حدیث نمبر: 3761 بخاری --- ہم سے موسیٰ نے بیان کیا ، ان سے ابوعوانہ نے ، ان سے مغیرہ نے ، ان سے ابراہیم نے ، ان سے علقمہ نے کہ میں شام پہنچا تو سب سے پہلے میں نے دو رکعت نماز پڑھی اور یہ دعا کی کہ اے اللہ ! مجھے کسی (نیک) ساتھی کی صحبت سے فیض یابی کی توفیق عطا فرما ۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ ایک بزرگ آ رہے ہیں ، جب وہ قریب آ گئے تو میں نے سوچا کہ شاید میری دعا قبول ہو گئی ہے ۔ انہوں نے دریافت فرمایا : آپ کا وطن کہاں ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میں کوفہ کا رہنے والا ہوں ، اس پر انہوں نے فرمایا : کیا تمہارے یہاں « صاحب النعلين والوساد والمطہرۃ » (عبداللہ بن مسعود ؓ ) نہیں ہیں ؟ کیا تمہارے یہاں وہ صحابی نہیں ہیں جنہیں شیطان سے (اللہ کی) پناہ مل چکی ہے ۔ (یعنی عمار بن یاسر ؓ ) کیا تمہارے یہاں سربستہ رازوں کے جاننے والے نہیں ہیں کہ جنہیں ان کے سوا اور کوئی نہیں جانتا (پھر دریافت فرمایا) ابن ام عبد (عبداللہ بن مسعود ؓ ) آیت « والليل » کی قرآت کس طرح کرتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ « والليل إذا يغشى * والنہار إذا تجلى * والذكر والأنثى » آپ نے فرمایا کہ مجھے بھی رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی زبان مبارک سے اسی طرح سکھایا تھا ۔ لیکن اب شام والے مجھے اس طرح قرآت کرنے سے ہٹانا چاہتے ہیں ۔
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حذیفہ بن الیمان عثمان رضی الله عنہما کے پاس آئے، ان دنوں آپ شام والوں کے ساتھ آرمینیہ کی فتح میں اور عراق والوں کے ساتھ آذر بائیجان کی فتح میں مشغول تھے، حذیفہ رضی الله عنہ نے قرآن کی قرأت میں لوگوں کا اختلاف دیکھ کر عثمان بن عفان رضی الله عنہ سے کہا: امیر المؤمنین! اس امت کو سنبھالئے اس سے پہلے کہ یہ کتاب (قرآن مجید) کے معاملے میں اختلاف کا شکار ہو جائے (اور آپس میں لڑنے لگے) جیسا کہ یہود و نصاریٰ اپنی کتابوں (تورات و انجیل اور زبور) کے بارے میں مختلف ہو گئے۔ تو عثمان رضی الله عنہ نے حفصہ رضی الله عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ (ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے تیار کرائے ہوئے)صحیفے ہمارے پاس بھیج دیں ہم انہیں مصاحف میں لکھا کر آپ کے پاس واپس بھیج دیں گے، چنانچہ ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا نے عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے پاس یہ صحیفے بھیج دیے۔ پھر عثمان نے زید بن ثابت اور سعید بن العاص اور عبدالرحمٰن بن الحارث بن ہشام اور عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہم کے پاس ان صحیفوں کو اس حکم کے ساتھ بھیجا کہ یہ لوگ ان کو مصاحف میں نقل کر دیں۔ اور تینوں قریشی صحابہ سے کہا کہ جب تم میں اور زید بن ثابت رضی الله عنہ میں اختلاف ہو جائے تو قریش کی زبان (و لہجہ) میں لکھو کیونکہ قرآن انہیں کی زبان میں نازل ہوا ہے، یہاں تک کہ جب انہوں نے صحیفے مصحف میں نقل کر لیے تو عثمان نے ان تیار مصاحف کو (مملکت اسلامیہ کے حدود اربعہ میں)ہر جانب ایک ایک مصحف بھیج دیا۔ زہری کہتے ہیں مجھ سے خارجہ بن زید نے بیان کیا کہ زید بن ثابت نے کہا کہ میں سورۃ الاحزاب کی ایک آیت جسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے ہوئے سنتا تھا اور مجھے یاد نہیں رہ گئی تھی اور وہ آیت یہ ہے «من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر» ۱؎تو میں نے اسے ڈھونڈا، بہت تلاش کے بعد میں اسے خزیمہ بن ثابت کے پاس پایا ۲؎خزیمہ بن ثابت رضی الله عنہ کہا یا ابوخزیمہ کہا۔ (راوی کو شک ہو گیا) تو میں نے اسے اس کی سورۃ میں شامل کر دیا۔ زہری کہتے ہیں: لوگ اس وقت (لفظ) «تابوهاور» تابوت میں مختلف ہو گئے، قریشیوں نے کہا «التابوت» اور زید نے «التابوه» کہا۔ ان کا اختلاف عثمان رضی الله عنہ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا: «التابوت»لکھو کیونکہ یہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ زہری کہتے ہیں: مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بتایا ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے زید بن ثابت رضی الله عنہما کے مصاحف لکھنے کو ناپسند کیا اور کہا: اے گروہ مسلمانان! میں مصاحف کے لکھنے سے روک دیا گیا، اور اس کام کا والی و کارگزار وہ شخص ہو گیا جو قسم اللہ کی جس وقت میں ایمان لایا وہ شخص ایک کافر شخص کی پیٹھ میں تھا (یعنی پیدا نہ ہوا تھا)یہ کہہ کر انہوں نے زید بن ثابت کو مراد لیا ۳؎اور اسی وجہ سے عبداللہ بن مسعود نے کہا: عراق والو! جو مصاحف تمہارے پاس ہیں انہیں چھپا لو، اور سنبھال کر رکھو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو کوئی چیز چھپا رکھے گا قیامت کے دن اسے لے کر حاضر ہو گا تو تم قیامت میں اپنے مصاحف ساتھ میں لے کر اللہ سے ملاقات کرنا ۴؎زہری کہتے ہیں: مجھے یہ اطلاع و خبر بھی ملی کہ کبار صحابہ نے ابن مسعود رضی الله عنہ کی یہ بات ناپسند فرمائی ہے۔
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حذیفہ بن الیمان عثمان رضی الله عنہما کے پاس آئے، ان دنوں آپ شام والوں کے ساتھ آرمینیہ کی فتح میں اور عراق والوں کے ساتھ آذر بائیجان کی فتح میں مشغول تھے، حذیفہ رضی الله عنہ نے قرآن کی قرأت میں لوگوں کا اختلاف دیکھ کر عثمان بن عفان رضی الله عنہ سے کہا: امیر المؤمنین! اس امت کو سنبھالئے اس سے پہلے کہ یہ کتاب (قرآن مجید) کے معاملے میں اختلاف کا شکار ہو جائے (اور آپس میں لڑنے لگے) جیسا کہ یہود و نصاریٰ اپنی کتابوں (تورات و انجیل اور زبور) کے بارے میں مختلف ہو گئے۔ تو عثمان رضی الله عنہ نے حفصہ رضی الله عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ (ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے تیار کرائے ہوئے)صحیفے ہمارے پاس بھیج دیں ہم انہیں مصاحف میں لکھا کر آپ کے پاس واپس بھیج دیں گے، چنانچہ ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا نے عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے پاس یہ صحیفے بھیج دیے۔ پھر عثمان نے زید بن ثابت اور سعید بن العاص اور عبدالرحمٰن بن الحارث بن ہشام اور عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہم کے پاس ان صحیفوں کو اس حکم کے ساتھ بھیجا کہ یہ لوگ ان کو مصاحف میں نقل کر دیں۔ اور تینوں قریشی صحابہ سے کہا کہ جب تم میں اور زید بن ثابت رضی الله عنہ میں اختلاف ہو جائے تو قریش کی زبان (و لہجہ) میں لکھو کیونکہ قرآن انہیں کی زبان میں نازل ہوا ہے، یہاں تک کہ جب انہوں نے صحیفے مصحف میں نقل کر لیے تو عثمان نے ان تیار مصاحف کو (مملکت اسلامیہ کے حدود اربعہ میں)ہر جانب ایک ایک مصحف بھیج دیا۔ زہری کہتے ہیں مجھ سے خارجہ بن زید نے بیان کیا کہ زید بن ثابت نے کہا کہ میں سورۃ الاحزاب کی ایک آیت جسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے ہوئے سنتا تھا اور مجھے یاد نہیں رہ گئی تھی اور وہ آیت یہ ہے «من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر» ۱؎تو میں نے اسے ڈھونڈا، بہت تلاش کے بعد میں اسے خزیمہ بن ثابت کے پاس پایا ۲؎خزیمہ بن ثابت رضی الله عنہ کہا یا ابوخزیمہ کہا۔ (راوی کو شک ہو گیا) تو میں نے اسے اس کی سورۃ میں شامل کر دیا۔ زہری کہتے ہیں: لوگ اس وقت (لفظ) «تابوهاور» تابوت میں مختلف ہو گئے، قریشیوں نے کہا «التابوت» اور زید نے «التابوه» کہا۔ ان کا اختلاف عثمان رضی الله عنہ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا: «التابوت»لکھو کیونکہ یہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ زہری کہتے ہیں: مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بتایا ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے زید بن ثابت رضی الله عنہما کے مصاحف لکھنے کو ناپسند کیا اور کہا: اے گروہ مسلمانان! میں مصاحف کے لکھنے سے روک دیا گیا، اور اس کام کا والی و کارگزار وہ شخص ہو گیا جو قسم اللہ کی جس وقت میں ایمان لایا وہ شخص ایک کافر شخص کی پیٹھ میں تھا (یعنی پیدا نہ ہوا تھا)یہ کہہ کر انہوں نے زید بن ثابت کو مراد لیا ۳؎اور اسی وجہ سے عبداللہ بن مسعود نے کہا: عراق والو! جو مصاحف تمہارے پاس ہیں انہیں چھپا لو، اور سنبھال کر رکھو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو کوئی چیز چھپا رکھے گا قیامت کے دن اسے لے کر حاضر ہو گا تو تم قیامت میں اپنے مصاحف ساتھ میں لے کر اللہ سے ملاقات کرنا ۴؎زہری کہتے ہیں: مجھے یہ اطلاع و خبر بھی ملی کہ کبار صحابہ نے ابن مسعود رضی الله عنہ کی یہ بات ناپسند فرمائی ہے۔