• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا مسئلہ تحکیم میں کفر اکبر کا مرتکب ہونے کے لئےاستحلال، جہود و انکار کی قید آج کی ایجاد ہے؟

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خارجیوں سے مباحثے کی اصل حقیقت اور اس مباحثے کے متعلق خیانتیں

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خارجیوں سے مباحثے کی اصل حقیقت اور اس مباحثے کے متعلق خیانتیں

قرآن میں لفظ ’’الکافرون‘‘:ضروری ہے کہ قرآن فہمی کے قواعد میں سے ایک اہم قاعدہ بیان کردیں امام شاطبی الموافقات میں فرماتے ہیں :’’احوال اور اوقات کے تقاضوں کے مطابق قرآن غایات بطور نص لاتا ہے اور ان کے دونوں پہلوؤں کے دائرے کو بیان کرتاہے حتی کہ عقل اس دائرے کو شریعت کے مطابق دیکھنے لگتی ہے ‘‘۔شاطبی نے یہ مفہوم ابوبکررضی اللہ عنہ کی اپنی موت کے وقت عمر رضی اللہ عنہ کو کی گئی نصیحت سے اخذ کیا ہے جس میں انہوں نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے اہل نار کا ان کے برے اعمال کے ساتھ تذکرہ کیا ہے کیونکہ اس نے ان کی نیکیوں کو ان پر رد ّکردیا ‘‘
اس سے یہ معلوم ہوا کہ قرآنی قاعدہ غایت کے اطراف کو ذکر کرتا ہے اور ان اطراف کے مابین کی وضاحت سنت پر چھوڑ دیتا ہے جو ان کی تشریح وتوضیح کرتی ہے اسی بناءپر یہ ممکن نہیں کہ لفظ ’’الکافرون‘‘یہاں کفر اصغر کے معنی میں ہوکیونکہ یہ چیز قرآن میں نہیں بلکہ سنت میں واقع ہوتی ہے وگرنہ اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکم کی غائی (غایت)صورت کیا ہوگی؟اس کے لئے یہاں عدم ایمان کی شرط لگانا درست نہیں کیونکہ یہ آیت ایمان یا جحود کے متعلق نہیں بلکہ حکم کو مطلق قانون سازی کے معنی میں داخل کردینے کی بات کررہی ہے ۔
سلفیت کے دعویداروں وغیرہ جن کی عقل وقلب میں ارجائیت گھر کرچکی ہے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ان عطاء ودیگر تلامذہ سے مروی اس قول ’’کفر دون کفر‘‘کو شریعت الٰہی کو حاکم بنانے کے مرتبے کو گھٹانے اور طاغوت کے وضعی حکم کی طرف رجوع کے معدوم ہونے کا ذریعہ بنالیا ہے اور یہ دعوی کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے عام قانون سازی اور اللہ کی شریعت کے غیر کو قانون مان کر اس کا پابند ہوجانے کو کفر اصغر قراردیا جیساکہ بیوی اپنے خاوند کی ناشکری کا کفر کرتی ہے عنقریب ہم اس بے کار دعوی کو باطل ثابت کردیں گے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول کے متعلق نو(9)نکات بیان کریں گے۔جن کا اعتبار کرنا ناظر کے لئے ضروری ہے۔
ابومجلز اور عطاءسے مروی ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہمارے غور وفکر کے مطابق خوارج کے ردّمیں تھا جنہوں نے بنوامیہ کے خلاف خروج کرناچاہا۔اور یہ لوگ ابن عباس رضی اللہ عنہ ،ابومجلز،عطاء تابعی کے اس قول کی آڑ میں اس خروج کو جواز کا رنگ دینا چاہتے ہیں جبکہ ہماری رائے کے مطابق بنی امیہ کے حالات میں اس خروج کو جائز قرار دینے کی کوئی بنیاد نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اللہ کے نازل کردہ کے علاوہ کو شریعت یا قانون نہیں قرا ردیا جس کولوگ حاکم مانتے یہی وہ فرق ہے جسے پوری طرح سمجھنے سے مرجئہ کے شبہات میں گرفتار یہ لوگ عاجز ہیں خواہ ان کے علماءہوں جیسے علم حدیث میں مہارت کے باجود علامہ البانی یا ان کے وہ عام علماء ہوں جنہیں وہ بڑا بزرگ سمجھتے ہیں اور ہر خطاء سے بری قرار دے کر بناسوچے سمجھے ان کی تقلید میں لگ جاتے ہیں یا وہ لوگ جو اخوان المسلمین کی قیادت کے تابعدار ہیں۔
علامہ محدث شیخ البانی کا معاملہ ہم شیخ احمد شاکر اور ان کے بھائی شیخ محمود شاکر پر چھوڑتے ہیں شیخ احمد شاکر فرماتے ہیں :
(ابن عباس رضی اللہ عنہ )سے مروی آثارجن کے ذریعے ہمارے دور کے کچھ علم سے منسوب گمراہ لوگ کھیلتے ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے دین پر اس قدر جراء ت کی کہ انہوں نے ان آثار کو بہانہ بنالیا وہ ان کے ذریعے اسلامی ممالک پر مسلط کردہ طاغوتی وضعی قوانین کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ابومجلز سے ایک اثر مروی ہے جو اباضیہ خوارج کے اسی اختلاف کے متعلق ہے کہ بعض امراء نے ظلم کرتے ہوئے بعض معاملات میں نفس پرستی اور حکم سے جہالت کی بناء پر خلاف شریعت فیصلے دے دیئے اور خوارج کا مذہب یہ ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب بھی کافر ہے تو وہ ابومجلز کے پاس آکر جھگڑا کرنے لگے اور یہ مطالبہ کرنے لگے کہ وہ ان امراء کو کافر قرار دینے میں ان کے موافق ہوجائیں تاکہ ا ن کے خلاف مسلح خروج کے لئے ان کے ہاتھ بہانہ آجائے یہ دونوں آثار امام طبری نے روایت کئے ہیں اور ان پر میرے بھائی سید محمود شاکر نے بڑی ہی نفیس تعلیق لکھی ہے میراخیال ہے کہ میں طبری کی پہلی روایت اور اس پر اپنے بھائی کی تعلیق نقل کردوں ۔
طبری نے عمران بن حیدر سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا کہ :ابومجلز کے پاس بنو عمرو بن سدوسی کے کچھ لوگ آکر کہنے لگے سے ابومجلز آپ اللہ کے اس فرمان کے متعلق کیا کہتے ہیں :
﴿وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْن﴾(المائدہ:۴۴)
جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کرے نہ کریں تویہی لوگ کافر ہیں ۔
کیا یہ حق ہے ؟فرمانے لگے :ہاں ۔وہ کہنے لگے :
﴿ وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾(المائدہ:۵۴)
جواللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کریں تویہی لوگ ظالم ہیں ۔
کیا یہ حق ہے ؟فرمانے لگے :ہاں ۔وہ کہنے لگے :
﴿وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾(المائدہ:۷۴)
جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ دیں تو یہی لوگ فاسق ہیں ۔
کیا یہ حق ہے ؟پھر وہ کہنے لگے ابومجلز کیا یہ لوگ (یعنی بنوامیہ کے ظالم امراء)اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم کرتے ہیں فرمانے لگے :یہ ان کادین ہے وہ اسے دین مانتے ہیں اور اسی کے مطابق کہتے ہیں اور اسی کی طرف بلاتے ہیں پھر اگر اس میں سے کچھ چھوڑ دیں تو اسے گناہ سمجھتے ہیں ۔وہ کہنے لگے ایسا نہیں ہے اللہ کی قسم تم فرق کررہے ہو۔فرمانے لگے :تم مجھ سے زیادہ اس کے حق دار ہو(یعنی میں خارجی نہیں بلکہ تم خارجی ہو)میرایہ خیال نہیں تمہارا یہ خیال ہے اور تم کوئی حرج بھی محسوس نہیں کرتے ۔
میرے بھائی سید محمود ان دونوں نصوص کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’یا اللہ میں اس گمراہی سے تیری طرف اظہاربراء ت کرتا ہوں وبعد،ہمارے اس دور کے شک گزیدہ اور فتنہ پرور لوگ جو بڑی باتیں بناتے ہیں اور حاکموں کے لئے اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم کو چھوڑ دینے ،اموال،دماء،اعراض میں اللہ کی اپنی کتاب میں نازل کردہ شریعت کے بغیر فیصلے کرنے ،کافر کے قانون کو اسلامی ممالک میں نافذ کرنے ان کو جوازکا رنگ دینے کے لئے عذر تراشتے ہیں پھر جب انہیں ان دواحادیث کا پتہ چلتاہے تو اسے ابومجلز کی رائے قرار دیتے ہیں کہ ان کے نزدیک اللہ کے نازل کردہ کے بغیر دماء اوراموال اور اعراض میں فیصلے کرنا درست ہے اور عام فیصلے میں شریعت کی مخالفت اسے کافر قرارنہیں دیتی جو اس پر راضی یا عامل ہو۔حالانکہ غور وفکر کرنے والے کے نزدیک ان دونوں حدیثوں میں سائل اورمسئول کی اس معرفت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔(ابومجلز لاحق بن حمید الشیبانی السدوسی)ثقہ تابعی ہیں علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے تھے اور ان کی قوم بنو شیبان جنگ جمل اور صفین کے دن شیعان علی میں شامل تھی پھر جب صفین کے دن حَکَموں (یعنی دونوں جانب سے ایک ایک حَکَم فیصلہ کرنے والا)والا معاملہ ہوا اور خوارج الگ ہوگئے تو علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کرنے والوں میں بنوشیبان اور بنوسدوس بن شیبان بن ذھل کے کچھ لوگ شامل ہوگئے ۔وہ لوگ جنہوں نے ابومجلز سے سوالات کئے وہ بنوعمروبن سدوس سے ہیں جو اباضیہ خوارج کا حصہ ہیں اور عبداللہ بن اباض حروری خارجی کے پیروکار ہیں اس کا کہنا تھا کہ جو خوارج کی مخالفت کرے وہ کافر ہے نہ کہ مشرک اس طرح اس نے اپنے اصحاب کی مخالفت کی ۔یہ واضح ہے کہ جن لوگوں نے ابومجلز سے سوالات کئے وہ اباضیہ تھے اور حکام کی تکفیر کے سلسلے میں ان پر حجت قائم کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ (حکام)سلکان کے معسکرمیں تھے اور بسا اوقات اللہ کی نافرمانی کرگزرتے اور جن امور سے اللہ نے منع فرمایاہے ان کا ارتکاب کربیٹھتے ۔اسی لئے ابومجلز نے جواب دیتے وقت کہا کہ :’’اگر وہ اس کاکچھ حصہ چھوڑ دیں تو اسے گناہ سمجھتے ہیں ‘‘(پہلی روایت کے مطابق)اور (دوسر ی روایت کے مطابق )وہ جو بھی عمل کریں انہیں علم ہے کہ وہ گناہ کررہے ہیں تو اس صورت میں ان کاسوال اس کے متعلق نہیں تھاکہ جس سے ہمارے دور کے بدعتی حجت پکڑتے ہیں یعنی دماء،اموال اور اعراض میں شریعت اسلامیہ کے بغیر اس کے مخالف قانون کے ذریعے فیصلہ کرنا اور نہ ہی وہ کسی ایسے قانون کے اجراء کے متعلق تھا جو اہل اسلام کو اللہ کے اپنی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بیان کردہ شریعت کے علاوہ حکم کا پابند کرتا ہو یہ فعل اللہ کے حکم اور دین سے اعراض ہے اور احکام کفر کو اللہ کے حکم پر ترجیح دینا ہے اور یہ کفر ہے اہل قبلہ اس کے قائل اور داعی کی تکفیر میں اختلاف کے باوجود اس میں شک نہیں کرسکتے ۔اور ہم جن حالات میں ہیں ان میں اللہ کے احکام کو کسی استثناء یا احکام پراس کے غیر کے احکام کو ترجیح دیئے بنا ہی عموماً چھوڑ دیا جاتا ہے اور اللہ کی شریعت کو ناکارہ کردیا جاتا ہے پوری تاریخ اسلام میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی حاکم نے ایسا حکم جاری کیا ہو جو پابند کرتا ہو کہ اسی کے مطابق فیصلے کئے جائیں ۔ابومجلز کا زمانہ ہو یا اس سے پہلے یا بعد کا کبھی کوئی ایسا حاکم نہیں آیا جس نے اللہ کے حکم کاانکار کرکے یا اہل کفر کے احکام کو اہل اسلام کے احکام پر ترجیح دے کر (جیسا کہ موجودہ حالات میں احکام کفر کو احکام اسلام پر ترجیح دی جاتی ہے )کوئی فیصلہ کیاہوایسا کبھی نہیں ہوا لہٰذا ابومجلز اور اباضیوں کے مابین گفتگو سے یہ سمجھنا کسی طرح درست نہیں توجوان آثار یا اان جیسے دیگر آثار سے حجت پکڑے اور ان کے غلط معانی لے تاکہ ان کے ذریعے حاکم کی مدد کرے اور اللہ کے نازل کردہ اور اپنے بندوں پر فرض کردہ شریعت کے ذریعے حکم کے جواز کو محال بناسکے تو شریعت میں یہ منکر کے حکم میں ہوا جو اللہ کے احکام کا انکار کرتا ہے اس سے توبہ کرائی جائے پھر بھی اگر مصر رہا اور خود کودرست سمجھتا رہا اور اللہ کے حکم کو ٹھکرا کر اس کے متبادل احکام پر راضی رہا توایسے ڈھیٹ کافر کا حکم اہل اسلام جانتے ہی ہیں ”یعنی اس پر حد ارتداد قائم کی جائے گی‘‘۔
احمد اور محمود شاکررحمہما اللہ کاکلام ختم ہوااللہ ان دونوں کو جزائے خیر دے ۔جاہل پر لازم ہے کہ وہ ان کے متعلق معلومات کرے یہ علم حدیث ،لغت وتفسیر کے درخشندہ ستارے ہیں دورحاضر میں کوئی ان کا ہم پلہ نہیں۔
غور کریں یہ ان اہل علم سے توبہ کروانے کی بات کررہے ہیں جو ان آثار کو حاکم کی حمایت میں لے (جیسے بعض اسلامی جماعتیں دیکھئے کتاب’’دعاۃ لاقضاۃ‘‘اور سلفیت کے وہ دعویدار جو سید قطب رحمہ اللہ وغیرہ کی تکفیر کو ان کی ذاتی رائے قرار دیتے ہیں اور ان آثار سے اسی طرح حجت پکڑتے ہیں جس کی شیخ محمود شاکر رحمہ اللہ نے تردید کی ہے)حاکم سے توبہ کروانے کی بات نہیں کررہے کیونکہ اس سے توبہ کروانے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ ہر عقلمند اس کا حکم جانتا ہے ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ تفسیر اجتہاد ہے حکماً مرفوع کے قبیل سے نہیں
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر نہیں کہ اسے مرفوع مانا جائے بلکہ محض اجتہاد ہے جس سے دیگر مختلف قرائن کی بناء پر اختلاف کیا جاسکتا ہے جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نکاح متعہ کی حلت سے رجوع کرلیا تھا۔
صحابی کا قول اور ادلہ شرعیہ میں اس کا مقام
جب ہم نے یہ مان لیا کہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے ہے تو علم الاصول کی روشنی میں یہ بات معلوم ہے کہ صحابی کا قول قرآن کے عمومات کی تخصیص نہیں کرتا حنفیہ کے نزدیک مخصصات متصل ہوتے ہیں اس کا ہمارے زیر بحث عنوان سے تعلق نہیں جمہور کے نزدیک تخصیص متصل اور منفصل دونوں طرح کا قول نہیں ہے ۔(الفروق للقرافی واصول الفقہ ابوزھرۃ)
اس قول کے متعلق اہل علم کے غلط اقوال
یہ بات معرودف ہے کہ البانی ان لوگوں میں بڑے ممتاز ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرنے والا کافر نہیں اس کی وجہ ان کا یہ نظریہ ہے ایمان قول اور اعتقاد کا نام ہے اور اعمال کمال ایمان سے ہیں جیسا کہ اشاعرہ اور ماتریدیہ کا مشہور مذہب بھی یہی ہے ۔البانی اس بارے میں ابن حجر سے متاثر ہیں اور ابن حجر رحمہ اللہ عقیدے میں اشعری تھے اور اس مسئلے میں بہت سے علماء اہل السنہ کے خلاف تھے ایسے ہی ان کایہ نظریہ بھی بنیاد بنا کہ کفر صرف جحود سے ہوتا ہے نہ کہ جوارح سے یہ محض عقیدے کی خرابی ہے ۔پاک ہے وہ ذات جو غلطی نہیں کرتی اور عیب تو ان لوگوں پر ہے جو البانی کی اس طرح پیروی کرتے ہیں جیسے معبود کی کی جاتی ہے اس کے باوجود بھی تقلید کا انکار کرتے ہیں اور سلفیت کا دعوی درحقیقت یہ سلفیت اور حدیث سے کوسوں دور ہیں اگرچہ سند کے علواور نزول کے متعلق کھل کر بات کرسکتے ہیں (البانی کے عقیدے کے متعلق ملاحظہ ہو ’’حقیقۃ الایمان عندالشیخ الالبانی ‘‘از محمد ابورحیم)اور ان کے علاوہ دیگر اسلامی جماعتوں کے سرکردہ لوگ جیسے اخوانی یہ اس لائق نہیں کہ ان کے ردّ میں معروف ہوا جائے ان کی علمی کم مائیگی اور علم شرعی کے میدان میں ان کی حقیقت نہ ہونے کی بناء پر۔
ان علماء اور محدثین کے اقوال جو مذہب اہل السنۃ کے حامی ہیں
یہ بے شمار ہیں جیسے دورحاضر میں :شیخ محمد ابراہیم ،فاضل محدث احمد شاکر اور ان کے بھائی محمود شاکر ،شیخ عبدالرحمن بن عبدالخالق ،امام دوسری،امام مودودی ،امام عبدالعزیز بن باز،علاوہ ازیں علماء متقدمین جیسے ابن تیمیہ ،ابن کثیروغیرہ ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :حاکم اگر دیندار ہولیکن علم کے بغیر حکم کرے توجہنمی ہے اور اگر عالم ہو لیکن اس کے خلاف فیصلہ دے جسے وہ اپنے علم کے مطابق حق جانتا ہے یہ بھی جہنمی ہے اور اگر انصاف اور علم دونوں کے بغیر ہی فیصلہ کردے تو یہ بالاولیٰ جہنمی ہے یہ اس وقت ہے جب کسی شخص کے مقدمے کا فیصلہ کرے اور جب مسلمانوں کے دین میں عام حکم کرے اور حق کو باطل ،باطل کو حق ،سنت کو بدعت ،بدعت کو سنت ،معروف کو منکر ،منکر کو معروف بنادے اور جن سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ان کا حکم دے اور جن کا حکم الٰہ المرسلین ،مالک یوم الدین اور دنیا وآخرت میں حمد کے سزاوار ہی کرے گا :
’’وَلَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ.
یعنی حکم اسی کا ہے اور اسی ک طرف تم لوٹائے جاؤگے ۔
نیز۔
﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ، بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ﴾(توبۃ:۳۳)
وہ ذات ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے سارے دین پر غالب کردے اور اللہ کافی گواہ ہے۔
حافظ ابن کثیررحمہ اللہ
ابن کثیر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:
﴿اَفَحُکْمُ الْجَاھِلِیَةِ یَبْغُوْنَ﴾
یعنی :کیا وہ جاہلیت کا حکم ڈھونڈتے ہیں ۔
کی تفسیر میں فرماتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر ردّ کرتے ہوئے کہ جو اس کے محکم اورہر خیر پر مشتمل اور ہر شر سے روکنے والے حکم سے نکل کر ان آراء اور خواہشات اورا صطلاحات کے پیچھے پڑجائے جنہیں لوگوں نے اللہ کی شریعت کی دلیل کے بغیر بنایا ہویا جیسے تاتار اپنے بادشاہ چنگیز خان کے وضع کردہ قانون یاسق کے مطابق اپنی ملکی سیاسیات کا فیصلہ کرتے تھے یہ کتاب احکام کا مجموعہ ہے جنہیں اس نے مختلف ادیان سے اخذ کیا جیسے یہودیت،نصرانیت ،دین اسلام وغیرہ اس کے اکثر احکام اس کی اپنی رائے اور خواہش کے مطابق ہیں تو اس کی قوم کے لئے یہ ایک قابل اتباع شریعت قرار پائی جسے وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مقدم کرتے ہیں توجو بھی ایسا کرے وہ کافر ہے اس کے خلاف قتال فرض ہے حتی کہ ہر چھوٹی بات میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی طرف پلٹ آئے اور اس کے سوا کسی کا حکم نہ مانے ‘‘ایسے ہی ابن کثیر نے اپنی تاریخ کی کتاب میں یاسق اور اس جیسے دیگر قوانین کو حاکم بنانے کے متعلق اسی طرح کی گفتگو کی ہے فرماتے ہیں :جو اللہ کی اپنے نبی محمد بن عبداللہ خاتم الانبیاء پر نازل کردہ محکم شریعت کو چھوڑ کر دیگر منسوخ شرائع کو حاکم بنالے وہ کافر ہے تو جو یاسق کو حاکم بناکر اسے اس پر مقدم کردے وہ کیا ہوا؟جو ایسا کرے گا مسلمان اس کے کفر پر متفق ہیں۔
علامہ امام محدث احمد شاکررحمہ اللہ
شیخ احمد شاکر ’’عمدۃ التفسیر‘‘کی تعلیق میں فرماتے ہیں میں کہتا ہوں :اس کے باوجود بھی کیااللہ کی شریعت میں یہ جائز ہے کہ مسلمان اپنے شہروں میں بت پرست ملحد یورپ کے قوانین کے مطابق فیصلے کریں ؟بلکہ ایسے قانون کے مطابق جو باطل خواہشات اور آراء پر مبنی ہووہ جس طرح چاہیں تغیر وتبدل کردیں جس کا بانی یہ نہیں سوچتاکہ یہ دین اسلام کے مطابق ہیں یامخالف ؟مسلمانوں کے ساتھ یہ صورت پوری تاریخ اسلامی می صرف عہد تاتار میں پیش آئی یہ ظلم اور اندھیرے کے ادوار میں سب سے برا دور تھا اس کے باوجود بھی وہ اس کے آگے نہیں جھکے اور اسلام تاتار پر غالب رہا پھرانہیں اللہ کے دین میں داخل کردیا اور مسلمان کے دین وشریعت پر استقامت کے ساتھ انہوں نے جو کچھ کیا اس کا اثر زائل ہوگیا اس وقت اس برے اور ظالم حکم کا مصدر حکام کا ایک مخصوص گروہ تھا محکوم امت اسلامیہ کے افراد میں سے کوئی بھی شامل نہ تھا اور نہ ہی انہوں نے سیکھا نہ اپنی اولاد کو سکھایا لہٰذا بہت جلد اس کااثر زائل ہوگیا۔
کیا تم دیکھتے نہیں کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے آٹھویں صدی ہجری کے اس قانون جسے دشمن اسلام چنگیز خان نے وضع کیا اس کی جو صور ت انہوں نے بیان کی ہے وہی صورت آج کے دور چودہویں صدی ہجری کے مسلمانوں کی ہے صرف ایک فرق ہے جس کی طرف ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ یہ صورت اس وقت حکام کے ایک خاص طبقے میں تھی جو وقتاً فوقتاً امت اسلامیہ میں شامل ہوگیا اور ان آثار بھی زائل ہوگئے۔ان کی بنسبت آج کے مسلمان انتہائی برے حال اور ظلم اور اندھیرے میں ہیں کیونکہ آج اکثر اسلامی امتیں شریعت مخالف اور یاسق سے ملتے جلتے قوانین میں شامل ہوچکی ہیں جس کا بنانے والا پکا کافر تھا۔یہ قوانین جنہیں کچھ نام نہاد مسلمان بناکر اسلام کے بیٹوں کو سکھاکر اس پر باپ اوربیٹے دونوں فخر کرتے ہیں پھر اس کی بنیاد ان لوگوں کو قرار دیتے ہیں جو آج کے یاسق کو تھامے ہوئے ہیں او رجو ان کی مخالفت کرے اس کو حقیر سمجھتے ہیں او رجو انہیں دین وشریعت کی پابندی کی دعوت دے انہیں ’’رجعت پسند‘‘اور ’’تنگ نظر‘‘وغیرہ برے القابا ت سے پکارتے ہیں (بلکہ یہود ونصاری کی اہل السنہ مسلمانوں کے لئے بنائی گئی اصطلاحات کو رواج دیتے ہیں جیسے دہشت گرد انتہاء پسند)بلکہ جو دوچار اسلامی قوانین باقی بچے ہیں انہیں بھی آج کے یاسق کے مطابق بنانے کے لئے پوری طرح سرگرم ہیں کبھی سہولت اورنرمی کانام لے کر اورکبھی مکروفریب اختیار کرکے اور یہ صراحت کرچکے ہیں کہ وہ اپنے مختلف اختیارات استعمال کرکے دین کو ریاست سے الگ کردیں گے اور اس کے لئے مناسب وقت کے منتظر ہیں ۔توکیا اس صورت میں کسی مسلمان کے لئے جائز ہے کہ اس نئے دین یعنی نئے قانون کو لازم پکڑے یا کوئی باپ خواہ عالم ہو یا جاہل اپنی اولاد کو اس کی تعلیم اور اسے لازم پکڑنے اور اس کے مطابق عقیدہ وعمل بنانے کی طرف راغب کرے؟یاکسی مسلمان کے لئے جائز ہے کہ اس آج کے یاسق کے ماتحت فیصلہ کروائے اس پر عمل کرے اور واضح شریعت سے اعراض کرے میں نہیں سمجھتا کہ مسلمان جو دین کو جانتا ہو اس پر اجمالاً وتفصیلاًایمان رکھتا ہو اور یہ ایمان رکھتا ہو کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے جسے اس نے اپنے رسول پر نازل کیا محکم ہے اس میں باطل نہ آگے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے اور اطاعت اور اس رسول کی اطاعت جو اسے لے کر آئے وہ واجب ہے قطعی واجب ہرحال میں (بلکہ یہ توتوحید وکفر کامسئلہ ہے اس کا واجب ہونا ایسا ہے جیسے ایمان وتوحید کا واجب ہونا نہ کہ فروعات کا وجوب )میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کوئی صاحب استطاعت مسلمان کسی تردد وتاویل کے بغیر پوری تاکید سے یہ صراحت نہ کرتا ہو کہ اس صور ت حال میں فیصلہ کروانا (مقدمہ پیش کرنا )باطل ہے اصل باطل جس کے صحیح یا جائز ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ان وضعی قوانین کا کفر بواح ہونا سورج کی طرح روشن ہے جس پر کوئی غبار یا دائرہ نہ ہو کسی مسلمان کے لئے خواہ کوئی بھی ہو اس پرعمل کرنے اسے قبول کرنے اس کے مطابق فیصلہ کرنے میں کوئی عذر قابل قبول نہیں ہر ایک اپنے آپ کو اس سے بچائے اور ہر شخص اپنے نفس کا محاسبہ کرے ۔
علماء کسی سے مرعوب ہوئے بغیر حق کا پرچارکریں اور کمی کوتاہی کئے بغیر حق کی تبلیغ کریں عنقریب مجھ سے اس آج کے یاسق کے غلام اور حامی یہ کہیں گے کہ میں تنگ نظر اور قدامت پسند وغیرہ ہوں وہ جو چاہیں کہتے رہیں میں نے کبھی اس کی پرواہ نہیں کی لیکن میں وہی کہوں گا جس کا کہنا مجھ پر واجب ہے۔(عمدۃ التفاسیر لاحمد شاکر)
امام علامہ مفتی دیار سعودیہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ
شیخ محمد ابراہیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :جسے کفر دون کفر کہا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ جب وہ اس اعتقاد کی نافرمانی کررہا ہے اور اللہ کا قانون ہی حق ہے کے باوجود ایک غیر اللہ کو حاکم بنائے یا اسی طرح کچھ کرے لیکن ان قوانین کو مرتب کرنا اور ان کے آگے جھکنا کفر ہے اگرچہ وہ یہ کہیں کہ ہم نے غلطی کی اور شریعت کا حکم ہی مبنی برانصاف ہے تو یہ کفر ہے ملت سے خارج کردیتا ہے ۔(مجموع الفتاوی الشیخ محمد بن ابراہیم ، از محمد بن عبدالرحمن القاسم)
شیخ علامہ صالح الفوزان
یہ جزئی غیر متکرر حکم اور اس عام حکم کے مابین فرق کرتے ہیں جو تمام یا اکثر احکام کا مرجع ہو اور یہ فیصلہ دیتے ہیں کہ یہ مطلقاً کفر ہے ملت سے خارج کردیتا ہے یہ اس لئے کہ جو شریعت اسلامیہ سے کنارہ کش ہو کر وضعی قوانین کو اس کا متبادل بنائے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قانون کو شریعت سے بڑھ کر اچھا اور خیر خواہ سمجھتا ہے تو اس کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ اس نے کفر اکبر کارتکاب کیا جو ملت سے نکال دے اور توحید کو ڈھادے ۔(کتاب التوحید صالح الفوزان)
علامہ شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ
ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :جو اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرتے ہیں ان حکام کی چند اقسام ہیں جن کے احکام ان کے اعتقادات اور اعمال کے حساب سے مختلف ہیں توجو اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکم کرے اسے اللہ کے قانون سے بہتر سمجھ کر تویہ تمام مسلمانوں کے نزدیک کافر ہے اور ایسے ہی وہ شخص ہے جو وضعی قوانین کو اللہ کے قانون کا متبادل قرار دے اور اسے جائز سمجھے خواہ اس طرح کہے کہ شریعت کو حاکم بنانا ہی افضل ہے یہ بھی کافر ہے کیونکہ جسے اللہ نے حرام کیا اسے حلال سمجھ رہا ہے یعنی جو اللہ کے نازل کردہ کے علاوہ وضعی قوانین سے حکومت کرنے کو جائز قرار دے اگرچہ یوں کہے کہ شریعت کو حاکم بنانا ہی افضل ہے(یہ اس کی ہی طرح ہے جس کاہم نے ابھی تذکرہ کیا)جیسے کوئی کہے کہ ’’میں جانتا ہوں کہ دین محمد مخلوق کے تمام ادیان سے بہتر دین ہے‘‘۔نیز فرماتے ہیں:اگرچہ کوئی کہے کہ شریعت کو حاکم بنانا ہی افضل ہے یہ کافر ہے کیونکہ جسے اللہ نے حرام کیا اسے حلال سمجھ رہا ہے البتہ جو نفس پرستی یا رشوت یا اپنی رعایا سے بغض کی بناء پر اللہ کے نازل کردہ کے بغیر فیصلہ دے یا دیگر اسباب کی بناء پر اور وہ یہ جانتا ہوکہ وہ اس طرح نافرمانی کررہا ہے اور اس پر واجب یہی ہے کہ اللہ کے قانون کو حاکم بنائے تویہ معصیت اور کبیرہ کا مرتکب ہوگا۔(مجلۃ الدعوۃ شمارہ نمبر 963مورخہ 1405/2/5ہجری)
علامہ شیخ عبدالقادر عودۃرحمہ اللہ
یہ اخوانی تحریک کے امام اور اس کی نظریاتی کونسل کے بڑے اورمصر اور عالم اسلام کے بڑے قانون دانوں میں سے ہیں یہ توحید اور اس کے معانی کو صحیح معنوں میں جان سکے اسی لئے مصر میں قاضی اور قانونی مشیر رہے ہیں یہ وضعی قوانین سے اچھی طرح واقف ہیں اپنی عظیم کتاب ’’الاسلام واوضاعنا القانونیہ‘‘میں فرماتے ہیں:جب قرآن وسنت کے مخالف یا شریعت کی عام بنیادوں اور شریعت کی قانونی اساس سے خارج قوانین آئیں تو یہ مطلقاً باطل ہیں کسی کے لئے ان کی اطاعت جائز نہیں بلکہ اس کے برعکس ان کے خلاف جنگ کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے (ص:6طباعت المختار الاسلامی)۔نیز فرماتے ہیں:اسلام کا یہی حکم ہے یہی مومنوں کی راہ ہے ہم پر آج ایسا دور سایہ فگن ہے جس میں برائی پھیل چکی ہے اور اکثر لوگ فساد کا شکار ہیں لوگ برائی سے روکتے نہیں اورنیکی کا حکم نہیں دیتے خود بھی نہیں کرتے اور حکام اور عوام اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں اللہ کے حرام کردہ کو حلال کرتے ہیں اور حکومتیں مسلمانوں کے لئے ایسے قوانین بناتی ہیں جو انہیں اسلام سے ہٹاکر کفر پر گامزن کردیں چنانچہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اس مشکل گھڑی میں اپنا حق اداکرے کہ خلاف اسلام وضعی قوانین اور انہیں وضع کرکے او ران کی حمایت کرنے والی اور اسلام مخالف نظریات کی حامی حکومتوں کے خلاف جنگ کرے (ص:18)۔اپنے اسی موقف اورملحد شخص عبدالناصر اور اخوانیوں کے مابین ذاتی تنازعات کے تصفیے کی بناء پر 1954ء میں انہیں سزائے موت کا سامنا کرنا پڑا اخوانیوں کی طرف منسوب آج کے مقلد اور جاہل لوگ اس سے عبرت حاصل کریں اور ان جیسی عالم اور شہید شخصیت سے نسبت کریں۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
علمی اخلاق و آداب سے عاری تحریر پر سوائے افسوس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ مسلمانوں کی ایک عالمگیر جماعت قاعدۃ الجہاد کے امیر ہیں مجاہدین کے امام ہیں اگر آپ کو ان کا رد کرنا ہے تو علمی طور پر دلائل کے ساتھ کیجئے ۔ نہ کہ اخلاق واآداب کا دامن چھوڑ بیٹھے۔ لگتا ہے موصوف کے پاس اب کاپی پیسٹ کرنے کے لئے کچھ نہ بچا تو یوں ہی سہی :
لیں جی آ گئی بلی تھیلے سے باہر!!!
پہلے پورا زور لگایا ایک ڈاکٹر نے کہ وہ ابن عباس سے مروی روایات کو ضعیف و باطل قرار دے اور ٹہرا سکے ۔۔۔ مگر وہ خود جانتا تھا کہ وہ کیا خیانت کر رہا ہے،۔۔ اس لئے اسے پتا تھا اس کا صحت روایت کے بارے دجل کام نہیں آئے گا، لہذا اپنے حواریوں کو مطمئن کرنے کے لئے اگلی شرلی چھوڑ دی۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
سمیر بھائی!۔ قول پیش کردینے یا روایت کو پیش کردینے سے مراد یہ نہیں لیا جانا چاہئے کہ ہمارا راستہ درست ہے خود سوچیں! یار دس سال سے زیادہ ہونے کو آرہے ہیں۔۔۔ پاکستان جو اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا جب وہاں پراُمن ادوارتھے اور حالات ساز گار آپ نے قادیانیوں کو کافر قرار دلوادیا۔۔۔ کیا وہی تحریک نفاذ اسلام کے لئے مزید طول نہیں پکڑ سکتی تھی؟؟؟۔۔۔ دوسری مثال حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا موقف کیا یہ ہمارے سامنے مثالیں نہیں ہیں۔۔۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حضرت یزید رحمۃ اللہ کو نامزد کرنا کیا یہ ہمارے لئے گائیڈ لائن نہیں ہیں۔۔۔

دس سال میں جو ناحق خون بہا ہے یہ کون سا جہاد ہے؟؟؟۔۔۔ مجھے بتائیں۔۔۔ بیچارے رنگ روٹوں کو ذبح کرنا یہ کہاں کا اسلام ہے بھائی اسلام تو امان دیتا ہے۔۔۔ یہ فساد کا نام کب سے اسلام ہوگیا۔۔۔ ان کو قتل کرنے کی بجائے اپنے کردار اور اخلاق سے ان کے دل جیت سکتے تھے اور اگر ناکامی ہوتی تو کیا تھا موت یعنی شہادت ملتی لیکن اب اپنے علماء کے غلط اجتہادوں کو اپنی گردن سے روز قیامت کیسے چھڑوائیں گے چلیں بارہ سال تک یہ جہاد تھا مان لیا اسلام کے نفاذ کے لئے تو اب مذاکرت کس بات کے لئے۔۔۔ کہیں زرداری نے تو اشارہ نہیں کیا ہے کہ اگر یہ مذاکرات ناکام ہوجائیں تو پھر پورے پاکستان میں جہاد ڈکلیئر کردیا جائے اور بقول میڈیا کے ڈیڑھ سو خودکش بمبار ٹرینگ کے بعد مختلف شہروں میں روانہ کردیئے ہیں یہ کس لئے۔۔۔ تاکہ یہ جو دہشتگردی کے خلاف جنگ اور اسلام نافذ کرنے کے لئے قتال ایک عشرےسے جاری ہے جس میں چالیس ہزار کے قریب افراد مارے گئے ہمیشہ کے لئے ختم نہ ہوجائے؟؟؟۔۔۔ دیکھیں چلیں ہم مان لیتے ہیں آپ صحیح ہیں لیکن آپ کی اپنی پالیسی نے خود آپ کی نیک نیتی کو مشکوک بناکر رکھ دیا لوگ یہاں تک بول پڑے کہ آپ خوارج ہیں۔۔۔ مان لیا آپ پر یہ الزام ہے۔۔۔ لیکن آپ نے ایسا موقع ہی کیوں دیا۔۔۔ حالانکہ پڑوسی ملک میں بھی جہاد ہورہا ہے مگر وہاں کی عوام میں یہ تاثر قطعی طور پر نہیں پایا جاتا کیوں؟؟؟۔۔۔ ہر مسئلے کو سنجیدگی اور حکمت سے لیا جاتا ہے۔۔۔ اور دیکھیں کتنی حیرت کی بات ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان سے پکڑے جاتے ہیں واللہ اعلم لیکن اُنہوں نے کبھی کھلے یا دبے لفظوں میں ٹی ٹی پی کی حمایت کی ہو اور مُلا عمر حفظہ اللہ نے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔۔۔ تو ان زمینی حقائق سے جو بات سامنے آرہی ہے وہ خود آپ کے خلاف سارے ثبوت پیش کررہی ہے۔۔۔

اللہ نہ کرے آپ کے گھر سے آپ کے والد یا بھائی یا بہنوئی۔۔۔ رزق حلال کی طلب میں گھر سے نکلیں اور راستے میں کہیں خودکش حملے کا شکار ہوجائیں تو کیا آپ اُن کی اس بےقصور موت پر احتجاج رقم کروانے کی بجائے اس خودکش حملے کی حمایت کریں گے۔۔۔ یہ ہی دلائل پیش کرتے ہوئے جو آپ اوپر پیش کررہے ہیں۔۔۔ لہذا جب کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اس کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیر دینا چاہئے۔۔۔ اور اسلام سلامتی کا مذہب کا ہے۔۔۔ اگر میں فوج ملازم ہوں تو اس لئے نہیں کے مجھے جہاد کو ختم کرنا ہے بلکہ اس لئے کہ میرا رزق میرے رب نے اس طرح لکھا ہے۔۔۔ اور فوج میں سپاہی زیادہ تر گاؤں دھات اور قصبوں سے تعلق رکھتے ہیں جو حصول معاش کے لئے سلسلے میں اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔۔۔

یہ پالیسی میکرز نہیں ہیں۔۔۔ جو پالیسی میکرز ہیں اُن کو نشانہ بنائیں۔۔۔ معصوم بھولے بھالی عوام کو اپنے جہاد سے دور رکھیں۔۔۔ کیونکہ اللہ فرماتا ہے کہ ناحق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔۔۔ اللہ تعالٰی فہم عطاء فرمائیں۔۔۔ آمین یارب العالمین۔۔۔

حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ناحق مسلمانوں کو قتل کرنے کا فتوٰی موجود ہے کیا؟؟؟۔۔۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
قابض روس کیخلاف جہاد کرنے والے ولایت داغستان کے مجاہدین کی نئی ویڈیو ریلیز ’’کیا ہم خوارج ہیں‘‘؟

میرے پیارے بھائی آپ نے جو لکھا وہ لکھا۔یہ آپ کا حق ہے۔کہ آپ اپنی رائے کو آزادی کے ساتھ بیان کریں۔حرب شداد بھائی آپ نے لکھا کہ:
دیکھیں چلیں ہم مان لیتے ہیں آپ صحیح ہیں لیکن آپ کی اپنی پالیسی نے خود آپ کی نیک نیتی کو مشکوک بناکر رکھ دیا لوگ یہاں تک بول پڑے کہ آپ خوارج ہیں۔۔۔ مان لیا آپ پر یہ الزام ہے۔۔۔ لیکن آپ نے ایسا موقع ہی کیوں دیا
تو اب مجھ پر بھی واجب ہے کہ میں آپ تک مجاہدین کا موقف پہنچادوں ۔ ماننا یا نہ ماننا یہ آپ کی خواہش پر ہے:
قابض روس کیخلاف جہاد کرنے والے ولایت داغستان کے مجاہدین کے شعبہ میڈیا نے ایک ویڈیو جاری کی ہے، جس کا عنوان ہے: ’’کیا ہم خارجی ہیں‘‘؟

خارجی سے مراد وہ گمراہ کن فرقہ، جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے امت مسلمہ کو خبردار کیا ہے۔

لیکن عصر حاضر میں خلافت اسلامیہ کے قیام اور یہود ونصاری اور مرتدین کیخلاف دنیا بھر میں جہاد کرنے والے مجاہدین کیخلاف پروپیگنڈہ کرنے اور مسلمانوں کو ان سے متنفر کرنے کے لیے مجاہدین پر تکفیری اور خارجی کا الزام ہر جگہ یہود ونصاری اور مرتدین کے وفادار جمہوریت پسند مذہبی تنظیمیں اور درباری علماء لگارہے ہیں۔

مجاہدین ان الزامات کی تردید اور خوارج کے گمراہ منہج کی مذمت اس سے اعلان براءت کئی مرتبہ کرچکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود حقیقت سے عاری اس الزام کو دشمنان اسلام کے وفادار مجاہدین پر لگارہے ہیں، لیکن آج تک یہ الزامات لگانے والے مجاہدین کی طرف سے باقاعدہ جاری ہونے والی کوئی ایک کتاب، یا تحریر یا ویڈیو ریلیز وغیرہ ثبوت کے طور پر پیش نہیں کرسکے ہیں، جن سے یہ ثابت ہو کہ مجاہدین کا عقیدہ ومنہج خارجیوں کے عقیدہ ومنہج سے ملتا ہے۔

لیکن اس کے باوجود دنیا بھر میں عراق، افغانستان، پاکستان، یمن، الجزائر، جزیرۂ عرب، مغرب اسلامی، صومالیہ، شام، فلسطین، لبنان، مصر اور قوقاز کے مجاہدین پر یہود ونصاری اور مرتدین کے مقامی وفاداروں نے تکفیری اور خارجی ہونے کا الزام لگایا۔

عرب ممالک میں مسلم عوام کی طرف سے آنے والے انقلابات کے بعد یہ الزامات عرب خطے میں دم توڑ چکے ہیں اور اب وہاں موجود مرتد حکمران کے وفادار کسی درباری عالم دین کو یہ جرأت نہیں ہے کہ وہ مجاہدین پر اس طرح کے الزامات لگائیں کیونکہ اب عرب کے کئی ممالک میں مسلم عوام برملا اسی عقیدہ ومنہج کا اظہار کررہی ہے، جو مجاہدین کا ہے اور مجاہدین کی طرح وہ مرتدین حکمران اور ان کی افواج کیخلاف بغاوت کرتے ہوئے انقلابی تحریکوں کو چلارہی ہیں۔

لیکن کئی ممالک ایسے ہیں، جہاں مجاہدین کا مقامی میڈیا کمزور ہے تو ایسے ممالک میں یہود ونصاری اور مرتدین کے کھلے اور چھپے وفادار علماء مجاہدین کو تکفیری اور خارجی قرار اب تک دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی ممالک میں سے ایک اسلامی ملک قوقاز ہے، جہاں روس نے قبضہ کرکے وہاں اپنی کٹھ پتلی نام نہاد مسلم صوفی حکومت کو قائم کررکھا ہے اور مجاہدین سے مسلمانوں کو متنفر کرنے کے لیے درباری علماء کے ذریعے سے مجاہدین پر خوارج اور تکفیری کا لیبل لگایا جارہا ہے۔

ولایت داغستان کے شعبہ میڈیا نے اس پروپیگنڈہ کا رد کرنے کے لیے ایک ویڈیو جاری کی جس میں خوارج کی حقیقت اور مجاہدین کا خوارج کے بارے میں موقف کو بھر پور بیان کیا گیا ہے۔۔

اس ویڈیو کے شروع میں روس کے وفادار ایجنٹ مرتد حکمران اور ان کی افواج کا دفاع کرنے والے علمائے سوء کو دکھایا گیا جو اپنی تقاریر میں مجاہدین کو تکفیری اور خارجی قرار دیتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ لوگ اس خارجی گروہ میں سے ہیں، جن سے اللہ کے رسول ﷺ نے خبردار کیا ہے۔

پھر ویڈیو میں ان درباری علماء کا رد مجاہدین کی طرف سے شیخ ترکی بن مبارک البنعلی حفظہ اللہ کو کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ ویڈیو میں شیخ ترکی نے اپنے بیان کے شروع میں ایک حدیث بیان کی، جس کے راوی وہ خود ہیں اور انہوں نے اس حدیث کی مکمل سند اپنے استاد سے لیکر امام بخاری رحمہ اللہ سے ہوتے ہوئے صحابۂ رسول سعید الخدری ؓ تک ایک ایک راوی کا نام لیکر بیان کی اور پھر رسول اللہ ﷺ کی حدیث کا متن بیان کیا جو یہ ہے:

[يَخْرُجُ في هذه الأمة قَوْمٌ تَحْقِرُونَ صَلاَتَكُمْ مَعَ صَلاَتِهِمْ، يَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ]
’’اس امت میں ایک گروہ ایسا آئے گا، جس کے لوگوں کی نمازوں کے سامنے تم اپنی نمازوں کو حقیر جانوں گے۔ وہ قرآن کو تو پڑھیں گے، مگر وہ ان کی گردنوں کے حلق سے اوپر نہیں جائے گا اور وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکلتا ہے‘‘۔

پھر ویڈیو میں شیخ ترکی نے کہا کہ: ’’خوارج کے خبیث منہج سے خبردار کرنے والی من جملہ احادیث میں سے یہ ایک حدیث ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خوارج کون ہیں؟ کیا کسی ریاست کے خلاف نکلنے والے کو خارجی کہا جاتا ہے؟ کیا مجاہدین خوارج ہیں جیساکہ مختلف علوم وفنون کے حامل افراد ان پر الزام لگاتے ہیں‘‘؟

ان تمام سوالوں کے جواب میں میں ایک سوال پیش کرتا ہوں، جس نے ہر دجال کو اندھا کرکے رکھ دیا ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ خوارج کے اصول کیا ہیں، جن کی بنیاد پر کوئی شخص خارجی ہوجاتا ہے؟

شیخ ترکی نے مزید بتایا کہ ’’اللہ کی قسم! جب بھی میں نے ہم پر خارجی کا الزام لگانے والے اور اس باطل شبہے کو پھیلانے والوں سے یہ سوال کیا تو وہ جواب دینے سے قاصر رہیں اور کوئی صحیح بات تک جواب میں کرنے سے عاجز رہیں‘‘۔

پھر انہوں نے خوارج کے ان اصولوں کا تذکرہ کیا جن سے اس پروپیگنڈہ کی حقیقت سب پر عیاں ہوجاتی ہے، انہوں نے فرمایا:

بھائیو! عزیزو! میں یہاں انتہائی اختصار کے ساتھ خوارج کے ان اصولوں کو بیان کرتا ہوں، جو مایہ ناز کبار علمائے کرام نے مقرر کیے ہیں۔

خوارج کا پہلا اصول یہ ہے کہ ان کے نزدیک کوئی بھی شخص اگر کبائر گناہ، یا کسی بھی گناہ یا کسی جرم کا ارتکاب کریں تو یہ خوارج اس کی تکفیر کرتے ہیں۔ شراب پینے والے، زانی، چور، والدین کے نافرمان بیٹے اور جھوٹ بولنے والے کو کافر قرار دیتے ہیں۔

شیخ ترکی نے کہا: جبکہ ہم کسی شخص کی کبائر گناہ کا ارتکاب کرنے پر تکفیر نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی اس کا کافر کہتے ہیں۔

خوارج کا دوسرا اصول یہ ہے کہ وہ عام تکفیر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اگر حاکم نے کفر کیا تو اس کی تمام رعایا نے بھی کفر کیا ہے، چاہے وہ رعایا دیہات یا شہر میں رہتی ہو یا سفر پر ہو۔

شیخ ترکی نے کہا کہ ہم الحمدللہ خوارج کی طرح عام تکفیر نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی شک وشبے اور نہ قیاس آرائی واحتمال کی بنیاد پر کسی کو کافر قرار دیتے ہیں۔

خوارج کا تیسرا اصول یہ ہے کہ جب ظالم مسلم حکمران گناہوں اور برائیوں کا ارتکاب کریں تو ان کیخلاف خروج کرنے کو خوراج جائز سمجھتے ہیں۔

شیخ ترکی نے کہا: ہم مسلمان موحد حکمران کیخلاف خروج کو اس وقت تک جائز نہیں سمجھتے ہیں جب تک وہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کریں اور کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرائے۔

شیخ ترکی بن مبارک البنعلی نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ جس شخص کے اندر خوارج کے یہ تین اصول موجود ہو، تو وہ شریعت کی رو سے خارجی ہے اور جس کے اندر یہ تین چیزیں نہیں تو وہ خارجی نہیں ہے۔

اس ویڈیو میں پھر قابض روس کیخلاف جہاد کرنے والے مجاہدین کو دکھایا گیا، جن کے اوپر یہود ونصاری کے ایجنٹ علماء خوارج ہونے کا الزام لگاتے ہیں جبکہ اسلامی شریعت نے خوارج کے اوصاف پر مبنی جو تین اصول ذکر کیے ہیں، وہ ان مجاہدین میں دور دور تک کہیں بھی موجود نہیں ہیں۔ جبکہ مجاہدین خوارج کی مذمت اور ان کے منہج سے اعلان برأت کرتے ہیں۔

پھر اس کے بعد ویڈیو میں امریکیوں کیخلاف عراق میں جہاد کرنے والے ایک مجاہد کو دکھایا گیا جو علماء کے نام ایک بیان جاری کرتے ہوئے انہیں نصیحت کررہا ہے کہ:

’’اللہ سے ڈرو! مجاہدین کی عزتوں کے ساتھ مت کھیلو۔ تم نے افغانستان، چیچنیا،عراق، لبنان، الجزائر، جزیرۂ عرب اور ہر جگہ پر موجود مجاہدین کی عزتوں کو پامال اور مجروح کیا۔ ان مجاہدین نے تو اللہ کی قسم! اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر، اپنی بیویوں کو چھوڑ کر، اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک اپنے بچوں کو چھوڑ کر اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلیں۔ ان مجاہدین کے پاس مال بھی تھا اور تجارت بھی تھی، لیکن وہ یہ سب کچھ چھوڑ کر لاالہ الا اللہ کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے نکل کھڑے ہوئیں۔ اللہ کا فرمان سن کر وہ جہادی میدانوں کی طرف چل پڑیں۔

اللہ کی قسم! آج یہ مجاہدین پردیسی اور اجنبی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ اللہ کی قسم! یہی زمانہ اجنبیت اور پردیسی کا ہے۔ اللہ کی قسم! آج ہم مجاہدین نے اس دین کو اس طرح مضبوطی سے تھام رکھا ہوا ہے، جس طرح ہمارے پیارے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

دین کو مضبوطی سے تھامنے والا ایسا ہوگا جیسے اس نے اپنے ہاتھ میں جلتے ہوئے انگارے کو پکڑا ہوا ہو۔

آج یہی وہ زمانہ ہے۔ جان لو! یہی وہ زمانہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسلام اجنبیت سے شروع ہوا تھا اور اجنبیت سے اسی طرح لوٹے گا جیساکہ شروع ہوا تھا۔ اور اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے۔

اسلام کا آغاز کس طرح ہوا؟ کیا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین دار ارقم میں جمع نہیں ہوئے تھے؟ اسلام کے بارے میں آپس میں چھپ چھپ کر باتیں کرتے تھے۔ اللہ کی قسم! آج وہی زمانہ آچکا ہے۔ میں اور دیگر مجاہد ساتھی مختلف جگہوں سے یہاں اسلام کی خاطر اکھٹے ہوئے ہیں۔

لیکن ہمارے بارے میں پتہ نہیں کیا کچھ کہا جاتا ہے کہ ہم تکفیری ہیں، خارجی ہیں اور دہشت گرد ہیں۔

ہم یہاں اس لیے جمع ہوئے ہیں تاکہ اپنی مسلم بہنوں کی لٹنے والی عزتوں کو بچاسکیں اور ان کا انتقام لے سکیں۔ (عراقی مسلم بہن) فاطمہ کی ایک دن میں 9 مرتبہ امریکی فوجیوں نے عصمت دری کی، کیا تم میں سے کسی نے اس کی فریاد کو سنتے ہوئے لبیک کہا اور اس کی مدد کی؟ (عراقی مسلم بچی) صابرین الجنابی کی ایک رافضی شیعی پلید نے عزت لوٹی، کیا تم میں سے کسی نے اس کی کوئی مدد کی؟

کیا ان خواتین کی مدد کے لیے کوئی آیا ؟ کوئی نہیں!

اللہ کی قسم! ان بہنوں کی پکار پر ان کی مدد کے لیے صرف مجاہدین آئے، صرف وہ لوگ آئے جن کو تم تکفیری کہتے ہو، صرف وہ لوگ آئے جن کو تم گمراہ ٹولہ قراردیتے ہو۔ ان لوگوں نے ان مسلم بہنوں کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ان کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔

اللہ کی قسم! میں نے ان لوگوں کو دیکھا ہے، جن کو تم تکفیری کہتے ہو، دہشت گرد کہتے ہو۔ اللہ کی قسم! میں نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اللہ کی قسم! یہ راتوں کو جاگ کر اللہ کی عبادت کرنے والے، دنوں میں روزہ رکھنے والے، اللہ کا ذکر کرنے والے، مسلمانوں کے ساتھ نرمی وعاجزی سے پیش آنے والے اور کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آنے والے، معرکوں میں شدت کے ساتھ جہاد کرنے والے اور جنگوں میں شیر کے مانند جھپٹنے والے ہیں۔ یہ سب کچھ کرتے ہوئے ان مجاہدین کا مقصد صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔

تم ان مجاہدین کو تخریب کار قرار دیتے ہو۔ اللہ کی قسم! تخریب کار اور فسادی تم ہو۔ اس لیے اللہ سے ڈرو!۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ کیا کوئی یہ استطاعت رکھتا ہے کہ وہ ہمیشہ روزہ رکھے مگر افطار نہ کرے، ہمیشہ نماز پڑھتا رہے مگر کبھی ختم نہ کرے۔ ساتھیوں نے جواب دیا کہ ابوہریرہؓ! ایسا کرنے کی کون استطاعت رکھ سکتا ہے؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ ایک مجاہد کی صرف نیند اس سے بہتر ہے۔

یہ صرف ان مجاہدین کی نیند کی فضیلت ہے تو ان کے جہاد کرنے، ان کے قتال کرنے، ان کے روزہ رکھنے، ان کی راتوں کو قیام کرنے والے کا مقام ودرجہ کیا ہوگا۔

اللہ کی قسم! یہی زمانہ غربت واجنبیت کا ہے۔ تم لوگ اس اجنبیت کو محسوس نہیں کررہے مگر ہم مجاہدین اس اجنبیت وغربت کو محسوس کررہے ہیں‘‘۔

قابض روس کیخلاف جہاد کرنے والے ولایت داغستان کے مجاہدین کی ویڈیو ریلیز کو یہاں سے دیکھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں:
http://www.youtube.com/watch?v=VC8Ce97gRk8

ڈاؤن لوڈ کریں:
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
لیکن عصر حاضر میں خلافت اسلامیہ کے قیام اور یہود ونصاری اور مرتدین کیخلاف دنیا بھر میں جہاد کرنے والے مجاہدین کیخلاف پروپیگنڈہ کرنے اور مسلمانوں کو ان سے متنفر کرنے کے لیے مجاہدین پر تکفیری اور خارجی کا الزام ہر جگہ یہود ونصاری اور مرتدین کے وفادار جمہوریت پسند مذہبی تنظیمیں اور درباری علماء لگارہے ہیں۔
یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں!۔۔۔
حرم مکہ میں بلکہ بلاد حرمین کی ہر مسجد میں یہ دُعا کی جاتی ہےکہ اللہ تعالٰی مجاہدین جہاں کہیں بھی اللہ کے لئے لڑرہے ہوں تو اُن کو کامیابی اور نصرت عطاء فرما۔۔۔ کیا شام میں، عراق میں افغانستان میں کسی نے جہاد کرنے والوں پر یہ الزام لگایا؟؟؟۔۔۔ آپ اپنی بات کو سمجھیں کے روس کے خلاف جہاد۔۔۔ لیکن کیا پاکستان کی معصوم عوام، کو قتل کرنا جہاد کہلائے گا؟؟؟۔۔۔ وہ فوجی جو چوکیوں پر پہرہ دیتے ہیں کیا وہی فوجی طاغوت کے فوجی ہیں۔۔۔ جب یہ ہی فوجی انڈیا اور کشمیر میں مزاحمت کرتے ہیں۔۔۔ کارگل میں مزاحمت کرتے ہیں تو مسلمان ہیں۔۔۔ اور اگر مارے جائیں تو شہید لیکن اگر وہ یہ ہی ذمہ داری دوسری طرف نبھائیں تو یہ واجب القتل یار رہنے دیں۔۔۔ میری بس آپ سے یہ ہی درخواست ہے۔۔۔ جو حقیقت آپ ہمیں سمجھانا چاہ رہے اس سے بہتر یہ نہیں کہ آپ اُن بےگناہ لوگوں کے حق میں بھی آواز اٹھائیں جو بیچارے ڈرون حملوں میں صرف اس لئے قتل ہوگئے کہ وہ ان علاقوں کے مقیم ہیں جہاں پر یہ عناصر آج بھی موجود ہیں۔۔۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
آپ نے پھر بنیادی باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اپنے خیالات کو پیش کیا ہے مجاہدین نے بنیادی اصول خارجیت کے بیان کئے ہیں ان پر بحث سے صرف نظر کیا ہے۔مجھے حیرت ہے انٹرنیٹ کا اس قدر استعمال کرنے کے باوجود حقائق سے اس قدر انحراف ۔ کیا آپ کو یاد نہیں ہے کہ آپ کے پرویز مشرف جو کہ صلیبی اتحادی ہے اس نے کیا کہا تھا کہ ہم نیٹو صلیبی افواج کے فرنٹ لائن کے سپاہی ہیں ۔ کون نیٹو جو مسلمانوں کو پوری دنیا میں گاجر مولی کا طرح کاٹ رہے ہیں۔جو اسرائیل کو تحفظ دے رہے ہیں ۔مسلمانوں کے اموال کو لوٹ رہے ہیں ۔ مسلم عورتوں کی آبروریزی کررہے ہیں ۔ ان کے گھروں کو جلارہے ہیں ۔ان کے بچوں کو قتل کررہے ہیں ۔ ان کے نوجوانوں کو قید کررہے ہیں ۔ شعائر اللہ کی حرمتیں پامال کررہے ہیں ۔ غرض اور کیا کیا اور کہاں تک ان صلیبیوں کے جرائم کے متعلق لکھوں ۔ جب آپ کے میریا ڈھول سپاہیا نیٹو کے فرنٹ لائن بن کر آئیں گے ان کے ساتھ مل کر قبائلیوں کا قتل عام کریں گے ۔ مجاہدین کوقتل کریں گے ان کی املاک کو جلائیں گے ان کو گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کریں گے تو آپ کے ڈھول سپاہیوں کے گلے میں ہار پھول پہنائے جائیں گے یا ان کے گلے صلیبیوں کے ساتھ کاٹے جائیں گے ۔ کچھ تو اللہ کا خوف کریں ۔ اللہ کو بھی جواب دینا ہے۔مجاہدین پر یہ جنگ آپ کے ڈھول سپاہیوں نے مسلط کی ہے مجاہدین نے نہیں ۔ غلط فہمی میں لوگوں کو مبتلا نہ کریں حق کو اپنا لیں اسی میں فائدہ ہے۔ابتسامہ
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ہم مزید معلومات کے لئے ایک فتویٰ شئیر کرتے ہیں جس کو کسی صاحب نے دارالعلوم دیوبندسے پوچھا تھا جس کا متن کچھ اس طرح ہے:
کیا ایک ایسی آرمی میں بھرتی ہونا جائز ہے جو یہود و نصاری اور کافروں کے کہنے پر مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہے ۔ براہ کرم، تفصیل سے جواب دیں۔

Feb 19,2013
Answer: 44025
فتوی: 415-195/L=4/1434
اگر آپ کا سوال صحیح ہے تو ایسی آرمی اور فوج میں بھرتی ہونا جو اسلام دشمن طاقتوں مثلاً یہود ونصاریٰ اورکفار ومشرکین کے حکم وایماء پر بغیر کسی وجہ شرعی کے مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہو ناجائز وحرام ہے، کسی مسلمان کو قصدا ناحق قتل کرنا گناہِ کبیرہ ہے، قرآن وحدیث میں اس سلسلہ میں بڑی سخت وعید آئی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیْہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہُ وَاَعَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیْمًا“ (النساء: ۹۳) اور جو شخص کسی مسلمان کو قصدا قتل کرڈالے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کو اس میں رہنا اور اس پر اللہ تعالیٰ غضبناک ہوں گے اور اس کو اپنی رحمت سے دور کریں گے اور اس کے لیے بڑی سزا کا سامان کریں گے۔ (ترجمہ از بیان القرآن: ۱/۱۴۶)
نیز حدیث شریف میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد وارد ہوا ہے، سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر. (مشکاة المصابیح: ۴۱۱) یعنی مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کو قتل کرنا کفر (تک پہنچادیتا) ہے۔ ایک اور حدیث میں ایک موٴمن کی حرمت وتعظیم کو بیت اللہ کی حرمت وتعظیم سے بڑھ کر بتلایا گیا ہے۔ قال السخاوي: وفي معناہ أحادیہ متعددة عن غیر واحد من الصحابة فروي عن عبد اللہ بن عمر، قال: رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یطوف بالبیت، ویقول: ما أطیبک وأطیب ریحک، ما أعظمک وأعظم حرمتک، والذی نفس محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- بیدہ، لحرمة المؤمن أعظم عند اللہ حرمة منک، مالہ، ودمہ، وأن نظن بہ إلا خیرا. (ابن ماجہ)
نیز ایک دوسری حدیث کے مضمون سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ موٴمن کا قتل شرعا برداشت نہیں ہے، اس میں ایک مومن کے قتل کو اللہ کے نزدیک زوالِ دنیا (دنیا کے ختم ہوجانے) سے اہم بتایا گیا ہے۔ عن بریدة أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: قتل الموٴمن أعظم عند اللہ تعالی من زوال الدنیا۔ (رواہ النسائي تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو المصنوع في معرفة الموضوع، الموضعات الصغری: ۱۴۶) لہٰذا ایسی آرمی میں ملازمت اختیار کرنا جو کفار و مشرکین اور یہود ونصاریٰ کے کہنے پر مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہے، کسی بھی صورت میں جائز نہیں، اس سے احتراز کرنا لازم وضروری ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

http://www.darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=4402 5&limit=1&idxpg=0&qry=%3Cc%3EMIS%3C%2Fc%3E%3Cs%3EO TH%3C%2Fs%3E%3Cl%3Eur%3C%2Fl%3E
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
مسلم عورتوں کی آبروریزی کررہے ہیں ۔ ان کے گھروں کو جلارہے ہیں ۔ان کے بچوں کو قتل کررہے ہیں ۔ ابتسامہ
تو بھائی مشرف کو قتل کرنا تھا۔۔۔ ہمارا کیا قصور ہے بس یہ ہی کہ ہم پاکستان میں پیدا ہوگئے ہیں۔۔۔ مشرف کے ساتھ جو اس کی کابینہ میں ممبران تھے اُن کو قتل کرنا تھا۔۔۔ آپ سے اچھی تو متحدہ قومی موومنٹ نکلی بھائی۔۔۔ کہ آپریشن میں جن جن پولیس والوں نے حصہ لیا اُن کو چُن چُن کر مار ڈالا یہ میں نہیں میڈیا کہہ رہا ہے۔۔۔ اور اس حقیقت سے آپ بھی واقف ہیں۔۔۔ اب مجھے یہ بتائیں کے وہ جو ٹیٹو جن کے جسم پر بننے ہوئے تھے کیا یہ مسلمانوں کے شعائر ہیں۔۔۔ پاکستان کے حساس مقامات پر حملے کرنے کی بجائے ایک حملہ جی ایچ کیو پر کردیتے۔۔۔ ساری کہانی ہی مک جاتی۔۔۔ دیکھیں بھائی میں آپ کو غلط ثابت نہیں کرنا چاہ رہا میرا مقصد صرف یہ ہے آپ کی پالیسی نہیں ہے۔۔۔ نا ہی حکمت عملی، اگر آپ کچھ نا بھی کریں تو تیسری قوت آپ کے نام سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔۔۔

آپ نے کبھی یہ سوچنا گوارہ کیا۔۔۔ کہ افغانستان میں کبھی لڑکیوں کے اسکولوں کو نشانہ بنایا؟؟؟۔۔۔ لیکن اُن کی ہی ہم نام جماعت پاکستان میں اسکولوں کو تباہ کررہی ہے۔۔۔ یہ دو تضاد کیوں ہیں؟؟؟۔۔۔ آپ کہتے ہیں کے میں بنیادی نقطے سے صرف نظر کررہا ہوں۔۔۔ تو آپ بھی تو خارجیت کو ذہن میں رکھ کر دفاع کررہے ہیں۔۔۔ مجھے بتائیں کہ اس دس سال کی جنگ ٹی ٹی پی کو کتنا فائدہ ہوا؟؟؟َ۔۔۔ میں دعوٰے سے کہہ سکتا ہوں کسی کے دل میں بھی ان کے لئے خیر کے کلمات نہیں ہونگے۔۔۔ کیونکہ انہوں نے عام انسان کو نشانہ بنایا جو پہلے ہی چکی کے اس پاٹ میں پس رہا ہے۔۔۔ تو بھائی آپ لاکھ روایات کا سہارا لیں لاکھ قرآن کی آیات کو پیش لیکن آپ بھی قرآن کے بنیادی اُصول کو بالائے طاق رکھئے ہوئے ہیں۔۔۔ جو اسلحہ اور بارود آپ استعمال کررہے ہیں وہ کون سپلائی کرتا ہے۔۔۔ طاغوت؟؟؟۔۔۔ نیٹوسپلائی لائن آپ کے ہی علاقوں سے ہوتی ہوئی افغانستان جاتی ہے ہم نہیں روک سکتے آپ روک لیں۔۔۔ انہیں اڑائیں بھائی مسجدیں بازار یا بچوں کی اسکول وین کیوں نشانہ بناتے ہیں؟؟؟َ۔۔۔

یہ غلط بات ہے۔۔۔ اس طرح فرضی دعوں اور قرآن کی آیات اور روایات کو بنیاد بنا کر آپ یقین کیجئے اپنے غلط کو صحیح ثابت نہیں کرسکتے۔۔۔ میں اس بحث میں خود نہیں جانا چاہتا۔۔۔ کیونکہ آپ بات کو سمجھیں یہ میری آپ سے درخواست ہے۔۔۔ جمعہ اور جمعہ آٹھ دن ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن کہانی آٹھ دن کی نہیں یعنی آپ کو کیا پتہ؟؟؟۔۔۔ ایک مہاورہ ہے پیروں کے نیچے سے زمین نکلنا بس میں وہ نہیں چاہتا کہ ایسا ہو۔۔۔ اس لئے آپ سے درخواست ہے اس بحث کو آپ یہاں ہی ختم کردیں۔۔۔ آپ صحیح ہیں تو اللہ کی نصرت کا انتظار کریں ورنہ عذاب تو تیار ہے ہی۔۔۔
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
جناب جناب جناب !!!

آگا دوڑ ، پیچھا چھوڑ کا مصداق بننے کی بجائے اگر آپ کو پہلے کاپی پیسٹ کیا ہے اس کا حال و حقیقت پر غور فرمالیں تو آپ کی بوکھلاہٹ میں کچھ کمی واقع ہوسکتی ہے۔

اور اگر پوسٹ کے عنوان کو ہر مرتبہ کومنٹ کرنے سے پہلے ایک بار اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا کریں تو یہ بھی معلوم پڑ جائے کہ کس پوسٹ پر کیا کاپی پیسٹ کرنا ہے!
یہاں موضوع مسئلہ تحکیم ہے اور حضرت سمیر کیا کاپی پیسٹ فرما رہیں خود دیکھ لیں: :)
خارجی سے مراد وہ گمراہ کن فرقہ،
قابض روس کیخلاف جہاد کرنے والے ولایت داغستان کے مجاہدین
آرمی میں بھرتی
اس سے ایک بات تو سمجھ آتی ہے کہ آپ کے پاس مسئلہ تحکیم میں کاپی پیسٹنگ کرنے کے لئے مواد ختم ہو چکا ہے لہذا اب دل بہلانے کے لئے اور کاپی پیسٹنگ کا کروبار جاری رکھنے کے لئے دھڑا دھڑ ادھر ادھر کے غیر متعلقہ موضوع کاپی پیسٹ کر رہے ہو۔۔۔ ھھھھ

جناب ، آپ بے شک پوری "المواحدین" سائٹ یہاں پیش کر دیں مگر اس کاپی پیسٹ پر بات کرنے کی جرات بھی پیدا فرما لیں!!!

صرف کاپی پیسٹنگ مشین چلانا کوئی فن نہیں ، اور وہ بھی بے ہنگم قسم کا۔ :)
مجھے ایک مثال یاد آگئی ، ہے تو کڑوی مگر ہے سچی آپ کے رویے پر:

آپ سے جب کوئی جواب نہیں بن پاتا تو بندر کی طرح ایک ڈالی سے دوسری پر ، پھر تیسری پر اور پھر ایک درخت سے دوسرے پر پھدکنا کوئی مستحسن فعل نہیں اور نہ ہی ایک ذی شعور انسان سے متوقع ہے!
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
Top