وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
چلئے اب جب کہ آپ نے اپنا مقصد واضح کر دیا ہے اور مضمون کا نہایت مناسب خلاصہ بھی بیان کر دیا ہے تو آپ کی بات سمجھنا اور اپنی سمجھانا زیادہ سہل ہوگا ان شاءاللہ۔
یہ بعینہ وہی اعتراض یا غلط فہمی ہے جس کا اظہار آپ سے پہلے حافظ طاہر اسلام عسکری صاحب کرچکے ہیں لہذا میں آپ کو پھر وہی جواب دیتا ہوں جو انکو دیا تھا۔ یعنی کہ میں نے یہ مضمون تکفیر معین اور مطلق تکفیر کے اطلاق یا انکے مابین فرق پر نہیں لکھا بلکہ ایک ایسے اصول کے رد پر لکھا ہے جس کا ماضی میں کوئی سراغ نہیں ملتا۔ مضمون کا مقصد میں نے آغاز مضمون ہی میں بیان کردیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
’’علماء کے اسی تساہل ، فضول کی احتیاط اور ناجائز مصلحت کی بنا پر مسئلہ تکفیر سے متعلق معاشرے میں پیدا ہونے والے اور تیزی سے پھیلنے والے مندرجہ ذیل دو اصولوں کے درست یا نادرست ہونے کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں پیش کرکے لوگ کفار اور مشرکین کی تکفیر سے دامن بچا لیتے ہیں۔
پہلا اصول: کفر اور شرک کا مرتکب مسلمان کافر اور مشرک نہیں ہوتا۔
دوسرا اصول: کسی شخص کا فعل اور عقیدہ تو شرکیہ اور کفریہ ہوسکتا ہے لیکن اسکے اس فعل یا عقیدہ کی بنا پر اسے کافر اور مشرک نہیں کہا جاسکتا۔
متذکرہ بالا اصولوں کا کوئی سراغ یا نشان ماضی میں نہیں ملتا اور نہ ہی یہ نظریہ اور قاعدہ سلف صالحین و محدثین سے ثابت ہے بلکہ یہ متاخرین کی اختراع ہے۔‘‘
سب سے پہلے تو یہ فرما دیجئے کہ درج بالا اصول بطور اصول کس اہلحدیث یا سلفی عالم نے اپنی کتاب میں درج کئے ہیں۔یا کون سے متاخرین ہیں جنہوں نے یہ اصول بنائے ہیں یا پیش کئے ہیں۔ کیونکہ میں نے سرسری طور پر مضمون کو دوبارہ بھی دیکھا تو مجھے آپ کے فریق مخالف کا مؤقف ان کی زبانی کہیں نظر نہیں آیا۔
میری رائے میں یہ نظریہ تو کسی بھی اہلحدیث عالم کا نہیں کہ "شرک اور کفر کا مرتکب مسلمان کافر اور مشرک نہیں ہوتا "۔یا "ہر وہ شخص جس کا کوئی فعل یا عقیدہ کفریہ شرکیہ ہو، اسے کافر اور مشرک کہا ہی نہیں جا سکتا"۔ ہاں ، علماء یہ ضرور کہتے ہیں کہ کفر کے مرتکب مسلمان یا کفریہ عقیدہ رکھنے والے مسلمان ، کو کافر قرار دینے کے لئے کچھ شرائط ہیں، جن کا پورا ہونا ضروری ہے اور کچھ موانع ہیں جن کا زائل ہونا ضروری ہے۔ اور اس بات پر اہلحدیث، دیوبندی و بریلوی کسی بھی عالم کا اختلاف نہیں۔ واللہ اعلم۔
اب پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ آپ نے جو دو اصول پیش کئے ہیں، ان پر بحث کرنا بجائے خود تکفیر مطلق و تکفیر معین ہی کی بحث کرنا ہے۔ کیونکہ مثلا آپ کے نزدیک یہ اصول غلط ہیں تو گویا درست اصول یوں ہیں کہ:
پہلا اصول: کفر اور شرک کا مرتکب مسلمان کافر اور مشرک ہوتا ہے۔
دوسرا اصول: کسی شخص کا فعل اور عقیدہ شرکیہ اور کفریہ ہو تو اسکے اس فعل یا عقیدہ کی بنا پر اسے کافر اور مشرک کہا جا سکتا ہے۔
یہ دونوں اصول جب تک بطور اصول ، عمومی طور پر بیان کئے جائیں تو یہ غیر معین تکفیر ہے۔ یعنی حقیقی زندگی میں ان کی مثالیں یوں ہوں گی:
- غیراللہ سے استعانت طلب کرنے والا کافر ہے۔
- غیر اللہ کو حلال و حرام کا مالک و مختار اور مشکل کشا و حاجت روا سمجھنے والا کافر ہے۔
- وحدۃ الوجود کے کفریہ عقیدہ کے حاملین کافر ہیں۔
اور درج بالا تینوں مثالوں میں کسی عالم کا کوئی اختلاف نہیں کہ ایسا بالکل کہا جا سکتا ہے۔ بلکہ
علماء و عوام کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کی تبلیغ کریں۔ اور اس میں دیوبندی، بریلوی و اہلحدیث کسی عالم کا کوئی اختلاف نہیں۔ آپ کے پورے مضمون میں شامل تمام حوالہ جات ، الاماشاءاللہ، اسی کے ثبوت پر مبنی ہیں۔ جو محل اختلاف ہی نہیں۔
اور جب آپ کے بیان کردہ انہی اصولوں کو کسی خاص شخص یا گروہ پر منطبق کر دیا جائے تو یہ معین تکفیر ہے۔ یعنی حقیقی زندی میں ان کی مثالیں یوں ہوں گی:
- تمام بریلوی کافر ہیں کیونکہ وہ غیر اللہ سے استعانت طلب کرنے والے کفریہ عقیدہ کے حامل ہیں۔
- تمام بریلوی کافر ہیں کیونکہ وہ غیر اللہ کو حلال و حرام کا مالک و مختار اور مشکل کشا و حاجت روا سمجھتے ہیں جو کفریہ عقیدہ ہے۔
- تمام بریلوی و دیوبندی کافر ہیں کیونکہ وہ وحدۃ الوجود کے کفریہ شرکیہ عقیدہ کے قائل ہیں۔ یا مہنور قادری اور اشماریہ کافر ہے کیونکہ وہ وحدۃ الوجود کا قائل ہے۔
درج بالا تینوں مثالیں تکفیر معین کی ہیں۔ اور یہی وہ خطرناک گھاٹی ہے ، وہ نازک معاملہ ہے جس میں علمائے کرام حد درجہ محتاط ہیں۔ اور تکفیر کی شرائط کے پورا ہونے اور موانع کے زائل ہونے تک اس خاص شخص یا گروہ کو کافر قرار نہیں دیتے۔اور یہی وہ معاملہ ہے جو عوام الناس کی ڈومین سے باہر کی چیز ہے۔ اسی تکفیر کی بابت شیخ کفایت اللہ نے فرمایا ہے کہ عوام تو دور کی بات، عام اہل علم کو بھی اس سے دور رہنا چاہئے۔ اور یہی وہ اختلافی معاملہ ہے، جسکے حوالہ جات سے آپ کا مضمون خاموش ہے۔ جبکہ آپ درج بالا تکفیر کے قائل ہیں، علماء میں سے کوئی بھی آپ کے ساتھ نہیں۔
آپ کی جس بنیادی غلط فہمی کی جانب طالب نور، حافظ طاہر اسلام عسکری صاحب نے اور گزشتہ پوسٹ میں میں نے اشارہ کیا تھا۔ وہ یہی ہے کہ آپ ثبوت و دلائل اول الذکر قسم کی غیر معین تکفیر کے ذکر کرتے ہیں، اور اس سے نتیجہ وہ نکالتے ہیں جو ثانی الذکر قسم کی معین تکفیر کہلاتی ہے۔ حالانکہ دونوں میں بعد المشرقین ہے۔ اول الذکر تکفیر یا اصول، ثانی الذکر تکفیر یا ان اصولوں کی تطبیق کو ہرگز مستلزم نہیں۔
اگر تو واقعی کوئی ایسے علماء موجود ہیں، جو ہر حال میں اور ہر کفریہ شرکیہ فعل میں ملوث ہونے والے کی تکفیر کو کبھی بھی جائز و درست ہی نہیں سمجھتے، تو میں ان سے واقف نہیں ہوں۔ اور نہ اس مؤقف کو درست سمجھتا ہوں۔
لیکن اگر ایسی بات نہیں ہے اور آپ ان سلفی علماء کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو کفریہ شرکیہ فعل میں ملوث یا شرکیہ عقائد کے حامل افراد کو کافر قرار دینے میں شرائط و موانع کے قائل ہیں، تو اسے واضح کر دیں۔ کیونکہ آپ نے جو دو اصول پیش کئے ہیں، میرے مطالعہ کی حد تک وہ دونوں ایک ہی ہیں اور درست طور پر انہیں یوں لکھا جا سکتا ہے :
کفر اور شرک کے مرتکب مسلمان یا کفریہ شرکیہ عقیدہ رکھنے والے کسی مسلمان شخص یا گروہ کی معین تکفیر اس وقت تک نہیں کی جا سکتی، جب تک تکفیر کی شرائط پوری اور موانع زائل نہ ہو جائیں۔لیکن عمومی طور پر ہر کفریہ شرکیہ عقیدے کے حامل کو کافر و مشرک کہا جا سکتا ہے ، یعنی غیر معین تکفیر کی جا سکتی ہے۔
میرے بھائی پورا مضمون جن حوالہ جات سے بھرا ہوا ہے ان کا اصل مقصد تکفیر معین نہیں ہے بلکہ ان سے اس خاص اصول کا رد مقصود ہے جسے آغاز مضمون میں بیان کردیا گیا ہے۔ میں نے جس موقف کے حق میں حوالہ جات نقل کئے ہیں اس موقف اور حوالہ جات میں مکمل مطابقت پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ میں نے کئی حوالوں کے بعد بطور تشریح لکھا ہے۔
’’دیکھیں!کسی بھی مفسر نے یہ نہیں کہاکہ مشرکین کی بات ماننے یا انکی اطاعت کرنے پر مسلمان کا عمل و عقیدہ تو شرکیہ ہوگا لیکن خود اسے مشرک و کافر نہیں کہا جائے گا۔چناچہ قرآن کی اس آیت کی رو سے مبتدعین کے ہردو اصول (کہ کفر اور شرک کا مرتکب کافر اور مشرک نہیں ہوتا اور اسکا فعل تو مشرکانہ ہے لیکن وہ خود مشرک نہیں) باطل ہیں۔‘‘
ایک اور جگہ گوندلوی رحمہ اللہ کی عبارت نقل کرنے کے بعد بطور وضاحت لکھا ہے: اس عبارت سے بھی معلوم ہوا کہ ضروریات دین کا انکار کرنے والامسلمان کافر ہے ۔نہ کہ محض اسکا عمل کفر اور وہ خود کافر نہیں۔
جو علماء تکفیر معین میں شرائط کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک بھی یہ کہنا درست ہے کہ:
مشرکین کی بات ماننے والا یا ان کی اطاعت کرنے والا مشرک نہیں ہوگا۔ لیکن یاد رہے کہ یہ غیر معین تکفیر ہے۔ اگر آپ کسی شخص کو دیکھیں کہ وہ مشرکین کی اطاعت کرنے والا ہے تو خاص اس شخص کو کافر قرار نہیں دے سکتے جب تک کہ علماء کی ایک جماعت اس پر اتمام حجت نہ کر دے اور شرائط و موانع کی ، خاص اس شخص کے حق میں جانچ پڑتال نہ کر لی جائے۔
گوندلوی صاحب کی یہ عبارت کہ :
ضروریات دین کا انکار کرنے والا مسلمان کافر ہے۔ اس سے بھلا کس کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کسی ایسے شخص پر مطلع ہو جائیں جو ضروریات دین کا انکار کرتا ہے، تو خاص اس شخص یا گروہ کو کافر قرار دینے کے لئے تکفیر کی شرائط کا پورا ہونا، اس میں حائل موانع کا زائل ہونا ضروری ہے۔
آپ درج بالا دونوں باتوں سے متفق ہیں یا نہیں؟
اگر آپ متفق ہیں تو ہمارے بیچ اختلاف کی کوئی وجہ نہیں۔
اگر آپ کو اس سے انکار ہے تو یہی اختلاف کی بنیادی وجہ ہے اسی پر ہی بات ہونی چاہئے۔