• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ بھی انکار حدیث ہے؟؟؟؟

شمولیت
جون 10، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
52
عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم، قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.

یہ حدیث ترمذي حدیث نمبر ( 3713 ) ابن ماجہ حدیث نمبر ( 121 ) نے روایت کی ہے اوراس کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے ، زیلعی رحمہ اللہ تعالی نے ھدایہ کی تخریج ( 1 / 189 ) میں کہا ہے کہ :

کتنی ہی ایسی روایات ہیں جن کے راویوں کی کثرت اورمتعدد طرق سے بیان کی جاتیں ہیں ، حالانکہ وہ حدیث ضعیف ہوتی ہے ۔ جیسا کہ حدیث ( جس کا میں ولی ہوں علی ( رضی اللہ تعالی عنہ ) بھی اس کے ولی ہیں ) بھی ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

یہ قول ( جس کا میں ولی ہوں علی ( رضي اللہ تعالی عنہ ) بھی اس کے ولی ہیں ) یہ صحیح کتابوں میں تونہیں لیکن علماء نے اسے بیان کیا اوراس کی تصحیح میں اختلاف کیا ہے ۔

امام بخاری اور ابراھیم حربی محدثین کے ایک گروہ سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے اس قول میں طعن کیا ہے ۔۔۔ لیکن اس کے بعد والا قول ( اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ ) آخرتک ، تویہ بلاشبہ کذب افتراء ہے ۔

دیکھیں منھاج السنۃ ( 7 / 319 ) ۔

امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کے بارہ میں کہتے ہیں :

حديث ( من کنت مولاہ ) کے کئ طریق جید ہیں ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر ( 1750 ) میں اس کی تصحیح کرنے کے بعد اس حدیث کو ضعیف کہنے والوں کا مناقشہ کیا ہے ۔

اوراگر یہ جملہ ( من کنت مولاہ فعلی مولاہ ) صحیح بھی مان لیا جاۓ اور اس کے صحیح ہونے سے کسی بھی حال میں یہ حدیث میں ان کلمات کی زیادتی کی دلیل نہیں بن سکتی جس کا غالیوں نے حدیث میں اضافہ کیا ہے تاکہ وہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کوباقی سب صحابہ سے افضل قرار دے سکیں ، یاپھرباقی صحابہ پرطعن کرسکیں کہ انہوں نے ان کا حق سلب کیا تھا ۔

شیخ الاسلام نے ان زيادات اوران کے ضعیف ہونےکا ذکر منھاج السنۃ میں دس مقامات پر کیا ہے ۔

اس حديث کے معنی میں بھی اختلاف کیا گیا ہے ، توجوبھی معنی ہو وہ احاديث صحیحہ میں جویہ ثابت اورمعروف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں افضل ترین شخصیت ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ ہیں اور خلافت کے بھی وہی زيادہ حق دارتھے ان کے بعد عمربن الخطاب اورپھرعثمان بن عفان اوران کےبعد علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنھم سے تعارض نہیں رکھتا ، اس لیے کہ کسی ایک صحابی کی کسی چیزمیں معین فضیلت اس پردلالت نہی کرتی کہ وہ سب صحابہ سے افضل ہیں ، اورنہ ہی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا صحابہ کرام میں سب سے افضل ہونا اس کے منافی ہے جیسا کہ عقائد کے باب میں یہ مقرر شدہ بات ہے ۔

اس حدیث کے جومعانی ذکرکیے گۓ ہیں ان میں کچھ کا ذکر کیا جاتا ہے :

ان کے معنی میں یہ کہا گيا ہے کہ :

یہاں پرمولا ولی جوکہ عدو کی ضدہے کے معنی میں ہے تومعنی یہ ہوگا ، جس سے میں محبت کرتا ہوں علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس سے محبت کرتے ہیں ، اور یہ بھی معنی کیا گيا ہے کہ : جومجھ سے محبت کرتا ہے علی رضی اللہ تعالی عنہ اس سے محبت کرتے ہيں ،یہ معنی قاری نے بعض علماء سےذکرکیا ہے ۔

اورامام جزری رحمہ اللہ تعالی نے نھایہ میں کہا ہے کہ :

حدیث میں مولی کا ذکر کئ ایک بار ہوا ہے ، یہ ایک ایسا اسم ہے جو بہت سے معانی پرواقع ہوتا ہے ، اس کے معانی میں : الرب ، المالک ، السید ، المنعم ( نتمتیں کرنے والا ) ، المعتق آزاد کرنےوالا ) ، الناصر ( مددکرنے والا) ، المحب ( محبت کرنےوالا ) ، التابع ( پیروی کرنے والا) ، الجار( پڑوسی ) ، ابن العم ( چچا کا بیٹا ) ، حلیف ، العقید( فوجی افسر ) ، الصھر ( داماد) العبد ( غلام ) ، العتق ( آزاد کیا گیا ) ، المنعم علیہ ( جس پرنعمتیں کی جائيں ) ۔

ان معانی میں سے اکثرتوحدیث میں وارد ہیں جن کا اضافت کے اعتبارسے معنی کیا جاتا ہے ، توجس نے بھی کوئ کام کیا یا وہ کام اس کے سپرد ہوا تو اس کا مولا اورولی ہے ، اورحدیث مذکورہ کوان مذکورہ اسماء میں سے اکثر پر محمول کیا جا سکتا ہے ۔

امام شافی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اس سے اسلام کی ولاء مراد ہے جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے :

{ یہ اس لیے کہ اللہ تعالی مومنوں کا مولی ومددگار ہے اور کافروں کا کوئ بھی مولی ومددگارنہیں } ۔

اورطیبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

حدیث میں مذکور ولایہ کواس امامت پرمحمول کرنا صحیح نہیں جو مسلمانوں کے امورمیں تصرف ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں مستقل طورپرتصرف کرنے والے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ان کے علاوہ کوئ اورنہیں تواس لیے اسے محبت اورولاء اسلام اوراس جیے معانی پرمحمول کرنا ضروری ہے ۔

دیکھیں تحفۃ الاحوذی لشرح الترمذي حديث نمبر ( 3713 ) اس کی عبارت میں کچھ تصرف کر کے پیش کیا گیا ہے ۔
بہر ام پہلے اپنا سٹیٹس کی سند تو لا ئیں
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
کیا حضرت علی کا صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے آگے سے رسول اللہ کا لفظ مٹانے کے رسول اللہ کے حکم سے انکار کر دینا انکار حدیث تھا۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم، قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.

یہ حدیث ترمذي حدیث نمبر ( 3713 ) ابن ماجہ حدیث نمبر ( 121 ) نے روایت کی ہے اوراس کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے ، زیلعی رحمہ اللہ تعالی نے ھدایہ کی تخریج ( 1 / 189 ) میں کہا ہے کہ :

کتنی ہی ایسی روایات ہیں جن کے راویوں کی کثرت اورمتعدد طرق سے بیان کی جاتیں ہیں ، حالانکہ وہ حدیث ضعیف ہوتی ہے ۔ جیسا کہ حدیث ( جس کا میں ولی ہوں علی ( رضی اللہ تعالی عنہ ) بھی اس کے ولی ہیں ) بھی ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

یہ قول ( جس کا میں ولی ہوں علی ( رضي اللہ تعالی عنہ ) بھی اس کے ولی ہیں ) یہ صحیح کتابوں میں تونہیں لیکن علماء نے اسے بیان کیا اوراس کی تصحیح میں اختلاف کیا ہے ۔

امام بخاری اور ابراھیم حربی محدثین کے ایک گروہ سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے اس قول میں طعن کیا ہے ۔۔۔ لیکن اس کے بعد والا قول ( اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ ) آخرتک ، تویہ بلاشبہ کذب افتراء ہے ۔

دیکھیں منھاج السنۃ ( 7 / 319 ) ۔

امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کے بارہ میں کہتے ہیں :

حديث ( من کنت مولاہ ) کے کئ طریق جید ہیں ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر ( 1750 ) میں اس کی تصحیح کرنے کے بعد اس حدیث کو ضعیف کہنے والوں کا مناقشہ کیا ہے ۔

اوراگر یہ جملہ ( من کنت مولاہ فعلی مولاہ ) صحیح بھی مان لیا جاۓ اور اس کے صحیح ہونے سے کسی بھی حال میں یہ حدیث میں ان کلمات کی زیادتی کی دلیل نہیں بن سکتی جس کا غالیوں نے حدیث میں اضافہ کیا ہے تاکہ وہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کوباقی سب صحابہ سے افضل قرار دے سکیں ، یاپھرباقی صحابہ پرطعن کرسکیں کہ انہوں نے ان کا حق سلب کیا تھا ۔

شیخ الاسلام نے ان زيادات اوران کے ضعیف ہونےکا ذکر منھاج السنۃ میں دس مقامات پر کیا ہے ۔

اس حديث کے معنی میں بھی اختلاف کیا گیا ہے ، توجوبھی معنی ہو وہ احاديث صحیحہ میں جویہ ثابت اورمعروف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں افضل ترین شخصیت ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ ہیں اور خلافت کے بھی وہی زيادہ حق دارتھے ان کے بعد عمربن الخطاب اورپھرعثمان بن عفان اوران کےبعد علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنھم سے تعارض نہیں رکھتا ، اس لیے کہ کسی ایک صحابی کی کسی چیزمیں معین فضیلت اس پردلالت نہی کرتی کہ وہ سب صحابہ سے افضل ہیں ، اورنہ ہی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا صحابہ کرام میں سب سے افضل ہونا اس کے منافی ہے جیسا کہ عقائد کے باب میں یہ مقرر شدہ بات ہے ۔

اس حدیث کے جومعانی ذکرکیے گۓ ہیں ان میں کچھ کا ذکر کیا جاتا ہے :

ان کے معنی میں یہ کہا گيا ہے کہ :

یہاں پرمولا ولی جوکہ عدو کی ضدہے کے معنی میں ہے تومعنی یہ ہوگا ، جس سے میں محبت کرتا ہوں علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس سے محبت کرتے ہیں ، اور یہ بھی معنی کیا گيا ہے کہ : جومجھ سے محبت کرتا ہے علی رضی اللہ تعالی عنہ اس سے محبت کرتے ہيں ،یہ معنی قاری نے بعض علماء سےذکرکیا ہے ۔

اورامام جزری رحمہ اللہ تعالی نے نھایہ میں کہا ہے کہ :

حدیث میں مولی کا ذکر کئ ایک بار ہوا ہے ، یہ ایک ایسا اسم ہے جو بہت سے معانی پرواقع ہوتا ہے ، اس کے معانی میں : الرب ، المالک ، السید ، المنعم ( نتمتیں کرنے والا ) ، المعتق آزاد کرنےوالا ) ، الناصر ( مددکرنے والا) ، المحب ( محبت کرنےوالا ) ، التابع ( پیروی کرنے والا) ، الجار( پڑوسی ) ، ابن العم ( چچا کا بیٹا ) ، حلیف ، العقید( فوجی افسر ) ، الصھر ( داماد) العبد ( غلام ) ، العتق ( آزاد کیا گیا ) ، المنعم علیہ ( جس پرنعمتیں کی جائيں ) ۔

ان معانی میں سے اکثرتوحدیث میں وارد ہیں جن کا اضافت کے اعتبارسے معنی کیا جاتا ہے ، توجس نے بھی کوئ کام کیا یا وہ کام اس کے سپرد ہوا تو اس کا مولا اورولی ہے ، اورحدیث مذکورہ کوان مذکورہ اسماء میں سے اکثر پر محمول کیا جا سکتا ہے ۔

امام شافی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اس سے اسلام کی ولاء مراد ہے جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے :

{ یہ اس لیے کہ اللہ تعالی مومنوں کا مولی ومددگار ہے اور کافروں کا کوئ بھی مولی ومددگارنہیں } ۔

اورطیبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

حدیث میں مذکور ولایہ کواس امامت پرمحمول کرنا صحیح نہیں جو مسلمانوں کے امورمیں تصرف ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں مستقل طورپرتصرف کرنے والے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ان کے علاوہ کوئ اورنہیں تواس لیے اسے محبت اورولاء اسلام اوراس جیے معانی پرمحمول کرنا ضروری ہے ۔

دیکھیں تحفۃ الاحوذی لشرح الترمذي حديث نمبر ( 3713 ) اس کی عبارت میں کچھ تصرف کر کے پیش کیا گیا ہے ۔
بہر ام پہلے اپنا سٹیٹس کی سند تو لا ئیں

السَّيفُ الجَلي علٰي مُنکرِ وِلايةِ علِیّ


شهدتُّ عليًّا رضي اللهُ عنه في الرَحَبَةِ ينشُدُ الناسَ: أَنشُدُ اللهَ مَن سمِعَ رسول َالله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقول ُيوم غَدِيرِ خُمٍّ: مَن كنتُ مولاهُ فعليٌّ مولاهُ لمَّا قامَ فشَهِدَ قال عبدُ الرحمنِ: فقامَ اثنا عَشَرَ بَدْرِيًّا كأَنِّي أنظرُ إلى أحدِهِم فقالُوا: نشهدُ أنَّا سمِعْنَا رسولَ الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ يوم غديرِ خمٍّ: ألستُ أولَى بالمؤمنينَ من أنفسِهِم وأزواجِي أمهاتُهُم فقلنَا: بلَى يا رسولَ اللهِ قال: فمَن كنتُ مولاه ُفعليٌّ مولاهُ اللهمَّ والِ من والاُه وعادِ مَن عادَاهُ

الراوي: عبدالرحمن بن أبي ليلى المحدث: أحمد شاكر - المصدر: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 2/199

خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نشد علي الناس في الرحبة من سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول يوم غديرخم إلا قام قال : فقام من قبل سعيد ستة ومن قبل زيد ستة فشهدوا أنهم سمعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لعلي رضي الله عنه يوم غديرخم : أليس الله أولى بالمؤمنين قالوا : بلى قال : اللهم من كنت مولاه فعلي مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه [ وفي روية ] زاد فيه وانصر من نصره واخذل من خذله

الراوي: سعيد بن وهب و زيد بن يثيع المحدث: أحمد شاكر - المصدر: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 2/195

خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
أنه مرَّ على مجلسٍ وهم يتناولون من عليٍّ فوقف عليهم فقال إنه قد كان في نفسي على عليٍّ شيءٌ وكان خالدُ بنُ الوليدِ كذلك فبعثَني رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ في سرِيَّةٍ عليها عليٌّ وأصبْنا سبيًا قال فأخذ عليٌّ جاريةً من الخُمسِ لنفسِه فقال خالدُ بنُ الوليدِ دونَك قال فلما قدِمْنا على النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ جعلتُ أُحدِّثُه بما كان ثمَّ قلتُ إنَّ عليًّا أخذ جاريةً من الخُمُسِ قال وكنتُ رجلًا مِكبابًا قال فرفعتُ رأسي فإذا وجهُ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ تغيَّر فقال من كنتُ مولاهُ فعليٌّ مولاه

الراوي: بريدة بن الحصيب الأسلمي المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 4/336

خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح على شرط الشيخين أو مسلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاء رهطٌ إلى عليٍّ بالرَّحْبةِ ، فقالوا : السلامُ عليكَ يا مولانا ، قال : كيف أكون مولاكم ، وأنتم قومٌ عُرْبٌ ؟ قالوا : سمِعْنا رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يومَ غديرِ خُمَّ يقول : من كنتُ مولاهُ فعليٌّ مولاه قال رباحٌ : فلما مضَوا تبعتُهم فسألتُ : مَن هؤلاءِ ؟ قالوا : نفرٌ من الأنصارِ فيهم أبو أيوبٍ الأنصاريُّ
الراوي: نفر من الأنصار و أبو أيوب الأنصاري المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 4/340

خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد رجاله ثقا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

من كنت مولاه ، فعلي مولاه ، اللهم وال من والاه ، وعاد من عاداه
الراوي: زيد بن أرقم و سعد بن أبي وقاص و بريدة بن الحصيب و علي بن أبي طالب و أبو أيوب الأنصاري و البراء بن عازب و ابن عباس و أنس بن مالك و أبو سعيد الخدري و أبو هريرة المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 1750
خلاصة حكم المحدث: صحيح

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نشد علي الناس في الرحبة من سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول يوم غدير خم إلا قام فقام من قبل سعيد ستة ومن قبل زيد ستة فشهدوا أنهم سمعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لعلي رضي الله عنه يوم غدير خم أليس الله أولى بالمؤمنين قالوا بلى قال اللهم من كنت مولاه فعلي مولاه . .
الراوي: علي بن أبي طالب و اثنا عشر رجلا المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 4/338
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله
الراوي: سعد بن أبي وقاص المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 98
خلاصة حكم المحدث: صحيح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خرجتُ مع عليٍّ رضيَ اللهُ عنهُ إلى اليمنِ فرأيتُ منه جَفوةً ، فقدِمتُ على النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ، فذكرتُ عليًّا ، فتنقَّصتُه ، فجعل رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يتغيَّرُ وجهُه ، فقال : يا بُريدةُ ! ألستُ أولى بالمؤمنين من أنفسِهم ؟ قلتُ : بلى يا رسولَ اللهِ ، قال : من كنتُ مولاهُ فعليٌّ مولاهُ
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 4/336
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح على شرط الشيخين

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

من كنتُ مولاهُ فعليٌّ مولاهُ .
الراوي: أبو سريحة أو زيد بن أرقم المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 3713
خلاصة حكم المحدث: صحيح

[/CENTER]

http://www.dorar.net/enc/hadith?skeys=%20%D9%85%D9%86%20%D9%83%D9%86%D8%AA%D9%8F%20%D9%85%D9%88%D9%84%D8%A7%D9%87%D9%8F%20%D9%81%D8%B9%D9%8E%D9%84%D9%90%D9%8A%D9%8C%D9%91%20%D9%85%D9%88%D9%84%D8%A7%D9%87%D9%8F&m[]=1420&xclude=

یہ اور اس کے علاوہ بہت سی احادیث ہیں ارو صحیح احادیث ہیں اگر آپ مولا علی علیہ السلام کی محبت میں ڈوب کر تلاش کریں تو آپکو مل جائیں گی اور آپکی پوسٹ کی طرح جو کہ آپکے کسی مولوی کا لکھا ہوا ہے اگر پڑھتے رہے اور ایمان لاتے رہے تو آپ ایسی طرح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کرتے رہیں گے ۔
ہمارا کام صرف بیان کردینا ہے ھدایت دینا اللہ کا کام ہے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
کیا حضرت علی کا صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے آگے سے رسول اللہ کا لفظ مٹانے کے رسول اللہ کے حکم سے انکار کر دینا انکار حدیث تھا۔
جی نہیں یہ انکار حدیث نہیں بلکہ ادب تھا ٹھیک اسی طرح جیسا کہ حضرت ابو بکر نے رسول اللہ کا ادب کیا ہوا یوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال سے پہلے حضرت ابو بکر نماز پڑھا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت کچھ بہترہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر حضرت ابوبکر پیچھے ہٹنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو حکم دیا کہ نماز پڑھاتے رہو لیکن اس کے باوجود حضرت ابو بکر پیچھے ہٹکر صف میں شامل ہوگئے اور بقیہ نماز کی امامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمائی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلام پھیرکر حضرت ابو بکر سے فرمایا کہ جب میں تمہیں نماز جاری رکھنے کا کہا تو تم پیچھے کیوں ہوئے حضرت ابو بکر نے عرض کی کہ ابو قحافہ کے بیٹے کی یہ مجال کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے ہو ۔

لیکن میرا سوال اب بھی تشنہ ہے چلے اب تھوڑا واضع کرکے پھر سوال دھراتا ہوں
جو لوگ یہ گمان کرکے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں( نوٹ یہاں مترجم کو بھی شرم آگئی اور اس نے بریکیٹ میں لکھا کہ " (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے) " ) یہ کہے کہ " تمہارے پاس قرآن مجید تو موجود ہے ہی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے"
تو اس کو انکار حدیث کہہ سکتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
بہرام بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر دے

یہ حدیث بہت ہی مستند اور متواتر ہے پر۔۔۔۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

یہ قول ( جس کا میں ولی ہوں علی ( رضي اللہ تعالی عنہ ) بھی اس کے ولی ہیں ) یہ صحیح کتابوں میں تونہیں لیکن علماء نے اسے بیان کیا اوراس کی تصحیح میں اختلاف کیا ہے ۔

انا للہ و انا الیہ راجعون
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جی نہیں یہ انکار حدیث نہیں بلکہ ادب تھا ٹھیک اسی طرح جیسا کہ حضرت ابو بکر نے رسول اللہ کا ادب کیا ہوا یوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال سے پہلے حضرت ابو بکر نماز پڑھا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت کچھ بہترہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر حضرت ابوبکر پیچھے ہٹنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو حکم دیا کہ نماز پڑھاتے رہو لیکن اس کے باوجود حضرت ابو بکر پیچھے ہٹکر صف میں شامل ہوگئے اور بقیہ نماز کی امامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمائی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلام پھیرکر حضرت ابو بکر سے فرمایا کہ جب میں تمہیں نماز جاری رکھنے کا کہا تو تم پیچھے کیوں ہوئے حضرت ابو بکر نے عرض کی کہ ابو قحافہ کے بیٹے کی یہ مجال کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے ہو ۔
جہالت اور تعصب کا امتزاج ہی تبرا اور تقیہ جیسے عقائد کو جنم دیتا ہے اور یہی دو چیزیں یہاں بھی موجود ہیں۔
صلح حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےواضح اور صریح حکم، کہ معاہدے میں سے رسول اللہ کے الفاظ مٹا دو، کا انکار اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کریں تو وہ آپ کے نزدیک ادب میں داخل ہے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایسے ہی حکم کا انکار، جو ان کو تکلیف سے بچانے کی غرض سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کریں تو یہ انکار حدیث ہے۔ ماشاءاللہ۔

اب آپ کے تشنہ سوال پر آتے ہیں۔
لیکن میرا سوال اب بھی تشنہ ہے چلے اب تھوڑا واضع کرکے پھر سوال دھراتا ہوں
جو لوگ یہ گمان کرکے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں( نوٹ یہاں مترجم کو بھی شرم آگئی اور اس نے بریکیٹ میں لکھا کہ " (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے) " ) یہ کہے کہ " تمہارے پاس قرآن مجید تو موجود ہے ہی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے"
تو اس کو انکار حدیث کہہ سکتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟
پہلے تو مترجم کے الفاظ ملاحظہ کیجئے:

ترجمہ از داؤد راز
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے سلیما ن احول نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جمعرات کے دن کا ذکر کیا اور فرمایامعلوم بھی ہے جمعرات کے دن کیا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں تیزی پیدا ہوئی تھی۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ لاؤ، میں تمہارے لیے وصیت نامہ لکھ دوںکہ تم اس پر چلو گے تو اس کے بعد پھر تم کبھی صحیح راستے کو نہ چھوڑوگے لیکن یہ سن کر وہاں اختلاف پیدا ہو گیا، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نزاع نہ ہونا چاہئیے۔ بعض لوگو ں نے کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں؟ (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے) پھر آپ سے بات سمجھنے کی کو شش کرو۔ پس آپ سے صحابہ پوچھنے لگے۔ آپ نے فرمایا جاؤ (یہاں شوروغل نہ کرو) میں جس کام میں مشغول ہوں، وہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم کہہ رہے ہو۔ اس کے بعد آپ نے صحابہ کو تین چیزوں کی وصیت کی، فرمایا کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ ایلچی (جو قبائل کے تمہارے پاس آئیں) ان کی اس طرح خاطر کیا کرناجس طرح میں کرتا آیا ہوں اور تیسری بات ابن عباس نے یا سعیدنے بیان نہیں کی یا سعید بن جبیر نے یا سلیمان نے کہا میں تیسری بات بھول گیا۔
پہلی بات یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کے آخری ایام میں اہل بیت بھی موجود تھے یا نہیں؟ تو یہاں جن "بعض لوگوں" کا ذکر ہے، کیا ضرور کہ یہ مانا جائے کہ یہ صحابہ کرام ہی تھے، کیا معلوم یہ اہل بیت ہی ہوں یا صحابہ کے ساتھ اہل بیت بھی شامل ہوں؟ کیا صحابہ کی تخصیص کی کوئی دلیل ہے؟
دوسری بات یہ کہ آپ جملہ پر غور کیجئے یہ سوالیہ جملہ ہے نا کہ بیان۔ یہ بعض لوگ جو شاید بات کو سمجھ نہیں پائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے، دوسرے لوگوں سے مخاطب ہو کر سوالیہ انداز میں پوچھ رہے ہیں کہ کیا آپ شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں؟ اور اس سوالیہ جملہ کو آپ بیانیہ میں بدل کر انکار حدیث جوڑ رہے ہیں۔ اندھے کو اندھیرے میں کچھ زیادہ دور کی نہیں سوجھی؟
تیسری بات یہ کہ اس سوالیہ جملے کے بعد "پھر آپ سے بات سمجھنے کی کوشش کرو" کا جملہ ہماری بات کو مبرہن کر دیتا ہے کہ ان بعض لوگوں کو واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی سمجھ ہی نہیں لگی تھی، اسی لئے دوبارہ سمجھنے کی کوشش کا ذکر ہے۔ نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سے انکار کا۔

یہ تو ہوئی آپ کی تشنگی کی بات۔ اب حدیث کے درج ذیل الفاظ بھی ملاحظہ کیجئے، جن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے اور وہاں واضح طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف و مشقت سے بچانے کی خاطر انکار مذکور ہے:

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو ہشام نے خبر دی ‘ انہیں معمر نے ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو گھر میں بہت سے صحابہ موجود تھے، جن میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے اس وقت آپ نے فرمایا کہ آؤ میں تمہارے لیے ایک ایسا مکتوب لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس وقت آپ نے فرمایا کہ آؤ میں تمہارے لیے ایک ایسا مکتوب لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں مبتلا ہیں ‘ تمہارے پاس اللہ کی کتاب ہے اور یہی ہمارے لیے کافی ہے۔ گھر کے لوگوں میں بھی اختلاف ہو گیا اور آپس میں بحث کرنے لگے۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب (لکھنے کا سامان) کر دو۔ وہ تمہارے لیے ایسی چیز لکھ دیں گے کہ اس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے اور بعض نے وہی بات کہی جو عمر رضی اللہ عنہ کہہ چکے تھے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ اختلاف وبحث زیادہ کرنے لگے تو آپ نے فرمایا کہ میرے پاس سے ہٹ جاؤ۔ عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ سب سے بھاری مصیبت تو وہ تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اس نوشت لکھوانے کے درمیان حائل ہوئے ‘ یعنی جھگڑا اور شور۔ (والخیر فیما وقع)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف اور مشقت سے بچانے کے لئے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا حکم نہ مانا تو یہ آپ کے نزدیک انکار حدیث ہو گیا۔ حالانکہ یہ بھی ادب ، احترام، خلوص اور محبت کی علامت ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تو صلح حدیبیہ کے موقع پر صریحاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کی (نعوذباللہ)، تو وہ کیسے ادب ہو گیا؟
لینے اور دینے کے علیحدہ باٹ رکھنا منافقین کی نشانی ہے۔

امید ہے آپ کی تشنگی دور نہیں ہوئی ہوگی، کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض و کینہ رکھنے والے دل بھلا اس دنیا میں سیراب کیسے ہوں گے۔ یہ تشنگی تو شاید قبر کی مٹی ہی دور کرے گی۔ واللہ اعلم۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
حدیث ہی میں وجہ موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوگی، ان کے آرام کے خیال سے یہ بات کہی گئی تھی۔ جسے آپ بالکل مختلف تناظر میں پیش کر رہے ہیں۔


ہ" تمہارے پاس قرآن مجید تو موجود ہے ہی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے"


آئیں دیکھتے ہیں کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آرام کے خاطر کہی گئی یا اس کی کوئی اور وجہ ہے امام بخاری سے معلوم کرتے ہیں

صحیح بخاری
کتاب المغازی
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا بیان
حدیث نمبر: 4431
حدثنا قتيبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سليمان الأحول،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن سعيد بن جبير،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال قال ابن عباس يوم الخميس وما يوم الخميس اشتد برسول الله صلى الله عليه وسلم وجعه فقال ‏"‏ ائتوني أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا ‏"‏‏.‏ فتنازعوا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا ينبغي عند نبي تنازع،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقالوا ما شأنه أهجر استفهموه فذهبوا يردون عليه‏.‏ فقال ‏"‏ دعوني فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه ‏"‏‏.‏ وأوصاهم بثلاث قال ‏"‏ أخرجوا المشركين من جزيرة العرب،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم ‏"‏‏.‏ وسكت عن الثالثة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أو قال فنسيتها‏.‏

ترجمہ از داؤد راز
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے سلیما ن احول نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جمعرات کے دن کا ذکر کیا اور فرمایامعلوم بھی ہے جمعرات کے دن کیا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں تیزی پیدا ہوئی تھی۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ لاؤ، میں تمہارے لیے وصیت نامہ لکھ دوںکہ تم اس پر چلو گے تو اس کے بعد پھر تم کبھی صحیح راستے کو نہ چھوڑوگے لیکن یہ سن کر وہاں اختلاف پیدا ہو گیا، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نزاع نہ ہونا چاہئیے۔ بعض لوگو ں نے کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں؟ (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے) پھر آپ سے بات سمجھنے کی کو شش کرو۔ پس آپ سے صحابہ پوچھنے لگے۔ آپ نے فرمایا جاؤ (یہاں شوروغل نہ کرو) میں جس کام میں مشغول ہوں، وہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم کہہ رہے ہو۔ اس کے بعد آپ نے صحابہ کو تین چیزوں کی وصیت کی، فرمایا کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ ایلچی (جو قبائل کے تمہارے پاس آئیں) ان کی اس طرح خاطر کیا کرناجس طرح میں کرتا آیا ہوں اور تیسری بات ابن عباس نے یا سعیدنے بیان نہیں کی یا سعید بن جبیر نے یا سلیمان نے کہا میں تیسری بات بھول گیا۔​

اس سے یہ معلوم ہوا کہ آپ کا یہ استدلال کہ " آرام کے خیال سے یہ بات کہی گئی تھی " باطل ہوجاتا ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لکھنے کا سامان لانے کو کہا تو وصیت لکھنے کے لئے سامان آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پش کر دینا تھا لیکن اس کے برعکس یہ گمان کیا گیا نعوذباللہ کہ " آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں" اور ایک نزاع پیدا ہوا اور شور غل برپا کرکے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوناراض اور بے آرام کیا گیا



جہالت اور تعصب کا امتزاج ہی تبرا اور تقیہ جیسے عقائد کو جنم دیتا ہے اور یہی دو چیزیں یہاں بھی موجود ہیں۔
صلح حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےواضح اور صریح حکم، کہ معاہدے میں سے رسول اللہ کے الفاظ مٹا دو، کا انکار اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کریں تو وہ آپ کے نزدیک ادب میں داخل ہے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایسے ہی حکم کا انکار، جو ان کو تکلیف سے بچانے کی غرض سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کریں تو یہ انکار حدیث ہے۔ ماشاءاللہ۔

اب آپ کے تشنہ سوال پر آتے ہیں۔


پہلے تو مترجم کے الفاظ ملاحظہ کیجئے:


پہلی بات یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کے آخری ایام میں اہل بیت بھی موجود تھے یا نہیں؟ تو یہاں جن "بعض لوگوں" کا ذکر ہے، کیا ضرور کہ یہ مانا جائے کہ یہ صحابہ کرام ہی تھے، کیا معلوم یہ اہل بیت ہی ہوں یا صحابہ کے ساتھ اہل بیت بھی شامل ہوں؟ کیا صحابہ کی تخصیص کی کوئی دلیل ہے؟
دوسری بات یہ کہ آپ جملہ پر غور کیجئے یہ سوالیہ جملہ ہے نا کہ بیان۔ یہ بعض لوگ جو شاید بات کو سمجھ نہیں پائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے، دوسرے لوگوں سے مخاطب ہو کر سوالیہ انداز میں پوچھ رہے ہیں کہ کیا آپ شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں؟ اور اس سوالیہ جملہ کو آپ بیانیہ میں بدل کر انکار حدیث جوڑ رہے ہیں۔ اندھے کو اندھیرے میں کچھ زیادہ دور کی نہیں سوجھی؟
تیسری بات یہ کہ اس سوالیہ جملے کے بعد "پھر آپ سے بات سمجھنے کی کوشش کرو" کا جملہ ہماری بات کو مبرہن کر دیتا ہے کہ ان بعض لوگوں کو واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی سمجھ ہی نہیں لگی تھی، اسی لئے دوبارہ سمجھنے کی کوشش کا ذکر ہے۔ نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سے انکار کا۔

یہ تو ہوئی آپ کی تشنگی کی بات۔ اب حدیث کے درج ذیل الفاظ بھی ملاحظہ کیجئے، جن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے اور وہاں واضح طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف و مشقت سے بچانے کی خاطر انکار مذکور ہے:


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف اور مشقت سے بچانے کے لئے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا حکم نہ مانا تو یہ آپ کے نزدیک انکار حدیث ہو گیا۔ حالانکہ یہ بھی ادب ، احترام، خلوص اور محبت کی علامت ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تو صلح حدیبیہ کے موقع پر صریحاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کی (نعوذباللہ)، تو وہ کیسے ادب ہو گیا؟
لینے اور دینے کے علیحدہ باٹ رکھنا منافقین کی نشانی ہے۔

امید ہے آپ کی تشنگی دور نہیں ہوئی ہوگی، کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض و کینہ رکھنے والے دل بھلا اس دنیا میں سیراب کیسے ہوں گے۔ یہ تشنگی تو شاید قبر کی مٹی ہی دور کرے گی۔ واللہ اعلم۔
یہ آپ نے کون سی بات کردی سوالیہ اور بیانیاں جملے والی جبکہ چودویں صدی کا ایک مولوی جانتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس سے یہ بعید ہے کہ بے معانی کلام فرمائیں لیکن کیا صحابہ یہ بات نہیں جانتے تھے ؟ نہیں جانتے تھے جب ہی تو سوال کیا ۔کیا خیال ہے ؟
صلح حدیبیہ کے موقع پر کن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صریح احکامات سے انکار کیا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بحث و تکرار کی یہ بھی آپ اچھی طرح جانتے ہونگے ؟؟؟

امید ہے آپ کی تشنگی دور نہیں ہوئی ہوگی، کیونکہ اہل بیت اطہار سے بغض و کینہ رکھنے والے دل بھلا اس دنیا میں سیراب کیسے ہوں گے۔ یہ تشنگی تو شاید قبر کی مٹی بھی دور نہ کرےکیونکہ وہاں بھی اہل بیت اطہار کے جدامجد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیں گے جس کی وجہ سے تشنگی اور بڑھ جائے کی ۔
واللہ اعلم ورسولہ اعلم
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
ممبران سے گزارش ھے کہ موضوع پر رھیں تا کہ اعتراضات کا تسلی بخش حل نکالا جا سکے۔ یہ اعتراض بھی برسوں نھی صدیوں پرانا ھے، مگر ھمیشہ پیش اس طرح کیا جاتا ھے جیسے کوئی بھت بڑی نئی تحقیق پیش کی گئی ھے۔ اعتراض کیونکہ صحیح بخاری کی حدیث پر کیا گیا ھے، اس لئے جواب بھی صحیح بخاری کی حدیث سے دیا جایگا، ، کھلے دل سے پڑھئے اور اللہ سے ھدایت طلب کی جیئے۔

"راجہ بھائی" کے جواب سے ایک اعتراض تو رفع ھو گیا کہ:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف اور مشقت سے بچانے کے لئے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا حکم نہ مانا تو یہ آپ کے نزدیک انکار حدیث ہو گیا۔ حالانکہ یہ بھی ادب ، احترام، خلوص اور محبت کی علامت ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تو صلح حدیبیہ کے موقع پر صریحاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کی (نعوذباللہ)، تو وہ کیسے ادب ہو گیا؟
لینے اور دینے کے علیحدہ باٹ رکھنا منافقین کی نشانی ہے"

باقی رہی بات بھرام بھئی کی کہ:

" چودویں صدی کا ایک مولوی جانتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس سے یہ بعید ہے کہ بے معانی کلام فرمائیں لیکن کیا صحابہ یہ بات نہیں جانتے تھے ؟ نہیں جانتے تھے جب ہی تو سوال کیا ۔کیا خیال ہے ؟ "

تو بھرام بھائی خیال الحمدللہ نیک ھے، اور یہی نیک خیال صحابہ کا بھی تھا، اور صحابہ کو ہم معصوم عن الخطا نھی مانتے، جس وقت اللہ رب العزت کا سب سے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے مرض میں مبتلا ھو جس کی وجہ سے وہ دنیا فانی سے رخصت ھو جایئں، تو ایسے وقت میں صحابہ نے پریشانی میں اگرایسا کچھ سوچا بھی تو یہ انسانی فطرت ھے، اس پر اعتراض مت کیجیے، اور یہ بھی ملحوظ خاطر رکھہئے کہ حضرت علی و حضرت فاطمہ ، حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہ اجمعین بھی صحابہ میں ھی شامل ھیں، اور بوقت مرض الموت تو یقیناََ ان کے ساتھ ماجاد ھونگے۔۔۔ تو برائے مھربانی یہ مت کھیں کہ : " کیا صحابہ یہ بات نہیں جانتے تھے ؟ نہیں جانتے تھے جب ہی تو سوال کیا ۔کیا خیال ہے ؟"

اللہ ہمیں ھدایت دے، باقی رھا اعتراض کا دوسرا پہلو کہ :

" تمہارے پاس قرآن مجید تو موجود ہے ہی ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے"

در اصل اس جملے کو سمجھنے میں معترض کو غلط فہمی ھوئی ھے، کیونکہ جس طرح لفظ "کتاب اللہ" قرآن میں بھی مختلف معانوں میں استعمال ھوا ھے، اسی طرح یہاں پر بھی ایک خاص معانی میں استعمال ھوا ھے جو معانی دور نبوی میں اکثر استعمال ھوتا تھا: اعتراض کیونکہ صحیح بخاری کی حدیث پر کیا گیا ھے، اس لئے جواب بھی صحیح بخاری کی حدیث سے پیش خدمت ھے ( ٹایپنگ میں دشواری ھے اس لئے ایمج اپلوڈ کر رھا ھوں)

 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
یہ آپ نے کون سی بات کردی سوالیہ اور بیانیاں جملے والی جبکہ چودویں صدی کا ایک مولوی جانتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس سے یہ بعید ہے کہ بے معانی کلام فرمائیں لیکن کیا صحابہ یہ بات نہیں جانتے تھے ؟ نہیں جانتے تھے جب ہی تو سوال کیا ۔کیا خیال ہے ؟
صلح حدیبیہ کے موقع پر کن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صریح احکامات سے انکار کیا بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بحث و تکرار کی یہ بھی آپ اچھی طرح جانتے ہونگے ؟؟؟
ایک بات پیش کرتا چلوں
اس بات کا تو معلوم ہوگیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ لکھنے سے منع کرنا ادب کے طور پر تھا جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت علی کرم اللہ وجھہ کا انکار تھا۔
بہرام صاحب نے ایک اور جملہ بھی ہائیٹ لائٹ کر کے اس کی طرف توجہ دلائی ہے ۔
فقالوا ما شأنه أهجر
بعض لوگو ں نے کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں؟ (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے)
میں صرف اھجر کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں
یہاں اھجر میں ہمزہ الاستفھام بطور الاستفہام الانکاری کے طور پر ہے جیسا کہ قرآن میں بھی کئی جگہ الاستفہام الانکاری سے بات کی گئی بے ۔
مثال کے طور پر
أإله مع الله بل أكثرهم لا يعلمون
کیا اللہ ہم سے پوچھ رہا ہے کہ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے ۔ نہیں یہاں استفہام انکاری ہے ۔ انکار بطور سوال ہے
اسی طرح ا ھجر میں بھی ہمزہ استفہام انکاری کا ہے
یہ بات تو واضح ہے کہ یہ کلمہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نہیں ۔ یہ کلمہ ان کا ضرور ہے جو اس موقع پر چاہتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کچھ لکھ دیں ۔ اس لئیے انہوں نے استفہام انکاری سے سوال کیا ۔ مراد ان حضرات کی یہ تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو کبھی بھی بے معنی بات نہیں کرتے تو ان کے حکم کی تعمیل ہونی چاہئیے ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مد نظر ادب تھا
اسی ہمزہ الاستفہام کو جو بطور استفہام انکاری کے آیا ہے کی وضاحت کے لئیے مترجم نے بریکٹ میں وضاحتی الفاظ لکھے ہیں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ایک بات پیش کرتا چلوں
اس بات کا تو معلوم ہوگیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ لکھنے سے منع کرنا ادب کے طور پر تھا جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت علی کرم اللہ وجھہ کا انکار تھا۔
بہرام صاحب نے ایک اور جملہ بھی ہائیٹ لائٹ کر کے اس کی طرف توجہ دلائی ہے ۔

میں صرف اھجر کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں
یہاں اھجر میں ہمزہ الاستفھام بطور الاستفہام الانکاری کے طور پر ہے جیسا کہ قرآن میں بھی کئی جگہ الاستفہام الانکاری سے بات کی گئی بے ۔
مثال کے طور پر
أإله مع الله بل أكثرهم لا يعلمون
کیا اللہ ہم سے پوچھ رہا ہے کہ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے ۔ نہیں یہاں استفہام انکاری ہے ۔ انکار بطور سوال ہے
اسی طرح ا ھجر میں بھی ہمزہ استفہام انکاری کا ہے
یہ بات تو واضح ہے کہ یہ کلمہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نہیں ۔ یہ کلمہ ان کا ضرور ہے جو اس موقع پر چاہتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کچھ لکھ دیں ۔ اس لئیے انہوں نے استفہام انکاری سے سوال کیا ۔ مراد ان حضرات کی یہ تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو کبھی بھی بے معنی بات نہیں کرتے تو ان کے حکم کی تعمیل ہونی چاہئیے ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مد نظر ادب تھا
اسی ہمزہ الاستفہام کو جو بطور استفہام انکاری کے آیا ہے کی وضاحت کے لئیے مترجم نے بریکٹ میں وضاحتی الفاظ لکھے ہیں
چلیں آپ کی تشریح کے مطابق اس واقعہ کو تسلسل سے رقم کرتے ہیں

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
"‏ هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده ‏"‏‏
صحیح بخاری حدیث نمبر : 7366
ترجمہ از داؤد راز
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کہ آؤ میں تمہارے لیے ایک ایسا مکتوب لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو

اس کے جواب میں حضرت عمر نے کہا

قال عمر إن النبي صلى الله عليه وسلم غلبه الوجع وعندكم القرآن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فحسبنا كتاب الله‏

صحیح بخاری حدیث نمبر : 7366
ترجمہ از داؤد راز
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں مبتلا ہیں ‘ تمہارے پاس اللہ کی کتاب ہے اور یہی ہمارے لیے کافی ہے

اس کے جواب میں بقول آپ کے جو لوگ یہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکتوب لکھ دیں انھوں نے یہ کہا

[فقالوا ما شأنه أهجر

ترجمہ آپ کی تشریح کے مطابق

کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں؟ (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے)
نوٹ: یاد رہے یہ آپ ہی کی تشرح کے مطابق ترجمہ ہے
اس کے بعد
فاختلف أهل البيت فاختصموا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ منهم من يقول قربوا يكتب لكم النبي صلى الله عليه وسلم كتابا لن تضلوا بعده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ومنهم من يقول ما قال عمر فلما أكثروا
صحیح بخاری حدیث نمبر : 5669
ترجمہ از داؤد راز
اس مسئلہ پر گھر میں موجود صحابہ کا اختلاف ہو گیا اور بحث کرنے لگے۔ بعض صحابہ کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو (لکھنے کی چیزیں) دے دو تاکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسی تحریر لکھ دیں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو سکو اور بعض صحابہ وہ کہتے تھے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔

حضرت ابن عباس اس کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ

قال عبيد الله فكان ابن عباس يقول إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين أن يكتب لهم ذلك الكتاب من اختلافهم ولغطهم‏.‏
صحیح بخاری حدیث نمبر : 5669
ترجمہ از داؤد راز
حضرت عبیداللہ نے بیان کیا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ سب سے زیادہ افسوس یہی ہے کہ ان کے اختلاف اور بحث کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تحریر نہیں لکھی جو آپ مسلمانوں کے لیے لکھنا چاہتے تھے۔

اس پورے قصے میں کون لوگ حق کے قریب تھے جو یہ کہتے تھے کہ "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو (لکھنے کی چیزیں) دے دو تاکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسی تحریر لکھ دیں جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو سکو" یا پھر وہ لوگ جو کہتے تھے جو حضرت عمر نے کہا تھا۔ فیصلہ آپ پر
 
Top