"ہم خوارج نہیں"
(عصر حاضر کے خوارج کی ایک خطرناک تلبیس کا جائزہ و رد)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ إمام الأنبیاء والمرسلین وعلیٰ آلہ وأصحابہ أجمعین ومن تبعھم إلی یوم الدین امابعد!
خوارج کا یہ پرانا وطیرہ رہا ہے کہ وہ عوام میں، مسلمانوں میں اپنا گھناونا چہرہ چھپانے کی خاطر اپنے لئے طرح طرح کے خوشنما نام رکھتے ہیں ، اپنی مظلومیت کا پرچار کرتے ہیں اور نئی نئی خلاف قرآن و سنت دلیلیں گھڑ کر خود کو خوارج کی چھاپ سے بچانے اور خارجیت کی مہر مٹانے کے لئے سعی لاحاصل کرتے ہیں۔ کبھی خود کو "مجاہدین اسلام "، کبھی "غربا"، کبھی "مظلومیت کی داستانیں" وغیرہ وغیرہ۔یہ لوگ خود کو جہاد و مجاہدین کے ساتھ ایساخلط ملط کرتے ہیں کہ عام مخلص مسلمان ان میں اور صحیح مجاہدین و جہاد میں تمیز کرنے ناکام ہو جاتا ہے اور اس عظیم فتنہ خوارج کا شکار ہو کر انجام بد سے دوچار ہوجاتا ہے۔
آج کے دور میں جب بھی کوئی اہل علم چاہے وہ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ ہوں ، البانی رحمہ اللہ، الشیخ العثیمین رحمہ اللہ، الشیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ، الشیخ عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اللہ یا پھر عبد السلام بن محمد و الشیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ اور دوسرے علماء، خوارج پر محکم رد و خبرار کرتا ہیں تو خارجی سوچ و فکر کے حاملیں نہایت ہی چلاکی اور ہوشیاری سے طرح طرح کہ شبہات و اشکالات گھڑنے میں مصروف ہو جاتے ہیں تاکہ وہ لوگوں میں اپنے کالے چہروں اور گندے دماغوں کے باوجود، صحیح طرح پہچانے نہ جا سکیں بلکہ انکی تصویر مبہم ہی رہے اور وہ دین اور دین داروں کو مسلسل آلائم و مصیتبوں سے دوچار کرتے رہیں۔
ان شبہات میں سے ایک شبہ جو عموما پیدا کیا جاتا ہے وہ یہ کہ
تلبیس خوارج:
خوارج تو وہ ہوتے ہیں جو صرف اسلامی خلیفہ یا اسلامی ریاست کہ جس نے اسلامی قوانین مکمل نافذ کیئے ہوں، انکے خلاف خروج کرتے ہیں، نہ ظالم و غیر اسلامی قوانین کے مطابق فیصلے کرنے والے نام نہاد مسلم حکمران کے خلاف۔ ہم تو "مجاہدین" ہیں، "غرباء" ہیں وغیرہ وغیرہ
آج کل کے حکمران نہ تو اسلامی خلیفہ ہے ، نہ اسلامی ریاست اور نہ ہی حکمران شریعت کو مکمل نافذ کرتے ہیں۔ لہذا ہم خوارج نہیں ، کیوں کہ خروج تو اسلامی خلیفہ کے خلاف ہوتا ہے اور کیوں کہ عصر حاضر میں اسلامی خلیفہ نہیں تو خوارج کیسے ہوں گے؟؟؟
تلبیس خوارج کی حقیقت:
ان ظالموں کی کم علمی و کج فہمی پر مبنی اعتراض کی تاریخ بھی انہیں کی طرح کافی پرانی ہے اور یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ مسلمانوں کو انکی خوشنما تلبیسات کا سامنا ہے۔ اس پہلے یہ سلسلہ دور صحابہ سے شروع ہوکر سلف صالحین کے دور سے ہوتا ہوا ہی ہم تک پہنچا ہے۔
مگر بحمد اللہ ہر دور میں اہل حق نے ان گمراہ لوگوں کی تلبیسات و شبہات کا بھر پور رد پیش کیا ہے۔
جو تلبیس اوپر مذکور ہے ،اس بارے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام انتہائی اہم ہے۔
آئیے ، اب ہم ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی زبانی خوارج کے اس شبہ اور تلبیس کی حقیقت جانتے ہیں
رد تلبیس خوارج از امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
کانوا أهل سيف وقتال، ظهرت مخالفتهم للجماعة؛ حين کانوا يقاتلون الناس. وأما اليوم فلا يعرفهم أکثر الناس.. . . ومروقهم من الدين خروجهم باستحلالهم دماء المسلمين وأموالهم. (1(
’’وہ اسلحہ سے لیس اور بغاوت پر آمادہ تھے، جب وہ لوگوں سے قتال کرنے لگے تو اُن کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت سے مخالفت و عداوت ظاہر ہوگئی۔ تاہم عصرِ حاضر میں (بظاہر دین کا لبادہ اوڑھنے کی وجہ سے) لوگوں کی اکثریت انہیں پہچان نہیں پاتی۔ ۔ ۔ ۔ وہ دین سے نکل گئے کیوں کہ وہ مسلمانوں کے خون اور اَموال (جان و مال) کو حلال و مباح قرار دیتے تھے۔
امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں
وهؤلاء الخوارج ليسوا ذلک المعسکر المخصوص المعروف فی التاريخ، بل يخرجون إلی زمن الدجّال.(2) وتخصيصه صلی الله عليه وآله وسلم للفئة التی خرجت فی زمن علی بن أبی طالب، إنما هو لمعان قامت بهم، وکل من وجدت فيه تلک المعانی ألحق بهم، لأن التخصيص بالذکر لم يکن لاختصاصهم بالحکم، بل لحاجة المخاطبين فی زمنه عليه الصلاة والسلام إلی تعيينهم.(3)
اور یہ خوارج (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عہد کا) وہ مخصوص لشکر نہیں ہے جو تاریخ میں معروف ہے بلکہ یہ دجال کے زمانے تک پیدا ہوتے اور نکلتے رہیں گے۔
اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُس ایک گروہ کو خاص فرمانا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نکلا تھا، اس کے کئی معانی ہیں جو ان پر صادق آتے ہیں۔ ہر وہ شخص یا گروہ جس میں وہ صفات پائی جائیں اسے بھی ان کے ساتھ ملایا جائے گا۔ کیونکہ ان کا خاص طور پر ذکر کرنا ان کے ساتھ حکم کو خاص کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے ان مخاطبین کو (مستقبل میں) ان خوارج کے تعین کی حاجت تھی"۔
اور یہ بات صحیح احادیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اسلامی خلافت وخلیفہ آپ صلی اللہ کے فرامین کے مطابق صرف تیس سال رہے گی اور رہی۔
جیسا کہ ایک روایت میں آیا ہے :
وعن حذیفۃ بن الیمان أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:
"تکون النبوۃ فیکم ماشاء اللہ أن تکون، ثم یرفعھا اللہ إذا شاء أن یرفعھا، ثم تکون خلافۃ علی منھاج النبوۃ، فتکون ما شاء اللہ أن تکون، ثم یرفعھا اللہ إذا شاء أن یرفعھا، ثم تکون ملکا عاضا فیکون ما شاء اللہ أن تکون، ثم یرفعھا اللہ إذا شاء أن یرفعھا، ثم تکون ملکا جبریا فتکون ما شاء اللہ أن تکون، ثم یرفعھا إذا شاء أن یرفعھا، ثم تکون خلافۃ علی منھاج" النبوۃ[ 4]
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کا ارشاد ہے:
نبوت تمہارے اندر باقی رہےگی جب تک اللہ اسے باقی رکھنا چاہےگا۔ پھر جب اللہ اسے اٹھانا چاہےگا تو اٹھا لےگا۔ پھر نبوت کے طرز پر خلافت قائم ہوگی تو اسے بھی جب تک اللہ باقی رکھنا چاہےگا یہ بھی باقی رہےگی۔ پھر وہ اسے بھی اٹھا لےگا جب اسے اٹھانا چاہےگا۔ پھر کاٹ کھانے والی بادشاہت ہوگی تو یہ بھی جب تک اللہ رکھنا چاہے رہےگی پھر اللہ اسے بھی اٹھا لےگا جب وہ اسے اٹھانا چاہےگا۔ پھر جبری بادشاہت ہوگی تو یہ بھی جب تک اللہ اسے رکھنا چاہےگا رہےگی۔ پھر جب اسے اٹھانا چاہےگا اٹھا لےگا۔ پھر نبوت کے طرز پر خلافت ہوگی۔"
(اس روایت کو علامہ عراقی اور البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا:
خلافت تیس سال رہے گی اس کے بعد بادشاہت آجائے گی ۔‘‘([
5])
جب ہم ان احادیث کا مطالعہ کریں تو یہ بات نکھر کے سامنے آجاتی ہے کہ اسلامی خلیفہ و خلافت کا دور تو کب کا ختم ہوچکا، اس بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت بھی اپنی بساط لپیٹتی نظر آرہی ہے اور
عصر حاضر میں ہر جمہوری الیکشنز و انتخابات میں جس کی لاٹھی اسکی بھینس کا مصداق نظام، یعنی جو جتنی رشوت و دھاندلی و دونمبری کا ماہر ہو یا پھر اقتدار پر قبضے کی قوت رکھنے والا ملٹری جرنیل ہو ، وہی حکمران بن جاتا ہے اور جبرا لوگوں پر مسلط ہو جاتا ہے چاہے وہ کوئی آمر ہو یا جمہوری صدر۔۔۔اور پھر یہ اقتدار بادشاہت کے انداز میں اس کے وارثوں میں ہی منتقل ہوتا جاتا ہے۔ اور عصر حاضر میں یہ کسی کی نظروں سے اوجھل نہیں۔۔تو یہ دور جبری بادشاہت کا دور ہے، ظلم و جور کا دور ہے کہ جس کہ بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت علی منہاج النبوی کی خوشگوار پیش گوئی کی ہے واللہ واعلم
اب اگر خوارج کی اس تلبیس پر غور کیا جائے کہ خروج تو تب ہوگا یا ہم خوارج تب ہوں گے جب ہم کسی اسلامی خلیفہ و حکمران کے خلاف خروج یا علم بغاوت و قتال بلند کریں گے ورنہ ہم خوارج نہیں، اور نہ ہی ہم خروج کر رہے ہیں۔
جب اس تلبیس پر دلیل و برھان کی تیز روشنی پڑتی ہے تو تلبیس کا یہ جال ،مکڑی کے اس خوشنما جال کی طرح چمکنا شروع ہوجاتا ہے جو کہ اندھیرے میں نظر نہیں آتا ہے اور شکار کو پھنساتا چلے جا رہا ہوتا ہے۔
اسلامی خلافت تو ابتدائی تیس کے بعد اختتام پزیر ہو گئی تھی۔
اس کے بعد تو ظلم و جور اور ایسی بادشاہت کا دور رہا کہ جن میں شاید سوائے چند خوش نصیبوں کہ کسی حکمران نے اسلامی قوانین کو مکمل نافذ کیا ہو، کیونکہ
تابعین و تبع تابعین کا دور ہو، یا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ، یا ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور یا پھر الشیخ محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ کا ، نہ تو اسلامی خلافت تھی اور نہ اسلامی حکمران اور نہ ہی اللہ کے دین کا نفاذ مگر پھر بھی ان تمام سلف و آئمہ کے دور کا مطالعہ کریں تو آپ کو انکے ادوار میں خوارج کی موجودگی بھی ملے گی اور یہی ہستیاں اپنے اپنے زمانے میں خوارج کے وجود و اثرات اور مذمت میں مصروف بھی نظر آئیں گی۔
جن میں احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے دور میں خلق قرآن کے کفریہ عقیدے کے قائلین حکام ہوں یا پھر ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے دور میں یا خالد ابن الولید المدد کے نعرے لگانے والا سلطان یا پھر محمد بن عبدالوھاب کے دور میں خلافت عثمانیہ (
6) میں سود کو جائز و حلال قرار دینے اور غیر اللہ کے فیصلوں پر عمل پیرا حکمران، خروج اور خوارج کا وجود تب بھی رہا اور ان آئمہ نے انکی مذمت بھی اور ان کا تعاقب بھی۔
خوارج قیامت تک نکلتے رہیں گے:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
سَيَخْرُجُ أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّی عَدَّهَا زِيَادَةً عَلَی عَشْرَةِ مَرَّاتٍ، کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّی يَخْرُجَ الدَّجَّالُ فِي بَقِيَّتِهِمْ[7].
’’میری امت میں مشرق کی جانب سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور ان میں سے جو بھی شیطانی گروہ جوں ہی نکلے گا وہ (حکام کی جانب سے) ختم کر دیا جائے گا۔ ان میں سے جو بھی شیطانی گروہ جوں ہی نکلے گا (حکام) ان کا خاتمہ کر دیں گے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں ہی
دس دفعہ سے بھی زیادہ بار دہرایا اور فرمایا:
" ان میں سے جو بھی شیطانی گروہ جب بھی نکلے گا اسے کاٹ دیا جائے گا یہاں تک کہ ان ہی کی باقی ماندہ نسل میں دجال نکلے گا۔‘‘
اس حدیث کے بعد اب خوارج کی اس تلبیس کی کیا حققیت باقی رہ جاتی ہے کہ خوارج یا خروج صرف وہ ہوتا ہے جو اسلامی خلیفہ و حکمران کے خلاف نکلے نہ کہ غاصب، ظالم و فاسق حکمران کے خلاف جس نے حدود اللہ نہ نافذ کر رکھی ہوں۔؟
کیونکہ نہ تو آج خلیفہ کا وجود ہے ،کیونکہ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تیس سال بعد ہی اختتام پذیر ہو گیا تھا، نہ اسلامی قوانین کا نفاذ ۔۔۔۔۔۔مگر صحیح حدیث کے مطابق خوارج دجال کی آمد تک نکلتے رہیں گے اور کٹتے رہیں گے۔
لہذا آج بھی خوارج کا وجود ایک حقیقت ہے جو حکم بغیر ما انزل اللہ اور ناجائز تکفیر مسلم اور مسلم ممالک میں تفجیرات سے اپنی موجودگی جتا رہا ہے اور امت مسلمہ کو دھیمک کی طرح چاٹ رہا ہے
ایک طرف تو ظالم حکمران اور دوسری طرف یہ "جہنم کے کتے"(
8) اور تیسری طرف کفار کی یلغاریں لاالہ الا اللہ۔
أمت اس وقت ایک چوراہے پر کھڑی ہے وہ اپنے علماء، مفکرین اور فیصلہ سازوں کے تعاون کی محتاج ہے تاکہ وہ اس کے ماضی کی تصحیح ، حاضر کی اصلاح اور مستقبل کو روشن کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں ۔اس سخت مرحلے میں أمت اور اس کے عقائد سخت دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں اگر تائید ربّانی اور قوّت دین نہ ہو تی تو یہ دباؤ شائداسے اسکی جڑوں سے ہی اکھاڑپھینکتا۔
لہذا کسی کو اس تلبیس یا شبے کا شکار نہیں ہونا چاہیئے کہ آج کل خارجی موجود نہیں ، اور خروج نہیں ، یہ تو شریعت کے نفاذ کے لئے جہاد ہو رہا۔ لاحول ولاقوۃ الا باللہ
دین محمدیہ میں شریعت و اسلام کے احیاء و نفاذ کے لئے کفار مشرکین سے قتل و قتال کا راستہ بلا شبہ ایک حقیقت ہے مگر مسلمان ملکوں ،ریاستوں میں اپنے ہی حکام کے خلاف قتل و قتال سے شریعت کے نفاذ کی تحریک خالصتا خوارج کا عقیدہ و منہج ہے اور خارجیوں کا کام ہے ، چاہے وہ کس بھی دور میں کیوں نہ ہو۔
اس پر تاریخ گواہ ہے۔
ہم اپنی اس تحریر کا اختتام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اسی قول پر کرتے ہیں کہ
"وکل من وجدت فيه تلک المعانی ألحق بهم"،
"ہر وہ شخص یا گروہ جس میں وہ صفات پائی جائیں اسے بھی ان کے ساتھ ملایا جائے گا"۔
وما علینا الا البلاغ المبین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
حواشی:
1-ابن تيمية، النبوات : 222
2-ابن تيميه، مجموع فتاوٰی، 28 : 495، 496
3- ابن تيميه، مجموع فتاوٰی، 28 : 476، 477
4- مسند أحمد ،علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
5- سلسلہ احادیث الصحیحہ للالبانی :۴۵۹،صحیح ابن حبان:۶۷۸۳
6- اگر اصولی اور نظری بات کی جائے توخلافت عثمانیہ اور آج کی مسلمان حکومتوں میں کوئی بھی جوہری فرق نہیں ہے۔ خلافت عثمانیہ میں سوائے مجلہ أحکام عدلیہ کے، جو دیوانی قانون کے طور پر رائج تھا اور اس کی بھی پابندی عدالتوں کے لیے لازم نہ تھی، بقیہ تمام قوانین فرانسیسی، اطالوی اور برطانوی تھے۔ بلکہ سلطنت عثمانیہ کے اساسی قانون میں یہ بات بھی موجود تھی کہ سود شرعاً حرام ہے اور قانوناً جائز ہے۔علاوہ ازیں
سلطنت کے قانون فوجداری میں یورپین قوانین کی تقلید میں حدود کو ساقط کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود اس وقت کے علماء میں سے جن محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ اور انکے شاگرد باکثرت موجود تھے، سمیت کسی مکتب فکر کے کسی بھی عالم دین کو بھی ہم نہیں دیکھتے کہ وہ خلافت عثمانیہ کے حکمرانوں یا دوسرے الفاظ میں اس وقت کے خلفاء کی تکفیر کر رہے ہوں۔ ان کے خلاف خروج و بغاوت کے فتوے دے رہے ہوں۔
7-أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 198، رقم : 6871،8
حاکم، المستدرک، 4 : 533، رقم : 8497
ابن حماد، الفتن، 2 : 532،
ابن راشد، الجامع، 11 : 377،
آجري، الشريعة : 113، رقم : 260
8-ابن ماجہ:۱۷۳، وھو حدیث حسن