السلام علیکم
ہمیں نماز رسول الله صلی علیہ وسلم کے بتاے ہوے طریقے کے مطابق پڑھنی چاہیے- اور نماز کے پانچ فرائض ہیں جس میں ایک فرض قیام ہے- کیا قیام میں ہاتھ باندھنا لازمی ہے؟
اور اگر کوئی شخص ہاتھ چھوڑ کر یا ہاتھ پیچھے باندھ کر نماز پڑھتا ہے، تو کیا اسکا یہ قیام ہو جایگا؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نماز کے متعلق نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
((صلوا کما رایتمونی اصلی))
نماز اسی طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
(صحیح بخاری ۸۹/۲ ح۶۳۱)
مکمل حدیث یہ ہے :
عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، أَتَيْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ يَوْمًا وَلَيْلَةً، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَفِيقًا، فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّا قَدِ اشْتَهَيْنَا أَهْلَنَا - أَوْ قَدِ اشْتَقْنَا - سَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَكْنَا بَعْدَنَا، فَأَخْبَرْنَاهُ، قَالَ: «ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ، فَأَقِيمُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ - وَذَكَرَ أَشْيَاءَ أَحْفَظُهَا أَوْ لاَ أَحْفَظُهَا - وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ، وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ»
(صحیح البخاری 631 )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور نماز میں بحالت قیام ہاتھ باندھنے کا حکم خود پیارے نبی ﷺ نے دیا ہے ؛
صحیح بخاری (حدیث نمبر740 ) اور مؤطا امام مالک اور مسند احمد میں حدیث ہے کہ :
عن مالك، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، قال: "كان الناس يؤمرون ان يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة"، قال ابو حازم: لا، اعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم، قال إسماعيل: ينمى ذلك ولم يقل ينمي.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوحازم بن دینار سے، انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں، ابوحازم بن دینار نے بیان کیا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے۔
نماز میں ہاتھ باندھنے کا یہ حکم اتفاقی ہے اس میں مخالف کے پاس کوئی صحیح منقول دلیل نہیں ،حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں اس حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں:
(قال بن عبد البر لم يأت عن النبي صلى الله عليه وسلم فيه خلاف وهو قول الجمهور من الصحابة والتابعين وهو الذي ذكره مالك في الموطأ ولم يحك بن المنذر وغيره عن مالك غيره ۔۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہاتھ کہاں باندھے جائیں اس کے متعلق مسند احمد میں واضح حدیث شریف موجودہے کہ :
حدثنا يحيى بن سعيد، عن سفيان، حدثني سماك، عن قبيصة بن هلب، عن أبيه، قال: " رأيت النبي صلى الله عليه وسلم ينصرف عن يمينه وعن يساره، ورأيته، قال، يضع هذه على صدره "
ترجمہ :سیدنا ہلب الطائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے بنی ﷺ کو (نماز سے فارغ ہوکر) دائیں اور بائیں (دونوں) طرف سلام پھیرتے ہوئے دیکھا ہے اور دیکھا ہے کہ آپ یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے۔
(مسنداحمد 21967 - وسندہ حسن والتحقیق لابن الجوزی ۲۸۳/۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحیح ابن خزیمہ 479 میں ہے کہ :
عن وائل بن حجر قال: «صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ووضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره»
ترجمہ :
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ،تو آپ نے نماز میں اپنا دایاں ہاتھ ،بائیں ہاتھ پر رکھ کر اپنے سینے پر رکھ لیا۔ (صحیح ابن خزیمہ 479 )
امام بیہقیؒ لکھتے ہیں: "باب وضع الیدین علی الصدر فی الصلوٰۃ من السنۃ"
باب : نماز میں سینے پر ہاتھ رکھنا سنت ہے۔ (السنن الکبری للبیہقی ۳۰/۲)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ان احادیث صحیحہ سے واضح ہے کہ :
نماز میں ہاتھ سینہ پر باندھنے چاہیئیں ، یہ ایسی سنت ہے جس کا خاص طور پر نبی کریم ﷺ نے حکم دیا ہے ،
اور جیسا کہ پہلے بیان کیا :
نماز میں ہاتھ باندھنے کا یہ حکم اتفاقی ہے اس میں مخالف کے پاس کوئی صحیح منقول دلیل نہیں ،حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں فرماتے ہیں:
(قال بن عبد البر لم يأت عن النبي صلى الله عليه وسلم فيه خلاف وهو قول الجمهور من الصحابة والتابعين وهو الذي ذكره مالك في الموطأ ولم يحك بن المنذر وغيره عن مالك غيره ۔۔)
یعنی نماز میں ہاتھ باندھنے کے خلاف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت منقول نہیں ، اور جمہورصحابہ و تابعین کا بھی یہی کہنا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنے سنت ہیں ، اور امام مالکؒ نے بھی مؤطا میں یہی بیان کیا ہے ، اور (مذاھب علماء نقل کرنے والے ) امام ابن المنذرؒ وغیرہ بھی امام مالک اور دیگر ائمہ فقہ کا اس کے علاوہ کوئی قول نقل نہیں کیا "))
تو واضح ہوگیا کہ نماز میں ہاتھ باندھنا سنت رسول اور حکم رسول ﷺ ہے ، اور ائمہ اسلام کا اتفاقی مذھب ہے
اس کی خلاف روزی کسی صورت جائز نہیں ، سوائے اس کے جس کو یہ حکم شریعت نہ پہنچ سکے ،یعنی جانتے بوجھتے ہاتھ چھوڑ کر نماز ادا کرنا صحیح نہیں
سنت کی خلاف ورزی ہے ، اور خلاف سنت نماز بلکہ کوئی بھی عبادت مقبول نہیں ،
اگر سنت طریقہ کے علاوہ بھی نماز مقبول ہوتی تو نبی اکرم ﷺ یہ نہ فرماتے کہ:
((صلوا کما رایتمونی اصلی))
نماز اسی طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
(صحیح بخاری ۸۹/۲ ح۶۳۱)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ