القول السدید
رکن
- شمولیت
- اگست 30، 2012
- پیغامات
- 348
- ری ایکشن اسکور
- 970
- پوائنٹ
- 91
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں قید کئے گئے مشرکین میں سے جو جزیہ نہیں دے سکتے تھے تو انکو مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم دینے پر لگا دیا تاکہ ان سے جزیئے کی جگہ علم کے میدان میں خدمت لی جاسکیں ، اور مسلمانوں کو علوم دنیا سے روشناس کروایا جاسکے۔
یاد رہے وہ مشرک تھے اور مسلمانوں سے لڑنے آئے تھے اور گرفتار ہوئے تو ان سے ایسا سلوک کیا گیا۔۔ صرف انکی علم کی وجہ سے!
مگر زرا عصر حاضر کے خارجیوں کو ملاحضہ کیجئے ، ایک مسلمان استاد ، بلکہ پروفیسر جو کہ نہ تو فوجی ہے ، نہ ہی جاسوس، نہ کوئی جمہوری سیاستدان۔۔۔مگر اسے گن پوائنٹ پر اڑھائی سال سے اغواء کر رکھا ہے۔
وہ بوڑھا بھی ہے اور دل کا مریض بھی۔
میرے کچھ سوالات ہیں:
ایک عام شہری کا اغواء جو کہ محارب بھی نہیں کس دلیل کی بنیاد پر؟؟؟
یہ کونسا جہاد ہے اور کس اسلام کی خدمت ہے؟؟؟
اس سے اللہ کا کلمہ کتنا بلند ہوا؟؟؟
اسلام کو کتنا عزت ملی؟؟؟
اللہ کی لعنت ہو ایسے بد ترین جھوٹوں پر۔۔۔ آمین
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں قید کئے گئے مشرکین میں سے جو جزیہ نہیں دے سکتے تھے تو انکو مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم دینے پر لگا دیا تاکہ ان سے جزیئے کی جگہ علم کے میدان میں خدمت لی جاسکیں ، اور مسلمانوں کو علوم دنیا سے روشناس کروایا جاسکے۔
یاد رہے وہ مشرک تھے اور مسلمانوں سے لڑنے آئے تھے اور گرفتار ہوئے تو ان سے ایسا سلوک کیا گیا۔۔ صرف انکی علم کی وجہ سے!
مگر زرا عصر حاضر کے خارجیوں کو ملاحضہ کیجئے ، ایک مسلمان استاد ، بلکہ پروفیسر جو کہ نہ تو فوجی ہے ، نہ ہی جاسوس، نہ کوئی جمہوری سیاستدان۔۔۔مگر اسے گن پوائنٹ پر اڑھائی سال سے اغواء کر رکھا ہے۔
وہ بوڑھا بھی ہے اور دل کا مریض بھی۔
میرے کچھ سوالات ہیں:
ایک عام شہری کا اغواء جو کہ محارب بھی نہیں کس دلیل کی بنیاد پر؟؟؟
یہ کونسا جہاد ہے اور کس اسلام کی خدمت ہے؟؟؟
اس سے اللہ کا کلمہ کتنا بلند ہوا؟؟؟
اسلام کو کتنا عزت ملی؟؟؟
پھر کہتے ہیں بد بخت کے ہم مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچاتے ، ہمارے بارے پروپیگینڈا کیا جاتا ہے۔۔پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دار الحکومت پشاور میں واقع اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اجمل خان کے اغوا کو ڈھائی سال پورے ہونے پر ان کی پانچویں ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں انہوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ ان کی بازیابی کے بدلے طالبان کے تین اراکین کو رہا کرنے میں ٹال مٹول نہ کی جائے۔
اس ویڈیو پیغام میں اجمل خان نے پشتو بولتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی اطلاع کے مطابق طالبان نے ان کی بازیابی کے بدلے تین طالبان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے جو ’اتنا بڑا مطالبہ نہیں ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ حکومت تین مطلوب طالبان کی رہائی سے انکار کر رہی ہے یا تاخیر کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کہتے ہیں کہ حکومت باقی مطالبات تسلیم کر رہی ہے لیکن دو یا تین طالبان کی رہائی سے انکار کرتی ہے۔
انھوں نے ہمدردانہ لہجے میں کہا ہے کہ تعلیم کے میدان میں ان کی خدمات کے بدلے دو یا تین طالبان کی رہائی اتنا بڑا مطالبہ نہیں ہے۔
اجمل خان نے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان، گورنر خیبر پختونخوا اور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ سے اپیل کی ہے کہ اب وہ بوڑھے اور دل کے مریض ہیں اس لیے ان کی بازیابی کے لیے کوششیں کی جائیں۔
اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ اجمل خان ایک کچی دیوار کے سامنے کھڑے ہیں، انہوں نے چادر اوڑھی ہوئی ہے اور سر پر چترالی پٹی کی بنی ہوئی ٹوپی پہنے ہوئے ہیں۔ ان کے چہرے پر پریشانی کے آثار بھی نظر آ رہے ہیں۔
اجمل خان اور ان کے ڈرائیور کو اکتوبر سنہ دو ہزار دس میں اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ اپنی رہائش گاہ سے یونیورسٹی جا رہے تھے۔ ان کی اغوا کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی جس کے بعد ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ ان کی بازیابی کے لیے طالبان نے مطالبات پیش کیے ہیں۔
اجمل خان کے ڈرائیور کو گزشتہ سال بازیاب کروا لیا گیا تھا اور یہ کہا جا رہا تھا کہ اجمل خان کو بھی جلد بازیاب کر لیا جائے گا۔
اجمل خان پشاور یونیورسٹی کے پروروسٹ اور رجسٹرار کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں جبکہ اس کے بعد وہ گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کے وائس چانسلر رہے تھے۔ وہ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کے رشتہ دار ہیں۔
لنک
اللہ کی لعنت ہو ایسے بد ترین جھوٹوں پر۔۔۔ آمین