• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یزید بن معاویہ سنت کو بدلنے والے تھے؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
اگست 25، 2011
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
216
پوائنٹ
0
زیادت ثقہ کی مقبولیت پر تحقیقی مقالات (ج۲ ص۲۴۸۔ ۲۶۰) سے دس مزید حوالے بعض اصلاح اور کمی بیشی کے ساتھ پیشِ خدمت ہیں:
ثقہ راوی کی زیادت کی مناسبت سے دس مثالیں پیشِ خدمت ہیں جن سے ہمارے مؤقف کی زبردست تائید ہوتی ہے کہ شرطِ مذکور کے ساتھ زیادتِ ثقہ مقبول ہے:
مثال اول: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’ ثنا یحي بن سعید عن سفیان: حدثني سماک عن قبیصۃ بن ھلب عن أبیہ قال: رأیت النبي ﷺ ینصرف عن یمینہ وعن شمالہ ورأیتہ یضع ھٰذہ علٰی صدرہ /وصف یحي الیمنٰی علی الیسریٰ فوق المفصل ‘‘
ہلب الطائی رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز سے فارغ ہو کر ) دائیں اور بائیں (دونوں ) طرف سلام پھیرتے ہوئے دیکھا ہے اور دیکھا ہے کہ آپ یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے ۔ یحییٰ (القطان راوی) نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر جوڑ پررکھ کر (عملاً ) بتایا ۔ (مسند احمد ۵؍۲۲۶ ح ۲۲۳۱۳ وسندہ حسن والتحقیق لابن الجوزی ۱؍۲۸۳)
اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے ۔
دیکھئے میری کتاب ’’ نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام ‘‘(ص ۱۴۔۱۶)
آلِ تقلید میں سے محمد بن علی النیموی صاحب نے یہ اعتراض کیاہے کہ اسے وکیع اور عبدالرحمن بن مہدی نے ’’ علٰی صدرہ ‘‘ کے بغیر روایت کیا ہے۔ ابو الاحوص اور شریک نے اسے اس زیادت کے بغیر بیان کیا ہے ( لہٰذا ) یہ( زیادت) محفوظ نہیں ہے۔
دیکھئے آثار السنن (ص۱۴۴ ح ۳۲۶)
مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں نیموی صاحب کا زبردست اور مضبوط رد کیا ہے۔ دیکھئے ابکار المنن (ص ۱۱۳، ۱۱۴)
خلاصہ یہ کہ اس روایت میں علیٰ صدرہ کا اضافہ صرف مسند احمد میں ہے اور دوسری کتابوں مثلاً سنن ترمذی ، سنن ابن ماجہ اور سنن دارقطنی وغیرہ میں یہ اضافہ نہیں ہے تو کیا اس زیادت کو رد کر دیا جائے گا ! ؟
ثقہ راوی کے اس تفرد والی روایت کے بارے میں مولانا شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ وإسنادہ حسن ‘‘ اور اس کی سند حسن ہے۔ (التعلیق المغنی ۱؍ ۲۸۵)
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی صریح دلیلوں میں یہ سب سے قوی دلیل ہے۔
صحیح ابن خزیمہ ( ۱؍ ۲۴۳ ح ۴۷۹) میں ’’ مؤمل بن إسماعیل : نا سفیان عن عاصم ابن کلیب عن أبیہ عن وائل بن حجر ‘‘ رضی اللہ عنہ کی سند سے ایک روایت میں علیٰ صدرہ آیا ہے۔ اس زیادت کو بھی نیموی صاحب نے غیر محفوظ قرار دیا ہے کیونکہ اسے مؤمل بن اسماعیل کے علاوہ کسی نے بھی اس سند و متن سے بیان نہیں کیا اور دوسرے راویوں نے اسے اس اضافے کے بغیر روایت کیا ہے مثلاً عبداللہ بن الولید عن سفیان الثوری ، زائدہ و بشر بن المفضل وغیرہما عن عاصم بن کلیب... الخ (دیکھئے آثار السنن ص ۱۴۰، ۱۴۱ ح ۳۲۵)
ہمارے نزدیک مؤمل بن اسماعیل تحقیقِ راجح میں موثق عند الجمہور اور حسن الحدیث ہیں۔ دیکھئے میری کتاب مقالات جلد اول ( ص ۴۱۷۔ ۴۲۷) اور ماہنامہ الحدیث حضرو:۱۱ ص ۱۸
لہٰذا اُن کا امام سفیان ثوری سے تفرد یہاں مضر نہیں ہے مگر سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس (عن) کی وجہ سے یہ روایت ہمارے نزدیک ضعیف ہے۔
تنبیہ نمبر۱: اس حدیث کو امام ابن خزیمہ کا کسی جرح کے بغیر صحیح ابن خزیمہ میں درج کرنا اس کی دلیل ہے کہ اُن کے نزدیک متنِ حدیث میں ثقہ و صدوق راوی کی زیادت صحیح و مقبول ہوتی ہے۔
تنبیہ نمبر ۲: حنفی ، بریلوی اور دیوبندی ( تینوں) حضرات میں سے جو لوگ ضعیف یا حسن لغیرہ روایات کو بھی حجت سمجھتے ہیں اُن کے اصول پر سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت تو حسن لغیرہ بن جاتی ہے۔ سیدنا ہلب رضی اللہ عنہ والی روایت ، مؤمل بن اسماعیل والی روایت اور امام طاوس رحمہ اللہ کی مرسل ، لیکن پھر بھی وہ اسے حسن و حجت نہیں سمجھتے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ حسن لغیرہ کو حجت سمجھنے کے خلاف ہیں۔
یہ اعتراض آلِ تقلید کے خلاف بطورِ الزام ذکر کیا گیاہے جو ان کے لئے ’’پھکی‘‘ ہے۔
مثال دوم: ابو ابراہیم محمد بن یحییٰ الصفار فرماتے ہیں:
’’ ثنا عثمان بن عمر عن یونس عن الزہري عن محمود بن الربیع عن عبادۃ ابن الصامت قال قال رسول اللّٰہ ﷺ :
(( لا صلوۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب خلف الإمام‘‘.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جس نے امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی۔
(کتاب القراء ت للبیہقی ص ۷۰ ح ۱۳۵، وقال : و ھذا إسناد صحیح والزیادۃ التی فیہ کالزیادۃ فی حدیث مکحول .. .. الخ)
اس روایت کو عثمان بن عمر سے خلف الامام کے اضافے کے بغیر امام دارمی (۱؍ ۲۸۳ ح۱۲۴۵، دوسرا نسخہ : ۱۲۷۸)نے بیان کیا ہے۔
یونس بن یزید سے اس حدیث کو خلف الامام کی زیادت کے بغیر لیث بن سعد ، عبداللہ بن وہب (جزء القراء ۃ للبخاری بتحقیقی : ۶، صحیح مسلم : ۳۹۴، ترقیم دارالسلام : ۸۷۵)نے بیان کیا ہے۔
یونس بن یزید الایلی کے علاوہ امام زہری سے اسے ایک جماعت مثلاً سفیان بن عیینہ، صالح بن کیسان اور معمر بن راشد نے خلف الامام کے اضافے کے بغیر روایت کیا ہے۔
دیکھئے صحیحین وغیرہما اور المسند الجامع (۸؍ ۶۲، ۶۳)
محمد بن یحییٰ الصفار ( راوی) کے زبردست تفرد والی اس روایت کے بارے میں امام بیہقی نے فرمایا: اس کی سند صحیح ہے۔ (حوالہ سابقہ صفحے پر گزر چکا ہے۔)
مثال سوم: یونس بن یزید الأیلي عن ابن شھاب الزھري عن نافع مولٰی أبي قتادۃ الأنصاري عن أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ عنہ کی سند سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (( کیف أنتم إذا نزل ابن مریم فیکم و إما مکم منکم)) تمھارا اس وقت کیا حال ہو گا جب عیسیٰ بن مریم تم میں نازل ہوں گے اور تمھارا امام تم میں سے ہو گا۔ (صحیح بخاری : ۳۴۴۹، صحیح مسلم: ۱۵۵)
اسے یونس بن یزید سے اس مفہوم کے ساتھ ابن بکیر اور عبداللہ بن وہب نے روایت کیا ہے ۔ یونس کے علاوہ معمر ، عُقیل بن خالد ، اوزاعی ، ابن اخی الزہری اور ابن ابی ذئب نے یہ روایت اسی مفہوم کے ساتھ اور من السماء کے اضافے کے بغیر روایت کی ہے۔
دیکھئے میری کتاب تحقیقی مقالات (ج۱ص ۱۰۳)
یہی روایت امام بیہقی نے احمد بن ابراہیم عن ابن بکیر عن یونس بن یزید عن ابن شہاب عن نافع عن أبي ہریرۃ کی سند کے ساتھ درج ذیل الفاظ سے بیان کی ہے:((کیف أنتم إذا نزل ابن مریم من السماء فیکم و إما مکم منکم.))
تمھارا اس وقت کیا حال ہو گا جب ابن مریم آسمان سے اتریں گے اور تمھارا امام تم میں سے ہوگا۔ ( الاسماء والصفات ص ۵۳۵، دوسرا نسخہ ص ۴۲۴، تیسرا نسخہ ص ۳۰۱)
چونکہ صحیحین میں مدلسین کی روایات سماع پر محمول ہیں لہٰذا امام زہری کی یہ روایت صحیح ہے۔ اس حدیث کو علمائے حق نے مرزائیوں قادیانیوں کے خلاف بطورِ حجت پیش کیا ہے اور اس حدیث کا دفاع کیا ہے، مثلاً دیکھئے محمدیہ پاکٹ بک (ص ۵۸۹، ۵۹۰)
معلوم ہوا کہ مسئلہ عقیدے کا ہو یا اعمال و احکام کا، ثقہ راوی کی زیادت حجت ہے بشرطیکہ من کل الوجوہ ثقات یا اوثق کے خلاف نہ ہو لہٰذا عدمِ ذکر کو خلاف بنا دینا غلط ہے۔
مثال چہارم: ایک حدیث میں آیا ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے ساتھ (عشاء کی) نماز پڑھتے تھے پھر واپس جا کر اپنے قبیلے والوں کو (عشاء کی نماز پڑھاتے تھے۔ اسے عمرو بن دینار نے سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔
دیکھئے صحیح بخاری ( ۷۰۰) و صحیح مسلم(۴۶۵)
اسے عمرو بن دینار سے سفیان بن عیینہ ، شعبہ اور ایوب وغیرہم نے اس مفہوم کے ساتھ بیان کیا ہے۔ دیکھئے المسند الجامع (۳؍ ۴۶۸، ۴۶۹ح ۲۲۷۰)
جبکہ یہ حدیث امام ابن جریج نے درج ذیل الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے:
’’ ھي لہ تطوع و ھي لھم مکتوبۃ ‘‘ وہ (نماز) اُن (معاذ رضی اللہ عنہ) کے لئے نفل ہوتی تھی اور ان لوگوں کے لئے (جو ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے) فرض ہوتی تھی۔ دیکھئے کتاب الام للشافعی ( ص ۱۷۳ ج۱) شرح معانی الآثار (۱؍۴۰۹) سنن الدارقطنی (۱؍ ۲۷۴، ۲۷۵ح ۱۰۶۲، ۱۰۶۳) اور السنن الکبریٰ للبیہقی (۳؍ ۸۵)
اس روایت میں امام ابن جریج رحمہ اللہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔
دیکھئے سنن الدارقطنی (ح ۱۰۶۳، وسندہ صحیح)
اس زیادت والی روایت پر نیموی صاحب نے اپنے تقلیدی مذہب کو بچانے کے لئے ’’وفي ھذہ الزیادۃ کلام ‘‘ کہہ کر حملہ کر دیا ہے۔ دیکھئے آثار السنن (ص ۲۶۴ح ۵۲۴)
نیموی صاحب کا رد کرتے ہوئے مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ کلا بل ھذہ الزیادۃ صحیحۃ فإنھا زیادۃ من ثقۃ حافظ لیست منافیۃ لروایۃ من ھو أحفظ منہ أو أکثر عددًا کما ستقف علیہ ‘‘ ہر گز نہیں! بلکہ یہ زیادت صحیح ہے کیونکہ یہ ثقہ حافظ کی زیادت ہے، یہ زیادہ حافظ یا اکثر کے منافی نہیں ہے جیسا کہ آپ عنقریب واقف ہو جائیں گے۔ (ابکا رالمنن ص ۲۴۹، نیز دیکھئے ص ۲۵۰، )
معلوم ہوا کہ ابن جریج (ثقہ راوی) کے تفرد والی روایت ( جس میں اضافہ ہے) صحیح ہے اور مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ یہاں اور سینے پر ہاتھ باندھنے والے مسئلے میں ثقہ راوی کی زیادت کو صحیح سمجھتے تھے۔
تنبیہ بلیغ : نیموی صاحب نے اپنے مذہب کے مخالف بہت سی روایات پر کلام کیا ہے جن میں ثقہ و صدوق راویوں کی زیادات ہیں مگر ایک جگہ اپنی مرضی کی ایک روایت کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ و إسنادہ صحیح ‘‘ (آثار السنن ص ۳۳ح ۳۶)
التعلیق الحسن میں اس حدیث کے تحت نیموی صاحب نے محدث بزار سے نقل کیا کہ ہمارے علم کے مطابق اسے بشر بن بکر عن الأوزاعي عن یحي عن عمرۃ عن عائشة کی سند سے حمیدی کے سوا کسی نے بھی مسند (یعنی متصل)بیان نہیں کیا۔پھر نیموی صاحب نے جواب دیا: عبداللہ بن الزبیر الحمیدی ثقہ حافظ امام اور امام بخاری کے اساتذہ میں سے تھے لہٰذ ااُن کی یہ زیادت زبردست طور پر مقبول ہے کیونکہ یہ اوثق کی روایت کے منافی نہیں ہے۔ (آثار السنن ص ۳۳ تحت ح ۳۶)
معلوم ہوا کہ نیموی صاحب زیادتِ ثقہ کے مسئلے میں دوہری پالیسی پر گامزن تھے۔
مثال پنجم : ولید بن عیزار نے ابو عمرو الشیبانی سے ، انھوں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : کون سا عمل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا:
(( الصلٰوۃ علٰی وقتھا.)) نماز اپنے وقت پر پڑھنا۔ (صحیح بخاری : ۵۲۷، صحیح مسلم : ۸۵)
اسے ولید بن عیزار سے شعبہ ، مسعودی ، ابو اسحاق الشیبانی اور ابو یعفور نے اسی مفہوم کے ساتھ بیان کیا ہے۔ (المسند الجامع ۱۱؍ ۵۰۶، ۵۰۷)
مالک بن مغول (ثقہ) کی روایت میں درج ذیل الفاظ آئے ہیں:
(( الصلٰوۃ في أول وقتھا .)) اول وقت میں نماز پڑھنا ۔
(صحیح ابن خزیمہ : ۳۲۷، صحیح ابن حبان، الاحسان : ۱۴۷۷، دوسرا نسخہ : ۱۴۷۹، وقال: ’’ تفرد بہ عثمان بن عمر ‘‘ أي عن مالک بن مغول ، وح ۱۴۷۳/ ۱۴۷۵، المستدرک للحاکم ۱؍ ۱۸۸، وصححہ ووافقہ الذہبی)
اس روایت میں عثمان بن عمر نے مالک بن مغول سے تفرد کیا ہے جبکہ محمد بن سابق (صحیح بخاری : ۲۷۸۲) نے اسے مالک بن مغول سے مذکور ہ اضافے کے بغیر روایت کیا ہے۔
سنن دارقطنی وغیرہ میں اس کے کچھ ضعیف شواہد (تائید کرنے والی ضعیف روایات) بھی ہیں تاہم حق یہ ہے کہ عثمان بن عمر رحمہ اللہ (ثقہ) کی بذاتِ خود منفرد اور اول وقت کے اضافے والی روایت صحیح ہے۔ والحمد للہ
مثال ششم : ثقہ امام زائدہ بن قدامہ رحمہ اللہ نے عاصم بن کلیب عن أبیہ عن وائل بن حجر رضي اللّٰہ عنہ کی سند سے ایک حدیث بیان کی کہ ’’ فرأیتہ یحرکھا یدعو بھا ‘‘ پس میں نے آپ(ﷺ)کو دیکھا، آپ ( تشہد میں) اسے (شہادت کی انگلی کو) حرکت دے رہے تھے، اس کے ساتھ دعا کر رہے تھے۔
(سنن النسائی ۲؍ ۱۲۷ح ۸۹۰ وسندہ صحیح وصححہ ابن الجارود: ۲۰۸ وابن حبان ،ا لاحسان : ۱۸۵۷)
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ یہ حدیث بیان کر کے فرماتے ہیں: ’’ لیس في شئ من الأخبار ’’ یحرکھا ‘‘ إلا في ھذا الخبر ، زائدۃ ذکرہ ‘‘ اس حدیث کے علاوہ کسی حدیث میں یحرکھا کا لفظ نہیں ہے، اسے (صرف) زائدہ نے ذکر کیا ہے۔
(صحیح ابن خزیمہ ۱؍ ۳۵۴ح ۷۱۴)
روایتِ مذکورہ پر بعض معاصرین نے کلام کیا ہے لیکن معاصرین میں سے ہی شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ اور ابو اسحاق الحوینی وغیرہما نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
شیخ البانی کی تصحیح کے لئے دیکھئے ارواء الغلیل (۲؍ ۶۹ح ۳۵۲)
بلکہ شیخ البانی نے (شذوذ کی وجہ سے ؟!) اس حدیث کو ضعیف کہنے والوں کا زبردست رد کیا ہے۔ دیکھئے السلسلۃ الصحیحہ (۷؍ ۵۵۱ ح ۳۱۸۱)
تنبیہ نمبر ۱: شیخ البانی رحمہ اللہ نے اپنی تائید میں صحیح اور ضعیف جتنی روایات پیش کی ہیں اُن میں سے زائدہ کی روایت کے علاوہ کسی ایک میں بھی ’’ یحرکھا ‘‘ کا لفظ نہیں ہے۔
تنبیہ نمبر ۲: ہمارے شیخ مولانا حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ نے بھی شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کو بطورِ حجت پیش کر کے اس سے استدلال کیا ہے۔
دیکھئے احکام و مسائل (ج۱ص۱۹۶، ۱۹۷)
یہ اس کی دلیل ہے کہ حافظ صاحب بھی ثقہ کی زیادت کو صحیح سمجھتے ہیں۔واللہ اعلم
مثال ہفتم : ہشام بن عروۃ عن أبیہ عن عائشة رضي اللّٰہ عنہا کی سند سے ایک روایت میں آیا ہے کہ ’’ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے یہاں آئے تو نبی کریم ﷺ بھی وہیں تشریف رکھتے تھے عید الفطر یا عید الاضحی کا دن تھا، دو لڑکیاں یوم بعاث کے بارے میں وہ اشعار پڑھ رہی تھیں جو انصار کے شعراء نے اپنے فخر میں کہے تھے.... ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ شیطانی گانے باجے!(...ﷺ کے گھر میں) دو مرتبہ انھوں نے یہ جملہ دہرایا، لیکن آپ نے فرمایا: ابو بکر ! انھیں چھوڑ دو۔ ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور ہماری عید آج کا یہ دن ہے۔ ‘‘
(صحیح بخاری مطبوعہ مکتبہ قدوسیہ لاہور ج۵ ص ۳۰۶ ح ۳۹۳۱)
اس حدیث کو ہشام بن عروہ سے شعبہ ، حماد بن سلمہ اور ابو معاویہ الضریر نے بیان کیا ہے ۔ (المسند الجامع ۲۰؍ ۱۷۵ ح ۱۶۹۹۶)
یہ ان احادیث میں سے ایک ہے جن سے غامدی گروپ موسیقی کے جواز پر استدلال کرتا ہے ۔ مثلاً دیکھئے مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی کتاب ’’ اسلام اور موسیقی‘‘ (ص ۱۶، ۱۷)
اس حدیث کو جب امام ابو اسامہ حماد بن اسامہ رحمہ اللہ نے ہشام بن عروہ سے اس سند و متن سے روایت کیا تو حدیث میں درج ذیل اضافہ بھی بیان کیا۔
’’ ولیستا بمغنیتین ‘‘ وہ دونوں ( بچیاں) مغنیہ نہ تھیں۔
(صحیح بخاری : ۹۵۲ ، صحیح مسلم : ۸۹۲، دارالسلام : ۲۰۶۱)
یہ اضافہ اگرچہ دوسرے راوی نہیں بیان کرتے مگر ثقہ کی زیادت مقبول ہونے کے اصول سے یہ اضافہ صحیح ہے اور اس حدیث سے غامدی گروپ کا استدلال باطل ہے۔
مثال ہشتم : ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے ( سیدنا) ابو بکر (الصدیق رضی اللہ عنہ) سے فرمایا: میں تمھارے پاس سے گزرا اور تم آہستہ آواز میں قراء ت کر رہے تھے؟ انھوں نے کہا : میں اسے ( اللہ کو ) سناتا تھا جس سے میں سر گوشی کرتا تھا۔ آپ نے فرمایا: آواز تھوڑی بلند کیا کرو۔
آپ(ﷺ) نے ( سیدنا) عمر (رضی اللہ عنہ) سے کہا: میں تمھارے پاس سے گزرا اور تم اونچی آواز سے قراء ت کر رہے تھے؟ انھوں نے جواب دیا : میں سوئے ہوؤں کو جگاتا اور شیطان کو بھگاتا تھا۔ آپ نے فرمایا: اپنی آواز ذرا کم کیا کرو۔ ( سنن الترمذی : ۴۴۷ وقال : غریب الخ)
امام ترمذی نے فرمایا: اس حدیث کو صرف یحییٰ بن اسحاق( السیلحینی) نے عن حماد ابن سلمة(عن ثابت البناني عن عبداللّٰہ بن رباح الأنصاري عن أبي قتادۃ رضي اللّٰہ عنہ)کی سند سے بیان کیا ہے اور اکثر لوگ اس حدیث کو ثابت عن عبداللّٰہ ابن رباح (رحمہ اللّٰہ عن النبي ﷺ) مرسلاً بیان کرتے ہیں۔
( جامع ترمذی بتحقیق مختصر للشیخ الالبانی ص ۱۲۰)
معلوم ہوا کہ اس حدیث میں یحییٰ بن اسحاق ثقہ راوی کا تفرد ہے۔ ثقہ راوی کے تفرد والی اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (۲؍ ۱۸۹، ۱۹۰ ح ۱۱۶۱) حافظ ابن حبان (الاحسان ۳؍ ۷ ح ۷۳۰، دوسرا نسخہ : ۷۳۳) حاکم (المستدرک ۱؍ ۳۱۰) اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے جو اس کی دلیل ہے کہ ان تمام محدثین کے نزدیک ثقہ کی زیادت صحیح و معتبر ہوتی ہے۔ والحمد للہ
تنبیہ نمبر ۱: حدیثِ مذکور کو شیخ البانی رحمہ اللہ وغیرہ معاصرین نے بھی صحیح قرار دیا ہے ۔
تنبیہ نمبر ۲:نیز دیکھئے سنن ابی داود (۱۳۲۹)
مثال نہم : سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب جنت والے جنت میں داخل ہوں گے تو اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا: کیا تم کوئی مزید چیز چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے : کیا تونے ہمارے چہرے سفید ( روشن) نہیں کر دیئے؟ کیا تو نے ہمیں آگ سے نجات دے کر جنت میں داخل نہیں کر دیا ؟ پھر اللہ پر دہ ہٹائے گا تو وہ اپنے رب کی طرف دیکھنے سے زیادہ پیاری کوئی چیز نہیں دیئے جائیں گے۔
(صحیح مسلم : ۱۸۱، دارالسلام : ۴۴۹)
اسے حماد بن سلمہ نے ثابت البنانی عن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ عن صہیب کی سند سے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: اس حدیث کو سلیمان بن المغیرہ نے ثابت سے انھوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کے قول سے روایت کیا ہے اور صہیب عن النبی ﷺ کا اضافہ بیان نہیں کیا ۔ (سنن الترمذی : ۳۱۰۵)
امام ترمذی نے مزید فرمایا: اس حدیث کو صرف حماد بن سلمہ نے (متصل) سند کے ساتھ اور مرفوع بیان کیا ہے اور سلیمان بن مغیرہ (اور حماد بن زید) نے اس حدیث کو ثابت البنانی عن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کے قول سے روایت کیا ہے۔ (ح ۲۵۵۲)
* سلیمان بن المغیرہ کی روایت کے لئے دیکھئے تفسیر طبری (۱۱؍ ۷۴)الزہد لابن المبارک (زوائد نعیم بن حماد الصدوق المظلوم : ۲۸۲ و سندہ صحیح)
* حماد بن زید کی روایت کے لئے دیکھئے تفسیر طبری (۱۱؍ ۷۵ ، وسندہ صحیح)
* معمر بن راشد کی روایت کے لئے دیکھئے تفسیر طبری (۱۱؍ ۷۵ وسندہ صحیح)
یہ بات مسلّم ہے کہ حماد بن سلمہ اثبت الناس عن ثابت ہیں لیکن اسی روایت کو مرفوع متصل بیان نہ کرنے والے تینوں امام زبردست ثقہ ہیں اور جماعت ہونے کی بنا پرحماد سے زیادہ قوی ہیں۔
ہمارے نزدیک ثقہ کی زیادت معتبر ہونے کی وجہ سے صحیح مسلم والی روایت بالکل صحیح ہے اور تین ثقہ اماموں کی عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے مقطوع روایت بھی صحیح ہے۔ والحمد للہ
مثال دہم : امام زہری کی بیان کردہ عن عروۃ بن الزبیر عن بشیر بن أبي مسعود الأنصاري عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہ کی سند سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ جبریل علیہ السّلام نے نبی ﷺ کو پانچ نمازیں پڑھائی تھیں۔
دیکھئے صحیح بخاری (۵۲۱) وصحیح مسلم (۶۱۰) وغیرہما ۔
اسے امام زہری سے ایک جماعت مثلاً امام مالک، سفیان بن عیینہ ، لیث بن سعد اور شعیب بن ابی حمزہ وغیرہم نے روایت کیا ہے۔ امام زہری سے اسامہ بن زید اللیثی (صدوق حسن الحدیث و ثقہ الجمہور) کی روایت میں درج ذیل اضافہ ہے:
’’ ثم کانت صلا تہ بعد ذلک التغلیس حتی مات ولم یعد إلٰی أن یسفر ‘‘
پھر اس کے بعد آپ(ﷺ) کی (فجر کی) نماز و فات تک اندھیرے میں تھی اور آپ نے دوبارہ کبھی روشنی کر کے (یہ نماز) نہیں پڑھی ۔ ( سنن ابی داود : ۳۹۴، مطبوعہ دارالسلام ۱؍۳۴۱)
امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں: ’’ ھذہ الزیادۃ لم یقلھا أحد غیر أسامۃ بن زید ‘‘
اس زیادت (اضافے) کو اسامہ بن زید کے سوا کسی نے بھی روایت نہیں کیا۔
(صحیح ابن خزیمہ ۱؍ ۱۸۱ ح ۳۵۲)
صدوق راوی کے اس تفرد والی روایت کو امام ابن خزیمہ ، حافظ ابن حبان (الاحسان : ۱۴۴۶) اور حاکم (۱؍ ۱۹۲، ۱۹۳ ح ۶۹۲) نے صحیح قرار دیا ہے جو اس کی دلیل ہے کہ ان محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق راوی کی زیادت صحیح و حسن ہوتی ہے۔
تنبیہ نمبر ۱: چونکہ امام زہری کی اصل حدیث صحیحین میں ہے اور السنن الکبریٰ للبیہقی (۱؍۴۴۱) میں انھوں نے اصل حدیث میں عروہ سے سماع کی تصریح کر دی ہے لہٰذا یہ روایت حسن ہے۔
تنبیہ نمبر ۲: المستدرک للحاکم (۱؍ ۱۹۰ح ۶۸۲) میں اس حدیث کا ایک حسن لذاتہ شاہد بھی ہے لہٰذا اسامہ بن زید کی حدیث صحیح ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب انوار السنن فی تحقیق آثار السنن (مخطوط ص ۴۳ح ۲۱۳) والحمدللہ
تنبیہ نمبر ۳: جس طرح ایک شخص نے صحیح مسلم کی ایک حدیث کو شاذ (یعنی ضعیف) قرار دیا ، اُسی طرح نیموی تقلیدی صاحب نے اسامہ بن زید اللیثی کی حدیث کو ’’ والزیادۃ غیر محفوظۃ ‘‘ کہہ کر ضعیف قرار دیاہے۔ دیکھئے آثار السنن (ص ۹۷ح ۲۱۳)
اللہ تعالیٰ نے نیموی پر مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کو مسلط کر دیا۔
مولانا مبارکپوری نے نیموی کے اعتراضات کے جوابات دے کر اسامہ بن زید کی توثیق ثابت کی اور فرمایا:
’’ فإن زیادۃ الثقۃ إنما تکون شاذۃ إذا کانت منافیۃ لروایۃ غیرہ من الثقات و أما إذا لم تکن منافیۃ فھي مقبولۃ وھو مذہب المحققین وسیأتي تحقیقہ في باب وضع الیدین علٰی الصدر وزیادۃ أسامۃ بن زید في ھذا الحدیث لا ینافي لروایۃ غیرہ فھذہ الزیادۃ مقبولۃ بلامریۃ ‘‘
کیونکہ ثقہ کی زیادت تو اس وقت شاذ ہوتی ہے جب وہ دوسرے ثقہ راویوں کے منافی ہو اور اگر منافی نہ ہوتو وہ مقبول ہوتی ہے اور یہی محققین کا مذہب ہے، اس کی تحقیق سینے پر ہاتھ باندھنے والے باب میں آئے گی اور اس حدیث میں اسامہ بن زید کی زیادتی (اضافہ) دوسرے راویوں کے منافی نہیں ہے پس یہ زیادت بغیر کسی شک کے مقبول ہے۔
(ابکار المنن فی تنقید آثار السنن ص ۸۰)
ہم جب کسی راوی کو ثقہ و صدوق حسن الحدیث یا حدیث کو صحیح و حسن لذاتہ قرار دیتے ہیں تو اصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے ، تناقض و تعارض سے ہمیشہ بچتے ہوئے، غیر جانبداری سے اور صرف اللہ تعالیٰ کوراضی کرنے کے لئے راوی کو ثقہ و صدوق حسن الحدیث اور حدیث کو صحیح و حسن قرار دیتے ہیں۔ ایک دن مرکر اللہ کے دربار میں ضرور بالضرور اور یقیناًپیش ہونا ہے۔ یہ نہیں کہ اپنی مرضی کی روایت کو صحیح وثابت کہہ دیں اور دوسری جگہ اسی کو ضعیف کہتے پھریں۔ یہ کام تو آلِ تقلید کا ہے!
اگر کوئی شخص میری کسی تحقیق یا عبارت میں سے تضاد و تعارض ثابت کر دے تو اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ علانیہ رجوع کروں گا، توبہ کروں گا اور جو بات حق ہے برملا اس کا اعلان کروں گا۔ لوگ ناراض ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں، بس اگر اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے تو اسی میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔ اے اللہ ! میری ساری خطائیں معاف کر دے۔ آمین
صحیح بخاری وصحیح مسلم اور مسلکِ حق : مسلکِ اہلِ حدیث کے لئے میری جان بھی حاضر ہے۔ یہ باتیں جذباتی نہیں بلکہ میرے ایمان کا مسئلہ ہے۔
قارئین کرام! ان دس مثالوں سے یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ ثقہ راوی کی زیادت اگر (من کل الوجوہ) منافی نہ ہو(جس میں تطبیق و توفیق ممکن ہی نہیں ہوتی) تو پھر عدمِ منافات والی یہ زیادت مقبول و حجت ہے۔ والحمد للہ
زیادتِ ثقہ کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ مثلاً :
عبد الرحمن بن عبد اللہ بن دینار نے ’’ رباط یوم في سبیل اللّٰہ ... ‘‘ والی ایک حدیث بیان کی ۔ (صحیح بخاری : ۲۸۹۲)
اس کے بارے میں ابن عساکر نے فرمایا: ’’ تفرد بذکر الرباط فیہ ابن دینار‘‘
(الاربعون فی الحث علی الجہاد : ۲۳ ، فضائل جہاد مترجم ص ۱۱۸)
جاری ہے۔۔۔۔۔​
 
شمولیت
اگست 25، 2011
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
216
پوائنٹ
0
زیادتِ ثقہ پر طویل بحث کے بعد مضمون کے شروع والی حدیث کے بقیہ راویوں کا تعارف درج ذیل ہے:
۷: عوف بن ابی جمیلہ الاعرابی العبدی البصری رحمہ اللہ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے بنیادی راوی ہیں، جمہور نے اُن کی توثیق کی ہے۔
امام احمد بن حنبل ، یحییٰ بن معین اور ابن حبان وغیرہم نے انھیں ثقہ قرار دیا۔
حافظ ذہبی نے فرمایا: ’’ ثقة کبیر ‘‘(معرفۃ الرواۃ المتکلم فیھم بما لا یوجب الرد: ۲۶۷ )
اس کے بعد انھوں نے محمد بن بشار بندار کی جرح بغیر کسی سند کے نقل کی اور یہ جرح جمہور کی توثیق کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط ہے۔
۸: ابو مخلد مہاجر بن مخلد سے ایک جماعت سے روایت بیان کی ، ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا ۔ یحییٰ بن معین نے فرمایا: ’’ صالح‘‘ عجلی نے فرمایا: ثقة.
ترمذی (۳۸۳۹) نے اُنکی ایک حدیث کو ’’ حسن غریب ‘‘ کہا۔ ابن الجارود (۸۷)ابن حبان (۱۳۲۴، ۱۳۲۸) اورابن خزیمہ(۱۹۲) نے اُن کی حدیث کو صحیح قرار دیا۔ جمہور کی اس توثیق و تعریف کے مقابلے میں امام ابو حاتم الرازی کی جرح غلط و مردود ہے، لہٰذا مہاجر بن مخلد صدوق حسن الحدیث ہیں۔ رحمہ اللہ
۹: ابو العالیہ رفیع بن مہران الریاحی رحمہ اللہ صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور زبردست ثقہ ہیں۔ انھیں امام یحییٰ بن معین، ابو زرعہ الرازی ، ابو حاتم الرازی ، عجلی، ابن حبان اور جمہور محدثین نے ثقہ و صدوق قرار دیا اور اُن پر جرح مردود ہے۔
اس حدیث میں ابو العالیہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے لہٰذا ارسال کا اعتراض بھی مردود ہے۔
ابو العالیہ طبقہ ثانیہ کے تابعی یعنی کبار تابعین میں سے ہیں ، بلکہ انھوں نے زمانۂ جاہلیت بھی پایا ہے جیسا کہ آ گے آ رہا ہے۔ان شاء اللہ
۱۰: ابو مسلم الجذمی سے ایک جماعت نے روایت بیان کی اور انھیں امام عجلی، حافظ ابن حبان اور حافظ ذہبی (الکاشف ۳/ ۴۱۵) نے ثقہ قرار دیا ہے۔
امام ترمذی نے ان کی ایک حدیث کو ’’ حسن غریب ‘‘ کہا ۔ (سنن الترمذی : ۱۸۸۰)
یعنی وہ امام ترمذی کے نزدیک حسن الحدیث ہیں۔
ابن اثیر نے انھیں ’’ و من التابعین ‘‘ میں شمار کیا ۔ (اسد الغابۃ ۱/ ۱۶۵، جارود)
اگر کوئی شخص کہے کہ امام ابن معین نے فرمایا: ’’ لا أدري ‘‘ یعنی میں نہیں جانتا کہ ابو مسلم کون ہے؟ (تاریخ ابن معین ، روایۃ الدوری : ۳۴۶۷)
تو اس کا جواب یہ ہے کہ چار علماء کی توثیق کے بعد یہ قول مرجوح ہے اور اصول حدیث و اسماء الرجال کی رُو سے ابو مسلم الجذمی صدوق حسن الحدیث راوی ہیں۔ واللہ اعلم
ابو مسلم کی سیدنا ابو ذر الغفاری رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت ہے۔
(دیکھئے مسند احمد ۵/ ۱۷۹، و کتبِ حدیث)
بلکہ ایک روایت میں ’’ حدثني أبو ذر ‘‘ کے الفاظ بھی موجود ہیں۔
(مختصر قیام اللیل للمروزی ص ۷۸ وسندہ حسن لذاتہ)
نیز امام بخاری نے بھی لکھا ہے: ’’ سمع أبا ذر ‘‘(الکنیٰ ص ۶۸ رقم ۶۲۸)
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ امام بخاری نے یہ بھی لکھا ہے:
’’ والمعروف أن أبا ذر کان بالشام زمن عثمان و علیھا معاویۃ و مات یزید في زمن عمر، ولا یعرف لأبي ذر قدوم الشام زمن عمر.‘‘
اور معروف (مشہور) یہ ہے کہ عثمان(رضی اللہ عنہ)کے زمانے اور معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے دورِ امارت میں ابو ذر(رضی اللہ عنہ)شام میں تھے اور یزید (بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ)عمر(رضی اللہ عنہ)کے زمانے میں فوت ہو گئے تھے اور عمر(رضی اللہ عنہ)کے زمانے میں ابو ذر(رضی اللہ عنہ) کا شام آنا معروف (مشہور) نہیں۔ (التاریخ الاوسط ۱/ ۳۹۸ ح ۱۳۷، دوسرا نسخہ ۱/ ۷۰)
اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے اس دعوے کی کوئی دلیل بیان نہیں کی اور کسی بات کا معروف (مشہور) ہونا یا نہ ہونا اس کے صحیح یا ضعیف ہونے کی دلیل نہیں ہوتا بلکہ صحیح سند والی روایت صحیح ہوتی ہے چاہے مشہور ہو یا نہ ہو۔ اصولِ حدیث کی کتابوں میں بھی یہ بتایا گیا ہے کہ مشہور حدیث صحیح بھی ہوتی ہے، حسن بھی ہوتی ہے، ایسی بھی ہوتی ہے کہ جس کی کوئی اصل نہیں ہوتی اور کلیتاً موضوع بھی ہوتی ہے۔
(دیکھئے اختصار علوم الحدیث اردو مترجم ص ۱۰۸، نوع: ۳۰)
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ فلاں بات معروف ہے یا معروف نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ فلاں بات باسند صحیح ثابت ہے یا ثابت نہیں۔
کتنے ہی مشہور قصے ہیں جو بلحاظِ سند ضعیف، مردود اور باطل ہوتے ہیں۔
مثلاً دیکھئے ’’ مشہور واقعات کی حقیقت ‘‘ (مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ لاہور فیصل آباد)
صحیح حدیث کے مقابلے میں امام بخاری رحمہ اللہ کی مبہم جرح کون سنتا ہے؟
امام بخاری کے مذکور قول کی تردید اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام ابو یعلیٰ نے فرمایا:
’’ حدثنا محمد بن إسماعیل بن أبي سمینة: ثنا عبد الوہاب عن عوف عن المھاجر أبي مخلد عن أبي العالیة : ثنا أبو مسلم قال: کان أبو ذر بالشام زمن یزید بن أبي سفیان فغزا المسلمون فعنموا و أصابوا جاریة نفیسة فصارت لرجل من المسلمین في سھمہ ... ‘‘ فذکر نحوہ.
(المطالب العالیہ ۸/ ۶۴۵ ح ۴۴۵۹/۲)
محمد بن اسماعیل بن ابی سمینہ صحیح بخاری وغیرہ کے راوی اور ثقہ ہیں۔
(دیکھئے تقریب التہذیب : ۵۷۳۳)
لہٰذا یہ سند بھی حسن لذاتہ ہے۔
اس روایت سے صاف ثابت ہوا کہ یزید بن ابی سفیان(رضی اللہ عنہ)کے زمانے میں ابوذر (رضی اللہ عنہ) شام میں موجود تھے لہٰذا ہر قسم کے ’’ معروف اور غیر معروف‘‘ کا اعتراض سرے سے ہی ختم ہو گیا۔
حافظ ابن عبدالبر نے بھی لکھا ہے: ’’ثم خرج بعد وفاۃ أبي بکر رضي اللّٰہ عنہ إلی الشام، فلم یزل بھا حتی ولي عثمان رضي اللّٰہ عنہ.‘‘
پھر آپ(ابو ذر رضی اللہ عنہ) ابو بکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد شام تشریف لے گئے تو عثمان رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بننے تک وہیں رہے۔ (الاستیعاب ۱/۱۵۵، جندب بن جنادہ)
خلاصۃ التحقیق یہ ہے کہ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ یہ حدیث حسن لذاتہ یعنی مقبول ، ثابت اور حجت ہے، لہٰذا بعض معاصرین کا اس روایت کو ضعیف یا موضوع قرار دینا غلط ہے۔
ابن ابی عاصم کی ایک روایت میں ابو العالیہ اور ابو ذر رضی اللہ عنہ کے درمیان ابو مسلم الجذمی کا واسطہ رہ گیا ہے ، اس کے باوجود شیخ البانی رحمہ اللہ نے ابن ابی عاصم کی روایت کو ’’ و ھذا إسناد حسن ‘‘ قرار دیا۔ (دیکھئے سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ ۴/ ۳۲۹ ح ۱۷۴۹)
یعنی شیخ البانی کے نزدیک بھی یہ حدیث حسن بمعنی مقبول و حجت ہے۔
اگر کوئی کہے کہ آپ نے ’’ فاغتصبھا یزید‘‘ کا ترجمہ و مفہوم ’’قبضے میں لے لیا‘‘ کیوں کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم تمام صحابہ سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں اور ہمارا یہ منہج ہے کہ ہر ممکن طریقے سے اپنے آپ کو صحابہ کی تنقیص یا اشارۂ تنقیص سے بھی بچایا جائے اور ان شاء اللہ اسی منہج میں خیر ہے۔
آخر میں اس حدیث پر بعض معاصرین کے اعتراضات کے جوابات درج ذیل ہیں:
۱)اعتراض :
’’یہ روایت باسند صحیح ثابت نہیں ، بلکہ اسکی سند میں انقطاع ہے اور کچھ رواۃ متکلم فیہ بھی ہیں اور کچھ کے حفظ و ضبط کا ہی کچھ علم نہیں ، ہمارے فاضل دوست محترم ... فرماتے ہیں: یہ روایت باطل ہے کسی سبائی درندے نے اسے گھڑا ہے۔‘‘
جواب: اس حدیث کی سند ابو مسلم الجذمی تک متصل سند اور تصریحِ سماعات کے ساتھ ثابت ہے جیسا کہ اس مضمون کے شروع میں درج سند سے ظاہر ہے، ابو مسلم الجذمی کا سماع سیدنا ابو ذر الغفاری رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے اور ان کا مدلس ہونا ثابت نہیں ، لہٰذا یہ روایت شروع سے آخر تک متصل ہے اور کسی قسم کے انقطاع کا نام و نشان تک نہیں۔
’’کچھ رواۃ متکلم فیہ ‘‘کا اگر یہ مطلب ہے کہ کچھ راوی ضعیف ہیں تو یہ بات غلط ہے، جیسا کہ اس مضمون میں راویوں کی مفصل تحقیق کر کے ثابت کر دیا گیا ہے ۔ اگر مجرد کلام کا تذکرہ ہے تو عرض ہے کہ جمہور محدثین کی توثیق کے بعد متکلم فیہ ہونا چنداں مضر نہیں ہوتا۔
صحیحین (یا ان دونوں میں سے کسی ایک) کے کئی مرکزی راوی مثلاً فلیح بن سلیمان ، یحییٰ بن سلیم الطائفی اور عکرمہ مولیٰ بن عباس وغیرہم بھی تو ’’ متکلم فیہ ‘‘ ہیں لیکن جمہور کی توثیق کی وجہ سے اُن پر جرح مردود ہے اور اہل حدیث اُن کی بیان کردہ احادیث کو صحیح سمجھتے ہیں۔
تفصیل کے لئے ’’ الامر المبرم لا بطال الکلام المحکم‘‘ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
’’ ضبط و حفظ کا ہی کچھ علم نہیں‘‘ والا اعتراض بھی غلط ہے ، جیسا کہ ہمارے اس مضمون میں تحقیق رواۃ سے ثابت ہے۔
اس حسن لذاتہ متصل روایت کو باطل یا موضوع قرار دینا ظلم ہے اور اس کے ثقہ و صدوق راویوں میں سے کسی کو سبائی درندہ قرار دینا تو ظلم عظیم ہے، جس کا حساب ایسے الفاظ کہنے والے کو اللہ کی عدالت میں دینا پڑے گا۔ ان شاء اللہ
نیز یہ کہنا بھی بالکل باطل ہے کہ ’’ جس نے بھی اسے گھڑا ہے وہ تاریخ سے نابلد تھا۔‘
جب اس سند میں کوئی کذاب وضاع راوی نہیں بلکہ تمام راوی ثقہ یا صدوق ہیں تو گھڑنے یا مکذوب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، بلکہ یہ تو صحیح حدیث کی تکذیب ہے جو کہ اہل حدیث کا منہج ہر گز نہیں۔
۲) ایک شخص نے امام عبد الوہاب الثقفی (ثقہ) کی روایت کو باطل یا موضوع ثابت کرنے کے لئے پانچ روایات پیش کیں اور بعد میں لکھا :
’’ مؤخر الذکر تین رواۃ تک سند کمزور ہے لیکن اوپر کے دو رواۃ سے ثابت ہے کہ انہوں نے روایت مذکورہ کو منقطع بیان کیا ہے‘‘
عرض ہے کہ جب تین روایتیں مردود ہیں تو انھیں پیش کرنے اور تدلیس سے کام لینے کی کیا ضرورت تھی؟
جب صرف دو روایات ہیں تو یہی ظاہر ہے کہ دو راوی ابو مسلم الجذمی کا واسطہ بیان نہیں کرتے اور ایک راوی بیان کرتے ہیں ۔ زیادتِ ثقہ مقبولہ کے اصول کی رُو سے ابو مسلم کے اضافے والی بات مقبول ہے اور ہمارے اس مضمون میں صحیح بخاری (۲۵۸۵) میں امام بخاری کے عمل سے ، نیز دوسرے دلائل سے بھی یہی ثابت کر دیا گیا ہے۔
۳)اعتراض : ’’ بہت سارے محدثین نے اس زیر بحث روایت کو منقطع قرار دیا ہے۔ ‘‘
جواب: معترض نے ابن عساکر ، بیہقی ، ابن کثیر اور کسی ابن طولون کے حوالے پیش کئے۔
* جس حدیث کو اس مضمون کے شروع میں ذکر کیا گیا ہے ، اُس پر ابن عساکر نے اس مقام پر کوئی جرح نہیں کی اور تاریخ دمشق (۱۸/ ۱۶۰) میں جب ابو العالیہ رحمہ اللہ کی روایت:
’’ کنا بالشام مع أبي ذر ‘‘ لکھی تو فرمایا کہ الثقفی نے اسے أبو العالیة عن أبي مسلم عن أبي ذر کی زیادت کے ساتھ بیان کیا ہے اور یہ حدیث یزید بن ابی سفیان کے تذکرے میں آ رہی ہے۔
حافظ ابن عساکر نے ابو مسلم کی بیان کردہ حدیث کو ہر گز منقطع نہیں کہا، بلکہ ’’زاد‘‘ کے لفظ کے ساتھ زیادتِ مذکورہ کا اشارہ کیا اور یہ معلوم ہے کہ زیادتِ ثقہ مقبول ہوتی ہے۔
حافظ ذہبی نے بھی تاریخ الاسلام (۵/ ۲۷۳) میں ابو مسلم کی اس حدیث کو منقطع یا ضعیف نہیں کہا بلکہ یہ بتایا کہ دوسری سند میں ابو مسلم کا واسطہ موجود نہیں ، اور حافظ ذہبی کی اس بات سے کسے انکار ہے؟!
* بیہقی نے دلائل النبوۃ (۶/ ۴۶۶۔ ۴۶۷) میں ابو مسلم الجذمی کی روایت بیان ہی نہیں کی بلکہ ابو العالیہ کی ابو مسلم کے بغیر روایت بیان کی اور فرمایا:
اس سند میں ابو العالیہ اور ابو ذر کے درمیان ارسال ہے۔
امام بیہقی سے پہلے امام یحییٰ بن معین نے اس سوال ’’ کیا ابو العالیہ نے ابو ذر سے سنا‘‘ کا جواب دیا: ’’ لا ، إنما یروي أبو العالیۃ عن أبي مسلم عن أبي ذر .‘‘
نہیں ۔ ابو العالیہ تو صرف ابو مسلم عن ابی ذر (کی سند) سے روایت کرتے ہیں ۔
(تاریخ ابن معین ، روایۃ الدوری : ۳۴۶۷)
اس ارشاد میں امام ابن معین نے سمجھا دیا کہ ابو العالیہ اور ابو ذر رضی اللہ عنہ کے درمیان ابو مسلم الجذمی کا واسطہ ہے۔
دوسری طرف ابن عساکر نے ابو العالیہ کے بارے میں لکھا ہے: ’’ وفد الشام مجاھدًا و سمع بھا أبا ذر و قیل : إنہ و فد علٰی عمر بن عبد العزیز .‘‘
وہ جہاد کرنے کے لئے شام آئے اور شام میں ابو ذر سے سنا، اور یہ کہا گیا ہے کہ وہ عمر بن عبد العزیز کے پاس بطورِ وفد آتے تھے۔ (تاریخ دمشق ۱۸/ ۱۵۹)
ابو حاتم الرازی نے فرمایا: ’’ بصري أدرک الجاھلیة ‘‘
(الجرح والتعدیل ۳/ ۵۱۰ ت ۲۳۱۲)
ابو العالیہ نے فرمایا: ’’ دخلت علٰی أبي بکر ..‘‘ میں ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کے پاس گیا۔ (التاریخ الاوسط ۱/ ۳۶۹ ح ۸۱۷ وسندہ حسن، دوسرا نسخہ ۳/ ۳۲ ح ۵۲ ، الربیع بن انس وثقہ الجمہور)
ابو العالیہ کبار تابعین (من الثانیہ) میں سے تھے اور ان کے استاد ابو مسلم کو ’’ من الثالثہ‘‘ کہنا محلِ نظر ہے۔
* حافظ ابن کثیر نے یزید بن معاویہ کے بارے میں خاص باب کے تحت کئی باتیں لکھی ہیں:
۱: یزید شہوات کی طرف بھی جاتا تھا اور بعض اوقات نمازیں ترک بھی کر دیتا تھا۔
(ص ۳۲۵)
۲: امام بخاری نے فرمایا: ’’ والحدیث معلول‘‘
۳: ہماری (یعنی ابن کثیر کی) ذکر کردہ روایات ضعیف اور بعض منقطع سندوں سے ہیں۔
۴: ابن عساکرنے یزید بن معاویہ کی مذمت میں جو احادیث ذکر کی ہیں وہ ساری موضوع ہیں، ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں۔ (البدایہ والنہایہ ۸/ ۳۲۷)
ان چاروں باتوں کا علی الترتیب جواب درج ذیل ہے:
۱: شہوات اور ترکِ صلوٰات والی بات با سند صحیح ثابت نہیں۔
۲: والحدیث معلول کے الفاظ امام بخاری سے با سند صحیح ثابت نہیں۔
۳: ابو مسلم الجذمی نے سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے سماع کی تصریح کی ہے
جیسا کہ مسند احمد وغیرہ میں صراحت ہے، لہٰذا ابو مسلم کی روایت کو منقطع کہنا غلط ہے۔
۴: یہ قول بھی اپنے عموم کے لحاظ سے اُسی طرح غلط ہے، جیسا کہ ابن حزم نے وضو کے دوران میں داڑھی کے خلال کے بارے میں لکھا : ’’ و ھذا کلہ لا یصح منہ شئي.‘‘
(المحلیٰ ۲/ ۳۶ مسئلہ : ۱۹۰)
۴)اگر کوئی شخص یہ کہے کہ آپ نے خود اعمش کی ایک معنعن روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، جس سے ایک صحابی کا منافق ہونا ’’ثابت‘‘ ہوتا ہے یعنی صحابی کی عدالت (صحابیت) ہی ساقط ہو جاتی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت صرف اس وجہ سے ضعیف ہے کہ اعمش مدلس ہیں اور یہ روایت عن سے ہے۔
اگر کسی شخص کو اس روایت میں تصریح سماع مل گئی ہے تو حوالہ پیش کرے، ورنہ یہ روایت ضعیف و مردود ہی ہے۔
رہا استاذ محترم محب اللہ شاہ رحمہ اللہ کو راقم الحروف کا جواب تو وہ دوسرے نمبر پر بطورِ الزام پیش کیا گیا ہے، کیونکہ وہ ابو صالح سے اعمش کی روایت کو سماع پر محمول یعنی صحیح سمجھتے تھے۔
۵)اگر کوئی کہے کہ ’’ کیا سند کے تمام رواۃ کا ثقہ ہونا سند کی صحت کے لئے کافی ہے؟ ‘‘
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر سند متصل ہو ، شاذ یا معلول نہ ہو تو اس سند کے راویوں کا ثقہ و صدوق ہونا صحت کے لئے کافی ہے اور اسی پر اہل حدیث کا عمل ہے۔
یاد رہے کہ ہماری روایت مذکورہ کا معلول (یعنی معلل) ہونا ثابت نہیں۔
۶)محترم کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ نے لکھا ہے:
’’ اور ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ابو مسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعاً نہیں ‘‘
عرض ہے کہ ثبوت تو حسن لذاتہ سند کے ساتھ مسند احمد (۵/ ۱۷۹) اور مختصر قیام اللیل للمروزی (ص ۷۸) وغیرہما میں موجود ہے اور امام بخاری نے بھی فرمایا ہے کہ ابو مسلم نے ابو ذر (رضی اللہ عنہ) سے سنا ہے۔ (کتاب الکنیٰ ص ۶۸)
لہٰذا سماع کے انکار کا دعویٰ باطل ہے اور امام بخاری کے ارشاد سے یہی ظاہر ہے کہ امام بخاری بھی اسے ثابت سمجھتے تھے۔
۷)اگر کوئی کہے کہ ’’ اور ان کے فیصلہ کے بر خلاف متقدمین محدثین نے بالاتفاق اس روایت کو مردود قرار دیا ‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے علم کے مطابق متقدمین محدثین میں سے کسی ایک نے بھی اس روایت کو مردود قرار نہیں دیا بلکہ متاخرین میں سے صرف حافظ ابن کثیر نے منقطع ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے، جو کہ مذکور سند متصل ہونے کی وجہ سے غلط ہے۔
بعض علماء نے صحیح مسلم کی بعض روایات کو منقطع قرار دیا ہے تو کیا ہم ان روایات کو مردود قرار دیں گے؟ ! ہر گز نہیں، بلکہ اصولِ حدیث و اصولِ محدثین کو ترجیح دیں گے اور اس طرح صحیح بخاری و صحیح مسلم کی کوئی حدیث ضعیف و مردود ثابت نہیں ہوتی ، بلکہ صحیح یا حسن ہی رہتی ہے۔
۸)ایک شخص نے معجم المختلطین کے حوالے سے امام فلاس کی طرف منسوب ایک قول :
’’ إنہ اختلط حتی کان لا یعقل ، و سمعتہ وھو مختلط یقول : ثنا محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان باختلاط شدید . ‘‘ پیش کر کے لکھا ہے :
’’اس سے تو پتہ چلتا ہے کہ اختلاط کے بعد بھی انہوں نے روایت کیا ہے، بہر حال یہ بے سند اور عصر حاضر کے مولف کی کتاب ہے لہٰذا مردود ہے۔ ‘‘
اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں یہ قول باسند صحیح نہیں ملا اور اگر یہ باسند صحیح ثابت ہو جائے تو اس سے یہی ظاہر ہے کہ امام عبد الوہاب الثقفی کا آخری عمر میں دماغ خراب ہو گیا تھا۔
اس مناسبت سے حافظ ذہبی کا ایک قول پیشِ خدمت ہے:
حافظ ذہبی نے امام ابن خزیمہ کے پوتے اور صحیح ابن خزیمہ کے راوی محمد بن الفضل بن محمد کے بارے میں فرمایا:
’’ قلت: ما أراھم سمعوا منہ إلا في حال وعیہ ، فإن من زال عقلہ کیف یمکن السماع منہ ؟ بخلاف من تغیر و نسي وانھرم .‘‘
میں نے کہا : میں یہی سمجھتا ہوں کہ انھوں نے ان کے حافظے کے دور میں ہی ان سے سنا ہے، کیونکہ جس کی عقل زائل ہو جائے تو اس سے سماع کس طرح ممکن ہے؟ برخلاف اس کے جو تغیر کا شکار ہو ، بھول جائے (یا) بوڑھا ہو جائے۔ ( سیر اعلام النبلاء ۱۶/ ۴۹۰)
(۲۲/ مارچ ۲۰۱۳ ء)​
اصل مضمون یہاں ختم ہو چکا ہے البتہ ایک اعتراض کا جواب اگلے تھریڈ میں پیش کیا جائے گا (کیونکہ وہ علیحدہ طور پر طلب کیا گیا تھا۔)​
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
جزاکم اللہ خیرا ۔
اسدبھائی اور محترم شیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کو اللہ تبارک وتعالی جزائے خیر دے ، ہم آپ حضرات کے بےحد شکرگذارہیں۔
ہم نے شیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کا پورا رد پڑھا لیکن اس کے باوجود بھی الحمدللہ ہمیں اپنے سابق موقف پر مکمل اطمینان ہے کیونکہ اس رد میں بھی ہمیں کوئی ایسی بات نظر نہ آئی جو پیش کردہ مرکزی علتوں کا جواب بن سکے ۔
بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ کی جرح کاجواب دیا گیا وہ قطعا غیر مسموع ہے کچھ وضاحت کی جاچکی ہے اور مزید وضاحت اس بار پیش کی جائے گی۔

اورہم اس بات پر حیران ہیں کہ اس رد میں ہمیں ایسی باتوں کا جواب کیوں دیا جارہا ہے کہ جو ہمیں پہلے سے تسلیم ہے اور ہم نے کبھی ان کا انکار ہی نہیں کیا ۔
مثلا زیربحث حدیث کے تمام رواۃ کی توثیق ، جبکہ ہماری گذشتہ پوری تحریر موجود ہے ہم نے کہیں بھی اس سندکے رواۃ کی تضعیف نہیں کی ہاں صرف ایک کو راوی متکلم فیہ بتلایا ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسے ثقہ ہی تسلیم کیا ہے ۔
اور کسی راوی کو متکلم فیہ کہنے اورضعیف کہنے میں بڑا فرق ہے۔
مثلا بیس رکعات تراویح والی حدیث پربحث کرتے ہوئے بہت سارے محدثین بخاری ومسلم کے راوی یزیدبن خصیفہ کو متکلم فیہ بتلاتے ہیں لیکن انہیں ضعیف کوئی نہیں کہتاہے ، بلکہ خود شیخ محترم نے بھی بخاری کے ایک راوی پر کلام نقل کیا لیکن کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ شیخ کی نظر میں یہ راوی ضعیف ہے۔
الغرض یہ کہ رواۃ کی توثیق سے متعلق جوتفصیلات دی گئی ہیں الحمدللہ ہم نے ان کاانکار ہی نہیں کیا اس لئے ہماری تحریر سے اس پوری تفصیل کا کوئی تعلق ہی نہیں ۔

نیز ثقہ کی زیادتی سے متعلق جو مفصل معلومات پیش کی گئی ہیں اس کی بھی ضرورت نہ تھی کیونکہ علی الاطلاق ہم نے اس کا انکار نہیں کیا بلکہ قرائن کی روشنی میں زیادتی ثقہ کو رد کرنے کے بات کہی ہے ، اس لئے بحث اسی نکتہ پرہونی چاہئے کہ زیربحث راویت میں زیادتی ثقہ سے متعلق قرائن کیا کہتے ہیں ؟ آیا اس روایت میں زیادتی ثقہ قابل قبول ہے یا قابل رد ؟ اس سے ہٹ کر یہ کہنا کہ دس مقامات یا اس سے زائد مقامات پر ثقہ کی زیادتی قبول کی گئی ہے غیر ضروری ہے، ورنہ ہم بیس مقامات بلکہ اس سے بھی زائد مقامات دکھاسکتے ہیں جہاں ثقہ کی زیادتی مردود قرار دی گئی ۔ لہٰذا یہ پوری تفصیل ہمارے اصل نکتہ سے غیرمتعلق ہے۔

ہم اس پوری تحریر کا جواب دیں گے لیکن اس سے قبل ہم شیخ زبیرحفظہ اللہ کے رد کی اصل کاپی دیکھنا چاہتے ہیں اسدبھائی سے پہلے بھی گذارش کرچکا ہوں پھر عرض کرتاہوں کہ شیخ موصوف کے رد کی اصل کاپی فراہم کریں۔
بارک اللہ فیک۔
 
شمولیت
اگست 25، 2011
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
216
پوائنٹ
0
چند شبہات کا ازالہ

۱) کفایت اللہ سنابلی صاحب کی طرف سے حسین بن ابراہیم الجورقانی کی کتاب الاباطیل و المناکیر و الصحاح والمشاھیر (۱/ ۱۲۶ ح ۱۲۲) سے ایک روایت پیش کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ۱۲/ ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔ یہ روایت تین وجہ سے ضعیف ہے:
۱: محمد بن طاہر المقدسی کے بارے میں خود کفایت اللہ صاحب نے ’’ کان کثیر الوہم‘‘ وغیرہ کی جرح نقل کی ہے۔
۲: جور قانی پر بھی شدید جرح ہے۔
۳: عیسیٰ بن علی بن علی بن عیسیٰ کی توثیق مع تعین مطلوب ہے۔
سوال یہ ہے کہ اہلِ بدعت صرف اسی ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں؟
امام المغازی محمد بن اسحاق نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ربیع الاول کی بارہ راتیں گزرنے کے بعد سوموار والے دن (یعنی ۱۲/ربیع الاول کو ) پیدا ہوئے۔
(سیرت ابن ہشام ۱/ ۱۶۷، دلائل النبوۃ للبیہقی ۱/ ۷۴)
کیا اس قدیم ترین قول کے مقابلے میں کوئی حدیث یا صحابی و تابعی کا کوئی اثر ہے؟
۲) اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’ والمعروف‘‘ والے الفاظ امام بخاری کا قول ہے اور اس قول کا صرف یہی مطلب ہے کہ امام بخاری کے نزدیک مشہور بات یہ ہے کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ان کا شام جانا مشہور نہیں۔
یہ واقعہ چونکہ امام بخاری کی پیدائش سے پہلے ہوا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ امام بخاری سے ابو ذر رضی اللہ عنہ تک صحیح سند پیش کی جائے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام نہیں گئے تھے۔
اگر صحیح سند موجود نہیں تو پھر امام بخاری کا یہ قول اس صحیح ( حسن لذاتہ) حدیث کے خلاف ہے جس میں آیا ہے کہ ’’کان أبو ذر بالشام زمن یزید بن أبي سفیان ‘‘یعنی ابو ذر رضی اللہ عنہ یزید بن ابی سفیان کے زمانے میں شام میں تھے۔
ظاہر ہے کہ صحیح حدیث کے مقابلے میں امام بخاری ہوں یا کوئی اور امام ، ان کا قول حجت نہیں رہتا اور صحیح حدیث حجت رہتی ہے۔سفیان ثوری کے بارے میں ابو زرعہ ابن العراقی کا قول ’’ مشہور بالتدلیس ‘‘ کئی وجہ سے صحیح ہے۔ مثلاً :
۱: سفیان ثوری کا مدلس ہونا ثابت ہے اور غیر مدلس ہونا ثابت نہیں۔
۲: سفیان ثوری کے شاگردوں سے بھی ان کا مدلس ہونا ثابت ہے۔
۳: یہ قول کسی حدیث یا کسی دلیل کے خلاف نہیں۔
تنبیہ: امام بخاری کی طرف منسوب یہ قول کہ ’’ ولا أعرف لسفیان ... تدلیسًا ، ما أقل تدلیسہ .‘‘ باسند صحیح ثابت نہیں جیسا کہ الفتح المبین کے جدید نسخے میں اصلاح کر دی گئی ہے اور یہ نسخہ چھپنے کے لئے مکتبہ اسلامیہ پہنچ چکا ہے۔
العلل الکبیر کا بنیادی راوی ابو حامد التاجر مجہول الحال ہے۔( الحدیث : ۳۸ ص ۳۱، شمارہ ۱۰۲ ص ۲۷)
لہٰذا یہ کتاب ہی ثابت نہیں۔
ولید بن عتبہ الدمشقی مشہور ثقہ راوی ہیں۔ ان سے ابو داود، بقی بن مخلد، یعقوب بن سفیان الفارسی اور ابو زرعہ الرازی نے روایت بیان کی اور یہ سب اپنے نزدیک صرف ثقہ سے ہی روایت بیان کرتے تھے۔ ابن حبان اور ابن حجر نے توثیق کی اور ذہبی نے فرمایا : صدوق .لہٰذا یہ واقعی معروف الحدیث اور ثقہ و صدوق ہیں۔
الحارث بن عمرو تو مشہور صحابی ہیں ۔ رضی اللہ عنہ
یزید بن عمرو الاسلمی (مجہول الحال) عن عبد العزیز بن عقبہ بن سلمہ (مجہول الحال) کے بارے میں اگر امام بخاری نے ’’ غیر معروف سماعہ ‘‘ فرمایا تو دوسری جگہ اس کے برعکس بھی فرمایا: ’’ یزید بن عمرو الأسلمي ( سمع عبد العزیز ) بن عقبۃ بن سلمۃ. ‘‘ (التاریخ الکبیر ۸/ ۳۵۰ ت ۳۲۸۷)
ان دونوں باتوں میں سے کون سی صحیح ہے؟
ہمارے نزدیک تو التاریخ الکبیر والی یہ روایت یزید بن عمرو اور عبد العزیز دونوں مجہولوں یا مجروحوں کی وجہ سے ضعیف و مردود ہے۔
۳) شدید نکارت والے متن پر مشتمل روایت کا موضوع ہونا۔
ایسی روایت کی سند صحیح نہیں بلکہ مردود ہوتی ہے، نیز محدثین کرام اسے صحیح نہیں بلکہ موضوع کہتے ہیں۔جبکہ أول یغیر سنتي والی روایت کے متن میں کوئی نکارت نہیں، سند بھی حسن لذاتہ یعنی صحیح ہے اور کسی محدث نے اسے ہر گز موضوع قرار نہیں دیا۔
نبی ﷺ کا غیب کی خبریں بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی وحی سے تھا اور اس بات میں کسی قسم کی نکارت نہیں۔
۴) خود ساختہ عقلی قرائن کا اصل جواب یہ ہے کہ صحیح حدیث کے بارے میں ہر قسم کے ڈھکوسلے مردود ہوتے ہیں۔
یہ کہنا کہ فلاں موقع پر کیوں حدیث پیش نہیں کی؟ تو اس طرح سے بہت سی صحیح احادیث کا انکار کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً:سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک عورت نے نبی ﷺ سے کہا : اگر میں آپ کو نہ پاؤں تو؟ مراد یہ ہے کہ اگر آپ فوت ہو گئے تو میں کس کے پاس (اپنے کام کے بارے میں ) جاؤں گی؟
آپ نے فرمایا: ’’ إن لم تجدیني فأتي أبا بکر. ‘‘ اگر تو مجھے نہ پائے تو ابو بکر کے پاس جانا۔ (صحیح البخاری : ۳۶۵۹،صحیح مسلم : ۲۳۸۶)
اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوں گے۔
اگر کوئی کہے کہ یہ حدیث موضوع ہے، اگر یہ صحیح ہوتی تو سقیفہ بنی ساعدہ کے موقع پر اسے کیوں پیش نہ کیا گیا؟ تو کیا اس عقلی ڈھکوسلے سے اس حدیث کو موضوع قرار دیا جائے گا؟!
اس طرح کے عقلی اعتراضات اہلِ حدیث کا منہج نہیں بلکہ اہل الرائے کا وطیرہ ہے۔
یزید بن معاویہ کے بادشاہ بننے سے بہت پہلے ۳۲ھ میں سیدنا ابو ذر الغفاری رضی اللہ عنہ وفات پا گئے تھے، جبکہ اس وقت یزید پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔
کیا سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ اپنی وفات کے بعد ساٹھ ہجری میں دوبارہ زندہ ہو گئے تھے کہ یزید کے دربار میں یہ حدیث سناتے ؟
ابو مسلم الجذمی کا بھی دربارِ یزید میں حاضر ہونا کسی سند سے ثابت نہیں اور کیا یہ ضروری ہے کہ ہر صحیح حدیث ہر متعلقہ موقع پر ضرور پر ضرور بیان کی گئی ہو؟
۵) ایک حدیث میں آیا ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
میں نے رسول اللہ سے دو برتن یاد کئے، ایک تو پھیلا دیا اور اگر دوسرا پھیلاؤں تو میرا حلق کاٹ دیا جائے ۔ (صحیح بخاری : ۱۲۰)
اس حدیث سے باطنیہ کسی علم لدنی وغیرہ اباطیل پر استدلال کرتے ہیں ، جبکہ حافظ ابن حجر نے علماء سے نقل کیا کہ اس سے مراد بُرے حکمرانوں کے نام، احوال اور زمانہ ہے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے:’’ و قد کان أبو ہریرۃ یکني عن بعضہ ولا یصرح بہ خوفًا علٰی نفسہ منھم ‘‘ ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) بعض کے بارے میں اشارہ کرتے تھے اور اپنی جان کے خوف کے وجہ سے صراحت نہیں کرتے تھے۔
حافظ صاحب نے مزید لکھا ہے: ’’ کقولہ أعوذ باللّٰہ من رأس الستین واِمارۃ الصبیان یشیر إلٰی خلافۃ یزید بن معاویۃ لأنھا کانت سنۃ ستین من الہجرۃ و استجاب اللّٰہ دعاء أبي ھریرۃ فمات قبلھا بسنہ...‘‘ جس طرح کہ اُن ( ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ) کا ارشاد ہے کہ اے اللہ ! میں ساٹھ ( ہجری ) کے شروع اور لونڈوں کی حکمرانی سے پناہ چاہتا ہوں۔وہ یزید بن معاویہ کی خلافت کی طرف اشارہ کر رہے تھے کیونکہ وہ ساٹھ ہجری میں تھی اور اللہ تعالیٰ نے ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) کی دعا قبول فرمائی اور آپ اس سے ایک سال پہلے فوت ہو گئے۔ ( فتح الباری ج۱ص ۲۱۶)
اس حدیث کا مذاق اڑاتے ہوئے معترض نے جو کچھ لکھا ہے ہم اس کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔
شیخ زبیر حفظہ اللہ کے جواب کا یہ حصہ بھی یہاں مکمل ہوچکا ہے۔
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,597
پوائنٹ
139
محدث العصر الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے دئے گئے دلائل کو باغور پڑھنے اور شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کی علمی گفتگو کا مطالعہ کرنے کے بعد دل اس بات پر مطمئن ہو گیا ہے کہ یہ حدیث درجہ قبولیت کو پہنچتی ہے ۔
طرفین کی اس علمی گفتگو سے علم میں بہت اضافہ ہوا۔اللہ تعالیٰ اخلاص نیت کے ساتھ علمی دلائل مہیا کرنے والوں کو اجر عظیم عطا فرمائے۔آمین۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
محدث العصر الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے دئے گئے دلائل کو باغور پڑھنے اور شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کی علمی گفتگو کا مطالعہ کرنے کے بعد دل اس بات پر مطمئن ہو گیا ہے کہ یہ حدیث درجہ قبولیت کو پہنچتی ہے ۔
طرفین کی اس علمی گفتگو سے علم میں بہت اضافہ ہوا۔اللہ تعالیٰ اخلاص نیت کے ساتھ علمی دلائل مہیا کرنے والوں کو اجر عظیم عطا فرمائے۔آمین۔
آپ کو بے شک کسی بھی موقف پراطمینان ظاہر کرنے کی آزادی لیکن ابھی ناچیز کی مزید گفتگو باقی ہے ۔
ہمیں تو شیخ محترم کے دئے گئے دلائل سے اپنے موقف پرمزید اطمینان حاصل ہوا ہے اور اس روایت کے مکذوب و مردود ماننے سے متعلق یقین پر یقین حاصل ہوتاجارہاہے کیونکہ شیخ محترم نے کوئی نئی بات نہیں پیش کی ہے سوائے اس کے کہ آپ کے پیش کردہ خلاصہ کی تفصیل ہے ۔
ہاں شیخ محترم کے دلائل کا زیادہ تر حصہ زیربحث سندکے رواۃ کی توثیق اورزیادتی ثقہ سے متعلق ہے جس کا ہمای پیش کردہ مرکزی علتوں سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
ایسی اور بھی روایات ہیں جن کی تصحیح کی بابت ہم شیخ محترم سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن دلائل کی کشش دونوں طرف پاتے ہیں اور راجح کسی ایک موقف کو سمجھتے ہیں لیکن افسوس کی زیربحث روایت کی صحت کے لئے ہمیں کسی بھی دلیل میں کشش معلوم نہیں ہوتی ۔رب العالمین ہم سب کی رہمنائی فرمائے۔
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,597
پوائنٹ
139
آپ کو بے شک کسی بھی موقف پراطمینان ظاہر کرنے کی آزادی لیکن ابھی ناچیز کی مزید گفتگو باقی ہے ۔
ہمیں تو شیخ محترم کے دئے گئے دلائل سے اپنے موقف پرمزید اطمینان حاصل ہوا ہے اور اس روایت کے مکذوب و مردود ماننے سے متعلق یقین پر یقین حاصل ہوتاجارہاہے کیونکہ شیخ محترم نے کوئی نئی بات نہیں پیش کی ہے سوائے اس کے کہ آپ کے پیش کردہ خلاصہ کی تفصیل ہے ۔
ہاں شیخ محترم کے دلائل کا زیادہ تر حصہ زیربحث سندکے رواۃ کی توثیق اورزیادتی ثقہ سے متعلق ہے جس کا ہمای پیش کردہ مرکزی علتوں سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
ایسی اور بھی روایات ہیں جن کی تصحیح کی بابت ہم شیخ محترم سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن دلائل کی کشش دونوں طرف پاتے ہیں اور راجح کسی ایک موقف کو سمجھتے ہیں لیکن افسوس کی زیربحث روایت کی صحت کے لئے ہمیں کسی بھی دلیل میں کشش معلوم نہیں ہوتی ۔رب العالمین ہم سب کی رہمنائی فرمائے۔
جی بالکل صحیح فرمایا کفایت اللہ بھائی آپ نے کہ ہر شخص طرفین کا موقف جاننے کے بعد اپنی رائے قائم کرنے میں آزاد ہوتا ہے اور اس طرح میں نے بھی اپنی رائے قائم کی الحمدللہ کیوں کہ مجھے شیخ زبیر کے دلائل آپ کے دئے گئے دلائل کی نسبت زیادہ قوی معلوم ہوئے اور میری ذاتی رائے کے مطابق انہوں نے ساری علتوں کا پھرپور جواب بھی دیا۔
آپ ہی بیان کئے گئے اصول سے رضامندی ظاہر کرتے ہوئے میں نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
كفايت الله نے لکھا ہے :
میں یہاں ایک اصولی بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتاہوں ، اوروہ یہ کہ راجح ومرجوح کا معیارکیا ہونا چاہئے؟؟
کیا یہ طرز فکر درست ہے شیخ زبیرحفظہ اللہ جواب نہ دیں تو کفایت اللہ کا موقف راجح ہوگا؟؟
کیا راجح ومرجوح کا معیار دلائل ہیں یا جواب درجواب ؟؟؟ اگرجواب درجواب ہی راجح و مرجوح کے لئے معیار ہے تو اس کا مطلب جس کی آخری تحریر ہوگی اسی کا موقف راجح ہوگا قطع نظر اس کے کہ آخری تحریر والے نے دلائل کیا دئے ہیں‌؟؟
آج اہل حدیثوں کی کتنی ایسی تحریریں ہیں جن کا مخالفین نے جواب دیا مگر اہل الحدیث‌ کی طرف سے جواب الجواب ابھی نہیں آیا، اب فرض کریں کہ اہل حدیث‌ اگرجواب الجواب نہ دیں‌ تو کیا مخالفین کا موقف ہی راجح قرار پائے گا؟؟

کم ازکم میری نظر میں‌ یہ طرز فکر درست نہیں ہے کہ اگرشیخ زبیرحفظہ اللہ کی طرف سے جواب نہیں‌ آیا تو کفایت اللہ کا موقف راجح ہوگا بلکہ معیار دلائل کو بنانا چاہئے لہٰذا اگر شیخ‌ زیبر حفظہ اللہ کے دلائل سے کوئی مطئن ہے تو اس کی نظر میں شیخ کا موقف ہی راجح قرار پانا چاہئے خواہ شیخ اپنے موقف پر کئے گئے رد کا جواب دیں یا نہ دیں‌؟؟
جہاں تک آپ کے جواب کے باقی ہونے کا تعلق ہے تو ہم ان شاءاللہ آپ کا آنے والا موقف بھی ضرور پڑھیں گے اور اگر آپ کے دلائل مضبوط معلوم ہوئے تو ان شاءاللہ کھلے دل سے قبول کریں گے کیونکہ ہمارا مقصد ہی دلائل کو پرکھنے کے بعد کوئی رائے قائم کرنا ہے نا کہ شخصیت پرستی کرنا۔
اور جیسا کہ آپ نے بیان کیا کہ آپ شیخ محترم سے اور بھی کئی جگہوں پر اختلاف رکھتے ہیں ،تو ہم بھی اسی طرح دلائل کی بنیاد پر شیخ محترم سے کئی جگہوں پر اختلاف رکھتے ہیں اور یہی تو اہل الحدیث کا خاصہ ہے کہ وہ دلائل کو بنیاد بناتے ہیں ناکہ شخصیت کو۔
جزاکم اللہ خیرا و بارک اللہ فیکم ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
جزاک اللہ خیرا ۔
آپ نے یہ بہت اچھا کیا کہ میری ایک ہم وضاحت یہاں بھی نقل فرمادی بارک اللہ فیک۔
میں سمجھتا ہوں کہ میرے یہ الفاظ سامنے آنے کے بعد اب مجھے مزید تبصرہ کی ضرروت نہیں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top