محمد اسد حبیب
مبتدی
- شمولیت
- اگست 25، 2011
- پیغامات
- 38
- ری ایکشن اسکور
- 216
- پوائنٹ
- 0
زیادت ثقہ کی مقبولیت پر تحقیقی مقالات (ج۲ ص۲۴۸۔ ۲۶۰) سے دس مزید حوالے بعض اصلاح اور کمی بیشی کے ساتھ پیشِ خدمت ہیں:
ثقہ راوی کی زیادت کی مناسبت سے دس مثالیں پیشِ خدمت ہیں جن سے ہمارے مؤقف کی زبردست تائید ہوتی ہے کہ شرطِ مذکور کے ساتھ زیادتِ ثقہ مقبول ہے:
مثال اول: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’ ثنا یحي بن سعید عن سفیان: حدثني سماک عن قبیصۃ بن ھلب عن أبیہ قال: رأیت النبي ﷺ ینصرف عن یمینہ وعن شمالہ ورأیتہ یضع ھٰذہ علٰی صدرہ /وصف یحي الیمنٰی علی الیسریٰ فوق المفصل ‘‘
ہلب الطائی رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز سے فارغ ہو کر ) دائیں اور بائیں (دونوں ) طرف سلام پھیرتے ہوئے دیکھا ہے اور دیکھا ہے کہ آپ یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے ۔ یحییٰ (القطان راوی) نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر جوڑ پررکھ کر (عملاً ) بتایا ۔ (مسند احمد ۵؍۲۲۶ ح ۲۲۳۱۳ وسندہ حسن والتحقیق لابن الجوزی ۱؍۲۸۳)
اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے ۔
دیکھئے میری کتاب ’’ نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام ‘‘(ص ۱۴۔۱۶)
آلِ تقلید میں سے محمد بن علی النیموی صاحب نے یہ اعتراض کیاہے کہ اسے وکیع اور عبدالرحمن بن مہدی نے ’’ علٰی صدرہ ‘‘ کے بغیر روایت کیا ہے۔ ابو الاحوص اور شریک نے اسے اس زیادت کے بغیر بیان کیا ہے ( لہٰذا ) یہ( زیادت) محفوظ نہیں ہے۔
دیکھئے آثار السنن (ص۱۴۴ ح ۳۲۶)
مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں نیموی صاحب کا زبردست اور مضبوط رد کیا ہے۔ دیکھئے ابکار المنن (ص ۱۱۳، ۱۱۴)
خلاصہ یہ کہ اس روایت میں علیٰ صدرہ کا اضافہ صرف مسند احمد میں ہے اور دوسری کتابوں مثلاً سنن ترمذی ، سنن ابن ماجہ اور سنن دارقطنی وغیرہ میں یہ اضافہ نہیں ہے تو کیا اس زیادت کو رد کر دیا جائے گا ! ؟
ثقہ راوی کے اس تفرد والی روایت کے بارے میں مولانا شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ وإسنادہ حسن ‘‘ اور اس کی سند حسن ہے۔ (التعلیق المغنی ۱؍ ۲۸۵)
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی صریح دلیلوں میں یہ سب سے قوی دلیل ہے۔
صحیح ابن خزیمہ ( ۱؍ ۲۴۳ ح ۴۷۹) میں ’’ مؤمل بن إسماعیل : نا سفیان عن عاصم ابن کلیب عن أبیہ عن وائل بن حجر ‘‘ رضی اللہ عنہ کی سند سے ایک روایت میں علیٰ صدرہ آیا ہے۔ اس زیادت کو بھی نیموی صاحب نے غیر محفوظ قرار دیا ہے کیونکہ اسے مؤمل بن اسماعیل کے علاوہ کسی نے بھی اس سند و متن سے بیان نہیں کیا اور دوسرے راویوں نے اسے اس اضافے کے بغیر روایت کیا ہے مثلاً عبداللہ بن الولید عن سفیان الثوری ، زائدہ و بشر بن المفضل وغیرہما عن عاصم بن کلیب... الخ (دیکھئے آثار السنن ص ۱۴۰، ۱۴۱ ح ۳۲۵)
ہمارے نزدیک مؤمل بن اسماعیل تحقیقِ راجح میں موثق عند الجمہور اور حسن الحدیث ہیں۔ دیکھئے میری کتاب مقالات جلد اول ( ص ۴۱۷۔ ۴۲۷) اور ماہنامہ الحدیث حضرو:۱۱ ص ۱۸
لہٰذا اُن کا امام سفیان ثوری سے تفرد یہاں مضر نہیں ہے مگر سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس (عن) کی وجہ سے یہ روایت ہمارے نزدیک ضعیف ہے۔
تنبیہ نمبر۱: اس حدیث کو امام ابن خزیمہ کا کسی جرح کے بغیر صحیح ابن خزیمہ میں درج کرنا اس کی دلیل ہے کہ اُن کے نزدیک متنِ حدیث میں ثقہ و صدوق راوی کی زیادت صحیح و مقبول ہوتی ہے۔
تنبیہ نمبر ۲: حنفی ، بریلوی اور دیوبندی ( تینوں) حضرات میں سے جو لوگ ضعیف یا حسن لغیرہ روایات کو بھی حجت سمجھتے ہیں اُن کے اصول پر سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت تو حسن لغیرہ بن جاتی ہے۔ سیدنا ہلب رضی اللہ عنہ والی روایت ، مؤمل بن اسماعیل والی روایت اور امام طاوس رحمہ اللہ کی مرسل ، لیکن پھر بھی وہ اسے حسن و حجت نہیں سمجھتے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ حسن لغیرہ کو حجت سمجھنے کے خلاف ہیں۔
یہ اعتراض آلِ تقلید کے خلاف بطورِ الزام ذکر کیا گیاہے جو ان کے لئے ’’پھکی‘‘ ہے۔
مثال دوم: ابو ابراہیم محمد بن یحییٰ الصفار فرماتے ہیں:
’’ ثنا عثمان بن عمر عن یونس عن الزہري عن محمود بن الربیع عن عبادۃ ابن الصامت قال قال رسول اللّٰہ ﷺ :
(( لا صلوۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب خلف الإمام‘‘.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جس نے امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی۔
(کتاب القراء ت للبیہقی ص ۷۰ ح ۱۳۵، وقال : و ھذا إسناد صحیح والزیادۃ التی فیہ کالزیادۃ فی حدیث مکحول .. .. الخ)
اس روایت کو عثمان بن عمر سے خلف الامام کے اضافے کے بغیر امام دارمی (۱؍ ۲۸۳ ح۱۲۴۵، دوسرا نسخہ : ۱۲۷۸)نے بیان کیا ہے۔
یونس بن یزید سے اس حدیث کو خلف الامام کی زیادت کے بغیر لیث بن سعد ، عبداللہ بن وہب (جزء القراء ۃ للبخاری بتحقیقی : ۶، صحیح مسلم : ۳۹۴، ترقیم دارالسلام : ۸۷۵)نے بیان کیا ہے۔
یونس بن یزید الایلی کے علاوہ امام زہری سے اسے ایک جماعت مثلاً سفیان بن عیینہ، صالح بن کیسان اور معمر بن راشد نے خلف الامام کے اضافے کے بغیر روایت کیا ہے۔
دیکھئے صحیحین وغیرہما اور المسند الجامع (۸؍ ۶۲، ۶۳)
محمد بن یحییٰ الصفار ( راوی) کے زبردست تفرد والی اس روایت کے بارے میں امام بیہقی نے فرمایا: اس کی سند صحیح ہے۔ (حوالہ سابقہ صفحے پر گزر چکا ہے۔)
مثال سوم: یونس بن یزید الأیلي عن ابن شھاب الزھري عن نافع مولٰی أبي قتادۃ الأنصاري عن أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ عنہ کی سند سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (( کیف أنتم إذا نزل ابن مریم فیکم و إما مکم منکم)) تمھارا اس وقت کیا حال ہو گا جب عیسیٰ بن مریم تم میں نازل ہوں گے اور تمھارا امام تم میں سے ہو گا۔ (صحیح بخاری : ۳۴۴۹، صحیح مسلم: ۱۵۵)
اسے یونس بن یزید سے اس مفہوم کے ساتھ ابن بکیر اور عبداللہ بن وہب نے روایت کیا ہے ۔ یونس کے علاوہ معمر ، عُقیل بن خالد ، اوزاعی ، ابن اخی الزہری اور ابن ابی ذئب نے یہ روایت اسی مفہوم کے ساتھ اور من السماء کے اضافے کے بغیر روایت کی ہے۔
دیکھئے میری کتاب تحقیقی مقالات (ج۱ص ۱۰۳)
یہی روایت امام بیہقی نے احمد بن ابراہیم عن ابن بکیر عن یونس بن یزید عن ابن شہاب عن نافع عن أبي ہریرۃ کی سند کے ساتھ درج ذیل الفاظ سے بیان کی ہے:((کیف أنتم إذا نزل ابن مریم من السماء فیکم و إما مکم منکم.))
تمھارا اس وقت کیا حال ہو گا جب ابن مریم آسمان سے اتریں گے اور تمھارا امام تم میں سے ہوگا۔ ( الاسماء والصفات ص ۵۳۵، دوسرا نسخہ ص ۴۲۴، تیسرا نسخہ ص ۳۰۱)
چونکہ صحیحین میں مدلسین کی روایات سماع پر محمول ہیں لہٰذا امام زہری کی یہ روایت صحیح ہے۔ اس حدیث کو علمائے حق نے مرزائیوں قادیانیوں کے خلاف بطورِ حجت پیش کیا ہے اور اس حدیث کا دفاع کیا ہے، مثلاً دیکھئے محمدیہ پاکٹ بک (ص ۵۸۹، ۵۹۰)
معلوم ہوا کہ مسئلہ عقیدے کا ہو یا اعمال و احکام کا، ثقہ راوی کی زیادت حجت ہے بشرطیکہ من کل الوجوہ ثقات یا اوثق کے خلاف نہ ہو لہٰذا عدمِ ذکر کو خلاف بنا دینا غلط ہے۔
مثال چہارم: ایک حدیث میں آیا ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے ساتھ (عشاء کی) نماز پڑھتے تھے پھر واپس جا کر اپنے قبیلے والوں کو (عشاء کی نماز پڑھاتے تھے۔ اسے عمرو بن دینار نے سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔
دیکھئے صحیح بخاری ( ۷۰۰) و صحیح مسلم(۴۶۵)
اسے عمرو بن دینار سے سفیان بن عیینہ ، شعبہ اور ایوب وغیرہم نے اس مفہوم کے ساتھ بیان کیا ہے۔ دیکھئے المسند الجامع (۳؍ ۴۶۸، ۴۶۹ح ۲۲۷۰)
جبکہ یہ حدیث امام ابن جریج نے درج ذیل الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے:
’’ ھي لہ تطوع و ھي لھم مکتوبۃ ‘‘ وہ (نماز) اُن (معاذ رضی اللہ عنہ) کے لئے نفل ہوتی تھی اور ان لوگوں کے لئے (جو ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے) فرض ہوتی تھی۔ دیکھئے کتاب الام للشافعی ( ص ۱۷۳ ج۱) شرح معانی الآثار (۱؍۴۰۹) سنن الدارقطنی (۱؍ ۲۷۴، ۲۷۵ح ۱۰۶۲، ۱۰۶۳) اور السنن الکبریٰ للبیہقی (۳؍ ۸۵)
اس روایت میں امام ابن جریج رحمہ اللہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔
دیکھئے سنن الدارقطنی (ح ۱۰۶۳، وسندہ صحیح)
اس زیادت والی روایت پر نیموی صاحب نے اپنے تقلیدی مذہب کو بچانے کے لئے ’’وفي ھذہ الزیادۃ کلام ‘‘ کہہ کر حملہ کر دیا ہے۔ دیکھئے آثار السنن (ص ۲۶۴ح ۵۲۴)
نیموی صاحب کا رد کرتے ہوئے مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ کلا بل ھذہ الزیادۃ صحیحۃ فإنھا زیادۃ من ثقۃ حافظ لیست منافیۃ لروایۃ من ھو أحفظ منہ أو أکثر عددًا کما ستقف علیہ ‘‘ ہر گز نہیں! بلکہ یہ زیادت صحیح ہے کیونکہ یہ ثقہ حافظ کی زیادت ہے، یہ زیادہ حافظ یا اکثر کے منافی نہیں ہے جیسا کہ آپ عنقریب واقف ہو جائیں گے۔ (ابکا رالمنن ص ۲۴۹، نیز دیکھئے ص ۲۵۰، )
معلوم ہوا کہ ابن جریج (ثقہ راوی) کے تفرد والی روایت ( جس میں اضافہ ہے) صحیح ہے اور مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ یہاں اور سینے پر ہاتھ باندھنے والے مسئلے میں ثقہ راوی کی زیادت کو صحیح سمجھتے تھے۔
تنبیہ بلیغ : نیموی صاحب نے اپنے مذہب کے مخالف بہت سی روایات پر کلام کیا ہے جن میں ثقہ و صدوق راویوں کی زیادات ہیں مگر ایک جگہ اپنی مرضی کی ایک روایت کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ و إسنادہ صحیح ‘‘ (آثار السنن ص ۳۳ح ۳۶)
التعلیق الحسن میں اس حدیث کے تحت نیموی صاحب نے محدث بزار سے نقل کیا کہ ہمارے علم کے مطابق اسے بشر بن بکر عن الأوزاعي عن یحي عن عمرۃ عن عائشة کی سند سے حمیدی کے سوا کسی نے بھی مسند (یعنی متصل)بیان نہیں کیا۔پھر نیموی صاحب نے جواب دیا: عبداللہ بن الزبیر الحمیدی ثقہ حافظ امام اور امام بخاری کے اساتذہ میں سے تھے لہٰذ ااُن کی یہ زیادت زبردست طور پر مقبول ہے کیونکہ یہ اوثق کی روایت کے منافی نہیں ہے۔ (آثار السنن ص ۳۳ تحت ح ۳۶)
معلوم ہوا کہ نیموی صاحب زیادتِ ثقہ کے مسئلے میں دوہری پالیسی پر گامزن تھے۔
مثال پنجم : ولید بن عیزار نے ابو عمرو الشیبانی سے ، انھوں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : کون سا عمل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا:
(( الصلٰوۃ علٰی وقتھا.)) نماز اپنے وقت پر پڑھنا۔ (صحیح بخاری : ۵۲۷، صحیح مسلم : ۸۵)
اسے ولید بن عیزار سے شعبہ ، مسعودی ، ابو اسحاق الشیبانی اور ابو یعفور نے اسی مفہوم کے ساتھ بیان کیا ہے۔ (المسند الجامع ۱۱؍ ۵۰۶، ۵۰۷)
مالک بن مغول (ثقہ) کی روایت میں درج ذیل الفاظ آئے ہیں:
(( الصلٰوۃ في أول وقتھا .)) اول وقت میں نماز پڑھنا ۔
(صحیح ابن خزیمہ : ۳۲۷، صحیح ابن حبان، الاحسان : ۱۴۷۷، دوسرا نسخہ : ۱۴۷۹، وقال: ’’ تفرد بہ عثمان بن عمر ‘‘ أي عن مالک بن مغول ، وح ۱۴۷۳/ ۱۴۷۵، المستدرک للحاکم ۱؍ ۱۸۸، وصححہ ووافقہ الذہبی)
اس روایت میں عثمان بن عمر نے مالک بن مغول سے تفرد کیا ہے جبکہ محمد بن سابق (صحیح بخاری : ۲۷۸۲) نے اسے مالک بن مغول سے مذکور ہ اضافے کے بغیر روایت کیا ہے۔
سنن دارقطنی وغیرہ میں اس کے کچھ ضعیف شواہد (تائید کرنے والی ضعیف روایات) بھی ہیں تاہم حق یہ ہے کہ عثمان بن عمر رحمہ اللہ (ثقہ) کی بذاتِ خود منفرد اور اول وقت کے اضافے والی روایت صحیح ہے۔ والحمد للہ
مثال ششم : ثقہ امام زائدہ بن قدامہ رحمہ اللہ نے عاصم بن کلیب عن أبیہ عن وائل بن حجر رضي اللّٰہ عنہ کی سند سے ایک حدیث بیان کی کہ ’’ فرأیتہ یحرکھا یدعو بھا ‘‘ پس میں نے آپ(ﷺ)کو دیکھا، آپ ( تشہد میں) اسے (شہادت کی انگلی کو) حرکت دے رہے تھے، اس کے ساتھ دعا کر رہے تھے۔
(سنن النسائی ۲؍ ۱۲۷ح ۸۹۰ وسندہ صحیح وصححہ ابن الجارود: ۲۰۸ وابن حبان ،ا لاحسان : ۱۸۵۷)
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ یہ حدیث بیان کر کے فرماتے ہیں: ’’ لیس في شئ من الأخبار ’’ یحرکھا ‘‘ إلا في ھذا الخبر ، زائدۃ ذکرہ ‘‘ اس حدیث کے علاوہ کسی حدیث میں یحرکھا کا لفظ نہیں ہے، اسے (صرف) زائدہ نے ذکر کیا ہے۔
(صحیح ابن خزیمہ ۱؍ ۳۵۴ح ۷۱۴)
روایتِ مذکورہ پر بعض معاصرین نے کلام کیا ہے لیکن معاصرین میں سے ہی شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ اور ابو اسحاق الحوینی وغیرہما نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
شیخ البانی کی تصحیح کے لئے دیکھئے ارواء الغلیل (۲؍ ۶۹ح ۳۵۲)
بلکہ شیخ البانی نے (شذوذ کی وجہ سے ؟!) اس حدیث کو ضعیف کہنے والوں کا زبردست رد کیا ہے۔ دیکھئے السلسلۃ الصحیحہ (۷؍ ۵۵۱ ح ۳۱۸۱)
تنبیہ نمبر ۱: شیخ البانی رحمہ اللہ نے اپنی تائید میں صحیح اور ضعیف جتنی روایات پیش کی ہیں اُن میں سے زائدہ کی روایت کے علاوہ کسی ایک میں بھی ’’ یحرکھا ‘‘ کا لفظ نہیں ہے۔
تنبیہ نمبر ۲: ہمارے شیخ مولانا حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ نے بھی شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کو بطورِ حجت پیش کر کے اس سے استدلال کیا ہے۔
دیکھئے احکام و مسائل (ج۱ص۱۹۶، ۱۹۷)
یہ اس کی دلیل ہے کہ حافظ صاحب بھی ثقہ کی زیادت کو صحیح سمجھتے ہیں۔واللہ اعلم
مثال ہفتم : ہشام بن عروۃ عن أبیہ عن عائشة رضي اللّٰہ عنہا کی سند سے ایک روایت میں آیا ہے کہ ’’ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے یہاں آئے تو نبی کریم ﷺ بھی وہیں تشریف رکھتے تھے عید الفطر یا عید الاضحی کا دن تھا، دو لڑکیاں یوم بعاث کے بارے میں وہ اشعار پڑھ رہی تھیں جو انصار کے شعراء نے اپنے فخر میں کہے تھے.... ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ شیطانی گانے باجے!(...ﷺ کے گھر میں) دو مرتبہ انھوں نے یہ جملہ دہرایا، لیکن آپ نے فرمایا: ابو بکر ! انھیں چھوڑ دو۔ ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور ہماری عید آج کا یہ دن ہے۔ ‘‘
(صحیح بخاری مطبوعہ مکتبہ قدوسیہ لاہور ج۵ ص ۳۰۶ ح ۳۹۳۱)
اس حدیث کو ہشام بن عروہ سے شعبہ ، حماد بن سلمہ اور ابو معاویہ الضریر نے بیان کیا ہے ۔ (المسند الجامع ۲۰؍ ۱۷۵ ح ۱۶۹۹۶)
یہ ان احادیث میں سے ایک ہے جن سے غامدی گروپ موسیقی کے جواز پر استدلال کرتا ہے ۔ مثلاً دیکھئے مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی کتاب ’’ اسلام اور موسیقی‘‘ (ص ۱۶، ۱۷)
اس حدیث کو جب امام ابو اسامہ حماد بن اسامہ رحمہ اللہ نے ہشام بن عروہ سے اس سند و متن سے روایت کیا تو حدیث میں درج ذیل اضافہ بھی بیان کیا۔
’’ ولیستا بمغنیتین ‘‘ وہ دونوں ( بچیاں) مغنیہ نہ تھیں۔
(صحیح بخاری : ۹۵۲ ، صحیح مسلم : ۸۹۲، دارالسلام : ۲۰۶۱)
یہ اضافہ اگرچہ دوسرے راوی نہیں بیان کرتے مگر ثقہ کی زیادت مقبول ہونے کے اصول سے یہ اضافہ صحیح ہے اور اس حدیث سے غامدی گروپ کا استدلال باطل ہے۔
مثال ہشتم : ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے ( سیدنا) ابو بکر (الصدیق رضی اللہ عنہ) سے فرمایا: میں تمھارے پاس سے گزرا اور تم آہستہ آواز میں قراء ت کر رہے تھے؟ انھوں نے کہا : میں اسے ( اللہ کو ) سناتا تھا جس سے میں سر گوشی کرتا تھا۔ آپ نے فرمایا: آواز تھوڑی بلند کیا کرو۔
آپ(ﷺ) نے ( سیدنا) عمر (رضی اللہ عنہ) سے کہا: میں تمھارے پاس سے گزرا اور تم اونچی آواز سے قراء ت کر رہے تھے؟ انھوں نے جواب دیا : میں سوئے ہوؤں کو جگاتا اور شیطان کو بھگاتا تھا۔ آپ نے فرمایا: اپنی آواز ذرا کم کیا کرو۔ ( سنن الترمذی : ۴۴۷ وقال : غریب الخ)
امام ترمذی نے فرمایا: اس حدیث کو صرف یحییٰ بن اسحاق( السیلحینی) نے عن حماد ابن سلمة(عن ثابت البناني عن عبداللّٰہ بن رباح الأنصاري عن أبي قتادۃ رضي اللّٰہ عنہ)کی سند سے بیان کیا ہے اور اکثر لوگ اس حدیث کو ثابت عن عبداللّٰہ ابن رباح (رحمہ اللّٰہ عن النبي ﷺ) مرسلاً بیان کرتے ہیں۔
( جامع ترمذی بتحقیق مختصر للشیخ الالبانی ص ۱۲۰)
معلوم ہوا کہ اس حدیث میں یحییٰ بن اسحاق ثقہ راوی کا تفرد ہے۔ ثقہ راوی کے تفرد والی اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (۲؍ ۱۸۹، ۱۹۰ ح ۱۱۶۱) حافظ ابن حبان (الاحسان ۳؍ ۷ ح ۷۳۰، دوسرا نسخہ : ۷۳۳) حاکم (المستدرک ۱؍ ۳۱۰) اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے جو اس کی دلیل ہے کہ ان تمام محدثین کے نزدیک ثقہ کی زیادت صحیح و معتبر ہوتی ہے۔ والحمد للہ
تنبیہ نمبر ۱: حدیثِ مذکور کو شیخ البانی رحمہ اللہ وغیرہ معاصرین نے بھی صحیح قرار دیا ہے ۔
تنبیہ نمبر ۲:نیز دیکھئے سنن ابی داود (۱۳۲۹)
مثال نہم : سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب جنت والے جنت میں داخل ہوں گے تو اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا: کیا تم کوئی مزید چیز چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے : کیا تونے ہمارے چہرے سفید ( روشن) نہیں کر دیئے؟ کیا تو نے ہمیں آگ سے نجات دے کر جنت میں داخل نہیں کر دیا ؟ پھر اللہ پر دہ ہٹائے گا تو وہ اپنے رب کی طرف دیکھنے سے زیادہ پیاری کوئی چیز نہیں دیئے جائیں گے۔
(صحیح مسلم : ۱۸۱، دارالسلام : ۴۴۹)
اسے حماد بن سلمہ نے ثابت البنانی عن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ عن صہیب کی سند سے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: اس حدیث کو سلیمان بن المغیرہ نے ثابت سے انھوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کے قول سے روایت کیا ہے اور صہیب عن النبی ﷺ کا اضافہ بیان نہیں کیا ۔ (سنن الترمذی : ۳۱۰۵)
امام ترمذی نے مزید فرمایا: اس حدیث کو صرف حماد بن سلمہ نے (متصل) سند کے ساتھ اور مرفوع بیان کیا ہے اور سلیمان بن مغیرہ (اور حماد بن زید) نے اس حدیث کو ثابت البنانی عن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کے قول سے روایت کیا ہے۔ (ح ۲۵۵۲)
* سلیمان بن المغیرہ کی روایت کے لئے دیکھئے تفسیر طبری (۱۱؍ ۷۴)الزہد لابن المبارک (زوائد نعیم بن حماد الصدوق المظلوم : ۲۸۲ و سندہ صحیح)
* حماد بن زید کی روایت کے لئے دیکھئے تفسیر طبری (۱۱؍ ۷۵ ، وسندہ صحیح)
* معمر بن راشد کی روایت کے لئے دیکھئے تفسیر طبری (۱۱؍ ۷۵ وسندہ صحیح)
یہ بات مسلّم ہے کہ حماد بن سلمہ اثبت الناس عن ثابت ہیں لیکن اسی روایت کو مرفوع متصل بیان نہ کرنے والے تینوں امام زبردست ثقہ ہیں اور جماعت ہونے کی بنا پرحماد سے زیادہ قوی ہیں۔
ہمارے نزدیک ثقہ کی زیادت معتبر ہونے کی وجہ سے صحیح مسلم والی روایت بالکل صحیح ہے اور تین ثقہ اماموں کی عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے مقطوع روایت بھی صحیح ہے۔ والحمد للہ
مثال دہم : امام زہری کی بیان کردہ عن عروۃ بن الزبیر عن بشیر بن أبي مسعود الأنصاري عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہ کی سند سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ جبریل علیہ السّلام نے نبی ﷺ کو پانچ نمازیں پڑھائی تھیں۔
دیکھئے صحیح بخاری (۵۲۱) وصحیح مسلم (۶۱۰) وغیرہما ۔
اسے امام زہری سے ایک جماعت مثلاً امام مالک، سفیان بن عیینہ ، لیث بن سعد اور شعیب بن ابی حمزہ وغیرہم نے روایت کیا ہے۔ امام زہری سے اسامہ بن زید اللیثی (صدوق حسن الحدیث و ثقہ الجمہور) کی روایت میں درج ذیل اضافہ ہے:
’’ ثم کانت صلا تہ بعد ذلک التغلیس حتی مات ولم یعد إلٰی أن یسفر ‘‘
پھر اس کے بعد آپ(ﷺ) کی (فجر کی) نماز و فات تک اندھیرے میں تھی اور آپ نے دوبارہ کبھی روشنی کر کے (یہ نماز) نہیں پڑھی ۔ ( سنن ابی داود : ۳۹۴، مطبوعہ دارالسلام ۱؍۳۴۱)
امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں: ’’ ھذہ الزیادۃ لم یقلھا أحد غیر أسامۃ بن زید ‘‘
اس زیادت (اضافے) کو اسامہ بن زید کے سوا کسی نے بھی روایت نہیں کیا۔
(صحیح ابن خزیمہ ۱؍ ۱۸۱ ح ۳۵۲)
صدوق راوی کے اس تفرد والی روایت کو امام ابن خزیمہ ، حافظ ابن حبان (الاحسان : ۱۴۴۶) اور حاکم (۱؍ ۱۹۲، ۱۹۳ ح ۶۹۲) نے صحیح قرار دیا ہے جو اس کی دلیل ہے کہ ان محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق راوی کی زیادت صحیح و حسن ہوتی ہے۔
تنبیہ نمبر ۱: چونکہ امام زہری کی اصل حدیث صحیحین میں ہے اور السنن الکبریٰ للبیہقی (۱؍۴۴۱) میں انھوں نے اصل حدیث میں عروہ سے سماع کی تصریح کر دی ہے لہٰذا یہ روایت حسن ہے۔
تنبیہ نمبر ۲: المستدرک للحاکم (۱؍ ۱۹۰ح ۶۸۲) میں اس حدیث کا ایک حسن لذاتہ شاہد بھی ہے لہٰذا اسامہ بن زید کی حدیث صحیح ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب انوار السنن فی تحقیق آثار السنن (مخطوط ص ۴۳ح ۲۱۳) والحمدللہ
تنبیہ نمبر ۳: جس طرح ایک شخص نے صحیح مسلم کی ایک حدیث کو شاذ (یعنی ضعیف) قرار دیا ، اُسی طرح نیموی تقلیدی صاحب نے اسامہ بن زید اللیثی کی حدیث کو ’’ والزیادۃ غیر محفوظۃ ‘‘ کہہ کر ضعیف قرار دیاہے۔ دیکھئے آثار السنن (ص ۹۷ح ۲۱۳)
اللہ تعالیٰ نے نیموی پر مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کو مسلط کر دیا۔
مولانا مبارکپوری نے نیموی کے اعتراضات کے جوابات دے کر اسامہ بن زید کی توثیق ثابت کی اور فرمایا:
’’ فإن زیادۃ الثقۃ إنما تکون شاذۃ إذا کانت منافیۃ لروایۃ غیرہ من الثقات و أما إذا لم تکن منافیۃ فھي مقبولۃ وھو مذہب المحققین وسیأتي تحقیقہ في باب وضع الیدین علٰی الصدر وزیادۃ أسامۃ بن زید في ھذا الحدیث لا ینافي لروایۃ غیرہ فھذہ الزیادۃ مقبولۃ بلامریۃ ‘‘
کیونکہ ثقہ کی زیادت تو اس وقت شاذ ہوتی ہے جب وہ دوسرے ثقہ راویوں کے منافی ہو اور اگر منافی نہ ہوتو وہ مقبول ہوتی ہے اور یہی محققین کا مذہب ہے، اس کی تحقیق سینے پر ہاتھ باندھنے والے باب میں آئے گی اور اس حدیث میں اسامہ بن زید کی زیادتی (اضافہ) دوسرے راویوں کے منافی نہیں ہے پس یہ زیادت بغیر کسی شک کے مقبول ہے۔
(ابکار المنن فی تنقید آثار السنن ص ۸۰)
ہم جب کسی راوی کو ثقہ و صدوق حسن الحدیث یا حدیث کو صحیح و حسن لذاتہ قرار دیتے ہیں تو اصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے ، تناقض و تعارض سے ہمیشہ بچتے ہوئے، غیر جانبداری سے اور صرف اللہ تعالیٰ کوراضی کرنے کے لئے راوی کو ثقہ و صدوق حسن الحدیث اور حدیث کو صحیح و حسن قرار دیتے ہیں۔ ایک دن مرکر اللہ کے دربار میں ضرور بالضرور اور یقیناًپیش ہونا ہے۔ یہ نہیں کہ اپنی مرضی کی روایت کو صحیح وثابت کہہ دیں اور دوسری جگہ اسی کو ضعیف کہتے پھریں۔ یہ کام تو آلِ تقلید کا ہے!
اگر کوئی شخص میری کسی تحقیق یا عبارت میں سے تضاد و تعارض ثابت کر دے تو اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ علانیہ رجوع کروں گا، توبہ کروں گا اور جو بات حق ہے برملا اس کا اعلان کروں گا۔ لوگ ناراض ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں، بس اگر اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے تو اسی میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔ اے اللہ ! میری ساری خطائیں معاف کر دے۔ آمین
صحیح بخاری وصحیح مسلم اور مسلکِ حق : مسلکِ اہلِ حدیث کے لئے میری جان بھی حاضر ہے۔ یہ باتیں جذباتی نہیں بلکہ میرے ایمان کا مسئلہ ہے۔
قارئین کرام! ان دس مثالوں سے یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ ثقہ راوی کی زیادت اگر (من کل الوجوہ) منافی نہ ہو(جس میں تطبیق و توفیق ممکن ہی نہیں ہوتی) تو پھر عدمِ منافات والی یہ زیادت مقبول و حجت ہے۔ والحمد للہ
زیادتِ ثقہ کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ مثلاً :
عبد الرحمن بن عبد اللہ بن دینار نے ’’ رباط یوم في سبیل اللّٰہ ... ‘‘ والی ایک حدیث بیان کی ۔ (صحیح بخاری : ۲۸۹۲)
اس کے بارے میں ابن عساکر نے فرمایا: ’’ تفرد بذکر الرباط فیہ ابن دینار‘‘
(الاربعون فی الحث علی الجہاد : ۲۳ ، فضائل جہاد مترجم ص ۱۱۸)
ثقہ راوی کی زیادت کی مناسبت سے دس مثالیں پیشِ خدمت ہیں جن سے ہمارے مؤقف کی زبردست تائید ہوتی ہے کہ شرطِ مذکور کے ساتھ زیادتِ ثقہ مقبول ہے:
مثال اول: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’ ثنا یحي بن سعید عن سفیان: حدثني سماک عن قبیصۃ بن ھلب عن أبیہ قال: رأیت النبي ﷺ ینصرف عن یمینہ وعن شمالہ ورأیتہ یضع ھٰذہ علٰی صدرہ /وصف یحي الیمنٰی علی الیسریٰ فوق المفصل ‘‘
ہلب الطائی رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز سے فارغ ہو کر ) دائیں اور بائیں (دونوں ) طرف سلام پھیرتے ہوئے دیکھا ہے اور دیکھا ہے کہ آپ یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے ۔ یحییٰ (القطان راوی) نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر جوڑ پررکھ کر (عملاً ) بتایا ۔ (مسند احمد ۵؍۲۲۶ ح ۲۲۳۱۳ وسندہ حسن والتحقیق لابن الجوزی ۱؍۲۸۳)
اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے ۔
دیکھئے میری کتاب ’’ نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام ‘‘(ص ۱۴۔۱۶)
آلِ تقلید میں سے محمد بن علی النیموی صاحب نے یہ اعتراض کیاہے کہ اسے وکیع اور عبدالرحمن بن مہدی نے ’’ علٰی صدرہ ‘‘ کے بغیر روایت کیا ہے۔ ابو الاحوص اور شریک نے اسے اس زیادت کے بغیر بیان کیا ہے ( لہٰذا ) یہ( زیادت) محفوظ نہیں ہے۔
دیکھئے آثار السنن (ص۱۴۴ ح ۳۲۶)
مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں نیموی صاحب کا زبردست اور مضبوط رد کیا ہے۔ دیکھئے ابکار المنن (ص ۱۱۳، ۱۱۴)
خلاصہ یہ کہ اس روایت میں علیٰ صدرہ کا اضافہ صرف مسند احمد میں ہے اور دوسری کتابوں مثلاً سنن ترمذی ، سنن ابن ماجہ اور سنن دارقطنی وغیرہ میں یہ اضافہ نہیں ہے تو کیا اس زیادت کو رد کر دیا جائے گا ! ؟
ثقہ راوی کے اس تفرد والی روایت کے بارے میں مولانا شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ وإسنادہ حسن ‘‘ اور اس کی سند حسن ہے۔ (التعلیق المغنی ۱؍ ۲۸۵)
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی صریح دلیلوں میں یہ سب سے قوی دلیل ہے۔
صحیح ابن خزیمہ ( ۱؍ ۲۴۳ ح ۴۷۹) میں ’’ مؤمل بن إسماعیل : نا سفیان عن عاصم ابن کلیب عن أبیہ عن وائل بن حجر ‘‘ رضی اللہ عنہ کی سند سے ایک روایت میں علیٰ صدرہ آیا ہے۔ اس زیادت کو بھی نیموی صاحب نے غیر محفوظ قرار دیا ہے کیونکہ اسے مؤمل بن اسماعیل کے علاوہ کسی نے بھی اس سند و متن سے بیان نہیں کیا اور دوسرے راویوں نے اسے اس اضافے کے بغیر روایت کیا ہے مثلاً عبداللہ بن الولید عن سفیان الثوری ، زائدہ و بشر بن المفضل وغیرہما عن عاصم بن کلیب... الخ (دیکھئے آثار السنن ص ۱۴۰، ۱۴۱ ح ۳۲۵)
ہمارے نزدیک مؤمل بن اسماعیل تحقیقِ راجح میں موثق عند الجمہور اور حسن الحدیث ہیں۔ دیکھئے میری کتاب مقالات جلد اول ( ص ۴۱۷۔ ۴۲۷) اور ماہنامہ الحدیث حضرو:۱۱ ص ۱۸
لہٰذا اُن کا امام سفیان ثوری سے تفرد یہاں مضر نہیں ہے مگر سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس (عن) کی وجہ سے یہ روایت ہمارے نزدیک ضعیف ہے۔
تنبیہ نمبر۱: اس حدیث کو امام ابن خزیمہ کا کسی جرح کے بغیر صحیح ابن خزیمہ میں درج کرنا اس کی دلیل ہے کہ اُن کے نزدیک متنِ حدیث میں ثقہ و صدوق راوی کی زیادت صحیح و مقبول ہوتی ہے۔
تنبیہ نمبر ۲: حنفی ، بریلوی اور دیوبندی ( تینوں) حضرات میں سے جو لوگ ضعیف یا حسن لغیرہ روایات کو بھی حجت سمجھتے ہیں اُن کے اصول پر سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت تو حسن لغیرہ بن جاتی ہے۔ سیدنا ہلب رضی اللہ عنہ والی روایت ، مؤمل بن اسماعیل والی روایت اور امام طاوس رحمہ اللہ کی مرسل ، لیکن پھر بھی وہ اسے حسن و حجت نہیں سمجھتے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ حسن لغیرہ کو حجت سمجھنے کے خلاف ہیں۔
یہ اعتراض آلِ تقلید کے خلاف بطورِ الزام ذکر کیا گیاہے جو ان کے لئے ’’پھکی‘‘ ہے۔
مثال دوم: ابو ابراہیم محمد بن یحییٰ الصفار فرماتے ہیں:
’’ ثنا عثمان بن عمر عن یونس عن الزہري عن محمود بن الربیع عن عبادۃ ابن الصامت قال قال رسول اللّٰہ ﷺ :
(( لا صلوۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب خلف الإمام‘‘.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں جس نے امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی۔
(کتاب القراء ت للبیہقی ص ۷۰ ح ۱۳۵، وقال : و ھذا إسناد صحیح والزیادۃ التی فیہ کالزیادۃ فی حدیث مکحول .. .. الخ)
اس روایت کو عثمان بن عمر سے خلف الامام کے اضافے کے بغیر امام دارمی (۱؍ ۲۸۳ ح۱۲۴۵، دوسرا نسخہ : ۱۲۷۸)نے بیان کیا ہے۔
یونس بن یزید سے اس حدیث کو خلف الامام کی زیادت کے بغیر لیث بن سعد ، عبداللہ بن وہب (جزء القراء ۃ للبخاری بتحقیقی : ۶، صحیح مسلم : ۳۹۴، ترقیم دارالسلام : ۸۷۵)نے بیان کیا ہے۔
یونس بن یزید الایلی کے علاوہ امام زہری سے اسے ایک جماعت مثلاً سفیان بن عیینہ، صالح بن کیسان اور معمر بن راشد نے خلف الامام کے اضافے کے بغیر روایت کیا ہے۔
دیکھئے صحیحین وغیرہما اور المسند الجامع (۸؍ ۶۲، ۶۳)
محمد بن یحییٰ الصفار ( راوی) کے زبردست تفرد والی اس روایت کے بارے میں امام بیہقی نے فرمایا: اس کی سند صحیح ہے۔ (حوالہ سابقہ صفحے پر گزر چکا ہے۔)
مثال سوم: یونس بن یزید الأیلي عن ابن شھاب الزھري عن نافع مولٰی أبي قتادۃ الأنصاري عن أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ عنہ کی سند سے آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (( کیف أنتم إذا نزل ابن مریم فیکم و إما مکم منکم)) تمھارا اس وقت کیا حال ہو گا جب عیسیٰ بن مریم تم میں نازل ہوں گے اور تمھارا امام تم میں سے ہو گا۔ (صحیح بخاری : ۳۴۴۹، صحیح مسلم: ۱۵۵)
اسے یونس بن یزید سے اس مفہوم کے ساتھ ابن بکیر اور عبداللہ بن وہب نے روایت کیا ہے ۔ یونس کے علاوہ معمر ، عُقیل بن خالد ، اوزاعی ، ابن اخی الزہری اور ابن ابی ذئب نے یہ روایت اسی مفہوم کے ساتھ اور من السماء کے اضافے کے بغیر روایت کی ہے۔
دیکھئے میری کتاب تحقیقی مقالات (ج۱ص ۱۰۳)
یہی روایت امام بیہقی نے احمد بن ابراہیم عن ابن بکیر عن یونس بن یزید عن ابن شہاب عن نافع عن أبي ہریرۃ کی سند کے ساتھ درج ذیل الفاظ سے بیان کی ہے:((کیف أنتم إذا نزل ابن مریم من السماء فیکم و إما مکم منکم.))
تمھارا اس وقت کیا حال ہو گا جب ابن مریم آسمان سے اتریں گے اور تمھارا امام تم میں سے ہوگا۔ ( الاسماء والصفات ص ۵۳۵، دوسرا نسخہ ص ۴۲۴، تیسرا نسخہ ص ۳۰۱)
چونکہ صحیحین میں مدلسین کی روایات سماع پر محمول ہیں لہٰذا امام زہری کی یہ روایت صحیح ہے۔ اس حدیث کو علمائے حق نے مرزائیوں قادیانیوں کے خلاف بطورِ حجت پیش کیا ہے اور اس حدیث کا دفاع کیا ہے، مثلاً دیکھئے محمدیہ پاکٹ بک (ص ۵۸۹، ۵۹۰)
معلوم ہوا کہ مسئلہ عقیدے کا ہو یا اعمال و احکام کا، ثقہ راوی کی زیادت حجت ہے بشرطیکہ من کل الوجوہ ثقات یا اوثق کے خلاف نہ ہو لہٰذا عدمِ ذکر کو خلاف بنا دینا غلط ہے۔
مثال چہارم: ایک حدیث میں آیا ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے ساتھ (عشاء کی) نماز پڑھتے تھے پھر واپس جا کر اپنے قبیلے والوں کو (عشاء کی نماز پڑھاتے تھے۔ اسے عمرو بن دینار نے سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔
دیکھئے صحیح بخاری ( ۷۰۰) و صحیح مسلم(۴۶۵)
اسے عمرو بن دینار سے سفیان بن عیینہ ، شعبہ اور ایوب وغیرہم نے اس مفہوم کے ساتھ بیان کیا ہے۔ دیکھئے المسند الجامع (۳؍ ۴۶۸، ۴۶۹ح ۲۲۷۰)
جبکہ یہ حدیث امام ابن جریج نے درج ذیل الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے:
’’ ھي لہ تطوع و ھي لھم مکتوبۃ ‘‘ وہ (نماز) اُن (معاذ رضی اللہ عنہ) کے لئے نفل ہوتی تھی اور ان لوگوں کے لئے (جو ان کے پیچھے نماز پڑھتے تھے) فرض ہوتی تھی۔ دیکھئے کتاب الام للشافعی ( ص ۱۷۳ ج۱) شرح معانی الآثار (۱؍۴۰۹) سنن الدارقطنی (۱؍ ۲۷۴، ۲۷۵ح ۱۰۶۲، ۱۰۶۳) اور السنن الکبریٰ للبیہقی (۳؍ ۸۵)
اس روایت میں امام ابن جریج رحمہ اللہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔
دیکھئے سنن الدارقطنی (ح ۱۰۶۳، وسندہ صحیح)
اس زیادت والی روایت پر نیموی صاحب نے اپنے تقلیدی مذہب کو بچانے کے لئے ’’وفي ھذہ الزیادۃ کلام ‘‘ کہہ کر حملہ کر دیا ہے۔ دیکھئے آثار السنن (ص ۲۶۴ح ۵۲۴)
نیموی صاحب کا رد کرتے ہوئے مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ کلا بل ھذہ الزیادۃ صحیحۃ فإنھا زیادۃ من ثقۃ حافظ لیست منافیۃ لروایۃ من ھو أحفظ منہ أو أکثر عددًا کما ستقف علیہ ‘‘ ہر گز نہیں! بلکہ یہ زیادت صحیح ہے کیونکہ یہ ثقہ حافظ کی زیادت ہے، یہ زیادہ حافظ یا اکثر کے منافی نہیں ہے جیسا کہ آپ عنقریب واقف ہو جائیں گے۔ (ابکا رالمنن ص ۲۴۹، نیز دیکھئے ص ۲۵۰، )
معلوم ہوا کہ ابن جریج (ثقہ راوی) کے تفرد والی روایت ( جس میں اضافہ ہے) صحیح ہے اور مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ یہاں اور سینے پر ہاتھ باندھنے والے مسئلے میں ثقہ راوی کی زیادت کو صحیح سمجھتے تھے۔
تنبیہ بلیغ : نیموی صاحب نے اپنے مذہب کے مخالف بہت سی روایات پر کلام کیا ہے جن میں ثقہ و صدوق راویوں کی زیادات ہیں مگر ایک جگہ اپنی مرضی کی ایک روایت کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ و إسنادہ صحیح ‘‘ (آثار السنن ص ۳۳ح ۳۶)
التعلیق الحسن میں اس حدیث کے تحت نیموی صاحب نے محدث بزار سے نقل کیا کہ ہمارے علم کے مطابق اسے بشر بن بکر عن الأوزاعي عن یحي عن عمرۃ عن عائشة کی سند سے حمیدی کے سوا کسی نے بھی مسند (یعنی متصل)بیان نہیں کیا۔پھر نیموی صاحب نے جواب دیا: عبداللہ بن الزبیر الحمیدی ثقہ حافظ امام اور امام بخاری کے اساتذہ میں سے تھے لہٰذ ااُن کی یہ زیادت زبردست طور پر مقبول ہے کیونکہ یہ اوثق کی روایت کے منافی نہیں ہے۔ (آثار السنن ص ۳۳ تحت ح ۳۶)
معلوم ہوا کہ نیموی صاحب زیادتِ ثقہ کے مسئلے میں دوہری پالیسی پر گامزن تھے۔
مثال پنجم : ولید بن عیزار نے ابو عمرو الشیبانی سے ، انھوں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : کون سا عمل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا:
(( الصلٰوۃ علٰی وقتھا.)) نماز اپنے وقت پر پڑھنا۔ (صحیح بخاری : ۵۲۷، صحیح مسلم : ۸۵)
اسے ولید بن عیزار سے شعبہ ، مسعودی ، ابو اسحاق الشیبانی اور ابو یعفور نے اسی مفہوم کے ساتھ بیان کیا ہے۔ (المسند الجامع ۱۱؍ ۵۰۶، ۵۰۷)
مالک بن مغول (ثقہ) کی روایت میں درج ذیل الفاظ آئے ہیں:
(( الصلٰوۃ في أول وقتھا .)) اول وقت میں نماز پڑھنا ۔
(صحیح ابن خزیمہ : ۳۲۷، صحیح ابن حبان، الاحسان : ۱۴۷۷، دوسرا نسخہ : ۱۴۷۹، وقال: ’’ تفرد بہ عثمان بن عمر ‘‘ أي عن مالک بن مغول ، وح ۱۴۷۳/ ۱۴۷۵، المستدرک للحاکم ۱؍ ۱۸۸، وصححہ ووافقہ الذہبی)
اس روایت میں عثمان بن عمر نے مالک بن مغول سے تفرد کیا ہے جبکہ محمد بن سابق (صحیح بخاری : ۲۷۸۲) نے اسے مالک بن مغول سے مذکور ہ اضافے کے بغیر روایت کیا ہے۔
سنن دارقطنی وغیرہ میں اس کے کچھ ضعیف شواہد (تائید کرنے والی ضعیف روایات) بھی ہیں تاہم حق یہ ہے کہ عثمان بن عمر رحمہ اللہ (ثقہ) کی بذاتِ خود منفرد اور اول وقت کے اضافے والی روایت صحیح ہے۔ والحمد للہ
مثال ششم : ثقہ امام زائدہ بن قدامہ رحمہ اللہ نے عاصم بن کلیب عن أبیہ عن وائل بن حجر رضي اللّٰہ عنہ کی سند سے ایک حدیث بیان کی کہ ’’ فرأیتہ یحرکھا یدعو بھا ‘‘ پس میں نے آپ(ﷺ)کو دیکھا، آپ ( تشہد میں) اسے (شہادت کی انگلی کو) حرکت دے رہے تھے، اس کے ساتھ دعا کر رہے تھے۔
(سنن النسائی ۲؍ ۱۲۷ح ۸۹۰ وسندہ صحیح وصححہ ابن الجارود: ۲۰۸ وابن حبان ،ا لاحسان : ۱۸۵۷)
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ یہ حدیث بیان کر کے فرماتے ہیں: ’’ لیس في شئ من الأخبار ’’ یحرکھا ‘‘ إلا في ھذا الخبر ، زائدۃ ذکرہ ‘‘ اس حدیث کے علاوہ کسی حدیث میں یحرکھا کا لفظ نہیں ہے، اسے (صرف) زائدہ نے ذکر کیا ہے۔
(صحیح ابن خزیمہ ۱؍ ۳۵۴ح ۷۱۴)
روایتِ مذکورہ پر بعض معاصرین نے کلام کیا ہے لیکن معاصرین میں سے ہی شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ اور ابو اسحاق الحوینی وغیرہما نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
شیخ البانی کی تصحیح کے لئے دیکھئے ارواء الغلیل (۲؍ ۶۹ح ۳۵۲)
بلکہ شیخ البانی نے (شذوذ کی وجہ سے ؟!) اس حدیث کو ضعیف کہنے والوں کا زبردست رد کیا ہے۔ دیکھئے السلسلۃ الصحیحہ (۷؍ ۵۵۱ ح ۳۱۸۱)
تنبیہ نمبر ۱: شیخ البانی رحمہ اللہ نے اپنی تائید میں صحیح اور ضعیف جتنی روایات پیش کی ہیں اُن میں سے زائدہ کی روایت کے علاوہ کسی ایک میں بھی ’’ یحرکھا ‘‘ کا لفظ نہیں ہے۔
تنبیہ نمبر ۲: ہمارے شیخ مولانا حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ نے بھی شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کو بطورِ حجت پیش کر کے اس سے استدلال کیا ہے۔
دیکھئے احکام و مسائل (ج۱ص۱۹۶، ۱۹۷)
یہ اس کی دلیل ہے کہ حافظ صاحب بھی ثقہ کی زیادت کو صحیح سمجھتے ہیں۔واللہ اعلم
مثال ہفتم : ہشام بن عروۃ عن أبیہ عن عائشة رضي اللّٰہ عنہا کی سند سے ایک روایت میں آیا ہے کہ ’’ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے یہاں آئے تو نبی کریم ﷺ بھی وہیں تشریف رکھتے تھے عید الفطر یا عید الاضحی کا دن تھا، دو لڑکیاں یوم بعاث کے بارے میں وہ اشعار پڑھ رہی تھیں جو انصار کے شعراء نے اپنے فخر میں کہے تھے.... ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ شیطانی گانے باجے!(...ﷺ کے گھر میں) دو مرتبہ انھوں نے یہ جملہ دہرایا، لیکن آپ نے فرمایا: ابو بکر ! انھیں چھوڑ دو۔ ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور ہماری عید آج کا یہ دن ہے۔ ‘‘
(صحیح بخاری مطبوعہ مکتبہ قدوسیہ لاہور ج۵ ص ۳۰۶ ح ۳۹۳۱)
اس حدیث کو ہشام بن عروہ سے شعبہ ، حماد بن سلمہ اور ابو معاویہ الضریر نے بیان کیا ہے ۔ (المسند الجامع ۲۰؍ ۱۷۵ ح ۱۶۹۹۶)
یہ ان احادیث میں سے ایک ہے جن سے غامدی گروپ موسیقی کے جواز پر استدلال کرتا ہے ۔ مثلاً دیکھئے مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی کتاب ’’ اسلام اور موسیقی‘‘ (ص ۱۶، ۱۷)
اس حدیث کو جب امام ابو اسامہ حماد بن اسامہ رحمہ اللہ نے ہشام بن عروہ سے اس سند و متن سے روایت کیا تو حدیث میں درج ذیل اضافہ بھی بیان کیا۔
’’ ولیستا بمغنیتین ‘‘ وہ دونوں ( بچیاں) مغنیہ نہ تھیں۔
(صحیح بخاری : ۹۵۲ ، صحیح مسلم : ۸۹۲، دارالسلام : ۲۰۶۱)
یہ اضافہ اگرچہ دوسرے راوی نہیں بیان کرتے مگر ثقہ کی زیادت مقبول ہونے کے اصول سے یہ اضافہ صحیح ہے اور اس حدیث سے غامدی گروپ کا استدلال باطل ہے۔
مثال ہشتم : ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے ( سیدنا) ابو بکر (الصدیق رضی اللہ عنہ) سے فرمایا: میں تمھارے پاس سے گزرا اور تم آہستہ آواز میں قراء ت کر رہے تھے؟ انھوں نے کہا : میں اسے ( اللہ کو ) سناتا تھا جس سے میں سر گوشی کرتا تھا۔ آپ نے فرمایا: آواز تھوڑی بلند کیا کرو۔
آپ(ﷺ) نے ( سیدنا) عمر (رضی اللہ عنہ) سے کہا: میں تمھارے پاس سے گزرا اور تم اونچی آواز سے قراء ت کر رہے تھے؟ انھوں نے جواب دیا : میں سوئے ہوؤں کو جگاتا اور شیطان کو بھگاتا تھا۔ آپ نے فرمایا: اپنی آواز ذرا کم کیا کرو۔ ( سنن الترمذی : ۴۴۷ وقال : غریب الخ)
امام ترمذی نے فرمایا: اس حدیث کو صرف یحییٰ بن اسحاق( السیلحینی) نے عن حماد ابن سلمة(عن ثابت البناني عن عبداللّٰہ بن رباح الأنصاري عن أبي قتادۃ رضي اللّٰہ عنہ)کی سند سے بیان کیا ہے اور اکثر لوگ اس حدیث کو ثابت عن عبداللّٰہ ابن رباح (رحمہ اللّٰہ عن النبي ﷺ) مرسلاً بیان کرتے ہیں۔
( جامع ترمذی بتحقیق مختصر للشیخ الالبانی ص ۱۲۰)
معلوم ہوا کہ اس حدیث میں یحییٰ بن اسحاق ثقہ راوی کا تفرد ہے۔ ثقہ راوی کے تفرد والی اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (۲؍ ۱۸۹، ۱۹۰ ح ۱۱۶۱) حافظ ابن حبان (الاحسان ۳؍ ۷ ح ۷۳۰، دوسرا نسخہ : ۷۳۳) حاکم (المستدرک ۱؍ ۳۱۰) اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے جو اس کی دلیل ہے کہ ان تمام محدثین کے نزدیک ثقہ کی زیادت صحیح و معتبر ہوتی ہے۔ والحمد للہ
تنبیہ نمبر ۱: حدیثِ مذکور کو شیخ البانی رحمہ اللہ وغیرہ معاصرین نے بھی صحیح قرار دیا ہے ۔
تنبیہ نمبر ۲:نیز دیکھئے سنن ابی داود (۱۳۲۹)
مثال نہم : سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب جنت والے جنت میں داخل ہوں گے تو اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا: کیا تم کوئی مزید چیز چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے : کیا تونے ہمارے چہرے سفید ( روشن) نہیں کر دیئے؟ کیا تو نے ہمیں آگ سے نجات دے کر جنت میں داخل نہیں کر دیا ؟ پھر اللہ پر دہ ہٹائے گا تو وہ اپنے رب کی طرف دیکھنے سے زیادہ پیاری کوئی چیز نہیں دیئے جائیں گے۔
(صحیح مسلم : ۱۸۱، دارالسلام : ۴۴۹)
اسے حماد بن سلمہ نے ثابت البنانی عن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ عن صہیب کی سند سے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: اس حدیث کو سلیمان بن المغیرہ نے ثابت سے انھوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کے قول سے روایت کیا ہے اور صہیب عن النبی ﷺ کا اضافہ بیان نہیں کیا ۔ (سنن الترمذی : ۳۱۰۵)
امام ترمذی نے مزید فرمایا: اس حدیث کو صرف حماد بن سلمہ نے (متصل) سند کے ساتھ اور مرفوع بیان کیا ہے اور سلیمان بن مغیرہ (اور حماد بن زید) نے اس حدیث کو ثابت البنانی عن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کے قول سے روایت کیا ہے۔ (ح ۲۵۵۲)
* سلیمان بن المغیرہ کی روایت کے لئے دیکھئے تفسیر طبری (۱۱؍ ۷۴)الزہد لابن المبارک (زوائد نعیم بن حماد الصدوق المظلوم : ۲۸۲ و سندہ صحیح)
* حماد بن زید کی روایت کے لئے دیکھئے تفسیر طبری (۱۱؍ ۷۵ ، وسندہ صحیح)
* معمر بن راشد کی روایت کے لئے دیکھئے تفسیر طبری (۱۱؍ ۷۵ وسندہ صحیح)
یہ بات مسلّم ہے کہ حماد بن سلمہ اثبت الناس عن ثابت ہیں لیکن اسی روایت کو مرفوع متصل بیان نہ کرنے والے تینوں امام زبردست ثقہ ہیں اور جماعت ہونے کی بنا پرحماد سے زیادہ قوی ہیں۔
ہمارے نزدیک ثقہ کی زیادت معتبر ہونے کی وجہ سے صحیح مسلم والی روایت بالکل صحیح ہے اور تین ثقہ اماموں کی عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے مقطوع روایت بھی صحیح ہے۔ والحمد للہ
مثال دہم : امام زہری کی بیان کردہ عن عروۃ بن الزبیر عن بشیر بن أبي مسعود الأنصاري عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہ کی سند سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ جبریل علیہ السّلام نے نبی ﷺ کو پانچ نمازیں پڑھائی تھیں۔
دیکھئے صحیح بخاری (۵۲۱) وصحیح مسلم (۶۱۰) وغیرہما ۔
اسے امام زہری سے ایک جماعت مثلاً امام مالک، سفیان بن عیینہ ، لیث بن سعد اور شعیب بن ابی حمزہ وغیرہم نے روایت کیا ہے۔ امام زہری سے اسامہ بن زید اللیثی (صدوق حسن الحدیث و ثقہ الجمہور) کی روایت میں درج ذیل اضافہ ہے:
’’ ثم کانت صلا تہ بعد ذلک التغلیس حتی مات ولم یعد إلٰی أن یسفر ‘‘
پھر اس کے بعد آپ(ﷺ) کی (فجر کی) نماز و فات تک اندھیرے میں تھی اور آپ نے دوبارہ کبھی روشنی کر کے (یہ نماز) نہیں پڑھی ۔ ( سنن ابی داود : ۳۹۴، مطبوعہ دارالسلام ۱؍۳۴۱)
امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں: ’’ ھذہ الزیادۃ لم یقلھا أحد غیر أسامۃ بن زید ‘‘
اس زیادت (اضافے) کو اسامہ بن زید کے سوا کسی نے بھی روایت نہیں کیا۔
(صحیح ابن خزیمہ ۱؍ ۱۸۱ ح ۳۵۲)
صدوق راوی کے اس تفرد والی روایت کو امام ابن خزیمہ ، حافظ ابن حبان (الاحسان : ۱۴۴۶) اور حاکم (۱؍ ۱۹۲، ۱۹۳ ح ۶۹۲) نے صحیح قرار دیا ہے جو اس کی دلیل ہے کہ ان محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق راوی کی زیادت صحیح و حسن ہوتی ہے۔
تنبیہ نمبر ۱: چونکہ امام زہری کی اصل حدیث صحیحین میں ہے اور السنن الکبریٰ للبیہقی (۱؍۴۴۱) میں انھوں نے اصل حدیث میں عروہ سے سماع کی تصریح کر دی ہے لہٰذا یہ روایت حسن ہے۔
تنبیہ نمبر ۲: المستدرک للحاکم (۱؍ ۱۹۰ح ۶۸۲) میں اس حدیث کا ایک حسن لذاتہ شاہد بھی ہے لہٰذا اسامہ بن زید کی حدیث صحیح ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب انوار السنن فی تحقیق آثار السنن (مخطوط ص ۴۳ح ۲۱۳) والحمدللہ
تنبیہ نمبر ۳: جس طرح ایک شخص نے صحیح مسلم کی ایک حدیث کو شاذ (یعنی ضعیف) قرار دیا ، اُسی طرح نیموی تقلیدی صاحب نے اسامہ بن زید اللیثی کی حدیث کو ’’ والزیادۃ غیر محفوظۃ ‘‘ کہہ کر ضعیف قرار دیاہے۔ دیکھئے آثار السنن (ص ۹۷ح ۲۱۳)
اللہ تعالیٰ نے نیموی پر مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کو مسلط کر دیا۔
مولانا مبارکپوری نے نیموی کے اعتراضات کے جوابات دے کر اسامہ بن زید کی توثیق ثابت کی اور فرمایا:
’’ فإن زیادۃ الثقۃ إنما تکون شاذۃ إذا کانت منافیۃ لروایۃ غیرہ من الثقات و أما إذا لم تکن منافیۃ فھي مقبولۃ وھو مذہب المحققین وسیأتي تحقیقہ في باب وضع الیدین علٰی الصدر وزیادۃ أسامۃ بن زید في ھذا الحدیث لا ینافي لروایۃ غیرہ فھذہ الزیادۃ مقبولۃ بلامریۃ ‘‘
کیونکہ ثقہ کی زیادت تو اس وقت شاذ ہوتی ہے جب وہ دوسرے ثقہ راویوں کے منافی ہو اور اگر منافی نہ ہوتو وہ مقبول ہوتی ہے اور یہی محققین کا مذہب ہے، اس کی تحقیق سینے پر ہاتھ باندھنے والے باب میں آئے گی اور اس حدیث میں اسامہ بن زید کی زیادتی (اضافہ) دوسرے راویوں کے منافی نہیں ہے پس یہ زیادت بغیر کسی شک کے مقبول ہے۔
(ابکار المنن فی تنقید آثار السنن ص ۸۰)
ہم جب کسی راوی کو ثقہ و صدوق حسن الحدیث یا حدیث کو صحیح و حسن لذاتہ قرار دیتے ہیں تو اصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے ، تناقض و تعارض سے ہمیشہ بچتے ہوئے، غیر جانبداری سے اور صرف اللہ تعالیٰ کوراضی کرنے کے لئے راوی کو ثقہ و صدوق حسن الحدیث اور حدیث کو صحیح و حسن قرار دیتے ہیں۔ ایک دن مرکر اللہ کے دربار میں ضرور بالضرور اور یقیناًپیش ہونا ہے۔ یہ نہیں کہ اپنی مرضی کی روایت کو صحیح وثابت کہہ دیں اور دوسری جگہ اسی کو ضعیف کہتے پھریں۔ یہ کام تو آلِ تقلید کا ہے!
اگر کوئی شخص میری کسی تحقیق یا عبارت میں سے تضاد و تعارض ثابت کر دے تو اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ علانیہ رجوع کروں گا، توبہ کروں گا اور جو بات حق ہے برملا اس کا اعلان کروں گا۔ لوگ ناراض ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں، بس اگر اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے تو اسی میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔ اے اللہ ! میری ساری خطائیں معاف کر دے۔ آمین
صحیح بخاری وصحیح مسلم اور مسلکِ حق : مسلکِ اہلِ حدیث کے لئے میری جان بھی حاضر ہے۔ یہ باتیں جذباتی نہیں بلکہ میرے ایمان کا مسئلہ ہے۔
قارئین کرام! ان دس مثالوں سے یہ ثابت کر دیا گیا ہے کہ ثقہ راوی کی زیادت اگر (من کل الوجوہ) منافی نہ ہو(جس میں تطبیق و توفیق ممکن ہی نہیں ہوتی) تو پھر عدمِ منافات والی یہ زیادت مقبول و حجت ہے۔ والحمد للہ
زیادتِ ثقہ کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ مثلاً :
عبد الرحمن بن عبد اللہ بن دینار نے ’’ رباط یوم في سبیل اللّٰہ ... ‘‘ والی ایک حدیث بیان کی ۔ (صحیح بخاری : ۲۸۹۲)
اس کے بارے میں ابن عساکر نے فرمایا: ’’ تفرد بذکر الرباط فیہ ابن دینار‘‘
(الاربعون فی الحث علی الجہاد : ۲۳ ، فضائل جہاد مترجم ص ۱۱۸)
جاری ہے۔۔۔۔۔