• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا عوام پر فقہی مسائل میں تحقیق ضروری ہے ؟

کیا عوام پر فقہی مسائل میں تحقیق ضروری ہے ؟


  • Total voters
    20
  • Poll closed .

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم،
اچھا سوال ہے بھائی۔جزاکم اللہ خیرا۔
میری رائے کے مطابق عوام کو فقہی مسائل کی تحقیق میں رہنا چاہیئے،اور اس لیے کہ ہمارے زندگی میں بہت سے ایسے مسائل آتے ہیں ،جو بعض اوقات عام فہم نہیں ہوتے، اس لیے فقہ کی طرف رجوع کرنا چاہیئے۔واللہ اعلم بالصواب
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
فقہی مسائل میں اختلافی اور غیر اختلافی دونوں طرح کے مسائل ہوتے ہیں۔ غیر اختلافی مسائل چونکہ متفق علیہ مسائل ہوتے ہیں۔ اس لیے چاہے ان میں تحقیق کی جائے یا نہ کی جائے۔ دونوں صورتیں قابل قبول ہیں۔

لیکن اختلافی مسائل میں پوچھ گوچھ ، چھان بین اور تحقیق کرنی چاہیے۔ جیسا کہ ’’ فاسئلوا اہل الذکران کنتم لا تعلمون‘‘ سے بھی ثابت ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حتی الوسع پوچھ گوچھ ہوگی۔ کیونکہ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعہا بھی درس اسلام ہے۔

اپنی استطاعت کے مطابق کوئی بھی کسی اختلافی مسئلہ میں تحقیق کرتا ہے۔ اس کے بعد بھی وہ ایسے مسئلہ پر تاحیات عمل کرتا رہتا ہے۔ جو اصل دین نہیں ہوتا، تو (واللہ اعلم) رب تعالیٰ اس سے در گزر فرما دیں گے۔ ان شاءاللہ

لیکن جب صورت حال اس کے مخالف ہوگی، تو ضرور رب کبریا کی دربار میں پوچھ گوچھ ہوگی۔ اور سزا وجزا کا بھی حساب ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
لیکن اختلافی مسائل میں پوچھ گوچھ ، چھان بین اور تحقیق کرنی چاہیے۔ جیسا کہ '' فاسئلوا اہل الذکران کنتم لا تعلمون'' سے بھی ثابت ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حتی الوسع پوچھ گوچھ ہوگی۔ کیونکہ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعہا بھی درس اسلام ہے۔
لیکن مصنف عبدالرزاق اورمصنف ابن ابی شیبہ اورصحافہ واسلاف کے فتاوی کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے سائل کو صرف جواب دیا اورسائل نے دلیل کی تحقیق نہیں کی نہ پوچھ گچھ کی۔ اس سے کیانیتجہ اخذ کیاجائے۔
یہ بھی سوال ہے کہ اگرایک عامی تحقیق نہیں کرتاہے ۔علماء کی بات پر اعتماد کرتاہے تو اس کایہ عمل درست ہے یاغلط ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 06، 2013
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
20
بھائیوں نے نہايت اہم نکات اٹھاۓ ہيں جن پر اس بحث کا مدار ہے-

اختلافی مسائل میں پوچھ گوچھ ، چھان بین اور تحقیق کرنی چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی استطاعت کے مطابق کوئی بھی کسی اختلافی مسئلہ میں تحقیق کرتا ہے۔ اس کے بعد بھی وہ ایسے مسئلہ پر تاحیات عمل کرتا رہتا ہے۔ جو اصل دین نہیں ہوتا، تو (واللہ اعلم) رب تعالیٰ اس سے در گزر فرما دیں گے۔ ان شاءاللہ
لیکن جب صورت حال اس کے مخالف ہوگی، تو ضرور رب کبریا کی دربار میں پوچھ گوچھ ہوگی۔ اور سزا وجزا کا بھی حساب ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم
یہ بات واضح طور پر بہت کم بولی جاتی ہے- مگر طرز عمل کے اعتبار سے بےحد عام ہے-

جیسا کہ '' فاسئلوا اہل الذکران کنتم لا تعلمون'' سے بھی ثابت ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حتی الوسع پوچھ گوچھ ہوگی۔ کیونکہ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعہا بھی درس اسلام ہے۔
ہم سب خود کو سلف کی طرف منسوب کرتے ہیں- ان کی راہ پر چلنے کے لازمی ہونے کے قائل ہیں- کیا سلف کی تفاسیر یا طرز عمل سے ہمیں عوام پر تحقیق لازم ہونے کا پتہ چلتا ہے-
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ہم سب خود کو سلف کی طرف منسوب کرتے ہیں- ان کی راہ پر چلنے کے لازمی ہونے کے قائل ہیں- کیا سلف کی تفاسیر یا طرز عمل سے ہمیں عوام پر تحقیق لازم ہونے کا پتہ چلتا ہے-
اس سوال کے جواب کی مجھے بھی تلاش ہے۔ دیکھیں
کون ہوتاہے حریف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
لیکن مصنف عبدالرزاق اورمصنف ابن ابی شیبہ اورصحافہ واسلاف کے فتاوی کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے سائل کو صرف جواب دیا اورسائل نے دلیل کی تحقیق نہیں کی نہ پوچھ گچھ کی۔ اس سے کیانیتجہ اخذ کیاجائے۔
اسی دور سے ہی دلیل کی تحقیق کی مثالیں بھی اگر دے دی جائیں تو؟
پھر جتنے مسائل دور حاضر میں اختلافی ہیں، تب تو یہ صورتحال نہیں تھی، نا اتنے فتنے تھے۔ معدودے چند مسائل کے علاوہ دیگر مسائل میں سب لوگ متحد و متفق تھے۔ اختلاف تو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور تب دلائل کی اہمیت بھی بڑھتی گئی۔

یہ بھی سوال ہے کہ اگرایک عامی تحقیق نہیں کرتاہے ۔علماء کی بات پر اعتماد کرتاہے تو اس کایہ عمل درست ہے یاغلط ہے۔
یہ سوال مجھے ہمیشہ یہ بات یاد دلاتا ہے کہ اگر عامی تحقیق کے بجائے علماء کی بات پر اعتماد کرے، تو اگر یہ عامی ہندو ہے، تو کبھی مسلمان نہ ہوگا۔ اگر یہ عامی شیعہ یا بریلوی ہے تو کبھی شرک کی نجاست سے نجات نہ پائے گا۔ اگر یہ عامی دیوبندی ہے تو گمراہ کن عقائد سے کبھی خود کو نہ بچا پائے گا۔ عامی دیوبندی کو چھوڑ دیجئے، کیونکہ آپ کا اس سے متفق ہونا ممکن نہیں، لیکن کہئے باقی جو عامی ہیں، ان کے بارے میں یہ بات درست ہے یا نہیں؟
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
چار پانچ فیصد کو چھوڑ کر ، جو یا تو تھوڑے بیوقوف ہوتے ہیں کہ اندھا دھند سودا خریدتے ہیں ، یا پھر ان کو اس دوکاندار کی اس چیز کا پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ یہ کس قسم کی کوالٹی کی ہے ۔
بقایہ پچانوے فیصد لوگ جب سودا سلف خریدنے بازار جاتا ہے تو وہ یقیناً تحقیق کرتے ہیں ۔ ایک ہی چیز کی وہ کئ دوکانوں سے ریٹ اور کوالٹی چیک کر یں گے ۔
تو دینی لحاظ سے ہمارا یہ عذر کیسے قبول کیا جائے گا ۔ جیسے کی اوپر ایک بھائی نے بتایا ۔ فاسئلوا اہل الذکران کنتم لا تعلمون ،
یہاں پھر سوال اٹھتا ہے کہ عوام ، کن علماء سے پوچھے گا ۔ علماء کی بھی پہچان ہوسکتی ہے ، جیسا کہ دنیاوی مثال دی جاچکی ہے ۔

عوام کو تحقیق سے روکنے والے اکثر متعصب اور لالچی قسم کےمولوی ہوتے ہیں ، کہ اگر ان عوام کو پوری بات تفصیل اور دلائل سے بتادیں جائے گی تو سارا کام خراب ہوجائے گا ۔ پھر یہی لوگ کہیں گے کہ پچاس سال سے یہ مسئلہ کیوں نہیں بتایا تھا ۔ چل نکل مسجد سے ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
یہ سوال مجھے ہمیشہ یہ بات یاد دلاتا ہے کہ اگر عامی تحقیق کے بجائے علماء کی بات پر اعتماد کرے، تو اگر یہ عامی ہندو ہے، تو کبھی مسلمان نہ ہوگا۔ اگر یہ عامی شیعہ یا بریلوی ہے تو کبھی شرک کی نجاست سے نجات نہ پائے گا۔ اگر یہ عامی دیوبندی ہے تو گمراہ کن عقائد سے کبھی خود کو نہ بچا پائے گا۔ عامی دیوبندی کو چھوڑ دیجئے، کیونکہ آپ کا اس سے متفق ہونا ممکن نہیں، لیکن کہئے باقی جو عامی ہیں، ان کے بارے میں یہ بات درست ہے یا نہیں؟
اصل میں سوال ہی کو غلط سمجھاگیاہے۔ کتنے لوگوں نے تحقیق کے بعد اسلام قبول کیاہے۔ایسے افراد جنہوں نے تمام مذاہب کو پڑھنے کے بعد اسلام قبول کیاہے بہت کم ہیں ۔بیشتر افراد ہیں جنہوں نے اسلام کی کسی خوبی سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیااوراس خوبی میں تحقیق سے زیادہ رنگ تاثر کاہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے بھی اپنے ملفوظات میں ایک بار کہاتھاکہ لوگوں میں دعوت اسلام کیلئے دماغ سے زیادہ دل کومتاثر کرنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ دماغ ہربات کی کوئی نہ کوئی وجہ تلاش کرلیتاہے بقول اقبال عقل عیار ہے سوبھیس بنالیتی ہے لیکن دل اگرمتاثر ہوگیاتو پھر وہ منواکر ہی دم لیتاہے۔قبول اسلام کے واقعات پڑھنے سے بھی اسی تاثر کی تائید ہوتی ہے ایسے افراد جنہوں نے تمام مذاہب کی تحقیق کے بعداسلام قبول کیاخال خال ہیں۔ اوردورحاضر میں قبول اسلام کے لاکھوں واقعات میں ایسے افراد کی تعداد نگلیوں پر گنے جانے تک محدود ہے۔ ورنہ تمام افراد وہی ہیں جنہوں نے کسی تاثر کے نتیجے میں اسلام قبول کیاہے۔
اسی دور سے ہی دلیل کی تحقیق کی مثالیں بھی اگر دے دی جائیں تو؟
پھر جتنے مسائل دور حاضر میں اختلافی ہیں، تب تو یہ صورتحال نہیں تھی، نا اتنے فتنے تھے۔ معدودے چند مسائل کے علاوہ دیگر مسائل میں سب لوگ متحد و متفق تھے۔ اختلاف تو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور تب دلائل کی اہمیت بھی بڑھتی گئی۔
اس کا تعلق بھی ازقبیل غلط فہمی ہی ہے۔آپ جتنے بھی مثالیں تحقیق کی پیش کریں گے اس سے سوگنازیادہ بغیر تحقیق کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں اورمیں پہلے کہہ چکاہوں کہ صحابہ اوراسلاف کے فتاوی جات میں 99فیصد حصہ ایساہے جہاں انہوں نے مسئلہ بیان کیالیکن اس کی دلیل بیان نہیں کی۔
یہ کہناکہ دورحاضر میں مسائل زیادہ ہوگئے ہیں اس دور میں کم تھے بھی صحیح نہیں ہے ،آخر جدید فقہی مسائل اورمتاخرین کے چند خودساختہ مسائل جیسے میلاد،حاضر وناظر وغیرہ کو چھوڑ کر عبادات کے تعلق سے جتنے اختلاف آج موجود ہیں وہ اس دور میں بھی موجود تھے۔ نماز میں،روزہ میں حج میں زکوٰۃ میں جتنے بھی اختلافی مسائل ہیں اس کا تعلق کسی نہ کسی طورپر صحابہ کرام اوراسلاف سے جڑاہواہے تویہ کیسے کہاجاسکتاہے کہ اس دور میں اختلافی مسائل کم تھے۔کم سے کم یہ بات کہنے سے پہلے مصنف عبدالرزاق،مصنف ابن ابی شیبہ ،موطاامام مالک اورصحابہ کے فتاوی جات پر مشتمل کتابوں کا سرسری مطالعہ کرلیاجاتاتویہ بات نہ کہتے ۔
یہ بھی سوال ہے کہ اگرایک عامی تحقیق نہیں کرتاہے ۔علماء کی بات پر اعتماد کرتاہے تو اس کایہ عمل درست ہے یاغلط ہے۔
میرے اس سوال کا براہ راست کوئی جواب دیناچاہئے تھا لیکن حسب سابق آپ نے ایک مرتبہ پھر براہ راست جواب دینے سے گریز کرلیا۔ عامی کا تحقیق نہ کرناصحیح ہے یاغلط ہے۔ اس پر اپناموقف واضح کریں۔

چار پانچ فیصد کو چھوڑ کر ، جو یا تو تھوڑے بیوقوف ہوتے ہیں کہ اندھا دھند سودا خریدتے ہیں ، یا پھر ان کو اس دوکاندار کی اس چیز کا پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ یہ کس قسم کی کوالٹی کی ہے ۔
بقایہ پچانوے فیصد لوگ جب سودا سلف خریدنے بازار جاتا ہے تو وہ یقیناً تحقیق کرتے ہیں ۔ ایک ہی چیز کی وہ کئ دوکانوں سے ریٹ اور کوالٹی چیک کر یں گے ۔
تو دینی لحاظ سے ہمارا یہ عذر کیسے قبول کیا جائے گا ۔ جیسے کی اوپر ایک بھائی نے بتایا ۔ فاسئلوا اہل الذکران کنتم لا تعلمون ،
یہاں پھر سوال اٹھتا ہے کہ عوام ، کن علماء سے پوچھے گا ۔ علماء کی بھی پہچان ہوسکتی ہے ، جیسا کہ دنیاوی مثال دی جاچکی ہے ۔
عوام کو تحقیق سے روکنے والے اکثر متعصب اور لالچی قسم کےمولوی ہوتے ہیں ، کہ اگر ان عوام کو پوری بات تفصیل اور دلائل سے بتادیں جائے گی تو سارا کام خراب ہوجائے گا ۔ پھر یہی لوگ کہیں گے کہ پچاس سال سے یہ مسئلہ کیوں نہیں بتایا تھا ۔ چل نکل مسجد سے ۔
اس قسم کے مسائل میں جب وہ لوگ لب کشائی کرتے ہیں جن کا سرمایہ علم چند اردو کی کتابیں ہیں اورجنہوں نے کچھ اختلافی مسائل پر کتابیں پڑھ رکھی ہیں توحیرت بھی ہوتی ہے اورعلماء کے گرتے وقار کو دیکھ کر افسوس ہوتاہے کہ دوہی بات ہوسکتی ہے کہ دورحاضر کاہرشخص اتناعلم رکھتاہے کہ وہ علماء کی طرح مسائل میں لب کشائی کرے یاپھر علماء نے خودکوپست کرکے عامیوں کی صف میں کھڑاکرلیاہے۔فالی اللہ المشتکی
چاند کی روشنی والےآفرید ی بھائی!اگراپنی مثال پر خود باریک بینی سے غورکریں گے تومعلوم ہوگاکہ یہ قیاس مع الفارق ہے۔ قیاس مع الفارق کا مطلب معلوم نہ ہو توپوچھ لیجئے گا۔ والسلام
 
Top