بات دوہرائی ہے۔
وَأَنْتُمْ شُرَكَاؤُهُمْ فِي هَذِهِ الْأُصُولِ كُلِّهَا، وَمِنْهُمْ أَخَذْتُمُوهَا. وَأَنْتُمْ فُرُوخُهُمْ فِيهَا، كَمَا يُقَالُ: الْأَشْعَرِيَّةُ مَخَانِيثُ الْمُعْتَزِلَةِ، وَالْمُعْتَزِلَةُ مَخَانِيثُ الْفَلَاسِفَةِ، لَكِنْ لَمَّا شَاعَ بَيْنَ الْأُمَّةِ فَسَادُ مَذْهَبِ الْمُعْتَزِلَةِ، وَنَفَرَتْ الْقُلُوبُ عَنْهُمْ، صِرْتُمْ تُظْهِرُونَ الرَّدَّ عَلَيْهِمْ فِي بَعْضِ الْمَوَاضِعِ مَعَ مُقَارَبَتِكُمْ أَوْ مُوَافَقَتِكُمْ لَهُمْ فِي الْحَقِيقَةِ.
(الفتاوی الکبری لابن تیمیہ6/643)
ولهذا قيل: الأشعريّة مخانيث المعتزلة
(النبوات لابن تیمیہ1/307)
وَيَقُولُونَ: إنَّ الْمُعْتَزِلَةَ مَخَانِيثُ الْفَلَاسِفَةِ؛ وَالْأَشْعَرِيَّةُ مَخَانِيثُ الْمُعْتَزِلَةِ.
(مجموع الفتاوی6/359)
فَالْمُعْتَزِلَةُ فِي الصِّفَاتِ مَخَانِيثُ الْجَهْمِيَّة، وَأَمَّا الْكُلَّابِيَة فِي الصِّفَاتِ. . . (1) (*) ، وَكَذَلِكَ الْأَشْعَرِيَّةُ؛
(مجموع الفتاوی8/227)
اس کے علاوہ بھی دیگر مقامات ہیں۔
میرے خیال سے یہ جملے تشنیع کے ضمن میں آتے ہیں۔ اگرتیمیوں کو کسی اعتبار سے مخانیث کہاجائے اہل حدیث حضرات کوکسی اعتبار سے مخانیث کہاجائے توشاید وہ بھی اس کو تشنیع ہی سمجھیں گے۔اگروہ اس کو تشنیع نہیں سمجھتے ہیں تو بتائیں آج سے ہم ہی یہ کام شروع کردیتے ہیں۔
کچھ بیانات علامہ صفدی کی مشہور کتاب الوافی بالوفیات سے
علامہ صفدی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے ہم عصر ہیں۔ان سے انہوں نے استفادہ بھی کیاہے۔

ایک مفسر نے جب ان سے کسی بات میں استشہاد کے طورپر مشہور امام نحو سیبویہ کا کلام پیش کیاتو انہوں نے جواب دیاتھاکہ سیبویہ کوئی نبی نہیں تھا اس سے الکتاب میں ۸۰ مقامات پر غلطیاں ہوئی ہیں۔علامہ صفدی نے جب قرآن پاک میں ایک نحوی اشکال کے تعلق سے ابن تیمیہ سے پوچھاتووہ اس کا تشفی بخش جواب نہ دے سکے۔

ملاحظہ ہو:
وَسَأَلته فِي سنة ثَمَانِي عشرَة أَو سبع عشرَة وَسبع مائَة وَهُوَ بمدرسته بالقصاعين عَن قَوْله)
تَعَالَى وَأخر متشابهاتٌ فَقلت لَهُ الْمَعْرُوف بَين النُّحَاة أَن الْجمع لَا يُوصف إِلَّا بِمَا يُوصف بِهِ الْمُفْرد من الْجمع بالمفرد من الْوَصْف فَقَالَ كَذَا هُوَ فَقلت مَا تفرد متشابهات فَقَالَ متشابهة فَقلت كَيفَ تكون الْآيَة الْوَاحِدَة فِي نَفسهَا متشابهة وَإِنَّمَا يَقع التشابه بَين آيَتَيْنِ وَكَذَا قَوْله تَعَالَى فَوجدَ فِيهَا رجلَيْنِ يقتتلان كَيفَ يكون الرجل الْوَاحِد يقتتل مَعَ نَفسه فَعدل بِي من الْجَواب إِلَى الشُّكْر وَقَالَ هَذَا ذهن جيد وَلَو لازمتني سنة لانتفعت

وَسَأَلته فِي ذَلِك الْمجْلس عَن تَفْسِير قَوْله تَعَالَى هُوَ الَّذِي خَلقكُم من نفس واحدةٍ وَجعل مِنْهَا زَوجهَا إِلَى قَوْله تَعَالَى عَمَّا يشركُونَ فَأجَاب بِمَا قَالَه الْمُفَسِّرُونَ فِي ذَلِك وَهُوَ آدم وحواء وَأَن حَوَّاء لما أثقلت بِالْحملِ أَتَاهَا إِبْلِيس فِي صُورَة رجل وَقَالَ أَخَاف من هَذَا الَّذِي فِي بَطْنك أَن يخرد من دبرك أَو يشق بَطْنك وَمَا يدْريك لَعَلَّه يكون بَهِيمَة أَو كَلْبا فَلم تزل فِي همّ حَتَّى أَتَاهَا ثَانِيًا وَقَالَ سَأَلت الله تَعَالَى أَن يَجعله بشرا سويّاً وَإِن كَانَ كَذَلِك سميه عبد الْحَارِث وَكَانَ اسْم إِبْلِيس فِي الْمَلَائِكَة الْحَارِث فَذَلِك قَوْله تَعَالَى فَلَمَّا آتاهما صَالحا جعلا لَهُ شُرَكَاء فِيمَا آتاهما وَهَذَا مَرْوِيّ عَن ابْن عَبَّاس فَقلت لَهُ هَذَا فَاسد من وُجُوه لِأَنَّهُ تَعَالَى قَالَ فِي الْآيَة الثَّانِيَة فتعالى الله عَمَّا يشركُونَ فَهَذَا يدل على أَن الْقِصَّة فِي حق جمَاعَة الثَّانِي أَنه لَيْسَ لإبليس فِي الْكَلَام ذكر الثَّالِث أَن الله تَعَالَى علم آدم الْأَسْمَاء كلهَا فَلَا بُد وَأَنه كَانَ يعلم أَن إِبْلِيس الْحَارِث الرَّابِع أَنه تَعَالَى قَالَ أيشركون مَا لَا يخلق شَيْئا وَهُوَ يخلقون وَهَذَا يدل على أَن المُرَاد بِهِ الْأَصْنَام لِأَن مَا لما لَا يعقل وَلَو كَانَ إِبْلِيس لقَالَ من الَّتِي هِيَ لمن يعقل فَقَالَ رَحمَه الله تَعَالَى فقد ذهب بعض الْمُفَسّرين إِلَى أَن المُرَاد بِهَذَا قصيّ لِأَنَّهُ سمى أَوْلَاده الْأَرْبَعَة عبد منَاف وَعبد الْعُزَّى وَعبد قصي وَعبد الدَّار وَالضَّمِير فِي يشركُونَ لَهُ ولأولاده من أعقابه الَّذين يسمون أَوْلَادهم بِهَذِهِ الْأَسْمَاء وأمثالها فَقلت لَهُ وَهَذَا أَيْضا فَاسد لِأَنَّهُ تَعَالَى قَالَ خَلقكُم من نفسٍ واحدةٍ وَخلق مِنْهَا زَوجهَا وَلَيْسَ كَذَلِك إِلَّا آدم لِأَن الله تَعَالَى خلق حَوَّاء من ضلعه فَقَالَ رَحمَه الله تَعَالَى المُرَاد بِهَذَا أَن زوجه من جنسه عَرَبِيَّة قرشية فَمَا رَأَيْت التَّطْوِيل مَعَه

(الوافی بالوفیات7/15)
اس اقتباس کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شیخ صفدی کو ابن تیمیہ سے ملاقات اورمجالست حاصل ہے۔انہوں نے ان سے سوالات بھی پوچھے ہیں۔دوسرایہ کہ نحو مین وہ سبیویہ کے مقام کو قطعانہیں پہنچتے ہیں۔سبیویہ سیبویہ ہیں۔ان کی غلطیاں بیان کرناآسان کام نہیں اورجہاں تک ۸۰غلطیوں کی بات ہے توخود شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بتایانہیں کہ وہ 80غلطیاں کون کون سی ہیں۔ تاکہ دیگر لوگ بھی اس کو دیکھتے اورسمجھتے کہ غلطی واقعتاًسیبویہ کی ہی ہے یاحضرت ابن تیمیہ کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔

بہرحال یہاں حضرت ابن تیمیہ کے تعلق سے چل رہی ہے کہ وہ مخالفین پر طعن وتشنیع کرتے تھے یانہیں کرتے تھے۔
شیخ صفدی کا اس بارے میں بیان سنیں
وسمعته يَقُول عَن نجم الدّين الكاتبي الْمَعْرُوف بدبيران بِفَتْح الدَّال الْمُهْملَة وَكسر الْبَاء الْمُوَحدَة وَهُوَ الكاتبي صَاحب التواليف البديعة فِي الْمنطق فَإِذا ذكره لَا يَقُول إِلَّا دبيران بِضَم الدَّال وَفتح الْبَاء وسمعته يَقُول ابْن المنجس يُرِيد ابْن المطهّر الحلّي
(المصدرالسابق7/13)
اب کوئی بتائے کہ نام بگاڑناطعن وتشنیع میں شامل ہے یانہیں ہے۔اگرابن مطہر الحلی کو ہم چھوڑبھی دیں کہ وہ رافضی ہے تو نجم الکاتبی کا نام بگاڑناکس وجہ سے تھا؟کیااس کی اسلام میں تعلیم دی گئی ہے کہ جس سے کسی کو مخالفت ہواس کانام بگاڑاجائے یایہ تعلیم دی گئی کہ ہے تنابزبالالقاب نہ کرو اورنام بگاڑناتنابزبالالقاب میں شامل ہے یانہیں ہے؟

کفایت اللہ صاحب فرماتے ہیں
یہ بات بھی بلادلیل ہے اور اصل حقیقت یہی ہے کہ شیخ الاسلام نے امام غزالی سے اختلاف تو کیا مگر ان کی توہین قطعا نہیں کی ہے ، یہ محض ایک بہتان ہے ۔
کہیں ایساتونہیں کہ بہتان کا دعویٰ خود ایک بہتان ہے۔اورصرف جوش عقیدت میں یہ دعویٰ کردیاگیاہے۔
وَأرى أَن مادته كَانَت من كَلَام ابْن حزم حَتَّى شناعه على من خَالفه وَكَانَ مغرىً بسبّ ابْن عَرَبِيّ محيي الدّين والعفيف التلمساني وَابْن سبعين وَغَيرهم من الَّذين ينخرطون فِي سلكهم وَرُبمَا صرح بسب الْغَزالِيّ وَقَالَ هم قلاووز الفلاسفة أَو قَالَ ذَلِك عَن الإِمَام فَخر الدّين سمعته يَقُول الْغَزالِيّ فِي بعض كتبه يَقُول الرّوح من أَمر رَبِّي وَفِي بَعْضهَا يدسّ كَلَام الفلاسفة ورأيهم فِيهَا وَكَذَلِكَ الإِمَام فَخر الدّين الرَّازِيّ كَانَ كثير الحطّ عَلَيْهِ
(الوافی بالوفیات7/13)

اس میں خط کشیدہ جملے غورسے دیکھیں توساری بات نگاہ میں آجائے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ حافظ ذہبی اوران کے شاگردوں نے ان کے سوانح میں ان کے اس پہلو کو تفصیلابیان نہیں کیا بلکہ اس کی جانب صرف اشارہ کرکے گزرگئے ۔اورآج ان کے مداحین عدم ذکر کو ذکر عدم کی دلیل بنائے بیٹھے ہیں۔

اس کے بعد کفایت اللہ صاحب نے حسب عادت کچھ غیرمتعلق باتوں کو چھیڑاہے۔یہ ان کی عادت ہے کہ وہ ایسی غیرمتعلق باتوں کو چھیڑناچاہتے ہیں ۔یہ توواضح ہے کہ ابن تیمیہ اورامام غزالی کے خیالات میں بہت فرق ہے۔ورنہ وہ ان پر رد ہی کیوں کرتے۔

کفایت اللہ صاحب نے ایک اقتباس پیش کیاہے۔

واضح رہے کہ امام غزالی کے بعض عقائد بہت ہی عجیب و غریب اورقابل مواخذہ ہیں ، چند نمونے ملاحظہ ہوں:
إن لله عباداً في هذه البلدة لو دعوا على الظالمين لم يصبح على وجه الأرض ظالم إلا مات في ليلة واحدة ولكن لا يفعلون قيل لم قال لأنهم لا يحبون ما لا يحب ثم ذكر من إجابة الله تعالى أشياء لا يستطاع ذكرها حتى قال ولو سألوه أن لا يقيم الساعة لم يقمها [إحياء علوم الدين للغزالي: 4/ 356]۔
اس شہر میں اللہ کے ایسے بندے بھی ہیں کہ اگر وہ ظالموں کے خلاف بددعا کردیں تو روئے زمین کا ہرظالم شخص راتوں رات فنا ہوجائے ، لیکن وہ ایسا نہیں کرتے ، پوچھا گیا کیوں ؟ تو جواب دیا کہ : کیونکہ وہ غیر پسندیدہ چیزوں کی چاہت نہیں کرتے ، پھر اللہ کی قبولیت سے متعلق ایسی چیزوں کاذکر کیا جوناقابل ذکر ہیں ، یہاں تک کہ کہا : اگر یہ بندے اللہ سے یہ مطالبہ کریں کہ اللہ قیامت قائم نہ کرے تو اللہ قیامت قائم نہیں کرے گا۔
اس میں انہوں نے ترجمہ کی غلطی یہ کی ہے کہ
قال لأنهم لا يحبون ما لا يحب
کا ترجمہ کیاہے
کیونکہ وہ غیر پسندیدہ چیزوں کی چاہت نہیں کرتے
حالانکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ
کیونکہ وہ ایسی چیزوں کو پسند نہیں کرتے جس کو خداپسند نہیں کرتا۔
لایحب میں ضمیر کامرجع اللہ کی جانب ہے
اسکے بجائے یہ ترجمہ
کیونکہ وہ غیر پسندیدہ چیزوں کی چاہت نہیں کرتے اس لئے بھی غلط ہے کہ لایحبون جمع کا صیغہ ہے اوراس کے بعد لایحب واحد کا صیغہ ہے۔اس کو اس پر منطبق کیسے کیاجاسکتاہے؟کفایت اللہ صاحب اگربحث درست نہیں کرسکتے توکم ازکم ترجمہ ہی درست کردیاکریں جس میں ضمائر کی غلطیاں نہ ہوں۔
فالصبر على الطاعة شديد لأن النفس بطبعها تنفر عن العبودية وتشتهي الربوبية ولذلك قال بعض العارفين ما من نفس إلا وهي مضمرة ما أظهر فرعون من قوله أنا ربكم الأعلى[إحياء علوم الدين للغزالي: 4/ 70]۔
فرمانبرداری پرصبر بڑی مشکل چیز ہے کیونکہ نفس فطرتا عبادت سے متنفرہوتا ہے اورربوبیت کی چاہت کرتا ہے اسی لئے بعض عارفین نے کہا ہے کہ ہرنفس کے اندر وہ بات پوشیدہ ہے جسے فرعون نے یہ کہتے ہوئے ظاہر کیا تھا کہ میں تمہار سب سے بڑا رب ہوں۔
اس اقتباس میں راقم الحروف کو توکچھ بھی غلط نظرنہیں آرہاہے ۔اگرکوئی چیز غلط لگ رہی ہوتو کفایت اللہ صاحب واضح کردیں۔ فرعون کودعوی ربوبیت پر کس چیز نے آمادہ کیاتھاسواءےاغوائے شیطانی اورہوائے نفسانی کے۔
فمن عرف الله تعالى عرف أنه يفعل ما يشاء ولا يبالي ويحكم ما يريد ولا يخاف قرب الملائكة من غير وسيلة سابقة وأبعد إبليس من غير جريمة سالفة [إحياء علوم الدين للغزالي: 4/ 168]۔
جو اللہ کو پہچان لے اسے معلوم ہوگا کہ اللہ بغیرکسی پرواہ کے جو چاہتا ہے کرتا ہے اوربغیر کسی خوف کے جوچاہتا ہے حکم دیتاہے ، اللہ نے فرشتوں کو ان کی بغیرکسی عبادت کے مقرب بنالیا اور ابلیس کو اس کے بغیر کسی جرم کے بھگا دیا۔
یہ اقتباس بھی درست ہے۔اس میں اللہ کی بے نیازی کو بیان کیاگیاہے کہ اللہ فعال لمایرید ہے جوچاہتاہے کرتاہے۔کفایت اللہ صاحب کا ترجمہ یہ ہے اس میں انہوں نے سابقہ اورسالفہ کا ترجمہ چھوڑدیاہے۔
اللہ نے فرشتوں کو ان کی بغیرکسی سابقہ عبادت کے مقرب بنالیا اور ابلیس کو اس کے کسی گزشتہ جرم کے بغیرراندہ درگاہ قراردیا۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو جومقرب بنایاتواس مین ان کی کسی سابقہ عبادت کودخل نہیں تھا۔اوراسی طرح ابلیس کو راندہ درگاہ جوبنایاتواس میں اس کے کسی جرم کو دخل نہیں تھا۔
بظاہرایک اشکال نظرآتاہے کہ فرشتے توعبادت کرتے ہیں اورشیطان نے نافرمانی کی ہے اوراس پر نص قرآنی واضح ہے توایساکیوں۔
درحقیقت امام غزالی اس کا انکار نہیں کررہے ہیں کہ فرشتے عبادت کرتے ہیں اورشیطان نے حکم الہی کی نافرمانی کی ہے بلکہ امام غزالی کا کلام علم الہی کے تعلق سے ہے۔ کہ فرشتوں کی عبادت سے پہلے علم الہی میں یہ بات موجود تھی کہ فرشتے عبادت کریں گے اورعلم الہی میں شیطان کی نافرمانی سے قبل یہ بات موجود تھی کہ شیطان نافرمانی کرے گا۔لہذا اس تعلق سے امام غزالی کہتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرشتوں کو بغیرکسی عبادت کے مقرب بنالیایعنی اس وقت تک ان سے عبادت کاظہور نہیں ہواتھا اورشیطان کو بغیر کسی جرم کے راندہ درگاہ کردیا یعنی اس وقت تک اس نے نافرمانی نہیں کی تھی۔
ہماری اس تاویل پر خود امام غزالی کے اس اقتباس میں موجود سابقہ اورسالفۃ کا جملہ دلالت کررہاہے۔
امید ہے کہ ان کو امام غزالی کے قول کا صحیح محمل ومطلب معلوم ہوگیاہے۔
ویسے حضرت شاہ عبدالعزیز کے نواسے مولانا اسماعیل صاحب نے تقویۃ الایمان میں لکھاہے جس کامفہوم یہ ہے کہ اللہ کے مقابلہ میں تمام مقرب رسول فرشتے وغیرہ ایک چمارسے بھی زیادہ ذلیل ہیں تواگرچہ یہ بات کسی نص قرآنی میں نہیں ملتی اورنہ ہی کسی حدیث میں ملتی ہے لیکن اس کا جومفہوم ہے یعنی خدا کی بے نیازی اورخداکے مقابلہ میں تمام مخلوقات کاعجزاس کی روح قرآن میں بھی موجود ہے اوراحادیث میں بھی۔
اسی طرح امام غزالی کی یہ بات اگرچہ قرآن وحدیث میں نہیں ملتی لیکن اس کی جوروح ہے یعنی خدا کی مخلوقات سے بے نیازی اورخدااپنی مخلوقات پر جوکچھ فضل فرماتاہے وہ محض اس کا احسان ہے بندوں کی اطاعات اورعبادات کواس میں دخل نہیں ۔یہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔
عباراتناشتی وحسنک واحد
وکل الی ذاک الجمال یشیر​
یہ ساری باتیں امام غزالی کی صرف ایک کتاب ’’الاحیا ‘‘ میں موجود ہیں ، اس کتاب میں اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں بعض باتوں کو خود امام غزالی نے پیش کیا اوربعض باتوں کو دیگر گمراہ لوگوں سے برضاء ورغبت نقل کیا ، اب اگر شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اس طرح کی باتوں کی تردید کردی تو کیا یہ امام غزالی کی توہین ہے؟؟؟؟؟؟؟؟
تنقید اورسب وشتم میں بہرحال فرق موجود ہے۔اوریہ ہرصاحب عقل کو واضح طورپر نظرآتی ہے۔ایک مثال لیں مولانا مودودی نے خلافت وملوکیت لکھی اس کے رد میں جوبیشتر کتابیں لکھی گئیں اس مین سب وشتم کا انداز ہے کچھ ہی کتابیں اس سے مستثنی قراردی جاسکتی ہیں۔اگرامام غزالی پر ابن تیمیہ سب وشتم نہ کرتے توصفدی کو یہ لکھنے کی ضرورت کیاتھی وَرُبمَا صرح بسب الْغَزالِيّجب کہ صفدی خود امام ابن تیمیہ کے مداحین میں سے ہیں۔ اس سلسلے میں الوافی بالوفیات میں ان کے تعریفی کلمات درباب مدح ابن تیمیہ دیکھے جاسکتے ہیں۔ویسے توکفایت اللہ صاحب کے اعتبار سے یہ ابن تیمیہ کی امام غزالی کے خلاف سازش ہونی چاہئے تھی کیونکہ وہ تنقید کو سازش کے مفہوم میں لیتے ہیں۔
اگر تردید ہی توہین ہے تو جمشید صاحب بتلائیں کہ امام غزالی کی ان باتوں سے متعلق ان کا کیا موقف ہے؟؟؟؟؟ویسے ان کے بزرگوں کا کیاموقف ہے یہ ہمیں معلوم ہے۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے اپناموقف بحمداللہ بیان کردیاہے۔ہمارے بزرگوں کے تعلق سے ان کو کیاموقف معلوم ہے وہ انہی کومعلوم ہے کیونکہ اپنی باتیں وہ خود سمجھتے ہیں یاپھر خداسمجھتاہے۔
مگراپناکہاوہ آپ سمجھیں یاخداسمجھے۔
ذرج ذیل لنک بھی دیکھ لئے جائیں:
ما أفضل كتاب يبين (أخطاء)أبي حامد الغزالي - ملتقى أهل الحديث
أرجو رفع كتب تتكلم عن الغزالي تبين أخطاءه - ملتقى أهل الحديث​
اپ کے ان پیش کردہ حوالہ جات پر مختصرااوراجمالاًعرض ہے کہ ملتقی اھل الحدیث فورم والے کس خیالات اورعقائد کے حامل وحامی ہیں وہ ہمیں بھی معلوم ہے او رآپ کو ۔لہذا ان کی باتیں نہ سند کادرجہ رکھتی ہیں نہ استناد کا۔ خود امام غزالی کے تعلق سے اگرکچھ جانناہوتو ان کی کوئی معتبر سوانح پڑھ لیں اوردیکھیں کہ بڑے بڑے محدثین شافعیہ اورفقہاء کس طرح ان کی تعریف اورمدح وثناء میں رطب اللسان ہیں۔آج کل کے خودرو افراد کی باتیں اگردرجہ استناد رکھتی ہیں توان سے کہیں زیادہ ماقبل کے لوگوں کی باتیں درجہ استناد رکھتی ہیں۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
بقول امام غزالی ابوحنیفہ مجتہد نہیں تھے۔؂
أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الطوسي (المتوفى: 505) نے کہا:
وأما مالك فكان من المجتهدين نعم له زلل في الاسترسال على المصالح وتقديم عمل علماء المدينة وله وجه كما ذكرناه من قبل وأما أبو حنيفة فلم يكن مجتهدا لأنه كان لا يعرف اللغة وعليه يدل قوله ولو رماه بأبو قبيس وكان لا يعرف الأحاديث ولهذا ضري بقبول الأحاديث الضعيفة ورد الصحيح منها ( المنخول من تعليقات الأصول ص: 581)
میرے خیال سے احناف کو امام غزالی کی اس بات کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے اور اگر امام غزالی کی اس بات کا انکار کردیا جائے تو امام غزالی کی شان میں بڑی گستاخی ہوگی۔
ویسے یہ امر قابل تعجب ہے کہ بات چل رہی ہے کہ ابن تیمیہ نے امام غزالی کو برابھلاکہااورکفایت اللہ صاحب پیش کررہے ہیں کہ غزالی نے امام ابوحنیفہ کو غیرمجتہد کہا۔ اس کا صاف اورسیدھامطلب یہی ہے کہ ان کے پاس اپنے ممدوح کے دفاع میں کہنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔اگران کے پاس اپنے ممدوح کے دفاع میں کہنے کیلئے کوئی قابل قدر بات ہوتی تو وہ اس کو پیش کرتے نہ کہ یہ غیرمتعلق بحث چھیڑتے ۔لیکن جب انہوں نے یہ بحث چھیڑہی دی ہے توپھر ضروری ہے کہ اس کا شافی وصافی جواب دے دیاجائے۔شاید اسی طرح کے شبہ کے شکار کسی شخص کو اوراسی قسم کے وسوسہ کے کسی مریض کو کوئی افاقہ ہوجائے۔وماعلیناالاالبلاغ

کفایت اللہ صاحب اس امر سے توبخوبی واقف ہوں گے کہ الاعتبار بالخواتیم یعنی اعتبار آخری امر کاہوتاہے۔امام غزالی کی یہ کتاب جس میں یہ عبارت موجود ہےان کے ابتدائے شباب کی ہے جب وہ عزوجاہ کے نشہ میں سرشار تھے اوراصل علم کی حقیقت جوتواضع اورفروتنی ہے اس سے کوسوں دور تھے۔لیکن اللہ نے ان پر کرم فرمایا اوران کو اپنی رضاکاراستہ دکھایاجس کی تفصیلات خود امام غزالی نے المنقذ من الضلال میں تفصیل سے بیان کردی ہیں۔
ان کے شاگرد شیخ عبدالغافر کہتے ہیں۔
ولقد زرته مرارًا، وما كنت أَحْدُسُ فِي نَفْسِي مَعَ مَا عَهِدْتُه عَلَيْهِ مِنَ الزَّعَارَّة وَالنَّظَر إِلَى النَّاسِ بعينِ الاسْتخفَاف كِبراً وَخُيَلاَءَ، وَاعتزَازاً بِمَا رُزِقَ مِنَ البسطَة، والنطق، والذهن، وطلب العلو؛ أنه صار إلى الضِّدِّ، وَتَصفَّى عَنْ تِلْكَ الكُدورَات، وَكُنْتُ أَظنُّه متلفعاً بجلبَاب التَّكلُّف، مُتنمِّساً بِمَا صَارَ إِلَيْهِ، فَتحقَّقت بَعْد السَّبْرِ وَالتَّنْقِيْرِ أَنَّ الأَمْر عَلَى خِلاَف المَظنُوْنِ، وَأَنَّ الرَّجُل أَفَاق بَعْدَ الجُنُوْنِ،
(سیر اعلام النبلاء 14/268)
لہذا اس زمانہ میں اگر وہ کچھ کہتے ہیں تو یہ ان کی ابتدائی بات ہے۔اعتبار اس کلام کاہوگاجس پر ان کا انتقال ہواہے۔اگرکسی کو تفصیلات کا شوق ہے تو وہ المنقذ من الضلال پڑھ لے ۔اگرعربی نہیں آتی تو پھر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے تاریخ دعوت وعزیمت مین ایک حد تک اس کا خلاصہ کردیاہے اس کوبھی دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان سے بھی یہ کتاب ترجمہ ہوکر چھپ چکی ہے۔ میرے پاس اس کاپی ڈی ایف ورژن موجود ہے لیکن فی الحال اس کا لنک معلوم کرنا اورربط دینامشکل ہے ۔تفصیلات کے شائقین خود تھوڑی زحمت برداشت کریں۔

یاد رہے کہ ان کے اسی موقف کے تعلق سے بعض علماء نے سنجر کے دربار میں امام غزالی پر اعتراض کیاتھاکہ انہوں نے امام اعظم علیہ الرحمہ کی شان میں نازیباالفاظ کہے ہیں۔علماء مخالفین نے سنجر کے دربار میں ان کی شکایت کی ۔سنجر بذات خود صاحب علم نہ تھاکہ بدگویوں کی شکایات کا خود فیصلہ کرسکتا ۔علماء نے جوکچھ کہااس نے یقین کرلیااورامام غزالی کودربار مین حاضر ہونے کا حکم صادر کردیا۔
امام غزالی کے سامنے دومشکل تھی۔ ایک تویہ کہ وہ اپنے ریاضت ومجاہدہ کے عہد میں جب بیت المقدس میں تھے یہ عہد کرلیاتھاکہ کبھی وہ دربار نہیں جائیں گے اوردوسری طرف بادشاہ کے حکم کی پاسداری بھی مطلوب تھی۔اس لئے امام غزالی مشہد رضا تک گئے اوروہاں ٹھہر کر سلطان کو زبان فارسی میں ایک مفصل خط لکھا جس میں اس کو نصیحتیں بھی کیں۔اس خط کو پڑھ کر سلطان ان کی زبارت کا مشتاق ہوا اوراس نے درباریوں سے کہاکہ میں چاہتاہوں کہ رودررو باتیں کرکے ان کے عقائد اورخیالات سے واقفیت حاصل کروں۔سنجر نے معین الملک کو امام صاحب کی حاضری کا حکم دیا۔ امام صاحب ناچار لشکر گاہ میں آگءے اورمعین الملک سے ملے۔سنجر کے دربار تک تشریف لے گئے۔اوردربار مین سنجر سے خطاب کیا اورایک طویل تقریر کی۔ جو ان کے مکاتبات میں درج ہے۔
گفتگو کے خاتمہ پر کہاکہ مجھ کو دوباتیں کرنی ہیں۔
ایک یہ کہ طوس کے لوگ پہلے ہی بدانتظامی اورظلم کی وجہ سے تباہ تھے اب سردی اورقحط کی وجہ سے بالکل برباد ہوگئے ہیں۔ ان پر رحم کر خداتجھ پر بھی رحم کرے گا۔ افسوس مسلمانوں کی گردنیں مصیبت اورتکلیف سے ٹوٹی جاتی ہیں اورتیرے گھوڑوں کی گردنیں طوقہاے زریں کے بارسے۔
دوسرے یہ کہ میں بارہ برس گوشہ نشیں رہا پھر فخرالملک نے یہاں آنے کیلئے اصرار کیا میں نے کہایہ وہ وقت ہے کہ کوئی شخص ایک بات بھی سچ کہناچاہے تو زمانے کا زمانہ ان کا دشمن بن جاتاہے۔ لیکن فخرالملک نے نہ مانا اورکہاکہ بادشاہ وقت نہایت عادل اوراگرکوئی خلاف بات ہوگی تو میں سینہ سپر ہوں گا۔
میری نسبت جو مشہور کیاجاتاہے کہ میں نے امام ابوحنیفہ پر طعن کئے ہیں۔ محض غلط ہے۔ امام ابوحنیفہ کی نسبت میرااعتقاد وہی ہے جو میں نے کتاب احیاء العلوم میں لکھاہے اورمیں ان کو فن فقہ میں انتخاب روزگار خیال کرتاہوں۔

(مکاتبات غزالی،بحوالہ الغزالی )

اگرچہ یہ ایک حوالہ ہی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ امام ابوحنیفہ کی نسبت امام غزالی کااعتقاد کیاتھا۔

ویسے یہ بات نہایت حیرت کی ہے کہ امام غزالی تو امام ابوحنیفہ کا اصول فقہ کی کتابوں میں ذکر کرتے ہیں لیکن اگرکسی کا ذکر نہیں کرتے تو وہ امام احمد بن حنبل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کہاجاتاہے کہ امام غزالی کے نزدیک امام احمد بن حنبل مجتہد نہیں تھے یہی وجہ ہے ان کا انہوں نے بطورخلاف کبھی اپنی کتابوں میں ذکر نہیں کیا۔

امام غزالی نے امام ابوحنیفہ کا تذکرہ کہاں کہاں کیاہے آئیے مکتبہ شاملہ کی مدد سے اس کی کچھ تفصیلات معلوم کرتے چلیں تاکہ فکر ونظرکو آگہی ملے ۔

وأما أبو حنيفة رحمه الله تعالى فلقد كان أيضاً عابداً زاهداً بالله تعالى خائفاً منه مريداً وجه الله تعالى بعلمه فأما كونه عابداً فيعرف بما روي عن ابن المبارك أنه قال كان أبو حنيفة رحمه الله له مروءة وكثرة صلاة
وروى حماد بن أبي سليمان أنه كان يحيي الليل كله
وروي أنه كان يحيي نصف الليل فمر يوماً في طريق فأشار إليه إنسان وهو يمشي فقال لآخر هذا هو الذي يحيي الليل كله فلم يزل بعد ذلك يحيي الليل كله وقال أنا أستحي من الله سبحانهأن أوصف بما ليس في من عبادته
وأما زهده فقد روي عن الربيع بن عاصم قال أرسلني يزيد بن عمر بن هبيرة فقدمت بأبي حنيفة عليه فأراده أن يكون حاكماً على بيت المال فأبى فضربه عشرين سوطاً
فانظر كيف هرب من الولاية واحتمل العذاب قال الحكم بن هشام الثقفي حدثت بالشام حديثاً في أبي حنيفة أنه كان من أعظم الناس أمانة وأراده السلطان على أن يتولى مفاتيح خزائنه أو يضرب ظهره فاختار عذابهم له على عذاب الله تعالى
وروي أنه ذكر أبو حنيفة عند ابن المبارك فقال أتذكرون رجلاً عرضت عليه الدنيا بحذافيرها ففر منها
وروي عن محمد بن شجاع عن بعض أصحابه أنه قيل لأبي حنيفة قد أمر لك أمير المؤمنين أبو جعفر المنصور بعشرة آلاف درهم قال فما رضي أبو حنيفة قال فلما كان اليوم الذي توقع أن يؤتى بالمال فيه صلى الصبح ثم تغشى بثوبه فلم يتكلم فجاء رسول الحسن بن قحطبة بالمال فدخل عليه فلم يكلمه فقال بعض من حضر ما يكلمنا إلا بالكلمة بعد الكلمة أي هذه عادته فقال ضعوا المال في هذا الجراب في زاوية البيت ثم أوصى أبو حنيفة بعد ذلك بمتاع بيته وقال لابنه إذا مت ودفنتموني فخذ هذه البدرة واذهب بها إلى الحسن ابن قحطبة فقل له خذ وديعتك التي أودعتها أبا حنيفة
قال ابنه ففعلت ذلك فقال الحسن رحمة الله على أبيك فلقد كان شحيحاً على دينه
وروي أنه دعي إلى ولاية القضاء فقال أنا لا أصلح لهذا فقيل له لم فقال إن كنت صادقاً فما أصلح لها وإن كنت كاذباً فالكاذب لا يصلح للقضاء
وأما علمه بطريق الآخرة وطريق أمور الدين ومعرفته بالله عز وجل فيدل عليه شدة خوفه من الله تعالى وزهده في الدنيا وقد قال ابن جريج قد بلغني عن كوفيكم هذا النعمان بن ثابت أنه شديد الخوف لله تعالى
وقال شريك النخعي كان أبو حنيفة طويل الصمت دائم الفكر قليل المحادثة للناس فهذا من أوضح الأمارات على العلم الباطني والاشتغال بمهمات الدين فمن أوتي الصمت والزهد فقد أوتي العلم كله فهذه نبذة من أحوال الأئمة الثلاثة
(احیاء علوم الدین1/28)

اس کو دیکھئے اورمنخول کی عبارت دیکھئے دونوں میں زمین وآسمان کا فرق نظرآئے گا۔اس کے علاوہ احیاء علوم الدین میں دیگرمقامات پر بھی فقہی مسائل میں امام ابوحنیفہ کا ذکر کیاہے اگروہ مجتہدنہ تھے توفقہی مسائل ان کااوران کے قول کاذکر کرنے کی کیاضرورت رہ جاتی ہے۔اورجہاں کہیں ذکر کیاہے رحمہ اللہ تواکثر جگہ ہے متعدد جگہوں پر رضی اللہ عنہ بھی لکھتے چلے گئے ہیں۔

المستصفی جو فقہ شافعی میں اصول فقہ کی مایہ ناز کتاب ہے اس میں 19مقام پر امام ابوحنیفہ کا خلافیات مین ذکر ہے۔اگر وہ مجتہد نہیں تھے توان کا ذکرکرنے کی ضرورت کیاہوجاتی ہے۔اسی طرح الوسیط جو ان کی فقہ شافعی کے متن میں بہترین کتاب ہے اس میں 260مقام پرامام ابوحنیفہ کا ذکر موجود ہے۔اگروہ مجتہد نہیں تھے تواتنازیادہ ان کے تذکرہ کی کیاضرورت تھی۔

اگرکفایت اللہ صاحب کہیں کہ تردید کیلئے ذکر کیاتوتردید بھی اسی کی ہوتی ہے جواس کا اہل ہو جومجتہد اورفقیہہ نہ ہواس کا قطعاذکر ہی نہیں کیاجاتاہے جیسے امام غزالی نے الوسیط اورالمستصفی میں امام بخاری کا قطعاخلافیات میں ذکر نہیں کیا۔اس کا مطلب کفایت اللہ صاحب تواچھی طرح سمجھتے ہوں گے۔اورامام غزالی پر کیامنحصر ہے خود ان کے عزیز ترین شاگرد امام ترمذی حدیث کے عقب میں مجتہدین کے اقوال بیان کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کا ذکر بعنوان اہل الکوفہ کرتے ہیں لیکن اپنے استاد محترم کا کہیں بھی ذکرنہیں کیااس سے کیاسمجھ میں آتاہے۔یاکسی کو بھی دیکھ لیں جس نے خلافیات پرلکھاہے کہیں بھی امام بخاری کے خلافیات کو اہتمام سے ذکرکیاہے سوائے شراحان صحیح بخاری کے۔

لأنه كان لا يعرف اللغة وعليه يدل قوله ولو رماه بأبو قبيس
اولاتو ماقبل میں جوکچھ ہم لکھ چکے ہیں وہ اس کی تردید کیلئے بہت ہی کافی ہے۔
اس کی تردید مین ہم مزید وقت ضائع کرنے کے بجائے مناسب سمجھتے ہیں کہ امام غزالی کا خود ایک اعتراف نامہ سامنے رکھ دیں تاکہ ہرایک کو پتہ چل جائے کہ ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنانکل آیا۔
قَالَ: وَمِمَّا كَانَ يُعترض بِهِ عَلَيْهِ وُقوعُ خللٍ مِنْ جِهَةِ النَّحْو فِي أَثْنَاء كلاَمِه، وَرُوجِعَ فِيْهِ،أَنِصْف، وَاعْتَرف أَنَّهُ مَا مَارسه، وَاكتفَى بِمَا كَانَ يَحتَاج إِلَيْهِ فِي كلاَمه، مَعَ أَنَّهُ كَانَ يُؤَلِّفُ الخُطب، وَيَشرحُ الكُتُبَ بِالعبَارَة الَّتِي يَعْجِزُ الأَدبَاءُ وَالفُصحَاءُ عَنْ أَمْثَالِهَا.
(سیر اعلام النبلاء 14/269)
امام غزالی کا اپناخود کااعتراف ہے کہ وہ نحوی اعتبار سے کمزور تھے ان کے کلام میں نحو کی غلطیاں ہوجاتی تھیں اوران کو خود بھی اس کااعتراف تھالہذا اگرانہوں نے امام ابوحنیفہ پر عربی زبان سے عدم واقفیت کاالزام لگایاہے تویہ ایسے شخص کا الزام ہے جسے خود عربی زبان اورنحو میں کمال تفوق حاصل نہیں ہے اورکفایت اللہ صاحب کویاد ہوگاکہ جب ہم نے ابن تیمیہ کی حدت مزاجی میں علامہ شبلی نعمانی کی مثال پیش کی تھی تو ان کو بڑاجلال آگیاتھا اوروہ خدا سے پناہ کے طلبگار ہوگئے تھے۔لہذا وہ اسی اصول پر یہاں بھی خدا کی پناہ طلب کریں کہ جب امام غزالی کو خود یہ اعتراف ہے کہ ان کو عربی زبان اورنحو میں کمال درجہ کی قدرت حاصل نہیں ہے توان کے اعتراض کی کیاتک رہ جاتی ہے۔ویسے بھی یہ ان کے ابتدائی زمانہ کا الزام تھا جس کو ان کے بعد کے اعترافات نے دھودیاہے۔اس سلسلے میں جس کو مزید تشفی مطلوب ہو وہ تانیب الخطیب کا مطالعہ کریں۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
از۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جمشید

کتاب اللہ کی مخالفت والی بات کا جواب تو مفصل دیا جاچکاہے ، یہاں آپ نے جگرکی ناپ تول بھی شروع کردی اس لئے اس کے تعلق سے بھی ہم کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتےہیں۔
لگتاہے کہ کفایت اللہ صاحب کویہ بات بہت بڑی لگی ہے اورانہوں نے فوراًامام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا دامن تھام لیاہے لیکن کیاکیجئے یہ ان کے اصول کے مطابق ہم نے محض مورخین کی باتوں کو پیش کیاتھا۔جیساکہ وہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے ذکرمیں سفیان ثوری کی جانب منسوب ایک قول ضال ومضل کا پیش کیاتھا۔اورصفائی دی تھی کہ یہ بات میری نہیں سفیان ثوری کی ہے۔

سفیان ثوری اورامام ابوحنیفہ کے تعلق سے ایک وضاحت

اگربالفرض یہ بات سفیان ثوری کی بھی ہوتوبھی یہ بات اس وقت کی ہوگی جب ان کا ذہن اوردل امام ابوحنیفہ کے تعلق سے صاف نہیں تھا اورامام ابوحنیفہ کے خلاف کئے گئے محدثین کی الزام تراشیوں کی انہوں نے بذات خود تحقیق نہیں کی تھی لیکن اس سلسلے میں جب ان سے ایک شخص نے جاکر بالمشافہہ بات کی توانہوں نے اپنے قول اوراپنی باتوں سے رجوع کرلیااورمعاملہ کو خداکے سپرد کردیا۔

خطیب بغدادی تاریخ بغداد میں لکھتے ہیں

أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِيد مُحَمَّد بن موسى بن الفضل الصَّيْرَفِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو العَبَّاس مُحَمَّد بن يَعْقُوب الأصم، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إِسْحَاق الصاغاني، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بن معين، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْد بن أبي قرة، يَقُولُ: سَمِعْتُ يَحْيَى بن ضريس، يَقُولُ: شهدت سُفْيَان وأتاه رجل، فَقَالَ لَهُ: ما تنقم عَلَى أَبِي حنيفة؟ قَالَ: وما لَهُ؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: آخذ بكتاب الله، فما لم أجد فبسنة رَسُول الله، فإن لم أجد في كتاب الله ولا سنة رَسُول الله، أخذت بقول أصحابه، آخذ بقول من شئت منهم، وأدع من شئت منهم، ولا أخرج من قولهم إلى قول غيرهم، فَأَمَّا إِذَا انتهى الأمر، أَوْ جاء إلى إِبْرَاهِيم، وَالشَّعْبِيّ، وابن سيرين، وَالحَسَن، وعطاء، وَسَعِيد بن المسيب، وعدد رجالا، فقوم اجتهدوا فأجتهد كما اجتهدوا، قَالَ: فسكت سُفْيَان طويلا ثُمَّ قَالَ كلمات برأيه ما بقي في المجلس أحد إِلا كتبه: نسمع الشديد من الحديث فنخافه، ونسمع اللين فنرجوه، ولا نحاسب الأحياء، ولا نقضي على الأموات، نسلم ما سمعنا، ونكل ما لا نعلم إلى عالمه، ونتهم رأينا لرأيهم.
تاریخ بغداد15/504سندہ صحیح

اس روایت سے مستفاد ہوتاہے

1کہ حضرت سفیان ثوری امام ابوحنیفہ پر نکتہ چینی کرتے تھے لیکن یہ نکتہ چینی جن بنیادپرہوتی تھی وہ سنی سنائی باتیں تھیں یہی وجہ ہے کہ اس شخص کو کہناپڑامانتقم علی ابی حنیفۃ آپ کس وجہ سے نکتہ چینی کرتے ہیں۔ پھر اس شخص نے بیان کیاکہ ہم نے ابوحنیفہ کے ایسے اقوال سنے ہیں ۔بعض دیگر طرق میں اس کی بھی وضاحت ہے کہ مذکورہ شخص علم اورعبادت میں مشہور ومعروف تھا۔

2اس شخص کی بات سن کر سفیان ثوری نے یہ نہیں کہاکہ تم نے ایساسناہے تومیں نے ایساسناہے بلکہ طویل خاموشی کے بعد وہی بات کہی جو عقل اورانصاف کاتقاضاہے اس میں بھی انہوں نے یہ کہاکہ نسمع الشدید من الحدیث ونسمع اللین اس میں بھی اس کی وضاحت نہیں ہے کہ وہ باتیں براہ راست امام ابوحنیفہ سے سنی ہوتی تھیں ۔

پھرآخر میں سفیان ثوری نے یہ بھی کہاکہ ونتھم راینالرایہم ۔ہم اپنی رائے ان کی رائے کی وجہ سے متہم سمجھتے ہیں یعنی اب تک جوکچھ کہاتھا وہ نسیامنسیاسمجھاجائے اوراب جب انہوں نے اپنے اصول کی وضاحت کردی ہے توسابقہ جروحات کو کالعدم ماناجائے۔

ایسالگتاہے کہ بعد میں حضرت سفیان ثوری اورامام ابوحنیفہ کے تعلقات بہترہوگئے تھے اوردونوں ایک دوسرے کے علم وفضل کا اعتراف کرنے لگے۔

أَخْبَرَنَا الخلال، قَالَ: أَخْبَرَنَا الحريري أن النخعي، حدثهم قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَر بن شهاب العبدي، قَالَ: حَدَّثَنَا جندل بن والق، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّد بن بشر، قال: كنت أختلف إلى أبي حنيفة، وإلى سفيان، فآتي أبا حنيفة، فيقول لي: من أين جئت؟ فأقول: من عند سفيان، فيقول: لقد جئت من عند رجل لو أن علقمة والأسود حضرا لاحتاجا إلى مثله، فآتي سفيان، فيقول لي: من أين جئت؟ فأقول: من عند أبي حنيفة، فيقول: لقد جئت من عند أفقه أهل الأرض
تاریخ بغداد 15/471اسنادہ صحیح ورجالہ ثقات
میرے خیال سے یہاں تک کی بحث پر ایک کفایت اللہ صاحب سنجیدگی سے غورکریں توانہیں معلوم ہوجائے گاسفیان ثوری کا موقف جووہ اب بیان کرتے ہیں وہ سفیان ثوری کا سابقہ موقف تھا۔

جمشید صاحب بے سروپا باتوں کو بنیاد بنا کر شیخ الاسلام کا جگر تول رہے ہیں ، کیا خیال ہے اگر ہم بھی بے سرو پا نہیں بلکہ ثابت شدہ باتوں کی بنیاد پر ابوحنیفہ کے جگر کا جائزہ پیش کردیں ، تو ملاحظہ ہو:
کچھ افراد ثابت شدہ کی حقیقت نہیں سمجھتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ بس سند صحیح ہے توہرچیز درست ہے اوران کی یہ سند پرستی ان کو لے ڈوبتی ہے اوراسی وجہ سے بسااوقات اضحوکہ پیش آتے ہیں جیساکہ ابن حزم کی ظاہرپرستی میں غلو نے ان کو اضحوکہ میں مبتلاکردیا۔تفصیل کیلئے لایغسلن احدکم فی الماء الراکد والی حدیث میں ان کی تشریحات پڑھ لی جائیں۔
سند کی ظاہرپرستی یہ ہے کہ انسان ظاہر سند کو دیکھے اورفیصلہ کرلے اورخارجی واقعات قرائن،شہادات سب کو بالکلیہ نظرانداز کردے۔
سند کی بوالعجبیوں کے کچھ احوال دکھاتاہوں کہ ایک چیز جو ظاہر نگاہ میں قطعاغلط ہے لیکن سند اس کی صحیح ہے کیااس کو تسلیم کیاجاسکتاہے ۔
امام ابویوسف امام ابوحنیفہ کے شاگرد ہیں۔ زندگی بھر ان کی خدمت میں رہے۔خود امام ابوحنیفہ نے صرف علمی ہی نہیں بلکہ مالی طورپربھی ان کی مدد کی ۔وہ بھی ساری زندگی امام ابوحنیفہ کے خوشہ چیں رہے اورکہتے رہے کہ میں والدین سے پہلے امام ابوحنیفہ کیلئے دعاکرتاہوں۔انہوں نے فقہ حنفی کو پوری دنیامیں پھیلایااورفروغ دیا۔

دیکھئے سند صحیح سے کچھ بوالعجبیاں

حَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ سَلْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَأَلْتُ أَبَا يُوسُفَ وَهُوَ بِجُرْجَانَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، فَقَالَ: «وَمَا تَصْنَعُ بِهِ مَاتَ جَهْمِيًّا»
ایک شخص اگرسند پرست ہے توفوراسند دیکھ کر فیصلہ کرے گاکہ واقعہ ایساہی ہے۔امام ابوحنیفہ کی موت جہمی عقائد پر ہوئی تھی (جیساکہ ندوہ کوبدنام کنندہ رئیس ندوی نے لمحات میں لکھنے کی کوشش کی تھی لیکن چند سلفیوں نے اسے اس سے باز رکھا۔ویسے لکھ بھی دیتے توکیافرق پڑتا ۔اورجنہوں نے لکھاہے ان کے لکھنے سے ہی کیافرق پڑاہے۔)لیکن ایک شخص جس کو خدانے عقل وفہم کی دولت سے نوازاہے اوروہ اس کااستعمال بھی جانتاہے وہ ٹھٹکے گاسوچے گاکہ اگربات یہی تھی تو امام ابویوسف کو اپنی پوری زندگی امام ابوحنیفہ سے اس قدرشیفتگی اورگرویدگی کی ضرورت کیاتھی۔پھرکیوں انہوں نے فقہ حنفی کی خدمت میں اپنی پوری عمر گزاردی ۔کیوں اس کی نشرواشاعت کاکام کیا۔

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَسَنِ بْنِ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ أَبِي يُوسُفَ، قَالَ " أَوَّلُ مَنْ قَالَ: الْقُرْآنُ مَخْلُوقٌ أَبُو حَنِيفَةَ "

سندپرستوں کیلئے اتناہی کافی ہوگاجیساکہ بدنام زمانہ تصنیف نشرالصحیفہ میں الوادعی نے بھی لکھاہے لیکن جس کو خدانےعقل وفہم کی دولت دی ہے اورتاریخ پڑھ رکھی ہے وہ سمجھے گاکہ اولیت کی نسبت امام ابوحنیفہ کی جانب کرناصراحتاکذب ہے اورامام ابویوسف کی زبان سے ایساکرناکذب بالائے کذب ہے۔

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْوَرَّاقُ، نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ بَشَّارٍ، ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: " مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَجْرَأَ عَلَى اللَّهِ مِنْ أَبِي حَنِيفَةَ، أَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ خُرَاسَانَ فَقَالَ: جِئْتُكَ عَلَى أَلْفٍ [ص:216] بِمِائَةِ أَلْفِ مَسْأَلَةٍ أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلُكَ عَنْهَا، فَقَالَ: هَاتِهَا، قَالَ سُفْيَانُ: فَهَلْ رَأَيْتُمْ أَحَدًا أَجْرَأَ عَلَى اللَّهِ مِنْ هَذَا؟
معلمی نے تنکیل میں بڑی کوشش کی ہے کہ اس کو ثابت ماناجائے لیکن سند سے قطع نظر اس کا متن ہی اتنابڑااعجوبہ ہے کہ اس پر سوائے تف کرنے کے اورکیاکیاجاسکتاہے۔
ایک شخص خراسان سے آتاہے اورلاکھ کے برابر سوالات پوچھنے آتاہےاورامام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اپنے سوالات پیش کرو،اگرکسی شخص نے ائمہ فقہ سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات کتابوں میں دیکھے ہیں تو وہ اس سوال کی لغویت سمجھ سکتاہے۔امام مالک کے مدونہ اوردوسرے کتب مسائل کے تمام مسائل کو اکٹھاکیاجائے تو وہ کتنے ہوں گے۔ امام شافعی کے تمام مسائل جو ان کی کتابوں میں یادوسری تالیفات میں ان سے منسوب ہیں ان کو جوڑاجائے تو وہ کتنے ہوں گے اورخودامام ابوحنیفہ کے تمام مسائل جوکتب فقہ حنفی میں بکھڑے پڑے ہیں ۔ان کو جوڑاجائے تو وہ کتنے ہوں گے؟
لیکن سند پرستی کاحال یہ ہے کہ اس کوبھی لوگ ثابت شدہ مانتے ہیں ۔
یہ توہی مثال ہوگئی کہ اگرکسی سے کہاجائے کہ کواتمہاراکان لے گیا تو وہ خود سے اپناکان چھوکردیکھنے کے بجائے اس پر یقین کرلے اوراگرکوئی کہے کہ بھائی تمہاری کان سالم ہے کوانہیں لے گیاتوہ کہے کہنے والابڑاثقہ تھا یاسند اس کی درست تھی اس لئے اس کو مانے بغیر چارہ کارنہیں ہے۔
اس لطیفہ سے ملتاجلتاایک دوسرالطیفہ بھی پیش کردوں کہ
ایک مریض کے بارے میں ڈاکٹر نے اس کی بیوی سے کہاکہ آپ کے شوہر کی موت ہوگئی ۔بے چارے مریض نے آنکھ کھول کرکہاکہ ڈاکٹرصاحب میں زندہ ہوں توبیوی نے ڈپٹ کرکہااجی چپ رہوتم۔ڈاکٹر صاحب زیادہ جانتے ہیں۔
جب لطیفوں کی بات چل نکلی ہے تومزید ایک لطیفہ ملاحظہ فرمالیں۔ اصلایہ لطیفہ ایک محاضرہ میں سناتھا جس میں مسلمانوں کے زوال علم اورپستی تحقیق کا شکوہ ہے لیکن موقع کی مناسبت سے یہاں بھی پیش کیاجارہاہے۔
اگرکسی کو برالگے توپیشگی معذرت!
ایک جگہ ایک یہودی ایک عیسائی اورایک مسلمان کا سربک رہاتھا۔یہودی کی کھوپڑی کی قیمت دس ہزار،عیسائی کی کھوپڑی کی قیمت پچاس ہزار اورمسلمان کی کھوپڑی کی قیمت ایک لاکھ تھی۔ کسی نے پوچھاکہ یہودی ذہانت میں مشہور ہیں پھراس کی کھوپڑی کی قیمت اتنی کم کیوں اورمسلمانوں سے ایجادات وغیرہ بھی کچھ زیادہ منسوب نہیں ہیں پھرا سکی قیمت اس قدر زیادہ کیوں؟جواب دیاگیاکہ یہودی نے دنیاہی میں اپنی پوری ذہانت اورعقل خرچ کردی اب اس میں کچھ زیادہ بچانہیں ہے۔ عیسائی نے اپنی نصف عقل استعمال کی ہے اورمسلمان نے کچھ بھی استعمال نہیں کیاہے اس لئے اس کی قیمت اس قدر زیادہ ہے۔
لگتاہے کہ وہ عقل کسی ایسے شخص کی ہوگی جو سند کے رجال پر لکھاگیاثقہ لفظ دیکھ کر ہرچیز بھول جاتاہوگا اوراس کے سامنے عقل کے استعمال کی کبھی زحمت محسوس نہیں کرتاہوگا۔

اس تمہید کے بعد آیے اب سنتے ہیں سند صحیح کی کچھ خرافات
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290) نے کہا:
حدثني إبراهيم بن سعيد نا أبو توبة عن أبي إسحاق الفزاري قال كان أبو حنيفة يقول إيمان إبليس وإيمان أبي بكر الصديق رضي الله عنه واحد قال أبو بكر يا رب وقال إبليس يا رب[السنة لعبد الله بن أحمد: 1/ 219 ، قال محقق الکتاب محمد سعيد سالم القحطاني :اسنادہ صحیح]۔
امام فزاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ کا کہنا تھا کہ ابلیس کا ایمان اور ابوبکررضی اللہ عنہ کا ایمان یکساں تھا ، ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے کہا اے میرے رب !اور ابلیس نے بھی کہا ہے کہ اے میرے رب ! !

امام ابوحنیفہ کی جانب جوقول منسوب کیاگیاہے اس اقتباس میں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابلیس نے یارب کہاتھا اورحضرت ابوبکر نے یارب کہاتھالہذا دونوں کا ایمان ایک ہوا۔میرے خیال سے بات گڑھنے والے کو خواہ کوئی بھی ہو ہم تعین نہیں کریں گے یہ بات نہیں سوجھی کہ وہ کہتاکفارمکہ بھی خداکے قائل تھے اورحضورپاک بھی قائل تھے تودونوں کا ایمان ایک ہوا(نعوذباللہ من ذلک)خواہ مخواہ اس نے حضرت ابوبکرؓ پر قناعت کی۔
یہ خرافات وضع کرنے والے نے اتنابھی نہیں سوچاکہ ابلیس کے جو ایمان کا مقر ہوگا وہ خود کافر ہوگاکیونکہ قرآن پاک میں اسے راندہ درگاہ کہاگیاہے اورحکم الہی کو نہ ماننے کا قصوروارٹھہرایاگیاہے اوراس نے خود لوگوں کو بہکانے اورگمراہ کرنے کی خداسے مہلت طلب کی ہے۔پھراس کے ایمان کا کیامطلب۔
اوراگرکسی کے یارب کہنے سے ایمان کااثبات ہوتاہے توسوائے دہریوں کے دنیامیں ہرشخص مومن ہےکیونکہ ہرفرد کافرہویامشرک یہودی یانصرانی وہ خداپراعتقاد رکھتاہے توان کا اورہرمسلمان کا ایمان برابر ہوا۔
یہ ابواسحاق الفرازی وہی ہیں جن کے بھائی ابراہیم بن الاشعث کے ساتھ شریک ہوکر خلیفہ عباسی کے خلاف بغاوت کی تھی ان کے بھائی نے امام ابوحنیفہ سے شرکت کے متعلق فتوی طلب کیاتھاتوامام صاحب نے اجازت دی تھی خود ان کی بھی رائے یہی تھی ۔انہوں نے مالی طورپر ابراہیم کی مدد کی تھی اورکہاتھاکہ اگر میرے پاس لوگوں کی امانتیں نہ ہوتیں تومیں بذات خود شریک ہوتا۔ابواسحاق الفرازی اپنے بھائی کے قتل کے بعد ہمیشہ امام ابوحنیفہ سے ناراض اوردلگرفتہ رہے اوران کی نکتہ چینی کرتے رہے۔


خطیب بغدادی رحمہ اللہ (المتوفى:643) نے کہا:
أخبرنا ابن رزق، أَخْبَرَنَا أَحْمَد بْن جعفر بْن سلم، حَدَّثَنَا أحمد بن علي الأبار، حدّثنا محمّد بن يحيى النّيسابوريّ- بنيسابور- حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرِ عَبْدُ اللَّه بْنُ عَمْرِو بن أبي الحجّاج ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ: كُنْتُ بِمَكَّةَ- وَبِهَا أَبُو حَنِيفَةَ- فَأَتَيْتُهُ وَعِنْدَهُ نَفَرٌ، فَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ مَسْأَلَةٍ، فَأَجَابَ فِيهَا، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: فَمَا رِوَايَةٌ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ؟ قَالَ: ذَاكَ قَوْلُ شَيْطَانٍ. قَالَ: فَسَبَّحْتُ، فَقَالَ لِي رَجُلٌ: أَتَعْجَبُ؟ فَقَدْ جَاءَهُ رَجُلٌ قَبْلَ هَذَا فَسَأَلَهُ عَنْ مَسْأَلَةٍ فَأَجَابَهُ. قال: فَمَا رِوَايَةٌ رُوِيَتْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ» ؟ فَقَالَ: هَذَا سَجْعٌ. فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: هَذَا مَجْلِسٌ لا أَعُودُ فِيهِ أَبَدًا. [تاريخ بغداد:13/ 388 ، السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 226 واسنادہ صحیح]۔
بخاری و مسلم کے ثقہ راوی عبد الوارث بن سعيد بن ذكوان کہتے ہیں کہ : میں مکہ میں تھااور وہاں ابوحنیفہ بھی تھے ، تو میں بھی ان کے پاس آیا اس وقت وہاں اورلوگ بھی تھے ، اسی بیچ ایک شخص نے ابوحنیفہ سے ایک مسئلہ پوچھا جس کا ابوحنیفہ نے جواب دیا ، جواب سن کراس شخص نے کہا کہ پھر عمربن الخطاب سے مروی روایت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں تو ابوحنیفہ نے کہا کہ یہ تو شیطان کی بات ہے ، اس پر انہوں نے سبحان اللہ کہا ، یہ سن کر ایک شخص نے کہا کہ کیا تمہیں تعجب ہورہا ہے ؟؟؟ ارے ابھی اس سے پہلے بھی ایک صاحب نے سوال کیا تھا جس کا ابوحنیفہ نے جواب دیا تو سائل نے کہا کہ پھر آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ» ؟؟؟؟تو ابوحنیفہ نے کہا کہ یہ تو تک بندی ہے ۔ یہ سب سن کرمیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں ایسی مجلس میں آئندہ کبھی نہیں آؤں گا۔
اس سند کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ نہیں بتایاگیاہے کہ وہ قول کیاتھاجس کو امام ابوحنیفہ نے حدیث خرافہ سے تعبیر کیاہے۔اگرقول موجود ہوتاتوہمارے لئے کچھ کہنے کا موقع ہی نہ ہوتا۔ ہوسکتاہے کہ وہ بات غلط طورپر حضرت عمر کی جانب کسی نے منسوب کی ہو اوراس لئے امام ابوحنیفہ نے اسے حدیث خرافہ سے تعبیر کیاہو اورجس کی بھی جانب کوئی قول غلط طورپر منسوب ہو اس کو حدیث خرافہ ہی کیا حدیث ضحوکہ وعجوبہ سے بھی تعبیر کیاجاسکتاہے؟جب لوگوں نے حضورپاک کی جانب غلط سلط اقوال منسوب کردیئے اورحدیثیں گھڑدی توپھر حضرت عمر کی جانب ایساکرنے میں انہیں کیامانع ہوسکتاتھااورہوسکتاہے کہ یہی کچھ ایسی ہی بے سروپابات ہو جس کو امام ابوحنیفہ نے حدیث خرافہ سے تعبیر کیاہو۔

جہاں تک عبدالوارث کے حدیث افطرالحاجم والمحجوم کا تعلق ہے تواس کو دیکھنے کی بات یہ ہے کہ علماء کا اس حدیث کے سلسلے میں کیانظریہ ہے۔
ایک حدیث بسااوقات کئی سند سے ہوتی ہے ۔کچھ سندیں صحیح اورکچھ غلط ہوتی ہیں۔یہ حدیث افطرالحاجم والمحجوم کئی سندوں اورکئی صحابہ کرام سے مروی ہے جو طریقہ حضرت رافع بن خدیج کاہے اس کے بارے میں کئی محدثین نے باطل،غیرمحفظ،اورغلط کہاہے۔تفصیل کیلئے دیکھئے نصب الرایہ2/473
حدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ: رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ3 مِنْ طَرِيقِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَ مَعْمَرٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ إبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَارِظٍ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ عَنْ النَّبِيِّ عليه السلام، قَالَ: "أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ"، انْتَهَى. قَالَ التِّرْمِذِيُّ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَذَكَرَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ أَنَّهُ قَالَ: هُوَ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ، انْتَهَى4. وَرَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ فِي "صَحِيحِهِ"، وَالْحَاكِمُ فِي "مُسْتَدْرَكِهِ"، وَقَالَ: صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَنَقَلَ عَنْ أَحْمَدَ أَنَّهُ قَالَ: هُوَ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي الْبَابِ، وَنَقَلَ عَنْ ابْنِ الْمَدِينِيِّ أَنَّهُ قَالَ: لَا أَعْلَمُ فِي الْبَابِ أَصَحَّ مِنْهُ، وَفِيمَا قَالَهُ نَظَرٌ، فَإِنَّ ابْنَ قَارِظٍ انْفَرَدَ بِهِ مُسْلِمٌ، قَالَ صَاحِبُ "التَّنْقِيحِ": قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: تَفَرَّدَ بِهِ مَعْمَرٌ، وَفِيهِ نَظَرٌ، فَإِنَّ الْحَاكِمَ رَوَاهُ مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ بْنِ سَلَّامٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ بإِساد صَحِيحٍ، فَلَمْ يَتَفَرَّدْ بِهِ مَعْمَرٌ إذًا، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ. وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِيُّ5: هَذَا الْحَدِيثُ عِنْدِي بَاطِلٌ، وَقَالَ الْبُخَارِيُّ: هُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَقَالَ إسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ: هُوَ غَلَطٌ، وَقَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ: هُوَ أَضْعَفُهَا، انْتَهَى كَلَامُ صَاحِبِ "التَّنْقِيحِ".
کیابعید ہے کہ امام ابوحنیفہ جس قول کو سجع سے تعبیر کیاہو وہ یہی ہو ۔جب کہ اس حدیث کے بارے میں خود ابوحاتم الرازی بھی باطل کی بات کہتے ہیں توامام ابوحنیفہ نے اگرسجع کہہ دیاتوکیاقیامت آگئی۔کیاباطل اورسجع میں کچھ زیادہ فرق ہے۔

پھرایک بات یہ بھی دیکھنے کی ہے کہ ایک ہی حدیث ہوتی ہے کہ ایک شخص اس کو صحیح مانتاہے دوسرااس کوباطل قراردیتاہے توکیاباطل کہنے والے کو حدیث کا مخالف قراردیاجائے گا۔حاکم اس حدیث زیربحث کو صحیح علی شرط الشیخین کہہ رہے ہیں اورابن حبان صحیح قراردے رہے ہیں امام احمد اسے اصح شی فی الباب قراردے رہی ہیں علی بن مدینی اس باب میں اسے صحیح تر قراردے رہے ہیں
دوسری جانب ابوحاتم الرازی اسے باطل کہتے ہیں،بخاری غیرمحفوظ کہتے ہیں اسحاق بن منصور اسے غلط کہتے ہیں اوریحیی بن معین اسے ضعیف ترقراردیتے ہیں ۔
کیاخیال ہے دوسری صف والوں کو مخالفین حدیث قراردیاجائے کیونکہ انہوں نے اس حدیث کی تضعیف کی ہے۔
ویسے ایک حدیث کو ابن تیمیہ موضوع کہتے ہیں اورالبانی اسے ثابت شدہ مانتے ہیں اورابن تیمیہ کے فتوی موضوع کو جلد بازی یاعربی میں کہیں تو تسرع قراردیتے ہیں توکیاخیال ہے کہ یہاں کس پر نشرچلایاجائے اورکسے مجروح کیاجائے؟


ابوھریرہ اور انس رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کس نے کہا؟؟؟؟؟ یہاں آپ کو جگر کے ناپ تول کی ضرورت نہیں پڑی ۔
ابن تیمیہ نے بالفرض کسی صحابی کو بعض دفعہ غلط کہہ دیا تو امام ابوحنیفہ کے بارے میں کیا کہو گے اس امام نے تو مکمل طور پر بعض صحابہ کو غیر فقیہ کہہ دیا!!!
ہمارایہ مانناہے کہ تمام صحابہ کرام فقیہہ نہیں تھے؟اگرکسی کو شک ہو توخود اعلام الموقعین جاکر دیکھ لے۔اس میں فقہاء صحابہ کرام کا تفصیلی ذکر ہے یہ بھی ہے کہ بعض صحابہ کرام تابعین عظام سے فتوی لیاکرتے تھے۔اگرآپ کا دعویٰ ہے کہ تمام صحابہ کرام فقیہہ تھے تواس کا ثبوت پیش کریں؟البینۃ علی المدعی ۔
سب سے بڑاامتیازاس امت میں کسی کیلئے صحابیت کاہے۔اگرکوئی صحابی ہے توبقیہ تمام پر فائق ہے ۔فقاہت کا اپناامتیاز ہے لیکن وہ شرف معیت حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کمتر ہے۔
اگرکسی صحابی کے فقییہ اورغیرفقییہ ہونے میں اختلاف ہوتو اس کو کسی شخص کا نقطہ نظرسمجھاجائے گاغلط یاصحیح طورپر لیکن اس کو جرح سے قطعاتعبیر نہیں کیاجاسکتا؟ویسے ہم چاہیں تو غیرمقلدین کے وہ فرامین جو انہوں نے صحابہ کرام پر ڈھٹائی کے ساتھ اعتراض کرتے ہوئے صحابہ کرام پر کئے ہیں کہ انہوں نے اس حدیث کی مخالفت کی نص رسول کی مخالفت کی۔پیش کرسکتے ہیں لیکن ہم اس بازاری بحث کا حصہ نہیں بنناچاہتے۔ اگرکفایت اللہ صاحب اوردوسروں کوشوق ہو تو مولانا ابوبکر غازی پوری کی کتاب "صحابہ کرام کے بارے میں غیرمقلدین کا نقطہ نظر"مطالعہ کریں ۔اس میں انہوں نے دیگر حوالوں کے ساتھ آپ کے ممدوح غیرمکرم رئیس ندوی کی کتاب کے بھی متعدد حوالے دیئے ہیں۔
ویسے اس زیر بحث اقتباس کی بنیادی عبارت کا حوالہ مطلوب ہے کہ امام ابوحنیفہ نے کسی صحابی کو غیرفقییہ کہاہے۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
از۔۔۔۔۔۔۔۔۔جمشید
امام يعقوب بن سفيان،الفسوي، (المتوفى: 277) نے کہا:
حدثني أبو بكر عن أبي صالح الفراء عن الفزاري قَال : قال أبو حنيفة : ايمان آدم وايمان ابليس واحد ، قال ابليس: رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي، وقال: رَبِّ فَأَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ، وقال آدم: رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا.[المعرفة والتاريخ للفسوي: 2/ 788 واسنادہ صحیح]۔
امام فزاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ نے کہا : آدم علیہ السلام کا ایمان اور ابلیس کاایمان یکساں ہے ، ابلیس نے کہا ’’اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراه کیا ہے‘‘نیزابلیس نے کہا :’’اے میرے رب! مجھے اس دن تک کی ڈھیل دے کہ لوگ دوباره اٹھا کھڑے کیے جائیں‘‘ اورآدم علیہ السلام نے بھی کہا :’’اے رب، ہم نے اپنے اوپر ستم کیا‘‘
ویسے یہ اوراس طرح کی خرافات کے بارے میں ہمارانظریہ یہ ہے کہ یہ امام ابوحنیفہ کے بعض اصول سے غلط طورپر کشیدکردہ ہیں۔ جس طرح آج کل اورماقبل میں بھی مناظروں کا اورجس سے خصومت ہوتی تھی اس کے بارے میں یہ کیاجاتاتھاکہ اس کے اقوال کو کوٹ نہیں کیاجاتاتھا بلکہ اس کے اقوال سے جو لازم معنی ہوتاتھااس کو مذکورہ شخص کا قول بناکر پیش کردیاجاتاتھا۔جب کہ اصول بحث میں یہ بات تقریباًطے ہے کہ لازمِ قول لازم نہیں ہے۔
مثلاابوالاعلی مودودی کاایک قول یہ ہے کہ سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کی بھی ذہنی غلامی میں مبتلانہ ہو
اس کالازم قول یہ ہواکہ وہ صحابہ کرام کو معیار حق نہیں مانتے
لیکن یہ کہناکہ ابوالاعلی مودودی یہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام معیارحق نہیں ہیں۔غلط ہوگا۔
ویسے یہ صرف ابوالاعلی مودودی کی ہی بات نہیں ہے جس کسی نے بھی مختلف مسالک کے علماء کی تحریریں اورردود پڑھ رکھاہوگاوہ جانتاہے کہ اس ردوکد میں کس طرح لازم قول کو قول بناکر پیش کیاجاتاہے۔
زیر بحث مثال میں بھی ابواسحق الفرازی کی مذکورہ باتیں کچھ اسی طرح کی حرکت لگ رہی ہیں۔
اس کی سندمیں بھی وہی بزرگ ابواسحاق الفرازی ہیں صرف انہوں نے نام بدل دیاہے

امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290) نے کہا:
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، ثنا أَبُو تَوْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْفَزَارِيِّ، قَالَ " حَدَّثْتُ أَبَا حَنِيفَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثٍ فِي رَدِّ السَّيْفِ فَقَالَ: هَذَا حَدِيثُ خُرَافَةٍ "[السنة لعبد الله بن أحمد: 1/ 207 ، قال محقق الکتاب محمد سعيد سالم القحطاني :رجاله ثقات]۔
امام ابواسحاق فزاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوحنیفہ کےسامنے (مسلمانوں کے خلاف ) تلوار نہ اٹھانے سے متعلق حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کی تو ابوحنیفہ نے کہا یہ بکواس حدیث ہے۔
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290) نےدوسری سند سےکہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ، نا أَبُو صَالِحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْفَزَارِيَّ، يَقُولُ «حَدَّثْتُ أَبَا حَنِيفَةَ، بِحَدِيثٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَدِّ السَّيْفِ فَقَالَ هَذَا حَدِيثُ خُرَافَةٍ» [السنة لعبد الله بن أحمد: 1/ 219، قال محقق الکتاب محمد سعيد سالم القحطاني :إسناده حسن ]۔
امام ابواسحاق فزاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوحنیفہ کےسامنے (مسلمانوں کے خلاف ) تلوار نہ اٹھانے سے متعلق حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کی تو ابوحنیفہ نے کہا یہ بکواس حدیث ہے۔
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى:354)نے کہا:
اخبرنا الثقفي قال : سمعت محمد بن سهل بن عسكر يقول : سمعت أبا صالح الفراء يقول : سمعت أبا إسحاق الفزارى يقول : كنت عند أبي حنيفة فجاءه رجل فسأله عن مسألة ، فقال فيه فقلت : إن النبي عليه الصلاة والسلام قال : كذا ، وكذا ، قال : هذا حديث خرافة[المجروحين لابن حبان: 2/ 330 واسنادہ صحیح]۔
امام ابواسحاق فزاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ابوحنیفہ کے پاس تھا اتنے میں ایک شخص آیا اورایک مسئلہ کے بارے میں سوال کیا اورابوحنیفہ نے اس کا جواب دیا ، میں نے کہا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اس طرح ہے ، اس پر ابوحنیفہ نے کہا کہ یہ بکواس حدیث ہے۔
ان تمام امور میں ان محدثین کرام نے ایک چالاکی یہ ہے کہ کسی نے بھی یہ بتانے کی زحمت گوارانہیں کی کہ وہ حدیث کیاتھی جوانہوں نے بیان کی ،وہ قول کیاتھا جوانہوں نے بیان کیا۔کیونکہ اگر وہ بیان کرتے تو شاید پول کھل جاتا۔اس کی شناعت معلوم ہوجاتی بعینیہ جوچالاکی اورہوشیاری معلمی نے تنکیل میں کی ہے کہ
سند کے اثبات پر توبہت زیادہ زوردیاہے لیکن متن بیان نہیں کیاہے کیونکہ اگر وہ متن بیان کرتے تولوگ سند سے قطع نظرمتن کی نکارت ہی دیکھ کر فیصلہ کردیتے۔اگرچہ معلمی نے اپنے اس صنیع کے اثبات میں کچھ وجوہات پیش کی ہیں لیکن وہ عذرگناہ بدترازگناہ سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی۔
محدثین کرام جن میں ابواسحاق الفرازی کانام باربار سند میں آرہاہے دیکھیں کہیں بھی اس نے حدیث کی تصریح نہیں کی ہے کہ اس کو وہ حدیث کس سند سے پہنچی ۔اس کے رجال کون تھے؟۔پھر ہم کیسے مان لیں کہ ابواسحاق الفرازی صحیح اورامام ابوحنیفہ غلط۔
ابواسحاق الفرازی اگرحدیث پیش کرتے اورسند سے پیش کرتے توہمارے لئے وہ کچھ قابل قدرچیز ہوتی کہ ہم خود یکھ کر اورجائزہ لے کر فیصلہ کرتے لیکن انہوں نے حدیث کو تومبہم رکھااورامام ابوحنیفہ کے قول کو کھل کر پیش کردیا ۔یہ صنیع اورطرزعمل نہایت غیرمنصفانہ اورغیرعلمی ہے۔اسی طرح کی غیرعلمی اورغیرمنصفانہ حرکت ابن ابی شیبہ نے بھی کی ہے جہاں اپنے مصنف میں امام ابوحنیفہ پر رد کا باب باندھاہے وہاں اپنی دلیل توذکر کی اورامام ابوحنیفہ کی دلیل سے صرف نظرکرگئے ۔اوریہی حرکت آج کل کے غیرمقلدین بھی تقلید میں دوہراتے ہیں۔کہ ایک جانب حدیث رکھتے ہیں اورایک جانب کسی کتب فقہ حنفی سے کوئی مسئلہ اوریوں ظاہر کرتے ہیں کہ فقہ حنفی اس مسئلے میں دلائل سے سرے سے خالی ہے۔
ویسے اصول حدیث میں یہ بات مقرر اورثابت شدہ ہے کہ اگرکسی کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ فلاں شخص فلاں شخص سے کد اورضد رکھتاہے تواس کی بات مذکورہ شخص کے بارے میں قبول نہیں ہوگی۔اورابواسحاق الفرازی کے بارے میں تاریخ کی شہادتیں معلوم ہیں کہ وہ اپنے بھائی کے منصور عباسی کے خلاف خروج میں امام ابوحنیفہ کے فتوی کی وجہ سے نکلنے اورمارے جانے کی وجہ سے ہمیشہ ناراض رہے۔

ان تمام حقائق کے ہوتے ہوئے جمشیدصاحب اوران کے بزرگان بجائے اس کے ابوحنیفہ کو متشدد بتلائیں ، بلاوجہ ابن تیمیہ کو مطعون کررہے ہیں ، حالانکہ محدثین نے یہ باتیں سن کر صاف بتادیا کہ ابوحنیفہ کیسے تھے ، مثلا :
قارئین نے ماقبل میں ملاحظہ فرمایالیاکہ محدثین کرام کے بیشتراقوال جو اس قسم کے مبہم ہیں انہوں نے قول صحابی یاقول رسول کو بیان ہی نہیں کیاجس سے پتہ چلے کہ وہ قول کیساتھا کیاتھا اورجس کی بناء پر امام ابوحنیفہ نے ایساکہا۔یہ ہوسکتاہے کہ سرے سے وہ قول بے اصل ہو ،باطل ہو غیرمحفوظ ہو غلط ہو۔مناسب ہوگااگرکفایت اللہ صاحب مذکورہ مبہم اقوال کی جگہ واضح قول پیش کریں کہ ابواسحاق الفرازی نے کون سی حدیث پیش کی تھی۔کون سی روایت پیش کی تھی سند کیاتھی تاکہ بات مزید آگے چلے ورنہ ہوامیں تیرچلانے سے کیافائدہ۔
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290) نے کہا:
حدثني إسحاق بن منصور الكوسج ثنا محمد بن يوسف الفريابي قال سمعت سفيان الثوري يقول قيل لسوار لو نظرت في شيء من كلام أبي حنيفة وقضاياه فقال كيف أقبل من رجل يؤت الرفق في دينه [السنة لعبد الله بن أحمد: 1/ 190، قال محقق الکتاب محمد سعيد سالم القحطاني :اسنادہ صحیح]
امام فریابی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کو کہتے ہوئے سنا کہ امام سوار رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ آپ ابوحنیفہ کی باتوں کا جائزہ لے لیتے تو بہتر تھا ، اس پر امام سوار رحمہ اللہ نے کہا کہ میں ایسے شخص کی باتیں کیسے قبول کرسکتا ہوجس کے دین میں نرمی ہی نہ ہو۔
یعنی ابوحنیفہ کے پاس جو دین تھا اس میں نرمی کی تعلیم ہی نہیں تھی یعنی ابوحنیفہ بڑے متشدد تھے ۔
یہ ہے حقیقت مگر کیا کیا جائے کہ بجائے اس کے اپنے امام کا جگر تولیں ، مفت میں ابن تیمیہ کو بدنام کررہے ہیں۔
اولاتو نظرت فی شی من کلام ابی حنیفہ کا ترجمہ جائزہ لیناغلط ہے ۔بلکہ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہوگاکہ اگرآپ امام ابوحنیفہ کا کلام اوران کے فتاوی(امام ابوحنیفہ کے فتاوی کوسفیان ثوری یاکسی نے بھی قضایا سے تعبیر کرنے میں غلطی کی ہے۔ امام ابوحنیفہ قاضی نہیں تھے اورنہ ہی انہوں نے منصب قضاقبول کیاتھا بلکہ منصب قضاء قبول کرنے سے انکار میں جیل کی قید وبند کی سختیاں برداشت کی تھیں)کوملاحظہ فرماتے تو بہترتھا۔
ثانیاگویاکہ آپ کو سوار کی اس رائے سے اتفاق ہے تب توآپ کو فوری طورپر مشہور علمی خائن صاحب حقیقۃ الفقہ کے خلاف مورچہ کھول دیناچاہئے جنہوں نے اپنی کتاب میں حنفیہ کی کثرت کے اسباب میں لکھاہے اس میں بہت آسانی ہے شہوت رانی ہے اوربہت کچھ ۔آپ فوری طورپر ایک معذرت نامہ لکھ کر شائع کردیں کہ قاضی سوار کی بات صحیح اوریوسف جے پوری کی بات پاؤں سےروندے جانے کے قابل ہے۔ مسلک ابوحنیفہ میں بہت سختی اورتشدد ہے۔اگرآپ یہ کردیں توپھر شاید ہمارے لئے اس قول کے اخذ وقبول کاراستہ ہموار ہوجائے۔
ثالثاًیہ فریابی وہی بزرگ ہیں جن کے واسطہ سے ابن عدی نے الکامل میں ابن اسحاق کے بارے میں نقل کیاہے کہ فریابی ان کو زندیق قراردیتےتھے اناللہ واناالیہ راجعون۔

بیشتر قاری وہ ہوتے ہیں جو اس طرح کی بحثوں میں لاعلمی کا شکار ہوتے ہیں اورسند ومتن کی پرکھ ان کو حاصل نہیں بس اپنے علماء کی تقلید کرتے ہیں گرچہ اس کواتباع کا نام دے کر خوش رہتے ہیں توان کیلئے عرض ہے کہ اگروہ امام ابوحنیفہ کے تعلق سےاس طرح کے اقوال کے تعلق سے تشفی بخش بحث چاہتے ہیں تو اس پر اچھی بحث ایک شافعی مورخ اورحافظ حدیث نے اچھی طرح سے کیاہے ۔تمام افراد کو بتاتاچلوں کہ اس کتاب کانام ہے
كتاب الرّد على أبي بكر الخطيب البغدادي
اس کے مولف ہیں
الإمام الحافظ محبّ الدّين أبي عبد الله محمّد بن محمود ابن الحسن بن هبة الله بن محاسن المعروف بابن النجّار البغدادي
یہ بڑے حافظ حدیث،ناقد رجال، اورمورخ گزرے ہیں۔حافظ ذہبی نے سیراعلام النبلاء میں ان کے ترجمہ میں گراں قدر الفاظ استعمال کئے ہیں اوردیگر کتب تراجم سے بھی ان کے علمی مقام ومرتبہ کا کچھ اندازہ کیاجاسکتاہے۔
انہوں نے خطیب بغدادی کے تاریخ بغداد پر ذیل بھی لکھاہے اورساتھ ہی امام ابوحنیفہ کے جومثالب خطیب نے نقل کئے اس کی تردید پر بھی تالیف کی ہے۔کتاب کا نام ماقبل میں ذکر ہوچکاہے اس کی کچھ ابتدائی باتیں نقل کردیتاہوں۔ واضح رہے کہ مولف خود شافعی ہیں لہذا حنفی شافعی تعصب کا الزام بھی نہیں دیاجاسکتا۔
قال الخطيب:قد سقنا عن أيوب السختياني، وسفيان الثوري، وسفيان بن عيينة، وأبي بكر بن عياش، وغيرهم من الأئمة أخبارا كثيرة تتضمن تقريظ أَبِي حنيفة والمدح لَهُ والثناء عَلَيْهِ، والمحفوظ عند نقلة الحديث عن الأئمة المتقدمين وَهَؤُلاءِ المذكورين منهم في أبى حنيفة خلاف ذَلِكَ وكلامهم فيه كثير لأمور شنيعة حفظت عليه يتعلق بعضها بأصول الديانات، وبعضها بالفروع. نَحْنُ ذاكروها بمشيئة الله ومعتذرون إلى من وقف عليهما وكره سماعها، بأن أَبَا حنيفة عندنا مَعَ جلالة قدره أسوة غيره من العُلَمَاء الَّذِين دونا ذكرهم في هذا الكتاب وأوردنا أخبارهم وحكينا أقوال الناس فيهم على تباينها.
یہاں تک انہوں نے خطیب کا قول نقل کیاتھاکہ خطیب نے جوصفائی پیش کی ہے وہ کیاہے ۔اس کے بعد وہ اپنی رائے ذیل میں پیش کرتے ہیں۔
أما قول الخطيب هذا فأنا إن شاء الله نبين أن قصده خلاف ما ذكر من المعذرة وإنما قصد الشناعة جرأة منه وافتراء.أما قوله: والمحفوظ عند نقلة الحديث خلاف ذلك.
فأقول: إن نقلة الحديث ينظرون إلى طريق الحديث فمتى ما وجدوا فيه رجلا ضعيفا ضعفوا الحديث خاصة في جرح الرجال، فإنه لا يسمع إلا من عدل ثقة معروف بالعدالة والثقة، فحيث نقل الخطيب أحاديث في الجرح عن جماعة ضعفاء شهد بضعفهم أئمة الحديث تبين أن قصده خلاف ما اعتذر عنه.
الرد علی ابی بکر الخطیب البغدادی،تاریخ بغداد وذیولہ22/44
وہ لوگ جوخطیب کو متعصب قراردینے پر احناف کی نکتہ چینی کرتے ہیں اوریوں باورکراتے ہیں کہ احناف کا خطیب کو متعصب قراردینامسلکی شاخسانہ ہے اب وہ کیاکہیں گے کہ ایک شافعی مسلک کا محدث اورناقد رجال ہی خطیب پر تعصب کاالزام عائد کررہاہے۔
ویسے خطیب کا تعصب مکشوف امر اورکھلامعاملہ ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے جس نے بھی خطیب کی کتابوں کا مطالعہ کیاہوگااس کو اس کااندازہ اچھی طرح سے ہوسکتاہے۔ہاں جس نے پہلےیہ ذہن بنارکھاہے کہ جس جس نے امام ابوحنیفہ کے خلاف کچھ بھی لکھاہے وہ بڑے قابل قدر ہیں توایسوں کو اگرخطیب کاتعصب معلوم نہ پڑے تو وہ معذور ہیں التہ ماجور قطعانہیں ہیں۔(ابتسامہ)
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
از۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جمشید
جمشید صاحب کو ابن تیمیہ سے متعلق بے بنیاد باتیں ملی اور اسی کی روشنی میں موصوف ابن تیمیہ کا جگر تولنے لگے لیکن ہمیں صحیح سندوں کے ساتھ ابوحنیفہ سے متعلق مذکورہ باتیں مل رہی ہیں ، اب بتلائیں کہ ہم کیا کریں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
مسئلے دوہیں۔ایک تویہ کہ متاخرین کے دور میں سند کااہتمام نہیں رہا تھاجس کی بنیاد پر سند دیکھ کر فیصلہ کیاجائے ۔دوسرے نہ ہی متقدمین کی طرح سے جرح وتعدیل کا رواج رہاتھاکیونکہ اب اعتماد کتابوں پر تھا۔جس کی تصریح کئی علماء اجلہ اپنی کتابوں میں کرچکے ہیں۔لہذا متاخرین کے دو رمیں بھی سند پر اصرار کرنا اورمورخین کے تعلق سے جرح وتعدیل کے الفاظ ڈھونڈنا نہایت غیردانشمندانہ اورعقل وفہم سے پرے حرکت ہے۔متاخرین میں بھی ہم صرف یہ دیکھناچاہیں گے کہ مورخ اورناقل کتنا بیدارمغز،محتاط اورعلم تاریخ سے باخبر ہے۔ہاں اگر بات کسی متقدم کی ہو تو پھر سند کو دیکھیں گے کیونکہ اس دور میں سند کا اہتمام تھا؟جب متاخرین کے دور میں سند کا اہتمام ہی نہیں رہاتوپھر سند کی شرائط کامطالبہ کیسے کیاجاسکتاہے؟
نیز سوچیں کہ اس طرح کی باتیں اگر ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے متعلق احناف کو مل جاتیں تو وہ کیا کرتے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کیاکرتے ؟آپ ہی بتادیں ؟تاریخ میں ابن تیمیہ کے متعلق سب کچھ جاننے سمجھنے پڑھنے کے باوجود ننانوے فیصد احناف نے ان کو دین کابڑاعالم،علوم اسلامی میں متبحر،اجتہا دکی کچھ شرائط سے متصف ماناہے؟آپ یہی دیکھیں کہ یہ سب کتابیں جن لوگوں نے امام ابوحنیفہ کے خلاف لکھیں امام ابوحنیفہ کے مثالب لکھے ان کی کتابیں اگرچاہتے تو احناف کی جتنی دیر تک بلاداسلامیہ پر حکمرانی رہی ہے صفحہ ہستی سے نابود کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ایساکبھی نہیں کیا۔اگروہ واقعتاًکرناچاہتے تو تمام کتابیں آج ڈھونڈنے سے نہیں ملتیں لیکن دیکھئے تمام کتابیں اورتمام اقوال موجود ہیں؟یہ ہے احناف کی وسعت اورفراخ دلی؟اس کی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے؟

جمشیدصاحب نے مذکورہ الزامات اس طرح پیش کئے ہیں کہ پڑھنے والے کو یہ غلط فہمی ہوسکتی ہے کہ یہ سارے الزامات حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے ہیں !!! لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ الزامات حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے لگائے ہوئے نہیں ہیں بلکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے صرف نقل کیا ہے ۔جمشید صاحب کی تحریرسے اقتباسات ملاحظہ ہوں:
اصل پیغام ارسال کردہ از: جمشید
ومن ثم نسب أصحابه إلى الغلو فيه واقتضى له ذلك العجب بنفسه حتى زها على أبناء جنسه واستشعر أنه مجتهد فصار يرد على صغير العلماء وكبيرهم قويهم وحديثهم حتى انتهى إلى عمر فخطأه في شيء فبلغ الشيخ إبراهيم الرقي فأنكر عليه فذهب إليه واعتذر واستغفر وقال في حق علي أخطأ في سبعة عشر شيئا ثم خالف فيها نص الكتاب منها اعتداد المتوفى عنها زوجها أطول الأجلين وكان لتعصبه لمذهب الحنابلة يقع في الأشاعرة حتى أنه سب الغزالي فقام عليه قوم كادوايقتلونه۔۔۔۔۔۔۔۔(1/179)
حافظ ابن حجر کیاکہہ رہے ہیں غورکیاکفایت اللہ صاحب۔اوریہ صرف حافظ ابن حجر ہی کاکہنانہیں ہے بلکہ دیگر افراد نے بھی کہاہے ۔
اصل پیغام ارسال کردہ از: جمشید
ویسے بقول ابن حجر حضرت ابن تیمیہ نے 17مسائل بتائے ہیں اورایک موقع پر کہاکہ حضرت علی نے کتاب اللہ کی مخالفت کی ۔ یہ ان کاہی جگر تھا۔ جیساکہ الدرالکامنہ میں موجود ہے۔ اورایک موقع پر تو حضرت عمرکی غلطی بھی بیان کی تھی۔
اصل پیغام ارسال کردہ از: جمشید
اسی طرح حافظ ابن حجر کی وہ بات بھی یاد کرلیجئے کہ رافضی کی تردید مین وہ حضرت علی کی تنقیص تک جاپہنچے۔
درحقیت یہ ساری باتیں حافظ ابن حجر نے ’’الآقْشِهْري‘‘ نامی سیاح سے نقل کی ہیں یہ خود حافظ ابن حجر کا اپنا کلام نہیں ہے حافظ ابن حجر نے ان عبارات کے نقل سے قبل صاف طورسے لکھا:
وقال الأقشهري في رحلته في حق ابن تيمية ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ومن ثم نسب أصحابه إلى الغلو فيه واقتضى له ذلك العجب بنفسه حتى زها على أبناء جنسه واستشعر أنه مجتهد فصار يرد على صغير العلماء وكبيرهم قويهم وحديثهم حتى انتهى إلى عمر فخطأه في شيء فبلغ الشيخ إبراهيم الرقي فأنكر عليه فذهب إليه واعتذر واستغفر وقال في حق علي أخطأ في سبعة عشر شيئا ثم خالف فيها نص الكتاب منها اعتداد المتوفى عنها زوجها أطول الأجلين وكان لتعصبه لمذهب الحنابلة يقع في الأشاعرة حتى أنه سب الغزالي فقام عليه قوم كادوا يقتلونه[الدرر الكامنة لابن حجر: 1/ 180]۔

اورمولوی لکھنوی نے بھی جہان ان باتوں کو نقل کیا وہے وہاں یہ صراحت کی ہے کہ حافظ ابن حجر نے یہ باتیں ’’الآقْشِهْري‘‘ سے نقل کی ہیں، لکھنوی صاحب لکھتے ہیں:
وقال ابن حجر ايضاً نقلاعن رحلة الاقشهري حتى زها على أبناء جنسه واستشعر أنه مجتهد فصار يرد على صغير العلماء وكبيرهم قويهم وحديثهم حتى انتهى إلى عمر فخطأه في شيء فبلغ الشيخ إبراهيم الرقي فأنكر عليه فذهب إليه واعتذر واستغفر وقال في حق علي أخطأ في سبعة عشر شيئا ثم خالف فيها نص الكتاب منها اعتداد المتوفى عنها زوجها أطول الأجلين وكان لتعصبه لمذهب الحنابلة يقع في الأشاعرة حتى أنه سب الغزالي فقام عليه قوم كادوا ، يقتلونه [إمام الكلام في القراءة خلف الإمام (3/ 14)]۔
حسرت موہانی علیہ الرحمۃ غزل کے بے تاج بادشاہ ہیں ان کے شعر کاایک مصرعہ ہے۔
جوچاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
یعنی فضیلۃ الشیخ جوچاہے لکھ دیں اورجوچاہے کہہ دیں ۔ٹوکنے والاکون ہے۔لیکن ابھی ایسی اندھیر نگری نہیں ہے کہ دن کو رات اوررات کو دن کہہ دیاجائے اورفضیلۃ الشیخ کے احترام میں سبھی خاموش رہیں۔
کفایت اللہ صاحب کا پہلا اعتراض یہ ہے کہ ہم نے جو اقتباس الددرالکامنہ سے نقل کیاہے وہ حافظ ابن حجر کی اپنی بات نہیں بلکہ الاقشھری کی ہے۔
ذراالدررالکامنہ کی ہی ورق گردانی کرلی جائے تاکہ بات واضح ہوکر سامنے آئے اوردیکھیں کہ غلطی پر کون ہے ۔کہیں ایساتونہیں کہ پھر اس شعر کی صداقت واضح ہورہی ہے
وکم من عائب قولاصحیحا
وآفتہ من الفہم السقیم​
وَقَالَ الأقشهري فِي رحلته فِي حق ابْن تَيْمِية بارع فِي الْفِقْه والأصلين والفرائض والحساب وفنون أخر وَمَا من فن إِلَّا لَهُ فِيهِ يَد طولى وقلمه وَلسَانه متقاربان
قَالَ الطوفي سمعته يَقُول من سَأَلَني مستفيداً حققت لَهُ وَمن سَأَلَني مُتَعَنتًا ناقضته فَلَا يلبث أَن يَنْقَطِع فأكفي مُؤْنَته وَذكر تصانيفه وَقَالَ فِي كِتَابه أبطال الْحِيَل عَظِيم النَّفْع وَكَانَ يتَكَلَّم على الْمِنْبَر على طَريقَة الْمُفَسّرين مَعَ الْفِقْه والْحَدِيث فيورد فِي سَاعَة من الْكتاب وَالسّنة واللغة وَالنَّظَر مَا لَا يقدر أحد على أَن يُورِدهُ فِي عدَّة مجَالِس كَأَن هَذِه الْعُلُوم بَين عَيْنَيْهِ فَأخذ مِنْهَا مَا يَشَاء ويذر
وَمن ثمَّ نسب أَصْحَابه إِلَى الغلو فِيهِ وَاقْتضى لَهُ ذَلِك الْعجب بِنَفسِهِ حَتَّى زها على أَبنَاء جنسه واستشعر أَنه مُجْتَهد فَصَارَ يرد على صَغِير الْعلمَاء وَكَبِيرهمْ قويهم وحديثهم حَتَّى انْتهى إِلَى عمر فخطأه فِي شَيْء فَبلغ الشَّيْخ إِبْرَاهِيم الرقي فَأنْكر عَلَيْهِ فَذهب إِلَيْهِ وَاعْتذر واستغفر وَقَالَ فِي حق عَليّ أَخطَأ فِي سَبْعَة عشر شَيْئا ثمَّ خَالف فِيهَا نَص الْكتاب مِنْهَا اعْتِدَاد المتوفي عَنْهَا زَوجهَا أطول الْأَجَليْنِ وَكَانَ لتعصبه لمَذْهَب الْحَنَابِلَة يَقع فِي الأشاعرة حَتَّى أَنه سبّ الْغَزالِيّ فَقَامَ عَلَيْهِ قوم كَادُوا

میں نے اس زیربحث پیراگراف کوتین حصوں میں تقسیم کردیاہے تاکہ جائزہ لینے میں آسانی رہے۔

قال الاقشھری کی بات وقلمہ ولسانہ متقاربان تک پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے۔

اس کے بعد طوفی کی بات ہے ۔یہ بزرگ مشہور حنبلی عالم ہیں ان کی فقہ میں تصانیف بھی
ہیں۔طوفی نے اپناسماع ان سے بیان کیاہے جومیرے پاس استفادہ کی نیت سے سوال کرے گا تواس کیلئے مسائل کوواضح کروں گااورجو تعنت کی نیت سے سوال کرے گاتواس کی چال اسی پر لوٹادوں گااورخاموش کردوں گا۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ وذکر تصانیفہ میں ذکر کی ضمیرھوکامشارالیہ کون ہے۔نحو کے اصول میں سے یہ ہے کہ ضمیرکا رجوع قریب کی جانب ہوتاہے۔توقریب میں طوفی ہیں۔ لہذا یہ طوفی کی ہی جانب ہوگا۔
دوسرامسئلہ یہ ہے کہ طوفی کی بات کہاں تک ممتد مانی جائے۔
میری رائے یہ ہے کہ طوفی کی بات كَأَن هَذِه الْعُلُوم بَين عَيْنَيْهِ فَأخذ مِنْهَا مَا يَشَاء ويذرتک ممتد مانی جائے اوراس کے بعد شروع ہونے والا جملہ ومن ثم نسب اصحابہ کو جملہ مستانفہ قراردیاجائے۔
اگریہ شق تسلیم نہیں کی جاتی ہے تومانناپڑے گاکہ الدررالکامنہ کے صفحہ179سے لے کر 182تک الاقشھری کا ہی کلام ہے جس کو ماننا مشکل ہے۔
اگرکفایت اللہ صاحب الاقشھری کی رحلت سے براہ راست اس معاملے مین نص پیش کردیں توہمیں ماننے میں ایک لمحہ کیلئے بھی تامل نہیں ہوگاکہ یہ بات الاقشھری کی ہے اورحافظ ابن حجر نے اسے نقل کیاہے۔لیکن کلام جب دونوں محتملات کو شامل ہے اوریہ بھی ہوسکتاہے اور قرینہ حال میری رائے کی موافقت میں ہے توتاوقییکہ دوسری دلیل نہ ملے میں اپنی رائے پرقائم رہوں گا اورمحض مولانا عبدالحی لکھنویؒ کے نقل کرنے سے اپنی رائے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا ۔

جب یہ وضاحت ہوگی کہ ان باتوں کو کہنے والے ’’الآقْشِهْري‘‘ ہیں تو عرض ہے کہ اس ’’الآقْشِهْري‘‘ کی توثیق یا تعدیل سے متعلق کوئی بات کتب رجال میں نہیں ملتی ۔
الدرر الكامنة لابن حجر: 5/ 36، ذيل التقييد في رواة السنن والأسانيد (1/ 40) ، الأعلام للزركلي (5/ 325) اور العقد الثمين (1/286) وغیرہ میں ان کے حالات ملتے ہیں مگر ان کی ثقاہت تو درکنار ان کے عدالت سے متعلق بھی کچھ نہیں ملتا ہے۔

الاقشھری کی ثقاہت وعدالت پر ایک بحث


کفایت اللہ صاحب نے بڑی آسانی سے کہہ دیاکہ ان کے حالات ملتے ہیں مگر ان کی ثقاہت تودرکنار ان کی عدالت کے تعلق سے بھی کچھ نہیں ملتاہے۔
اولاًتویہ بات ذہن نشیں رہے کہ متاخرین میں ثقاہت وعدالت کانہ وہ معیار تھا اورنہ وہ اہتمام تھا کہ ہرایک پر حکم لگاتے ہیں کہ فلاں ثقہ ہے فلاں ضعیف ہے کیونکہ اب مدار کتابوں پر تھا اسناد کی حییثیت ثانوی ہوچکی تھی۔
دوسرے کفایت اللہ صاحب اگرمکتبہ شاملہ میں ہی ٹھیک طورپر تلاش کرتے توشاید یہ بات نہ کہتے۔ راقم الحروف نے بھی مکتبہ شاملہ میں ہی تلاش کیاہے اورجوکچھ ملاہے وہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

مُحَمَّد بن أَحْمد بن أَمِين بن معَاذ بن إِبْرَاهِيم بن عبد الله الاقشهري مَنْسُوب إِلَى اقشهر بقونية ولد بهَا سنة 665 ورحل إِلَى مصر ثمَّ إِلَى الْمغرب فَسمع من أبي جَعْفَر بن الزبير بالأندلس وَمُحَمّد بن مُحَمَّد بن عِيسَى بن منتصر بفاس وَغَيرهمَا وَجمع رحلته إِلَى الْمشرق وَالْمغْرب فِي عدَّة أسفار وَجمع كتابا فِيهِ أَسمَاء من دفن بِالبَقِيعِ سَمَّاهُ الرَّوْضَة قَالَ القطب الْحلَبِي تناولته مِنْهُ وَحدث عَنهُ أَبُو الْفضل النويري قَاضِي مَكَّة وجاور بِالْمَدِينَةِ ثمَّ اتخذها موطنا إِلَى أَن مَاتَ سنة 731
الدررالکامنہ5/36
یہ گویاان کا مختصرتعارف ہے کہ نام ونسب کیاہے ۔کس شہر میں پیداہوئے۔کہاں کہاں کا سفر کیا۔ کس سے تحصیل علم کیا۔الدررالکامنہ میں ان کا اتناہی تعارف ہے ۔

لیکن الدرالکامنہ میں خود حافظ ابن حجر نے ان کا تذکرہ مکتبہ شاملہ کی تفتیش کے مطابق 14مرتبہ کیاہے اس سے واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے کن سے حدیث اوردیگر علوم حاصل کئے اوران سے کن لوگوں نے روایت کی ہے۔

حافظ ابن حجر ان کے متعلق المحدث المکثر الرحال کے توصیفی کلمات استعمال کرتے ہیں
فأنبأنا غير واحد عن المحدث المكثر الرحال جمال الدين الأقشهري نزيل المدينة النبويّة۔الاصابہ فی تمیزالصحابہ2/439
دیوان الاسلام کے مصنف شمس الدين أبو المعالي محمد بن عبد الرحمن بن الغزي (المتوفى: 1167هـ)
ان کے تعلق سے کہتے ہیں۔
الأقشهري: محمد بن أحمد بن أمين، الإمام المحدث البارع المدني. له رحلة كثيرة في عدة أسفار. وجمع كتاباً فيه أسماء من دفن بالبقيع سماه الروضة.
توفي سنة 732.(دیوان الاسلام1/114)

الاقشھری کا سب سے مفصل اورطویل تذکرہ التحفۃ اللطیفیۃ فی تاریخ المدینۃ الشریفۃ میں ہے۔ اس میں تفصیل سے ان کے وطن ،خاندان ،مشائخ ،اہل وعیال ،اساتذہ ومشائخ ،اوران کے بارے میں اجلہ علماء کے توصیفی کلمات مذکور ہیں۔
مناسب تویہ محسوس ہوتاہے کہ ہم ان کے بارے میں پوراتذکرہ ہی نقل کردیں اورجوہمارے مطلب کے جملے ہیں اسے ملون کردیں۔
محمد بن أحمد بن أمين بن معاذ بن سعاد بن إبراهيم بن يوسف بن الجماز: والأمين والجلال أبو عبد الله وأبو طيبة الأقشهري ثم القونوي الخلاطي المحتد نزيل المدينة ولد بأقشهر "بلد بقربه تخمينا" في سنة خمس وستين وستمائة وارتحل إلى مصر والمغرب فسمع بالأندلس من أبي جعفر بن الزبير وغيره وبمصر من بعض شيوخها وانقطع بالمدينة النبوية حتى مات في سنة تسع وثلاثين وسبعمائة ولقيه القطب الحلبي بها وترجمته في تاريخه وناوله نصيفا له فيمن دفن بأشرف البقاع سماه الروضة وذكره شيخنا في درره بدون سعاد وعندي توقف في الجمع بينها وبين معاذ بل أظن أن الصواب أحدهما فقط قال شيخنا: وجمع رحلته إلى المشرق والمغرب في عدة أسفار قال: وجمع كتابا فيه أسماء من دفن بالبقيع "وهو المسمى بالروضة" وحدث عنه أبو الفضل النويري قاضي مكة قلت: وروى عنه بالإجازة أبو الطيب محمد بن عمار بن علي بن أسعد السحولي المكي وأثبت التقي الفاسي في نسبه سعادا وقال فيه: جلال الدين أبو عبد الله وأبو طيبة
وقال: إنه سمع الكثيربالحرمين على الصفي والرضي وجماعة تأخر بعضهم عنه وخرج لبعضهم قلت: وممن سمع منه بالمدينة أبو حفص عمر بن أحمد الخزرجي وأبو الحسن علي بن أيوب بن منصور المقدس "تلميذ النووي" وإمام الصوفية الحسن بن علي بن الحسن العراقي لقيه بالمدينة وقرأ على الشهاب أحمد الصنعاني اليماني الشافعي "نائب السراج الدمنهوري في قضاء المدينة" المصابيح وسمعه بقراءة عليه وكذا أخذ عن الجمال أبي عبد الله محمد بن أحمد الأنصاري المدني بها وبمكة الرضي إبراهيم الطبري والفخر بن محمد القسطلاني وعبد الله بن عبد الحق المحزومي وبالمغرب ناصر الدين أبي علي منصور بن أحمد الزواوي ثم المسدالي وأبي عبد الله محمد بن عبد الرحمن بن الحكيم اللخمي الأندلسي الزندي الوزير وكذا سمع على المجد أبي الفدى إسماعيل بن محمد القرشي الحنفي والوزير أبي بكر محمد بن أبي عبد الله محمد بن عيسى بن معتصر المومتاني "سمع منه بفاس" وأبي القاسم محمد بن إبراهيم السلمي "وكلاهما يروي عن ابن الصلاح" وأبي عبد الله محمد بن محمد الغرنوي الخطيب وأبي جعفر بن الزبير الحافظ وبالإسكندرية من عبد الرحمن بن مخلوف بن جماعة الربعي وسمع ايضا من الحجار والنجم سليمان بن عبد القوي الطوفي الحنبلي والعز أحمد بن عمر بن فرج القاروني العراقي والمحب محمد بن عمر بن محمد القهري وكتب عن الخطيب البهاء محمد بن عبد الله بن أحمد بن عبد الله الطبري من نظمه وأجاز له من بغداد محمد بن عبد لمحسن بن الروالبي قال: وكان ذا عناية كبيرة بهذا الشأن غير أنه لم يكن فيه نجيبا لأن له تعاليق مشتملة على أوهام فاحشة وله مجاميع كثيرة وإلمام بالأدب وحظ وافر من الخير وقد حدثنا عنه غير واحد من شيوخنا وجاور سنين كثيرة بالحرمين بالمدينة مات وهو في اثني عشر الثمانين لأنه ولد سنة أربع وستين كما قرأته بحط الذهبي وترجمه بنزيل مكة انتهى وحينئذ فصح قول القطب تخمينا وإثبات سعاد ممن أثبته في نسبه وكذا ذكره ابن خطيب الناصرية في آخرين - وقال بعضهم بأن مولده بأقشهر قونيه في حادي عشر جمادي الأولى سنة ست وستين وستمائة وقال ابن فرحون: إنه كان من شيوخ الوقت والأئمة الكبار في العلم والعمل ومعرفة الحديث والرجال ارتحل إلى المغرب في حال شبوبيته وأدرك رجالا من أعيان المغاربة والأندلسيين وعلمائهم فأخذ عنهم واشتغل عليهم وطالت إقامته فيهم حتى كان الذي يجتمع به لا يشك أنه مغربي الأصل لملابسته إياهم وكان قد يسر الله عليه تدوين الحديث والعلم فلا تسأله عن شيء من علم الحديث ورجاله إلا وجدت عنده منه طرفا جيدا وحفظا حسنا صنف تصانيف كثيرة واختصر مطولات كثيرة وتردد إلى مكة والمدينة
ثم أقام في المدينة في آخر مدته وتزوج بها سيبة فولدت له اثنتين سماهما طابة وطيبة وسر بهما في آخر عمره ثم أنهما توفيتافحزن لفقدهما حتى كاد يفني لفنائهما وقال المجد: الشيخ أبو عبد الله الأقشهري ثم الأخلاطي الشيخ أمين الدين ارتحل من بلاد الروم إلى بلاد المغرب في شبابه وتجرد لالتماس العلم وطلبه وطلب الفضل والأدب من أبوابه وطاف في أقطار الأندلس وجال ولقي من أهل العلم فحول الرجال واقتبس من أنفاسهم وأنس من ناموسه نبراسهم وتعلم من تبيانهم وتكلم بلبانهم وتأسى بإنشائهم فتح الله عليه في خدمة الحديث بابا سهل عليه مدخله فعلم الحديث وتدوينه محطه ومرحل صنف فيه تصانيف وجمع وألف فيه تآليف ونفع وكان مترددا بين الحرمين رافعا من شرف جوارهما علمين ثم أنه اختار بالآخرة مجاورة المدينة ورزقه الله من اليمنيات خليلة مدنية فأحبت الشيخ واختارت على الدنيا جتاية وأتت منه ببنتين فسماهما طيبة وطابة فأحبهما1 واسترغد بهما البشر واستطابه ثم إنهما توفيتا في حياته وسلبتان ضو أيانه1 وصفا1 وحزن بفقدهما إلى أقصى غاياته توفي عام تسع وثلاثين وسبعمائة انتهى
التحفۃ اللطیفیۃ فی تاریخ المدینۃ الشریفۃ2/411

میراخیال ہے کہ جتنے نقول پیش کئے گئے ہیں اس سے ہرایک خود معلوم کرلے گاکہ کفایت اللہ صاحب کا یہ جملہ
"ان کے حالات ملتے ہیں مگر ان کی ثقاہت تودرکنار ان کی عدالت کے تعلق سے بھی کچھ نہیں ملتاہے:
کس درجہ حقیقت سے پرے اورواقعہ کی غلط ترجمانی ہے۔

بلکہ امام تقي الدين محمد بن أحمد الحسني الفاسي المكي (المتوفی:832) نے تو ان پر ان الفاظ میں جرح کی ہے :
وله عناية كبيرة بهذا الشأن ؛ إلا أنه لم يكن فيه نجيباً ؛ لأن له تعاليق مشتملة على أوهام فاحشة [العقد الثمين (1/286)]۔
لہٰذا ’’الآقْشِهْري‘‘ نام کا یہ سیاح بذات خود مجروح ہے۔
مجھے سمجھ میں نہیں آتاکہ کفایت اللہ صاحب کس اعتبار سے کلام کرتے ہیں۔زیربحث مثال کو ہی دیکھیں۔ جیساکہ میں نے سابق حوالے میں اس کو نشان زد کیاہے اولاتوعلم حدیث میں ان کی توجہ کی تعریف کی ہے ولہ عنایۃ کبیرۃ بھذالشان،اس کے بعد نقد کیاہے ہاں مگر یہ کہ وہ اس میں لائق وفائق نہیں تھے اوران کی تعالیق میں فاحش اوہام ہیں۔لیکن فاحش اوہام کے ہونے سے کسی کی ثقاہت ختم ہوجائے یہ بات ماننے کی نہیں ہے۔ کیامستدرک علی الصحیحین کے مولف حاکم کے اوہام کچھ کم ہیں لیکن کفایت اللہ صاحب انہیں ثقہ اورعلم حدیث میں بہت بڑے رسوخ والا مانتے ہیں ساتھ ساتھ متساہل بھی۔
کیاابن حبان کے اوہام کچھ کم ہیں؟ ایک ہی شخص کو ثقہ اورمجروح دونوں صف میں ذکر کردیتے ہیں۔ اس طرح اگرمحدثین کرام کے اوہام فاحشہ گنانے پر ہم آئیں توفہرست بہت طویل ہوجائے گی لیکن یہ بات واضح رہے کہ کس کا اپنی تصانیف وتالیفات میں اوہام فاحشہ کا مرتکب ہوناالگ شے ہے اورثقاہت وعدالت دوسری شے ہے۔
پھردوسری بات یہ ہے کہ یہ جرح جرح مبہم ہے۔ انہوں نے اوہام فاحشہ کی کوئی مثال پیش نہیں کی محض یہ کہہ دیناکہ فلانے کو اوہام فاحشہ پیش آئے ہیں ناقابل قبول ہے ۔بہت مرتبہ ایساہوتاہے کہ جرح کرنے والے کوخود غلطی پیش آتی ہے ۔اس کی مثال کفایت اللہ صاحب مغلطائی کے ذکر میں ملاحظہ فرماچکے ہیں کہ وہ حافظ ابن حجر کے کلام سے مغلطائی پر وہم فحش کا حکم لگارہے تھے لیکن جب عبارت کا مکمل تجزیہ ہواتوپتہ چلاکہ یہ وہم فحش خود کفایت اللہ صاحب کو پیش آرہاہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ ابن فرحون نے واضح طورپر اورکھل کر ان کی تعریف کی ہے اوران کے حفظ کی بھی تعریف کی ہے۔
وقال ابن فرحون: إنه كان من شيوخ الوقت والأئمة الكبار في العلم والعمل ومعرفة الحديث والرجال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وكان قد يسر الله عليه تدوين الحديث والعلم فلا تسأله عن شيء من علم الحديث ورجاله إلا وجدت عنده منه طرفا جيدا وحفظا حسنا
اس واضح توثیق کے بعد اورحفظ کی تعریف کے بعد بھی تقی الدین فاسی کی مبہم بات کا اعتبار کیاجائے گایاپھر ابن فرحون کی بات کااعتبار کیاجائے گا؟اگردیانت داری سے جواب دیاجائے توشق ثانی کے حق میں فیصلہ آئے گا
ہاں ضد کی ہے اوربات۔

اورمجروح لوگوں کے نقد کو خود جمشیدصاحب بھی قابل قبول نہیں سمجھتے۔
چنانچہ حافظ ابن حجر نے نقل کیا کہ:
وقال مسلمة بن قاسم الأندلسي في كتاب الصلة كان ثقة جليل القدر فقيه البدن عالما باختلاف العلماء بصيرا بالتصنيف وكان يذهب مذهب أبي حنيفة وكان شديد العصبية فيه[لسان الميزان لابن حجر: 1/ 276]۔

اس عبارت میں مسلمہ بن قاسم نے امام طحاوی کو سخت حنفی متعصب بتلایا ہے ۔
جمشید صاحب مسلمہ بن قاسم کے اس تبصرہ کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
مسلمہ بن قاسم القرطبی نے بھی امام طحاوی پر تعصب کا الزام لگایاہے لیکن افسوس کہ خود ان کی ذات معرض تنقید ہے اورحافظ حاذہبی نے سیراعلام النبلاء میں جوان کا تذکرہ لکھاہے اس سے پتہ چلتاہے کہ وہ اس لائق نہیں کہ ان کی تنقید پر کچھ بھی توجہ دی جائے۔امام طحاوی حیات وخدمات
عرض ہے کہ اسی اصول کے تحت شیخ الاسلام کے خلاف اس مجروح سیاح کی منقولہ باتیں بھی قطعا قابل التفات نہیں ، مزید یہ ہے کہ یہ مجروح سیاح ان باتوں کو نقل کرنے میں منفرد ہے، دیگر لوگوں اس طرح کی بکواس قطعا نہیں پیش کی اس لئے اس کی باتیں یکسر مردود ہیں۔
اولاتوکہیں بھی مسلمہ بن القاسم کی طرح الاقشھری پرجرح کا ثبوت نہیں ہے ۔دوسرے جوجرح ہے وہ مبہم ہے وہ حفظ وضبط کے معاملے میں نہیں ہے بلکہ کسی امر کوسمجھنے کے تعلق سے ہے اوراس میں بڑے بڑے ناموروں کے قدم پھسل جاتے ہیں اوروہ وہم فحش کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ جب کہ مسلمہ بن القاسم کا معاملہ دوسراہے۔اگرہم ان کے خلاف تمام جروحات کو نظرانداز بھی کردیں توبھی امام بخاری کے سلسلہ میں انہوں نے جوکچھ فرمایاہے وہی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ ان کی جرح کا معیار کیاہے۔
ویسے آئندہ نقول میں مسلمہ بن القاسم نے امام بخاری کے تعلق سے جوکچھ کہاہے اورخود مسلمہ بن القاسم پرتفصیلی نقول ہوں گے۔جس سے قارئین یہ معلوم کرلیں گے کہ الاقشھری کومسلمہ بن القاسم پر قیاس کرنا کس درجہ غلط حرکت اورعلم حدیث اوراس کے اصولوں سے جہالت کا ثبوت ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top