شرعی احکام کی تحقیق اور فتوی کیلئے سعودی عرب کے جیدعلماء کی کمیٹی
(اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء )
کا فتوی ہے کہ:
من ابتلي بغسيل الكلى هل يجمع الصلاة
الفتوى رقم ( 18780 )
س: ما حكم الذين يذهبون إلى المستشفى من أجل غسيل كلى؟ البعض يذهب قبل صلاة الظهر وتفوته صلاة الظهر وصلاة العصر ولم ينته إلا بعد صلاة العصر بساعة واحدة، يذهب قبل العصر وتفوته صلاة العصر وصلاة المغرب بعد ساعة، فما الحكم في ذلك؟
ج : إذا كان الواقع هو ما ذكره السائل من بدء العملية قبل دخول وقت الظهر فإنه يؤخر الظهر ويصليها مع العصر جمع
تأخير، كسائر المرضى الذين يجوز لهم الجمع، أما إن كان إجراء عملية الغسيل بعد دخول وقت الظهر ولا تنتهي إلا بعد خروج وقت صلاة العصر فإنه يشرع للمريض حينئذ أن يصلي العصر مع الظهر جمع تقديم، وهكذا المغرب مع العشاء إن أجريت العملية قبل دخول وقت المغرب أخرها مع العشاء وصلاهما جميعًا جمع تأخير، أما إن كانت العملية بعد دخول وقت المغرب وتنتهي في وقت العشاء فإنه لا حاجة لجمع العشاء مع المغرب لاتساع وقت العشاء، وإن جمع بينهما جمع تقديم فلا حرج، كسائر المرضى المحتاجين لذلك. شفاهم الله.
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
( الجزء رقم : 6، الصفحة رقم: 370)
مفتیان کرام :
شیخ بكر أبو زيد شیخصالح الفوزان شیخعبد الله بن غديان شیخعبد العزيز آل الشيخعبد العزيز بن عبد الله بن باز
ترجمہ ؛
عنوان :
وہ آدمی جسے گردے کی صفائی کے لئے بار بار ڈائيليسس کرانا پڑتا ہو کيا وہ جمع بين الصلاتين کرسکتا ہے؟
فتوى نمبر:18780
س: ان لوگوں کے لئے کيا حکم ہے جو گردے کی صفائی کے لئے بار بار اسپتال جاتے ہيں، بعض لوگ نمازِ ظہر سے پہلے جاتے ہيں تو ان کی ظہر اور عصر کی نماز فوت ہوتی ہے، کیونکہ یہ لوگ عصر کے ايک گھنٹہ بعد اس سے فارغ ہوتے ہیں، اور کبھی عصر سے پہلے جاتے ہيں تو عصر اور مغرب کی نماز فوت ہوتی ہے؛ کيوں کہ فراغت مغرب کے ايک گھنٹہ بعد ہوتی ہے، تو اسكا كيا حكم ہے ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب: مذکورہ صورت ميں اگر صفائی کی کاروائی وقت ظہر کے دخول سے پہلے شروع ہوتی ہے، تو ايسی صورت ميں جمع تاخير کرتے ہوئے ظہر کو مؤخر کرکے عصر کے ساتھـ پڑھے، ديگر ان مريضوں کی طرح جن کے لئے جمع کرنا جائز ہے، اگر ڈائليسس کا عمل وقت ظہر کے دخول کے بعد شروع ہوتا ہے اور فراغت وقت عصر کے نکلنے کے بعد ہوتی ہے تو ايسی صورت ميں مريض کے لئے مشروع ہے کہ وہ جمع تقديم کرتے ہوئے عصر کو ظہر کے ساتھـ پڑھ لے، اسی طرح مغرب اورعشاء کا معاملہ ہے: اگر صفائی کا عمل وقت مغرب کے دخول سے پہلے شروع ہوتا ہے تو جمع تاخير کرتے ہوئے مغرب کو مؤخر کرکے عشاء کے ساتھـ پڑھے، اور اگر اس عمل کا آغاز وقت مغرب کے دخول کے بعد ہوتا ہے اور عشاء کے وقت ميں ختم ہوجاتا ہے، تو عشاء کو مغرب کے ساتھـ جمع کرنے کی کوئی ضرورت نہيں ہے کيوں کہ عشاء کا وقت میں بہت زیادہ گنجائش ہے۔ اور اگر دونوں کے مابين جمع تقديم کرے تو ديگر ضرورت مند مريضوں کی طرح ايسا کرنے ميں کوئی حرج نہيں ہے۔ اللہ تمام بيماروں کو شفايابی عطا فرمائے۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
بکرابوزید صالح الفوزان عبد اللہ بن غدیان عبد العزیزآل شيخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
ربط فتوی