السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم میں تو نہ تحریف قران کا قائل ہوں نہ ہی میں بطور دلیل یہ حدیث پیش کی ہے ۔ میں تھریڈ کے عنوان میں بھی یہی لکھا تھا کہ ایک شیعہ دعوٰی (تیجانی سماوی) نے اپنی کتاب میں اس حدیث کو قران میں تحریف کے باب میں رقم کیا ہے ۔ اور اس کا اپنا بھی یہی کہنا ہے کہ شعیہ سنی دونوں کی کتابوں میں ایسی احادیث موجود ہیں جن میں تحریف کا ذکر ہے لیکن دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ قران ہر تحریف سے پاک ہے۔ یہ اس کا الزامی جواب تھا۔ آپ نے یقینا اس کی کتب پڑھی ہوں گی ۔ اگر آپ چاہیں گے تو میں اس کی پی ڈی ایف کاپی آپ کو بھیج دیتا ہوں آپ خود ملاحضہ کر لیں۔ میرا یہ پوسٹ کر نے کا مقصد صرف یہی تھا کہ اس دعوٰی کی حقیقت معلوم ہوسکے۔
ملون الفاظ میں دو جھوٹ ہیں اس کی تصحیح کرلیں:
01۔ سنی کتب میں کوئی ایک بھی صحیح حدیث نہیں جو تحریف قرآن کے اثبات میں ہو!
02۔ شیعہ کا تحریف قرآن کا عقیدہ ہے!
دوم کہ میں نے ملا باقر مجلسی کے قول سے شیعہ کا تحریف قرآن کا عقیدہ پیش کیا تھا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ شیعہ کا تحریف قرآن کا عقیدہ نہیں نرا جھوٹ ہے۔
ایک بار پھر ملاحظہ فرمائیں:
مرآة العقول »» ملا باقر المجلسي (1111 ھ)
(الحديث الثامن و العشرون)
موثق. و في بعض النسخ عن هشام بن سالم موضع هارون بن مسلم، فالخبر صحيح و لا يخفى أن هذا الخبر و كثير من الأخبار الصحيحة صريحة في نقص القرآن و تغييره، و عندي أن الأخبار في هذا الباب متواترة معنى، و طرح جميعها يوجب رفع الاعتماد عن الأخبار رأسا بل ظني أن الأخبار في هذا الباب لا يقصر عن أخبار الإمامة فكيف يثبتونها بالخبر.
قابل اعتماد ہے اصول کافی کے بعض نسخوں میں ہشام بن سالم کی جگہ ہارون بن مسلم کا نام ہے۔ پس یہ حدیث صحیح ہے اور بات واضح رہے کہ بلا شبہ یہ حدیث اور بہت سی دوسری احادیث جو صراحتا قرآن میں کمی اور تبدیلی پر دلالت کرتی ہیں میرے نزدیک یہ تحریف کے باب میں معنا متواتر ہیں ۔ اور ان سب کا انکار کرنے سے ذخیرہ احادیث سے اعتماد ختم ہوگا۔ بلا شبہ اس باب (یعنی تحریف القرآن) کی روایات امامت کی روایات سے کم نہیں ہیں (ان روایات تحریف القرآن کا انکار کردیا جائے ) تو عقیدہ امامت حدیث سے کس طرح ثابت ہوگا۔
فإن قيل: إنه يوجب رفع الاعتماد على القرآن لأنه إذا ثبت تحريفه ففي كل آية يحتمل ذلك و تجويزهم عليهم السلام على قراءة هذا القرآن و العمل به متواتر معلوم إذ لم ينقل من أحد من الأصحاب أن أحدا من أئمتنا أعطاه قرانا أو علمه قراءة، و هذا ظاهر لمن تتبع الأخبار،
اگر یہ کہا جائے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ قرآن سے اعتماد ختم ہو جائے، کیونکہ جب قرآن میں تحریف ثابت ہے تو اس کی ہر ہر آیت میں تحریف کا احتمال ہے، اور ائمہ علیہ السلام نے اس قرآن کی قراءت کو تجويز کیا ہے، اور اسی قرآن پر متواتر عمل ہے معلوم ہے، ہمارے کسی ایک امام کے بھی کسی بھی صاحب نے یہ نقل نہیں کیا کہ انہیں امام نے قران دیا ہو ، یا قراءت سکھلائی ہو، اور ہم اسی ظاہر اخبار کی اتباع کرتے ہیں۔
مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول - العلامة محمد باقر المجلسي –مجلد 12 صفحه525
http://gadir.free.fr/Ar/Ehlibeyt/kutub2/Mirat_ul_Ukul/012.htm
یہ تو ایک ہے، قمی و کلینی سے لے کر مقبول وخمینی تک کا تحریف القرآن کا عقیدہ ہے، جس کے ثبوت پیش کئے جا سکتے ہیں۔
سوم آپ نے میرے سوال کا جواب اب بھی نہیں دیا:
جو روایت آپ نے پہلی صحیح بخاری سے پیش کی ہے اس میں آپ کو کہاں تحریف کا شائبہ ہو رہاہے؟