بسم اللہ الرحمن الرحیم
حافظ زبیر علی زئی
رسول اللہ ﷺ کی سنت کو بدلنے والا : یزید، یہ حدیث ثابت ہے
حافظ ابن عساکر الدمشقی ( م ۵۷۱ ھ) نے لکھا ہے:
’’ أخبرنا أبو سھل محمد بن إبراہیم : أنا أبو الفضل الرازي : أنا جعفر بن عبد اللّٰہ : نا محمد بن ھارون : نا محمد بن بشار: نا عبد الوہاب : نا عوف: ثنا مھاجر أبو مخلد : حدثني أبو العالیۃ : حدثني أبو مسلم قال : غزا یزید ابن أبي سفیان بالناس فغنموا فوقعت جاریة نفیسة في سھم رجل ، فاغتصبھا یزید، فأتی الرجل أبا ذر فاستعان بہ علیہ فقال لہ : ردّ علی الرجل جاریة ، فتلکأ علیہ ثلاثًا، فقال: إني فعلت ذاک لقد سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول : ((أوّل من یبدّل سنتي رجل من بني أمیة ، یقال لہ یزید.)) فقال لہ یزید بن أبي سفیان: نشدتک باللّٰہ أنا منھم ؟ قال: لا. قال : فردّ علی الرجل جاریتہ.‘‘ ابو مسلم ( الجذمی رحمہ اللہ ) نے فرمایا: یزید بن ابی سفیان(رضی اللہ عنہ) نے لوگوں کے ساتھ مل کر (ایک) جہاد کیا پھر انھیں مال غنیمت حاصل ہوا تو ایک آدمی کے حصے میں ایک بہترین قیمتی لونڈی آئی۔ پھر اس لونڈی کو یزید بن ابی سفیان(رضی اللہ عنہ)نے اپنے قبضے میں لے لیا تو وہ آدمی ابوذر (رضی اللہ عنہ)کے پاس آیا اور اُن کے خلاف تعاون کرنے کی درخواست کی۔ پھر انھوں (ابو ذر رضی اللہ عنہ) نے اُن(یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ)سے فرمایا: اس آدمی کو اُس کی لونڈی واپس دے دو۔ تو انھوں نے تین دفعہ عذر پیش کیا پھر ( ابو ذر رضی اللہ عنہ نے) فرمایا: میں نے یہ اس لئے کیا ہے، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میری سنت کو سب سے پہلے بنو اُمیہ کا ایک آدمی تبدیل کرے گا جسے یزید کہا جائے گا۔
یزید بن ابی سفیان (رضی اللہ عنہ)نے اُن (سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ) سے پوچھا : اللہ کی قسم ! کیا میں وہ آدمی ہوں؟ انھوں نے فرمایا: نہیں۔
پھر انھوں(یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ) نے اس لونڈی کو واپس کر دیا۔
( تاریخ دمشق ۶۵/ ۲۴۹۔ ۲۵۰)
اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے اور راویوں کا تعارف درج ذیل ہے:
۱: ابو سہل محمد بن ابراہیم بن محمد بن سعدویہ الاصبہانی رحمہ اللہ (م ۵۳۰ ھ)
حافظ ذہبی نے فرمایا:
’’ الثقة العالم ...صالح خیّر صدوق مکثر ‘‘
( سیر اعلام النبلاء ۲۰/ ۴۷)
ابن الجوزی نے فرمایا:
’’ و کان حسن السیرۃ ثقة ثبتًا، ذکرہ شیخنا أبو الفضل ابن ناصر و أثنی علیہ .‘‘(المنتظم ۱۷/ ۳۱۶ ت ۴۰۱۵)
ابو سعد عبد الکریم بن محمد بن منصور السمعانی نے فرمایا:
’’ شیخ أمین، دیّن صالح، ثقۃ صدوق، حسن السیرۃ ، کثیر السماع... و من مسموعاتہ کتاب المسند لأبي بکر محمد بن ہارون الرویاني بروایتہ عن أبي الفضل الرازي عن أبي القاسم ابن فناکي عنہ .‘‘ (المنتخب من معجم الشیوخ ۳/ ۱۳۵۲۔ ۱۳۵۳ ت ۸۸۹)
۲: ابو الفضل عبد الرحمن بن احمد بن الحسن بن بندار المقرئ الرازی رحمہ اللہ ( م ۴۵۴ھ)
عبدالغافر بن اسماعیل الفارسی نے فرمایا:
’’ ثقة فاضل ، إمام فی القراء ات ، أوحد في طریقتہ .‘‘ (الحلقۃ الاولیٰ من تاریخ نیسابور، المنتخب من السیاق ص ۴۷۸ ت ۱۰۱۴)
ذہبی نے فرمایا:
’’ الإمام القدوۃ ، شیخ الإسلام ‘‘ (النبلاء ۱۸/ ۱۳۵)
اور فرمایا:
’’ الزاھد الإمام‘‘(تاریخ الاسلام ۳۰/ ۳۶۱ ت ۱۱۳)
یحییٰ بن مندہ نے اپنی تاریخ میں فرمایا:
’’ثقة ورع متدین عارف بالقراء ات و الروایات عالم بالأدب والنحو وھو مع ھذا أکبر من أن یدل علیہ مثلي وھو أشھر من الشمس و أضوأ من القمر، ذوالفنون من العلم۔ رحمہ اللّٰہ۔ وکان شیخًا مھیبًا منظورًا فصیح اللسان حسن الطریقة کبیرالوزن .‘‘
(بحوالہ التقیید لابن نقطۃ ۲/ ۸۴ ت ۴۰۳)
۳: ابو القاسم جعفر بن عبد اللہ بن یعقوب بن الفناکی الرازی رحمہ اللہ (م ۳۸۳ ھ)
ابو یعلیٰ الخلیلی نے فرمایا:
’’ موصوف بالعدالة و حسن الدیانة.‘‘
(الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث ۲/ ۶۹۱ ت ۴۶۲)
ضیاء مقدسی نے اُن کی کئی احادیث المختارۃ میں بیان کیں۔
(مثلاً دیکھئے المختارۃ ۲/ ۳۵۳ ح ۷۳۵)
وہ مسند الرویانی کے بنیادی راوی ہیں اور ایک جماعت نے ان سے روایت بیان کی ہے۔
حافظ ذہبی نے اُن کی بیان کردہ ایک حدیث کے بارے میں فرمایا:
’’ وھذا إسناد صحیح ‘‘ (تاریخ الاسلام ۲۷/ ۶۱)
تین ائمہ کی اس تعریف و توثیق کے بعد جعفر بن عبد اللہ کے بارے میں اعدل الاقوال یہی ہے کہ وہ ثقہ و صدوق ہیں۔
اس توثیق کے بعد بھی اگر کوئی شخص بضد ہے کہ ’’ جعفر بن عبد اللہ کے حافظہ و ضبط کے بارہ میں کوئی دلیل مجھے نہیں ملی البتہ ... ‘‘ تو ہم یہی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو فہم سلیم اور حافظہ و ضبط عطا فرمائے۔ آمین
۴: ابو بکر محمد بن ہارون الرویانی رحمہ اللہ ( م ۳۰۷ ھ)
حافظ خلیلی نے فرمایا:
’’ثقة‘‘(الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث ۲/ ۸۰۱ ت ۶۹۹)
حافظ ذہبی نے فرمایا:
’’ الإمام الحافظ الثقة .. صاحب المسند المشھور ‘‘
(النبلاء ۱۴/ ۵۰۷ ت ۲۸۴)
محمد بن عبد الغنی البغدادی یعنی ابن نقطہ نے فرمایا:
’’ ثقة إمام‘‘(تکملۃ الاکمال ۲/ ۷۴۸ ت ۲۶۵۳)
۵: ابو بکر محمد بن بشار بن عثمان العبدی عرف بندار رحمہ اللہ ( م ۲۵۲ ھ)
آپ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے بنیادی راوی ہیں۔
انھیں امام عجلی اور جمہور نے ثقہ وصحیح الحدیث قرار دیا ۔ حافظ ابن حجر نے فرمایا:
’’ ثقة‘‘
( تقریب التہذیب : ۵۷۵۴)
حافظ ذہبی نے فرمایا:
’’ ثقة صدوق... ‘‘ إلخ (میزان الاعتدال ۳/ ۴۹۰ ت ۷۲۶۹)
ان پر امام ابو حفص عمرو بن علی الفلاس وغیرہ کی جرح جمہور کی توثیق کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
۶: ابو محمد عبد الوہاب بن عبد المجید بن الصلت الثقفی البصری رحمہ اللہ ( م ۱۹۴ھ )
آپ صحیح البخاری ،صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے مرکزی راوی ہیں۔
عبد الوہاب الثقفی رحمہ اللہ (م ۱۹۴ھ) کی توثیق درج ذیل ہے:
۱: بخاری
(احتج بہ فی صحیحہ)
۲: مسلم
(احتج بہ فی صحیحہ)
۳: یحییٰ بن معین نے فرمایا:
’’ ثقة ‘‘
( کتاب العلل و معرفۃ الرجال لعبد اللہ بن احمد ۳/۳۲ فقرہ : ۴۰۳۵ ، تاریخ عثمان بن سعید الدارمی : ۶۲ وغیرہما)
۴: ایوب السختیانی نے فرمایا: اس نوجوان عبد الوہاب الثقفی کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رہو۔
(تاریخ بغداد ۱۱/ ۱۹ ت ۵۶۸۷ وسندہ صحیح و لفظہ : الزموا ھذا الفتی عبد الوہاب الثقفي)
۵: عجلی نے فرمایا:
’’ ثقة ‘‘ (التاریخ : ۱۱۴۷)
۶: ابن خزیمہ
( احتج بہ فی صحیحہ )
۷: ابن حبان ( ذکرہ فی الثقات ۷/ ۱۳۲۔ ۱۳۳ ، واحتج بہ فی صحیحہ)
۸: علی بن عبد اللہ المدینی نے فرمایا:
’’ لیس فی الدنیا کتاب عن یحیی أصح من کتاب عبد الوہاب ...‘‘ دنیا میں یحییٰ ( بن سعید) سے عبد الوہاب (ثقفی) کی کتاب سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔ ( کتاب المعرفۃ والتاریخ ۱/ ۶۵۰)
۹: امام شافعی نے فرمایا:
’’ وھو ثقة ‘‘
(کتاب الام ج۱ص ۲۶۳، السنن الکبریٰ للبیہقی ۱۰/ ۱۷۰ ح ۲۰۶۵۳)
۱۰: بیہقی نے فرمایا:
’’ وھو من الثقات ‘‘(السنن الکبریٰ ۱۰/ ۱۶۹ ح ۲۰۶۵۳)
۱۱: ترمذی ( صحح لہ : ۲۰، ۲۲۷۰ وغیرہما)
۱۲: ابن الجارود (روی لہ فی المنتقیٰ : ۸۷، ۲۹۷، ۳۰۱)
۱۳: دارقطنی ( صحح لہ ۳/ ۲۲۲۔ ۲۲۳ ح ۳۴۸۴)
۱۴: حاکم ( صحح لہ ۳/ ۴۰۸ ح ۵۷۲۹ ووافقہ الذہبی)
۱۵: ذہبی ( ایضاً ) نیز فرمایا:
’’ ھو الإمام الأنبل الحافظ الحجة ‘‘(النبلاء ۹/ ۲۳۷)
اور تذکرۃ الحفاظ میں انھیں ذکر کر کے فرمایا:
’’ کان ثقة سریًا جلیل القدر ‘‘
(۱/ ۳۲۱ ت ۳۰۰)
حافظ ذہبی کا کلام آگے بھی آ رہا ہے۔ (ص ۷۔۸)
۱۶: ابو عوانہ ( روی لہ فی مستخرجہ)
۱۷: بغوی (صحح لہ فی شرح السنۃ ۱/ ۴۶۰ ح۲۳۷)
۱۸: ابو نعیم الاصبہانی (روی لہ فی مستخرجہ)
۱۹: ابن عساکر (صحح لہ فی معجم شیوخہ ۱/ ۱۰۲۔۱۰۳ ح ۱۰۸)
۲۰: الضیاء المقدسی (احتج بہ فی المختارۃ)
۲۱: امام قتیبہ بن سعید الثقفی نے فرمایا:
’’ ما رأیت مثل ھؤ لاء الفقہاء الأشراف الأربعة : مالک بن أنس واللیث بن سعد و عباد بن عباد المھلبي و عبد الوہاب الثقفي.‘‘ میں نے ان چار معزز فقہاء جیسا کوئی نہیں دیکھا: مالک ، لیث بن سعد، عباد بن عباد اور عبد الوہاب ثقفی ۔ (سنن ترمذی : ۲۶۱۱)
۲۲: حافظ ابن حجر نے فرمایا:
’’ أحد الأثبات ‘‘ وہ ثقہ راویوں میں سے ایک ہیں۔
( ہدی الساری ص ۴۲۲)
اور فرمایا:
’’ ثقة، تغیر قبل موتہ بثلاث سنین .‘‘(تقریب التہذیب : ۲۴۶۱)
۲۳: امام احمد بن حنبل نے اُن سے روایت بیان کی اور حافظ ابن حجر نے محمد بن الحسن بن اتش الیمانی پر امام نسائی کی جرح کا درج ذیل جواب دیا :
’’ و کلام النساءي فیہ غیر مقبول لأن أحمد و علي ابن المدیني لا یرویان إلا عن مقبول مع قول أحمد بن صالح فیہ . ‘‘ اور اُن کے بارے میں نسائی کا کلام مقبول نہیں کیونکہ احمد اور علی بن المدینی دونوں صرف مقبول (یعنی اپنے نزدیک ثقہ ) سے ہی روایت بیان کرتے تھے، اس کے ساتھ ان کے بارے میں احمد بن صالح کا قول بھی ہے۔
( تہذیب التہذیب ۳/ ۵۴۰)
۲۴: اُن سے علی بن المدینی نے روایت بیان کی ۔ نیز دیکھئے فقرہ سابقہ : ۲۳
۲۵: عبد الکریم بن محمد بن منصور التمیمی السمعانی ( م ۵۶۲ھ ) نے فرمایا:
’’ و کان من الثقات و کان صحیح الکتاب ثقة صدوقًا ، قیل إنہ اختلط في آخر عمرہ قبل موتہ بثلاث سنین . ‘‘(الانساب ۱/ ۵۰۹، الثقفی)
۲۶: ابن ناصر الدین الدمشقی نے فرمایا:
’’ وکان من الحفاظ الأثبات المتقنین مع سخاۂ و کثرت نفقاتہ علی الطالبین . ‘‘(التبیان لبدیعۃ البیان ۱/ ۴۸۷ رقم: ۲۷۷)
۲۷: ابن الجوزی نے فرمایا:
’’ و کان ثقة إلا أنہ اختلط في آخر عمرہ. ‘‘
(المنتظم ۱۰/ ۹ ت ۱۰۶۴)
۲۸ : خلیلی نے انھیں ثقات ( ثقہ راویوں ) میں شامل کیا۔
(الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث ۱/ ۲۰۷ ت ۳۳)
۲۹: ابن عبد الہادی ( م ۷۴۴ ھ) نے فرمایا:
’’ الإمام الحافظ ... کان ثبتًا سرّیًا جلیل القدر . ‘‘(طبقات علماء الحدیث ۱/ ۴۶۳ ت۲۸۱ )
۳۰: ابن الاثیر الجزری ( م ۶۳۰ھ ) نے فرمایا:
’’ و کان ثقة واختلط قبل موتہ بثلاث سنین ‘‘(اللباب فی تہذیب الانساب ۱/ ۱۶۵)
اس جم غفیر اور جمہور علمائے حدیث و سلف صالحین کے مقابلے میں درج ذیل جرح موجود ہے:
۱: ابن سعد نے کہا:
’’ و کان ثقة و فیہ ضعف ‘‘ (طبقات ابن سعد ۷/ ۲۸۹ )
۲: عقیلی ( ذکرہ فی کتاب الضعفاء و ) قال :
’’ تغیر في آخر عمرہ .‘‘
( کتاب الضعفاء طبعہ جدیدہ ۳/ ۵۶۰ ت ۱۰۴۵ ، و طبعات قدیمہ)
یہ جرح دو وجہ سے مردود ہے:
۱: یہ جمہور محدثین کے خلاف ہے اور جمہور کی توثیق کے خلاف (تعارض و عدم تطبیق کی صورت میں) ہر جرح مردود ہوتی ہے۔
۲: اس جرح کا تعلق اختلاط سے ہے۔
حافظ ابن حجر نے ابن سعد کی جرح کے بارے میں لکھا ہے:
’’ قلت : عنی بذلک ما نقم علیہ من الاختلاط.. والظاہر أنہ إنما أخرج لہ عمن سمع منہ قبل اختلاطہ کعمرو بن علي وغیرہ ...‘‘
میں نے کہا: اس (ابن سعد) کی اس سے مراد اختلاط والی جرح ہے... اور ظاہر یہ ہے کہ انھوں (بخاری) نے ان ( عبد الوہاب ثقفی ) سے ان لوگوں کی روایات بیان کی ہیں جنھوں نے ان کے اختلاط سے پہلے سنا تھا مثلاً عمرو بن علی وغیرہ . الخ (ہدی الساری ص ۴۲۲۔ ۴۲۳)
ہم نے اس مضمون میں ثابت کر دیا ہے کہ محمد بن بشار کا عبد الوہاب ثقفی سے سماع اُن کے اختلاط سے پہلے کا ہے لہٰذا اختلاط کا اعتراض سرے سے مردود ہے۔
بعض معاصرین کا یہ کہنا کہ ’’ اور ابن سعد رحمہ اللہ کی جرح اختلاط سے متعلق نہیں بلکہ فیہ ضعف کی مطلق جرح ہے‘‘ حافظ ابن حجر کی صراحت اور جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
یہاں بطورِ فائدہ عرض ہے کہ ابن سعد پر امام یحییٰ بن معین کی جرح : ’’ کذب ‘‘ جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے اور ابن سعد صدوق موثق عند الجمہور ہیں۔
عقیلی کی جرح کا تعلق بھی اختلاط سے ہے، جس کا جواب گزر چکا ہے۔
حافظ ابن حجر نے فرمایا:
’’ ثقة تغیّر قیل موتہ بثلاث سنین ‘‘
( دیکھئے فقرہ سابقہ : ۲۲ ص ۵)
حافظ ذہبی نے فرمایا:
’’ فثقةمشھور ‘‘(میزان الاعتدال ۲/ ۶۸۰ ت ۵۳۲۱)
حافظ ذہبی نے اُن کے ساتھ
’’ صح‘‘ کی علامت لکھی اور حافظ ذہبی کے نزدیک اس علامت کا یہ مطلب ہے کہ اُن کی توثیق راجح ہے اور جرح مردود ہے۔
(دیکھئے لسان المیزان ۲/ ۱۵۹ ، دوسرا نسخہ ۲/ ۲۸۹ ، تحقیقی مقالات ۳/ ۱۸۲۔ ۱۸۳)
اگر کوئی کہے کہ عبد الوہاب الثقفی ثقہ تو ہیں لیکن آخری عمر میں انھیں اختلاط ہو گیا تھا تو اس اعتراض کے دو جواب ہیں:
(۱)حافظ ذہبی نے فرمایا:
’’ لکنہ ماضرّ تغیرہ حدیثہ فإنہ ما حدّث بحدیث فی زمن التغیر. ‘‘ لیکن آپ کی حدیث کو اختلاط نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا کیونکہ آپ نے زمانۂ اختلاط ( یا زمانۂ تغیر) میں کوئی حدیث بیان نہیں کی۔ (میزان الاعتدال ۲/ ۶۸۱)
نیز فرمایا:
’’ لکن ما ضرہ تغیرہ فإنہ لم یحدث زمن التغیر بشئ .‘‘
لیکن انھیں اختلاط نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا ، کیونکہ انھوں نے زمانۂ اختلاط میں کوئی حدیث بیان نہیں کی۔ ( سیر اعلام النبلاء ۹/ ۲۳۹ )
(۲) عبد الوہاب الثقفی رحمہ اللہ سے یہ حدیث امام محمد بن بشار رحمہ اللہ نے بیان کی ہے اور ابن بشار کی ثقفی سے روایات صحیح بخاری ( ۳۷۷۱، ۹۷۲، ۲۰۹۷، ۲۱۶۲، ۲۶۳۴)اور صحیح مسلم ( ۱۲۰۸[ ۲۹۰۵] ، ۲۵۱۵[ ۶۴۳۲]) وغیرہما میں موجود ہیں۔
(نیز دیکھئے الکواکب النیرات ص ۳۱۹)
ابن الصلاح نے فرمایا:
’’ واعلم أن من کان من ھذا القبیل محتجًا بروایتہ فی الصحیحین أو أحدھما فإنا نعرف علی الجملۃ أن ذلک مما تمیز و کان مأخوذًا عنہ قبل الاختلاط واللّٰہ أعلم .‘‘
اور جان لے کہ اس قسم کے جن راویوں سے صحیحین یا صحیحین کی کسی ایک کتاب میں بطورِ حجت روایت لی گئی ہے توہم عمومی طور پر یہ جانتے ہیں کہ ان روایتوں کو علیحدہ کر دیا گیا ہے اور یہ اس راوی کے اختلاط سے پہلے کی ہیں۔ واللہ اعلم (مقدمۃ ابن الصلاح ص ۴۶۶ نوع : ۶۲)
اس سے معلوم ہوا کہ جس مختلط راوی سے صحیحین میں روایت بطورِ استدلال موجود ہو تو یہ اس کے اختلاط سے پہلے کی ہوتی ہے اِلا یہ کہ کسی خاص راوی کے بارے میں کوئی خاص دلیل ثابت ہو جائے تو اسے مستثنیٰ کر دیا جائے گا۔
چونکہ یہاں مقابلے میں کوئی خاص دلیل موجود نہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ حدیث امام عبد الوہاب الثقفی کے اختلاط سے پہلے کی ہے۔
اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ یہ حدیث صرف عبد الوہاب نے متصلاً بیان کی ہے اور دوسرے دو ثقہ راویوں ( ھوذہ بن خلیفہ اور معاذ بن معاذ العنبری ) نے اس طرح بیان نہیں کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ عبد الوہاب ثقہ ہیں اور ثقہ کی زیادت ( اگر اوثق کے مخالف نہ ہو تو ) مقبول ہوتی ہے۔ یہاں یہ زیادت کسی ثقہ یا اوثق راوی کے بھی خلاف نہیں اور بعض راویوں کا متصل روایت بیان نہ کرنا ہر گز مخالفت نہیں ہوتی، ورنہ اس باطل اعتراض کی رو سے صحیحین کی بعض روایات اور دیگر احادیث صحیحہ کو بھی ضعیف قرار دیا جا سکتاہے جو کہ اصلاً باطل و مردود ہے۔
مثال نمبر ۱: امام بخاری رحمہ اللہ نے
’’ عیسی بن یونس عن ہشام (بن عروۃ)عن أبیہ عن عائشة رضي اللّٰہ عنہا‘‘ کی سند سے ایک حدیث بیان کی :
’’ کان رسول اللّٰہ ﷺ یقبل الھدیةو یثیب علیھا. ‘‘
رسول اللہ ﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے اور اس کے بدلے میں ہدیہ دیتے تھے۔
یہ حدیث بیان کرنے کے بعد امام بخاری نے فرمایا:
’’ لم یذکر وکیع و محاضر: عن ھشام عن أبیہ عن عائشة‘‘ وکیع اور محاضر نے (اس سند میں) عروہ کے بعد عن عائشہ کا واسطہ بیان نہیں کیا۔ (صحیح بخاری : ۲۵۸۵)
وکیع بن الجراح کی مرسل روایت کے لئے دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ ( ۶/ ۵۵۲ ح ۲۱۹۶۵)
امام یحییٰ بن معین نے فرمایا:
’’ و الناس یحدّثون بہ مرسلاً. ‘‘ اور لوگ (عیسیٰ بن یونس کے علاوہ) اسے مرسل بیان کرتے ہیں۔ (تاریخ ابن معین ، روایۃ الدوری : ۲۹۷۳، نیز دیکھئے : ۱۱۳۸)
امام ترمذی نے فر مایا: ہم اسے صرف عیسیٰ بن یونس عن ہشام کی سند سے ہی مرفوع (یعنی متصل)جانتے ہیں۔ (سنن الترمذی : ۱۹۵۳، وقال : حسن صحیح غریب)
دارقطنی نے اسے الالزامات والتتبع میں ذکر کیا۔ (ص ۳۴۳ ح ۱۸۵)
اس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری کے نزدیک ثقہ راوی کی زیادت مقبول ہوتی ہے اور دو ثقہ راویوں کا روایت مذکورہ کو مرسل بیان کرنا اُن کے نزدیک ضعف کی دلیل نہیں۔
مثال نمبر ۲: علی بن حفص المدائنی نے
’’ شعبة عن خبیب بن عبد الرحمن عن حفص بن عاصم عن أبي ھریرۃ ‘‘ رضی اللہ عنہ کی سند سے ایک حدیث بیان کی :
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’ کفی بالمرء کذبًا أن یحدّث بکل ما سمع . ‘‘
آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرتا رہے۔
(صحیح مسلم ج۱ص ۸۔۹ ح ۵ ترقیم دارالسلام : ۷)
امام ابو داود نے فرمایا: اسے اس شیخ یعنی علی بن حفص المدائنی کے علاوہ کسی نے مسند (یعنی متصل سند کے ساتھ ) روایت نہیں کیا۔ ( سنن ابی داود : ۴۹۹۲)
امام دارقطنی نے فرمایا:
’’ ھذا حدیث رواہ غندر و ابن أبي عدي وغیرہما عن شعبة مرسلاً لم یذکروا فیہ أبا ھریرۃ و ذکرہ علي بن حفص المدائني وغیرہ أثبت منہ .‘‘ اسے غندر اور ابن ابی عدی وغیرہما نے شعبہ سے مرسل بیان کیا ہے، انھوں نے ابو ہریرہ کا ( سند میں) ذکر نہیں کیا، ان کا ذکر علی بن حفص المدائنی نے کیا ہے اور دوسرے اس سے زیادہ ثقہ ہیں۔ ( تعلیقات الدارقطنی علی المجروحین لابن حبان ص ۴۱)
شعبہ سے مرسل روایات درج ذیل ہیں:
۱: عبد الرحمن بن مہدی (صحیح مسلم والزھد للامام احمد : ۲۴۹)
۲: معاذ العنبری (صحیح مسلم)
۳: حفص بن عمر (سنن ابی داود والمستدرک ۱/ ۱۱۲ ح ۳۸۲)
۴: سلیمان بن حرب (المستدرک للحاکم ۱/ ۱۱۲ ح ۳۸۲)
۵: وھب بن جریر (البحر الزخار ۱۵/ ۲۰ ح ۸۲۰۱)
۶: محمد بن جعفر ( مسند الشہاب ۲/ ۳۰۵ ح ۱۴۱۶)
۷: ابو اسامہ (مصنف ابن ابی شیبہ نسخہ عوامہ ۱۳/ ک۱۵۷۔ ۱۵۸ ح ۲۶۱۳۱)
دوسرے نسخوں میں اس حدیث میں تحریفات ہیں مثلاً حمد بن عبد اللہ اور محمد بن ابراہیم اللحیدان (مکتبہ الرشد الریاض ) کے نسخے میں
’’ أبو اسامۃ عن سعید قال قال حدثني خبیب عن حفص بن عاصم عن أبي ھریرۃ ‘‘ چھپ گیا ہے۔
(ج۸ص ۴۲۸ ح ۲۶۰۱۰)
حالانکہ خود انھوں نے حاشیے میں بعض نسخوں سے شعبہ کا حوالہ لکھا ہے۔
دوسرے یہ کہ امام ابن ابی شیبہ کی سند سے جس سے بھی یہ حدیث متصل بیان کی ہے، اس میں علی بن حفص کا واسطہ ہے۔
ان سات (۷) ثقہ راویوں کے مقابلے میں علی بن حفص ثقہ و صدوق نے یہ روایت متصل بیان کی اور زیادتِ ثقہ مقبولہ کے اصول سے علی بن حفص کی یہ حدیث صحیح ہے۔ والحمد للہ
جاری ہے۔۔۔۔۔