محمدسمیرخان
مبتدی
- شمولیت
- فروری 07، 2013
- پیغامات
- 453
- ری ایکشن اسکور
- 924
- پوائنٹ
- 26
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خارجیوں سے مباحثے کی اصل حقیقت اور اس مباحثے کے متعلق خیانتیں
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خارجیوں سے مباحثے کی اصل حقیقت اور اس مباحثے کے متعلق خیانتیں
قرآن میں لفظ ’’الکافرون‘‘:ضروری ہے کہ قرآن فہمی کے قواعد میں سے ایک اہم قاعدہ بیان کردیں امام شاطبی الموافقات میں فرماتے ہیں :’’احوال اور اوقات کے تقاضوں کے مطابق قرآن غایات بطور نص لاتا ہے اور ان کے دونوں پہلوؤں کے دائرے کو بیان کرتاہے حتی کہ عقل اس دائرے کو شریعت کے مطابق دیکھنے لگتی ہے ‘‘۔شاطبی نے یہ مفہوم ابوبکررضی اللہ عنہ کی اپنی موت کے وقت عمر رضی اللہ عنہ کو کی گئی نصیحت سے اخذ کیا ہے جس میں انہوں نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے اہل نار کا ان کے برے اعمال کے ساتھ تذکرہ کیا ہے کیونکہ اس نے ان کی نیکیوں کو ان پر رد ّکردیا ‘‘
اس سے یہ معلوم ہوا کہ قرآنی قاعدہ غایت کے اطراف کو ذکر کرتا ہے اور ان اطراف کے مابین کی وضاحت سنت پر چھوڑ دیتا ہے جو ان کی تشریح وتوضیح کرتی ہے اسی بناءپر یہ ممکن نہیں کہ لفظ ’’الکافرون‘‘یہاں کفر اصغر کے معنی میں ہوکیونکہ یہ چیز قرآن میں نہیں بلکہ سنت میں واقع ہوتی ہے وگرنہ اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکم کی غائی (غایت)صورت کیا ہوگی؟اس کے لئے یہاں عدم ایمان کی شرط لگانا درست نہیں کیونکہ یہ آیت ایمان یا جحود کے متعلق نہیں بلکہ حکم کو مطلق قانون سازی کے معنی میں داخل کردینے کی بات کررہی ہے ۔
سلفیت کے دعویداروں وغیرہ جن کی عقل وقلب میں ارجائیت گھر کرچکی ہے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ان عطاء ودیگر تلامذہ سے مروی اس قول ’’کفر دون کفر‘‘کو شریعت الٰہی کو حاکم بنانے کے مرتبے کو گھٹانے اور طاغوت کے وضعی حکم کی طرف رجوع کے معدوم ہونے کا ذریعہ بنالیا ہے اور یہ دعوی کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے عام قانون سازی اور اللہ کی شریعت کے غیر کو قانون مان کر اس کا پابند ہوجانے کو کفر اصغر قراردیا جیساکہ بیوی اپنے خاوند کی ناشکری کا کفر کرتی ہے عنقریب ہم اس بے کار دعوی کو باطل ثابت کردیں گے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول کے متعلق نو(9)نکات بیان کریں گے۔جن کا اعتبار کرنا ناظر کے لئے ضروری ہے۔
ابومجلز اور عطاءسے مروی ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہمارے غور وفکر کے مطابق خوارج کے ردّمیں تھا جنہوں نے بنوامیہ کے خلاف خروج کرناچاہا۔اور یہ لوگ ابن عباس رضی اللہ عنہ ،ابومجلز،عطاء تابعی کے اس قول کی آڑ میں اس خروج کو جواز کا رنگ دینا چاہتے ہیں جبکہ ہماری رائے کے مطابق بنی امیہ کے حالات میں اس خروج کو جائز قرار دینے کی کوئی بنیاد نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اللہ کے نازل کردہ کے علاوہ کو شریعت یا قانون نہیں قرا ردیا جس کولوگ حاکم مانتے یہی وہ فرق ہے جسے پوری طرح سمجھنے سے مرجئہ کے شبہات میں گرفتار یہ لوگ عاجز ہیں خواہ ان کے علماءہوں جیسے علم حدیث میں مہارت کے باجود علامہ البانی یا ان کے وہ عام علماء ہوں جنہیں وہ بڑا بزرگ سمجھتے ہیں اور ہر خطاء سے بری قرار دے کر بناسوچے سمجھے ان کی تقلید میں لگ جاتے ہیں یا وہ لوگ جو اخوان المسلمین کی قیادت کے تابعدار ہیں۔
علامہ محدث شیخ البانی کا معاملہ ہم شیخ احمد شاکر اور ان کے بھائی شیخ محمود شاکر پر چھوڑتے ہیں شیخ احمد شاکر فرماتے ہیں :
1۔(ابن عباس رضی اللہ عنہ )سے مروی آثارجن کے ذریعے ہمارے دور کے کچھ علم سے منسوب گمراہ لوگ کھیلتے ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے دین پر اس قدر جراء ت کی کہ انہوں نے ان آثار کو بہانہ بنالیا وہ ان کے ذریعے اسلامی ممالک پر مسلط کردہ طاغوتی وضعی قوانین کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ابومجلز سے ایک اثر مروی ہے جو اباضیہ خوارج کے اسی اختلاف کے متعلق ہے کہ بعض امراء نے ظلم کرتے ہوئے بعض معاملات میں نفس پرستی اور حکم سے جہالت کی بناء پر خلاف شریعت فیصلے دے دیئے اور خوارج کا مذہب یہ ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب بھی کافر ہے تو وہ ابومجلز کے پاس آکر جھگڑا کرنے لگے اور یہ مطالبہ کرنے لگے کہ وہ ان امراء کو کافر قرار دینے میں ان کے موافق ہوجائیں تاکہ ا ن کے خلاف مسلح خروج کے لئے ان کے ہاتھ بہانہ آجائے یہ دونوں آثار امام طبری نے روایت کئے ہیں اور ان پر میرے بھائی سید محمود شاکر نے بڑی ہی نفیس تعلیق لکھی ہے میراخیال ہے کہ میں طبری کی پہلی روایت اور اس پر اپنے بھائی کی تعلیق نقل کردوں ۔
طبری نے عمران بن حیدر سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا کہ :ابومجلز کے پاس بنو عمرو بن سدوسی کے کچھ لوگ آکر کہنے لگے سے ابومجلز آپ اللہ کے اس فرمان کے متعلق کیا کہتے ہیں :
﴿وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْن﴾(المائدہ:۴۴)
جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کرے نہ کریں تویہی لوگ کافر ہیں ۔
کیا یہ حق ہے ؟فرمانے لگے :ہاں ۔وہ کہنے لگے :
﴿ وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾(المائدہ:۵۴)
جواللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ کریں تویہی لوگ ظالم ہیں ۔
کیا یہ حق ہے ؟فرمانے لگے :ہاں ۔وہ کہنے لگے :
﴿وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾(المائدہ:۷۴)
جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم نہ دیں تو یہی لوگ فاسق ہیں ۔
کیا یہ حق ہے ؟پھر وہ کہنے لگے ابومجلز کیا یہ لوگ (یعنی بنوامیہ کے ظالم امراء)اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم کرتے ہیں فرمانے لگے :یہ ان کادین ہے وہ اسے دین مانتے ہیں اور اسی کے مطابق کہتے ہیں اور اسی کی طرف بلاتے ہیں پھر اگر اس میں سے کچھ چھوڑ دیں تو اسے گناہ سمجھتے ہیں ۔وہ کہنے لگے ایسا نہیں ہے اللہ کی قسم تم فرق کررہے ہو۔فرمانے لگے :تم مجھ سے زیادہ اس کے حق دار ہو(یعنی میں خارجی نہیں بلکہ تم خارجی ہو)میرایہ خیال نہیں تمہارا یہ خیال ہے اور تم کوئی حرج بھی محسوس نہیں کرتے ۔
میرے بھائی سید محمود ان دونوں نصوص کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’یا اللہ میں اس گمراہی سے تیری طرف اظہاربراء ت کرتا ہوں وبعد،ہمارے اس دور کے شک گزیدہ اور فتنہ پرور لوگ جو بڑی باتیں بناتے ہیں اور حاکموں کے لئے اللہ کے نازل کردہ کے مطابق حکم کو چھوڑ دینے ،اموال،دماء،اعراض میں اللہ کی اپنی کتاب میں نازل کردہ شریعت کے بغیر فیصلے کرنے ،کافر کے قانون کو اسلامی ممالک میں نافذ کرنے ان کو جوازکا رنگ دینے کے لئے عذر تراشتے ہیں پھر جب انہیں ان دواحادیث کا پتہ چلتاہے تو اسے ابومجلز کی رائے قرار دیتے ہیں کہ ان کے نزدیک اللہ کے نازل کردہ کے بغیر دماء اوراموال اور اعراض میں فیصلے کرنا درست ہے اور عام فیصلے میں شریعت کی مخالفت اسے کافر قرارنہیں دیتی جو اس پر راضی یا عامل ہو۔حالانکہ غور وفکر کرنے والے کے نزدیک ان دونوں حدیثوں میں سائل اورمسئول کی اس معرفت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔(ابومجلز لاحق بن حمید الشیبانی السدوسی)ثقہ تابعی ہیں علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے تھے اور ان کی قوم بنو شیبان جنگ جمل اور صفین کے دن شیعان علی میں شامل تھی پھر جب صفین کے دن حَکَموں (یعنی دونوں جانب سے ایک ایک حَکَم فیصلہ کرنے والا)والا معاملہ ہوا اور خوارج الگ ہوگئے تو علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کرنے والوں میں بنوشیبان اور بنوسدوس بن شیبان بن ذھل کے کچھ لوگ شامل ہوگئے ۔وہ لوگ جنہوں نے ابومجلز سے سوالات کئے وہ بنوعمروبن سدوس سے ہیں جو اباضیہ خوارج کا حصہ ہیں اور عبداللہ بن اباض حروری خارجی کے پیروکار ہیں اس کا کہنا تھا کہ جو خوارج کی مخالفت کرے وہ کافر ہے نہ کہ مشرک اس طرح اس نے اپنے اصحاب کی مخالفت کی ۔یہ واضح ہے کہ جن لوگوں نے ابومجلز سے سوالات کئے وہ اباضیہ تھے اور حکام کی تکفیر کے سلسلے میں ان پر حجت قائم کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ (حکام)سلکان کے معسکرمیں تھے اور بسا اوقات اللہ کی نافرمانی کرگزرتے اور جن امور سے اللہ نے منع فرمایاہے ان کا ارتکاب کربیٹھتے ۔اسی لئے ابومجلز نے جواب دیتے وقت کہا کہ :’’اگر وہ اس کاکچھ حصہ چھوڑ دیں تو اسے گناہ سمجھتے ہیں ‘‘(پہلی روایت کے مطابق)اور (دوسر ی روایت کے مطابق )وہ جو بھی عمل کریں انہیں علم ہے کہ وہ گناہ کررہے ہیں تو اس صورت میں ان کاسوال اس کے متعلق نہیں تھاکہ جس سے ہمارے دور کے بدعتی حجت پکڑتے ہیں یعنی دماء،اموال اور اعراض میں شریعت اسلامیہ کے بغیر اس کے مخالف قانون کے ذریعے فیصلہ کرنا اور نہ ہی وہ کسی ایسے قانون کے اجراء کے متعلق تھا جو اہل اسلام کو اللہ کے اپنی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بیان کردہ شریعت کے علاوہ حکم کا پابند کرتا ہو یہ فعل اللہ کے حکم اور دین سے اعراض ہے اور احکام کفر کو اللہ کے حکم پر ترجیح دینا ہے اور یہ کفر ہے اہل قبلہ اس کے قائل اور داعی کی تکفیر میں اختلاف کے باوجود اس میں شک نہیں کرسکتے ۔اور ہم جن حالات میں ہیں ان میں اللہ کے احکام کو کسی استثناء یا احکام پراس کے غیر کے احکام کو ترجیح دیئے بنا ہی عموماً چھوڑ دیا جاتا ہے اور اللہ کی شریعت کو ناکارہ کردیا جاتا ہے پوری تاریخ اسلام میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی حاکم نے ایسا حکم جاری کیا ہو جو پابند کرتا ہو کہ اسی کے مطابق فیصلے کئے جائیں ۔ابومجلز کا زمانہ ہو یا اس سے پہلے یا بعد کا کبھی کوئی ایسا حاکم نہیں آیا جس نے اللہ کے حکم کاانکار کرکے یا اہل کفر کے احکام کو اہل اسلام کے احکام پر ترجیح دے کر (جیسا کہ موجودہ حالات میں احکام کفر کو احکام اسلام پر ترجیح دی جاتی ہے )کوئی فیصلہ کیاہوایسا کبھی نہیں ہوا لہٰذا ابومجلز اور اباضیوں کے مابین گفتگو سے یہ سمجھنا کسی طرح درست نہیں توجوان آثار یا اان جیسے دیگر آثار سے حجت پکڑے اور ان کے غلط معانی لے تاکہ ان کے ذریعے حاکم کی مدد کرے اور اللہ کے نازل کردہ اور اپنے بندوں پر فرض کردہ شریعت کے ذریعے حکم کے جواز کو محال بناسکے تو شریعت میں یہ منکر کے حکم میں ہوا جو اللہ کے احکام کا انکار کرتا ہے اس سے توبہ کرائی جائے پھر بھی اگر مصر رہا اور خود کودرست سمجھتا رہا اور اللہ کے حکم کو ٹھکرا کر اس کے متبادل احکام پر راضی رہا توایسے ڈھیٹ کافر کا حکم اہل اسلام جانتے ہی ہیں ”یعنی اس پر حد ارتداد قائم کی جائے گی‘‘۔
احمد اور محمود شاکررحمہما اللہ کاکلام ختم ہوااللہ ان دونوں کو جزائے خیر دے ۔جاہل پر لازم ہے کہ وہ ان کے متعلق معلومات کرے یہ علم حدیث ،لغت وتفسیر کے درخشندہ ستارے ہیں دورحاضر میں کوئی ان کا ہم پلہ نہیں۔
غور کریں یہ ان اہل علم سے توبہ کروانے کی بات کررہے ہیں جو ان آثار کو حاکم کی حمایت میں لے (جیسے بعض اسلامی جماعتیں دیکھئے کتاب’’دعاۃ لاقضاۃ‘‘اور سلفیت کے وہ دعویدار جو سید قطب رحمہ اللہ وغیرہ کی تکفیر کو ان کی ذاتی رائے قرار دیتے ہیں اور ان آثار سے اسی طرح حجت پکڑتے ہیں جس کی شیخ محمود شاکر رحمہ اللہ نے تردید کی ہے)حاکم سے توبہ کروانے کی بات نہیں کررہے کیونکہ اس سے توبہ کروانے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ ہر عقلمند اس کا حکم جانتا ہے ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ تفسیر اجتہاد ہے حکماً مرفوع کے قبیل سے نہیں
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر نہیں کہ اسے مرفوع مانا جائے بلکہ محض اجتہاد ہے جس سے دیگر مختلف قرائن کی بناء پر اختلاف کیا جاسکتا ہے جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نکاح متعہ کی حلت سے رجوع کرلیا تھا۔
صحابی کا قول اور ادلہ شرعیہ میں اس کا مقام
جب ہم نے یہ مان لیا کہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے ہے تو علم الاصول کی روشنی میں یہ بات معلوم ہے کہ صحابی کا قول قرآن کے عمومات کی تخصیص نہیں کرتا حنفیہ کے نزدیک مخصصات متصل ہوتے ہیں اس کا ہمارے زیر بحث عنوان سے تعلق نہیں جمہور کے نزدیک تخصیص متصل اور منفصل دونوں طرح کا قول نہیں ہے ۔(الفروق للقرافی واصول الفقہ ابوزھرۃ)
اس قول کے متعلق اہل علم کے غلط اقوال
یہ بات معرودف ہے کہ البانی ان لوگوں میں بڑے ممتاز ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرنے والا کافر نہیں اس کی وجہ ان کا یہ نظریہ ہے ایمان قول اور اعتقاد کا نام ہے اور اعمال کمال ایمان سے ہیں جیسا کہ اشاعرہ اور ماتریدیہ کا مشہور مذہب بھی یہی ہے ۔البانی اس بارے میں ابن حجر سے متاثر ہیں اور ابن حجر رحمہ اللہ عقیدے میں اشعری تھے اور اس مسئلے میں بہت سے علماء اہل السنہ کے خلاف تھے ایسے ہی ان کایہ نظریہ بھی بنیاد بنا کہ کفر صرف جحود سے ہوتا ہے نہ کہ جوارح سے یہ محض عقیدے کی خرابی ہے ۔پاک ہے وہ ذات جو غلطی نہیں کرتی اور عیب تو ان لوگوں پر ہے جو البانی کی اس طرح پیروی کرتے ہیں جیسے معبود کی کی جاتی ہے اس کے باوجود بھی تقلید کا انکار کرتے ہیں اور سلفیت کا دعوی درحقیقت یہ سلفیت اور حدیث سے کوسوں دور ہیں اگرچہ سند کے علواور نزول کے متعلق کھل کر بات کرسکتے ہیں (البانی کے عقیدے کے متعلق ملاحظہ ہو ’’حقیقۃ الایمان عندالشیخ الالبانی ‘‘از محمد ابورحیم)اور ان کے علاوہ دیگر اسلامی جماعتوں کے سرکردہ لوگ جیسے اخوانی یہ اس لائق نہیں کہ ان کے ردّ میں معروف ہوا جائے ان کی علمی کم مائیگی اور علم شرعی کے میدان میں ان کی حقیقت نہ ہونے کی بناء پر۔
ان علماء اور محدثین کے اقوال جو مذہب اہل السنۃ کے حامی ہیں
یہ بے شمار ہیں جیسے دورحاضر میں :شیخ محمد ابراہیم ،فاضل محدث احمد شاکر اور ان کے بھائی محمود شاکر ،شیخ عبدالرحمن بن عبدالخالق ،امام دوسری،امام مودودی ،امام عبدالعزیز بن باز،علاوہ ازیں علماء متقدمین جیسے ابن تیمیہ ،ابن کثیروغیرہ ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :حاکم اگر دیندار ہولیکن علم کے بغیر حکم کرے توجہنمی ہے اور اگر عالم ہو لیکن اس کے خلاف فیصلہ دے جسے وہ اپنے علم کے مطابق حق جانتا ہے یہ بھی جہنمی ہے اور اگر انصاف اور علم دونوں کے بغیر ہی فیصلہ کردے تو یہ بالاولیٰ جہنمی ہے یہ اس وقت ہے جب کسی شخص کے مقدمے کا فیصلہ کرے اور جب مسلمانوں کے دین میں عام حکم کرے اور حق کو باطل ،باطل کو حق ،سنت کو بدعت ،بدعت کو سنت ،معروف کو منکر ،منکر کو معروف بنادے اور جن سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ان کا حکم دے اور جن کا حکم الٰہ المرسلین ،مالک یوم الدین اور دنیا وآخرت میں حمد کے سزاوار ہی کرے گا :
’’وَلَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ.
یعنی حکم اسی کا ہے اور اسی ک طرف تم لوٹائے جاؤگے ۔
نیز۔
﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ، بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ﴾(توبۃ:۳۳)
وہ ذات ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے سارے دین پر غالب کردے اور اللہ کافی گواہ ہے۔
حافظ ابن کثیررحمہ اللہ
ابن کثیر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:
﴿اَفَحُکْمُ الْجَاھِلِیَةِ یَبْغُوْنَ﴾
یعنی :کیا وہ جاہلیت کا حکم ڈھونڈتے ہیں ۔
کی تفسیر میں فرماتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر ردّ کرتے ہوئے کہ جو اس کے محکم اورہر خیر پر مشتمل اور ہر شر سے روکنے والے حکم سے نکل کر ان آراء اور خواہشات اورا صطلاحات کے پیچھے پڑجائے جنہیں لوگوں نے اللہ کی شریعت کی دلیل کے بغیر بنایا ہویا جیسے تاتار اپنے بادشاہ چنگیز خان کے وضع کردہ قانون یاسق کے مطابق اپنی ملکی سیاسیات کا فیصلہ کرتے تھے یہ کتاب احکام کا مجموعہ ہے جنہیں اس نے مختلف ادیان سے اخذ کیا جیسے یہودیت،نصرانیت ،دین اسلام وغیرہ اس کے اکثر احکام اس کی اپنی رائے اور خواہش کے مطابق ہیں تو اس کی قوم کے لئے یہ ایک قابل اتباع شریعت قرار پائی جسے وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مقدم کرتے ہیں توجو بھی ایسا کرے وہ کافر ہے اس کے خلاف قتال فرض ہے حتی کہ ہر چھوٹی بات میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی طرف پلٹ آئے اور اس کے سوا کسی کا حکم نہ مانے ‘‘ایسے ہی ابن کثیر نے اپنی تاریخ کی کتاب میں یاسق اور اس جیسے دیگر قوانین کو حاکم بنانے کے متعلق اسی طرح کی گفتگو کی ہے فرماتے ہیں :جو اللہ کی اپنے نبی محمد بن عبداللہ خاتم الانبیاء پر نازل کردہ محکم شریعت کو چھوڑ کر دیگر منسوخ شرائع کو حاکم بنالے وہ کافر ہے تو جو یاسق کو حاکم بناکر اسے اس پر مقدم کردے وہ کیا ہوا؟جو ایسا کرے گا مسلمان اس کے کفر پر متفق ہیں۔
علامہ امام محدث احمد شاکررحمہ اللہ
شیخ احمد شاکر ’’عمدۃ التفسیر‘‘کی تعلیق میں فرماتے ہیں میں کہتا ہوں :اس کے باوجود بھی کیااللہ کی شریعت میں یہ جائز ہے کہ مسلمان اپنے شہروں میں بت پرست ملحد یورپ کے قوانین کے مطابق فیصلے کریں ؟بلکہ ایسے قانون کے مطابق جو باطل خواہشات اور آراء پر مبنی ہووہ جس طرح چاہیں تغیر وتبدل کردیں جس کا بانی یہ نہیں سوچتاکہ یہ دین اسلام کے مطابق ہیں یامخالف ؟مسلمانوں کے ساتھ یہ صورت پوری تاریخ اسلامی می صرف عہد تاتار میں پیش آئی یہ ظلم اور اندھیرے کے ادوار میں سب سے برا دور تھا اس کے باوجود بھی وہ اس کے آگے نہیں جھکے اور اسلام تاتار پر غالب رہا پھرانہیں اللہ کے دین میں داخل کردیا اور مسلمان کے دین وشریعت پر استقامت کے ساتھ انہوں نے جو کچھ کیا اس کا اثر زائل ہوگیا اس وقت اس برے اور ظالم حکم کا مصدر حکام کا ایک مخصوص گروہ تھا محکوم امت اسلامیہ کے افراد میں سے کوئی بھی شامل نہ تھا اور نہ ہی انہوں نے سیکھا نہ اپنی اولاد کو سکھایا لہٰذا بہت جلد اس کااثر زائل ہوگیا۔
کیا تم دیکھتے نہیں کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے آٹھویں صدی ہجری کے اس قانون جسے دشمن اسلام چنگیز خان نے وضع کیا اس کی جو صور ت انہوں نے بیان کی ہے وہی صورت آج کے دور چودہویں صدی ہجری کے مسلمانوں کی ہے صرف ایک فرق ہے جس کی طرف ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ یہ صورت اس وقت حکام کے ایک خاص طبقے میں تھی جو وقتاً فوقتاً امت اسلامیہ میں شامل ہوگیا اور ان آثار بھی زائل ہوگئے۔ان کی بنسبت آج کے مسلمان انتہائی برے حال اور ظلم اور اندھیرے میں ہیں کیونکہ آج اکثر اسلامی امتیں شریعت مخالف اور یاسق سے ملتے جلتے قوانین میں شامل ہوچکی ہیں جس کا بنانے والا پکا کافر تھا۔یہ قوانین جنہیں کچھ نام نہاد مسلمان بناکر اسلام کے بیٹوں کو سکھاکر اس پر باپ اوربیٹے دونوں فخر کرتے ہیں پھر اس کی بنیاد ان لوگوں کو قرار دیتے ہیں جو آج کے یاسق کو تھامے ہوئے ہیں او رجو ان کی مخالفت کرے اس کو حقیر سمجھتے ہیں او رجو انہیں دین وشریعت کی پابندی کی دعوت دے انہیں ’’رجعت پسند‘‘اور ’’تنگ نظر‘‘وغیرہ برے القابا ت سے پکارتے ہیں (بلکہ یہود ونصاری کی اہل السنہ مسلمانوں کے لئے بنائی گئی اصطلاحات کو رواج دیتے ہیں جیسے دہشت گرد انتہاء پسند)بلکہ جو دوچار اسلامی قوانین باقی بچے ہیں انہیں بھی آج کے یاسق کے مطابق بنانے کے لئے پوری طرح سرگرم ہیں کبھی سہولت اورنرمی کانام لے کر اورکبھی مکروفریب اختیار کرکے اور یہ صراحت کرچکے ہیں کہ وہ اپنے مختلف اختیارات استعمال کرکے دین کو ریاست سے الگ کردیں گے اور اس کے لئے مناسب وقت کے منتظر ہیں ۔توکیا اس صورت میں کسی مسلمان کے لئے جائز ہے کہ اس نئے دین یعنی نئے قانون کو لازم پکڑے یا کوئی باپ خواہ عالم ہو یا جاہل اپنی اولاد کو اس کی تعلیم اور اسے لازم پکڑنے اور اس کے مطابق عقیدہ وعمل بنانے کی طرف راغب کرے؟یاکسی مسلمان کے لئے جائز ہے کہ اس آج کے یاسق کے ماتحت فیصلہ کروائے اس پر عمل کرے اور واضح شریعت سے اعراض کرے میں نہیں سمجھتا کہ مسلمان جو دین کو جانتا ہو اس پر اجمالاً وتفصیلاًایمان رکھتا ہو اور یہ ایمان رکھتا ہو کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے جسے اس نے اپنے رسول پر نازل کیا محکم ہے اس میں باطل نہ آگے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے اور اطاعت اور اس رسول کی اطاعت جو اسے لے کر آئے وہ واجب ہے قطعی واجب ہرحال میں (بلکہ یہ توتوحید وکفر کامسئلہ ہے اس کا واجب ہونا ایسا ہے جیسے ایمان وتوحید کا واجب ہونا نہ کہ فروعات کا وجوب )میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کوئی صاحب استطاعت مسلمان کسی تردد وتاویل کے بغیر پوری تاکید سے یہ صراحت نہ کرتا ہو کہ اس صور ت حال میں فیصلہ کروانا (مقدمہ پیش کرنا )باطل ہے اصل باطل جس کے صحیح یا جائز ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ان وضعی قوانین کا کفر بواح ہونا سورج کی طرح روشن ہے جس پر کوئی غبار یا دائرہ نہ ہو کسی مسلمان کے لئے خواہ کوئی بھی ہو اس پرعمل کرنے اسے قبول کرنے اس کے مطابق فیصلہ کرنے میں کوئی عذر قابل قبول نہیں ہر ایک اپنے آپ کو اس سے بچائے اور ہر شخص اپنے نفس کا محاسبہ کرے ۔
علماء کسی سے مرعوب ہوئے بغیر حق کا پرچارکریں اور کمی کوتاہی کئے بغیر حق کی تبلیغ کریں عنقریب مجھ سے اس آج کے یاسق کے غلام اور حامی یہ کہیں گے کہ میں تنگ نظر اور قدامت پسند وغیرہ ہوں وہ جو چاہیں کہتے رہیں میں نے کبھی اس کی پرواہ نہیں کی لیکن میں وہی کہوں گا جس کا کہنا مجھ پر واجب ہے۔(عمدۃ التفاسیر لاحمد شاکر)
امام علامہ مفتی دیار سعودیہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ
شیخ محمد ابراہیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :جسے کفر دون کفر کہا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ جب وہ اس اعتقاد کی نافرمانی کررہا ہے اور اللہ کا قانون ہی حق ہے کے باوجود ایک غیر اللہ کو حاکم بنائے یا اسی طرح کچھ کرے لیکن ان قوانین کو مرتب کرنا اور ان کے آگے جھکنا کفر ہے اگرچہ وہ یہ کہیں کہ ہم نے غلطی کی اور شریعت کا حکم ہی مبنی برانصاف ہے تو یہ کفر ہے ملت سے خارج کردیتا ہے ۔(مجموع الفتاوی الشیخ محمد بن ابراہیم ، از محمد بن عبدالرحمن القاسم)
شیخ علامہ صالح الفوزان
یہ جزئی غیر متکرر حکم اور اس عام حکم کے مابین فرق کرتے ہیں جو تمام یا اکثر احکام کا مرجع ہو اور یہ فیصلہ دیتے ہیں کہ یہ مطلقاً کفر ہے ملت سے خارج کردیتا ہے یہ اس لئے کہ جو شریعت اسلامیہ سے کنارہ کش ہو کر وضعی قوانین کو اس کا متبادل بنائے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قانون کو شریعت سے بڑھ کر اچھا اور خیر خواہ سمجھتا ہے تو اس کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ اس نے کفر اکبر کارتکاب کیا جو ملت سے نکال دے اور توحید کو ڈھادے ۔(کتاب التوحید صالح الفوزان)
علامہ شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ
ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :جو اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرتے ہیں ان حکام کی چند اقسام ہیں جن کے احکام ان کے اعتقادات اور اعمال کے حساب سے مختلف ہیں توجو اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکم کرے اسے اللہ کے قانون سے بہتر سمجھ کر تویہ تمام مسلمانوں کے نزدیک کافر ہے اور ایسے ہی وہ شخص ہے جو وضعی قوانین کو اللہ کے قانون کا متبادل قرار دے اور اسے جائز سمجھے خواہ اس طرح کہے کہ شریعت کو حاکم بنانا ہی افضل ہے یہ بھی کافر ہے کیونکہ جسے اللہ نے حرام کیا اسے حلال سمجھ رہا ہے یعنی جو اللہ کے نازل کردہ کے علاوہ وضعی قوانین سے حکومت کرنے کو جائز قرار دے اگرچہ یوں کہے کہ شریعت کو حاکم بنانا ہی افضل ہے(یہ اس کی ہی طرح ہے جس کاہم نے ابھی تذکرہ کیا)جیسے کوئی کہے کہ ’’میں جانتا ہوں کہ دین محمد مخلوق کے تمام ادیان سے بہتر دین ہے‘‘۔نیز فرماتے ہیں:اگرچہ کوئی کہے کہ شریعت کو حاکم بنانا ہی افضل ہے یہ کافر ہے کیونکہ جسے اللہ نے حرام کیا اسے حلال سمجھ رہا ہے البتہ جو نفس پرستی یا رشوت یا اپنی رعایا سے بغض کی بناء پر اللہ کے نازل کردہ کے بغیر فیصلہ دے یا دیگر اسباب کی بناء پر اور وہ یہ جانتا ہوکہ وہ اس طرح نافرمانی کررہا ہے اور اس پر واجب یہی ہے کہ اللہ کے قانون کو حاکم بنائے تویہ معصیت اور کبیرہ کا مرتکب ہوگا۔(مجلۃ الدعوۃ شمارہ نمبر 963مورخہ 1405/2/5ہجری)
علامہ شیخ عبدالقادر عودۃرحمہ اللہ
یہ اخوانی تحریک کے امام اور اس کی نظریاتی کونسل کے بڑے اورمصر اور عالم اسلام کے بڑے قانون دانوں میں سے ہیں یہ توحید اور اس کے معانی کو صحیح معنوں میں جان سکے اسی لئے مصر میں قاضی اور قانونی مشیر رہے ہیں یہ وضعی قوانین سے اچھی طرح واقف ہیں اپنی عظیم کتاب ’’الاسلام واوضاعنا القانونیہ‘‘میں فرماتے ہیں:جب قرآن وسنت کے مخالف یا شریعت کی عام بنیادوں اور شریعت کی قانونی اساس سے خارج قوانین آئیں تو یہ مطلقاً باطل ہیں کسی کے لئے ان کی اطاعت جائز نہیں بلکہ اس کے برعکس ان کے خلاف جنگ کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے (ص:6طباعت المختار الاسلامی)۔نیز فرماتے ہیں:اسلام کا یہی حکم ہے یہی مومنوں کی راہ ہے ہم پر آج ایسا دور سایہ فگن ہے جس میں برائی پھیل چکی ہے اور اکثر لوگ فساد کا شکار ہیں لوگ برائی سے روکتے نہیں اورنیکی کا حکم نہیں دیتے خود بھی نہیں کرتے اور حکام اور عوام اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں اللہ کے حرام کردہ کو حلال کرتے ہیں اور حکومتیں مسلمانوں کے لئے ایسے قوانین بناتی ہیں جو انہیں اسلام سے ہٹاکر کفر پر گامزن کردیں چنانچہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اس مشکل گھڑی میں اپنا حق اداکرے کہ خلاف اسلام وضعی قوانین اور انہیں وضع کرکے او ران کی حمایت کرنے والی اور اسلام مخالف نظریات کی حامی حکومتوں کے خلاف جنگ کرے (ص:18)۔اپنے اسی موقف اورملحد شخص عبدالناصر اور اخوانیوں کے مابین ذاتی تنازعات کے تصفیے کی بناء پر 1954ء میں انہیں سزائے موت کا سامنا کرنا پڑا اخوانیوں کی طرف منسوب آج کے مقلد اور جاہل لوگ اس سے عبرت حاصل کریں اور ان جیسی عالم اور شہید شخصیت سے نسبت کریں۔