• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا عائشہ رضی الله عنہا مسلسل پردہ میں رہتیں

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

کیا یہ تحقیق صحیح ہے یا نہیں وضاحت چاہیے



المسند الامام احمد / سنن ابو داؤد / سنن النسائی --- احمد بن حنبل / ابو داؤد / النسائی --- کیا عائشہ رضی الله عنہا مسلسل پردہ میں رہتیں / ابنِ اُم مکتوم (نابینا صحابی) کی پردے والی روایت ضعیف ہے


حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حماد بن أسامة قال أنا هشام عن أبيه عن عائشة قالت : كنت أدخل بيتي الذي دفن فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي فاضع ثوبي فأقول إنما هو زوجي وأبي فلما دفن عمر معهم فوالله ما دخلت إلا وأنا مشدودة على ثيابي حياء من عمر


حماد بن اسامہ (ابو اسامہ المتوفی: ٢٠١ ھ ) بیان کرتے ہیں کہ ان سے هشام بن عروہ بیان کرتے ہیں ، وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا میں گھر میں داخل ہوتی تھی جس میں نبی صلی الله علیہ وسلم اور میرے باپ مدفون ہیں ، پس میں (اپنے آپ سے) کہتی یہ تو میرے شوہر اور باپ ہیں پس کپڑا لیتی (بطور حجاب) لیکن جب سے عمر کی انکے ساتھ تدفین ہوئی ہے ، الله کی قسم! میں داخل نہیں ہوتی لیکن اپنے کپڑے سے چمٹی رہتی ہوں ، عمر سے شرم کی وجہ سے -


(المسند الامام احمد: جلد ١٨ ، صفحہ ٢٥ ، رقم ٢٥٥٣٦ ، دار الحدیث - القاہرہ)


hazrat aisha razi allah ka parda.jpg


امام احمد کے علاوہ اس کو الحاکم نے المستدرک میں ، ابن سعد نے الطبقات الکبریٰ میں ، الهيثمی نے مجمع الزوائد میں ، ابی بكر الخلال نے السنہ میں حماد بن اسامہ کے تفرد کے ساتھ روایت کیا ہے -

اس روایت کا مفہوم ہے کہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا ، عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے حجرے میں تدفین کے بعد ہر وقت اپنا حجاب لیتیں کیونکہ انکو عمر سے شرم آتی تھی -

اس روایت میں عمررضی الله تعالی عنہ کے تصرف کا ذکر ہے کہ وہ بعد وفات ، قبر کی مٹی کی دبیزتہہ سے باہر بھی دیکھ لیتے تھے اس روایت کا مطلب ہے کہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا ، نعوذباللہ ، مردے کے قبر سے باہر دیکھنے کی قائل تھیں -

اس روایت میں حماد بن اسامہ کا تفرد ہے -

کتاب تہذیب التہذیب کے مطابق:

وقال الآجري عن أبي داود قال وكيع نهيت أبا أسامة أن يستعير الكتب وكان دفن كتبه


ابو داؤد کہتے ہیں کہ وكيع نے کہا میں نے ابا اسامہ کو (دوسروں کی حدیث کی) کتابیں مستعار لینے سے منع کیا اور اس نے اپنی کتابیں دفن کر دیں تھیں -


(جلد ٣ ، صفحہ ٣ ، مطبعة دائرة المعارف النظامية - الهند)

عموماً راوی اپنی کتابیں دفن کرتے یا جلاتے کیونکہ ان کو یہ یاد نہیں رہتا تھا کہ انہوں نے کیا کیا غلط روایت کر دیا ہے پھر پشیمانی ہوتی تو ایسا کام کرتے مثلاً ابو اسامہ اور ابن لھیعة وغیرہ -

اسکی وجہ شاید تدلیس کا مرض ہو -

کتاب المدلسین از ابن العراقی (المتوفى: 826هـ) کے مطابق:

قال الأزدي: قال المعيطي: كان كثير التدليس ثم بعد تركه


الازدی کہتے ہیں کہ المعيطی کہتے ہیں یہ بہت تدلیس کرتے پھر اس کو ترک کر دیا - (صفحہ ٤٧ ، الطبعہ الاولی ١٤١٥ھ)

کتاب تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس (طبقات المدلسين) از ابن حجر کے مطابق:

كان كثير التدليس ثم رجع عنه


بہت تدلیس کرتے پھر اس کو کرنا چھوڑ دیا - (صفحہ ٣٠ ، رقم ٤٤ ، مکتبہ المنار - عمان)

صحیحین میں حماد بن اسامہ موجود ہیں جن کے بارے میں ظاہر ہے کہ امام مسلم اور امام بخاری نے تحقیق کی ہے لیکن زیر بحث روایت صحیحن میں نہیں -

محدثین کے مطابق روایت کے سارے راوی ثقہ بھی ہوں تو روایت شاذ ہو سکتی ہے

کہا جاتا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے

امام حاکم اس کو مستدرک میں روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں

هذا حديث صحيح على شرط الشيخين


یہ شیخین کی شرط پر صحیح ہے


امام الذہبی نے اس پر سکوت کیا ہے -

محدثین کے نزدیک ابو اسامہ کی ساری روایات صحیح نہیں ہیں -

يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسی الفسوی ، ابو يوسف (المتوفى: 277هـ) کتاب المعرفة والتاريخ میں لکھتے ہیں کہ:

قَالَ : عُمَرُ : سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ : كَانَ أَبُو أُسَامَةَ إِذَا رَأَى عَائِشَةَ فِي الْكِتَابِ حَكَّهَا فَلَيْتَهُ لَا يَكُونُ إِفْرَاطٌ فِي الْوَجْهِ الْآخَرِ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ يُوهِنُ أَبَا أُسَامَةَ ، ثُمَّ قَالَ : يُعْجَبُ لِأَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ وَمَعْرِفَتِهِ بِأَبِي أُسَامَةَ ، ثُمَّ هُوَ يُحَدِّثُ عَنْهُ


عمر بن حفص بن غیاث (المتوفی: ٢٢٢ ھ) کہتے ہیں میں نے اپنے باپ کو کہتے سنا ابو اسامہ جب کتاب میں عائشہ لکھا دیکھتا تو اس کو مسخ کر دیتا یہاں تک کہ اس (روایت) میں پھر کسی دوسری جانب سے اتنا افراط نہیں آ پاتا يعقوب بن سفيان کہتے ہیں میں نے محمد بن عبد الله بن نمير کو سنا وہ ابو اسامہ کو کمزور قرار دیتے تھے پھر کہا مجھے (محمد بن عبد اللهِ بن نمير کو) ابی بکر بن ابی شیبہ پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ اس ابو اسامہ کو جانتے ہیں لیکن پھر بھی اس سے روایت لیتے ہیں -


(المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان: مَا جَاءَ فِي الْكُوفَةِ)

عمر بن حفص بن غیاث (المتوفی: ٢٢٢ ھ) ، ابو اسامہ کے ہم عصر ہیں - زیر بحث روایت بھی اپنے متن میں غیر واضح اور افراط کے ساتھ ہے - محدثین ایسی روایات کے لئے منکر المتن کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں -

ابن القيسرانی (المتوفى: 507هـ) کتاب ذخيرة الحفاظ (من الكامل لابن عدی) میں ایک روایت پر لکھتے ہیں کہ:

وَهَذَا الحَدِيث وَإِن كَانَ مُسْتَقِيم الْإِسْنَاد؛ فَإِنَّهُ مُنكر الْمَتْن، لَا أعلم رَوَاهُ عَن ابْن عَيَّاش غير سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي


اور یہ حدیث اگر اس کی اسناد مستقیم بھی ہوں تو یہ منکر المتن ہے اس کو ابن عياش سے سوائے سليمان بن ايوب الحمصی کے کوئی روایت نہیں کرتا -


(جلد ٤ ، صفحہ ٢١٣٢ ، رقم ٤٩٥٢ ، دار السلف - الرياض)

ہمارے نزدیک عائشہ رضی الله تعالی عنہا کی حجرے میں مسلسل حالت حجاب میں رہنے والی روایت منکر المتن ہے جس کو حماد بن اسامہ کے سوا کوئی اور روایت نہیں کرتا -

پہلی شرح:


اس روایت کا مطلب ، روایت پرست اس طرح سمجھاتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی پنڈلی پر سے کپڑا ہٹا ہوا تھا ابو بکر اور عمر آئے لیکن آپ نے نہیں چھپایا لیکن جب عثمان آئے تو آپ نے چھپا لیا اور کہا میں اس سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں - یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب نبی صلی الله علیہ وسلم ، ابو بکر ، عمر ، عثمان رضی الله عنہم سب زندہ تھے - اس روایت کو عثمان رضی الله تعالی عنہ کی منقبت میں تو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن زیر بحث روایت سے اسکا کوئی تعلق نہیں -


دوسری شرح:


ایک دوسری روایت بھی تفہیم میں پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے امہات المومینن رضی اللہ تعالی عنہا کو نابینا صحابی ابن مکتوم رضی الله تعالی عنہ سے پردے کا حکم دیا "احْتَجِبَا مِنْهُ" ان سے حجاب کرو - اس کو نسائی ، ابو داؤد نے روایت کیا ہے -


نسائی کی سند ہے:

أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، قَالَ : أنا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ : أنا يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ نَبْهَانَ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ


ابو داؤد کی سند ہے:

حدثنا محمد بن العلاء حدثنا ابن المبارك عن يونس عن الزهري قال حدثني نبهان مولى أم سلمة عن أم سلمة -


(سنن أبي داود: كتاب اللباس: باب: في قوله عز وجل وقل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن)

نسائی کہتے ہیں کہ:

قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى عَنْ نَبْهَانَ غَيْرَ الزُّهْرِيِّ


ہم نہیں جانتے کہ نبهان سے سوائے الزهری کے کسی نے روایت کیا ہو -


(السنن الكبرى للنسائي: كِتَابِ عِشْرَةِ النِّسَاءِ: أَبْوَابُ الْمُلاعِبَةِ: نَظَرُ النِّسَاءِ إِلَى الأَعْمَى)

کتاب ذيل ديوان الضعفاء والمتروكين از الذہبی کے مطابق:

نبهان، كاتب أم سلمة: قال ابن حزم: مجهول: روى عنه الزهري


نبهان ، ام سلمہ رضی الله تعالی عنہا کے کاتب تھے ابن حزم کہتے ہیں مجھول ہے الزهری ان سے روایت کرتے ہیں -


(صفحہ ٧٣ ، رقم ٥١٦ ، كتبة النهضة الحديثة - مكة)

کتاب المغنی لابن قدامہ کے مطابق:

وقال ابن عبد البر : نبهان مجهول ، لا يعرف إلا برواية الزهري عنه هذا الحديث


ابن عبد البر کہتے ہیں نبهان مجھول ہے اور صرف اسی روایت سے جانا جاتا ہے -


(المغني لابن قدامة: كتاب النكاح: من أراد أن يتزوج امرأة فله أن ينظر إليها من غير أن يخلو بها: فصل نظر المرأة إلى الرجل)

فأما حديث نبهان فقال أحمد : نبهان روى حديثين عجيبين . يعني هذا الحديث ، وحديث { : إذا كان لإحداكن مكاتب ، فلتحتجب منه } وكأنه أشار إلى ضعف حديثه


پس جہاں تک نبهان کی حدیث کا تعلق ہے تو احمد کہتے ہیں کہ نبهان نے دو عجیب حدیثیں روایت کی ہیں یہ (ابن مکتوم سے پردہ) والی اور…..پس انہوں نے اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا - (ایضاً)


البانی اور شعيب الارناؤوط اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں -

اس روایت پر حکم:

یہ روایت منکر المتن ہے -


اول: زیر بحث روایت میں عائشہ رضی الله تعالی عنہ کا ایک مدفون میت سے حیا کرنے کا ذکر ہے - عائشہ رضی الله تعالی عنہا ایک فقیہہ تھیں اور ان کے مطابق میت نہیں سنتی تو وہ میت کے دیکھنے کی قائل کیسے ہو سکتی ہیں؟ وہ بھی قبر میں مدفون میت!

دوم: یہ انسانی بساط سے باہر ہے کہ مسلسل حجاب میں رہا جائے - یہ ناممکنات میں سے ہے - خیال رہے کہ امہات المومنین چہرے کو بھی پردے میں رکھتی تھیں -

اہل شعور اس روایت کو اپنے اوپر منطبق کر کے سوچیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک چھوٹے سے حجرہ میں مسلسل چہرے کے پردے میں رہا جائے؟

سوم: عائشہ رضی الله تعالی عنہا کی وفات ٥٧ ھ میں ہوئی - عمر رضی الله تعالی عنہ کی شہادت ٢٣ ھ میں ہوئی - اس پردے والی ابو اسامہ کی روایت کو درست مانا جائے تو اسکا مطلب ہے کہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا ٣٤ سال حجرے میں پردے میں رہیں یعنی ٣٤ سال تک گھر کے اندر اور باہر پردہ میں رہیں!

چہارم: عائشہ رضی الله تعالی عنہا کو اس تکلیف میں دیکھ کر کسی نے ان کو دوسرے حجرے میں منتقل ہونے کا مشورہ بھی نہیں دیا - انسانی ضروریات کے تحت لباس تبدیل کرنا کیسے ہوتا ہو گا؟ کسی حدیث میں نہیں آتا کہ وہ اس وجہ سے دوسری امہات المومنین کے حجرے میں جاتی ہوں کیونکہ تدفین تو حجرہ عائشہ میں تھی -

بحر الحال یہ روایت غیر منطقی ہے اورایک ایسے عمل کا بتارہی ہے جو مسلسل دن و رات ٣٤ سال کیا گیا اور یہ انسانی بساط سے باہر کا اقدام ہے -
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156

کیا یہ تحقیق صحیح ہے یا نہیں وضاحت چاہیے



المسند الامام احمد / سنن ابو داؤد / سنن النسائی --- احمد بن حنبل / ابو داؤد / النسائی --- کیا عائشہ رضی الله عنہا مسلسل پردہ میں رہتیں / ابنِ اُم مکتوم (نابینا صحابی) کی پردے والی روایت ضعیف ہے


حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حماد بن أسامة قال أنا هشام عن أبيه عن عائشة قالت : كنت أدخل بيتي الذي دفن فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي فاضع ثوبي فأقول إنما هو زوجي وأبي فلما دفن عمر معهم فوالله ما دخلت إلا وأنا مشدودة على ثيابي حياء من عمر


حماد بن اسامہ (ابو اسامہ المتوفی: ٢٠١ ھ ) بیان کرتے ہیں کہ ان سے هشام بن عروہ بیان کرتے ہیں ، وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے فرمایا میں گھر میں داخل ہوتی تھی جس میں نبی صلی الله علیہ وسلم اور میرے باپ مدفون ہیں ، پس میں (اپنے آپ سے) کہتی یہ تو میرے شوہر اور باپ ہیں پس کپڑا لیتی (بطور حجاب) لیکن جب سے عمر کی انکے ساتھ تدفین ہوئی ہے ، الله کی قسم! میں داخل نہیں ہوتی لیکن اپنے کپڑے سے چمٹی رہتی ہوں ، عمر سے شرم کی وجہ سے -


(المسند الامام احمد: جلد ١٨ ، صفحہ ٢٥ ، رقم ٢٥٥٣٦ ، دار الحدیث - القاہرہ)



امام احمد کے علاوہ اس کو الحاکم نے المستدرک میں ، ابن سعد نے الطبقات الکبریٰ میں ، الهيثمی نے مجمع الزوائد میں ، ابی بكر الخلال نے السنہ میں حماد بن اسامہ کے تفرد کے ساتھ روایت کیا ہے -

اس روایت کا مفہوم ہے کہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا ، عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے حجرے میں تدفین کے بعد ہر وقت اپنا حجاب لیتیں کیونکہ انکو عمر سے شرم آتی تھی -

اس روایت میں عمررضی الله تعالی عنہ کے تصرف کا ذکر ہے کہ وہ بعد وفات ، قبر کی مٹی کی دبیزتہہ سے باہر بھی دیکھ لیتے تھے اس روایت کا مطلب ہے کہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا ، نعوذباللہ ، مردے کے قبر سے باہر دیکھنے کی قائل تھیں -

اس روایت میں حماد بن اسامہ کا تفرد ہے -

کتاب تہذیب التہذیب کے مطابق:

وقال الآجري عن أبي داود قال وكيع نهيت أبا أسامة أن يستعير الكتب وكان دفن كتبه


ابو داؤد کہتے ہیں کہ وكيع نے کہا میں نے ابا اسامہ کو (دوسروں کی حدیث کی) کتابیں مستعار لینے سے منع کیا اور اس نے اپنی کتابیں دفن کر دیں تھیں -


(جلد ٣ ، صفحہ ٣ ، مطبعة دائرة المعارف النظامية - الهند)

عموماً راوی اپنی کتابیں دفن کرتے یا جلاتے کیونکہ ان کو یہ یاد نہیں رہتا تھا کہ انہوں نے کیا کیا غلط روایت کر دیا ہے پھر پشیمانی ہوتی تو ایسا کام کرتے مثلاً ابو اسامہ اور ابن لھیعة وغیرہ -

اسکی وجہ شاید تدلیس کا مرض ہو -

کتاب المدلسین از ابن العراقی (المتوفى: 826هـ) کے مطابق:

قال الأزدي: قال المعيطي: كان كثير التدليس ثم بعد تركه


الازدی کہتے ہیں کہ المعيطی کہتے ہیں یہ بہت تدلیس کرتے پھر اس کو ترک کر دیا - (صفحہ ٤٧ ، الطبعہ الاولی ١٤١٥ھ)

کتاب تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس (طبقات المدلسين) از ابن حجر کے مطابق:

كان كثير التدليس ثم رجع عنه


بہت تدلیس کرتے پھر اس کو کرنا چھوڑ دیا - (صفحہ ٣٠ ، رقم ٤٤ ، مکتبہ المنار - عمان)

صحیحین میں حماد بن اسامہ موجود ہیں جن کے بارے میں ظاہر ہے کہ امام مسلم اور امام بخاری نے تحقیق کی ہے لیکن زیر بحث روایت صحیحن میں نہیں -

محدثین کے مطابق روایت کے سارے راوی ثقہ بھی ہوں تو روایت شاذ ہو سکتی ہے

کہا جاتا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے

امام حاکم اس کو مستدرک میں روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں

هذا حديث صحيح على شرط الشيخين


یہ شیخین کی شرط پر صحیح ہے


امام الذہبی نے اس پر سکوت کیا ہے -

محدثین کے نزدیک ابو اسامہ کی ساری روایات صحیح نہیں ہیں -

يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسی الفسوی ، ابو يوسف (المتوفى: 277هـ) کتاب المعرفة والتاريخ میں لکھتے ہیں کہ:

قَالَ : عُمَرُ : سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ : كَانَ أَبُو أُسَامَةَ إِذَا رَأَى عَائِشَةَ فِي الْكِتَابِ حَكَّهَا فَلَيْتَهُ لَا يَكُونُ إِفْرَاطٌ فِي الْوَجْهِ الْآخَرِ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ يُوهِنُ أَبَا أُسَامَةَ ، ثُمَّ قَالَ : يُعْجَبُ لِأَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ وَمَعْرِفَتِهِ بِأَبِي أُسَامَةَ ، ثُمَّ هُوَ يُحَدِّثُ عَنْهُ


عمر بن حفص بن غیاث (المتوفی: ٢٢٢ ھ) کہتے ہیں میں نے اپنے باپ کو کہتے سنا ابو اسامہ جب کتاب میں عائشہ لکھا دیکھتا تو اس کو مسخ کر دیتا یہاں تک کہ اس (روایت) میں پھر کسی دوسری جانب سے اتنا افراط نہیں آ پاتا يعقوب بن سفيان کہتے ہیں میں نے محمد بن عبد الله بن نمير کو سنا وہ ابو اسامہ کو کمزور قرار دیتے تھے پھر کہا مجھے (محمد بن عبد اللهِ بن نمير کو) ابی بکر بن ابی شیبہ پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ اس ابو اسامہ کو جانتے ہیں لیکن پھر بھی اس سے روایت لیتے ہیں -


(المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان: مَا جَاءَ فِي الْكُوفَةِ)

عمر بن حفص بن غیاث (المتوفی: ٢٢٢ ھ) ، ابو اسامہ کے ہم عصر ہیں - زیر بحث روایت بھی اپنے متن میں غیر واضح اور افراط کے ساتھ ہے - محدثین ایسی روایات کے لئے منکر المتن کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں -

ابن القيسرانی (المتوفى: 507هـ) کتاب ذخيرة الحفاظ (من الكامل لابن عدی) میں ایک روایت پر لکھتے ہیں کہ:

وَهَذَا الحَدِيث وَإِن كَانَ مُسْتَقِيم الْإِسْنَاد؛ فَإِنَّهُ مُنكر الْمَتْن، لَا أعلم رَوَاهُ عَن ابْن عَيَّاش غير سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي


اور یہ حدیث اگر اس کی اسناد مستقیم بھی ہوں تو یہ منکر المتن ہے اس کو ابن عياش سے سوائے سليمان بن ايوب الحمصی کے کوئی روایت نہیں کرتا -


(جلد ٤ ، صفحہ ٢١٣٢ ، رقم ٤٩٥٢ ، دار السلف - الرياض)

ہمارے نزدیک عائشہ رضی الله تعالی عنہا کی حجرے میں مسلسل حالت حجاب میں رہنے والی روایت منکر المتن ہے جس کو حماد بن اسامہ کے سوا کوئی اور روایت نہیں کرتا -

پہلی شرح:


اس روایت کا مطلب ، روایت پرست اس طرح سمجھاتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کی پنڈلی پر سے کپڑا ہٹا ہوا تھا ابو بکر اور عمر آئے لیکن آپ نے نہیں چھپایا لیکن جب عثمان آئے تو آپ نے چھپا لیا اور کہا میں اس سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں - یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب نبی صلی الله علیہ وسلم ، ابو بکر ، عمر ، عثمان رضی الله عنہم سب زندہ تھے - اس روایت کو عثمان رضی الله تعالی عنہ کی منقبت میں تو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن زیر بحث روایت سے اسکا کوئی تعلق نہیں -


دوسری شرح:


ایک دوسری روایت بھی تفہیم میں پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے امہات المومینن رضی اللہ تعالی عنہا کو نابینا صحابی ابن مکتوم رضی الله تعالی عنہ سے پردے کا حکم دیا "احْتَجِبَا مِنْهُ" ان سے حجاب کرو - اس کو نسائی ، ابو داؤد نے روایت کیا ہے -


نسائی کی سند ہے:

أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، قَالَ : أنا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ : أنا يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ نَبْهَانَ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ


ابو داؤد کی سند ہے:

حدثنا محمد بن العلاء حدثنا ابن المبارك عن يونس عن الزهري قال حدثني نبهان مولى أم سلمة عن أم سلمة -


(سنن أبي داود: كتاب اللباس: باب: في قوله عز وجل وقل للمؤمنات يغضضن من أبصارهن)

نسائی کہتے ہیں کہ:

قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ : مَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى عَنْ نَبْهَانَ غَيْرَ الزُّهْرِيِّ


ہم نہیں جانتے کہ نبهان سے سوائے الزهری کے کسی نے روایت کیا ہو -


(السنن الكبرى للنسائي: كِتَابِ عِشْرَةِ النِّسَاءِ: أَبْوَابُ الْمُلاعِبَةِ: نَظَرُ النِّسَاءِ إِلَى الأَعْمَى)

کتاب ذيل ديوان الضعفاء والمتروكين از الذہبی کے مطابق:

نبهان، كاتب أم سلمة: قال ابن حزم: مجهول: روى عنه الزهري


نبهان ، ام سلمہ رضی الله تعالی عنہا کے کاتب تھے ابن حزم کہتے ہیں مجھول ہے الزهری ان سے روایت کرتے ہیں -


(صفحہ ٧٣ ، رقم ٥١٦ ، كتبة النهضة الحديثة - مكة)

کتاب المغنی لابن قدامہ کے مطابق:

وقال ابن عبد البر : نبهان مجهول ، لا يعرف إلا برواية الزهري عنه هذا الحديث


ابن عبد البر کہتے ہیں نبهان مجھول ہے اور صرف اسی روایت سے جانا جاتا ہے -


(المغني لابن قدامة: كتاب النكاح: من أراد أن يتزوج امرأة فله أن ينظر إليها من غير أن يخلو بها: فصل نظر المرأة إلى الرجل)

فأما حديث نبهان فقال أحمد : نبهان روى حديثين عجيبين . يعني هذا الحديث ، وحديث { : إذا كان لإحداكن مكاتب ، فلتحتجب منه } وكأنه أشار إلى ضعف حديثه


پس جہاں تک نبهان کی حدیث کا تعلق ہے تو احمد کہتے ہیں کہ نبهان نے دو عجیب حدیثیں روایت کی ہیں یہ (ابن مکتوم سے پردہ) والی اور…..پس انہوں نے اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا - (ایضاً)


البانی اور شعيب الارناؤوط اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں -

اس روایت پر حکم:

یہ روایت منکر المتن ہے -


اول: زیر بحث روایت میں عائشہ رضی الله تعالی عنہ کا ایک مدفون میت سے حیا کرنے کا ذکر ہے - عائشہ رضی الله تعالی عنہا ایک فقیہہ تھیں اور ان کے مطابق میت نہیں سنتی تو وہ میت کے دیکھنے کی قائل کیسے ہو سکتی ہیں؟ وہ بھی قبر میں مدفون میت!

دوم: یہ انسانی بساط سے باہر ہے کہ مسلسل حجاب میں رہا جائے - یہ ناممکنات میں سے ہے - خیال رہے کہ امہات المومنین چہرے کو بھی پردے میں رکھتی تھیں -

اہل شعور اس روایت کو اپنے اوپر منطبق کر کے سوچیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک چھوٹے سے حجرہ میں مسلسل چہرے کے پردے میں رہا جائے؟

سوم: عائشہ رضی الله تعالی عنہا کی وفات ٥٧ ھ میں ہوئی - عمر رضی الله تعالی عنہ کی شہادت ٢٣ ھ میں ہوئی - اس پردے والی ابو اسامہ کی روایت کو درست مانا جائے تو اسکا مطلب ہے کہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا ٣٤ سال حجرے میں پردے میں رہیں یعنی ٣٤ سال تک گھر کے اندر اور باہر پردہ میں رہیں!

چہارم: عائشہ رضی الله تعالی عنہا کو اس تکلیف میں دیکھ کر کسی نے ان کو دوسرے حجرے میں منتقل ہونے کا مشورہ بھی نہیں دیا - انسانی ضروریات کے تحت لباس تبدیل کرنا کیسے ہوتا ہو گا؟ کسی حدیث میں نہیں آتا کہ وہ اس وجہ سے دوسری امہات المومنین کے حجرے میں جاتی ہوں کیونکہ تدفین تو حجرہ عائشہ میں تھی -

بحر الحال یہ روایت غیر منطقی ہے اورایک ایسے عمل کا بتارہی ہے جو مسلسل دن و رات ٣٤ سال کیا گیا اور یہ انسانی بساط سے باہر کا اقدام ہے -
بات ”اتنی“ سی تھی بس !
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس حدیث میں منکرین حدیث کے لیے کوئی دلیل نہیں ، اس کی سند ہی ضعیف ہے ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اس حدیث میں منکرین حدیث کے لیے کوئی دلیل نہیں ، اس کی سند ہی ضعیف ہے ۔
لگتا ہے آپ علامہ ھیثمی اور علامہ البانی سے بڑے محدث ہیں ان کی جانب سے جس روایت کو صحیح کہا گیا ہے اس پر ضعیف کا حکم لگا رہے ہیں
عن عائشةَ قالت كُنْتُ أدخُلُ بيتي الَّذي فيه رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وأبي فأضَعُ ثوبي فأقولُ إنَّما هو زوجي وأبي فلمَّا دُفِن عمرُ معهم فواللهِ ما دخَلْتُه إلَّا وأنا مشدودةٌ عليَّ ثيابي حياءً من عمرَ رضي اللهُ عنه
الراوي: [عروة بن الزبير] المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 8/29
خلاصة حكم المحدث:
رجاله رجال الصحيح

كُنْتُ أدخُلُ بيتي الَّذي فيه رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم وأبي فأضَعُ ثوبي وأقولُ إنَّما هو زوجي وأبي فلمَّا دُفِن عمرُ معهم فواللهِ ما دخَلْتُه إلَّا وأنا مشدودةٌ عليَّ ثيابي حياءً من عمرَ رضي اللهُ عنه
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم:9/40
خلاصة حكم المحدث:
رجاله رجال الصحيح


كنتُ أدخلُ بيتيَ الَّذي فيهِ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ وإنِّي واضعٌ ثوبي وأقولُ: إنَّما هوَ زَوجي وأبي فلمَّا دُفنَ عمرُ رضيَ اللَّهُ عنْهُ معَهم فواللَّهِ ما دخلتُهُ إلَّا وأنا مشدودةٌ عليَّ ثيابي حياءً من عُمرَ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: الألباني - المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 1712
خلاصة حكم المحدث:
رجاله رجال الصحيح


كنتُ أدخلُ البيتَ الَّذي دفنَ معَهما عمرُ واللَّهِ ما دخلتُ إلَّا وأنا مشدودٌ عليَّ ثيابي حياءً من عمرَ رضيَ اللَّهُ عنْهُ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: الألباني - المصدر: دفاع عن الحديث - الصفحة أو الرقم:96
خلاصة حكم المحدث:
إسناده صحيح


آپ اگر سامنے ہوتے تو میں آپ کاماتھا چوم لیتا
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
صحیحین میں حماد بن اسامہ موجود ہیں-


امام حاکم اس کو مستدرک میں روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں

هذا حديث صحيح على شرط الشيخين


یہ شیخین کی شرط پر صحیح ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کاپی پیسٹ کی یہ ساری کوشش دو باتوں کی بنیاد پر ہے
(۱)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس کمرہ میں مسلسل رہاہش پذیر رہیں
جس میں رسول اللہ ﷺ دفن کئے گئے
اور بعد میں شیخین رضی اللہ عنہما دفن ہوئے ۔
(۲)دوسری بات اس سستی کاپی پیسٹ سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ
محدثین کی جمع کردہ احادیث انتہائی غلط اور بے بنیاد ہیں
اس لئے سب محدثین کو چھوڑو اور ایک مردود ،جاہل کیپٹن اور اس کے جاہل،اجہل گماشتوں کی پیروی کرو ،یہی جاہل امامت و تحقیق کی منزل علیا پر فائز ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دونوں باتیں ہی غلط ہیں ۔
پہلی چیز یعنی حجرہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا
جس کو ان جاہل گستاخوں نے موجودہ دور کا کوئی وسیع ڈرائنگ روم سمجھ رکھا ہے
وہ حقیقت میں ایک بہت ہی چھوٹا کمرہ تھا ۔اتنا چھوٹاکہ
سیدہ فرماتی ہیں جب پیارے نبی ﷺ نماز تہجد پڑھتے ،اور میں ان کے قبلہ رخ لیٹی ہوتی تو جگہ کی قلت کے سبب جب آپ سجدہ کےلئے جھکتے ،تو مجھے اپنے ہاتھ لگا کر اشارہ کرتے ،تو میں اپناے پاوں سمیٹ لیتی
(«لقد رأيتني ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وأنا مضطجعة بينه وبين القبلة، فإذا أراد أن يسجد غمز رجلي، فقبضتهما» صحیح البخاری ۔
۵۱۹
اس لئے اس چھوٹے سے حجرہ میں تین قبریں لگنے بعد اتنی جگہ کہاں
کہ کوئی زندہ انسان اس میں آباد رہ سکے ۔۔
اسی لئے قاسم رحمہ اللہ کہتے ہیں :

عن القاسم، قال: دخلت على عائشة، فقلت: يا أمه اكشفي لي عن قبر النبي صلى الله عليه وسلم وصاحبيه رضي الله عنهما، «فكشفت لي عن ثلاثة قبور لا مشرفة، ولا لاطئة مبطوحة ببطحاء العرصة الحمراء» ابوداود
((اماں جان مجھے نبی اکرم ﷺ اور انکے دو صاحبوں کی قبریں دکھائیں، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے میرے لئے
ان تین قبروں (کے حجرہ ) کا دروازہ کھولا
((فهذا دليل على كونها معزولة عن مكان معيشتها وصلاتها ونحو ذلك))
اگر سیدہ اسی حجرہ میں رہائش رکھتی تھیں تو اس محدود سے کمرے میں موجود قبروں کےلئے (اکشفی لی ) میرے لئے کھولو ۔۔کہنے کی کیا ضرورت تھی ۔؟؟
اور اوپر جس راویت کو تختہ مشق بنایا گیا ہے ،اس میں بھی سیدہ کے الفاظ ہیں :
(« كنت أدخل البيت الذي دفن معهما عمر ، » « میں جب داخل ہوتی اس گھر میں جہاں یہ نفوس قدسیہ دفن تھے )
طبقات ابن سعد میں ہے ؛
أخبرنا موسى بن داود: سمعت مالك بن أنس يقول: قسم بيت عائشة باثنين:
قسم كان فيه القبر. وقسم كان تكون فيه عائشة. وبينهما حائط. فكانت عائشة ربما دخلت حيث القبر فضلا. فلما دفن عمر لم تدخله إلا وهي جامعة عليها ثيابها.
انس بن مالک فرماتے ہیں :سیدہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کا گھر دو حصوں پر مشتمل تھا
ایک وہ حصہ جہاں قبریں تھیں
اور دوسرا وہ جس حصہ میں سیدہ رہائش پذیر تھیں الخ

اگر آپ اسی کمرہ میں رہتی تھیں تو کہنا چاھئے تھا ،میں اپنے کمرے میں جب بھی جاتی ۔یا موجود رہتی
اس کی بجائے ان کا کہنا ہے (اس گھر میں جہاں ۔۔۔۔۔)

اور ایک نکتہ قابل توجہ ہے :
خود سیدہ عائشہ ان احادیث کی راویہ ہیں ،جن میں قبروں کو مسجد بنانے پر لعنت کی گئی ہے ۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ: «لَعَنَ اللَّهُ اليَهُودَ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا» ، قَالَتْ: وَلَوْلاَ ذَلِكَ لَأَبْرَزُوا قَبْرَهُ غَيْرَ أَنِّي أَخْشَى أَنْ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا

تو سیدہ خود اسی چھوٹے سے حجرہ ،جس میں یہ تینوں قبریں تھیں مسلسل رہتی تھیں تو وہاں نماز کیسے پڑھتی تھیں؟
لازم ہے کہ اس حجرہ کے ساتھ دوسرے کمرے میں ان کی رہائش تھی ۔

اسی لئے تو سیدہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «مَا عَلِمْنَا بِدَفْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَمِعْنَا صَوْتَ الْمَسَاحِي مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ» مصنف ابن ابی شیبہ
ہمیں رسول اللہ ﷺ کے دفن کر دئے جانے کا علم بدھ کی رات کے آخر میں کھدائی کے ہتھیاروں کی آواز سے ہوا ۔
یعنی سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس کمرہ میں نہیں تھیں جس میں آپ ﷺ کو دفن کیا گیا ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
قال الشيخ صالح آل الشيخ في التمهيد شرح كتاب التوحيد
ولما دفن عمر - رضي الله عنه - تركت الحجرة رضي الله عنها ، ثم أغلقت الحجرة ، فلم يكن ثم باب فيها يدخل منه إليها ، وإنما كانت فيها نافذة صغيرة ، ولم تكن الغرفة كما هو معلوم مبنية من حجر ، ولا من بناء مجصص ، وإنما كانت من البناء الذي كان في عهده عليه الصلاة والسلام ؛ من خشب ونحو ذلك .
ولما زيد في بناء المسجد النبوي في عهد الوليد بن عبد الملك ، وكان أمير المدينة يوم ذاك ، عمر بن عبد العزيز - رحمه الله - وأخذوا بعضا من حجر زوجات النبي عليه الصلاة والسلام : بقيت حجرة النبي عليه الصلاة والسلام كذلك ، فأخذوا من الروضة جزءا ، وبنوا عليه جدارا آخر غير الجدار الأول ، بنوه من ثلاث جهات ، وجعلوا جهة الشمال مسنمة أي : مثلثة ، فصار عندنا الآن جداران : الجدار الأول : مغلق تماما ، وهو جدار حجرة عائشة ، والجدار الثاني : الذي عمل في إمرة عمر بن عبد العزيز - رحمه الله - زمن الوليد بن عبد الملك وقد جعلوا من جهة الشمال - وهي عكس القبلة - مسنما ؛ لأنه في تلك الجهة جاءت التوسعة ، فخشوا أن يكون ذلك الجدار مربعا ، يعني : مسامتا للمستقبل ، فيكون إذا استقبله أحد فقد استقبل القبر ، فجعلوه مثلثا ، يبعد كثيرا عن الجدار الأول ، وهو : جدار حجرة عائشة ؛ لأجل أن لا يمكن لأحد أن يستقبل القبر ؛ لبعد المسافة ؛ ولأجل أن الجدر صار مثلثا .
ثم بعد ذلك بأزمان جاء جدار ثالث أيضا وبني حول ذينك الجدارين ، وهو الذي قال فيه ابن القيم - رحمه الله - في النونية في وصف دعاء النبي عليه الصلاة والسلام بقوله : « اللهم لا تجعل قبري وثنا يعبد » (1) قال :
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
لگتا ہے آپ علامہ ھیثمی اور علامہ البانی سے بڑے محدث ہیں ان کی جانب سے جس روایت کو صحیح کہا گیا ہے اس پر ضعیف کا حکم لگا رہے ہیں
عن عائشةَ قالت كُنْتُ أدخُلُ بيتي الَّذي فيه رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وأبي فأضَعُ ثوبي فأقولُ إنَّما هو زوجي وأبي فلمَّا دُفِن عمرُ معهم فواللهِ ما دخَلْتُه إلَّا وأنا مشدودةٌ عليَّ ثيابي حياءً من عمرَ رضي اللهُ عنه
الراوي: [عروة بن الزبير] المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 8/29
خلاصة حكم المحدث:
رجاله رجال الصحيح

كُنْتُ أدخُلُ بيتي الَّذي فيه رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم وأبي فأضَعُ ثوبي وأقولُ إنَّما هو زوجي وأبي فلمَّا دُفِن عمرُ معهم فواللهِ ما دخَلْتُه إلَّا وأنا مشدودةٌ عليَّ ثيابي حياءً من عمرَ رضي اللهُ عنه
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم:9/40
خلاصة حكم المحدث:
رجاله رجال الصحيح

كنتُ أدخلُ بيتيَ الَّذي فيهِ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ وإنِّي واضعٌ ثوبي وأقولُ: إنَّما هوَ زَوجي وأبي فلمَّا دُفنَ عمرُ رضيَ اللَّهُ عنْهُ معَهم فواللَّهِ ما دخلتُهُ إلَّا وأنا مشدودةٌ عليَّ ثيابي حياءً من عُمرَ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: الألباني - المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 1712
خلاصة حكم المحدث:
رجاله رجال الصحيح

كنتُ أدخلُ البيتَ الَّذي دفنَ معَهما عمرُ واللَّهِ ما دخلتُ إلَّا وأنا مشدودٌ عليَّ ثيابي حياءً من عمرَ رضيَ اللَّهُ عنْهُ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: الألباني - المصدر: دفاع عن الحديث - الصفحة أو الرقم:96
خلاصة حكم المحدث:
إسناده صحيح

آپ اگر سامنے ہوتے تو میں آپ کاماتھا چوم لیتا
میں نے حکم لگانےمیں جلدی کی ، اور غلطی ہوگئی ۔ بلکہ لولی آل ٹائم صاحب کی تحریر سے دھوکہ کھایا ، جس میں لکھا ہوا تھا کہ شیخ البانی وغیرہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ۔
اللہم اغفرلنا ما قدمنا و ما أخرنا و ما أسررنا و ما أعلننا ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
یہ فقیر اس سے پہلے بھی اس سوال کا جواب پیش کرچکا ہے (دیکھئیے یہ تھریڈ )

۔۔۔۔۔بندہ اس سوال کا جواب عرض کرتا ہے ،اگر کوئی غلطی ،کوتاہی ہو تو۔ اہل علم ۔اصلاح فرمادیں ،،،،و أجركم على الله
عن عائشة قالت كنت أدخل بيتي الذي دفن فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي فأضع ثوبي، وأقول إنما هو زوجي وأبي، فلما دفن عمر معهم فوالله ما دخلته إلا وأنا مشدودة علي ثيابي، حياء من عمر ) مسند الامام احمد -25660(4)

مسند کی تحقیق میں علامہ شعيب الأرنؤوط فرماتے ہیں :

أثر إسناده صحيح على شرط الشيخين.
وأخرجه الحاكم 3/61 من طريق الإمام أحمد، بهذا الإسناد.
وأخرجه كذلك 4/7 من طريق الحسن بن علي بن عفان، عن أبي أسامة حماد بن أسامة، به
وقال: هذا حديث صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه. وسكت عنه الذهبي.
وأورده الهيثمي في "مجمع الزوائد" 8/26 و9/37، وقال: رواه أحمد، ورجاله رجال الصحيح

یعنی حدیث بالکل صحیح ہے ،،،سند یہ ہے ،( حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ )
حماد بن اسامہ ،صحاح الست کے مرکزی راوی ہیں ،اعلی درجہ کے ثقہ ہیں ،ان کا درجہ (الحافظ ،الحجہ )ہے،
ھشام بن عروہ: ثقۃ ،امام فی الحدیث
عروہ بن زبیر :کے تو کیا کہنے ،صحابی رسول ﷺ زبیر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے،علم کا بڑا چشمہ ، عبداللہ بن زبیر کے بھائی ،اسماء بنت ابی بکر کے بیٹے ہیں، سیدہ عائشہ کے بھانجے ہیں ،،
---------------------------------------
اس کی شرح میں علامہ الطیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

قوله: ((وأقول: إنما هو زوجى)) القول بمعنى الاعتقاد، وهو كالتعليل لوضع الثوب في بيت دفن فيه الرسول صلي الله وعليه وسلم وأبو بكر رضي الله عنه، يعنى جائز لي ذلك، لأنهما محرمان لي، أحدهما زوجي والآخر أبي. والعطف علي التقدير، أي إنما هو زوجي والآخر أبي. ويجوز أن يكون العطف علي الانسحاب، وهو ضمير الشأن، أي إنما الشأن زوجي وأبي مدفونان فيه،
وفي الحديث دليل بين علي ما ذكر قبلُ من أنه يجب احترام أهل القبور، وتنزيل كل منهم منزلة ما هو عليه في حياته من مراعاة الأدب معهم علي قدر مراتبهم، والله أعلم والحمد لله أولاً وآخرًا والصلاة علي سيدنا محمد وآله.

یعنی سیدہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کا پردہ محض مراعات ادب ،اور احترام تھا،،
اس بات کو سمجھنے کےلئے سیرت نبوی کا یہ مشہور اور دلآویز واقعہ پڑھ لیں،
حدثنا أبو الربيع قال حدثني إسماعيل قال حدثني محمد بن أبى حرملة عن عطاء وسليمان ابنى يسار وأبى سلمة بن عبد الرحمن أن عائشة قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم مضطجعا في بيتي كاشفا عن فخذه أو ساقيه فاستأذن أبو بكر رضي الله عنه فأذن له كذلك فتحدث ثم استأذن عمر رضي الله عنه فأذن له كذلك ثم تحدث ثم استأذن عثمان رضي الله عنه فجلس النبي صلى الله عليه وسلم وسوى ثيابه قال محمد ولا أقول في يوم واحد فدخل فتحدث فلما خرج قال قلت يا رسول الله دخل أبو بكر فلم تهش ولم تباله ثم دخل عمر فلم تهش ولم تباله ثم دخل عثمان فجلست وسويت ثيابك قال ألا أستحيى من رجل تستحيى منه الملائكة
الأدب المفرد:ج1/ص211 ح603

سید المرسلین ﷺ ،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کےجنت نظیر گھر میں تشریف فرما ہیں ،حالت مبارکہ یہ کہ لیٹے ہوئے ہیں ،مقدس پنڈلی یا ران شریف سے کپڑا ہٹایا ہوا ہے ،اسی حالت میں سیدنا ابوبکر حاضر ہوئے ،آپ نےاپنی اسی حالت میں رہے ،پھر سیدنا عمر آئے ،توبھی آپ ﷺ اسی حال میں رہے ،،پھر جناب عثمان آئے اجازت طلب کی ،آپ ﷺ اٹھ کر سیدھے بیٹھ گئے ،اور اپنا لباس مبارک بھی درست کرلیا
اس امتیازی سلوک کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا :جس بندے سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ،کیا میں اس سے حیا نہ کروں ؟
------------------------------------
اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں ،ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما قدر و فضل میں سیدنا عثمان سے کہیں بڑھ کر ہیں ،لیکن ان کی ایک امتیازی صفت حیاء ،تھی جس کا لحاظ امام الانبیاء ﷺ نے بھی رکھا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہاں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا جناب عمررضی اللہ عنہ کے متعلق عمل بھی اسی طرح کا ہے ۔۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
میں بیٹا امی عائشہ رضی اللہ عنہا دا


10923480_867017560007400_857177448132018064_n.png

ام المؤمنین سیدہ عــــــــــــــــائشہ ؓ بنتِ ابو بکر ؓ " میرے مصطفیٰ ﷺ کی تیسری چہیتی بیوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن کی تربیت بچپن سے میرے پاک پیغمبر ﷺ نے خود کی آپ کی واحد کنواری بیوی ہیں سیدہ عائشہؓ باقی تمام بیویاں بیوہ تھیں بس ایک مطلقہ تھیں آپ سے نکاح 11 نبوت میں ہوا کل عمر 66 سال تھی اور آپ ﷺ کی 9 سال رفاقت نصیب ہوئی سیدہ عائشہؓ 2210 احادیث کی راویہ تھی بڑے جلیل القدر صحابی ؓ مسئلہ پوچھنے کیلئے حاضر ہوا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدہ ام لمؤمنین عائشہؓ آپ کی عفت عظمت حیاء اور پاکدامنی کو ســــــــــــــــــــــلام
 
Top