• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا عوام پر فقہی مسائل میں تحقیق ضروری ہے ؟

کیا عوام پر فقہی مسائل میں تحقیق ضروری ہے ؟


  • Total voters
    20
  • Poll closed .

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
اصل میں سوال ہی کو غلط سمجھاگیاہے۔ کتنے لوگوں نے تحقیق کے بعد اسلام قبول کیاہے۔ایسے افراد جنہوں نے تمام مذاہب کو پڑھنے کے بعد اسلام قبول کیاہے بہت کم ہیں ۔بیشتر افراد ہیں جنہوں نے اسلام کی کسی خوبی سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیااوراس خوبی میں تحقیق سے زیادہ رنگ تاثر کاہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے بھی اپنے ملفوظات میں ایک بار کہاتھاکہ لوگوں میں دعوت اسلام کیلئے دماغ سے زیادہ دل کومتاثر کرنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ دماغ ہربات کی کوئی نہ کوئی وجہ تلاش کرلیتاہے بقول اقبال عقل عیار ہے سوبھیس بنالیتی ہے لیکن دل اگرمتاثر ہوگیاتو پھر وہ منواکر ہی دم لیتاہے۔قبول اسلام کے واقعات پڑھنے سے بھی اسی تاثر کی تائید ہوتی ہے ایسے افراد جنہوں نے تمام مذاہب کی تحقیق کے بعداسلام قبول کیاخال خال ہیں۔ اوردورحاضر میں قبول اسلام کے لاکھوں واقعات میں ایسے افراد کی تعداد نگلیوں پر گنے جانے تک محدود ہے۔ ورنہ تمام افراد وہی ہیں جنہوں نے کسی تاثر کے نتیجے میں اسلام قبول کیاہے۔
واضح زمینی حقائق کا ایسا کھلے عام انکار شاید ہی کوئی کر سکے۔ بھائی، اسلام کی کسی خوبی پر بطور خوبی مطلع ہونا کیا بغیر تحقیق کے ممکن ہے؟ اور کیا کوئی ایسا بھی مذہب دنیا میں ہے جس میں کوئی خوبی ہی نہ ہو فقط خرابی ہی خرابی ہو؟ِ آپ تحقیق کو اعلیٰ اور ادنیٰ قرار دے کر تفریق کر سکتے ہیں، لیکن یہ کہنا کہ لوگ اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ فقط کسی تاثر کے نتیجے میں اور اسلام کی فقط کوئی خوبی سنتے ہی بس قبول کر لیتے ہیں اور کسی قسم کی تحقیق نہیں کرتے، بجائے خود اپنی تردید آپ ہے۔ اور غالباً آپ کا مقصد بھی اس سے اصل بات سے توجہ ہٹانا اور موضوع کو طول دینا ہو، ورنہ ڈاکٹر ذاکر نائک اور ان جیسے علماء کی پوری تحریک جو ہے ہی تحقیق کی بنیادوں پر اور جس کی بنا پر ہزاروں افراد اسلام قبول کر رہے ہیں، سب غلط محض بن جائے گی۔ بلکہ خود دیوبندی علماء غیرمسلموں کو تحقیق کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔ اور آپ ہیں کہ اس بدیہی بات کا انکار کر رہے ہیں۔

اور آپ نےشیعہ اور بریلوی کے متعلق کچھ ارشاد نہیں فرمایا؟ آپ کو لگتا ہے کہ قادیانی بھی تحقیق کے بغیر، بس اہلسنت سے "تاثر" قبول کر کے اور ان کی کسی "خوبی" سے متاثر ہو کر قادیانیت سے تائب ہو جاتا ہوگا؟ شیعہ اہل بیت کے نعرے کو چھوڑ کر اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف بچپن سے بھرے دلی بغض سے بغیر تحقیق، بس یوں ہی دستبردار ہو کر سنی ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح بریلوی اگر اپنے علماء کی باتوں پر اعتماد کرتے رہیں، اور ذرا بھی تحقیق کی زحمت گوارا نہ کریں تو کیا شرک و قبر پرستی کے وبال سے چھٹکارا پا سکتے ہیں؟ آپ بے شک اپنے مؤقف کا دفاع کریں لیکن حقائق کا ایسے بے دردی سے انکار تو نہ کریں۔





اس کا تعلق بھی ازقبیل غلط فہمی ہی ہے۔آپ جتنے بھی مثالیں تحقیق کی پیش کریں گے اس سے سوگنازیادہ بغیر تحقیق کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں اورمیں پہلے کہہ چکاہوں کہ صحابہ اوراسلاف کے فتاوی جات میں 99فیصد حصہ ایساہے جہاں انہوں نے مسئلہ بیان کیالیکن اس کی دلیل بیان نہیں کی۔
یہ کہناکہ دورحاضر میں مسائل زیادہ ہوگئے ہیں اس دور میں کم تھے بھی صحیح نہیں ہے ،آخر جدید فقہی مسائل اورمتاخرین کے چند خودساختہ مسائل جیسے میلاد،حاضر وناظر وغیرہ کو چھوڑ کر عبادات کے تعلق سے جتنے اختلاف آج موجود ہیں وہ اس دور میں بھی موجود تھے۔ نماز میں،روزہ میں حج میں زکوٰۃ میں جتنے بھی اختلافی مسائل ہیں اس کا تعلق کسی نہ کسی طورپر صحابہ کرام اوراسلاف سے جڑاہواہے تویہ کیسے کہاجاسکتاہے کہ اس دور میں اختلافی مسائل کم تھے۔کم سے کم یہ بات کہنے سے پہلے مصنف عبدالرزاق،مصنف ابن ابی شیبہ ،موطاامام مالک اورصحابہ کے فتاوی جات پر مشتمل کتابوں کا سرسری مطالعہ کرلیاجاتاتویہ بات نہ کہتے ۔
آپ ہی بات نہیں سمجھے۔ صحابہ کرام کے دور میں دین خالص تھا۔ ابھی اس وقت موجودہ فتنے، گروہ بندیاں، مختلف مکاتب فکر، مسالک، جامد تقلید وغیرہ وجود پذیر ہی نہیں ہوئی تھی۔ عرف ہی یہ تھا کہ جو مسئلہ بھی بتایا جا رہا ہے وہ کسی امام کی فقہ، کسی مسلک کی حد بندی، کسی فرقہ کی خود ساختہ حیلہ سازیوں سے پاک، فقط کتاب و سنت کی روشنی میں بتایا جا رہا ہے۔ ایسے میں جب تک مسئلہ اختلافی نہ ہو، تو بغیر دلیل عمل کر لیا جاتا تھا۔ہم بھی اجماعی مسائل میں کب ہر ہر معاملہ میں دلیل پوچھنے کو کہتے ہیں۔ قرآن نے بھی اولی الامر کی پیروی کا حکم (غیر اختلافی) اجماعی مسائل میں دیا ہے یا نہیں؟ ہاں، جہاں اختلاف ہو جائے، وہاں صرف اللہ یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان درکار ہوگا، یعنی دلیل کی پیروی۔

آپ دیکھئے کہ جب تک قادیانی فتنہ نہیں تھا۔ کون تھا جو ختم نبوت پر دلائل پوچھتا تھا یا بتاتا تھا۔۔۔؟ یہ اہم عقیدہ بس اتنا ہی سکھایا پڑھایا جاتا تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اب ظلی و بروزی نبی کا انکار بھی اس عقیدے کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ اور دیکھ لیجئے اہلحدیث اور دیوبندی علماء کی اتنی کتب فقط اس موضوع پر موجود ہیں کہ کتب خانے بھر سکتے ہیں۔ کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں، رد قادیانیت کورس کروائے جا رہے ہیں کہ عوام میں اس فتنے کی بیخ کنی ہو۔ کوئی قادیانی آپ ہی کی دلیل پکڑ لے کہ اس کی نظیر صحابہ و اسلاف کے دور سے نہیں ملتی، تو کہنے کو تو بالکل سچا ہوگا کہ نہیں؟ لیکن دوسری جانب یہ دور حاضر کی ضرورت اور عین شریعت کا تقاضا بھی ہے۔

یہی نسبت تقلیدی مذاہب کے شروع ہونے سے ماقبل کے زمانے اور بعد کے زمانے میں سمجھ لیجئے۔ جب تک بغیر دلیل سے بات کرنے ہی کو شریعت کا درجہ، بلکہ عین شریعت کا مطلوب و مقصود قرار نہیں دیا گیا تھا، اس وقت عوام کا دلیل نہ پوچھنا، اور بعد کے زمانے میں دلیل نہ پوچھنا کیسے ایک قرار دئے جا سکتے ہیں؟

اور یہ تو اب ایسی ضرورت بن گئی ہے کہ ہر موضوع پر علمائے دیوبند بھی عوامی سطح کی کتب کو کتاب و سنت کے دلائل سے مزین کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ اگر عوام کے لئے دلائل جاننا ضروری ہی نہیں تو یہ ہزاروں کتابیں جو اردو زبان میں عوام کی ضروریات کے لئے (خود ساختہ و ضعیف) دلائل سے مزین کر کے علمائے دیوبند لکھ رہے ہیں، اس کی کیا ضرورت؟ کیا عامر عثمانی دیوبندی، مدیر تجلی کی طرح یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ عوام کی دلیل تو فقط مجتہد کا قول ہے اور بس قول امام ذکر کر دیا جائے اور حدیث و آیت ذکر ہی نہ کی جائے؟

لہٰذا میری ناقص رائے میں تو یہ اب بس نظری بحث ہی رہ گئی ہے خود دیوبندی علماء کا طرز عمل اس کے خلاف ہی ہے۔ واللہ اعلم۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
واضح زمینی حقائق کا ایسا کھلے عام انکار شاید ہی کوئی کر سکے۔ بھائی، اسلام کی کسی خوبی پر بطور خوبی مطلع ہونا کیا بغیر تحقیق کے ممکن ہے
آپ نے شاید تحقیق کا مطلب نہیں سمجھا۔
مذہب کا مطالعہ کیاجائے اورمطالعہ بعد علمی طورپر اس کو لگے کہ اسلام برحق ہے۔ ایساکتنے افراد نے کیاہوگا۔ ہندوستان کی تاریخ میں مجھے صرف دوشخص ایسے معلوم ہیں۔ آپ کیاسمجھتے ہیں کہ کچھ وید وغیرہ کے اشلوک پڑھ دیناتحقیق کا قائم مقام ہوجاتاہے۔
یہ بدیہی بات ہے کہ بہت سارے لوگ کردار سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرتے ہیں۔ کردار سے متاثرہوکر اسلام قبول کرنے میں تحقیق کو کتنادخل ہے۔ ہندوستان میں بیشتر لوگ صوفیاء حضرات کی کوششوں سے اسلام لائے۔صوفیاء حضرات نے توڈاکٹرذاکر نائک کی طرح تحقیقی مشن نہیں چلایاتھاانہوں نے توعوام الناس کے دلوں پر دستک دی تھی۔میرادعویٰ تھااورہے کہ99فیصد افراد تحقیق سے نہیں بلکہ تاثر سے اسلام قبول کرتے ہیں۔
ورنہ آپ زیادہ نہیں پاکستان سے سودوسوایسے واقعات شیئر کردیں جس میں لوگوں نے مذاہب کا تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد اسلام قبول کیاہو۔
آپ ہی بات نہیں سمجھے۔ صحابہ کرام کے دور میں دین خالص تھا۔ ابھی اس وقت موجودہ فتنے، گروہ بندیاں، مختلف مکاتب فکر، مسالک، جامد تقلید وغیرہ وجود پذیر ہی نہیں ہوئی تھی۔ عرف ہی یہ تھا کہ جو مسئلہ بھی بتایا جا رہا ہے وہ کسی امام کی فقہ، کسی مسلک کی حد بندی، کسی فرقہ کی خود ساختہ حیلہ سازیوں سے پاک، فقط کتاب و سنت کی روشنی میں بتایا جا رہا ہے۔
کتاب وسنت کی روشنی بھی دورحاضر کا مبہم جملہ ہے۔
آپ کا یہ کہناکہ اس دور میں اختلافات زیادہ نہیں تھے ۔میرے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ عبادات میں جتنے بھی اختلاف ہیں سب کا سررشتہ صحابہ کرام اوراسلاف سے جڑتاہے۔ تویہ کہناکہ مسائل میں اس دورمیں اختلاف نہیں تھے ایک بے بنیاد بات ہے۔
آپ نے موجودہ حد بندی،مسلکی فقہ گروہ بندی ،فرقہ پرستی ،ایک امام کی فقہ وغیرہ کے جملے ضرور استعمال کئے ہیں لیکن سوال یہ اٹھتاہے کہ نماز کےمسائل میں احناف اوراہل حدیث کے درمیان جواختلاف ہے ان کا رشتہ توصحابہ کرام اوراسلاف سے ہے اورجب انہوں نے سائلین کو یہ اختلافی مسائل بتائے تو دلیل نہیں بتائی۔ اس سے کیاسمجھاجائے؟اس بنیادی بات کا آپ جواب نہیں دیتے۔
کسی ایک امام کی فقہ کے ہونے اورنہ ہونے سے سائل کوجواب میں دلیل کے بیان کرنے اورنہ کرنے پر کیاجوہری فرق پڑتاہےآئندہ کے مراسلات میں اس پر ضرور روشنی ڈالیں ۔میرے نزدیک تواگرکوئی اک امام کی تقلید کررہاہے اورکوئی مطلق اپنے دور کے علماء کی تقلید کررہاہے تواس سے سائل کے جواب میں دلیل کے بیان کرنے اورنہ کرنے پر کوئی جوہری فرق نہیں پڑتا۔
یہی نسبت تقلیدی مذاہب کے شروع ہونے سے ماقبل کے زمانے اور بعد کے زمانے میں سمجھ لیجئے۔ جب تک بغیر دلیل سے بات کرنے ہی کو شریعت کا درجہ، بلکہ عین شریعت کا مطلوب و مقصود قرار نہیں دیا گیا تھا، اس وقت عوام کا دلیل نہ پوچھنا، اور بعد کے زمانے میں دلیل نہ پوچھنا کیسے ایک قرار دئے جا سکتے ہیں؟
اس جملہ میں جو دعوی کیاگیاہے اس کی بھی دلیل درکار ہے۔ کیونکہ بغیر دلیل بات کرنے کو شریعت کا درجہ بلکہ عین شریعت کس نے قراردیاہے۔ اجتہاد کرنے سے عاجز ہوناالگ چیز ہے لیکن یہ کہناکہ بغیر دلیل کے بات ہی شریعت ہے الگ ہے۔ اورایسی بات کسی قابل ذکر حنفی فقیہہ نے تونہیں کی۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
جن کا سرمایہ علم چند اردو کی کتابیں ہیں
اگر آپ کا اشارہ اپنے بھائیوں کی طرف ہے تو کوئی بات نہیں ہے یہ آپ لوگوں کا اپنا تجربہ ہے ۔
اور اگر نہیں تو سن لیں میرے بھائی ۔۔۔۔۔۔ اردو زبان ہو یا پشتو زبان یا کوئی اور زبان ہو ، جب قرآن مجید اور احادیث صحیحہ ہم تک پہنچنے اور سمجھنے کا ذریعہ بنے تو ہم کو قبول کرنے چاہئیے ۔ یہ کتابیں اُن کتابوں سے زیادہ بہتر ہے جو کہ فارسی یا عربی میں لکھی گئ ہو جس میں گلستان بوستان اور مثنوی کی طرز پر جانور اور عورتوں کے ملاپ کے من گھڑت قصے لکھے گئے ہوں ،
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
شاید آپ کو غصہ آگیا۔کیاکیجئے قصورآپ کانہیں ہے۔ آپ جیسے بہت سارے دوسروں لوگوں کو بھی کڑوی سچائی اورحقیقت بیانی پر غصہ آتاہے۔
جہاں تک کتب فقہ کے تعلق سے اظہار خیال کی بات ہے تواس کی حقیقت اتنی ہے کہ
ایک جاہل کو کہیں سے فن طب کی ایک کتاب مل گئی جس میں اعضائے جسمانی کی بناوٹ کے تعلق سے مواد تھا۔ اس میں جسم کے دیگر حصوں کے ساتھ شرمگاہ پر بھی بات کی گئی تھی ۔جاہل نے اس کو نہایت شرمناک سمجھا اور کتاب پھاڑ کرپھینک دی۔ کوئی عقل مند کہے گاکہ اس جاہل نے بہت اچھاکیا۔اوریہ کام اس کی غیرت کا ثبوت تھا۔ ہرایک اس جاہل کی جہالت کو ہی اس کیلئے قصوروارٹھہرائے گا۔
بعینہ اس مثال کو اپنے ردعمل کے تعلق سے سمجھیں ۔اگرکوئی گستاخی ہوگئی ہو تومعاف کردیں۔ والسلام
 
شمولیت
اکتوبر 28، 2013
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
17
اگر آپ کا اشارہ اپنے بھائیوں کی طرف ہے تو کوئی بات نہیں ہے یہ آپ لوگوں کا اپنا تجربہ ہے ۔
اور اگر نہیں تو سن لیں میرے بھائی ۔۔۔۔۔۔ اردو زبان ہو یا پشتو زبان یا کوئی اور زبان ہو ، جب قرآن مجید اور احادیث صحیحہ ہم تک پہنچنے اور سمجھنے کا ذریعہ بنے تو ہم کو قبول کرنے چاہئیے ۔ یہ کتابیں اُن کتابوں سے زیادہ بہتر ہے جو کہ فارسی یا عربی میں لکھی گئ ہو جس میں گلستان بوستان اور مثنوی کی طرز پر جانور اور عورتوں کے ملاپ کے من گھڑت قصے لکھے گئے ہوں ،
پٹھان تو شاید آپ بھی ہے کہ نام میں آفریدی آتا ہے، اس لئے اگر آپ مناسب سمجھے تو پشتو زبان کے کئی جملے آپکی خدمت میں پیش کردوں کہ ان کا مطلب آپ اردو میں جتنا بھی ڈھنگ سے بیان کرے، سامنے والا اسے بےہودہ ہی سمجھے گا
اب رہ گئی بات ترجمہ کی تو حضرت ترجمہ میں وہ اصل چیز اور مدعا بڑے مشکل سے سامنے آتا ہے، جو کہ مصنف کی غرض ہوتی ہے
ورنہ جناب احمد رضا خان صاحب کی جیسے زندگی گزرے گی۔
بدگمانیاں کرتے کرتے
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
میں نے یہاں پر اپنی رائے ظاہر کی ۔بلکہ اپنا تجربہ بتایا ۔
چار پانچ فیصد کو چھوڑ کر ، جو یا تو تھوڑے بیوقوف ہوتے ہیں کہ اندھا دھند سودا خریدتے ہیں ، یا پھر ان کو اس دوکاندار کی اس چیز کا پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ یہ کس قسم کی کوالٹی کی ہے ۔
بقایہ پچانوے فیصد لوگ جب سودا سلف خریدنے بازار جاتا ہے تو وہ یقیناً تحقیق کرتے ہیں ۔ ایک ہی چیز کی وہ کئ دوکانوں سے ریٹ اور کوالٹی چیک کر یں گے ۔
تو دینی لحاظ سے ہمارا یہ عذر کیسے قبول کیا جائے گا ۔ جیسے کی اوپر ایک بھائی نے بتایا ۔ فاسئلوا اہل الذکران کنتم لا تعلمون ،
یہاں پھر سوال اٹھتا ہے کہ عوام ، کن علماء سے پوچھے گا ۔ علماء کی بھی پہچان ہوسکتی ہے ، جیسا کہ دنیاوی مثال دی جاچکی ہے ۔
عوام کو تحقیق سے روکنے والے اکثر متعصب اور لالچی قسم کےمولوی ہوتے ہیں ، کہ اگر ان عوام کو پوری بات تفصیل اور دلائل سے بتادیں جائے گی تو سارا کام خراب ہوجائے گا ۔ پھر یہی لوگ کہیں گے کہ پچاس سال سے یہ مسئلہ کیوں نہیں بتایا تھا ۔ چل نکل مسجد سے ۔
اس پر جمشید صاحب نے اعتراض کرڈالا کہ
"اس قسم کے مسائل میں جب وہ لوگ لب کشائی کرتے ہیں جن کا سرمایہ علم چند اردو کی کتابیں ہیں اورجنہوں نے کچھ اختلافی مسائل پر کتابیں پڑھ رکھی ہیں "
یہاں پر موصوف کو علم کا جو سرمایہ اردو زبان میں ہے ، پر اعتراض ہے یا کہ اس کو حاصل کرنے والے پر ؟ یہ مجھے واضح نہیں ۔
اور رہا سوال مسائل پر لب کشائی ۔ آپ کے معیار کو میں نہیں سمجھ پارہا ہوں ، کہ اس سے آپ کی کیا مراد ہے ؟ کیا کسی مسائل میں تحقیق کرنا مسائل پر لب کشائی کہلائی گی ؟
پھر اگلی پوسٹ میں موصوف نے خود غصے کا اظہار کرکے کہا
شاید آپ کو غصہ آگیا۔کیاکیجئے قصورآپ کانہیں ہے۔ آپ جیسے بہت سارے دوسروں لوگوں کو بھی کڑوی سچائی اورحقیقت بیانی پر غصہ آتاہے۔
پھر " جاہل " کے الفاظ استعمال کیے جس سے موصوف کا غصہ ہونا ظاہر کرتا ہے ۔ مزید نیچے جاکر گستاخی کے لیے معافی بھی طلب کرتا ہے ۔ آپ لوگ خود ہی سوچ لے ۔
 
شمولیت
ستمبر 06، 2013
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
20
بھائيوں نے ايک بار پھر اہم امور کی طرف نشاندہی فرمائی ہے- جزاک اللہ- روايتی حنفی اھلحدیث ٹسل کو اس اہم موضوع کو برباد نھیں کرنے دينا چاہیے-
 
شمولیت
ستمبر 06، 2013
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
20
لیکن مصنف عبدالرزاق اورمصنف ابن ابی شیبہ اورصحافہ واسلاف کے فتاوی کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے سائل کو صرف جواب دیا اورسائل نے دلیل کی تحقیق نہیں کی نہ پوچھ گچھ کی۔
اسی دور سے ہی دلیل کی تحقیق کی مثالیں بھی اگر دے دی جائیں تو؟
سلف عوام کو مسائل بتاتے ہوۓ کبھی دلائل بتاتے تو کبھی نہیں- دونوں ہی طریقے بلا کسی نکیر کے سلف کے دور میں بھی رائج تھے- اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ذیادہ سے ذیادہ عوام کیلۓ دلائل کا بتايا جانا یا جاننا افضل ہے- لازم نہيں-​
 
شمولیت
ستمبر 06، 2013
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
20
یہ بھی سوال ہے کہ اگرایک عامی تحقیق نہیں کرتاہے ۔علماء کی بات پر اعتماد کرتاہے تو اس کایہ عمل درست ہے یاغلط ہے۔
یہ سوال مجھے ہمیشہ یہ بات یاد دلاتا ہے کہ اگر عامی تحقیق کے بجائے علماء کی بات پر اعتماد کرے، تو اگر یہ عامی ہندو ہے، تو کبھی مسلمان نہ ہوگا۔ اگر یہ عامی شیعہ یا بریلوی ہے تو کبھی شرک کی نجاست سے نجات نہ پائے گا۔
بے شک یہاں تحقیق سب پر ضروری ہے- قرآن نے بار ہا کفار کو اپنے اور طواغيت اور اس کے چیلوں کے دلائل پر غور کرنے کا حکم دیا ہے- لیکن یہ دین کے بنیادی عقائد سے متعلق معاملہ ہے- جو کوئی بعض دیوبندی اکبرین کے نجس قسم کے صوفی عقائد (جو کہ کافی پیچیدہ بھی ہیں) کا حامل ہو، وہ خود ہی اس درجہ تحقیق سے جان نہیں چھڑا سکتا- یہ ایک بدیھی بات ہے جو نہ جانے کیوں موضوع تکرار ٹھر گئی-

لیکن شاکر بھائی یہاں موضوع بحث ایسے فقھی مسائل کی تحقیق کا عوام کیلۓ لازم ہونا ہے جو مسلمانوں میں اختلافی تو ہوسکتے ہیں مگر بنیادی نہیں ہوتے- ان مسائل میں علماء اجتھاد کرتے ہیں اور غلطی پر بھی ثواب پاتے ہیں- ان مسائل کیلئے ہی وہ حدیث ہوسکتی ہے جس کی رو سے فتوی حاصل کرنے کے بعد مستفتی پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا-



 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
میری نا چیز رائے اس بارے میں یہ ہے کہ بندہ کو اتنا علم کم از کم ہونا چاہیے جس سے وہ عقائد کے دلائل کی چھان بین کر سکے۔ اور جب اسے کسی معاملہ میں یہ پتا چلے کہ کسی فریق کی اس کے خلاف بھی رائے ہے تو وہ دونوں فریقوں سے دلائل پوچھ کر درست دلائل اپنی تحقیق کے مطابق دیکھ لے کیوں کہ عقائد کا معاملہ بہت نازک ہے۔
لیکن یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے میں نہیں جانتا۔

فقہی مسائل میں کوئی اگر تحقیق اور دلائل کی جستجو و ترجیح کا علم نہیں رکھتا تو کسی ایک عالم کو ڈھونڈلے جو متبع شریعت ہو۔ اور پھر اس کی تحقیق پر اعتماد کر لے چاہے وہ عالم مقلد ہو یا غیر مقلد۔ جب کسی مسئلہ کے متعلق اختلافی بات سنے تو اس عالم سے جا کر پوچھ لے۔
ایک عامی آدمی اس سے زیادہ آخر کیا کرسکتا ہے؟ وہ دن میں معاش ڈھونڈے اور رات کو گھر کے معاملات انجام دے یا علم حاصل کرنے نکل جائے؟
 
Top