نوٹ:
یاد رہے میرے الفاظ ہیں کہ حق کے قریب نا کہ حق پر کون اور گمراہی پر کون یہاں آپ سے سہو ہوا میرے الفاظ سمجھنے میں نوٹ فرمالیں
سب سے پہلے آپ کے آخری نکتے کا جواب پیش خدمت ہے اس سے بہت سارے نکات حل ہوجائیں گے
أولى بالحق (حق کے قریب)
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمْرُقُ مَارِقَةٌ عِنْدَ فُرْقَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ يَقْتُلُهَا أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ
صحیح مسلم کتاب الزکاۃ باب ذکر الخوارج وصفاتہم ح ۱۰۶۵
ترجمہ از وحید الزماں
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک فرقہ جو جدا ہوجائے گا جب مسلمانوں میں پھوٹ ہوگی اور اس کو قتل کرے گا وہ گروہ جو
قریب ہوگا ان دونوں گرہوں میں حق سے
یعنی جنگ صفیں میں مولا علی علیہ السلام حق کے قریب تھے کہ انھوں نے ہی خوارج کے ساتھ جنگ کی
عبدالوھاب نجدی کا رجحان :
"علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے ساتھی بنسبت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے ساتھیوں کے قرب الی الصواب ہیں "
یہ تو ہوئی مولا علی علیہ السلام کے حق کے قریب ہونے کی دلیل اور حضرت حسن علیہ السلام کے حق کے قریب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی تعریف کی صلح کرنے پر
صحیح بخاری
کتاب فضائل اصحاب النبی
باب: حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے فضائل کا بیان
حدیث نمبر : 3746
حدثنا صدقة، حدثنا ابن عيينة، حدثنا أبو موسى، عن الحسن، سمع أبا بكرة، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر والحسن إلى جنبه، ينظر إلى الناس مرة وإليه مرة، ويقول " ابني هذا سيد، ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين ".
ہم سے صدقہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوموسیٰ نے بیان کیا ، ان سے حسن نے ، انہوں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے، اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور پھر حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے: میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دوجماعتوں میں صلح کرائے گا۔
صحیح بخاری
کتاب اللباس
باب: بچوں کے گلوں میں ہار لٹکانا جائز ہے
حدیث نمبر : 5884
حدثني إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، أخبرنا يحيى بن آدم، حدثنا ورقاء بن عمر، عن عبيد الله بن أبي يزيد، عن نافع بن جبير، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سوق من أسواق المدينة فانصرف فانصرفت فقال " أين لكع ـ ثلاثا ـ ادع الحسن بن علي ". فقام الحسن بن علي يمشي وفي عنقه السخاب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم بيده هكذا، فقال الحسن بيده، هكذا فالتزمه فقال " اللهم إني أحبه، فأحبه، وأحب من يحبه ". قال أبو هريرة فما كان أحد أحب إلى من الحسن بن علي بعد ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قال.
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے بیان کیا ، کہا ہم کو یحییٰ بن آدم نے خبر دی ، کہا ہم سے ورقاء بن عمر نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ بن ابی یزید نے ، ان سے نافع بن جبیر نے بیان ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مدینہ کے بازاروں میں سے ایک بازار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واپس ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بچہ کہاں ہے۔ یہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا۔ حسن بن علی کو بلاؤ۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہما آ رہے تھے اور ان کی گردن میں (خوشبودار لونگ وغیرہ کا) ہار پڑا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس طرح پھیلا یا کہ (آپ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو گلے سے لگانے کے لیے) اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا ہاتھ پھیلایا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور ان سے بھی محبت کر جو اس سے محبت رکھیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد کوئی شخص بھی حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے زیادہ مجھے پیارا نہیں تھا۔