1۔ویسے تاویل کا یہ لازمی تقاضا ہوتا ہے کہ تاویل کی صورت میں انسان تاویل در تاویل کے چکر میں الجھ جاتا ہے جبکہ حقیقت مراد لیتے ہوئے یہ مسئلہ نہیں ہوتا ہے
۔کلام میں اصل حقیقت ہے اور تاویل ومجاز کے لیے دلیل چاہیے۔پس جو لوگ صفت معیت میں تاویل کرتے ہیں، ان کے یہ ذمہ ہے کہ کتاب وسنت سے اس تاویل یا مجاز کی دلیل پیش کریں۔
2۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ سلف صالحین کی
’وھو معکم اینما کنتم‘سے مراد
’وھو علمکم اینما کنتم‘ ہے تو یہ سلف صالحین پر بہتان عظیم ہے اور عقل ومنطق میں اس تقدیر عبارت کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ اس سے کفر وشرک لازم آتا ہے۔ ہاں! اگر کوئی شخص یہ کہے کہ سلف صالحین نے
’وھو معکم اینما کنتم‘ سے مراد
’وھو معکم بعلمہ اینما کنتم‘ لی ہے تو یہ بات درست ہے ۔ پس سلف صالحین صفت معیت کا انکار نہیں کرتے بلکہ معیت کی تشریح علم کے ساتھ کرتے ہیں یعنی سلف صالحین کے نزدیک’ معیت‘ سے مراد ’علم‘ نہیں بلکہ ’معیت علمی‘ ہے۔
3۔اس دوسرے نکتے کی روشنی میں ذرا تیسرا نکتہ ملاحظہ فرمائیں ۔ہمارے بھائی ذرا اس بات کی طرف توجہ دیں کہ کیا اللہ کی صفت علم کو اس کی ذات سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے؟ یعنی بفرض محال مان لیا کہ اللہ کی معیت سے مراد اس کی’معیت علمی‘نہ کہ ’معیت ذاتی‘تو سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ
کیا اللہ کا ’علم‘اس کی ذات سے علیحدہ ہوتے ہمارے ساتھ ہے یا اس کی ذات کے ساتھ ہوتے ہوئے ہمارے ساتھ ہے؟بس اس کا جواب دے دیں تو مسئلہ ان شاء اللہ بہت سوں پر واضح ہو جائے گا۔
پس کسی ذات کے علاوہ مجرد علم کی معیت کا کوئی تصور بھی عقل ومنطق میں ممکن ہے؟
4۔ علم ، صفات لازمہ میں ہے یعنی یہ ایک ایسی صفت ہے جو ذات کے لیے لازم ہے بغیر ذات کے علم کا کوئی تصور ہی ممکن نہیں ہے۔
پس علم کی معیت سے مراد بھی’علم مع ذات‘ کی معیت ہوسکتی ہے نہ کہ مجر د علم کی معیت ۔ فافھم وتدبر !
5۔برائے مہربانی ،اس مسئلہ میں اجماع کے دعووں میں ذرا بریکوں پر پاوں رکھیں۔
اس اجماع کی حقیقت اس اجماع سے مختلف نہیں ہے ، جو حنفیہ طلاق ثلاثہ میں ثابت کرتے ہیں۔ہمارے ہاں سلف صالحین اجماع کا لفظ ’اتفاق‘ کے معنی میں بھی نقل کر دیتے ہیں۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر امام نے ’الاجماع‘ کے نام سے کتاب لکھی اور بہت سے مسائل میں اجماع کا دعوی کیا تو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بیسیوں مسائل میں کہ جن میں امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اجما ع کا دعوی کیا تھا، اسے غلط ثابت کیا ۔سلف صالحین کی اکثر عبارتوں میں اجماع سے مراد اجماع اصولی نہیں ہوتا بلکہ لغوی اجماع بمعنی اتفاق مراد ہوتا ہے ۔
6۔ اجماع اصولی کی تعریف وشرائط بیان کر کےکوئی بھائی اس مسئلہ میں ذرا اجماع ثابت کریں ۔کیا کسی صاحب علم کے لکھ دینے کہ فلاں مسئلہ میں اجماع ہے، اجماع ہوجاتا ہے؟اجماع کا وقوع اتنا آسان نہیں ہے کہ جتنی آسانی سے اس کا دعوی کر دیا جاتا ہے ۔ اس لیے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہ قول معروف ہو گیا کہ
’ من ادعی الاجماع فھو کاذب‘
امر واقعہ یہ ہے کہ لوگوں نے اجماع کو مذاق بنا لیا ہے۔ کوئی بھائی اس مسئلہ میں ہر صحابی ، تابعی، تبع تابعی ،عالم دین ، محدث اور فقیہ کی صریح رائے نکال کر دکھائیں۔ اگر نہیں تو یہ اجماع نہیں ہے۔ اور یہ تو اہل علم پر واضح ہی ہے کہ اجماع سکوتی کوئی اجماع نہیں ہوتا بلکہ اجماع ، اجماع صریح ہی ہے۔
7۔
رہی بات وحی الٰہی سے دلیل کی تو اگر کوئی یہ کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ِ معیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ مختلط ہے۔ یوں اللہ تعالیٰ عرش پر بھی ہے اور ہمارے ساتھ مختلط بھی ہے جیسے اس کی شان کو لائق ہے۔۔۔۔۔ تو اس کے خلاف آپ وحی الٰہی میں سے کون سی آیت یا حدیث پیش کریں گے ؟ یا تسلیم کر لیں گے ؟
انتہائی سادہ سوال ہے، بھئی ایسے شخص کو ہم صفت فوقیت والے سارے دلائل بیان کریں گے۔صفت فوقیت اللہ کے اختلاط میں مانع ہے۔ جو دائیں ، بائیں، آگے، پیچھے یا نیچے ہواسے اوپر نہیں کہتے اور جو اوپر ہوتا ہے ، وہ دائیں، بائیں، آگے، پیچھے اور نیچے نہیں ہوتا ہے۔
فافھموا تدبروا۔
8- ہمارے نزدیک صفت فوقیت اور صفیت معیت میں تضاد نہیں ہے۔ یعنی صفت معیت مع فوقیت ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ معیت اوپر سے ہے۔ہم صفت معیت اور فوقیت دونوں میں سے کسی میں بھی تاویل کے قائل نہیں ہیں اور دونوں کو حقیقت پر محمول کرتے ہیں اور اختلاط والی معیت کا انکارعقل کی روشنی میں نہیں بلکہ صفت فوقیت کی نصوص کی وجہ سے کرتے ہیں۔
9۔محترم سلف صالحین خود اصول بنا کر خود ہی اس کی مخالفت کر رہے ہیں !!
یہ بات انتہائی عجیب و غریب ہے کہ اصول خود بنا کر خود ہی اس کی مخالفت شروع کردیں ۔ہم یہ کہنے کی جرات نہیں کرتے
اس کے جواب میں ہم یہی کہیں گے کہ ہمارا اپنے ائمہ سلف صالحین کے بارے وہ عقیدہ نہیں ہے جو اثنا عشریہ کا اپنے ائمہ کے بارے ہے۔ باقی ہم اپنے ائمہ پر طعن وتشنیع کے قائل نہیں ہیں لیکن اپنے سلف صالحین سے ایک طالب علمانہ سوال کے ضرور قائل ہیں اور یہی سوال ہم نے کیا تھا کہ سلف صالحین نے یہاں کیوں اپنا اصول توڑا؟ اگر سلف صالحین کے کسی موقف پر طالب علمانہ سوال کرنا یا اٹھانا گستاخی ہے تو واقعتا ہم اس گستاخی کے قائل ہیں۔
ہاں! اگر آپ اس سوال کو اعتراض کا نام دیں ، تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اور آپ اصل میں اس سوال کا جواب دیں کہ یہاں اصول کی مخالفت ہوئی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہوئی تو اسے ثابت کریں۔ سلف صالحین کی عصمت وتقدس کے یقینا آپ بھی قائل نہیں ہیں۔
9۔ میں تو سلف صالحین کے قول کی ایسی تاویل کرتا ہوں کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ انہوں نے اس مسئلہ میں اپنا اصول نہیں توڑا ہے اور وہ تاویل میں اوپر بیان کر چکا ہوں۔یعنی سلف صالحین معیت مع فوقیت کے قائل ہیں اور انہوں نے اس معیت کی نفی کی ہے جو اختلاط والی ہے کیونکہ اختلاف والی معیت صفیت فوقیت کے منافی ہے۔اور عوام الناس کو سمجھانے کے لیے انہوں نے آسان فہم انداز میں معیت مع فوقیت کو ’معیت علمی‘ سے تعبیر کر دیا کیونکہ عوام الناس میں معیت کا معنی اختلاط والی معیت کا معروف ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب
10-
آپ حضرات نصوص کی تاویل کرنے کے قائل ہیں جبکہ میں سلف صالحین کے قول کی تاویل کا قائل ہوں۔ دونوں تاویلوں میں سے کون سی تاویل بہتر ہے؟؟؟ نصوص کی تاویل کر کے سلف صالحین کے قول کی موافقت اختیار کرنا یا سلف صالحین کے قول کی تاویل کرتے ہوئے نصوص کی موافقت اختیار کرنا۔ یہ واضح رہے :
’الاصل فی الکلام الحقیقۃ‘۔