محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
کیا وٹہ سٹہ کی شادی حرام ہے ؟؟؟؟
سوال: دو آدمیوں نے آپس میں اتفاق کر لیا کہ دونوں ایک دوسرے کو اپنی بہن سے بیاہ دینگے، اس نکاح کا کیا حکم ہے؟
الحمد للہ:
نکاح کی اس قسم کو عربی میں "شغار" کہا جاتا ہے[اردو میں وٹہ سٹہ] جو کہ حرام ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
"نکاح شغار"[وٹہ سٹہ] یہ ہے کہ:
کوئی آدمی [فرض کریں اسکا نام : عمران ہے، مترجم]اپنی بیٹی، بہن یا جس کسی لڑکی کا وہ ولی بن سکتا ہے، اسکی شادی اس شرط پر کسی [فرض کریں اسکا نام : خالد ہے، مترجم]سے کرے کہ وہ اس [عمران]کے ساتھ اپنی کسی عزیزہ کی شادی کرے، یا اس [عمران]کے بیٹے یا بھتیجے کی شادی اپنی بیٹی یا بھتیجی، یا بھانجی وغیرہ سے کرے، اس انداز سے یہ عقد فاسد ہے، چاہے حق مہر کا اس میں ذکر کیا جائے یا نہ کیا جائے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع بھی کیا ہے، اور خبردار بھی کیا ہے، اور اللہ تعالی کا فرمان ہےکہ:
( وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا )
ترجمہ: اور جو چیز تمہیں رسول دے دے، تو اسے لے لو، اور جس چیز سے روک دے، اس سے رُک جاؤ۔الحشر /7
اور بخاری و مسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار [وٹہ سٹہ] سے منع فرمایا ہے۔
اور صحیح مسلم (1416) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار[وٹہ سٹہ ]سے منع فرمایا ہے، ابن نمیر کی روایت کے مطابق یہ الفاظ زائد ہیں کہ: "شغار" کیلئے آدمی کسی دوسرے شخص سے کہتا ہے کہ: تم مجھ سے اپنی بیٹی کی شادی کردو، میں تمہارے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کردیتا ہوں، یا تم میری شادی اپنی بہن سے کردو، میں تمہاری شادی اپنی بہن سے کردونگا۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
(اسلام میں شغار [وٹہ سٹہ] کا کوئی تصور نہیں ہے) مسلم: (1415)
چنانچہ مذکورہ بالا صحیح احادیث وٹہ سٹہ کی شادی کے حرام ، فاسد اور شریعت الہی کے منافی ہونے پر دلالت کرتی ہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر دینے یا نہ دینے سے حکم میں فرق نہیں فرمایا، جبکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ذکر شدہ شغار کی تفسیر:
"ایک آدمی دوسرے آدمی کیساتھ اپنی بیٹی کی شادی اس شرط پر کردے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی اس سے کردیگا، اور دونوں کیلئے حق مہر نہیں ہو گا" کے بارے میں یہ ہے کہ اہل علم نے اس تفصیل کو ابن عمر کے شاگرد نافع [راوی حدیث] کی اپنی بات قرار دیا ہے، چنانچہ یہ تفصیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہیں کی، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تفصیل ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ گزشتہ حدیث میں موجود ہےکہ:
" آدمی کسی دوسرے شخص سے کہتا ہے کہ: تم مجھ سے اپنی بیٹی کی شادی کردو، میں تمہارے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کردیتا ہوں، یا تم میری شادی اپنی بہن سے کردو، میں تمہاری شادی اپنی بہن سے کردونگا " آپ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ: (اور دونوں کیلئے حق مہر نہ ہو)، چنانچہ اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ حق مہر مقرر کرنے یا نہ کرنے سے وٹہ سٹہ کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
بلکہ نکاح کی یہ قسم منع ہونے کی اصل وجہ [رشتوں کے ]تبادلے کی شرط ہے، اور ایسی صورت میں بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے؛ کیونکہ اس صورت میں خواتین کو ایسے مردوں سے شادی کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے جن کو وہ پسند نہیں کرتیں؛ اور اس طرح ولی کے مفادات کو عورتوں کے مفادات پر ترجیح دی جاتی ہے، جو کہ غلط ہے اور خواتین کیساتھ ظلم ہے؛ ایسے ہی وٹہ سٹہ کی شادی میں خواتین کو اپنے خاندان کی دیگر خواتین کی طرح حق مہر بھی نہیں ملتا، جیسے کہ اس قسم کے غلط انداز نکاح اپنانے والے لوگوں کی عام طور پر عادت ہے[کہ حق مہر بہت کم دیتے ہیں]، الّا ماشاء اللہ، کوئی ہو جو ایسا نہ کرتا ہو، ایسے ہی اس قسم کی شادیوں میں عام طور پر لڑائی جھگڑے ہی رہتے ہیں، اور یہ نتائج شریعت کی مخالفت کرنے کی وجہ سے دنیاوی سزا کے طور پر نمودار ہوتے ہیں۔
احمد (16414) نے اور ابو داود (2075)نے صحیح سند کے ساتھ عبد الرحمن بن ہرمز سے روایت کی ہے کہ عباس بن عبد اللہ بن عباس رحمہ اللہ نے عبد الرحمن بن حکم سے اپنی بیٹی کی شادی کی، اور عبد الرحمن نے عباس کیساتھ اپنی بیٹی کی شادی کردی، اور دونوں نے حق مہر بھی مقرر کیا، تو خلیفہ معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے مروان کو لکھ بھیجا، اور حکم دیا کہ ان دونوں کے درمیان علیحدگی کروا دی جائے، انہوں نے اپنے مراسلے میں لکھا تھا کہ: "یہ وہی شغار [وٹہ سٹہ] ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے"
امیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رونما ہونے والا یہ واقعہ ہمارے لئے گزشتہ احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے منع کردہ وٹہ سٹہ کا معنی متعین کر رہا ہے، اور یہ بھی واضح کر رہا ہے کہ حق مہر مقرر کرنے سے نکاح درست نہیں ہوگا، اور وٹہ سٹہ ہی رہے گا؛ کیونکہ عباس بن عبد اللہ بن عباس، اور عبد الرحمن بن حکم دونوں نے حق مہر دیا تھا، لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ حق مہر مقرر کرنے کی جانب توجہ ہی نہیں دی، اور ان میں علیحدگی کروانے کا حکم دے دیا، اور کہہ دیا کہ: "یہ وہی شغار [وٹہ سٹہ] ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے"
اور یہ بات مسلّم ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ عربی زبان، اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معانی و مفاہیم کو نافع کی بہ نسبت اچھی طرح جانتے تھے، اللہ تعالی سب سے راضی ہو۔
جو لوگ وٹہ سٹہ کی شادی میں مبتلا ہو چکے ہیں اور دونوں کی آپس میں محبت بھی ہے تو انکے لئے علاج کیا ہے؟
علاج یہ ہے کہ ولی کی موجودگی میں نئے حق مہر ، اور دو گواہوں کیساتھ تجدید نکاح کریں؛ اس سے وہ بری الذمہ ہو جائیں گے، اور خاتون صحیح انداز سے بیوی بھی بن جائے گی، ساتھ میں گزشتہ گناہ پر اللہ تعالی سے توبہ بھی کریں، اور اگر وٹہ سٹہ کی شادی کے بعد اولاد ہوچکی ہے تو انکی نسبت والد ہی کی طرف ہوگی، کیونکہ وہ پہلے وٹہ سٹہ کی شادی کو درست سمجھتے تھے۔
اور اگر میاں بیوی میں محبت نہیں ہے، تو خاوند پر لازمی ہے کہ وہ لڑکی کو ایک طلاق دے دے، جس سے ان میں علیحدگی ہو جائے گی، اور لڑکی کو عدت پوری کرنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے شادی کی اجازت ہے، اور اگر خاوند دوبارہ اسی سے شادی کرنا چاہے تو نئے نکاح کیساتھ شادی کرسکتا ہے، بشرطیکہ طلاق یافتہ یہ خاتون شادی پر آمادہ ہو، اور اس مرد کیلئے دو طلاقوں کا حق باقی رہےگا، یہ مرد اس عورت سے اسکی عدت کے دوران بھی شادی کرسکتا ہے" انتہی .
ماخوذ از: رسالہ: "حكم نكاح الشغار" مؤلف: شیخ عبد العزیز بن باز
http://islamqa.info/ur/11515
سوال: دو آدمیوں نے آپس میں اتفاق کر لیا کہ دونوں ایک دوسرے کو اپنی بہن سے بیاہ دینگے، اس نکاح کا کیا حکم ہے؟
الحمد للہ:
نکاح کی اس قسم کو عربی میں "شغار" کہا جاتا ہے[اردو میں وٹہ سٹہ] جو کہ حرام ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
"نکاح شغار"[وٹہ سٹہ] یہ ہے کہ:
کوئی آدمی [فرض کریں اسکا نام : عمران ہے، مترجم]اپنی بیٹی، بہن یا جس کسی لڑکی کا وہ ولی بن سکتا ہے، اسکی شادی اس شرط پر کسی [فرض کریں اسکا نام : خالد ہے، مترجم]سے کرے کہ وہ اس [عمران]کے ساتھ اپنی کسی عزیزہ کی شادی کرے، یا اس [عمران]کے بیٹے یا بھتیجے کی شادی اپنی بیٹی یا بھتیجی، یا بھانجی وغیرہ سے کرے، اس انداز سے یہ عقد فاسد ہے، چاہے حق مہر کا اس میں ذکر کیا جائے یا نہ کیا جائے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع بھی کیا ہے، اور خبردار بھی کیا ہے، اور اللہ تعالی کا فرمان ہےکہ:
( وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا )
ترجمہ: اور جو چیز تمہیں رسول دے دے، تو اسے لے لو، اور جس چیز سے روک دے، اس سے رُک جاؤ۔الحشر /7
اور بخاری و مسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار [وٹہ سٹہ] سے منع فرمایا ہے۔
اور صحیح مسلم (1416) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار[وٹہ سٹہ ]سے منع فرمایا ہے، ابن نمیر کی روایت کے مطابق یہ الفاظ زائد ہیں کہ: "شغار" کیلئے آدمی کسی دوسرے شخص سے کہتا ہے کہ: تم مجھ سے اپنی بیٹی کی شادی کردو، میں تمہارے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کردیتا ہوں، یا تم میری شادی اپنی بہن سے کردو، میں تمہاری شادی اپنی بہن سے کردونگا۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
(اسلام میں شغار [وٹہ سٹہ] کا کوئی تصور نہیں ہے) مسلم: (1415)
چنانچہ مذکورہ بالا صحیح احادیث وٹہ سٹہ کی شادی کے حرام ، فاسد اور شریعت الہی کے منافی ہونے پر دلالت کرتی ہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر دینے یا نہ دینے سے حکم میں فرق نہیں فرمایا، جبکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ذکر شدہ شغار کی تفسیر:
"ایک آدمی دوسرے آدمی کیساتھ اپنی بیٹی کی شادی اس شرط پر کردے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی اس سے کردیگا، اور دونوں کیلئے حق مہر نہیں ہو گا" کے بارے میں یہ ہے کہ اہل علم نے اس تفصیل کو ابن عمر کے شاگرد نافع [راوی حدیث] کی اپنی بات قرار دیا ہے، چنانچہ یہ تفصیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہیں کی، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تفصیل ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ گزشتہ حدیث میں موجود ہےکہ:
" آدمی کسی دوسرے شخص سے کہتا ہے کہ: تم مجھ سے اپنی بیٹی کی شادی کردو، میں تمہارے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کردیتا ہوں، یا تم میری شادی اپنی بہن سے کردو، میں تمہاری شادی اپنی بہن سے کردونگا " آپ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ: (اور دونوں کیلئے حق مہر نہ ہو)، چنانچہ اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ حق مہر مقرر کرنے یا نہ کرنے سے وٹہ سٹہ کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
بلکہ نکاح کی یہ قسم منع ہونے کی اصل وجہ [رشتوں کے ]تبادلے کی شرط ہے، اور ایسی صورت میں بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے؛ کیونکہ اس صورت میں خواتین کو ایسے مردوں سے شادی کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے جن کو وہ پسند نہیں کرتیں؛ اور اس طرح ولی کے مفادات کو عورتوں کے مفادات پر ترجیح دی جاتی ہے، جو کہ غلط ہے اور خواتین کیساتھ ظلم ہے؛ ایسے ہی وٹہ سٹہ کی شادی میں خواتین کو اپنے خاندان کی دیگر خواتین کی طرح حق مہر بھی نہیں ملتا، جیسے کہ اس قسم کے غلط انداز نکاح اپنانے والے لوگوں کی عام طور پر عادت ہے[کہ حق مہر بہت کم دیتے ہیں]، الّا ماشاء اللہ، کوئی ہو جو ایسا نہ کرتا ہو، ایسے ہی اس قسم کی شادیوں میں عام طور پر لڑائی جھگڑے ہی رہتے ہیں، اور یہ نتائج شریعت کی مخالفت کرنے کی وجہ سے دنیاوی سزا کے طور پر نمودار ہوتے ہیں۔
احمد (16414) نے اور ابو داود (2075)نے صحیح سند کے ساتھ عبد الرحمن بن ہرمز سے روایت کی ہے کہ عباس بن عبد اللہ بن عباس رحمہ اللہ نے عبد الرحمن بن حکم سے اپنی بیٹی کی شادی کی، اور عبد الرحمن نے عباس کیساتھ اپنی بیٹی کی شادی کردی، اور دونوں نے حق مہر بھی مقرر کیا، تو خلیفہ معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے مروان کو لکھ بھیجا، اور حکم دیا کہ ان دونوں کے درمیان علیحدگی کروا دی جائے، انہوں نے اپنے مراسلے میں لکھا تھا کہ: "یہ وہی شغار [وٹہ سٹہ] ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے"
امیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رونما ہونے والا یہ واقعہ ہمارے لئے گزشتہ احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے منع کردہ وٹہ سٹہ کا معنی متعین کر رہا ہے، اور یہ بھی واضح کر رہا ہے کہ حق مہر مقرر کرنے سے نکاح درست نہیں ہوگا، اور وٹہ سٹہ ہی رہے گا؛ کیونکہ عباس بن عبد اللہ بن عباس، اور عبد الرحمن بن حکم دونوں نے حق مہر دیا تھا، لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ حق مہر مقرر کرنے کی جانب توجہ ہی نہیں دی، اور ان میں علیحدگی کروانے کا حکم دے دیا، اور کہہ دیا کہ: "یہ وہی شغار [وٹہ سٹہ] ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے"
اور یہ بات مسلّم ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ عربی زبان، اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معانی و مفاہیم کو نافع کی بہ نسبت اچھی طرح جانتے تھے، اللہ تعالی سب سے راضی ہو۔
جو لوگ وٹہ سٹہ کی شادی میں مبتلا ہو چکے ہیں اور دونوں کی آپس میں محبت بھی ہے تو انکے لئے علاج کیا ہے؟
علاج یہ ہے کہ ولی کی موجودگی میں نئے حق مہر ، اور دو گواہوں کیساتھ تجدید نکاح کریں؛ اس سے وہ بری الذمہ ہو جائیں گے، اور خاتون صحیح انداز سے بیوی بھی بن جائے گی، ساتھ میں گزشتہ گناہ پر اللہ تعالی سے توبہ بھی کریں، اور اگر وٹہ سٹہ کی شادی کے بعد اولاد ہوچکی ہے تو انکی نسبت والد ہی کی طرف ہوگی، کیونکہ وہ پہلے وٹہ سٹہ کی شادی کو درست سمجھتے تھے۔
اور اگر میاں بیوی میں محبت نہیں ہے، تو خاوند پر لازمی ہے کہ وہ لڑکی کو ایک طلاق دے دے، جس سے ان میں علیحدگی ہو جائے گی، اور لڑکی کو عدت پوری کرنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے شادی کی اجازت ہے، اور اگر خاوند دوبارہ اسی سے شادی کرنا چاہے تو نئے نکاح کیساتھ شادی کرسکتا ہے، بشرطیکہ طلاق یافتہ یہ خاتون شادی پر آمادہ ہو، اور اس مرد کیلئے دو طلاقوں کا حق باقی رہےگا، یہ مرد اس عورت سے اسکی عدت کے دوران بھی شادی کرسکتا ہے" انتہی .
ماخوذ از: رسالہ: "حكم نكاح الشغار" مؤلف: شیخ عبد العزیز بن باز
http://islamqa.info/ur/11515
Last edited: