شاہد نزیز بھائی نے لکھا:
بعض علماء نقصان اور فتنے کے خوف سے بھی کفریہ اور شرکیہ عقائد کے حاملین کے کافر ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے۔اور گول مول بات کرتے ہیں۔
میرے بھائی یہی وہ نقصان اور فتنہ ہے جس کے پیش نظر علماء مسئلہ تکفیر کو عام لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں جانے دیتے۔ جب شاہد بھائی جیسے علم دوست ساتھی کا حال یہ ہے کہ وہ صرف ایک مسئلہ کو بذات خود نہ سمجھنے کی بنا پر علماء کے متعلق تک اس بدگمانی کا شکار ہو گئے ہیں تو کسی عام شخص کا کسی دوسرے عام شخص کے بارے میں رویہ کیا ہو گا سمجھنا مشکل نہیں؟
جناب محترم کفریہ و شرکیہ عقائد کے حاملین کے کافر نہ ہونے کا فتویٰ نہ دینا بھی دو صورتوں پر مبنی ہے:
١) یہ کہنا کہ جو بھی شخص فلاں فلاں کفریہ یا شرکیہ (کفر بواح اور شرک اکبر) عقیدہ و عمل کا حامل ہو کافر ہے تو میرا نہیں خیال کے کسی ایک مستند عالم دین نے بھی اس سے انکار کیا ہو بلکہ ہمارے زیادہ تر ساتھی ان کثیر عام اصول و فتاویٰ کی روشنی میں ہی تکفیر معین کے درپے ہیں، جس طرح خود شاہد نزیر بھائی نے کثیر علماء کی ایسی عمومی عبارات نقل کر کے پورے پورے گروہ کی تکفیر کی ہے۔
٢) یہ کہنا کہ فلاں آدمی چونکہ فلاں فلاں کفریہ یا شرکیہ (کفر بواح اور شرک اکبر) عقیدہ و عمل کا حامل ہو کافر ہے تو ضرور علماء اس میں احتیاط برتتے ہیں اور یہ کوئی گول مول بات نہیں بلکہ اس پر ان کے پاس شرعی نصوص و سلف صالحین کا منہج گواہ ہے۔ صرف اتنا تو غور کیجئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دور کے وہ لوگ جن کے بارے میں یہ آیات اتریں کہ "بہانے نہ بنائو تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے۔۔۔" کیا ان لوگوں کی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ الگ تکفیر کی حالانکہ یہ آیت اتری ان خاص لوگوں کے بارے میں تھی۔ ممکن ہے کہ کچھ حضرات کہیں کہ تکفیر معین کی تھی تو عرض ہے کہ جب وہ ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے تو ان پر مرتدین کے احکامات کیوں جاری نہ کئے گئے؟ اگر کہا جائے کہ اس دور میں احتیاط کا تقاضا تھا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔تو یہی عرض ہے کہ پھر اس بات کو گول مول رویہ تو نہ کہیں۔ وہاں تو جن پر یہ آیات اتری تھیں متعین بھی تھے یہان تو ایسی ہی دوسری آیات کو آج کے کچھ لوگوں پر چسپاں کرنے کا مسئلہ ہے گویا تکفیر معین نہ کرنے کے دیگر موانع زیادہ ہیں اور پھر بھی علماء سے اتنی بد گمانی اچھی نہیں۔
اور بعض علماء تساہل کا عارضہ لاحق ہونے کی بنا پرہر کلمہ گو کو دائرہ اسلام کے اندر رکھنے پر سارا زور صرف کرتے نظر آتے ہیں چاہے بعض کلمہ گو شرک اور کفر کی انتہاء ہی کو کیوں نہ چھو لیں بعض کلمہ گو شرک اور کفر کی انتہاء ہی کو کیوں نہ چھو لیں۔علماء کے اس بدترین تساہل کی مثال انکا دیوبندی اور بریلوی عوام کے ساتھ انکے علماء کو بھی پکا اور سچا مسلمان قرار دینا ہے حالانکہ ان میں سے اکثریت کا شرک اکبر میں ملوث ہونااظہر من الشمس ہے۔
میرے بھائی اگر ایک عالم ایک کلمہ گو کو دائرہ اسلام کے اندر رکھنا چاہتا ہے تو اس میں غلط کیا ہے، آپ کیوں چاہتے ہیں کہ بجائے دائرہ اسلام میں داخل رکھنے کے آپ کلمہ گو حضرات کو اس سے باہر ہی نکالتے رہیں۔ رہی بات دیوبندیوں یا بریلویوں کی تو یہ علماء ہی ہیں جن کے سبب ہم ان لوگوں کے واضح کفر و شرک سے واقف ہوئے۔ یہ علماء ہی ہیں جن کے دئے گئے حوالوں سے میں اور آپ ان لوگوں کے کفریہ و شرکیہ عقائد و اعمال لوگوں کے سامنے لاتے ہیں اور الحمدللہ بے شمار سادے بریلوی و دیوبندی اہل حدیث ہو جاتے ہیں۔
اب اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کی طرح بریلوی و دیوبندی کافر ہیں کا فتویٰ دیں یا جس جس میں کوئی کفریہ و شرکیہ معاملہ سامنے ہو اس کی تکفیر معین کریں ورنہ وہ متساہل ہیں تو اس میں خود آپ ناسمجھی کا شکار ہیں۔میں عرض کر چکا ہوں کہ تکفیر معین کے لئے بہت سی شروط و موانع ہیں جن پر ایک کتاب و سنت پر مبنی شرعی نظام نہ ہونے کی بنا پر نیز دیگر قدرت نہ رکھنے کی وجوہات سے علماء اس مسئلہ میں پیش قدمی نہیں کر سکتے اور یہ ہرگز تساہل نہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی ایسے کئی لوگ موجود تھے جو واضح کفریہ باتوں میں ملوث تھے لیکن انہیں مسلمانوں والے ہی حقوق حاصل تھے۔ واضح مثال ان لوگوں کی ہے جن کے نام لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کا منافق ہونا بتا دیا تھا۔ یعنی خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی واقف تھے اور اس راز میں سیدنا خذیفہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے مگر اس راز کو نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں پر کھولا اور نہ سیدنا خذیفہ رضی اللہ عنہ نے۔ گویا یہ لوگ مسلمانوں کو ہی حاصل حقوق کے ساتھ باقی رہے۔ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا یہ تساہل تھا (نعوذ باللہ) کہ جو کلمہ گو کافر و منافق تھے حقیقت میں، ان کے بارے میں مسلمان ہی کہا جاتا رہا؟ یہ صرف ایک انداز کی مثال ہے ورنہ بریلوی و دیوبندی پورے گروہوں کی تکفیر معین نہ کرنے میں دیگر شرائط و موانع بھی حائل ہیں۔
ان متساہلین اور حق بات کہنے سے خوف زدہ علماء کی بلاوجہ کی احتیاط اور سکوت، انکا دو ٹوک بات نہ کرنا اور مبہم اور الجھی ہوئی باتوں سے سائلین کو مطمئن کرنے کی کوشش کرناہی عوام الناس کی گمراہی کا سبب بنتا ہے۔
میری اوپر دی گئی مثال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے اس قول پر غور فرمائیں کہ کس قدر جراءت کا مظاہرہ ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ گمراہ فرقوں کے خلاف جو علمی و تحقیقی کام کرتے ہیں اسی کو جاری رکھیں اور ان معاملات میں دخل اندازی نہ کریں جو آپ کے بس کی نہیں۔ معین تکفیر و عدم تکفیر کسی بھی شخص کی چاہے وہ واضح کفریہ و شرکیہ کام میں ملوث ہو، ایک شرعی عدالت و قاضی یا مفتی کا کام ہے، میرا اور آپ کا نہیں۔
ملاعلی قاری وحدۃ الوجود کے بارے میں لکھتے ہیں: ہر آدمی کو چاہیے کہ ان کی فرقہ پرستی اور نفاق کو لوگوں کے سامنے بیان کردے کیونکہ علماء کا سکوت اور بعض راویوں کا اختلاف اس فتنے اور تمام مصیبتوں کاسبب بننا ہے۔(الرد علی القائلین بوحدۃ الوجود،صفحہ 156،بحوالہ تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات، جلددوم، صفحہ468)
ملا علی قاری کی اس بات میں تکفیر معین کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں بلکہ یہ عبارت ان لوگوں کے لئے ہے جو گمراہ فرقوں کے کفریہ و شرکیہ عقائد و نظریات پر پردہ ڈالتے ہیں اور توحید و سنت کو ان کے کفریہ و شرکیہ معاملات کے ساتھ خلط ملط کرتے ہیں۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہم شرعی مسائل میں علماء کا سکوت اور اختلاف ایک فتنے کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور عوام الناس ان فتنوں کا باآسانی شکار ہوجاتے ہیں اس لئے علماء کی ذمہ داری بہت بڑی اور بھاری ہے کیونکہ انکی گمراہی خلق کی گمراہی ہے۔انہیں چاہیے کہ تساہل ، خوف اور اختلاف کو بالائے طاق رکھ کردو ٹوک انداز میں شرعی مسائل( خصوصاً وہ مسائل جن کا تعلق انسانی عقیدے سے ہے) بیان کریں اور معاملات کو بلاوجہ الجھا کر فتنہ پید ا نہ کریں۔
میرے بھائی آپ جس بات کی بنیاد پر یہ بات کہہ رہے ہیں وہ سرے سے ہی غلط ہے۔ شرعی مسائل کی نشاندہی علماء نے کر رکھی ہے چاہے وہ عقائد کے ہوں یا عبادات و معاملات کے۔ اب اگر آپ تکفیر معین کو بھی عقیدہ سمجھتے ہیں تو معذرت کے آپ سخت غلطی پر ہیں۔ تکفیر معین قطعا عقیدے کا مسئلہ نہیں ہے ورنہ کہا جانا چاہئے کہ سید نذیر حسین دہلوی، نواب صدیق حسن خان وغیرہ کا موجودہ اہل حدیث علماء سے عقیدے کا اختلاف تھا کہ وہ ابن عربی کی تکفیر نہیں کرتے۔
میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی جو مثال دی ہے وہ بالکل واضح کرتی ہے کہ کچھ لوگوں کا واضح کفر و شرک میں ملوث ہونے پر بھی تکفیر معین نہ کرنا کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کی بنا پر فتنہ و گمراہی پھیل جائے۔ لہٰذا یہ دیکھنا علماء کا کام ہے کہ لوگوں کی رہنمائی کس طرح کی جائے نہ کہ میرے اور آپ جیسے اٹھ کر علماء کی رہنمائی کریں۔
وقت کی قلت کی بنا پر میرے لئے ممکن نہیں کہ آپ کے تمام حوالہ جات اور مکمل بحث کا جائزہ لے سکوں۔ مگر اتنی نشاندہی کئے دیتا ہوں کہ آپ کی زیادہ تر عبارات عمومی کسی شرکیہ و کفریہ عقیدہ و عمل کا حکم بیان کرتی ہیں نہ کہ تکفیر معین۔ کوشش کروں گا اس ضمن میں اگر وقت ملا تو مزید کچھ لکھ سکوں۔ والسلام