• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ بھی انکار حدیث ہے؟؟؟؟

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہرام بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر دے

یہ حدیث بہت ہی مستند اور متواتر ہے پر۔۔۔۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

یہ قول ( جس کا میں ولی ہوں علی ( رضي اللہ تعالی عنہ ) بھی اس کے ولی ہیں ) یہ صحیح کتابوں میں تونہیں لیکن علماء نے اسے بیان کیا اوراس کی تصحیح میں اختلاف کیا ہے ۔

انا للہ و انا الیہ راجعون
اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے مولویوں سے آگے دیکھنا ہی نہیں چاہتے کہ جو ہمارے مولوی نے کہہ دیا وہ حرف آخر ہے بس چاہے ان کا مولوی دماغی فتور میں ہی کیوں نہ مبتلا ہو ۔
دیکھئے سفر نامہ ابن بطوطہ حصہ اول صفحہ ١٢٦
آن لائن لنک :
سفر نامہ ابن بطوطہ۔حصہ اول ودوم - تاریخ - کتاب و سنت کی روشنی میں لکھی جانے والی اردو اسلامی کتب کا سب سے بڑا مفت مرکز
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
چلیں آپ کی تشریح کے مطابق اس واقعہ کو تسلسل سے رقم کرتے ہیں

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
"‏ هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده ‏"‏‏
صحیح بخاری حدیث نمبر : 7366
ترجمہ از داؤد راز
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کہ آؤ میں تمہارے لیے ایک ایسا مکتوب لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو

اس کے جواب میں حضرت عمر نے کہا

قال عمر إن النبي صلى الله عليه وسلم غلبه الوجع وعندكم القرآن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فحسبنا كتاب الله‏

صحیح بخاری حدیث نمبر : 7366
ترجمہ از داؤد راز
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں مبتلا ہیں ‘ تمہارے پاس اللہ کی کتاب ہے اور یہی ہمارے لیے کافی ہے

اس کے جواب میں بقول آپ کے جو لوگ یہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکتوب لکھ دیں انھوں نے یہ کہا

[فقالوا ما شأنه أهجر

ترجمہ آپ کی تشریح کے مطابق

کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں؟ (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے)
نوٹ: یاد رہے یہ آپ ہی کی تشرح کے مطابق ترجمہ ہے
اس کے بعد
فاختلف أهل البيت فاختصموا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ منهم من يقول قربوا يكتب لكم النبي صلى الله عليه وسلم كتابا لن تضلوا بعده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ومنهم من يقول ما قال عمر فلما أكثروا
صحیح بخاری حدیث نمبر : 5669
ترجمہ از داؤد راز
اس مسئلہ پر گھر میں موجود صحابہ کا اختلاف ہو گیا اور بحث کرنے لگے۔ بعض صحابہ کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو (لکھنے کی چیزیں) دے دو تاکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسی تحریر لکھ دیں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو سکو اور بعض صحابہ وہ کہتے تھے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔

حضرت ابن عباس اس کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ

قال عبيد الله فكان ابن عباس يقول إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين أن يكتب لهم ذلك الكتاب من اختلافهم ولغطهم‏.‏
صحیح بخاری حدیث نمبر : 5669
ترجمہ از داؤد راز
حضرت عبیداللہ نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ سب سے زیادہ افسوس یہی ہے کہ ان کے اختلاف اور بحث کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تحریر نہیں لکھی جو آپ مسلمانوں کے لیے لکھنا چاہتے تھے۔
آپ کی پوسٹ سے یہ لگ رہا ہے کہ کچھ نکات پر تو آپ مجھ سے متفق نظر آتے ہیں
اول حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو کچھ لکھنے سے منع کرنا بطور ادب ، خلوص اور احترام کے تھا
دوم اھجر کے الفاظ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نہیں تھے
سوم اھجر کے الفاظ ان کے تھے جو چاہتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لکھ دیں
یہ تو ہوئے اتفاقی نکات
اب اختلافی نکات کی طرف
آپ نے جو اھجر کے لفظ کی تشریح کی ہے وہ غلط ہے
ان کی مراد یہ تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تو بے معنی کلام نہیں فرماتے (استفہام انکاری سے یہی مطلب نکلتا ہے ) یہ بات تم بھی جانتے ہو اور ہم بھی۔ اس لئیے وہ اگر کچھ لکھنے کے لئیے مانگ رہے ہیں تو حکم کی تعمیل ہونی چاہئیے

اس پورے قصے میں کون لوگ حق کے قریب تھے جو یہ کہتے تھے کہ "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو (لکھنے کی چیزیں) دے دو تاکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسی تحریر لکھ دیں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو سکو" یا پھر وہ لوگ جو کہتے تھے جو حضرت عمر نے کہا تھا۔ فیصلہ آپ پر
آپ نے پوچھا ہے کہ ان میں سے حق کے قریب کون تھا
بھائی ہم کون ہوتے ہیں کہ اختلاف صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں فیصلے سناتے پھریں۔ ہمارے نذدیک تمام صحابہ حق پر تھے ہم ان میں کسی ایک کو بھی گمراہی پر نہیں کہ سکتے ۔ ہم احناف صحابہ تو دور کی بات ائمہ اربعہ م؛ں سے کسی کو بھی گمراہ نہیں کہتے اور ہر ایک کو حق پر سمجھتے ہیں ۔

باقی اگر کو آپ کو یہ فیصلہ کرنے کا شوق ہے تو بتائیے گا کہ
جب حضرت خضر علیہ السلام کے ایک لڑکے کو قتل کرنے پر حضرت موسی علیہ السلام نے تنبیہ فرمائی تھی تو کون حق پر تھا ؟ حضرت موسی علیہ السلام یا حضرت خضر علیہ السلام

فانطلقا حتى إذا لقيا غلاما فقتله قال أقتلت نفسا زكية بغير نفس لقد جئت شيئا نكرا
جب کوہ طور سے واپسی پر حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو داڑھی اور سر کے بالوں سے پکڑا تھا تو کون حق پر تھا؟ حضرت موسی علیہ السلام یا حضرت ھارون علیہ السلام

قال يا هارون ما منعك إذ رأيتهم ضلوا - ألا تتبعن أفعصيت أمري
حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے قتال کی اور اپنے والد کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی تو کون حق پر تھا ؟ حضرت علی کرم اللہ وجھہ یا حضرت حسن رضی اللہ عنہ
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے قتال کی اور اپنے والد کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی تو کون حق پر تھا ؟ حضرت علی کرم اللہ وجھہ یا حضرت حسن رضی اللہ عنہ
حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے قتال کی اور اپنے والد کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی تو کون حق پر تھا ؟ حضرت علی کرم اللہ وجھہ یا حضرت حسن رضی اللہ عنہ
نوٹ:
یاد رہے میرے الفاظ ہیں کہ حق کے قریب نا کہ حق پر کون اور گمراہی پر کون یہاں آپ سے سہو ہوا میرے الفاظ سمجھنے میں نوٹ فرمالیں
سب سے پہلے آپ کے آخری نکتے کا جواب پیش خدمت ہے اس سے بہت سارے نکات حل ہوجائیں گے

أولى بالحق (حق کے قریب)

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمْرُقُ مَارِقَةٌ عِنْدَ فُرْقَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ يَقْتُلُهَا أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ
صحیح مسلم کتاب الزکاۃ باب ذکر الخوارج وصفاتہم ح ۱۰۶۵

ترجمہ از وحید الزماں
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک فرقہ جو جدا ہوجائے گا جب مسلمانوں میں پھوٹ ہوگی اور اس کو قتل کرے گا وہ گروہ جو قریب ہوگا ان دونوں گرہوں میں حق سے

یعنی جنگ صفیں میں مولا علی علیہ السلام حق کے قریب تھے کہ انھوں نے ہی خوارج کے ساتھ جنگ کی
عبدالوھاب نجدی کا رجحان :
"علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے ساتھی بنسبت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے ساتھیوں کے قرب الی الصواب ہیں "

یہ تو ہوئی مولا علی علیہ السلام کے حق کے قریب ہونے کی دلیل اور حضرت حسن علیہ السلام کے حق کے قریب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی تعریف کی صلح کرنے پر

صحیح بخاری
کتاب فضائل اصحاب النبی
باب: حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے فضائل کا بیان
حدیث نمبر : 3746
حدثنا صدقة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا ابن عيينة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا أبو موسى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الحسن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سمع أبا بكرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سمعت النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر والحسن إلى جنبه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ينظر إلى الناس مرة وإليه مرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ويقول ‏"‏ ابني هذا سيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين ‏"‏‏.
ہم سے صدقہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوموسیٰ نے بیان کیا ، ان سے حسن نے ، انہوں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے، اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور پھر حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے: میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دوجماعتوں میں صلح کرائے گا۔

صحیح بخاری
کتاب اللباس
باب: بچوں کے گلوں میں ہار لٹکانا جائز ہے
حدیث نمبر : 5884
حدثني إسحاق بن إبراهيم الحنظلي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا يحيى بن آدم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا ورقاء بن عمر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عبيد الله بن أبي يزيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن نافع بن جبير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سوق من أسواق المدينة فانصرف فانصرفت فقال ‏"‏ أين لكع ـ ثلاثا ـ ادع الحسن بن علي ‏"‏‏.‏ فقام الحسن بن علي يمشي وفي عنقه السخاب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم بيده هكذا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال الحسن بيده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ هكذا فالتزمه فقال ‏"‏ اللهم إني أحبه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأحبه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأحب من يحبه ‏"‏‏.‏ قال أبو هريرة فما كان أحد أحب إلى من الحسن بن علي بعد ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قال‏.‏
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے بیان کیا ، کہا ہم کو یحییٰ بن آدم نے خبر دی ، کہا ہم سے ورقاء بن عمر نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ بن ابی یزید نے ، ان سے نافع بن جبیر نے بیان ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مدینہ کے بازاروں میں سے ایک بازار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واپس ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بچہ کہاں ہے۔ یہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا۔ حسن بن علی کو بلاؤ۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہما آ رہے تھے اور ان کی گردن میں (خوشبودار لونگ وغیرہ کا) ہار پڑا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس طرح پھیلا یا کہ (آپ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو گلے سے لگانے کے لیے) اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا ہاتھ پھیلایا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور ان سے بھی محبت کر جو اس سے محبت رکھیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد کوئی شخص بھی حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے زیادہ مجھے پیارا نہیں تھا۔

 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ویسے تو کافی نکات پر ہم متفق ہیں صرف ایک ہی نکتہ باقی رہا ہے

آپ نے جو اھجر کے لفظ کی تشریح کی ہے وہ غلط ہے
ان کی مراد یہ تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تو بے معنی کلام نہیں فرماتے (استفہام انکاری سے یہی مطلب نکلتا ہے ) یہ بات تم بھی جانتے ہو اور ہم بھی۔ اس لئیے وہ اگر کچھ لکھنے کے لئیے مانگ رہے ہیں تو حکم کی تعمیل ہونی چاہئیے
فقالوا ما شأنه أهجر
اب آپ پہلے اس کا اپنی تشریح کے مطابق سلیس ترجمہ فرمادیں پھر بات کو آگے بڑھاتے ہیں کیونکہ آپ کی تشریح کے مطابق میں نے جو ترجمہ کیا اس کو آپ نہیں مان رہے !
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
نوٹ:
یاد رہے میرے الفاظ ہیں کہ حق کے قریب نا کہ حق پر کون اور گمراہی پر کون یہاں آپ سے سہو ہوا میرے الفاظ سمجھنے میں نوٹ فرمالیں
سب سے پہلے آپ کے آخری نکتے کا جواب پیش خدمت ہے اس سے بہت سارے نکات حل ہوجائیں گے

أولى بالحق (حق کے قریب)

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمْرُقُ مَارِقَةٌ عِنْدَ فُرْقَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ يَقْتُلُهَا أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ
صحیح مسلم کتاب الزکاۃ باب ذکر الخوارج وصفاتہم ح ۱۰۶۵

ترجمہ از وحید الزماں
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک فرقہ جو جدا ہوجائے گا جب مسلمانوں میں پھوٹ ہوگی اور اس کو قتل کرے گا وہ گروہ جو قریب ہوگا ان دونوں گرہوں میں حق سے

یعنی جنگ صفیں میں مولا علی علیہ السلام حق کے قریب تھے کہ انھوں نے ہی خوارج کے ساتھ جنگ کی
عبدالوھاب نجدی کا رجحان :
"علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے ساتھی بنسبت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے ساتھیوں کے قرب الی الصواب ہیں "

یہ تو ہوئی مولا علی علیہ السلام کے حق کے قریب ہونے کی دلیل اور حضرت حسن علیہ السلام کے حق کے قریب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی تعریف کی صلح کرنے پر

صحیح بخاری
کتاب فضائل اصحاب النبی
باب: حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے فضائل کا بیان
حدیث نمبر : 3746
حدثنا صدقة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا ابن عيينة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا أبو موسى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الحسن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سمع أبا بكرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سمعت النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر والحسن إلى جنبه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ينظر إلى الناس مرة وإليه مرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ويقول ‏"‏ ابني هذا سيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين ‏"‏‏.
ہم سے صدقہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوموسیٰ نے بیان کیا ، ان سے حسن نے ، انہوں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے، اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور پھر حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے: میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دوجماعتوں میں صلح کرائے گا۔

صحیح بخاری
کتاب اللباس
باب: بچوں کے گلوں میں ہار لٹکانا جائز ہے
حدیث نمبر : 5884
حدثني إسحاق بن إبراهيم الحنظلي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا يحيى بن آدم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا ورقاء بن عمر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عبيد الله بن أبي يزيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن نافع بن جبير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سوق من أسواق المدينة فانصرف فانصرفت فقال ‏"‏ أين لكع ـ ثلاثا ـ ادع الحسن بن علي ‏"‏‏.‏ فقام الحسن بن علي يمشي وفي عنقه السخاب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم بيده هكذا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال الحسن بيده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ هكذا فالتزمه فقال ‏"‏ اللهم إني أحبه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأحبه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأحب من يحبه ‏"‏‏.‏ قال أبو هريرة فما كان أحد أحب إلى من الحسن بن علي بعد ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قال‏.‏
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے بیان کیا ، کہا ہم کو یحییٰ بن آدم نے خبر دی ، کہا ہم سے ورقاء بن عمر نے بیان کیا ، ان سے عبیداللہ بن ابی یزید نے ، ان سے نافع بن جبیر نے بیان ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مدینہ کے بازاروں میں سے ایک بازار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واپس ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بچہ کہاں ہے۔ یہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا۔ حسن بن علی کو بلاؤ۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہما آ رہے تھے اور ان کی گردن میں (خوشبودار لونگ وغیرہ کا) ہار پڑا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس طرح پھیلا یا کہ (آپ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو گلے سے لگانے کے لیے) اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا ہاتھ پھیلایا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور ان سے بھی محبت کر جو اس سے محبت رکھیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد کوئی شخص بھی حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے زیادہ مجھے پیارا نہیں تھا۔

اب ہمارا اس نکتہ پر بھی اتفاق ہو گیا و للہ الحمد
آپ کہتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے قتال کی تو حضرت علی کرم اللہ وجھہ اولی بالحق تھے اور جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے انہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی تو بھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ اولی بالحق تھے ۔ یعنی حضرت علی کرم اللہ وجھہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا عمل بظاہر متضاد دکھائی دیتتا ہے لیکن دونوں اولی بالحق تھے
واضح رہے کہ میں نے جو سوال پوچھا تھا اس میں تقابل حضرت علی کرم اللہ وجھہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا تھا نہ کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا
بعینہ اسی طرح جو صحابہ حضرت عمر کی رائے سے متفق تھے وہ بھی اولی بالحق تھے اور جو چاہتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لکھ دیں تو وہ بھی اولی بالحق تھے
الحمد للہ اس نکتہ پر بھی اتفاق ہو گيا



اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ویسے تو کافی نکات پر ہم متفق ہیں صرف ایک ہی نکتہ باقی رہا ہے

فقالوا ما شأنه أهجر
اب آپ پہلے اس کا اپنی تشریح کے مطابق سلیس ترجمہ فرمادیں پھر بات کو آگے بڑھاتے ہیں کیونکہ آپ کی تشریح کے مطابق میں نے جو ترجمہ کیا اس کو آپ نہیں مان رہے !
جہاں تک اھجر کے ترجمہ اور تشریح کا تعلق ہے تو آپ نے یہاں پر اس کا یہ ترجمہ کیا
کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں؟ (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے)
اس کا صحیح ترجمہ اور تشریح آپ اپنی پوسٹ نمبر چھ میں کرچکے ہیں ملاحظہ فرمائیں

]بعض لوگو ں نے کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں؟ (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے)
مراد یہ تھی یہ تم بھی جانتے اور ہم بھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے معنی کلام نہیں فرماتے یہ ان کی شان اقدس سے بعید ہے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اب ہمارا اس نکتہ پر بھی اتفاق ہو گیا و للہ الحمد
آپ کہتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے قتال کی تو حضرت علی کرم اللہ وجھہ اولی بالحق تھے اور جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے انہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی تو بھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ اولی بالحق تھے ۔ یعنی حضرت علی کرم اللہ وجھہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا عمل بظاہر متضاد دکھائی دیتتا ہے لیکن دونوں اولی بالحق تھے
واضح رہے کہ میں نے جو سوال پوچھا تھا اس میں تقابل حضرت علی کرم اللہ وجھہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا تھا نہ کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا
بعینہ اسی طرح جو صحابہ حضرت عمر کی رائے سے متفق تھے وہ بھی اولی بالحق تھے اور جو چاہتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لکھ دیں تو وہ بھی اولی بالحق تھے
الحمد للہ اس نکتہ پر بھی اتفاق ہو گيا
یہ فیصلہ کرنے میں اتنی جلدی نہ کریں کہ ہمارا اس نکتے پر بھی اتفاق ہوگیا ہے اس کی وضاحت بھی پڑھ لیں
آپ نے یہ نکتہ اٹھایا
حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے قتال کی اور اپنے والد کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی تو کون حق پر تھا ؟ حضرت علی کرم اللہ وجھہ یا حضرت حسن رضی اللہ عنہ
اس نکتے میں آپ نے دو مختلف واقعات کا تقابل کیا
١۔ جب مولا علی علیہ السلام نے معاویہ سے جنگ کی اس وقت مولا علی علیہ السلام حق کے قریب تھے
٢۔ جب حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کی اس وقت حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام حق کے قریب تھے

ان دونوں واقعات میں معاویہ حق کے قریب نہیں تھے پھر آپ نے کس طرح یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ
بعینہ اسی طرح جو صحابہ حضرت عمر کی رائے سے متفق تھے وہ بھی اولی بالحق تھے اور جو چاہتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لکھ دیں تو وہ بھی اولی بالحق تھے
اوپر آپ نے دو مختلف واقعات میں تقابل کیا اور فورا ہی ایک ہی واقع میں صحابہ کے دونوں گروہوں کواولی بالحق کہہ دیا غور کریں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
فقالوا ما شأنه أهجر
اب آپ پہلے اس کا اپنی تشریح کے مطابق سلیس ترجمہ فرمادیں پھر بات کو آگے بڑھاتے ہیں کیونکہ آپ کی تشریح کے مطابق میں نے جو ترجمہ کیا اس کو آپ نہیں مان رہے !
اس کا صحیح ترجمہ اور تشریح آپ اپنی پوسٹ نمبر چھ میں کرچکے ہیں ملاحظہ فرمائیں

]بعض لوگو ں نے کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں؟ (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے)
مراد یہ تھی یہ تم بھی جانتے اور ہم بھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے معنی کلام نہیں فرماتے یہ ان کی شان اقدس سے بعید ہے
پوسٹ نمبر ٦ میں داؤد راز کے کیے ترجمہ سے آپ متفق ہیں اس ترجمہ کے حساب سے یہ جملہ انکاریہ سوالیہ ہوا یعنی انکار بصورت سوال
اب دیکھتے ہیں کہ بقول آپ کے جو لوگ یہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وصیت لکھ دیں ان لوگوں نے یہ جملہ ادا کیا لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ یہ کیوں ادا کیا گیا یا کس بات کے جواب میں ادا کیا گیا آئیں اس پر غور کرتے ہیں

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کہ آؤ میں تمہارے لیے ایک ایسا مکتوب لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو"
اس کے جواب میں حضرت عمر نے کہا
"عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں مبتلا ہیں ‘ تمہارے پاس اللہ کی کتاب ہے اور یہی ہمارے لیے کافی ہے"
حضرت عمر کی اس بات پر بقول آپ کے جو لوگ یہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکتوب لکھ دیں انھوں نےحضرت عمر سے یہ کہا
"کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں؟ (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے)
مراد یہ تھی یہ تم بھی جانتے اور ہم بھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے معنی کلام نہیں فرماتے یہ ان کی شان اقدس سے بعید ہے

اوریہ بھی مراد لی جاسکتی ہے کہ جب تم بھی جانتے ہو اور ہم بھی جانتے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے معنی کلام نہیں فرماتے یہ ان کی شان اقدس سے بعید ہے پھر ایسی بات کیوں کرتے ہو اورانھیں لکھنے کا سامان کیوں نہیں پیش کرتے

یعنی صحابہ کا یہ گروہ جو بقول آپ کے یہ چاہتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصیت لکھ دیں وہ حضرت عمر کے جملے سے یہ سمجھا کہ حضرت عمر یہ خیال کر رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے نعوذباللہ بے معنی کلام فرما رہیں ہیں (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے) اسی لیے انھیں حضرت عمر کی بات کے جواب میں یہ استفہام انکاری جملہ ادا کیا
اب بھی بات تو وہیں کی وہیں ہے کہ صحابہ کا یہ گروہ یہ سجھ رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے یہ سوچ کر انکار کیا جارہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے نعوذباللہ بے معنی کلام فرما رہیں ہیں (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے) ہمارا کام یہ ہے کہ حق بیان کردیں ھدایت دینا اللہ کا کام ہے
اللهُ ورسولُه أعلمُ
والسلام
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
یہ فیصلہ کرنے میں اتنی جلدی نہ کریں کہ ہمارا اس نکتے پر بھی اتفاق ہوگیا ہے اس کی وضاحت بھی پڑھ لیں
آپ نے یہ نکتہ اٹھایا

اس نکتے میں آپ نے دو مختلف واقعات کا تقابل کیا
١۔ جب مولا علی علیہ السلام نے معاویہ سے جنگ کی اس وقت مولا علی علیہ السلام حق کے قریب تھے
٢۔ جب حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کی اس وقت حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام حق کے قریب تھے

ان دونوں واقعات میں معاویہ حق کے قریب نہیں تھے پھر آپ نے کس طرح یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ

اوپر آپ نے دو مختلف واقعات میں تقابل کیا اور فورا ہی ایک ہی واقع میں صحابہ کے دونوں گروہوں کواولی بالحق کہہ دیا غور کریں
بہرام صاحب
حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے جس شخصیت سے قتال کی انہی ہستی سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے صلح کی ۔
جنگ صفین 37 ہجری میں ہوئی اور اس جنگ کے چار سال بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی تھی۔
میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ چار سال میں وہ کیا امور واقع ہوئے کہ چار سال پہلے تو ان سے لڑنا اولی بالحق ہوا اور چار سال بعد ان ہی سے صلح کرنا اولی بالحق ہوگيا
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ میں یا ان کی حکومت میں کیا تبدیلیاں آئیں تھیں
حضرت امیر معاویہ رضي اللہ عنہ ہمارے نذدیک ایک جلیل القدر صحابی ہیں ، آپ شاید اس سے اتفاق نہ کریں اور نہ یہ ہمارا موضوع ہے میں صرف وہ تبدیلیاں جاننا چاہتا ہوں جن کی بنا پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ کے بجائے صلح کرنا اولی بالحق بن گيا
پوسٹ نمبر ٦ میں داؤد راز کے کیے ترجمہ سے آپ متفق ہیں اس ترجمہ کے حساب سے یہ جملہ انکاریہ سوالیہ ہوا یعنی انکار بصورت سوال
اب دیکھتے ہیں کہ بقول آپ کے جو لوگ یہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وصیت لکھ دیں ان لوگوں نے یہ جملہ ادا کیا لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ یہ کیوں ادا کیا گیا یا کس بات کے جواب میں ادا کیا گیا آئیں اس پر غور کرتے ہیں

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کہ آؤ میں تمہارے لیے ایک ایسا مکتوب لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو"
اس کے جواب میں حضرت عمر نے کہا
"عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں مبتلا ہیں ‘ تمہارے پاس اللہ کی کتاب ہے اور یہی ہمارے لیے کافی ہے"
حضرت عمر کی اس بات پر بقول آپ کے جو لوگ یہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکتوب لکھ دیں انھوں نےحضرت عمر سے یہ کہا
"کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں؟ (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے)
مراد یہ تھی یہ تم بھی جانتے اور ہم بھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے معنی کلام نہیں فرماتے یہ ان کی شان اقدس سے بعید ہے

اوریہ بھی مراد لی جاسکتی ہے کہ جب تم بھی جانتے ہو اور ہم بھی جانتے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے معنی کلام نہیں فرماتے یہ ان کی شان اقدس سے بعید ہے پھر ایسی بات کیوں کرتے ہو اورانھیں لکھنے کا سامان کیوں نہیں پیش کرتے

یعنی صحابہ کا یہ گروہ جو بقول آپ کے یہ چاہتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصیت لکھ دیں وہ حضرت عمر کے جملے سے یہ سمجھا کہ حضرت عمر یہ خیال کر رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے نعوذباللہ بے معنی کلام فرما رہیں ہیں (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے) اسی لیے انھیں حضرت عمر کی بات کے جواب میں یہ استفہام انکاری جملہ ادا کیا
اب بھی بات تو وہیں کی وہیں ہے کہ صحابہ کا یہ گروہ یہ سجھ رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے یہ سوچ کر انکار کیا جارہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے نعوذباللہ بے معنی کلام فرما رہیں ہیں (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے) ہمارا کام یہ ہے کہ حق بیان کردیں ھدایت دینا اللہ کا کام ہے
اللهُ ورسولُه أعلمُ
والسلام
آپ نے جو دوسری بار ترجمہ کیا اس میں "کیا یہ تم سمجھتے ہو کہ" کہ الفاظ بڑھادیے
یہ الفاظ ترجمے میں تو نہیں آسکتے لیکن ہمزہ الاستفہام الانکاری کی وجہ سے گرائمر کی رو سے تشریح میں آسکتے ہیں اور ان کے بغیر بھی تشریح ہو سکتی ہے
جب گرائمر یا قاموس میں دو سے زائد ترجمہ کا امکان ہو تو محترم شخصیت کے حوالہ سے وہ معنی یا تشریح لی جاتی ہے جو ادب کے قریب ہو
قرآن سے مثال
وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
یہاں جب مکر کا ترجمہ اللہ تبارک و تعالی کی نسبت سے کیا جائے گا تو قاموس دیکھ کر کوئی بھی ترجمہ نہیں کیا جائے بلکہ وہ الفاظ لئیے جائیں گے جو الفاظ ادب کے زیادہ قریب ہوں
اسی طرح جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے متلق بات ہو گي اور گرائمر یا قاموس کے لے لحاظ سے ایک سے ذیادہ تشریح ممکن ہو تو وہ ترجمہ اور تشریح لی جائے گي جب ادب سے زیادہ قریب ہو گي
اسی ادب کی بنیاد پر میں نے آپ کے یہ الفاظ رد کیے "کیا یہ تم سمجھتے ہو کہ"
اس نقطہ کو سامنے رکھتے ہوئے دونوں ترجمے و تشریح دوبارہ پڑہیں ۔ بات ان شاء اللہ واضح ہوجائےگي
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
صحیح بخاری
کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ

باب: احکام شرع میں جھگڑا کرنے کی کراہت کا بیان
حدیث نمبر : 7366
حدثنا إبراهيم بن موسى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا هشام،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن معمر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الزهري،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عبيد الله بن عبد الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن عباس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال لما حضر النبي صلى الله عليه وسلم ـ قال وفي البيت رجال فيهم عمر بن الخطاب ـ قال ‏"‏ هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده ‏"‏‏.‏ قال عمر إن النبي صلى الله عليه وسلم غلبه الوجع وعندكم القرآن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فحسبنا كتاب الله‏.‏ واختلف أهل البيت واختصموا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول الله صلى الله عليه وسلم كتابا لن تضلوا بعده‏.‏ ومنهم من يقول ما قال عمر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما أكثروا اللغط والاختلاف عند النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ قوموا عني ‏"‏‏.‏ قال عبيد الله فكان ابن عباس يقول إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين أن يكتب لهم ذلك الكتاب من اختلافهم ولغطهم‏.‏



معذرت کے ساتھ۔۔۔۔ کیوکہ آپ کا موضوع بہت آگے جا چکا ہے اس لیے میری دخل اندازی مناسب تو نہیں ہے پر میں یہاں پر ایک بات عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں وہ یہ کہ:

موضوع ہے انکار حدیث، تو سوال یہ ہے کہ مذکورہ روایت انکار حدیث پر دلالت کرتی ہے کہ نہیں؟
جواب: جی ہاں مذکورہ روایت صد درصد انکار حدیث پر دلالت کررہی ہے اس کے لیے دلائل دیے جاچکے ہیں پریہان پر میں بھی دو دلیل
عرض کرنا چاہوں گا۔۔۔

مقدمہ: صحیح بخاری میں اس کتاب کا عنوان ہے (کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ) خصوصی طور پر سنت کے اعتصام کا حکم ہے اور سنت کو پکڑنا باعث ھدایت اور اسکو چھوڑنا باعث ضلالت ہوگا۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده لھذا مسئلہ یہاں پر ھدایت اور گمراہی کا ہے۔

دلیل نمبر١: حضرت عمر رض کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده کے جواب میں کہنا کہ فحسبنا كتاب الله‏.‏ آپ کا لکھا( سنت) لازم نہیں کیونکہ قرآن ہے بس وہی کافی ہے۔ یعنی حضرت عمر ایک چیز(قرآن) کا قائل ہے اور دوسری (سنت) کا منکر ہے جبکہ کتاب کا عنون دونوں چیزون سے تمسک کرنا ہے۔

دلیل٢: بہت ہی عمدہ اور مھم دلیل ہے انکار حدیث پر۔۔۔ حضرت عمر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کی یا نہیں اس کے بارے میں میں کچھ نہیں کہنا چاہتا اور نا ہی میرا یہ مقصد ہے بلکہ میرا مقصد اس حدیث سے انکار حدیث کو ثابت کرنا ہے۔۔۔
مھم دلیل یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے واضح کرکے بتادیا کہ یہ انکار حدیث ہی ہے إن الرزية كل الرزية[/HL] ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين أن يكتب۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو جھگڑے کی فکر نہیں تھی بلکہ اس بات کا غم تھا کہ حدیث کیوں
نہیں لکھنے دی گئی!

یاد رہے کہ
١- منکرِ حدیث فقط حضرت عمر نہیں بلکہ پورا ایک گروپ تھا۔۔۔(ومنهم من يقول ما قال عمر)
٢- حضرت عمر کا اپنے دور خلافت میں حدیث لکھنے اور بیان کرنے پر پابندی لگانا بھی ھمارے مدعی پر واضح ثبوت ہے۔
٣ـ يہ مخالفت پہلی مرتبہ نہیں ہوئی بلکہ اس سے پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔۔۔ جیسا کہ ( مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ) میں موجود ہے:
رقم الحديث: 18157
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ(صدوق حسن الحديث) ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ(ثقة مكثر) ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ(صحابی) ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ ، قَالَ : فَأَحْرَمْنَا بِالْحَجِّ ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ ، قَالَ : " اجْعَلُوا حَجَّكُمْ عُمْرَةً " . قَالَ : فَقَالَ النَّاسُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَدْ أَحْرَمْنَا بِالْحَجِّ ، فَكَيْفَ نَجْعَلُهَا عُمْرَةً ؟ ! قَالَ : " انْظُرُوا مَا آمُرُكُمْ بِهِ فَافْعَلُوا " . فَرَدُّوا عَلَيْهِ الْقَوْلَ ، فَغَضِبَ ، ثُمَّ انْطَلَقَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ غَضْبَانَ ، فَرَأَتْ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ ، فَقَالَتْ : مَنْ أَغْضَبَكَ أَغْضَبَهُ اللَّهُ ؟ قَالَ : " وَمَا لِي لَا أَغْضَبُ وَأَنَا آمُرُ بِالْأَمْرِ فَلَا أُتَّبَعُ " .

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں کیسے غصہ نا کروں جبکہ میں کسی بات کا حکم کرتا ہوں مگر میری اتباع نہیں کی جاتی۔۔۔

اس میں تو کھلم کھلا حدیث کا انکار دکھائی دے رہا ہے۔۔۔


قال ‏"‏هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده ‏"‏‏.‏
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہرام صاحب
حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے جس شخصیت سے قتال کی انہی ہستی سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے صلح کی ۔
جنگ صفین 37 ہجری میں ہوئی اور اس جنگ کے چار سال بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی تھی۔
میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ چار سال میں وہ کیا امور واقع ہوئے کہ چار سال پہلے تو ان سے لڑنا اولی بالحق ہوا اور چار سال بعد ان ہی سے صلح کرنا اولی بالحق ہوگيا
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ میں یا ان کی حکومت میں کیا تبدیلیاں آئیں تھیں
حضرت امیر معاویہ رضي اللہ عنہ ہمارے نذدیک ایک جلیل القدر صحابی ہیں ، آپ شاید اس سے اتفاق نہ کریں اور نہ یہ ہمارا موضوع ہے میں صرف وہ تبدیلیاں جاننا چاہتا ہوں جن کی بنا پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ کے بجائے صلح کرنا اولی بالحق بن گيا
فتاوی نذیریہ


حضرت علی کے مقانلے پر امیر معاویہ کا تذکرہ ہو وہاں حضرت یا دعائیہ الفاظ کہنا درست نہیں
فتاوی نذیریہ : جلد سوم صفحہ ٤٤٦
آن لائن لنک :
فتاوی نذیریہ جلد3 - کتب لائبریری - کتاب و سنت کی روشنی میں لکھی جانے والی اردو اسلامی کتب کا سب سے بڑا مفت مرکز
 
Top