• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ بھی انکار حدیث ہے؟؟؟؟

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
صحیح بخاری
کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ

باب: احکام شرع میں جھگڑا کرنے کی کراہت کا بیان
حدیث نمبر : 7366
حدثنا إبراهيم بن موسى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا هشام،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن معمر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الزهري،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عبيد الله بن عبد الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن عباس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال لما حضر النبي صلى الله عليه وسلم ـ قال وفي البيت رجال فيهم عمر بن الخطاب ـ قال ‏"‏ هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده ‏"‏‏.‏ قال عمر إن النبي صلى الله عليه وسلم غلبه الوجع وعندكم القرآن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فحسبنا كتاب الله‏.‏ واختلف أهل البيت واختصموا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول الله صلى الله عليه وسلم كتابا لن تضلوا بعده‏.‏ ومنهم من يقول ما قال عمر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما أكثروا اللغط والاختلاف عند النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ قوموا عني ‏"‏‏.‏ قال عبيد الله فكان ابن عباس يقول إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين أن يكتب لهم ذلك الكتاب من اختلافهم ولغطهم‏.‏

ترجمہ: داؤد راز
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو ہشام نے خبر دی ‘ انہیں معمر نے ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو گھر میں بہت سے صحابہ موجود تھے، جن میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے اس وقت آپ نے فرمایا کہ آؤ میں تمہارے لیے ایک ایسا مکتوب لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس وقت آپ نے فرمایا کہ آؤ میں تمہارے لیے ایک ایسا مکتوب لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں مبتلا ہیں ‘ تمہارے پاس اللہ کی کتاب ہے اور یہی ہمارے لیے کافی ہے۔ گھر کے لوگوں میں بھی اختلاف ہو گیا اور آپس میں بحث کرنے لگے۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب (لکھنے کا سامان) کر دو۔ وہ تمہارے لیے ایسی چیز لکھ دیں گے کہ اس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے اور بعض نہ وہی بات کہی جو عمر رضی اللہ عنہ کہہ چکے تھے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ اختلاف وبحث زیادہ کرنے لگے تو آپ نے فرمایا کہ میرے پاس سے ہٹ جاؤ۔ عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ سب سے بھاری مصیبت تو وہ تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اس نوشت لکھوانے کے درمیان حائل ہوئے ‘ یعنی جھگڑا اور شور۔ (والخیر فیما وقع)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح بخاری
کتاب المرضیٰ
باب: مریض لوگوں سے کہے میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ
حدیث نمبر : 5669
حدثنا إبراهيم بن موسى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا هشام،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن معمر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وحدثني عبد الله بن محمد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا عبد الرزاق،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا معمر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الزهري،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عبيد الله بن عبد الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال لما حضر رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي البيت رجال فيهم عمر بن الخطاب قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هلم أكتب لكم كتابا لا تضلوا بعده ‏"‏‏.‏ فقال عمر إن النبي صلى الله عليه وسلم قد غلب عليه الوجع وعندكم القرآن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حسبنا كتاب الله فاختلف أهل البيت فاختصموا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ منهم من يقول قربوا يكتب لكم النبي صلى الله عليه وسلم كتابا لن تضلوا بعده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ومنهم من يقول ما قال عمر فلما أكثروا اللغو والاختلاف عند النبي صلى الله عليه وسلم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ قوموا ‏"‏‏.‏ قال عبيد الله فكان ابن عباس يقول إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين أن يكتب لهم ذلك الكتاب من اختلافهم ولغطهم‏.‏

ترجمہ : داؤد راز
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ، ان سے معمر نے (دوسری سند) اور مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ، انہیں زہری نے ، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو گھر میں کئی صحابہ موجود تھے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی وہیں موجود تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لاؤ میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں تاکہ اس کے بعد تم غلط راہ پر نہ چلو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سخت تکلیف میں ہیں اور تمہارے پاس قرآن مجید تو موجود ہے ہی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ اس مسئلہ پر گھر میں موجود صحابہ کا اختلاف ہو گیا اور بحث کرنے لگے۔ بعض صحابہ کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو (لکھنے کی چیزیں) دے دو تاکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسی تحریر لکھ دیں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو سکو اور بعض صحابہ وہ کہتے تھے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اختلاف اور بحث بڑھ گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں سے چلے جاؤ۔ حضرت عبیداللہ نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ سب سے زیادہ افسوس یہی ہے کہ ان کے اختلاف اور بحث کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تحریر نہیں لکھی جو آپ مسلمانوں کے لیے لکھنا چاہتے تھے۔

ان صحیح احادیث میں بیان ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم خود حدیث لکھنے کے لئے لکھنے کا سامان مانگا لیکن یہ کہہ کر انکرکیا گیا کہ" تمہارے پاس قرآن مجید تو موجود ہے ہی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے"
اب جب اسقدر مستند حدیث کہ جس میں راویوں کے ثقہ و ضیف کا کوئی جھگڑا نہ تھا بلکہ جس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اپنے دست اقدس سے لکھ کر دےرہے ہیں جب اس حدیث کو قبول نہیں کیا جارہا تو پھر راویوں کے جھگڑے والی حدیث کو آج جو لوگ نہیں مانتے انپرانکار حدیث کا لیبل لگادیا جاتا ہے لیکن جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی اپنے دست اقدس سے لکھی جانے والی حدیث کا انکار کررہے ہیں کیا ان کو بھی منکر حدیث کہا جاسکتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
آپ کے دئے گئے لنک پر میرے سوال کا جواب نہیں
میرا سوال یہ ہے کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس سے لکھی ہوئی حدیث قبول نہیں کررہے کیا ایسے لوگوں کو منکر حدیث کہا جاسکتا ہے ؟؟؟؟؟
آپ کو یہ بات کہاں سے معلوم ہوئی؟
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
ان صحیح احادیث میں بیان ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم خود حدیث لکھنے کے لئے لکھنے کا سامان مانگا لیکن یہ کہہ کر انکرکیا گیا کہ" تمہارے پاس قرآن مجید تو موجود ہے ہی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے"
اب جب اسقدر مستند حدیث کہ جس میں راویوں کے ثقہ و ضیف کا کوئی جھگڑا نہ تھا بلکہ جس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اپنے دست اقدس سے لکھ کر دےرہے ہیں جب اس حدیث کو قبول نہیں کیا جارہا تو پھر راویوں کے جھگڑے والی حدیث کو آج جو لوگ نہیں مانتے انپرانکار حدیث کا لیبل لگادیا جاتا ہے لیکن جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی اپنے دست اقدس سے لکھی جانے والی حدیث کا انکار کررہے ہیں کیا ان کو بھی منکر حدیث کہا جاسکتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟
حدیث ہی میں وجہ موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوگی، ان کے آرام کے خیال سے یہ بات کہی گئی تھی۔ جسے آپ بالکل مختلف تناظر میں پیش کر رہے ہیں۔
آپ جن منکرین حدیث کی وکالت کے لئے اترے ہیں، ان کی مثال اس حدیث والے واقعے سے دینا بالکل غلط ہے۔ ان کی مثال تو یہ ہے کہ
آج اگر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہو کر تشریف لے آئیں، اور انہیں کسی کام کے کرنے کا حکم دیں یا کسی شے سے منع کریں، تو یہ حضرات ان کے منہ پر کہہ دیں گے کہ یہ بات تو قرآن میں نہیں لکھی ہوئی، اور ہم پر تو فقط قرآن کی اطاعت واجب ہے۔

ایسے لوگوں کو ان متبعین سنت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک ادا پر جان قربان کر دینے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف و مشقت سے بچانے کی غرض سے، سرزد ہونے والے ایک فعل پر قیاس کرنا، قیاس مع الفارق کی بدترین قسم ہے۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
حدیث ہی میں وجہ موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوگی، ان کے آرام کے خیال سے یہ بات کہی گئی تھی۔ جسے آپ بالکل مختلف تناظر میں پیش کر رہے ہیں۔
ہ" تمہارے پاس قرآن مجید تو موجود ہے ہی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے"


آئیں دیکھتے ہیں کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام کے خاطر کہی گئی یا اس کی کوئی اور وجہ ہے امام بخاری سے معلوم کرتے ہیں

صحیح بخاری
کتاب المغازی
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا بیان
حدیث نمبر: 4431
حدثنا قتيبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سليمان الأحول،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سعيد بن جبير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال قال ابن عباس يوم الخميس وما يوم الخميس اشتد برسول الله صلى الله عليه وسلم وجعه فقال ‏"‏ ائتوني أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا ‏"‏‏.‏ فتنازعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا ينبغي عند نبي تنازع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقالوا ما شأنه أهجر استفهموه فذهبوا يردون عليه‏.‏ فقال ‏"‏ دعوني فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه ‏"‏‏.‏ وأوصاهم بثلاث قال ‏"‏ أخرجوا المشركين من جزيرة العرب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم ‏"‏‏.‏ وسكت عن الثالثة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أو قال فنسيتها‏.‏

ترجمہ از داؤد راز
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے سلیما ن احول نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جمعرات کے دن کا ذکر کیا اور فرمایامعلوم بھی ہے جمعرات کے دن کیا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں تیزی پیدا ہوئی تھی۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ لاؤ، میں تمہارے لیے وصیت نامہ لکھ دوںکہ تم اس پر چلو گے تو اس کے بعد پھر تم کبھی صحیح راستے کو نہ چھوڑوگے لیکن یہ سن کر وہاں اختلاف پیدا ہو گیا، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نزاع نہ ہونا چاہئیے۔ بعض لوگو ں نے کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں؟ (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے) پھر آپ سے بات سمجھنے کی کو شش کرو۔ پس آپ سے صحابہ پوچھنے لگے۔ آپ نے فرمایا جاؤ (یہاں شوروغل نہ کرو) میں جس کام میں مشغول ہوں، وہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم کہہ رہے ہو۔ اس کے بعد آپ نے صحابہ کو تین چیزوں کی وصیت کی، فرمایا کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ ایلچی (جو قبائل کے تمہارے پاس آئیں) ان کی اس طرح خاطر کیا کرناجس طرح میں کرتا آیا ہوں اور تیسری بات ابن عباس نے یا سعیدنے بیان نہیں کی یا سعید بن جبیر نے یا سلیمان نے کہا میں تیسری بات بھول گیا۔​

اس سے یہ معلوم ہوا کہ آپ کا یہ استدلال کہ " آرام کے خیال سے یہ بات کہی گئی تھی " باطل ہوجاتا ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لکھنے کا سامان لانے کو کہا تو وصیت لکھنے کے لئے سامان آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پش کر دینا تھا لیکن اس کے برعکس یہ گمان کیا گیا نعوذباللہ کہ " آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں" اور ایک نزاع پیدا ہوا اور شور غل برپا کرکے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوناراض اور بے آرام کیا گیا
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
دعویٰ:
" تمہارے پاس قرآن مجید تو موجود ہے ہی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے"


حقیقت


 

فقہ جعفری

مبتدی
شمولیت
اگست 23، 2011
پیغامات
35
ری ایکشن اسکور
199
پوائنٹ
0
نبی مکرم کی بارگاہ میں اختلاف اور جھگڑا اہل بیت نے کیا۔ صحابہ نے نہیں

معذرت کے ساتھ لیکن مجھے مترجم کے ترجمہ سے اتفاق نہیں

حدیث نمبر : 5669
فاختلف أهل البيت فاختصموا
ترجمہ : داؤد راز
گھر میں موجود صحابہ کا اختلاف ہو گیا اور بحث کرنے لگے۔
اس کا ترجمہ یہ ہوگا
اہل بیت میں اختلاف ہوگیا اور وہ آپس میں جھگڑ پڑے
بہرام اب بتاو ذرا۔ نبی مکرم کی بارگاہ میں تو اہل بیت کا اختلاف ہوگیا اور نبی مکرم ہی کے سامنے جھگڑ پڑے۔ جبکہ عربی عبارت صاف بتا رہی ہے کہ صحابہ تو اس میں شریک ہی نہیں ہوئے۔ یہ تو سارا قصور اہل بیت کی جانب لوٹتا ہے نہ کہ صحابہ کی طرف
ابن عباس نے واضح کردیا کہ نبی مکرم کی بارگاہ میں اہل بیت جھگڑے اور انہی کی آوازیں بلند ہوئیں اور نبی مکرم کی بارگاہ میں جھگڑنا درست عمل نہیں۔ قرآن بھی مومنوں کو یہی حکم دیتا ہے کہ نبی کی بارگاہ میں اپنی آوازیں پست رکھو۔ لیکن اہل بیت تو جھگڑ بھی پڑے اور آوازیں بھی انہی جھگڑنے والوں کی بلند ہوئیں
یاد رہے کہ تم لوگ نبی مکرم کی ازواج کو اہل بیت میں سے نہیں مانتے۔ اس لئے وہ تو اس واقعہ سے ہی مستثنی ہوگئیں۔ پیچھے رہ گئے وہ لوگ جنہیں تم شیعہ عقیدے کے مطابق اہل بیت مانتے ہو
اب بتاو کہ اہل بیت نے نبی مکرم کی گستاخی کیوں کی؟ ان کی بارگاہ میں کیوں جھگڑے؟ ان کی بارگاہ میں آوازیں کیوں بلند کیں؟
اور شیعہ کتب میں تو صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ نبی مکرم کی علالت کے دنوں میں مولا علی اور عباس اور ابن عباس نبی مکرم سے جدا ہی نہیں ہوئے
اگر اس حدیث سے تم حضرت عمر کی گستاخی کا پہلو نکالو گے تو منہ کی کھاو گے
آخری بات یہ کہ حدیث قرطاس کا یہ واقعہ تمھاری کسی کتب حدیث میں صحیح سند سے مروی نہیں۔ تم لوگوں کا سارا مدار بخاری و مسلم جیسی اہل سنت کتب پر ہے جو تمھارے مذہب کے مطابق سراسر جھوٹ کا پلندہ ہیں
اور اگر تم الزاماً کسی اور روایت کو بیچ میں لے کر آگئے تاکہ صحابہ کو مطعون کر سکو تو تمھاری یہ حرکت چندا معنی نہیں رکھے گی۔ کیونکہ بات حدیث قرطاس کی ہو رہی ہے اس لئے حدیث قرطاس تک ہی رہا جائے تو بہتر ہے۔ ورنہ گھوڑے ہمارے بھی تیار ہیں
اور اب یہ ڈرامہ نہ کرنا کہ میں تو منکر حدیث ہوں کوئی شیعہ تھوڑی ہوں۔ ایسے تقیہ باز شیعہ جو منکرین حدیث کے بھیس میں پھرتے ہیں ان کو ہم بہت خوب جانتے ہیں
اب جواب دو کہ اہل بیت نے نبی مکرم کی بارگاہ میں گستاخی کیوں کی؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
معذرت کے ساتھ لیکن مجھے مترجم کے ترجمہ سے اتفاق نہیں



اس کا ترجمہ یہ ہوگا


بہرام اب بتاو ذرا۔ نبی مکرم کی بارگاہ میں تو اہل بیت کا اختلاف ہوگیا اور نبی مکرم ہی کے سامنے جھگڑ پڑے۔ جبکہ عربی عبارت صاف بتا رہی ہے کہ صحابہ تو اس میں شریک ہی نہیں ہوئے۔ یہ تو سارا قصور اہل بیت کی جانب لوٹتا ہے نہ کہ صحابہ کی طرف
ابن عباس نے واضح کردیا کہ نبی مکرم کی بارگاہ میں اہل بیت جھگڑے اور انہی کی آوازیں بلند ہوئیں اور نبی مکرم کی بارگاہ میں جھگڑنا درست عمل نہیں۔ قرآن بھی مومنوں کو یہی حکم دیتا ہے کہ نبی کی بارگاہ میں اپنی آوازیں پست رکھو۔ لیکن اہل بیت تو جھگڑ بھی پڑے اور آوازیں بھی انہی جھگڑنے والوں کی بلند ہوئیں
یاد رہے کہ تم لوگ نبی مکرم کی ازواج کو اہل بیت میں سے نہیں مانتے۔ اس لئے وہ تو اس واقعہ سے ہی مستثنی ہوگئیں۔ پیچھے رہ گئے وہ لوگ جنہیں تم شیعہ عقیدے کے مطابق اہل بیت مانتے ہو
اب بتاو کہ اہل بیت نے نبی مکرم کی گستاخی کیوں کی؟ ان کی بارگاہ میں کیوں جھگڑے؟ ان کی بارگاہ میں آوازیں کیوں بلند کیں؟
اور شیعہ کتب میں تو صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ نبی مکرم کی علالت کے دنوں میں مولا علی اور عباس اور ابن عباس نبی مکرم سے جدا ہی نہیں ہوئے
اگر اس حدیث سے تم حضرت عمر کی گستاخی کا پہلو نکالو گے تو منہ کی کھاو گے
آخری بات یہ کہ حدیث قرطاس کا یہ واقعہ تمھاری کسی کتب حدیث میں صحیح سند سے مروی نہیں۔ تم لوگوں کا سارا مدار بخاری و مسلم جیسی اہل سنت کتب پر ہے جو تمھارے مذہب کے مطابق سراسر جھوٹ کا پلندہ ہیں
اور اگر تم الزاماً کسی اور روایت کو بیچ میں لے کر آگئے تاکہ صحابہ کو مطعون کر سکو تو تمھاری یہ حرکت چندا معنی نہیں رکھے گی۔ کیونکہ بات حدیث قرطاس کی ہو رہی ہے اس لئے حدیث قرطاس تک ہی رہا جائے تو بہتر ہے۔ ورنہ گھوڑے ہمارے بھی تیار ہیں
اور اب یہ ڈرامہ نہ کرنا کہ میں تو منکر حدیث ہوں کوئی شیعہ تھوڑی ہوں۔ ایسے تقیہ باز شیعہ جو منکرین حدیث کے بھیس میں پھرتے ہیں ان کو ہم بہت خوب جانتے ہیں
اب جواب دو کہ اہل بیت نے نبی مکرم کی بارگاہ میں گستاخی کیوں کی؟
آپ جس ترجمہ سے اختلاف کررہے ہیں وہ ترجمہ آپ ہی کے مولوی کا کیا گیا ترجمہ ہے یہ کوئی ہم نے نہییں کیا
دوسری بات یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت لکھنے کے لئے سامان طلب کیا اس وقت کس نے یہ گمان کیا کہ نعوذبا للہ کہ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں" اور یہ کہا کہ " فحسبنا كتاب الله‏"کیا یہ قول بھی اہل بیت کا ہی تھا جس کیوجہ سے اختلاف ہوا ؟
ہمارا کام یہ ہے کہ حق بیان کردیں ھدایت دینا اللہ کا کام ہے اللہ ہم سب کو اہلبیت سے محبت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
کہاں یہ دعویٰ

" تمہارے پاس قرآن مجید تو موجود ہے ہی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے"


کہاں یہ خواہش

قال عمر لولا أن يقول الناس زاد عمر في كتاب الله‏.‏ لكتبت آية الرجم بيدي‏.‏

صحیح بخاری ، کتاب الاحکام

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اگر لوگ یوں نہ کہیں کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اپنی طرف سے بڑھا دیا تو میں رجم کی آیت اپنے ہاتھ سے قرآن میں لکھ دیتا۔
 
Top