کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,805
- پوائنٹ
- 773
امام بخاری رحمہ اللہ کے اقوال کی مزیدمثالیں
اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ بہت سے رواۃ کو منکرالحدیث اور بہت سے رواۃ کو معروف الحدیث کہتے ہیں مثلا:
الوَلِيد بْن عُتبَةَ، الدِّمَشقِيُّ.روى عَنْ مُعاوية بْن صالح، مَعروفُ الحديثِ[التاريخ الكبير للبخاري: 8/ 150]۔
إبراهيم أبو إسحاق عن بن جريج سمع منه وكيع معروف الحديث [التاريخ الكبير للبخاري 1/ 273]
تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول بے سندہے؟؟؟
اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوبردہ کے نام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:
الحارث بن عمرو ويقال له أبو بردة خال البراء ويقال عم البراء بن عازب وخال أصح والمعروف اسم أبي بردة هانئ بن نيار [التاريخ الكبير للبخاري 2/ 259]۔
تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول بے سندہے؟؟؟
اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے عبدالعزیز سے یزید کے عدم سماع کے بارے میں کہتے ہیں:
ويزيد هذا غير معروف سماعه من عبد العزيز [التاريخ الصغير للبخاري: 2/ 65]۔
تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول بے سندہے؟؟؟
یادرہے کہ اسی طرح اقوال دیگرائمہ سے بھی ملتے ہیں۔
الغرض یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک خاص مقام پر دوصحابہ کی عدم ملاقات کی جو بات کہی ہے تو اس بات کا تعلق محدثین وناقدین کے فن سے ہیں ، محدثین وناقدین کو یہ اتھارٹی حاصل ہے کہ وہ کسی دو رواۃ کے مابین عدم سماع یا عدم معاصرت یا عدم لقاء کی صراحت کریں اور محدثین کے اس طرح کے اقوال کی بنیاد محدثین کی فنی مہارت ہوتی ہے لہٰذا محدثین اپنے فن کی بات کہیں تو یہ حجت ہے یہاں محدثین سے سند کا مطالبہ مردود ہے ۔
اسی طرح ناقدین جب اپنے دور سے قبل کے رواۃ کی تاریخ پیدائش یا تاریخ وفات بتلائیں یعنی یہ بتلائیں کہ یہ فلاں کی شخص کے موت کے بعد پیدا ہوا یہ فلان کے پیدا ہونے سے پہلے فوت ہوگیا ، یا طبقہ بتلائیں تو یہ حجت ہے کیونکہ ناقدین کا یہ فیصلہ ان کے فن کا ہے ، ایسے اقوال میں یہ مطالبہ کہ فلاں راوی کی تاریخ وفات یا تاریخ پیدائش یا طبقہ کی سندصحیح بھی بتلائیں تو یہ مطالبہ ہی مردود ہے ، ورنہ ہم بھی حافظ موصوف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آں جناب نے جہاں جہاں بھی سند کے انقطاع پر ناقدین کے حوالے سے تاریخ وفات یا تاریخ پیدائش کے اقوال پیش کئے ہیں ان اقوال کی سند صحیح پیش کرنے کیے ساتھ ساتھ اقوال میں میں جوبات ہے اس کی بھی سند صحیح پیش کریں !!
اوراگراس طرح کے اقوال میں براہ راست ناقدین سے سند کا مطالبہ درست ہے توہمارا دعوی ہے کہ عام کتب احادیث تو دور کی بات سنن اربعہ کی کوئی ایک حدیث بھی صحیح یاضعیف ثابت نہیں کی جاسکتی ۔
کیونکہ رواۃ کے تعارف میں ناقدین کے جواقوال پیش کئے جائیں گے تو یہاں دو طرح کی سند کا مطالبہ کیا جائے گا:
- اول: ناقدکا جوفیصلہ ہے وہ اس کی کتاب سے یاکسی اورکتاب سے بسند صحیح پیش کیاجائے۔
- دوم: ناقد کے اپنے فیصلہ میں جو بات ہے مثلا یہ کہ فلاں کذاب ہے یافلاں کی فلاں سے ملاقات نہیں اور یہ فلاں ناقد کے زمانہ کا نہ ہو یا ہو بھی تو کذاب کہنے کی بھی دلیل ، اسی طرح عدم لقاء یا عدم سماع کی بھی دلیل وغیرہ وغیرہ جیسی تمام باتوں کی بھی سند صحیح بھی پیش کرنی ہوگی ۔
میرے خیال سے اس اصول کے تحت دیگر کتب تو دور کی بات سنن اربعہ ہی سے کسی ایک بھی حدیث کو صحیح یا ضعیف ثابت کرنا ناممکن ہے اور اگرممکن ہے تو ہمیں صرف ایک حدیث کی تحقیق ناقدین سے بسند صحیح ثابت اقوال نیز ناقدین کے اقوال میں جوبات ہے اس کی بھی سندصحیح پیش کرکے دکھلایاجائے۔۔۔۔۔۔۔بارک اللہ فیکم۔
جاری ہے۔۔۔۔۔