lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
جزاک اللہ
اسی لکھنے پر تو اعتراض ہے کہ جب اعراب قرآن میں ہمیشہ سے ہیں تو پھر بھی ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں لکھوایا اعراب کو بعد میں لکھا گیا اور یہ اس لئے کیا گیا کہ قرآن پڑھنے میں غیرعربی لوگوں کو سہولت ہو اور وہ قرآن کو صحیح مخارج سے پڑھ سکے جبکہ کہ عربستان میں آج بھی قرآن کی اشاعت بغیر اعراب کے ہوتی ہے اب عجمی مسلمانوں کی سہولت کے لئے قرآن میں یہ اضافہ بقول آپ کے بعد میں کیا گیا اور دین میں ہر نئی چیز آپ کے نزدیک بدعت ہے !قران میں پہلے زیرزبرنہیں تھا، سچ یہ ہے کہ قران میں زبرزیر تب سے ہے جب سے قران ہے، البتہ اسے لکھا بعدمیں گیا ہے،
اسی لکھنے پر تو اعتراض ہے کہ جب اعراب قرآن میں ہمیشہ سے ہیں تو پھر بھی ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں لکھوایا اعراب کو بعد میں لکھا گیا اور یہ اس لئے کیا گیا کہ قرآن پڑھنے میں غیرعربی لوگوں کو سہولت ہو اور وہ قرآن کو صحیح مخارج سے پڑھ سکے جبکہ کہ عربستان میں آج بھی قرآن کی اشاعت بغیر اعراب کے ہوتی ہے اب عجمی مسلمانوں کی سہولت کے لئے قرآن میں یہ اضافہ بقول آپ کے بعد میں کیا گیا اور دین میں ہر نئی چیز آپ کے نزدیک بدعت ہے !
اب اگرکوئی کہے کہ ٹھیک ہے کہ زبرزیرپہلے سے موجودتھا اوراس کے لکھنے سے قران میں اضافہ بھی نہیں ہوتا لیکن فی نفسہ یہ لکھنا توایک نیا عمل ہے ، لہٰذا بدعت ہوا۔
توعرض ہے کہ زبرزیرلکھنا بدعت ہرگزنہیں ہے کیونکہ اس کے لکھنے کی دلیل موجودہے ملاحظہ ہو:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ حِفْظَهُ، فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ وَقَالُوا: أَتَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِي الْغَضَبِ، وَالرِّضَا، فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إِلَى فِيهِ، فَقَالَ: «اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ» سنن أبي داود (3/ 318 رقم3646)
صحابی رسول عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو باتیں سنا کرتا تھا انہیں لکھا کرتا تھا یاد کرنے لیے۔ لیکن مجھے قریش نے منع کیا اور کہنے لگے کہ تم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات کو جو سنتے ہو لکھ لیا کرتے ہو حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر ہیں (اور بشری تقاضا کی وجہ سے آپ کو غصہ بھی آتا ہے، خوشی کی حالت بھی ہوتی ہے) اور آپ کبھی غصہ میں اور کبھی خوشی کی حالت میں گفتگو کرتے ہیں لہذا میں نے کتابت سے ہاتھ روک لیا اور اس کا تذکرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق بات کے اور کچھ نہیں نکلتی۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ سے نکلی ہوئی ہرچیز کو لکھنے کی اجازت دی ہے اورقران بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے تلاوت ہوکرامت کو ملاہے،اورپہلے واضح کیا جاچکا ہے کہ تلاوت زبرزیرکے ساتھ ہی ہوتی ہے،گویا کہ زبرزیربھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے ہی نکلا ہے،لہٰذامذکورہ حدیث میں اس کے لکھنے کا بھی جواز موجودہے۔
لہٰذا قران مجید میں زبرلکھنے پراس حدیث سے دلیل موجودہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں زبرزیرنہیں لکھا گیا کیونکہ اس وقت کسی نے اس کی ضرورت محسوس نہ کی گرچہ اس کا جواز موجود تھا، لیکن ہمیں اس کی ضرورت ہے اس لئے اس جواز پرعمل کرتے ہوئے ہمارے لئے زبرزیرلکھ دیاگیا۔
خلاصہ کلام یہ کہ زبرزیرلکھنے پردلیل موجودہے لہٰذا یہ بدعت نہیں۔
اس معاملے میں کفایت اللہ بھائی کا موقف درست ہے کیوں کہ اعراب پڈھا تو شروع ہی سے جاتا تھا لیکن لکھا بعد میں گیامحترم کفایت اللہ بھائ، میں معذرت چاہتا ھوں کہ میں نے آپ کی پوسٹ میں سے چند الفاظ کو نظر انداز کیا، دراصل جب آپ نے یہ لکھا تھا کہ "اہل البدعۃ یہ انکار کرتے ہیں کہ قرآن میں زیر زبر نہیں تھا، جس سے وہ بدعۃ الحسنہ کی حجیت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔" تو میرے دماغ یہی بات آئ کہ وہ تو اعراب کے لکھے جانے کو ہی اپنے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں، نہ کہ اس کے وجود پر، اور وہ اسی کو بدعۃ الحسنہ کہتے ہیں ہے۔ اسی غلط فہمی میں میں نے اس بات پر جواب دے دیا، جس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔
پڈھا نہیں پڑھااس معاملے میں کفایت اللہ بھائی کا موقف درست ہے کیوں کہ اعراب پڈھا تو شروع ہی سے جاتا تھا لیکن لکھا بعد میں گیا