- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
واضح زمینی حقائق کا ایسا کھلے عام انکار شاید ہی کوئی کر سکے۔ بھائی، اسلام کی کسی خوبی پر بطور خوبی مطلع ہونا کیا بغیر تحقیق کے ممکن ہے؟ اور کیا کوئی ایسا بھی مذہب دنیا میں ہے جس میں کوئی خوبی ہی نہ ہو فقط خرابی ہی خرابی ہو؟ِ آپ تحقیق کو اعلیٰ اور ادنیٰ قرار دے کر تفریق کر سکتے ہیں، لیکن یہ کہنا کہ لوگ اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ فقط کسی تاثر کے نتیجے میں اور اسلام کی فقط کوئی خوبی سنتے ہی بس قبول کر لیتے ہیں اور کسی قسم کی تحقیق نہیں کرتے، بجائے خود اپنی تردید آپ ہے۔ اور غالباً آپ کا مقصد بھی اس سے اصل بات سے توجہ ہٹانا اور موضوع کو طول دینا ہو، ورنہ ڈاکٹر ذاکر نائک اور ان جیسے علماء کی پوری تحریک جو ہے ہی تحقیق کی بنیادوں پر اور جس کی بنا پر ہزاروں افراد اسلام قبول کر رہے ہیں، سب غلط محض بن جائے گی۔ بلکہ خود دیوبندی علماء غیرمسلموں کو تحقیق کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔ اور آپ ہیں کہ اس بدیہی بات کا انکار کر رہے ہیں۔اصل میں سوال ہی کو غلط سمجھاگیاہے۔ کتنے لوگوں نے تحقیق کے بعد اسلام قبول کیاہے۔ایسے افراد جنہوں نے تمام مذاہب کو پڑھنے کے بعد اسلام قبول کیاہے بہت کم ہیں ۔بیشتر افراد ہیں جنہوں نے اسلام کی کسی خوبی سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیااوراس خوبی میں تحقیق سے زیادہ رنگ تاثر کاہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے بھی اپنے ملفوظات میں ایک بار کہاتھاکہ لوگوں میں دعوت اسلام کیلئے دماغ سے زیادہ دل کومتاثر کرنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ دماغ ہربات کی کوئی نہ کوئی وجہ تلاش کرلیتاہے بقول اقبال عقل عیار ہے سوبھیس بنالیتی ہے لیکن دل اگرمتاثر ہوگیاتو پھر وہ منواکر ہی دم لیتاہے۔قبول اسلام کے واقعات پڑھنے سے بھی اسی تاثر کی تائید ہوتی ہے ایسے افراد جنہوں نے تمام مذاہب کی تحقیق کے بعداسلام قبول کیاخال خال ہیں۔ اوردورحاضر میں قبول اسلام کے لاکھوں واقعات میں ایسے افراد کی تعداد نگلیوں پر گنے جانے تک محدود ہے۔ ورنہ تمام افراد وہی ہیں جنہوں نے کسی تاثر کے نتیجے میں اسلام قبول کیاہے۔
اور آپ نےشیعہ اور بریلوی کے متعلق کچھ ارشاد نہیں فرمایا؟ آپ کو لگتا ہے کہ قادیانی بھی تحقیق کے بغیر، بس اہلسنت سے "تاثر" قبول کر کے اور ان کی کسی "خوبی" سے متاثر ہو کر قادیانیت سے تائب ہو جاتا ہوگا؟ شیعہ اہل بیت کے نعرے کو چھوڑ کر اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف بچپن سے بھرے دلی بغض سے بغیر تحقیق، بس یوں ہی دستبردار ہو کر سنی ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح بریلوی اگر اپنے علماء کی باتوں پر اعتماد کرتے رہیں، اور ذرا بھی تحقیق کی زحمت گوارا نہ کریں تو کیا شرک و قبر پرستی کے وبال سے چھٹکارا پا سکتے ہیں؟ آپ بے شک اپنے مؤقف کا دفاع کریں لیکن حقائق کا ایسے بے دردی سے انکار تو نہ کریں۔
آپ ہی بات نہیں سمجھے۔ صحابہ کرام کے دور میں دین خالص تھا۔ ابھی اس وقت موجودہ فتنے، گروہ بندیاں، مختلف مکاتب فکر، مسالک، جامد تقلید وغیرہ وجود پذیر ہی نہیں ہوئی تھی۔ عرف ہی یہ تھا کہ جو مسئلہ بھی بتایا جا رہا ہے وہ کسی امام کی فقہ، کسی مسلک کی حد بندی، کسی فرقہ کی خود ساختہ حیلہ سازیوں سے پاک، فقط کتاب و سنت کی روشنی میں بتایا جا رہا ہے۔ ایسے میں جب تک مسئلہ اختلافی نہ ہو، تو بغیر دلیل عمل کر لیا جاتا تھا۔ہم بھی اجماعی مسائل میں کب ہر ہر معاملہ میں دلیل پوچھنے کو کہتے ہیں۔ قرآن نے بھی اولی الامر کی پیروی کا حکم (غیر اختلافی) اجماعی مسائل میں دیا ہے یا نہیں؟ ہاں، جہاں اختلاف ہو جائے، وہاں صرف اللہ یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان درکار ہوگا، یعنی دلیل کی پیروی۔اس کا تعلق بھی ازقبیل غلط فہمی ہی ہے۔آپ جتنے بھی مثالیں تحقیق کی پیش کریں گے اس سے سوگنازیادہ بغیر تحقیق کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں اورمیں پہلے کہہ چکاہوں کہ صحابہ اوراسلاف کے فتاوی جات میں 99فیصد حصہ ایساہے جہاں انہوں نے مسئلہ بیان کیالیکن اس کی دلیل بیان نہیں کی۔
یہ کہناکہ دورحاضر میں مسائل زیادہ ہوگئے ہیں اس دور میں کم تھے بھی صحیح نہیں ہے ،آخر جدید فقہی مسائل اورمتاخرین کے چند خودساختہ مسائل جیسے میلاد،حاضر وناظر وغیرہ کو چھوڑ کر عبادات کے تعلق سے جتنے اختلاف آج موجود ہیں وہ اس دور میں بھی موجود تھے۔ نماز میں،روزہ میں حج میں زکوٰۃ میں جتنے بھی اختلافی مسائل ہیں اس کا تعلق کسی نہ کسی طورپر صحابہ کرام اوراسلاف سے جڑاہواہے تویہ کیسے کہاجاسکتاہے کہ اس دور میں اختلافی مسائل کم تھے۔کم سے کم یہ بات کہنے سے پہلے مصنف عبدالرزاق،مصنف ابن ابی شیبہ ،موطاامام مالک اورصحابہ کے فتاوی جات پر مشتمل کتابوں کا سرسری مطالعہ کرلیاجاتاتویہ بات نہ کہتے ۔
آپ دیکھئے کہ جب تک قادیانی فتنہ نہیں تھا۔ کون تھا جو ختم نبوت پر دلائل پوچھتا تھا یا بتاتا تھا۔۔۔؟ یہ اہم عقیدہ بس اتنا ہی سکھایا پڑھایا جاتا تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اب ظلی و بروزی نبی کا انکار بھی اس عقیدے کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ اور دیکھ لیجئے اہلحدیث اور دیوبندی علماء کی اتنی کتب فقط اس موضوع پر موجود ہیں کہ کتب خانے بھر سکتے ہیں۔ کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں، رد قادیانیت کورس کروائے جا رہے ہیں کہ عوام میں اس فتنے کی بیخ کنی ہو۔ کوئی قادیانی آپ ہی کی دلیل پکڑ لے کہ اس کی نظیر صحابہ و اسلاف کے دور سے نہیں ملتی، تو کہنے کو تو بالکل سچا ہوگا کہ نہیں؟ لیکن دوسری جانب یہ دور حاضر کی ضرورت اور عین شریعت کا تقاضا بھی ہے۔
یہی نسبت تقلیدی مذاہب کے شروع ہونے سے ماقبل کے زمانے اور بعد کے زمانے میں سمجھ لیجئے۔ جب تک بغیر دلیل سے بات کرنے ہی کو شریعت کا درجہ، بلکہ عین شریعت کا مطلوب و مقصود قرار نہیں دیا گیا تھا، اس وقت عوام کا دلیل نہ پوچھنا، اور بعد کے زمانے میں دلیل نہ پوچھنا کیسے ایک قرار دئے جا سکتے ہیں؟
اور یہ تو اب ایسی ضرورت بن گئی ہے کہ ہر موضوع پر علمائے دیوبند بھی عوامی سطح کی کتب کو کتاب و سنت کے دلائل سے مزین کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ اگر عوام کے لئے دلائل جاننا ضروری ہی نہیں تو یہ ہزاروں کتابیں جو اردو زبان میں عوام کی ضروریات کے لئے (خود ساختہ و ضعیف) دلائل سے مزین کر کے علمائے دیوبند لکھ رہے ہیں، اس کی کیا ضرورت؟ کیا عامر عثمانی دیوبندی، مدیر تجلی کی طرح یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ عوام کی دلیل تو فقط مجتہد کا قول ہے اور بس قول امام ذکر کر دیا جائے اور حدیث و آیت ذکر ہی نہ کی جائے؟
لہٰذا میری ناقص رائے میں تو یہ اب بس نظری بحث ہی رہ گئی ہے خود دیوبندی علماء کا طرز عمل اس کے خلاف ہی ہے۔ واللہ اعلم۔