• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ کہنا درست ہے کہ "میں اللہ کو حاضر ناضر جان کر قسم اٹھاتا ہوں" ؟

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
رفیق طاھر بھائی، ابو الحسن علوی بھائی اور انس نضر بھائی، اللہ تعالیٰ آپ تینوں احباب کے علم میں مزید اضافہ فرمائیں اور آپ ہمارے عقائد و اعمال کی منہج نبوی کے مطابق اصلاح کرتے رہیں۔ ان باریک باتوں پر کبھی سوچا نہیں تھا جو آپ حضرات کی بدولت پڑھنے کو مل جاتی ہیں۔ جزاکم اللہ خیراً کثیراً فی الدارین۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
1۔اللہ تعالیٰ ہر جگہ حاضر ہے ، کا اگر یہ معنی لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے تو اس اعتبار سے یہ شرک ہے کیونکہ اللہ تعالی ہر جگہ موجود ہے، کا لازمی تقاضا ہے کہ اللہ تعالی وہاں بھی موجود ہے جہاں میں ہوں یا آپ ہیں یا کوئی اور شیئ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا وجود ہر شیئ کواپنی ذات کے اعتبار سے شامل ہے۔بس ہر شیئ اللہ کے وجود میں شامل ہے۔
2۔ دراصل یہ فلسفیوں کا پھیلایا ہوا غلط نقطہ نظر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور اس نقطہ نظر کی بنیاد یہ عقلی اصول ہے کہ اللہ کی ذات لا محدود ہے اور جب آپ اللہ کی ذات کو آسمانوں میں یا عرش پر قید کر دیتے ہیں تو وہ محدود ہو جاتی ہے جس سے اللہ کی ذات میں نقص اور عیب لازم آتا ہے۔
3۔ اس اصول کی بنیاد ہی غلط ہے۔ اگر تو اللہ کی ذات کے بارے یہ کہیں کہ وہ لامحدود ہے اور ہر جگہ موجود ہے تو وہاں بھی اللہ کا وجود ہے، جہاں میرا وجود ہے ۔ گویا کہ ایک مقام ایسا ہے جسے میرا اور اللہ کا وجود دونوں نے گھیر رکھا ہے اور یہ بدترین شرک ہو جاتا ہے ۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ اللہ کا وجود وہاں نہیں ہے ، جہاں میرا وجود ہے تو آپ نے اللہ کے وجود کو محدود مان لیا۔
4۔ اہل سنت اس قسم کے عقلی اور کلامی بحثوں میں نہیں پڑتے یعنی وہ اللہ کے بارے محدود یا لامحدود ہونے کی بحث کرنے ہی کے قائل نہیں ہیں کیونکہ جو بحث توحید کے بیان میں کتاب وسنت میں وارد نہیں ہوئی تو وہ اسے بیان نہیں کرتے ہیں اور اس بارے سوال کو بدعت قرار دیتے ہیں جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا واقعہ معروف ہے۔
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376
اللہ تعالی اپنے عرش پر مستوی ہے اور معیت سے مراد علم ہے
اس پر تفصیل کا طالب (توحید خالص از شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ )کا مطالعہ کرے
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
مجھے کافی عرصہ تک یہ اشکال رہتا تھا کہ جب سلفیہ اور اہل الحدیث توحید اسماء وصفات میں تاویل کے قائل نہیں ہیں تو صفت معیت میں کیوں تاویل کرتے ہیں۔ میر ادل کبھی بھی صفت معیت کی تاویل ’علم‘ سے کرنے پر مطمئن نہیں تھاکیونکہ یہ ایک بنیادی اصول کی خلاف ورزی تھی جسے میں مانتا تھا اور وہ یہ کہ صفات میں تاویل جائز نہیں ہے۔بعض اہل علم اس تاویل کے حق میں یہ ایسے دلائل بھی بیان کرتے تھے کہ جن سے یہ ثابت ہو کہ یہ تاویل نہیں ہے لیکن کبھی دل کو ان دلائل پر بھی اطمینان نہ ہوا۔
پس اس مسئلہ میں مجھے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کاایک قول مل گیا اور مجھے اطمینان حاصل ہو گیا۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ صفت معیت کی تاویل’ علم ‘سے نہیں کرتے بلکہ وہ صفت معیت کو صفت معیت ہی قرار دیتے ہیں ۔ شیخ الاسلام کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالی عرش پر ہوتے ہوئےہمارے ساتھ ہے جیسا کہ اس ذات کے لائق ہے۔ یعنی ہم اس کی تفصیل میں نہیں پڑتے۔ اس کی مثال شیخ الاسلام نے یوں دی ہے کہ جیسے چاند آسمان میں ہوتے ہوئے سفر وحضر میں ہر جگہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اللہ کی صفت معیت کا حقیقی معنی مراد لینے سے اللہ کی ذات کا مخلوق سے اختلاط لازم نہیں آتا ہے جیسا کہ چاند مخلوق کے ساتھ مختلط نہیں ہوتا ہے اور آسمان میں ہوتا ہے لیکن ہم اس چاند کےلیے معیت کا لفظ حقیقت کے اعتبار سے استعمال کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اللہ کی ذات عرش پر مستوی ہوتے ہوئے اور مخلوق سے مختلط نہ ہوتے ہوئے بھی حقیقی معنوں میں مخلوق کے ساتھ ہے۔ شیخ الاسلام عقیدہ واسطیہ میں ایک جگہ فرماتے ہیں:
وقد دخل فيما ذكرناه من الإيمان بالله الإيمان بما أخبر به في كتابه وتواتر عن رسوله وأجمع عليه سلف الأمة من أنه سبحانه فوق سماواته على عرشه على خلقه وهو سبحانه معهم أينما كانوا يعلم ما هم عاملون كما جمع بين ذلك في قوله : ( هو الذي خلق السماوات والأرض في ستة أيام ثم استوى على العرش يعلم ما يلج في الأرض وما يخرج منها وما ينزل من السماء وما يعرج فيها وهو معكم أينما كنتم والله بما تعملون بصير ) . وليس معنى قوله وهو معكم أنه مختلط بالخلق فإن هذا لا توجبه اللغة وهو خلاف ما أجمع عليه سلف الأمة وخلاف ما فطر الله عليه الخلق بل القمر آية من آيات الله من أصغر مخلوقاته وهو موضوع في السماء وهو مع المسافر وغير المسافر أينما كان وهو سبحانه فوق عرشه رقيب على خلقه مهيمن عليهم مطلع عليهم إلى غير ذلك من معاني ربوبيته . وكل هذا الكلام الذي ذكره الله - من أنه فوق العرش وأنه معنا - حق على حقيقته لا يحتاج إلى تحريف
1۔ میرے خیال میں ایک صفت کی دوسری صفت سے تاویل مناسب نہیں ہے کیونکہ اگر صفت معیت سے مراد صفت علم ہی ہوتی تو معیت کی جگہ علم کا لفظ ہی استعمال کیا جاتا۔
2۔ جب ایک دفعہ یہ اصول طے ہو گیا کہ صفات میں حقیقی معنی کا اعتبار ہو گا اور اس کی تاویل نہ ہو گی تو پھر اس اصول کو نہ توڑنا ہی بہتر ہے۔
3۔ صفت معیت کا ایسا حقیقی معنی ممکن ہے جس سے صفت فوقیت اور صفت استوا علی العرش کے ساتھ تطبیق ممکن ہے لہذا جہاں حقیقت اور مجاز دونوں معنی لیے جا سکتے ہوں تو وہاں حقیقی معنی کو ترجیح دینی چاہیے۔
4۔شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے نزدیک اللہ تعالی کے ہرجگہ ساتھ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دائیں بائیں، اس زمین میں میرے ساتھ ہے بلکہ وہ صفت فوقیت کے ساتھ میرے اوپر ہوتے ہوئے میرے ساتھ ہے یعنی یہ معیت دائیں، بائیں ، آگے ، پیچھے یا نیچے کی نہیں ہے بلکہ اوپر سے ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے چاند کی مثال بیان کی ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب
 

Ukashah

رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
53
ری ایکشن اسکور
214
پوائنٹ
65
پس اس مسئلہ میں مجھے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کاایک قول مل گیا اور مجھے اطمینان حاصل ہو گیا۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ صفت معیت کی تاویل’ علم ‘سے نہیں کرتے بلکہ وہ صفت معیت کو صفت معیت ہی قرار دیتے ہیں ۔ شیخ الاسلام کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالی عرش پر ہوتے ہوئےہمارے ساتھ ہے جیسا کہ اس ذات کے لائق ہے۔ یعنی ہم اس کی تفصیل میں نہیں پڑتے
جزاکم اللہ خیرا
اس معاملے میں شیخ الا اسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا موقف صحیح ہے۔ معیت کی تاویل نہیں کرنی چاہے۔ اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین۔
ابن بشیر الحسینوی
اللہ تعالی اپنے عرش پر مستوی ہے اور معیت سے مراد علم ہے
اس پر تفصیل کا طالب (توحید خالص از شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ )کا مطالعہ کرے
شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے کہاں یہ فرمایا ہے اگر ہو سکے تو کتاب سے کا صفحہ نمبر اور اس کتاب کا لنک دے دیں تاکہ اس کا مطالعہ کیا جا سکے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیرا علوی بھائی!
آپ نے تفصیل سے وضاحت کر دی کہ ’معیت‘ سے مراد ’علم‘ لینا صحیح نہیں! اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو خوش رکھیں اور ہمارے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں!
در اصل اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہیں جیسے ان کی ذات کو لائق ہے: ﴿ الرحمٰن على العرش استوىٰ ﴾ ... سورة طه، اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر روز تہائی رات گزرنے کے بعد آسمانِ دُنیا پر بھی تشریف لاتے ہیں، جیسے ان کی ذات کو لائق ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ بھی ہیں جیسے اللہ کی ذات کو لائق ہے: ﴿ وهو معكم أين ما كنتم اور اسی طرح اللہ تعالیٰ ہمارے بہت قریب بھی ہیں، فرمان باری ہے: ﴿ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ﴾، ﴿ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ ﴾، ﴿ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ﴾، ﴿ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَـٰكِن لَّا تُبْصِرُونَ ﴾ جس سے فرشتے یا اللہ کا علم مراد لینا صحیح نہیں۔
اسی طرح علوی بھائی! میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہ کہنا کہ
وہ صفت فوقیت کے ساتھ ہمارے اوپر ہوتے ہوئے ہمارے ساتھ ہیں یعنی یہ معیت دائیں، بائیں ، آگے ، پیچھے یا نیچے کی نہیں ہے بلکہ اوپر سے ہے
بھی ایک لحاظ سے کیفیت بیان کرنا ہے، جس کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہیں تو ہمارے ساتھ یا قریب کیسے ہو سکتے ہیں؟؟؟ حالانکہ ہماری عقل اور علم محدود ہیں، ہم ناقص انسان اللہ رب العٰلمین کے بارے میں زیادہ عقل کے گھوڑے نہیں دوڑا سکتے: ﴿ وما أوتيتم من العلم إلا قليلا ﴾
ہمیں یہی کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر بھی مستوی ہیں جیسے ان کی ذات کو لائق، آسمان دنیا پر بھی تشریف لاتے ہیں جیسے ان کی ذات کو لائق، حشر کے دن فیصلہ کرنے کے لئے بھی تشریف لائیں گے جیسے ان کی ذات کو لائق: ﴿ وجاء ربك والملك صفا صفا ﴾، ہمارے ساتھ اور ہمارے قریب ترین بھی ہیں (ہر جگہ نہیں) جیسے ان کی ذات کو لائق۔ جب وہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں تو کیا عرش پر نہیں ہوتے؟ یا جب وہ عرش پر ہوتے ہیں تو ہمارے ساتھ نہیں ہوتے؟؟؟ یہ سارے فلسفیانہ سوالات ہیں جو ہمارے سلف صالحین کے نزدیک بدعت ہیں: (الاستواء معلوم، والكيف مجهول، والإيمان به واجب، والسؤال عن بدعة)
والله أعلم بالصّواب
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
یقینا اللہ تعالى کی صفات میں سے کسی بھی صفت کی تأویل کرنا جائز نہیں ہے ۔
کیونکہ جس صفت کی بھی تأویل کی جائے اسکا انکار لازم آتا ہے
مثلا اسی وصف معیت سے اگر اللہ تعالى کا علم مراد لے لیا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ کی صفت معیت ہے ہی نہیں بلکہ معیت بول کر علم یا نصرت وغیرہ مراد لیا گیا ہے۔
یعنی وصف معیت کی تأویل وصف معیت کے انکار کو لازم کرتی ہے ۔ اور یہی حال باقی تمام تر صفات کا ہے ۔
در اصل صفات باری تعالى میں تاویل کی ضرورت ان لوگوں کو پیش آتی ہے جو لوگ اللہ تعالى کی صفات کو مخلوق کی صفات سے تشبیہ دیتے ہیں ، یعنی جو بھی شخص اللہ کی کسی بھی صفت کی تاویل کرتا ہے وہ بالضرور تشبیہ کا مرتکب بھی ہوتا ہی ہے ۔
وہ شخص پہلے اللہ کی صفت کو مخلوق کی صفت سے تشبیہہ دیتا ہے اور پھر اسکی سمجھ سے کام باہر جانے لگتا ہے تو وہ تاویل کا مرتکب ہو جاتا ہے ۔
مثلا یہی وصف معیت ہی لےلیں
اللہ کی معیت کو مخلوق کی معیت جیسا سمجھنے کے بعد ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ ایک ذات باری تعالى کی معیت حقیقی بیک وقت اتنے افراد کے ساتھ کیسے ہوسکتی ہے تو انہوں نے اسکی تاویل کرنے میں اپنے عافیت سمجھی اور معیت کی تاویل کبھی علم اور کبھی قدرت اور کبھی نصرت سے کرنے لگے
اسی بناء پر میں نے آغاز میں ہی یہ بات کہہ دی تھی کہ
تعدد مکان تعدد مکین کو مخلوق میں تو مستلزم ہے خالق میں نہیں !!!
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376
جزاکم اللہ خیرا
اس معاملے میں شیخ الا اسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا موقف صحیح ہے۔ معیت کی تاویل نہیں کرنی چاہے۔ اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین۔
شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے کہاں یہ فرمایا ہے اگر ہو سکے تو کتاب سے کا صفحہ نمبر اور اس کتاب کا لنک دے دیں تاکہ اس کا مطالعہ کیا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توحید خالص صفحہ:۲۷۷
راقم معیت سے مرادعلم ہے پر ایک مقالہ پیش کرے گا ان شا ء اللہ
استاد محترم حافظ زبیر علی زئی صاحب نے کہا: ((جو لوگ معکم کو علم و قدرت کے علاوہ کوئی علیحدہ صفت سمجھ بیٹھے ہیں ان کا قول اجماع صحابہ و تابعین ومن بعدہم کے خلاف ہونے کی وجہ سے مرودو ہے ۔)(فتاوی علمیہ :ج۱ص۳۲))
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376
جزاکم اللہ خیرا
اس معاملے میں شیخ الا اسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا موقف صحیح ہے۔ معیت کی تاویل نہیں کرنی چاہے۔ اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ ابن تیمیہ ہی نے کہا: ((وقد ثبت عن السلف انھم قالوا :ھو معھم بعلمہ وقد ذکر ابن عبدالبر وغیرہ :ان ہذا اجماع من الصحابۃ والتابعین لھم باحسان ولم یخالفہم فیہ احد یعتد بقولہ ))(شرح حدیث النزول ص۱۲۶)اور سلف سے ثابت ہے کہ انھوں نے فرمایا :وہ (اللہ )بلحاظ علم ان کے ساتھ ہے اور ابن عبدالبر وغیرہ نے اس پر صحابہ و تابعین کا اجماع نقل کیا ہے ،اور اس سلسلے میں کسی قابل اعتماد شخص نے ان کی مخالفت نہیں کی۔
راقم کہتا ہے کہ اس بارے میں ابن تیمیہ کا یہی موقف صحیح ہے کہ معیت سے مراد علم ہے ۔
راقم اسی موضوع پر عنقریب ایک مقالہ پیش کرے گا ان شا ء اللہ
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376
الله تعالي كي معيت سے مراد علم ہے
-
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ((ھو علی العرش وعلمہ معہم ))(تفسیر ابن ابی حاتم بحوالہ شرح حدیث النزول لا بن تیمیہ ص۱۲۶)
ضحاک بن مزاحم نے کہا: ھو فوق العرش و علمہ معھم اینما کانوا.(تفسیر طبری :ج۱۰ص۲۸)وہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان لوگوں کے ساتھ ہے چاہے وہ جہاں کہیں بھی ہوں.
مقاتل بن حیان النبطی المفسر نے وھو معہم کی تفسیر میں کہا :((وعلمہ معہم ))(السنۃ لعبداللہ بن احمد ۵۹۲)وہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان کے ساتھ ہے .
امام احمد بن حنبل نے (ھومعہم اینما کانوا )کی تشریح میں فرمایا :علمہ .(شرح حدیث النزول ص۱۲۷)یعنی اس کا علم مراد ہے.
امام احمد بن عبداللہ الطلمنکی الاندلسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اہل سنت مسلمانوں کا اس پراحماع ہےکہ(وھو معکم این ما کنتم )(الحدید:۴)وغیرہ آیات کا مطلب یہ کہ ان ذلک علمہ وان اللہ فوق السموات بذاتہ ,مستو علی عرشہ کیف شاء.(شرح حدیث النزول لا بن تیمیہ ص۱۴۴,۱۴۵)بے شک اس سے اللہ کا علم مراد ہے اللہ اپنی ذات کے لحاظ سے آسمانوں پر عرش پر مستوی ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے .
حافظ ابن تیمیہ نے کہا :وقد ثبت عن السلف انھم قالوا :ھو مھم بعلمہ وقد ذکر ابن عبدالبر وغیرہ :ان ہذا اجماع من الصحابۃ والتابعین لھم باحسان ولم یخالفہم فیہ احد یعتد بقولہ ))(شرح حدیث النزول ص۱۲۶)
اور سلف سے ثابت ہے کہ انھوں نے فرمایا :وہ (اللہ )بلحاظ علم ان کے ساتھ ہے اور ابن عبدالبر وغیرہ نے اس پر صحابہ و تابعین کا اجماع نقل کیا ہے ،اور اس سلسلے میں کسی قابل اعتماد شخص نے ان کی مخالفت نہیں کی۔
اس مسئلے پرتفصیل کا طالب شیخ حمود بن عبداللہ بن حمود التویجری کی کتاب
((كتاب إثبات علو الله ومباينته لخلقه))
مطالعہ کرے اس کتاب میں انہوں نے صحا بہ کرام سے لے کر حافظ کثیر تک فقریبا ایک سو حوالہ پیش کیا ہے اور یہ کتاب انٹر نیٹ پر بھی موجود ہے ور توحید خالص از بدیع الدین رحمہ اللہ ,یہ بھی انٹر نیٹ پر موجود ہے کوئی بھائی دونوں کتابوں کے لنک محدث فورم میں دے دے مجھے لنک کا فی الحال طریقہ نہیں آتا .اسی طرح ماہنامہ السنۃ جہلم میں بھی استاد محترم شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا مضون ’اللہ کہاں ہے‘ قسط وار شائع ہوا ہے.
 
Top