• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کفر اور شرک کا مرتکب کافر اور مشرک نہیں ہوتا؟

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
کیا کفر اور شرک کا مرتکب کافر اور مشرک نہیں ہوتا؟


بمطابق حدیث تکفیر کی دو اقسام ہیں۔ایک جائز تکفیر اور دوسری ناجائز تکفیر۔افسوس کی بات ہے کہ علماء کی اس مسئلے میں خاموشی اور بے جا احتیاط نے معاملہ کو خلط ملط کردیا ہے جس میں راہ اعتدال کہیں گم ہوگئی ہے اور لوگ افراط و تفریط کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔جبکہ مسئلہ تکفیراس قدر نازک ہے کہ اس میں افراط و تفریط کی نہ صرف یہ کہ کوئی گنجائش نہیں بلکہ تکفیرمیں افراط و تفریط انتہائی خطرناک بھی ہیں کہ دونوں ہی مسلمان کو دائرہ اسلام سے باہر لا کھڑا کرتی ہیں۔

علمائے کرام نے جائز تکفیر کو شجر ممنوعہ بنا کر معاملات کو اتنا الجھا دیا ہے کہ ایک عام شخص نہ صرف یہ کہ کفر اور شرک میں مبتلا شخص کو کافر نہیں کہتا بلکہ انکے کفر اور شرک میں شک کرتے ہوئے انہیں مشرک و کافر بھی سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔جبکہ جتنی کسی مسلمان کی ناحق تکفیرخطرناک ہے اتنا ہی کافرکے کفر میں شک بھی خطرناک ہے کیونکہ جس طرح کسی کی ناجائز تکفیر کرنے والا خودکافرہو جاتاہے اسی طرح کافر کے کفر میں شک کرنے والا شخص بھی کافر ہوجاتاہے۔لہذا مسئلہ تکفیر میں راہ اعتدال یہ ہے کہ کفر اور شرک کے مرتکب کو کافراور مشرک سمجھا جائے اور اسکے کفر اور شرک میں کوئی تردداور شک نہ کیا جائے اور نہ ہی بلا دلیل کسی مسلمان پر کافر ہونے کا فتویٰ چسپاں کیا جائے۔

بعض علماء نقصان اور فتنے کے خوف سے بھی کفریہ اور شرکیہ عقائد کے حاملین کے کافر ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے۔اور گول مول بات کرتے ہیں۔اور بعض علماء تساہل کا عارضہ لاحق ہونے کی بنا پرہر کلمہ گو کو دائرہ اسلام کے اندر رکھنے پر سارا زور صرف کرتے نظر آتے ہیں چاہے بعض کلمہ گو شرک اور کفر کی انتہاء ہی کو کیوں نہ چھو لیں۔علماء کے اس بدترین تساہل کی مثال انکا دیوبندی اور بریلوی عوام کے ساتھ انکے علماء کو بھی پکا اور سچا مسلمان قرار دینا ہے حالانکہ ان میں سے اکثریت کا شرک اکبر میں ملوث ہونااظہر من الشمس ہے۔ان متساہلین اور حق بات کہنے سے خوف زدہ علماء کی بلاوجہ کی احتیاط اور سکوت، انکا دو ٹوک بات نہ کرنا اور مبہم اور الجھی ہوئی باتوں سے سائلین کو مطمئن کرنے کی کوشش کرناہی عوام الناس کی گمراہی کا سبب بنتا ہے۔

ملاعلی قاری وحدۃ الوجود کے بارے میں لکھتے ہیں: ہر آدمی کو چاہیے کہ ان کی فرقہ پرستی اور نفاق کو لوگوں کے سامنے بیان کردے کیونکہ علماء کا سکوت اور بعض راویوں کا اختلاف اس فتنے اور تمام مصیبتوں کاسبب بننا ہے۔(الرد علی القائلین بوحدۃ الوجود،صفحہ 156،بحوالہ تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات، جلددوم، صفحہ468)

اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہم شرعی مسائل میں علماء کا سکوت اور اختلاف ایک فتنے کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور عوام الناس ان فتنوں کا باآسانی شکار ہوجاتے ہیں اس لئے علماء کی ذمہ داری بہت بڑی اور بھاری ہے کیونکہ انکی گمراہی خلق کی گمراہی ہے۔انہیں چاہیے کہ تساہل ، خوف اور اختلاف کو بالائے طاق رکھ کردو ٹوک انداز میں شرعی مسائل( خصوصاً وہ مسائل جن کا تعلق انسانی عقیدے سے ہے) بیان کریں اور معاملات کو بلاوجہ الجھا کر فتنہ پید ا نہ کریں۔

علماء کے اسی تساہل ، فضول کی احتیاط اور ناجائز مصلحت کی بنا پر مسئلہ تکفیر سے متعلق معاشرے میں پیدا ہونے والے اور تیزی سے پھیلنے والے مندرجہ ذیل دو اصولوں کے درست یا نادرست ہونے کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں پیش کرکے لوگ کفار اور مشرکین کی تکفیر سے دامن بچا لیتے ہیں۔

پہلا اصول: کفر اور شرک کا مرتکب مسلمان کافر اور مشرک نہیں ہوتا۔
دوسرا اصول: کسی شخص کا فعل اور عقیدہ تو شرکیہ اور کفریہ ہوسکتا ہے لیکن اسکے اس فعل یا عقیدہ کی بنا پر اسے کافر اور مشرک نہیں کہا جاسکتا۔

متذکرہ بالا اصولوں کا کوئی سراغ یا نشان ماضی میں نہیں ملتا اور نہ ہی یہ نظریہ اور قاعدہ سلف صالحین و محدثین سے ثابت ہے بلکہ یہ متاخرین کی اختراع ہے۔ جیسا کہ ابوعبداللہ عبدالرحمن بن عبدالحمید المصری فرماتے ہیں: عمومی طور پر تکفیر معین سے رک جانا اور مطلقاً یہ کہنا کہ یہ کفریہ فعل تو ہے مگر جب کوئی شخص اس کفریہ فعل کا ارتکاب کرتا ہے تو ہم اسکو کافر نہیں کہہ سکتے!! یہ نظریہ لغو اور لایعنی ہے۔
یہ رائے احکام شریعت کو باطل قرار دینے کے مترادف ہے۔یہ نظریہ ایسی بدعت ہے جو طریقہ رسول ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ، تابعینؒ اور علماء امت ؒ کے اجماع کے برعکس ہے۔
(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم،صفحہ 93)

ویسے تو ان ہر دو اصولوں کے باطل ہونے کے لئے یہی ایک بات کہ یہ متاخرین کی ایجاد ہے کافی ہے۔کیونکہ دو ر جدید کا کوئی بھی فعل، عقیدہ اور نظریہ وغیرہ جو تسلسل سے پیچھے ماضی کی طرف نہ جاسکے تو یہ اس نظریہ و عقیدے کے غیر شرعی ہونے کی واضح دلیل ہے۔ لیکن پھر بھی ہم اس مسئلہ پر مقدور بھرقدرے تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ ہم باقاعدہ سلف صالحین کی تحاریر اور حوالہ جات سے ان بدعی اصولوں کارد کریں بہت بہتر معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ تکفیر سے متعلق ایک اہم ترین حدیث کا صحیح محمل واضح کردیں۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے بھی کسی بھائی کو کہا کہ اے کافر! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہوگیا۔(صحیح بخاری، کتاب الادب)

اس حدیث کی تشریح میں مولانا داود راز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس کو کافر کہا وہ واقعہ میں کافر ہے تب تو وہ کافر ہے اور جب وہ کافر نہیں تو کہنے والا کافر ہوگیا.....اس حدیث سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہیے جو بلا تحقیق محض گمان کی بنا پر مسلمانوں کو مشرک یا کافر کہہ دیتے ہیں۔ (صحیح بخاری، ترجمہ و تشریح داود راز رحمہ اللہ، جلد 7، کتاب الادب، صفحہ 472)

یہ وہ حدیث ہے جس کا درست معنی و مطلب سمجھنے میں کئی لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے حتی کہ اسی حدیث کی بنا پرلوگ اس شخص کی تکفیر سے بھی رک گئے جس کا کفر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔حالانکہ مذکور حدیث اور اسکی تشریح سے روشن ہے کہ یہ حدیث محض اس شخص کے کافر ہوجانے کے بارے میں ہے جو ناحق کسی کی تکفیر کرتا ہے ناکہ اس شخص کے بارے میں جس کی تکفیر دلائل کی بنیاد پر ہو۔

شیخ عبدالمنعم مصطفی حلیمہ ابوبصیرالطرطوسی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: اسی طرح محض ظن و تخمین اور مرجوع و متشابہ امور کی بنا پر کسی مسلمان کو کافر قرار دینا بھی درست نہیں ہے، الا کہ اس سے ایسا کھلا کفر صادر ہو، جس میں کسی تاویل و توجیہ کی گنجائش نہ ہو اور ہمارے پاس اس سے متعلق کتاب اللہ اور سنت رسول سے کوئی صریح دلیل موجود ہو۔(عقیدہ طایفہ منصورہ، صفحہ 27)

معلوم ہوا کہ اگر کسی کے کفر اور شرک پر قرآن و سنت کی دلیل موجودہو تو ایسے شخص کو کافر قرار دیا جاسکتا ہے۔اس کے برعکس کچھ لوگ وجہ بے وجہ ذاتی عناد اور مخالفت کی بنا پر اٹھتے بیٹھتے لوگوں کافر کہتے رہتے ہیںیہ رویہ یقیناًقابل مذمت اور خطرناک ہے۔ اسی اشکال کا جواب دیتے ہوئے محدث گوندلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ اس حدیث کا نہ صحیح محمل سمجھا، نہ کفر کا مفہوم معلوم کیا۔حدیث کا صحیح محمل محدثین نے بتایا ہے کہ کسی مسلمان کو مسلمان سمجھتا ہوا کافر کہے تو اس پر یہ فتویٰ چسپاں ہوتاہے۔ (مقالات محدث گوندلوی رحمہ اللہ، صفحہ 164)

پتا چلا کہ کسی کو کافر سمجھتے ہوئے کافر کہا جاسکتا ہے اس سے کافر کہنے والاوہ شخص خود کافر نہیں ہوتا۔اور یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اگر کوئی شخص کسی غلط فہمی کی بنا پر کسی مسلمان کو کافر کہہ دے یعنی اس نے یہ سمجھا کہ یہ کفر ہے حالانکہ وہ کفر نہیں تھا تو بھی اس بنیاد پر کسی شخص کو کافرکہنے والا غلط فہمی کی بنا پر خود کافر نہیں ہوگا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے: ’’اگر کسی نے کوئی وجہ معقول رکھ کر کسی کو کافر کہا یا نادانستہ، تووہ کافرنہیں ہوگا‘‘ پھر اپنے استدلال کو ثابت کرنے کے لئے اس باب کے تحت وہ یہ حدیث لائے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حاطب بن ابی بلتہ کے متعلق کہا کہ وہ منافق ہے۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: ’’عمر! تو کیا جانے اللہ تعالیٰ نے تو بدر والوں کو عرش پر سے دیکھا اور فرمادیا کہ میں نے تم کو بخش دیا۔(صحیح بخاری)

حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ اس مسئلہ کی توضیح میں رقم طراز ہیں: امام بخاری نے اپنی کتاب میں یہ مسئلہ ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو کسی تاویل کی بنا پر کافرکہے تو کافر نہیں ہوتا۔آگے اسکی سند میں حدیث لائے ہیں کہ حضرت عمر نے حاطب صحابی بدری کو منافق واجب القتل کہا، مگر حضرت عمر اس سے کافر نہیں ہوئے اس طرح جو شخص کسی بزرگ یا ولی اللہ کو اس بنا پر کافر کہے کہ اس بزرگ کی طرف سے اس کو ایسا کلمہ وکلام پہنچا ہے جس کو وہ کفر سمجھتا ہے، خواہ اس بزرگ نے وہ کلام نہ کہا ہو یا کہا ہو مگر حقیقت کے اعتبار سے کفر کا کلام نہ ہو اس نے اس کلام سے کفر سمجھا ہو تو غلط فہمی کی بنا پر اس کو کافر کہنے والے کو کافر نہیں کہہ سکتے۔ ہاں البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ جس بزرگ کے ایمان کی شہادت کتاب وسنت میں تواتر کے ساتھ پائی جاتی ہو ایک شخص اس تواتر کے مقابلہ میں اس کو کافر کہتا ہو تو اس کے کفر میں بحث ہوسکتی ہے۔(مقالات محدث گوندلوی، صفحہ 164)

پس مندرجہ بلا تصریحات سے معلوم ہوا کہ کفر اور شرک میں مبتلا شخص ، افراد اور گروہ کو کافر کہنا اور سمجھنا جائز اور درست ہے۔البتہ بغیر علم ، ذاتی بغض و عناد اوربلا تحقیق کسی شخص کو کافر کہنا انتہائی خطرناک ہے بلکہ بعض اوقات باعث کفر ہے خصوصاً اس وقت جب کافر قرار دیا جانے والا شخص کفر سے متصف نہ ہو۔

اس سلسلے میں سب سے اہم ترین بات جو بہت سے شکوک شبہات زائل کردیتی ہے یہ ہے کہ اس حدیث میں واردکفر سے مراد حقیقی کفر نہیں بلکہ کفر دون کفر ہے۔ حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث میں کفر سے مراد اس کا حقیقی معنی نہیں بلکہ اس جملہ ’’کفر دون کفر‘‘ میں جو کفر کا معنی ہے وہی یہاں مراد ہے یعنی گناہ نہ کہ کفر حقیقی جس سے انسان ملت سے خارج ہوجاتا ہے۔ (مقالات محدث گوندلوی، صفحہ 164)

بس اس تفصیلی وضاحت سے اظہر من الشمس ہوگیا کہ کسی مسلمان کی ناجائز تکفیرکرنے والا بھی اپنے اس عمل کی بنا پر کافر نہیں ہوتا بلکہ صرف گناہ گار ہوتا ہے اورمسلمان ہی رہتا ہے۔پھر بھی اس حدیث کی وجہ سے ایسے خوف میں مبتلا ہونا کہ کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھنے والے لوگوں کی بھی تکفیر نہ کرنا کسی طور درست رویہ نہیں۔پھر ایسا رویہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ تکفیر نہ کرنے والا شخص کافر کے کفر میں شک کررہا ہے جو کہ اسکو حقیقی کفر میں مبتلا کردیتا ہے۔

ابوعمر الکویتی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: جو شخص مشرکوں کو کافر نہیں سمجھتا یا ان کے کفر میں شک کرتا ہے یا ان کے مذہب کو صحیح سمجھتا ہے تو یہ شخص کافر ہے۔شک کا مطلب یہاں یہ ہے کہ کوئی مسلمان اس شخص کے کافر ہونے میں شک کرے جسے امت محمدیہ نے بالاتفاق کافر قرار دیا ہو جیسے عیسائی، مشرکین وغیرہ۔
مشرکین سے مراد دور جاہلیت کے مشرکین بھی مراد ہیں جو خود کو مشرک ہی قرار دیتے تھے اور موجودہ دور کے مشرک بھی مراد ہیں جو دعوی تو اسلام اور ایمان کا کرتے ہیں مگر اللہ کا حق غیرو ں کو دیتے ہیں۔
(میراث الانبیاء،صفحہ 44)

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کافر کے کفر میں شک کرنے والے بارے میں فتویٰ ہے: ان لوگوں یعنی دروزیوں کے کافر ہونے کا مسئلہ ایسا ہے جس میں مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ۔ بلکہ ان کے کافر ہونے میں جو شخص شک کرے وہ بھی انہیں کی طرح کافر ہے۔(مشرک اور بے نمازی شخص کے ذبیحہ کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ 56)

تنبیہ: یاد رہے کہ غیر اللہ کی عبادت جیسے غیراللہ سے استعانت اور استغاثہ بھی شرک اکبر اور باعث ارتدادہے جو کسی شخص کو دائرے اسلام سے خارج کردیتا ہے ۔اس پر بھی مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں لہٰذا ایسے لوگوں کے کفر میں شک کرنا بھی خود اپنے ایمان سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔ جیسے شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں: اسی طرح جو شخص مسلمان کہلاتا ہو مگر غیر اللہ کو پکارتا ہو ....غیر اللہ کے سامنے فریاد کرتا ہو تو ان کا ذبیحہ بھی کفار اور زنادقہ کی طرح ہے ان کا ذبیحہ بھی حرام ہے جس طرح ان کافروں کا ذبیحہ حلال نہیں ، اس لئے کہ یہ شرک کرتے ہیں اور اسلام سے مرتد ہوچکے ہیں۔(مشرک اور بے نمازی شخص کے ذبیحہ کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ 27)

ایک اور مقام پر رقم طراز ہیں: اگر ایک شخص واضح طور پر شرک کرتا ہے تو وہ مرتد ہے۔ اور اس کا ذبیحہ کوئی کھاتا ہے تو اسے مردار کھانے والا ہی کہا جائے گا۔(مشرک اور بے نمازی شخص کے ذبیحہ کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ 39)

مزید فرماتے ہیں: ذبح کرنے والا دعوی مسلمان ہونے کا کرتا ہے مگر ایسے فرقے سے تعلق رکھتا ہے جو کہ غیر اللہ سے مدد طلب کرنا جائز سمجھتا ہے... تو اس کا ذبیحہ ان مشرک بت پرستوں کی طرح ہے جو لات ، عزیٰ، مناۃ، ود،سواع، یعوق اور یغوث کی عبادت کرتے تھے۔ کسی مسلمان کے لئے ان کا ذبیحہ کھانا حلال نہیں ہے اس لیے کہ ان کا ذبیحہ مردار کی طرح ہے بلکہ اس سے بھی براہے۔ اس لیے کہ یہ شخص اسلام سے مرتد ہے اور خود کو اسلام پر سمجھتا ہے ۔ مرتد اس لیے کہ اس نے غیر اللہ کے پاس پناہ حاصل کی ہے خود کو غیر اللہ کا محتاج بنالیا ہے۔ (مشرک اور بے نمازی شخص کے ذبیحہ کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ 53)

غیر اللہ کی عبادت کرنے والے شخص کو(چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم) کافر اور مشرک نہ سمجھنے والے کا خود اپنا بھی ایمان درست نہیں ۔

امین اللہ پشاوی حفظہ اللہ مجموعۃ التوحید (1/50,53) سے نقل کرتے ہیں: موحد کے لئے ضروری کہ طاغوت کا انکار کرے اور کلمہ اخلاص اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا جب تک اللہ کی عبادت میں شریک کرنے والوں کو کافر نہ سمجھے۔(مشرک اور بے نمازی شخص کے ذبیحہ کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ 20)

توحید کا مخالف صرف مشرک نہیں ہوتا بلکہ اس زمرہ میں کچھ نام نہادموحدین بھی آتے ہیں۔ملاحظہ فرمائیں:توحید کے مخالفین کی اقسام بتاتے ہوئے امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
1۔ ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں مگر شرک کا انکار نہیں کرتے اور نہ ہی مشرکین سے نفرت و دشمنی کرتے ہیں۔ یہ بھی مشرک ہیں۔
2۔ مشرکوں سے نفرت اور دشمنی تو کرتے ہیں مگر انہیں کافر نہیں سمجھتے لہٰذا یہ بھی انہی کی طرح ہیں۔
3۔ توحید سے نہ محبت رکھتے ہیں نہ نفرت۔یہ بھی کافر ہیں۔
4۔ شرک سے نہ نفرت کرتے ہیں نہ محبت۔ یہ بھی مشرک ہیں۔
5۔ نہ شرک کو جانتے ہیں نہ اس کا انکار کرتے ہیں یہ بھی کافر ہیں۔
6۔ سب سے زیادہ خطرناک وہ ہیں جو توحید پر عمل کرتے ہیں مگر توحید کی نہ تو قدر جانتے ہیں نہ تارکین توحید سے نفرت کرتے ہیں نہ انہیں کافر سمجھتے ہیں۔
جب یہ سب مشرک ہیں تو ظاہر ہے کہ بہت کم لوگ موحد رہ گئے۔
(مشرک اور بے نمازی شخص کے ذبیحہ کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ 21)

دیکھ لیں کہ کسی مشرک کے شرک اور کافر کے کفر میں شک کرنا کتنا سنگین مسئلہ ہے کہ خود مسلمان کا اپنا ایمان ختم ہوجاتا ہے اور وہ بھی مشرکین اور کفار کی صف میں کھڑا ہوجاتاہے۔

پس معلوم ہوا کہ صرف یہ کافی نہیں کہ انسان خود موحد ہوجائے بلکہ توحید کے منکروں اور توحید میں شرک کا پیوند لگانے والوں کے کافر اور مشرک ہونے کا جب تک اعتقاد نہ رکھے گااس وقت تک خود اسکے اپنے ایمان کی سلامتی ممکن نہیں۔ان لوگوں کو ڈرنا چاہیے اور اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے جو خود تو شرک نہیں کرتے لیکن شرک کرنے والے مسلمانوں کوکافر اور مشرک بھی نہیں سمجھتے ۔

اس اہم اور کسی قدر طویل تمہیدکے بعد واضح ہوا کہ جائز تکفیر میں رکاوٹ مندرجہ بالا حدیث کا صحیح فہم حاصل نہ ہونا ہی ہے۔چناچہ مذکورہ حدیث کی صحیح وضاحت کے بعد اب اصل مسئلہ کو سمجھنے میں کوئی دقت و پریشانی نہیں ہوگی ان شاء اللہ۔لہذا اب اصل مسئلہ پر دلائل حاضر خدمت ہیں:

01۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِآٰی اَوْلِیٰٓءِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْھُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْن (سورۃ الانعام: 121)’’اور اسے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیاہو بے شک ایسا کرنا فسق ہے اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑا کریں لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کرلی تویقیناًتم بھی مشرک ہو‘‘

اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب مومنین سے ہے جس سے ثابت ہوتا کہ اگر مسلمان بھی شرک کرے گا تو اسے مشرک ہی کہا جائے گا جیسا کہ خود اللہ نے مسلمانوں کے شرک میں مبتلا ہونے کی صورت میں انہیں مشرک کہا ہے۔

اس قرآنی آیت کی تشریح میں ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ نے لکھا ہے : معلوم ہوا کہ مسلمان اگر مشرکین کے عقائد میں ان کی پیروی کرے گا تو مشرک کہلائے گا۔(کلمہ گو مشرک، صفحہ 91)

اس آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیررحمہ اللہ رقم طراز ہیں: اگر تم نے ان کی بات مان لی اور میتہ کو بھی حلال سمجھنے لگے تو تم بھی مشرک قرار پاؤ گے۔ (تفسیر ابن کثیر، جلد دوم، صفحہ 108)
پھر مزید فرماتے ہیں: اگر تم ان کی دلیل کے دھوکے میں آجاؤ گے تو تم بھی مشرک بن جاؤ گے۔ (تفسیر ابن کثیر، جلد دوم، صفحہ 109)

محمد اسلم شیخوپوری دیوبندی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: زیر نظر آیت کریمہ میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ جن جانوروں پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو ان کا گوشت کھانے سے باز رہو کیونکہ ایسا کرنا فسق اور نافرمانی ہے اور اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کرلی تو تم بھی ان کی طرح مشرک ہوگے اس لیے کہ اللہ کے مقابلے میں کسی دوسرے کو شارع اور قانون ساز تسلیم کرنا شرک ہے۔(تسھیل البیان، جلددوم، صفحہ 499)

دیکھیں!کسی بھی مفسر نے یہ نہیں کہاکہ مشرکین کی بات ماننے یا انکی اطاعت کرنے پر مسلمان کا عمل و عقیدہ تو شرکیہ ہوگا لیکن خود اسے مشرک و کافر نہیں کہا جائے گا۔چناچہ قرآن کی اس آیت کی رو سے مبتدعین کے ہردو اصول (کہ کفر اور شرک کا مرتکب کافر اور مشرک نہیں ہوتا اور اسکا فعل تو مشرکانہ ہے لیکن وہ خود مشرک نہیں) باطل ہیں۔مسلمان جب بھی مشرکین کی اطاعت انکے شرکیہ افعال و عقائد میں کرے گاتو ہر صورت میں مشرک و کافر ہوگا۔جس طرح زنا کے مرتکب کو زانی ،چوری کا ارتکاب کرنے والے کو چور اور ڈاکہ ڈالنے والے کو ڈاکو کہا جاتا ہے اسی طرح کفر کرنے والا کافر، اور شرک کرنے والا مشرک کہلاتا ہے۔جس طرح زانی زنا کے بعد پاکباز نہیں رہتا چورچوری کے بعد امانت دار نہیں رہتا بعینہ اسی طرح شرک اور کفر کرنے والا مسلمان نہیں رہتا کیونکہ یہ تمام اعمال ایک دوسرے کی ضد ہیں ان میں سے کسی ایک عمل کا کسی انسان میں پایا جانا لازمی طور پر دوسرے عمل کی نفی ہے ۔

02۔ اللہ رب العالمین کا فرمان مبارک ہے: وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَھُمْ مُّشْرِکُوْن (سورۃ یوسف: 106) ’’ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان رکھنے کے باوجود مشرک ہیں‘‘
اگرچہ اس آیت کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ مشرکین مکہ کے حق میں نازل ہوئی ہے کیونکہ وہ اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی عبادت میں غیروں کو اسکا شریک ٹھہراتے تھے لیکن اس آیت کا اطلاق ان مسلمانوں پر بھی ہوتا ہے جو دعویٰ اسلام کے باوجود عبادت کے شرک میں مبتلا ہیں جیساکہ سیدنا وکیع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ایک مریض کی بیمار پرسی کے لئے تشریف لے گئے۔ اس کے بازو کو چھوا تو معلوم ہوا کہ اس پر کوئی دھاگہ بندھا ہوا ہے ۔ پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟مریض بولا کسی نے مجھے یہ دھاگہ دم کر کے دیا ہے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اسے کاٹ دیا اور فرمایا کہ اگر تو اسے پہنے ہوئے فوت ہوجاتا تو میں تیری نماز جنازہ نہ پڑھتا، اور پھر قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی کہ: وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَھُمْ مُّشْرِکُوْن (مختصر ہدایۃ المستفید، صفحہ 54)

اسی آیت کے ذیل میں امام ابن القیم رقم طراز ہیں: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان ہونے کے باوجود مشرک ہونے کا بیان فرمایا ہے۔(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ 73)

دو قرآنی آیات کے بعد جو ثابت کرتی ہیں کہ کسی مسلمان کے شرک و کفر میں مبتلا ہونے کا لازمی نتیجہ اسکے کافر اور مشرک ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے،اب اسی مسئلہ پر حدیث رسول ﷺ پیش ہے جو قرآن کی ان آیتوں سے اخذ شدہ استدلال کی تصدیق، تائیدکرتی ہے۔

03۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کسی ایسے مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا جس نے اسلام لانے کے بعد شرک کیا حتیٰ کہ مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آجائے۔(ابن ماجہ،کتاب الحدود،جلد سوم،صفحہ 578، طبع دارلسلام)

جس شخص نے دعویٰ اسلام کے باوجود شرکیہ عمل میں خود کو مبتلا کیا اللہ کے نبی ﷺ نے بھی اس مسلمان کو مشرک کہا کیونکہ شرک وہ فعل ہے جو مسلمان کو مسلمان نہیں رہنے دیتا بلکہ مشرک بنا دیتا ہے اور جب کوئی خود اپنے ہی فعل سے مشرک بن جائے تو پھر اسے مشرک کیوں نہ کہا جائے؟!
قرآن وحدیث کے واضح اور ناقابل تردیددلائل کے بعد تو کسی اور دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن بعض الناس کی تسلی و تشفی کے لئے علمائے کرام کے اقوال و آراء بھی پیش خدمت ہیں تاکہ معلوم ہو کہ علمائے کرام بھی اس سلسلے میں وارد قرآنی آیات اورا حادیث کا وہی مطلب لیتے ہیں جو ہم بیان کررہے ہیں یعنی مسلمان کو شرک کے ارتکاب کے بعد مشرک ہی کہا جائے گا۔

04۔ امام مالک رحمہ اللہ سے جب قدریہ جو مسلمانوں کا ایک قدیم فرقہ ہے سے شادی بیاہ کرنے سے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے قرآن کی یہ آیت پڑھی: وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِک (البقرۃ:221) ’’مومن غلام مشرک سے بہتر ہے۔‘‘ (کتاب السنۃ لابن ابی عاصم رقم: ۱۹۸)

05۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو لوگ انبیاء علیھم السلام اور نیک لوگوں کی قبور کی زیارت کرنے آتے ہیں اور انہیں پکارنے اور ان سے سوال کرنے کی غرض سے آتے ہیں یا اس لیے آتے ہیں کہ ان کی عبادت کریں اور انہیں اللہ کے علاوہ پکاریں تو ایسے لوگ مشرک ہیں۔(الرد علی الاخنائی: ۵۲، بحوالہ کلمہ گومشرک،صفحہ 92)

06۔ امام زجاج رحمہ اللہ نے لکھا: اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جس نے اللہ کی حرام کردہ کسی چیز کو حلال جانا یا اس کی حلال کردہ کو حرام جانا تو وہ مشرک ہے۔(تفسیر بغوی 2 /127)

07۔ ابن العربی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: مومن آدمی جب مشرک کی اطاعت اس عقیدے میں کرتا ہے جو کفر و ایمان کا محل ہے تو مشرک ہوجاتا ہے۔(احکام القرآن 2/752)

08۔ محمد بن صالح العیثمین شرک اکبر کی تعریف میں رقم کرتے ہیں: شرک اکبر ہر وہ شرک ہے جسے شارع علیہ السلام نے شرک اکبر قرار دیا ہے،اس شرک کی وجہ سے انسان دین اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔(اسلام کے تین بنیادی اصول،صفحہ 61، طبع دارلسلام)

شرک اکبر کی اس تعریف سے انتہائی آسانی سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے شرک اکبر میں مبتلا ہوجانے کی وجہ سے مسلمان دائرہ اسلام سے باہر ہوجاتا ہے اور جو دائرے اسلام ہی سے خارج ہو اسکو مسلمان کون کہتا ہے ظاہر ہے وہ کافر اور مشرک کے علاوہ اور کیاہوگا؟

09۔ سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی کے علماء نے کہا: اس کی وجہ یہ ہے کہ تحت الاسباب جو عا م کا معروف ہیں ان سے ہٹ کر مدد طلب کرنا صرف اللہ ہی کے ساتھ خاص ہے کیونکہ یہ عبادت ہے اور جو کسی اور کی عبادت کرے وہ مشرک ہے۔(500 سوال وجواب برائے عقیدہ، صفحہ 181)

صرف کلمہ پڑھ لینے سے مسلمان کا کام ختم نہیں ہوجاتا بلکہ اسے ان تمام امور سے تمام زندگی پرہیز کرنا ہوتا ہے جو نواقض اسلام ہیں جن کو کر لینے کے بعد اسکا دعویٰ اسلام جھوٹا ہوجاتا ہے ان میں سب سے پہلا کام غیراللہ کی عبادت ہے۔پس جس مسلمان نے دعا، نذر ونیاز، استعانت وغیرہ اللہ کے بجائے کسی اور سے کی وہ کافر و مشرک ہوگیا۔ ایسے شخص کو مسلمان سمجھنا خود اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

10۔ حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ ایک سائل کو جواب دیتے ہوئے سپرد قلم کرتے ہیں: یہ بات تو ظاہر ہے کہ اگر تعویذ میں اللہ کے علاوہ کسی اور سے مدد مانگی گئی ہو یا غیر کانام یا ہندسے لکھ کر گلے میں ڈالے جائیں تو یہ صریح شرک ہے اور ایسا کرنے والا مشرک ہے، امام بنانا جائز نہیں۔(مجلہ الدعوۃ، اگست 1995، صفحہ 41)

11۔ ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ سے سوال ہواکہ کلمہ شہادت پڑھنے والے شخص کو مشرک کہا جاسکتا ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے لکھا ہے: جس طرح تبارک وتعالیٰ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہ اکیلا ہی حاجت روا، مشکل کشا، روزی رساں، فریاد رس، گنج بخش، فیض عالم، غوث اعظم، بندہ پرور، اولاد کی نعمتوں سے نوازنے والا نفع و نقصان کا مالک اور تمام کائنات کا منتظم حقیقی ہے اسی طرح فرمانروا اور حلال و حرام کے اختیار کا مالک بھی وہی ہے، اگر کوئی شخص کلمہ شہادت پڑھ کر بھی غیر اللہ کو حلال و حرام کا مالک و مختار اور مشکل کشا و حاجت روا سمجھے تو وہ بھی مشرک کہلائے گا۔ (کلمہ گو مشرک، صفحہ 88)

اور ایک مقام پر رقمطراز ہیں: معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد بھی آدمی شرک کرسکتا ہے اور شرک کرنے کی وجہ سے اسے مشرک کہا جاتا ہے۔(کلمہ گو مشرک ، صفحہ 103)

مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ کا یہ موقف انکی اپنی رائے یا خیال پر مبنی نہیں بلکہ قرآن وحدیث کے دلائل مشتمل ہے جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب کلمہ گو مشرک کے حرف اوّل میں اس بات کی وضاحت کی ہے۔لکھتے ہیں: مسلمانوں کی زبوں حالی دیکھ کر اصلاح عقیدہ کی خاطر یہ کتاب مرتب کی گئی ہے۔ جس میں شرک کی مذمت اور دعوت توحید کو قرآن و سنت کے محکم دلائل سے واضح کیا ہے اور بالتفصیل یہ بات ذکر کی ہے کہ مشرکین عرب اللہ کے علاوہ انبیاء، اولیاء، شہداء، جن و ملائکہ، شجر و حجر وغیر ہا کو مافوق الاسباب قوتوں کا مالک و مختار سمجھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کو ماننے کے ساتھ ان ہستیوں کو بھی پکارتے تھے۔اللہ وحدہ لاشریک نے انکے اس عقیدے کو شرک قرار دیا اور انہیں مشرک کہا اور امت مسلمہ کو یہ درس دیا کہ اگر تم نے ان کی پیروی کی اور ان جیسا عقیدہ اختیار کیا تو کلمہ پڑھنے کے باوجود مشرک گردانے جاؤ گے اور تمہارے تمام اعمال غارت و بیکار ہو جائیں گے کیونکہ اعمال صحیحہ کی قبولیت کا دارومدار عقائد صحیحہ پر ہے۔(کلمہ گو مشرک ، صفحہ 18)

12۔ حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بالکل غلط ہے، اولاً: اس لئے کہ آپ دماغ میں یہ سمجھ رہے ہیں کہ مشرک کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی روحانی ضابطہ حیات کا قائل نہ ہو، حالانکہ شرک اللہ کا انکار یا انبیاء علیھم السلام کی بعثت کے انکار کانام نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص باوجود اسکے کہ وہ خدا کو مانتا ہے اور انبیاء علیھم السلام کی بعثت اور ضابطہ حیات روحانی کا قائل ہو، عبادت میں غیر کو شریک ٹھہراتا ہو۔(مقالات محدث گوندلوی، صفحہ 323)

حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ یہاں مولانا مودودی کی اس غلط فہمی کا ازالہ کررہے ہیں کہ مشرک صرف اللہ کا منکر نہیں ہوتا بلکہ اللہ پر مکمل ایمان رکھنے والا شخص یعنی مسلمان بھی جب اللہ کی عبادت میں غیر کو شریک کر لیتا ہے تو مشرک ہوجاتا ہے۔

موصوف رحمہ اللہ مسئلہ کی توضیح و تشریح کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں: پھر کافر کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ کافر جو دین کے اندر رہتے ہوئے کسی ایسے مسئلے کے انکار کی وجہ سے کافر کہلاتا ہے جو دین کی ضروریات سے ہے۔دوسرا وہ کافر جو نئے دین کی بنیاد ڈال کر پہلے دین سے الگ ہوجاتا ہے۔جیسے نیا مدعی نبوت اور اس کو ماننے والا۔(مقالات محدث گوندلوی، صفحہ 352)

اس عبارت سے بھی معلوم ہوا کہ ضروریات دین کا انکار کرنے والامسلمان کافر ہے ۔نہ کہ محض اسکا عمل کفر اور وہ خود کافر نہیں۔

13۔ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ایک عنوان قائم کرتے ہیں: ’’کیا مسلمانوں کو ان کے مشرکانہ عقائد کی وجہ سے مشرک نہیں کہا جاسکتا؟ ایک مغالطے کی وضاحت‘‘ پھر لکھتے ہیں: ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جو لوگ آستانوں اور قبروں پر جاکر استغاثہ و استمداد کرتے، حتیٰ کہ ان کی قبروں کو سجدے تک کرتے ہیں، انہیں مشرک نہیں کہا جاسکتا، یا انہیں مشرک نہیں کہنا چاہیے، ان کا استدلال یہ ہے کہ قرآن نے مشرکین کی اصطلاح صرف اہل مکہ اور عرب کے دیگر مشرکین کے لئے استعمال کی ہے۔‘‘(شرک کیا ہے اور مشرک کون؟ صفحہ 14)

اس مغالطے کے ازالے کے بعد بطور نتیجہ لکھتے ہیں: اگر صابئین اور مجوس اپنے عقیدوں کے اعتبار سے مشرک ہیں اور انہیں مشرک کہا جاسکتا ہے ، حا لانکہ قرآن نے انہیں مشرک نہیں کہا، بلکہ مشرکین سے الگ ان کا ذکر کیا ہے۔ تو یقیناًیہود و نصاریٰ کو بھی ان کے عقیدوں کی بنا پر مشرک کہا جاسکتا ہے، گو قرآن نے ان کا ذکر مشرکین سے الگ کیا ہے۔ کیونکہ امتیاز کے لئے الگ نام لینا ضروری تھا۔ اسی طرح جو نام نہاد مسلمان مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا ہیں، وہ مسلمانوں میں شمار ہونے کے باوجود ، مشرک کیوں نہیں ہوسکتے ؟ یا انہیں مشرک کیوں نہیں کہا جاسکتا؟ (شرک کیا ہے اور مشرک کون؟ صفحہ18)

پھراپنا فیصلہ ان الفاظ میں دیتے ہیں:
کسی کا امتیازی نام کچھ بھی ہو، لیکن اگر اس کے عقیدہ و عمل میں شرک کی آمیزش پائی جائے، تو اس کے عقیدے کو شرک اور خود اس کو مشرک کہا جاسکتا ہے۔(شرک کیا ہے اور مشرک کون؟ صفحہ20)
مزید فرماتے ہیں:
یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسے بدکاری کے مرتکب کو زانی، چوری کرنے والے کو چور، ڈاکہ مارنے والے کو ڈاکو کہا جاتا ہے اور کہا جائے گا، چاہے وہ کوئی بھی ہو، دنیا کے کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو۔ اسی طرح جو بھی مشرکانہ عقیدہ و عمل کا حامل اور مرتکب ہوگا، اس کے عقیدہ و عمل کو شرک اور خود اسے مشرک کہا جائے گا، چاہے وہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو۔(شرک کیا ہے اور مشرک کون؟ صفحہ21)

حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کا یہ فیصلہ مبتدعین کے ان اصولوں پر کاری ضرب ہے جن پر بحث کی جارہی ہے۔

14 ۔ شیخ سلیمان بن عبداللہ التمیمی احادیث کی تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ یہ لذت و حلاوت اس شخص کو میسر آتی ہے جو کما حقہ تقدیر پر ایمان لے آئے، جبکہ تقدیر کا انکار کرنے والا لذت ایمانی سے محرومی کے ساتھ کافر قرار پاتا ہے۔(توحید الہٰ العالمین،صفحہ 633)

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو شخص تقدیر کا یعنی اللہ تعالیٰ کے علم سابق کا انکار کرے گا وہ کافر ہے، اور یہ بات بہت سے علماء سلف سے بھی منقول ہے۔(توحیدالہٰ العالمین،صفحہ 634، ترجمہ ازپروفیسر عبداللہ ناصر رحمانی)

قدریہ مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے جو تقدیر کا منکر ہے۔ لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تقدیر کا انکار کرنے کی صورت میں ایک مسلمان کافر ہوجاتا ہے اور اسے کافر ہی کہا جاتا ہے۔

15۔ مفتی عبدالشکور قاسمی دیوبندی اصلی کافر اور مسلمان کافر کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جو لوگ دین اسلام کو مانتے ہی نہیں وہ ’’کافر اصلی‘‘ کہلاتے ہیں۔ اور جو لوگ خاتم الانبیاء والمعصومین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین میں سے کسی بات کا انکار کریں یا مذاق اڑائیں وہ ’’کافر‘‘ کہلاتے ہیں۔(کفریہ الفاظ اور انکے احکامات، صفحہ 22)

اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بات میں دیوبندیوں کو بھی کوئی اختلاف نہیں کہ کفر میں مبتلا ہوجانے سے مسلمان بھی کافر ہوجاتاہے اور اسے کافر ہی کہا جاتا ہے۔بلکہ عبدالشکور قاسمی مرحوم کی کتاب ’’کفریہ الفاظ اور انکے احکامات‘‘ ان جملوں و الفاظ سے بھری پڑی ہے جن کے زبان سے ادا کرنے پر ان کے نزدیک ایک مسلمان اسلام سے خارج ہوکر کافر ہوجاتا ہے۔ مثلاً

ا۔ جس شخص نے اپنے ایمان میں شک کیا اور یہ کہا کہ ’’میں مومن ہوں ان شاء اللہ‘ ‘ تو وہ کافر ہے۔(کفریہ الفاظ اور انکے احکامات، صفحہ 33)

ب۔ وہ شخص کافر ہوجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف کسی ایسے وصف کی نسبت کرے جو اس کی شان کے لائق نہیں یا اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے کسی نام کا یا اس کے احکام میں سے کسی حکم کا مذاق اڑائے یا اس کے وعدوں اور وعیدوں کا انکار کرے یا کسی کو اس کا شریک یا بیٹا اور یا بیوی ٹھہرائے یا اس کی طرف جہل کی یا عجز کی یا بھول کی یا کسی اور خرابی کی نسبت کرے، یہ کہنے والا کافر ہے۔اگر کوئی شخص یوں کہے کہ ’’اگر اللہ تعالیٰ مجھے یہ کام کرنے کا حکم دے تو میں جب بھی یہ کام نہ کروں ‘‘ تو وہ کافر ہوجائے گا۔کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم مان لیا گیا تو اس سے انحراف کفر اور مذکورہ صورت تعلیق کی ہے جس میں کرنا نہ کرنا یقینی نہیں بنتا، لہٰذا کفر لازم آئے گا۔(کفریہ الفاظ اور انکے احکامات، صفحہ 35)

16۔ کفر اور شرک کرنے والے شخص کو کافر نہیں کہنا چاہیے بلکہ صرف اسکے عمل کو کفریہ عمل کہنا چاہیے یہ اصول اس قدر غیر فطری ، غیر حقیقی اوربودا ہے کہ دیوبندیوں کے علاوہ بریلوی حضرات بھی اس اصول کو ماننے کے لئے تیار نہیں ۔ بلکہ کفریہ عمل کے مرتکب کی تکفیر کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔چناچہ بریلوی مسلک کے ’’غزالی دوراں‘‘احمد کاظمی چشتی صاحب دیوبندیوں پر اعتراض کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: اس کے متعلق سردست اتنا عرض کردینا کافی ہے کہ اگر فی الواقع علمائے اہل سنت کی کتابوں میں کوئی توہین آمیز عبارت ہوتی تو علمائے دیوبند پر فرض تھا کہ وہ ان علماء کی تکفیر کرتے جیسا کہ علمائے اہل سنت نے علمائے دیوبند کی عبارات کفریہ کی وجہ سے تکفیر فرمائی ہے۔(الحق المبین، صفحہ 60)

احمد کاظمی چشتی بریلوی تکفیر کے مسئلہ میں اپنا واضح اور دو ٹوک موقف یوں بیان کرتے ہیں: ہمارا مسلک: مسئلہ تکفیر میں ہمارا مسلک ہمیشہ یہی رہا ہے کہ جو شخص کلمہ کفر بول کر ایسے قول یا فعل سے التزام کفر کرلے گا تو ہم اس کی تکفیر میں تامل نہیں کریں گے خواہ وہ دیوبندی ہو یا بریلوی۔(الحق المبین، صفحہ 36)

دیوبندی اور بریلوی علماء کے دو ٹوک موقف کے برعکس بعض الناس مسئلہ تکفیر میں اس قدر تساہل کا شکار ہوئے کہ معاشرے میں ’’کافر کو بھی کافر نہ کہو ‘‘جیسے جاہلانہ جملے زبان و زد عام ہوئے۔حالانکہ تکفیر تودراصل حق اور باطل میں تمیز کرنے کی کسوٹی ہے۔

عبدالرحمن بن عبدالحمید فرماتے ہیں: آجکل یہ بات معروف ہے کہ کافر کو بھی کافر نہیں کہنا چاہیے(انااللہ وانا الیہ راجعون) یہ انتہائی قبیح اور عقیدہ توحید سے منحرفانہ سوچ ہے ایک شخص یا تو مسلمان ہے یا کافر و منافق، کافر کو کافر کہنا تو عقیدہ توحید کی تعلیم ہے جیسا کہ اللہ عزوجل نے سورۃ ممتحنہ میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے عقیدہ کو مومنین و مسلمین کے لئے اسوۃ حسنہ قرار دیا ہے۔(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم،صفحہ92)

کافر کو کافرسمجھنا اور بوقت ضرورت کافر کہنا کیوں ضروری ہے اسکا جواب دیتے ہوئے سید احمد سعید کاظمی چشتی بریلوی رقمطراز ہیں: اس کا جواب یہ ہے کہ کفر و اسلام میں امتیاز کرنا ضروریات دین سے ہے، آپ کسی کافر کو عمر بھر کافر نہ کہیں ، مگر جب ان کا کفر سامنے آجائے تو بر بنائے کفر اسے کافر نہ ماننا خود کفر میں مبتلا ہونا ہے ...اس لیے جب کسی شخص نے معاذاللہ اعلانیہ طور پر التزام کفر کر لیا تو وہ حکم شرعی کی رو سے قطعاً کافر ہے تا وقتے کہ تو بہ نہ کرے اگر کوئی مسلمان ایسے شخص کو کافر نہیں سمجھتا تو کفر و اسلام میں امتیاز نہیں کرتا اور ظاہر ہے کہ کفر و اسلام معاذ اللہ یکساں سمجھناکفر قطعی ہے لہٰذا کافر کو کافر نہ ماننے والا یقیناًکافر ہے۔(الحق المبین، صفحہ 58,57)

ایک ایسا شخص ہی کفر اور شرک کرنے والے کلمہ گو کو مسلمان سمجھ سکتا ہے جوخود دین اسلام کی بنیاد سے ہی ناواقف اور جاہل ہو ورنہ کفر اور شرک کرنے پر مسلمان بھی کافر اور مشرک ہوجاتا ہے اور اسکا دعویٰ اسلام ناقابل اعتبار ہوجاتا ہے۔

17۔ شارح بخاری داؤد راز رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر کوئی عمداً کسی پیر یا بت کی عظمت مثل عظمت الٰہی کے جان کر ان کے نام کی قسم کھائے گا تو وہ یقیناًمشرک ہوجائے گا۔(صحیح بخاری، جلد7، صفحہ 472)

پس معلوم ہوا کہ ایسی صورتیں موجود ہیں جن کا شکار ہونے پرایک مسلمان ،مشرک و کافر ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ اصول باطل ٹھہرا کہ انسان کے عمل کو تو شرک کہاجائے گا لیکن خود اسکو مشرک نہیں کہا جائے گا۔ جب شرک کرنے والے کو مشرک نہیں کہا جائے گا تو کیا شرک نہ کرنے والے موحد کو مشرک کہا جائے گا؟! آخر مشرک کی اصطلاح کس کے لئے ہے؟ کیا صرف غیر مسلم کے لئے؟

بقول مولانا الطاف حسین حالی مرحوم:

کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے

18۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ سورہ نساء کی آیت نمبر 65کے ذیل میں لکھتے ہیں: مسلمان کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس آیت میں اللہ نے قسم کھا کر کہا کہ آپ ﷺ کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنے والا مومن نہیں ہے اور جب آدمی مومن نہیں ہوگا تو پھر کافر ہوگا ورنہ تیسری کوئی صورت نہیں ہے۔(الاحکام فی اصول الاحکام، 1/97)

ابن حزم رحمہ اللہ کے اس قول سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو لوگوں سے سرزد ہونے والے اعمال کو تو شرکیہ اور کفریہ تسلیم کرتے ہیں لیکن ان اعمال کے حاملین کو کافر اور مشرک نہیں سمجھتے حالانکہ یا تو انسان مومن، موحد اور مسلمان ہوتا ہے یا پھر کافر، مشرک اور منافق، لوگوں کی یہ تیسری قسم کہ انسان مسلمان لیکن اسکا عقیدہ اور اعمال شرکیہ اور کفریہ، اس کا ثبوت متقدمین سے نہیں ملتا اور نہ ہی یہ کتاب و سنت کے دلائل سے لوگوں کی اس تیسری قسم کی تائید ہوتی ہے جن میں کفر اور اسلام بیک وقت پائے جاتے ہوں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
حیرت ہے کہ کتاب و سنت کے دلائل کے ہوتے ہوئے بھی کیسے غیر شرعی نظریات معاشرے میں نہ صرف نمو پاجاتے ہیں بلکہ اس قدر جڑ پکڑ لیتے ہیں کہ بعض مخلص اہل علم بھی ان فتنوں کے خلاف سینہ سپر ہوجانے اور ڈٹ کر انکا مقابلہ کرنے کے بجائے ان سے اس قدر مرعوب و خوف زدہ ہوجاتے ہیں کہ ان کو سند جواز عطا کرنے کے لئے کمزور سہارے تلاش کرنے لگتے ہیں اسکی مثالیں ماضی میں بھی ملتی ہیں کہ جب کسی بدعت نے مسلمانوں کے مابین زور پکڑا تو بعض علماء بھی اس کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنے کے بجائے اسکے حامی بن بیٹھے جیسے کہ آج کل کافر کو کافر نہ کہنے کے معاملے میں ہورہا ہے۔

مولانا عبدالغفار محمدی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: برادران اسلام آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب ساتویں صدی کے آغاز میں میلاد کی بدعت ایجاد ہوئی اور لوگوں کے درمیان پھیل گئی کیونکہ اس وقت مسلمانوں کے اندر روحانی اور جسمانی خلا پیدا ہوگیا تھا اس لئے انہوں نے جہاد ترک کردیا تھا اور فتنوں کی اس آگ کو بجھانے میں مشغول ہوگئے تھے جو اسلام کے دشمن یہودیوں عیسائیوں اور مجوسیوں نے بھڑکا رکھی تھی اور یہ بدعت میلاد نفوس میں جڑ پکڑ گئی اور بہت سے جاہلوں کے عقیدے کا جز بن گئی، جس کی وجہ سے بعض اہل علم مثل علامہ سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ دیکھا کہ ایسے شبہات تلاش کرکے اس کے لئے جواز نکالا جائے جن سے اس بدعت میلاد کے جواز پر استدلال کیا جاسکے، اور یہ اس لئے تاکہ عوام الناس بلکہ خواص بھی راضی ہوجائیں اور دوسری طرف علماء کا اس سے رضا مند ہونے اور اس پر حکام اور عوام کے ڈر سے خاموش رہنے کا جواز نکل آئے۔(ہم میلا د کیوں نہیں مناتے؟ بجواب ہم میلاد کیوں مناتے ہیں؟، صفحہ 100)

عبدالغفار محمدی حفظہ اللہ کا یہ درست تجزیہ اس بات کی عکاسی کررہا ہے کہ علماء فتنے ، ایذا دیئے جانے کے خوف، مجرمانہ خاموشی اور اپنے تساہل کو سند جواز عطاکرنے کے لئے بعض اوقات غلط اصول وضع کرتے اور کمزور دلائل سے حقائق پر پردہ ڈالنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کرتے ہیں تاکہ کوئی ان پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ کافر کے بجائے غیر مسلم اور کفار ممالک کے بجائے غیر مسلم ممالک کی اصطلاح کو رواج دینا بھی بعض الناس کی ایسی ہی کوششوں کا شاخسانہ ہے ۔ورنہ قرآن و حدیث میں تومومن و مسلم کے مقابلے پر کافراور منافق کا لفظ استعمال ہوا ہے جبکہ غیر مسلم اور غیر مسلم ممالک کی اصطلاح تو شر القرون کے دور میں کافر کو کافر کہنے سے بچنے کے لئے ایجاد کی گئی ہے ۔

ڈاکٹر سفر بن عبدالرحمن الحوالی یہودیوں سے دوستی کرنے والے مسلمانوں پھر اس دوستی اور یارانے کے سبب انکو کافر نہ کہنے بلکہ اپنے غلط رویے کو درست ثابت کرنے کی خاطر قرآن میں موجود نصوص میں تاویل کرنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ صحیح ہے کہ قرآن مجید میں یوں ہے۔اور پھر تاویل کرنا شروع ہوجاتا ہے۔ کیونکہ وہ ان آیات کا انکار تو نہیں کرسکتا یا انہیں قرآن پاک سے نکال تو نہیں سکتا ، لیکن ان کو معنی و مفہوم سے خالی کردینا چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ نہیں اب تو ہم سب ایک ہی صورتحال میں ہیں اور ہم سب کا ہدف ایک ہے، نظام ایک ہے، آپ ان کو کافر کہوگے؟ یہ تو مشکل ہے۔
اسی لئے آج پورے عالم اسلام کے ریڈیو چینل، عالم اسلام کی صحافت اور عالم اسلام کے ٹیلی ویژن چینلوں پر ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ان کافر ممالک کے بارے میں کہیں کہ یہ کافر ممالک ہیں بلکہ وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ یہ غیر اسلامی ممالک ہیں۔
(تحکیم القوانین، صفحہ 30)

یہ بھی بتاتے چلیں کہ اگر کوئی شخص کفر اور شرک کرکے بھی کافر مشرک نہیں ہوتا یا اسکا عمل تو شرک ہوتا ہے لیکن وہ مشرک نہیں ہوتا، یہ بات کفردون کفر(جسے کفر اصغر) اور شرک دون شرک( جسے شرک اصغر اور شرک خفی بھی کہاجاتا ہے)کی حدتک درست ہے ۔ کفردون کفر اور شرک دون شرک ایسا کفر اور شرک ہے جو مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتا بلکہ شریعت کا ایسے کفر کو کفر کہنا اور ایسے شرک کو شرک کہنا محض تنبیہ اور ڈراوے کے لئے ہوتا ہے جبکہ یہ حقیقی کفر اور شرک نہیں ہوتاجو مسلمان کو اسلام کی حدود سے باہر پھینک دیتا ہے۔

مفسر قاسمی کے حوالے سے عبدالرحمن بن عبدالحمید المصری لکھتے ہیں: وہ اپنے اس کلام میں شرک اکبر مراد نہیں لے رہے جو اسلام سے خروج کا سبب بنتا ہے بلکہ وہ ان گناہوں کے متعلق بحث کررہے ہیں جن کو بطور تشدد شرک کہا گیا ہے ....حدیث میں جہاں کہیں بھی یہ الفاظ موجود ہیں کہ ’’جس نے ایسا کیا وہ مشرک ہے یا جس نے یہ کام کیا اس نے کفر کیا‘‘ تو ان الفاظ سے مراد شرک اکبر یا ایسا کفر نہیں ہوتا جو اسلام سے خارج کردیتا ہواور مرتد بنا دیتا ہو ...یہاں پر کفر سے مراد چھوٹا کفر ہے۔

آگے لکھتے ہیں: یہ قول صرف ان گناہوں کے متعلق ہے جن کو مجازاً بطور سختی کفر یا شرک کہا گیا ہے۔(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ71)

اب اسکی امثال ملاحظہ کریں:

عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے، بد شگونی لینا شرک ہے۔(جامع ترمذی)
مولانا عبدالرحمن مبارکپوری اس حدیث کی توضیح میں فرماتے ہیں: آپ ﷺ کا فرمان ’بدشگونی شرک ہے‘ یعنی لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ بدشگونی نفع لاتی ہے یا نقصان دور کرتی ہے تو جب انہوں نے اسی اعتقاد کے مطابق عمل کیا تو گویا انہوں نے اللہ کے ساتھ شرک خفی کا ارتکاب کیا۔(تحفۃ الاحوذی، جلد 5، صفحہ 197)

شیخ سلیمان بن عبداللہ التمیمی کہتے ہیں: غیر اللہ کی قسم کو اگرچہ کفر اور شرک سے تعبیر کیا گیا ہے لیکن یہ ایسا کفر نہیں جو ملت اسلامیہ سے خارج کردے، بلکہ یہ شرک اصغر ہے۔(توحیدالہٰ العالمین،صفحہ 545، ترجمہ ازپروفیسر عبداللہ ناصر رحمانی)

ارشاد اللہ مان حفظہ اللہ لکھتے ہیں: شرک اصغر: اس میں ریا کاری اور غیر اللہ کی قسم اٹھانا وغیرہ شامل ہیں۔(حق کی تلاش، صفحہ 105)

اللہ کی نازل کردہ شریعت سے ہٹ کر فیصلے کرنا کفر اکبر ہے لیکن ایک صورت میں ایسا کرنا کفر اصغر ہے جیسا کہ ڈاکٹر سفر الحوالی فرماتے ہیں: اس نے بغیر ما انزل اللہ کا فیصلہ کیا حالانکہ وہ اپنے نفس میں ما انزل اللہ کے مطابق فیصلے کرنے کا اعتقاد رکھتا ہے اور یہ بھی یقین رکھتا ہے کہ قانون یا شریعت وہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مشروع کیا ہے۔اور یہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا دین ہے جبکہ یہ اس کے برخلاف ہے لیکن اسے اس کی خواہش اور شیطان کی اتباع اور معصیت نے ابھارا تو اس حال میں یہ ملت سے خارج نہیں ہوگا۔(تحکیم القوانین،صفحہ 92)

اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لیکن جو غیر ما انزل اللہ سے خواہش کی پیروی کرتے ہوئے یارشوت کے لئے یا جس کا فیصلہ ہے اس کے ساتھ ذاتی عداوت کی وجہ سے یا کسی اور سبب سے فیصلے کرے اور وہ جانتا بھی ہو کہ اس میں وہ اللہ کا نافرمان ہے اور اس پر واجب یہی ہے کہ وہ اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرے تو اس کا شمار گنہگاروں اور اہل کبائر میں سے ہوگا۔ اوروہ کفر اصغر کا مرتکب ہوگا۔(تحکیم القوانین،صفحہ 94)

ان حوالہ جات سے علم ہوا کہ اگر کوئی شخص غیر اللہ کی قسم کھاتا ہے یا بدشگونی لیتا ہے یا ذاتی خواہشات کی بنا پر ما انزل اللہ کے خلاف فیصلہ کرتا ہے تو اس کے اس عمل کو شرکیہ اور کفریہ عمل کہاجائے گا لیکن خود اسے اس شرکیہ و کفریہ عمل کی بنا پر مشرک یا کافرنہیں کہا جاسکتا ۔لیکن یاد رہے کہ کفر اکبر یا شرک اکبر کے ارتکاب کی صورت میں اس کے عمل کو بھی شرکیہ عمل کہا جائے گا اور خود اسے بھی مشرک اور کافر کہا جائے گا۔لہذا زیر بحث اصول شرک اصغر یا کفر اصغر کی حدتک تو درست ہے لیکن کفر اکبر یا شرک اکبر کی صورت میں یہ اصول باطل ہے۔

مطلب اگر اس اصول کی مندرجہ بالا طریقے پریعنی شرک دون شرک اور کفر دون کفر کی صورت میں تحدید اور حد بندی کردی جائے تو قابل قبول ہے لیکن مطلق طور پر یہ اصول خاص طور پر شرک اکبر کے لئے ناقابل قبول اور شریعت سے متصاد م ہے۔اور اصل مسئلہ یہی ہے کہ اس اصول کو مطلقاًپیش کیا جاتا ہے جو کہ مردود ہے۔

یہ بات ہمیشہ یادرکھنے کے لائق ہے کہ جب کوئی مسلمان شرک اکبر یا کفر اکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اس کی وجہ سے وہ بلاشبہ کافر اور مشرک ہوجاتا ہے اور اسکی متعین تکفیر کی جاسکتی ہے۔ ہاں ! البتہ اگر کفر اسلام کی بنیاد یعنی توحید کے علاوہ ہے تو اسے نامزدیا متعین کرکے کافر و مشرک کہنے کے لئے یقیناًکچھ موانع تکفیر ہوتے ہیں لیکن ہر جگہ نہیں اور ہر صورت میں نہیں۔صرف کچھ مخصوص صورتیں ایسی ہیں جہاں تکفیر کے لئے کچھ نہ کچھ روکاوٹیں موجود ہوتی ہیں لیکن انہیں بھی باآسانی دور کیا جاسکتا ہے۔جس طرح عوام الناس کا خیال ہے کہ کوئی مسلمان شرک اور کفر کی کسی بھی اونچی سے اونچی انتہاء پر پہنچ جائے پھر بھی اس پر اتمام حجت کی جائے گی اور اس کی تکفیر میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کیا جائے گا حالانکہ رکاوٹ کو اس وقت دور کیا جائے گا جب حقیقت میں کوئی رکاوٹ ہوگی جبکہ اکثر اوقات شرک اکبر کی صورت میں تکفیر کے لئے کوئی مانع نہیں ہوتا،لہٰذا عوام الناس کا خیال غلط ہے اور اس سلسلے میں وہ شبہات میں مبتلا ہیں۔ تفصیل اس کلام کی یہ ہے:

ابو الحسن مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو اہل توحید قبر پرستوں کو کافر سمجھتے ہیں، ان کے لیے یہ درست نہیں کہ اپنے ان اہل توحید بھائیوں کو کافر کہیں جو قبر پرستوں کو کافر قرار دینے میں تامل کرتے ہیں۔ اصل میں ان کے سامنے یہ فتویٰ لگانے میں ایک شبہ ہے وہ یہ کہ ان قبر پرستوں کو کافر قرار دینے سے پہلے ان پر اتمام حجت کرنا ضروری ہے بخلاف غیر مسلموں کے مثلاً یہودی ، عیسائی اور کمیونسٹ کے، ان کے کفر میں کوئی شبہ نہیں اور جو انہیں کافر نہیں سمجھتا اس کا کفر بھی واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کے حالات درست فرمائے اور دین کی سمجھ عطا فرمائے۔(کلمہ گو مشرک، صفحہ 123)

معلوم ہوا کہ قبر پرست مسلمان جن کی اکثر تعداد بریلوی مسلک میں پائی جاتی ہے انہیں کافر کہنے کے لئے اتمام حجت کی قطعی ضرورت نہیں کیونکہ انکی اتمام حجت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ایک مسلمان ملک میں رہائش پذیر ہیں جہاں علم تک ان کی باآسانی رسائی ہے اور علمائے حق موجود ہیں جو حق کو باطل کی آمیزش سے علیحدہ کرنے کا فریضہ جانفشانی سے مسلسل سرانجام دے رہے ہیں جن کی جانب رجوع کرکے جہالت کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اسی بات کو بیان کرتے ہوئے مبشر احمد ربانی رقمطراز ہیں: دوسرا گروہ حق اور ہدایت کی طرف بلاتا ہے اور اس کے بارے میں کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ ﷺ سے دلائل پیش کرتا ہے اور فریق مخالف کے دعووں کی غلطی اور فریب کو واضح کرتا ہے۔ اس فریق نے حق کو واضح کرنے اور خاص و عام تک پہنچانے میں جو کوششیں کی ہیں وہ قیام حجت کے لئے کافی ہیں، اگرچہ اس فریق کی افرادی تعداد کم ہی ہو، کیونکہ حق بیان کرنے میں دلیل کا اعتبار ہوتا ہے، کثرت تعداد کا نہیں ۔(کلمہ گو مشرک ، صفحہ 122)

اگر کسی مسلمان سے کفر اور شرک سرزد ہوتا ہے تو اسکی نیت اور ارادہ کا اعتبارکئے بغیر اسکی متعین تکفیر کی جائے گی اور اسکے ظاہر پر حکم لگایا جائے گا۔ عبداللہ بن عبدالحمید المصری لکھتے ہیں: شرک اکبر پر ظاہر ہی کے لحاظ سے حکم لگایا جائے گا۔ شرک اکبر کے بارے میں یہ اصول مقرر کیا گیا ہے کہ ’’ہر وہ شخص جس کا کفر ارکان توحید میں سے کسی رکن کے بارے میں ہو یا وہ شرک اکبر کا ارتکاب کررہا ہوتو وہ شخص متعین کافر ہے۔ کیونکہ دنیا میں ظاہر کی بنیاد پر حکم لگایا جاتا ہے اور اس شخص کا ظاہر شرک اکبر کا تقاضا کر رہا ہے ۔لیکن اگر کسی شخص کا کفر امور شریعت میں (توحید اور شرک)کے علاوہ ہے اور وہ شخص قرآن و سنت کے علم کے حصول کے ممکنہ مقامات پر بھی نہیں رہتا تو جب تک کوئی حجت نہ قائم کردی جائے اسکو کافر نہیں کہا جائے گا۔ (توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ 79)

مزید فرماتے ہیں: قصہ مختصر یہ ہے کہ مخصوص کرکے کافر صرف ان امور میں قرار دیا جاسکتا ہے جو دین کی بنیاد توحید کے متعلق ہیں۔چونکہ دنیا کے احکامات تو صرف ظاہری امور پر لگائے جاسکتے ہیں لہٰذا ہر وہ شخص جو ایسے کفر اکبر میں ملوث ہے جس کفر سے ملت سے خارج ہونا لازم قرار پاتا ہے۔تووہ شخص اپنے ظاہر کے لحاظ سے کافر ہے۔ (توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ 92)

پس یہ کلام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص شرک اکبر یا کفر اکبر میں ملوث ہے تو اسکی متعین تکفیر کے لئے کوئی امر مانع نہیں اور نہ ہی اس پر اتمام حجت کی کوئی حاجت ہے۔ہاں البتہ جس کا کفر توحید اور شرک کے علاوہ ہے اسکی تکفیر سے پہلے موانع دور کرنے ضروری ہیں۔

علمائے ربانی کا حق پہنچانے کی کوشش کرنا ہی لوگوں پر حجت تمام کردیتا ہے اور انکے لیے جہالت کا عذر ختم ہوجاتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ فرداً فرداً ہر شخص تک علم پہنچایا جائے کیونکہ دین خصوصاً توحید اور نواقض توحید کا علم حاصل کرنا ہر شخص کی انفرادی ذمہ داری ہے جس کے لئے اسے خود ہی کوشش کرنی ہے۔اگر وہ توحید ہی کو نہیں جانتا تو اسکا اسلام کا دعویٰ بے کار اور ناقابل اعتبار ہے۔اسی طرح کسی فرد تک دعوت پہنچ جانا ہی اسکے ہرعذر کے خاتمے کا سبب ہے اب اس بات کی قطعاً کوئی حیثیت نہیں کہ اسے دلائل اور نصوص سمجھ میں آئے یا نہیں۔عبدالرحمن بن عبدالحمید فرماتے ہیں: یہ دونوں امر کفر اور قتل دراصل دلیل وحجت کو سمجھنے پر موقوف نہیں بلکہ صرف دلیل کی تبلیغ پر منحصر ہے۔ قرآن و سنت کی دلیل پہنچانا اور تبلیغ کرنا ایک علیحدہ چیز ہے اور اسکو سمجھنا ایک مختلف معاملہ ہے....توحید و رسالت کی تبلیغ ضروری ہے اب کسی کو سمجھ میں آتا ہے یا نہیں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ 90)

سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی کے علماء کا فیصلہ ہے: اس کے علاوہ بھی بہت سی آیات اور احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مواخذہ تب ہی ہوسکتا ہے جب کسی کو وضاحت سے خبر دی جاچکی ہو اور اس پر حجت قائم ہوچکی ہو۔ جو شخص کسی ایسے ملک میں رہتا ہو جہاں وہ اسلام کی دعوت کے متعلق سنتا ہے، پھر وہ ایمان نہیں لاتا اور نہ اہل حق سے مل کر حق معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے کہ اسے دعوت پہنچی ہو اور وہ پھر بھی کفر پر اڑا رہا ہو۔(کلمہ گو مشرک، صفحہ 120)

جب ایک کافر کے ایسی جگہ ہونے کی وجہ سے کہ جہاں وہ اسلام کے بارے میں جان سکتا ہے اس پر اتمام حجت ہوجاتا ہے تو ایک مسلمان اسلامی ملک میں رہ کر کیسے کوئی عذر پیش کرسکتا ہے؟؟!! اسلام کے حصول کی جگہ پر رہنے کی وجہ سے کفار کی ذمہ داری ہے کہ علمائے حق سے مل کر حق معلوم کریں اور اسے قبول کریں۔اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک کلمہ گو کی ذمہ داری تو بدرجہ اولیٰ اس سے بھی بڑھ کر ہے کہ وہ توحید کو صحیح صحیح جان لے اور شرک میں مبتلا نہ ہو ۔ وگرنہ اس سے کسی قسم کا عذر قبول نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اسکی جہالت اس کے کسی کام آئیگی کیونکہ قرآن موجود ہے ،صاحب قرآن کی تعلیمات موجود ہیں اور اسے سمجھانے والے علماء بھی موجود ہیں۔

دانستہ تحقیق نہ کرنے اور جاہل بنے رہنے والے مقلدین کے بارے میں امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ رقم طراز ہیں: دوسری قسم ان مقلدین کی ہے جو جاہل ہیں اور جاہل دو طرح کے ہوتے ہیں۔یہ وہ مقلدین ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے علم کے اسباب عطاء فرمائے ہیں ان کی دینی صلاحیت سلامت ہے اور تحقیق کے ذریعے تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں قرآن و حدیث کے معانی کو بھی سمجھتے ہیں۔اس کے علاوہ ان کے پاس تحقیق اور مطالعہ کے لئے کتب کے انبار بھی لگے ہوئے ہیں اور حصول کتب پر بھی قادرہیں لیکن پھر بھی کسی ایک امام کی تقلید کو مضبوطی کے ساتھ اپنائے ہوئے تقلید کی شاہراہ پر گامزن رہ کر تحقیق کی مشقت اور تکلیف سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں۔تو اس قسم کے مقلدین کا حکم یہ ہے کہ یہ فاسق ہیں جبکہ ان کے کفر میں علماء کے دو قول ہیں۔جن میں سے راجح یہ ہے کہ یہ فاسق تو یقیناًہیں لیکن ان کے کفر میں شک ہے جس میں توقف ہی بہتر ہے۔ (حقیقتہ التقلیدو اقسام المقلدین،صفحہ 253تا254)

کسی مسلمان کا تحقیق نہ کرنے کے باعث فاسق ہوجانا ہرگز کوئی چھوٹی بات نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والوں کو فاسق بھی کہاہے اور کافر بھی کہاہے۔

وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْن(المائدۃ:44)
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْن(المائدۃ:47)


جہالت کے عذر نہ ہونے اور تحقیق نہ کرنے کے باعث ان مقلدین کا فاسق ہونا تو یقینی ہے صرف کافر ہونے میں اختلاف ہے لیکن یہ اختلاف صرف شرعی مسائل میں تحقیق نہ کرنے کے باعث ہے جبکہ عقائد خصوصاً توحید میں تقلید کرنے والا اور تحقیق سے بچنے والا بلاشک وشبہ کافر اور مشرک ہے۔خود امین اللہ پشاوری اسکی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: توحید رب العالمین سولہ اقسام پر مشتمل ہے۔جن میں سے ایک توحید الحاکمیت ہے جن میں قانون سازی، تحلیل و تحریم اور بغیر دلیل کے بات ماننا داخل ہے.....یہود و نصاریٰ کا مذہب یہ ہے کہ قانون سازی کا اختیار علماء اور پیروں کو ہے اور یہی نظریہ اختیار کرنے کی صورت میں یہود و نصاریٰ مشرک ٹھہر گئے ہیں تو ایسا نظریہ رکھنے والے آج کے مقلدین بھی مشرک قرار پائیں گے جیسا کہ اس کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے: سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْن (سورۃ التوبۃ:31)
تو تقلید شخصی سے توحید الحاکمیت ختم ہوجاتی ہے چاہے مقلد اس کو مانے یا نہ مانے اگرچہ توحید پر قائم ہونے کا دعویٰ کرتا رہے لیکن فی الحقیقت وہ شرک فی التحلیل و التحریم میں مبتلا ہوگا۔(حقیقۃ التقلید و اقسام المقلدین، صفحہ 242 تا 243)

توحید خاص طور پر وہ چیز ہے جس کے بارے میں اگر کوئی مسلمان نہیں جانتا تو اسے خود کو مسلمان کہلاوانے کا کوئی حق نہیں اور وہ کافر ہے اس پر اتمام حجت ہوچکا ہے ۔کیونکہ توحید میں جہالت عذر نہیں، عبدالرحمن بن عبدالحمید المصری لکھتے ہیں: ان اہم امور میں بعض افراد غلطیوں کا شکار ہوجاتے ہیں جیسا کہ بعض حضرات یہ گمان کرتے ہیں کہ جہالت ہر حالت میں قابل عذر ہوتی ہے اگر چہ وہ توحید اور دیگر امور شریعت کے متعلق ہی کیوں نہ ہو۔(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ 80)

عبدالرحمن بن عبدالحمید فرماتے ہیں : اسلام کے ظاہری اور بنیادی امور میں حجت قائم کرنا ضروری نہیں۔(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ 82)

مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ الجنۃ الدائمۃ کا ایک فتویٰ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جب ہارون علیہ السلام نے انہیں بچھڑے کی پوجا سے منع کیا تو انہوں نے کہا: قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْہِ عٰکِفِیْنَ حَتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰی(سورۃ طٰہ:91)
’’ہم تو اسی پر جمے بیٹھے رہیں گے حتیٰ کہ موسیٰ واپس ہمارے پاس آجائے۔‘‘
انہوں نے شرک کی طرف بلانے والے کی بات مان لی اور توحید کی دعوت دینے والے کی بات ماننے سے انکار کردیا ۔اللہ تعالیٰ نے انہیں شرک اور دھوکے کی بات مان لینے میں معذور قرار نہیں دیا کیونکہ توحید کی دعوت موجود تھی اور موسیٰ علیہ السلام کی دعوت پر بھی کوئی طویل زمانہ نہیں گزرا تھا۔(کلمہ گو مشرک، صفحہ 120)

سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 22 کے تحت مزید لکھتے ہیں: انہوں نے شیطان کے وعدے کو سچ مان لیا تھا، شیطان نے ان کے سامنے جھوٹ کو سچ کے رنگ میں پیش کیا اور شرک جیسے گھناؤنے جرم کو خوبصورت بنا کر پیش کیا اور وہ اس کے پیچھے لگ گئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اس معاملے میں معذور قرار نہیں دیا کیونکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر اس شخص کے لیے عظیم ثواب کا وعدہ موجود تھا جواس وعدے کی تصدیق کرکے اس کی شریعت قبول کرلے اور اس کے مطابق سیدھے راستے پر گامزن ہوجائے۔(کلمہ گو مشرک، صفحہ 121)

قرآن مجید کے ان حوالوں سے واضح ہوا کہ جب معاشرے میں توحید کی دعوت موجود ہو توشرک کرنے کی صورت میں ایک مسلمان کے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہتااور اس پر حجت پوری ہوجاتی ہے اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ شرک کرنے والے پر اتمام حجت کے بعد مشرک کا حکم لگایا جائے گا۔صرف ایک دوایسی صورتیں ہیں جن کی موجودگی میں ایک مسلمان پراسکے شرک کرنے کی صورت میں اس وقت تک مشرک کا فتویٰ نہیں لگایا جائے گا جب تک اسے حق بات پہنچا کر اس پر اتمام حجت نہ کردیا جائے۔ اور وہ صورت ہے اس شخص کا ایک ایسے مقام پر رہنا جہاں علم اور اہل علم تک اس کی رسائی نہ ہو۔

عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ اپنے فتوے میں لکھتے ہیں:
البتہ جو شخص غیر اسلامی ملک میں رہتا ہے اور اس نے اسلام ، قرآن اور نبی کریم ﷺ کے متعلق کچھ نہیں سنا، تو اگر فرض کریں کہ ایسا شخص موجود ہے تو اس کا حکم اہل فترت کی طرح ہے(جو ایسے زمانے میں تھے کہ سابقہ نبی کی تعلیمات فراموش کی جاچکی تھیں اور نیا نبی ابھی معبوث نہیں ہوا تھا)مسلمان علماء کا فرض ہے کہ اسے دین اسلام کے عقائد اور اعمال کی تعلیم دیں تاکہ اس پر حجت قائم ہو اور اس کا عذر ختم ہوجائے۔(کلمہ گو مشرک، صفحہ 123)

یا پھر ایک صورت یہ ہے کہ وہ نیانیا اسلام میں داخل ہوا ہواور ابھی دینی مسائل سے مکمل آگاہ ہی نہ ہوا ہو ۔اس صورت میں اس تک علم پہنچائے بغیر اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جائے گا بلکہ اس کی تکفیر میں اس وقت تک توقف کیا جائے گا جب تک اسے ضروری شرعی مسائل سے آگاہ نہ کردیا جائے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بعض اوقات ایک شخص کا قول بظاہر رسول اللہﷺ کی تکذیب پر منتج ہوتا ہے ، لیکن ممکن ہے وہ شخص نیانیا اسلام میں داخل ہوا ہو یا ممکن ہے کہ وہ کسی دور دراز دیہات کا رہنے والا ہو (کہ اس تک وہ علم پہنچا ہی نہ ہو) اب یہ شخص انکار کے باوجود اس وقت تک کافر قرار نہیں دیا جائے گا جب تک اس پر وہ علم پہنچا کر حجت قائم نہ کر لی جائے۔ (مجموع الفتاویٰ ، 2/229، بحوالہ توحید اسماء وصفات، صفحہ 150)

محمد بن الصالح العثیمین رحمہ اللہ رقم کرتے ہیں: اس لئے اہل علم کا کہنا ہے کہ فرائض کا انکار کرنے والا اگر نیا نیا اسلام میں داخل ہوا ہے تو اسے اس وقت تک کافر نہیں کہا جاسکتا جب تک اسے ان فرائض سے آگاہ کرکے اس پر حجت قائم نہ کردی جائے۔(توحید اسماء و صفات، صفحہ 148)

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں: جیسے ایک شخص شراب یا سود کو حلال کہتا ہے اور اس کا حال یہ ہے کہ یا تو وہ نیا نیا مسلمان ہوا ہے ، یا کسی دور دراز دیہات میں رہنے کی وجہ سے وہ اس مسئلہ سے ناواقف اور ناآشنا ہے، یا مسئلہ تو اس تک پہنچا لیکن اس کا قرآن وحدیث سے ثابت ہونا اسے معلوم نہ ہواہو... . تو ایسے شخص کو اس وقت تک کافر قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک اس پر حجت بالرسالۃ قائم نہ ہوجائے۔ (مجموع الفتاویٰ ، 35/165، بحوالہ توحید اسماء وصفات، صفحہ 151)

کسی علاقے میں علمائے اہل حدیث کا موجود ہونا یا اہل حدیث کی مسجد کا قیام ہی توحید سے متعلق لوگوں کے تمام عذر کا خاتمہ کردیتا ہے ۔ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ رقمطراز ہیں: اکثر مسلمان یہاں تک کہ غیر اللہ کو پکارنے والے بھی اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ علماء اہل الحدیث و السنۃ لوگوں کو توحید کی طرف بلاتے ہیں اور غیر اللہ کے سامنے فریاد کرنے یا مدد مانگنے سے منع کرتے ہیں اس کے باوجود یہ لوگ غیر اللہ سے مدد مانگنے پر مصر ہیں۔اور توحید کی دعوت سے عناد رکھتے ہیں ان کے دل میں کسی لمحے خیال نہیں آتا کہ اس بارے میں کسی عالم سے رجوع کر لیں اور توحید اور شرک کی حقیقت معلوم کرلیں لہٰذا ایسے لوگوں کو ہم لاعلم و بے خبر نہیں کہہ سکتے ۔ (مشرک اور بے نمازی شخص کے ذبیحہ کے بارے میں شرعی حکم،صفحہ 30)

مسلمانوں کو شرک میں مبتلا کرنے کا سب سے بڑاسبب ہی جہالت اور لاعلمی ہوتی ہے ۔عبدالرحمن بن عبدالحمید لکھتے ہیں: ہم اس حقیقت حال سے واقف ہیں کہ شرک و بدعت کے ارتکاب کرنیکی حقیقی وجہ جہالت ہی ہوتی ہے اگر لوگ اس بات کو جانتے کہ ہمارا یہ عمل کفر ہے تو ہرگز ایسا عمل نہ کرتے۔(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم،صفحہ 90)

لاعلمی اور جہالت خصوصاً توحید کے معاملے میں کوئی عذر نہیں ہوتی۔امام قرافئی مالکی نے لکھا ہے: یہ مسئلہ متفقہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اصول دین (توحید وغیرہ) میں جہالت کو قبول نہیں فرمائے گا۔
مزید فرماتے ہیں: اصول دین میں جہالت معتبر نہیں ہے ہر ایک پر سوال اور علم کے ذریعے صحیح عقیدے کو حاصل کرنا فرض ہے۔(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم،صفحہ 20)

چونکہ ایسے مسلمان جو توحید وغیرہ کے مسائل میں جہالت کا شکار ہوتے ہیں وسائل اور ذرائع رکھنے کے باوجودبھی تحقیق نہیں کرتے جو انہیں دوہرامجرم بنا دیتی ہے۔ ایک دین کا ضروری علم حاصل نہ کرنے کا جرم اور دوسرا علم کے اسباب مہیا ہونے کے باوجود اسکے حصول میں سستی اور کاہلی اختیار کرنے کا جرم، لہٰذا ایسے مسلمانوں کی تکفیر میں کوئی امر مانع نہیں۔

ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو ان کے کسی قول یا بعض اعمال کی بناء پر کافر قرار دیا جاتا ہے حالانکہ وہ دل سے انکاری نہیں ہوتے بلکہ ان کو تو خبر بھی نہیں ہوتی کہ انہوں نے کفر کیا ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (سورۃ الحجرات:2) ’’اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور جس طرح تم آپس میں اونچی آواز سے بات کرتے ہو اس طرح نبی (کے سامنے) آواز اونچی نہ کرو ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو شعور بھی نہ ہو۔‘‘

عبداللہ بن عبدالحمید ، ابن حزم کے اس قول کی تشریح میں رقم طراز ہیں: ابن حزم ؒ تاکیداً بیان فرمارہے ہیں کہ کچھ کافر تو ایسے ہوتے ہیں جن کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ کفر کررہے ہیں یہ فعل انہیں لوگوں سے سرزد ہوسکتا ہے جوا س امر سے جاہل ہوتے ہیں کہ ان کا یہ فعل کفر ہے اگر وہ جاہل نہ ہوتے تو لازمی بات ہے کہ ان کو شعور ہوتا (جن کو قرآن میں بے شعور کہا گیا ہے)صحیح قول یہی ہے کہ وہ اپنے فعل کے کفریہ ہونے سے جاہل ہیں۔(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ 69)

بعض الناس کی جانب سے یہ شرط کہ شخصی تکفیر کے لئے کفر کرنے والے شخص کو اس بات کا علم ہونا ضروری ہے کہ وہ کفر کررہا ہے مذکورہ قرآنی آیت کی رو سے سراسر باطل ہے۔بلکہ صحیح بات یہ ہے جس پر ابن حزم رحمہ اللہ کا کلام دلالت کرتا ہے کہ کفر اکبر اور شرک اکبر میں جہالت عذر نہیں ہوتی اور بے خبری میں بھی شرک اکبر اور کفر اکبر کا ارتکاب مسلمان کو مشرک اور کافر بنادیتا ہے۔

عبداللہ بن باز رحمہ اللہ لاعلمی میں سرزدہونے والے شرک کی بنا پر بھی اس کے مرتکب کو کافر اور مشرک ہی کہتے ہیں، چناچہ فرماتے ہیں: جو شخص مردوں کو مدد کے لئے پکارے اور ان سے مدد طلب کرے اور ان کے لئے نذرانے چڑھائے اور اس طرح کی عبادت کرے تو وہ مشرک و کافر ہے۔اس سے نکاح کرنا اور اسکا مسجد حرام میں داخل ہونا نا جائز ہے۔ اگرچہ وہ جہالت(کم علمی)کا دعویٰ کرے یہاں تک کہ وہ اس سے تائب ہوجائے۔(مشرک اور بے نمازی شخص کے ذبیحہ کے بارے میں شرعی حکم،صفحہ 5)

ان گزارشات کا یہ نتیجہ سامنے آیاکہ شرک اکبر کے مرتکب کو کافر سمجھنے اور کہنے کے لئے اتمام حجت کی ضرورت نہیں کیونکہ توحید میں جہالت اور لاعلمی کوئی عذر نہیں۔ حیرت اور سخت افسوس ہے ان لوگوں پر جو بریلویوں کے شرک اکبر میں مبتلا ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ انہیں مشرک و کافر نہیں سمجھتے اور نہ ہی کہتے ہیں بلکہ ان سے شادی بیاہ کے معاملات کو درست سمجھتے ہیں حتی کہ ان کے پیچھے بغیر کراہت کے نمازیں بھی ادا کرلیتے ہیں۔اللہ مسلمانوں کو ایسی بدترین جہالت اور افسوسناک عقیدے سے اپنی پناہ میں رکھے۔آمین

اسی طرح ضروریات دین میں سے کسی ایک ضرورت کے انکار پر مسلمان کافر ہوجاتا ہے چاہے وہ لاعلم ہو یا بغض و عناد کا شکار ہو یا پھر کسی شبہ میں گرفتار ہو۔ محمد گوندلوی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: ضروریات دین کا منکر کافر ہے خواہ اس کا انکار کسی تاویل کی وجہ سے ہو یا عناد کی بنا پر۔(مقالات محدث گوندلوی، صفحہ 66)

خود دیوبندی علماء بھی کفر کے معاملات میں جہالت کو عذر ماننے کو تیار نہیں اور جہالت میں کئے گئے کسی کفر یہ فعل کے مرتکب پر کفر کا فتویٰ ہی عائد کرتے ہیں۔ مفتی عبدالشکور قاسمی دیوبندی لکھتے ہیں: ایک شخص نے کلمہ کفر زبان سے اداکیا لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کفر کا کلمہ ہے مگر اس نے یہ اختیار سے کہا ہے تو تمام علماء کے نزدیک وہ کافر ہوجائے گااور جہالت عذر شمار نہ ہوگی۔(کفریہ کلمات اور اسکے احکامات، صفحہ 65)

توحیدکے منافی کچھ مسائل ایسے ہیں جو نہایت واضح اور آسانی سے سمجھ میں آجانے والے ہیں جیسے غیر اللہ کو پکارنااور اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے ان سے استغاثہ کرنا اوراستعانت طلب کرنا، غیر اللہ کے لئے ذبح کرنا اور انکے نام کی نذر و نیاز دینا، غیر اللہ سے دعا کرنا اور انکی عبادت بجا لاناوغیرہ ان امور کا مرتکب جو کہ توحید کے مکمل منافی ہیں بلاشک و شبہ کافر اور مشرک ہے اور ایسے شخص کو کافر اور مشرک قرار دینے میں کوئی امر جیسے جہالت ، لاعلمی، تاویل وغیرہ کچھ بھی مانع نہیں اسکو سطور بالا میں کسی قدر تفصیل سے بیان کیا جاچکا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ توحید وغیرہ کے کچھ ایسے مسائل بھی ہیں جو پیچیدہ ہیں، جن میں تفصیل ہے جیسے اسماء و صفات کا مسئلہ، یہ مسائل عام فہم نہیں ہوتے لہٰذا عوام الناس اکثر انکا صحیح ادراک نہیں کر پاتے ۔ اس لئے ان مسائل میں جہالت اور لاعلمی بھی عذر شمار ہوتی ہے جب تک اسے دور نہ کردیا جائے اور تاویل کا بھی اعتبا ر کیا جاتا ہے بشر طیکہ تاویل مذہبی تعصب کا نتیجہ نہ ہو بلکہ معقول تاویل ہو یا جس کی تائید لغت وغیرہ سے ہوتی ہو۔

سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی کے علماء نے اس شخص کے بارے میں جو تاویل کی وجہ سے اللہ کی کسی صفت یا اسم کا انکار کرتا ہے ،کہا: دوسری قسم یہ ہے کہ صفت کو تسلیم کرے لیکن اسکی تاویل کرے۔ اس کی دو صورتیں ہیں:
اسکی پہلی صورت یہ ہے کہ عربی زبان میں اس معنی کی تاویل کی گنجائش ہو تو ایسا کرنے والے کو کافر نہیں کہا جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ عربی زبان میں اس تاویل کی گنجائش نہ ہوتو ایسا کرنے والا کافر کہلائے گا، کیونکہ ایسا کرنا تکذیب ہے۔
(500 سوال و جواب برائے عقیدہ،صفحہ 109)

پھر اگر ان موانع اوررکاوٹوں کو دور کردیا جائے جو اس شخص کی تکفیر میں حائل ہیں کہ اسکی تاویل دلائل سے باطل ثابت کردی جائے اور اسکی جہالت دور کردی جائے ،اگرپھر بھی وہ شخص اپنے کفریہ موقف پر ڈٹا رہے تو اسے کافر قرار دیا جائے گا۔

محمد بن الصالح العثیمین رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ تم صفات باری تعالیٰ میں تاویلیں کرنے والوں کو کافر کہوگے یا فاسق؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا: جس شخص معین کو اس کے کسی قول یا فعل کی بنیاد پر کافر یا فاسق کہا جارہا ہے، اس پر تکفیر یا تفسیق کی تمام شروط واقعتا منطبق ہورہی ہیں، نیز یہ کہ تکفیر یا تفسیق کے جو موانع یا جورکاوٹیں ہیں، وہ ان سب کو عبور کرچکا ہے۔سب سے اہم شرط یہ ہے کہ جس مخالفت کی بنا پر اسے کافر یا فاسق کہا جارہا ہے، اسے علم ہو کہ یہ مخالفت،کفر یا فسق کو موجب ہے۔(توحید اسماء و صفات، صفحہ 147، ترجمہ و تقدیم: پروفیسرعبداللہ ناصر رحمانی)

بعض لوگ بے دھڑک ہوکرشرک کرنے کی وجہ سے کسی بھی کلمہ گو کو مشرک کہہ دیتے ہیں لیکن اسی مشرک کو کافر کہتے ہوئے بہت ڈرتے ہیں شاید وہ کفر اور شرک کو الگ الگ سمجھتے ہیں لہٰذا یہاں آپکو یہ بھی بتاتے چلیں کہ شرک ہمیشہ کفر کو مستلزم ہوتا ہے یعنی اگر کوئی مشرک ہے تو وہ لازمی طور پر کافر بھی ہوگااسی لئے کسی کو مشرک کہنا اسکو کافر کہنا بھی ہے۔شیخ عبدالمنعم مصطفی حلیمہ ابوبصیرالطرطوسی کہتے ہیں: پس شرک فی نفسہ کفر ہے۔( عقیدہ طائفہ منصورہ، صفحہ 29)

مزید وضاحت فرماتے ہوئے رقم کرتے ہیں: ہر کفر، شرک ہے اور ہر شرک ، کفر ہے۔ ہر کافر، مشرک اور ہر مشرک، کافر ہے۔ جب شرک کا مطلقاً ذکر کیا جائے تو یہ لازماً کفر کو شامل ہوتا ہے۔اسی طرح جب علی الاطلاق کفر کا تذکرہ ہو تو لازمی طور پر شرک بھی اس میں داخل ہوتا ہے۔( عقیدہ طائفہ منصورہ، صفحہ 39)

اسی طرح بعض حضرات کا خیال یہ بھی ہے کہ صرف اسی صورت میں کسی گروہ یا شخص کی تکفیر کی جائے گی جب علمائے ربانی کا اس مخصوص شخص یا گروہ کی تکفیر پر اتفاق ہوحالانکہ یہ خیال بھی غلط ہے۔ کیونکہ اگر کسی شخص کے کافر اور مشرک ہونے پر شرعی نصوص موجود ہوں اور کوئی حقیقی مانع تکفیر بھی نہ ہو تو اس شخص کا کافر ہونا علماء کے اتفاق اور فتوؤ ں کا محتاج نہیں ہوگا بلکہ اگر کوئی ایک عالم بھی اس کی تکفیر نہ کرکے پھر بھی وہ کافر ہی ہوگا۔ اس کی ایک بہترین مثال ابن عربی کی شخصیت ہے جس کی تکفیر پر اتفاق نہ ہونے کے باوجود بھی علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ابن القیم وغیرہ ھم جیسے جلیل القدر علماء نے اسے یہود و نصاریٰ سے بھی بدتر کافر قرار دیا ہے۔

حافظ شاہد محمود حفظہ اللہ گوندلوی رحمہ اللہ کے مقالات کے حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں: ابن عربی کے کفریہ عقائد کی بدولت قدیماً وحدیثاً علمائے اسلام نے اس کے عقائد و نظریات کی تضلیل و تکفیر کی ہے اور صراحتاً اسے کافر قرار دیا ہے۔چناچہ امام ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ھو انجس من الیھود و النصاریٰ ‘‘ (الرد علی القائلین بوحدۃ الوجود للملاعلی قاری،صفحہ 34)، امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ولہ کتابہ الممی بفصوص الحکم فیہ اشیاء کثیرۃ ظاہر ھاکفر صریح‘‘۔(البدایۃ والنھایۃ، 13/156) اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد سراج الدین بلقینی سے ابن عربی کی بابت پوچھا تو انہوں نے فوراً جواب دیا’’ھوکافر!‘‘(لسان المیزان،4/318) علاوہ ازیں امام برہان الدین بقاعی رحمہ اللہ نے ’’تنبیہ الغبی الی تکفیر ابن عربی‘‘ کے نام سے مستقل کتاب لکھی ہے۔(مقالات محدث گوندلوی، صفحہ 67)

اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ بہت سے علماء ابن عربی کی کفریہ عبارتوں کی تاؤیل کرکے اسے کافر قرار دینے سے احتراز کرتے ہیں لیکن کیا علماء کے اس اختلاف کے سبب ابن عربی کو مسلمان قرار دیا جاسکتا ہے؟ حاشا وکلا۔اگربدترین کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھنے پر بھی ابن عربی مسلمان ہے تو پھر کافر کون ہے؟؟؟

دور صحابہ میں جب کچھ لوگوں نے زکوۃ کی ادائیگی سے انکار کیا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انکے کلمے کا اعتبار نہ کرتے ہوئے ان پر کافر اور مرتدکا حکم لگا کر انہیں قتل کیا ہر چند کے وہ کلمہ گو بھی تھے اور نماز بھی پڑھتے تھے۔مکتبہ شافعیہ کے ایک بڑے امام روضتہ الندیہ کے مصنف فرماتے ہیں: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام کی سیرت کو ہم بطور مثال لیتے ہیں کہ جب آپ نے زکوۃ نہ دینے والوں کے خلاف قتال کیا۔انکی اولاد کو قیدی اور اموال کو غنیمت جانا اور متفقہ طور پر مانعین زکوۃ کو مرتد جانا۔(توحید سے جاہل...،مسئلہ تکفیر معین، صفحہ 89)

اسی طرح سید شفیق الرحمان لکھتے ہیں: بعض اقوال و افعال اور اعتقادیات ایسے ہیں جن کی بناء پر لاالہ الا اللہ کہنا فائدہ مند نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے زکوٰۃ کے منکرین کے خلاف جہاد کیا حالانکہ وہ لاالہ الا اللہ کہتے تھے۔(تجدید ایمان،صفحہ 16)

لیکن یہ ذکر ہمیں کہیں نہیں ملتا کہ صحابہ نے انکو کافر قرار دینے اور انکے اقدام قتل سے پہلے ان پر حجت تمام کی ہو یا موانع تکفیر زائل کئے ہوں۔جیسا کہ آج ہر طرح کے کفر اور شرک کرنے والے پر اتمام حجت اور موانع تکفیر کو زائل کرنا لازمی اور ضروری خیال کیا جاتا ہے چاہے حقیقت میں اسکی کوئی حاجت ہی نہ ہو جیسا کہ صحابہ کو ایسی کوئی ضرورت پیش نہ آئی۔پھر آج ہمارے معاشرے میں کتنے ہی افراد ہیں جو زکوۃ نہیں دیتے اور دینا بھی نہیں چاہتے تو کتنے علماء ہیں جو انکے کافر اور واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں؟؟؟ بلکہ الٹا ایسے لوگوں کو معاشرے میں مسلمان ہی سمجھا جاتا ہے اور ان سے مسلمانوں جیسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔ اصل میں ہمارے علماء الا ماشاء اللہ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے او ر متذکرہ بالا لوگوں کے ساتھ ساتھ کفر کرنے والے دیوبندیوں اور شرک کرنے والے بریلویوں پر کافر اور مشرک ہونے کا فتویٰ اختلاف اور جھگڑے سے بچنے کے لئے نہیں دیتے پھر اس کو مصلحت کا لبادہ اوڑھا دیتے ہیں۔ اگر علماء ایک کفریہ عقیدے کے حامل کو تکلیف دئیے جانے کے خوف سے کافر نہیں کہتے تو اس سے نہ شریعت کے اصول بدلتے ہیں اور نہ ہی اس شخص کے کفر میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے لیکن لوگ ضرور گمراہ ہوجاتے ہیں۔

غلام احمد قادیانی کے کافر ہونے کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: حدیث کا صحیح محمل محدثین نے بتایا ہے کہ کسی مسلمان کو مسلمان سمجھتا ہوا کافر کہے تو اس پر یہ فتویٰ چسپاں ہوتا ہے مگر دوسرے مسلمان مرزا صاحب کو ان کے ان دعاوی کی بنا پر کافر کہتے ہیں جن میں بعض دعاوی کو آپ لوگ بھی کفر خیال کرتے ہیں۔(مقالات محدث گوندلوی، صفحہ 164)

دیکھئے۔ کتنی واضح بات ہے کہ غلام احمد قادیانی کا کافر ہونااس کے کفریہ عقیدہ کے بنا پر ہے ناکہ اس بات پر کہ مسلمانوں نے اس کے کفر پر اجماع کرلیا ہے۔ اگر غلام احمد قادیانی اور اسکے متبعین کے کفر پر امت اجماع نہ بھی کرتی پھر بھی انکے کفر پر کوئی زد نہ پڑتی بلکہ کفریہ عقائد رکھنے کی وجہ سے یہ کافر ہی ہوتے چاہے کوئی انہیں کافر کہتا یا نہیں۔اسی طرح اگر کوئی دیوبندی یا بریلوی ایسا کفریہ و شرکیہ عقیدہ رکھتا ہے جو دائرہ اسلام سے خارج کردینے والا ہے تو وہ دیوبندی اور بریلوی بھی کافر ہے۔انکو کافر کہنے اور سمجھنے کے لئے علماء کے فتوؤں کا انتظار نہیں کیا جائے گا بلکہ شرعی نصوص پر فیصلہ کیا جائے گا۔لہٰذاکسی گروہ یا شخص کی تکفیر پر علماء کے اتفاق کی شرط بھی باطل ہے۔

بعض الناس کا خیال یہ ہے کہ ’’یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ غیر اللہ کو پکارنے والا مشرک ہے لیکن جب ایسا ہی کوئی شخص سامنے آجائے جو غیر اللہ کو پکارتا ہو تو پھر اسکا نام لے کر اسکو کافر نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ تکفیر معین ہے اور یہ بہت بڑی اور بھاری ذمہ داری ہے جو صرف متبحر علماء کا کام ہے‘‘۔

یہ بہت عجیب اور عقل سے بالاتر کلام ہے کیونکہ جب کفر اور شرک موجود ہے اور معاشرے میں وہ افراد بھی موجود ہیں جو کفر اور شرک میں مبتلا ہیں پھر نام سے انکی نشاندہی نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عملاً معاشرے میں سرے سے کوئی کافر اور مشرک موجود ہی نہیں اور کفر اور شرک کی باتیں محض کتابی اور ہوائی باتیں ہیں ،اورسب مسلمان ،مومن و موحد ہیں حالانکہ یہ خلاف واقعہ ہے مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد شرک اکبر اور کفر اکبر میں مبتلا ہوجانے اور اسی کو اپنا مذہب بنا لینے کی وجہ سے کافر اور مشر ک ہوچکی ہے۔اس لئے جب کسی کا کفر اور شرک واضح ہوجائے تو ہر شخص پر واجب ہے کہ اسے کافر اور مشرک سمجھے اور جب دلیل کی بنا پر کوئی کافر اور مشرک ثابت ہوجائے تو پھر اسے کافر اور مشرک کہنے میں کیا حرج ہے؟؟؟

شیخ ابو بطین لکھتے ہیں: کفر کی انواع،اقسام میں سب سے بڑی قسم اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت میں غیر اللہ کو شریک کرنا ہے۔ مسلمانوں کے اتفاق کے مطابق یہ عمل کفر ہے۔جو شخص ایسے شرک کا ارتکاب کرے تو اسکو کافر کہنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔جس طرح کوئی شخص زنا کرے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ زانی ہے۔اسی طرح سود خور کو سودی کہا جائے گا۔بالکل اسی طرح شرک کرنے والے کو کافر کہا جائے گا۔(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم، صفحہ 92)

پس ثابت ہوا کہ جب کسی کے کافر اور مشر ک ہونے پردلائل موجود ہوں توہرمسلمان کے لئے اسکے کافر ہونے کا اعتقادرکھنا ضروری ہے اور ضرورت کے وقت اسکی تکفیر معین جائز و درست ہے تاکہ کفر اور ایمان میں امتیاز باقی رہے۔جبکہ تکفیر معین کوعوام کے لئے ناجائز سمجھنے والے غلطی پر ہیں۔کیونکہ قرآن و سنت میں ایسی کوئی نص نہیں جس کی بنا پر عوام کے لئے کسی ثابت شدہ کافر اور مشرک کی تکفیر معین مطلقاً ناجائز ہو ۔عبدالرحمن بن عبدالحمید فرماتے ہیں: ان اہم امور میں بعض افراد غلطیوں کا شکار ہوجاتے ہیں جیسا کہ بعض حضرات یہ گمان کرتے ہیں کہ جہالت ہر حالت میں عذر ہوتی ہے اگرچہ وہ توحید اور دیگر امور شریعت کے متعلق ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرح بعض ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ کسی بھی شخص کی تکفیر معین (یعنی نام لیکر کہنا کہ یہ کافر ہے تکفیر معین کہلاتی ہے )مطلقاً جائز نہیں ہے۔(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم ، صفحہ 80)

عبدالرحمن بن عبدالحمیدالمصری مزید فرماتے ہیں: کسی متعین کی تکفیر مطلقاً جائز نہیں صرف یہ کہا جاسکتا ہے جو شخص ایسا عمل کرے یا ایسی بات کہے وہ کافر ہے یا یہ قول یا عمل کفریہ ہے.....ایسی رائے اختیار کرنے سے تو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور حدود معطل ہو جائیں گے...رسول اللہ ﷺ مرتدین کے بارے میں میں حکم کی وضاحت فرماتے ہیں۔ من بدل دینہ فاقتلوہ ’’جو شخص اپنے دین کو بدل ڈالے اسکو قتل کردو۔(صحیح بخاری)
دیکھئے یہ ایک حکم یا حد ہے جو کسی مخصوص شخص پر ہی لاگو کی جاسکتی ہے۔وگرنہ ہم کیسے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل کرسکتے ہیں۔ جب ہم کسی مخصوص کی تکفیر ہی نہ کریں تویہ کیسے کہا جائے کہ ایسا فعل کرنیوالے کو قتل کیا جائے؟ (یہ فعل کرنے والا لازمی طور پر کوئی مخصوص شخص ہی ہوگا)۔ لہٰذا یہ قول واضح طور پر باطل ہے اور اس سے اللہ کے احکام کی تعمیل نہ کرنا لازم آتا ہے۔
(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم ، صفحہ 81,80 )

معلوم ہوا کہ تکفیر معین اس قدر اہم مسئلہ ہے کہ اسکی عدم تکمیل کے سبب شریعت کا نظام ہی درہم برہم ہوجاتا ہے پھر تکفیر معین کا دروازہ ہی بندکردینا کس قدر خطرناک ہوسکتا ہے ، اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
عوام کے لئے تکفیر معین کو شجر ممنوعہ تو قرار دیا ہی جاچکا ہے اور علماء بھی تکفیر معین نہیں کرتے لہٰذا معین تکفیر عملی طور پر تقریباً ناپید ہے جو لوگوں کو تکفیر ی فتنے کی دوسری انتہاء یعنی ارجاء کی جانب دھکیل رہی ہے۔بس اللہ ہی سے مسلمانوں کی ہدایت کے لئے دعا ہے۔

اس مضمون کا حاصل اور نتیجہ یہ ہے کہ شرک اکبراورکفر اکبر کا مرتکب شخص مشرک اور کافرہوتا ہے الاّ یہ کہ وہ کسی ایسے مقام پر رہائش پذیر ہو جہاں علم اور اہل علم تک اس کی رسائی نہ ہو،ایسی صورت میں اسکی تکفیر سے پہلے اس پر اتمام حجت کیا جائے گا اور اسکے مقابلے میں یہ نظریہ اور اصول کہ مسلمان کے شرکیہ اور کفریہ عمل سے وہ مسلمان خود کافر و مشرک نہیں ہوتایا اسکے عمل پر تو کفر اور شرک کا حکم لگایا جائے گا لیکن خود اسے مشرک اور کافر کہنے سے بچا جائے گا سراسرباطل اور شریعت سے استہزاء اور مذاق ہے۔
 
Top