حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
قابل غور بات یہ ہے کہ صحابہ اور تابعین کے فتاوی تو ابدی قانون زندگی نہ بن سکے مگر ان کے بعد آنے والے فقہا کے مرتب کردہ فتاوی ابدی قانون زندگی بن گئے،آخر کیسے ؟؟
لطف کی بات یہ ہے کہ یہی بات امام الحرمین عبد الملک جوینی نے اس طرح بیان کی ہے:
صحابہ کرام کے اصول عام احوال کے لیے کافی نہ تھے ،اسی لیے سائل کو عہد صحابہ میں اختیار تھا کہ وہ ایک مسئلہ میں ابو بکر اور دوسرے میں حضرت عمر کے قول کو لے لے، بر عکس ائمہ کے دور کے کہ ان کے اصول کافی تھے "
(مغیث الخلق:۱۵
علامہ کوثری نے امام الحرمین کی اس بات کی تردید کی ہے اور اسے صحابہ کرام اور تابعین کی توہین قرار دیا ہے، چناچہ وہ لکھتے ہیں :
فتصور کفایۃ اصول الائمہ بخلاف اصول الصحابۃ اخسار فی المیزان و ایفاء فی الہزیان
ائمہ کے دور کے اصول کافی ہونے اور اس کے برعکس صحابہ کے اصول نا کافی ہونے کا تصور( صحابہ اور ائمہ کی شان میں گستاخی ) سراسر نا انصافی اور مکمل طور پر بیہودہ گوئی کا ارتکاب ہے"
یہاں احناف سے میرا یہ سوال ہے کہ کیا جس تقلید کی لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے وہ قیامت تک لیے کافی اور شافی ہے ، نئے پیش آمدہ مسائل کا حل کہاں سے ڈھونڈا جاے گا ، قرآن و حدیث سے یا کہ مروجہ فقہ سے؟؟؟
لطف کی بات یہ ہے کہ یہی بات امام الحرمین عبد الملک جوینی نے اس طرح بیان کی ہے:
صحابہ کرام کے اصول عام احوال کے لیے کافی نہ تھے ،اسی لیے سائل کو عہد صحابہ میں اختیار تھا کہ وہ ایک مسئلہ میں ابو بکر اور دوسرے میں حضرت عمر کے قول کو لے لے، بر عکس ائمہ کے دور کے کہ ان کے اصول کافی تھے "
(مغیث الخلق:۱۵
علامہ کوثری نے امام الحرمین کی اس بات کی تردید کی ہے اور اسے صحابہ کرام اور تابعین کی توہین قرار دیا ہے، چناچہ وہ لکھتے ہیں :
فتصور کفایۃ اصول الائمہ بخلاف اصول الصحابۃ اخسار فی المیزان و ایفاء فی الہزیان
ائمہ کے دور کے اصول کافی ہونے اور اس کے برعکس صحابہ کے اصول نا کافی ہونے کا تصور( صحابہ اور ائمہ کی شان میں گستاخی ) سراسر نا انصافی اور مکمل طور پر بیہودہ گوئی کا ارتکاب ہے"
یہاں احناف سے میرا یہ سوال ہے کہ کیا جس تقلید کی لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے وہ قیامت تک لیے کافی اور شافی ہے ، نئے پیش آمدہ مسائل کا حل کہاں سے ڈھونڈا جاے گا ، قرآن و حدیث سے یا کہ مروجہ فقہ سے؟؟؟