سعودی عرب کی امامت
شاہ سلمان بن عبد العزیز نے ایک حرف انکار بلند کیاا ور وہ امامت اور سیاست کے اعلی مرتبے پر فائزہو گئے۔عالم اسلام کو اپنے جس مسیحا کی تلاش ہے، شاہ سلمان کی شکل میں وہ ظہورر پذیر ہونے کو ہے۔سبق پھر پڑھ صداقت کا ، شجاعت کا، تجھے دنیا کی امامت کا فریضہ ادا کرنا ہے۔
امریکی صدر اوبامہ کا خیال تھا کہ اس کے پیش رو بش کے پوڈل ٹونی بلیئر کی طرح عرب حکمران اس کے ایک اشارے پر کچے دھاگے کی طرح کھنچے چلے آئیں گے مگر شاہ سلمان نے عرب ممالک کی مجوزہ کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی کے مالک ہیں۔ ان کا تنا ہوا سینہ دیکھ کر مسلم امہ کے ایک ایک فرد کا سینہ فخر سے فراخ ہو گیا۔
عالم اسلام کو ایک خودد دار لیڈر کی شدیدپیاس لاحق ہے،صدیاں گزرتی چلی جا رہی ہیں کہ غلامی کی زنجیریں ٹوٹتی ہی نہیں۔ایک تاریک سرنگ ہے جس کے دوسرے سرے پر روشنی کی لکیر تک نظر نہیں آتی، امید اور آس کا سرا ٹوٹ گیا ہے۔ڈالر اور کوکاکولاکے عفریت نے ہماری رگوں سے لہو کاآخری قطرہ بھی نگل لیا۔
سعودی عرب ان دنوں ایک سنگین بحران کی زد میں ہے مگر یہی تندی باد مخالف اسے بلندیوں کی جانب اچھال سکتی ہے۔اس نے یمن میں مداخلت کر کے اچھا کیا یا برا کیا، مگر یہ ا س کا سوچا سمجھا اقدام تھا۔ اورا س کی یہ توقع بجا تھی کہ وہ مسلم امہ کا محسن اور مربی ہے اور کوئی بھی اس کی آزمائش کے وقت میں اس کی مدد میںپس و پیش سے کام نہ لے گا۔
مگر مسلم دنیا کا رد عمل باکل ایک سو اسی ڈگری کا تھا، سعودی عرب کے لئے انتہائی غیر متوقع، اس کے لئے قطعی مایوس کن اور محسن کشی کے مترادف۔ پاکستان سے تو اس نے مدد مانگی اور ہماری پارلیمنٹ نے انکار کر دیا مگر دنیا میں پچاس سے زائد اور بھی ملک ہیں اور کوئی ملک فوجی طاقت سے محروم نہیں،کیا مجال کہ کہیں سے توپ کا ایک گولہ بھی سعودیہ بھجوایا گیا ہو، پاکستان میں سعودی حمائت کے لے جلو سوں پر جلوس نکلے، مگر کسی ایک رضا کار کی کشتی عدن کی بندر گاہ میں لنگر انداز نہ ہوسکی، یہ سب دودھ پینے والے مجنوں تھے، حیرت ہے کہ نصف صدی سے پیٹرو ڈالر پر پل رہے ہیں، ا ن کی گردنیں موٹی ہو چکیں اور توندیں پھٹنے کوآ گئیں۔وہ کر بھی کیا سکتے تھے سوائے روٹیاں توڑنے کے۔اور سعودی عرب کوبھی ایک تلخ تجربہ ہو گیا کہ اس نے دوسرے ملکوںکے ساتھ ملک اور قوم کی بنیاد پر نہیں، ایک محدود فرقے کی بنیاد پر جو تعلقات استوار کئے، وہ کام نہ آئے۔پاکستان ایک ملک ہے اور اس میںپاکستانی قوم بستی ہے۔ یورپ اور امریکہ ضرور یہاں کے مسیحی بھائیوں کی مدد کرتے ہوں گے اور انہیںکرنی بھی چاہئے مگرمغربی دنیا نے ہمارے ساتھ ہمیشہ قوم اور ملک کی سطح پر تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی۔اس نے ہمیں خانوںمیںنہیں بانٹا، اب امید کی جا سکتی ہے کہ سعودی عرب بھی پاکستان کے ساتھ ایک ملک اور قوم کی بنیاد پر خارجہ پالیسی کو آگے بڑھائے گا۔
اقبال نے نہ جانے کیوں کہہ دیا کہ تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا جبکہ ہماری تقدیر تو ہمیشہ سے مکہ اور مدینہ سے جڑی ہوئی ہے، وادی بطحا سے اٹھنے والی ہوائوں نے ہماری تاریخ کے اوراق پلٹے ہیں۔سرزمین حجاز ہماری امیدوں اور آشائوں اور دعائوںکا منبع رہی ہے۔ ہم نے بہت عرصہ بغداد کے زیر سایہ بھی گزار لیا اور خلافت عثمانیہ کی باجگزاری بھی کر دیکھی مگر جو سکون وادی مکہ میں کعبہ کے غلاف سے لپٹنے اور مدینہ میں سنہری جالیوںکے سامنے درود و سلام میں ملتا ہے، اس پر سارے بغداد اور سارے قسطنطنیہ قربان کئے جا سکتے ہیں۔
کیوں نہ ہم پھر سے اسی سرزمین سے پیوست ہو جائیں۔کیوں نہ ہم ایک مرکز قائم کر لیں۔ایک زمانے میں مولانا محمد علی، مولا نا شوکت علی ا ور بی اماں نے تحریک خلافت شروع کی تھی، میرا بس چلے اور خدا میرے اندر توانائیاں پھونک دے تو میں عالم اسلام کو مکہ ومدینہ کے ایک مرکز کے نیچے اکٹھے ہونے کی تحریک شروع کر دوں، ہم الگ الگ کسی نہ کسی حکومت کے فرمان کو مانتے ہیں، کیوں نہ ایک مرکزی حکومت کے فرمان کے تابع ہو جائیں۔اپنی بکھری ہوئی قوت کو سمیٹ کر ایک مضبوط قوت میں ڈھال لیں۔پھر ہمیں کسی سے مدد مانگنے کی حاجت نہیں رہے گی، سارے عالم اسلام کی قوت اس مکہ و مدینہ کی ریاست اور امارت کے تابع ہو گی۔پھر پاکستا نی فوج ہو، ترک فوج ہو، مصری فوج ہو، اردنی فوج ہو، سبھی حرمین شریفین کے جاں نثار ہوں گے۔
امریکہ نے جو سلوک سعودی عرب سے روا رکھا ہوا ہے، اس کی وجہ سے یہ منزل جلد حاصل کی جا سکتی ہے، ہم شاید عمل کے قائل نہیں لیکن رد عمل میں بہت کچھ کرنے کی دھن رکھتے ہیں بلکہ کمال رکھتے ہیں۔امریکہ نے سعودی عرب سے آنکھیں بدلیں، ایران سے دوستی کی پینگ چڑھا لی، پاکستان کو دہشت گردوںکے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، شام میں خانہ جنگی سے لہو اور بربادی کا سونامی پھنکارا ٹھا، عرب اور افریقی ممالک میں عرب بہار کے نام پر خزائوںکے جھکڑ چلا دیئے۔
یہ لمحہ امت مسلمہ کے جاگنے کا ہے۔اس صورت حال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب آگے بڑھے، شاہ سلمان میںبجلیاں بھری ہیں، انکے ساتھ نوجوان شاہی نسل کے زند ہ و تابندہ جذبے ہیں۔یہ لوگ من و تو کی تفریق میں نہ پڑیں اور امت واحدہ بن کر اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لیں۔یقین کیجئے ہم اپنی ہی نہیں، کرہ ارض کی تقدیر بھی بدل سکتے ہیں۔
ایران کو اپنے رویئے میں اصلاح کی ضرورت ہے، وہ اپنی خواہشات کو فرمان میںنہ بدلے، دوسروں پر مسلط ہونے کی کوشش نہ کرے اور مسلم ممالک کو ڈکٹیشن نہ دے ، اپنی سلامتی کا تحفظ کرے اور دوسروں کی سلامتی اور خود مختاری کا احترام کرے۔اس میںکوئی شک نہیں کہ عالم اسلام نے انقلاب اسلامی کا خیر مقدم کیا تھا مگرا س انقلاب کو بر آمد کرنے کی خواہش ترک کر دی جائیئ، ایران کی بڑی مہربانی۔
مسلم امہ میںنجد وحجاز کے لئے بے حد احترام پایا جاتا ہے، اسی نکتے پر اتحاد کی کوئی صورت سامنے آنی چاہیے، شاہ سلمان خارجہ پالیسی کا انشی ایٹو لیں اور اتحا دو یگانگت کا پیغام لے کر مسلم عوام سے رابطہ کریں، یہ رابطہ ڈالر خور مولویوں کے بجائے خارجہ معاملات کی گتھیاں سلجھانے والے ماہرین کے ذریعے ہونا چاہئے، اکہتر میںمشرقی پاکستان پر برق رفتار جارحانہ یلغار سے پہلے اندرا گاندھی ملکوں ملکوں گھوم گئی تھیں، اسی طرح خود شاہ سلمان جہاز پکڑیں اور مسلم دنیا میں بیداری کہ لہر پیدا کرنے کے لئے تیز رفتار دورے کریں ہر مسلمان کی نبض پر ہاتھ رکھیں ، اس کے دل کو ٹٹولیں، کچھ بعید نہیں کہ سارے دل ایک ساتھ دھڑکنے شروع ہو جائیں ۔اسداللہ غالب(کالم نگار نوائے وقت)
کالم نگار سے متفق ہونا ضروری نھیں میرا،لیکن کچھ اہم نکات زیر بحث لایا ھے ۔