• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گزر گئی گزران : مولانا اسحاق بھٹی ، سانحہ ارتحال ، اور اس پر تاثراتی تحریریں

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
إنا لله وإنا إليه راجعون ولله ما أخذ وله ما أعطى وكل شئ عنده إلى أجل مسمى
توفي اليوم مؤرخ أهل الحديث فضيلة الشيخ محمد إسحاق باتى ( البهتي ) بعد مرض قصير ، موته يعتبر خسارة فادحة لأوساط جماعة أهل الحديث العلمية كان الفقيد عالما ورعا وأديبا بارعا وكاتبا مبدعا أثرى المكتبة الإسلامية بكتب نافعة حول سيرعلمآء أهل الحديث فى شبه القارة الهندية والباكستانية وجهودهم فى تنوير القارة بالكتاب والسنة ۔ قرأت له كتابه موكب السلف الصالحين ( كاروان سلف ) أعجبت بأسلوبه السهل الممتنع يجعل القارئ يتفاعل مع الكتاب ويضل فيه ، يستمر المرء فى القرأة دون كل ومل ، قلت فى نفسي :يا الشيخ إسحاق بالأسلوب المبدع الخلاب الذى قدمت به إلينا تراجم سلفنا الصالح من الذى يكتب بمثل هذا الأسلوب ترجمتك وسيرتك يوم لاتكون بيننا ، اليوم بالفعل إرتحل عنا تاركا ورآءه فراغا رهيبا فى بحر الجهود المبذولة لتعميم نورالعلم والمعرفة - نسأل الله عزوجل أن يتغمد الفقيد بواسع رحمته وعظيم غفرانه ويدخله فسيح جنانه ويرفع درجته فى المهديين وإن فى الله عزآء من كل مصيبة ودركا من كل فائت وعوضا من كل هالك وظل رحمه الله مدة طويلة رئيس التجرير لمجلة الإعتصام الناطقة بإسم جماعة أهل الحديث فى باكستان

 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
قال محقق كتاب " تعليقات القارئ على ثلاثيات البخاري " الشيخ ناصر العجمي واصفا الشيخ محمد إسحاق - و هو شيخه و مجيزه - :
أخبرنا المؤرخ المتفنن الشيخ المسند ۔۔۔ ثم قال :
هو مؤرخ أهل الحديث في القارة الهندية و الباكستانية : الشيخ محمد إسحاق بن عبد المجيد بن محمد دسوندهي بن منصور بهتي .
ولد الشيخ في ( 15/ 3 / 1925م ) في " كوت كبورة " بإمارة " فريد كوت " ( بنجاب الشرقية بالهند ) ، و تلقى تعليمه في المرحلة الابتدائية على جده الأمجد ميان محمد – رحمه الله - .
ثم هيأ الله عز و جل له شيوخا من مشاهير العلماء في ذلك الوقت ، الذين كان يشار إليهم بالبنان – في علمهم و فضلهم و زهدهم و تقواهم - ، بخاصة في دعوتهم إلى الاعتصام بالكتاب و السنة ، و منهم : العلامة الشيخ الحافظ محمد الغوندلوي ( 1315 – 1405 هــ ) – الذي درَّس صحيح البخاري ما يقارب سبعين سنة ، و انتدب للتدريس في الجامعة الإسلامية بالمدينة الطيبة ، و من أشهر تلامذته القدامي : العلامة المحدث عبيد الله الرحماني ( 1414هـ ) صاحب مرعاة المفاتيح في شرح مشكاة المصابيح .
و العلامة محمد إسماعيل السلفي ( 1314 – 1387 هـ ) أمير جمعية أهل الحديث بباكستان سابقا ، درَّس خمسين سنة فأفاد و ألف فأجاء ، و هو صاحب الكتب و الرسائل السيارة في الدفاع عن السنة النبوية المشرفة ، و نقلت أغلبها إلى العربية .
و منهم العلامة محمد عطاء الله حنيف الوجياني ( 1408 هـ ) صاحب "التعليقات السلفية على سنن النسائي " و منشئ مجلة " الاعتصام " و " المكتبة السلفية " بلاهور ، اللتين لعبا دورا بارزا في نشر الثقافة السلفية في الأوساط العلمية و غيرهم .
و قد أخذ عن الأول : صحيح البخاري و مسلم و الموطأ بتمامها . و أخذ عن الثاني – محمد إسماعيل – سنن أبي داؤد كاملا و أخذ الستة و الموطأ و المشكاة و بلوغ المرام عن الشيخ عطاء الله حنيف . كما أخذ عن الجميع بقية العلوم من مصطلح و نحو و فقه و أصول و علوم اللغة و الأدب . ( انتهى من كلمة مكتوبة عن الشيخ المذكور بقلم الشيخ صلاح الدين مقبول ، و كذا مقدمة كتاب " أهل الحديث خدام القرآن " للشيخ إسحاق ( ص 22 بالأردو ) فقد ترجم لنفسه فيه ، و ذكر شيوخه . كما أن المترجم كتب لي بخطه مجموعة من مسموعاته و مقروآته على شيوخه ، و قد ترجم لنفسه ترجمة مستقلة و هي تحت الطبع .
و قد سمعت بهذا الشيخ النابه المؤرخ المسند في زيارة منه لي في منزلي الصغير ، و قد ظهرت في مؤلفاته الخاصة بالتراجم و التاريخ – و هي فوق 20 عنوانا ، و التى بكل أسف لم يترجم منه شيئ من الأردية إلى العربية – روح المؤرخ المتفنن فيها ، و هذا ما لاحظته من فضيلته فقد رأيته يحدق النظر في ، فسألت من برفقته فقال لي : الشيخ يكتب عن كل من يلتقي به حتى أنه يصف الهيئة والشكل لمن يجلس معه .۔۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
1005195_1024737194266906_940898464120168179_n.jpg

مولانا محمد اسحاق بھٹی کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں آپ برصغیر پا ک وہند کے اہل علم طبقہ میں اور خصوصا جماعت اہل حدیث میں ایک معروف شخصیت ہیں آپ صحافی ،مقرر، دانشور وادیب اور وسیع المطالعہ شخصیت ہیں ۔ مولانا کا یہ بڑا کارنامہ ہے کے انہوں نے برصغیر کے جلیل القدر علمائے اہل حدیث کے حالاتِ زندگی اور ان کےعلمی وادبی کارناموں کو کتابوں میں محفوظ کردیا ہے۔ آپ کی حیات وخدمات پرمولانا محمد رمضان یوسف سلفی صاحب نے ایک کتاب بنام ’’ مؤرخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی حیات و خدمات ‘‘ لکھی، اگر آپ اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، تو ذیل کے لنک پر سے ڈاؤنلوڈ کرلیں۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
علم کا پہاڑ -------انکسار کا پیکر
(رانا شفیق پسروری کا کالم )
لوگوں نے کسی پہاڑ کو،لوگوں کے ہاتھوں پر رواں نہیں دیکھا ہوگا،مگر مَیں نے آج، ایک پہاڑ کو روتے اور ہچکیاں لیتے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں پر، سفر کرتے دیکھا ہے۔ مَیں نے اوروں کی طرح خود بھی اُس کے جنازے کو کندھا دیا ہے،وہ پہاڑ،ایک نحیف و منحنی سے شخص کی صورت میں تھا، دیکھنے کو ایک دبلا پتلا، کمزور سا شخص، مگر اپنی ذات و صفات میں پہاڑوں سے بلند قدو قامت کا مالک۔۔۔ بلامبالغہ اور حقیقتاً،علم کا پہاڑ، عمل و کردار کا پیکرِ عظیم عجزو انکسار کا حقیقی مظہر، بے غرضی وبے لوثی سے مجسم وہ رجلِ عظیم کہ جس کو دُنیا ’’مولانا محمد اسحاق بھٹی‘‘کے نام سے جانتی ہے۔ (اور اب ہمیشہ یاد کرتی رہے گی) مولانا محمد اسحاق بھٹی نے نوے سال کی ایک لمبی زندگی بسر کی ہے،مگر زندگی ، مسلسل ’’ہر لحظہ نیا طور، نئی برق تجلّی‘‘کی مصداق رہی ہے، آخردم تک، ان کا تعلق قلم و قرطاس سے قائم رہا۔ ان کے عزیز اور احباب،ان کی عمر کو دیکھتے ہوئے اُنہیں آرام کی تلقین و اصرار کرتے رہے،مگر وہ پارہ صفت تھے اور زندگی کے ہر لمحہ سے کچھ نہ کچھ کشید کرتے رہے۔کون کہہ سکتا ہے کہ ایک نوے سالہ بوڑھے کا وجود،جوانوں سے زیادہ متحرک اور دماغ، کم سنوں سے بڑھ کر قوتِ حافظہ سے لبریز و معمور تھا۔۔۔ وہ کثیرالتصانیف بھی تھے، کثیر المجالس بھی،عام طور پر لکھنے والے مردم بیزار ہوتے ہے، تنہائی کو اپنے کام میں ممدو معاون جانتے اور لوگوں سے میل ملاپ سے احتراز کرتے ہیں،مگر حضرت بھٹی صاحب ایک مجلسی آدمی تھے،یار باش،دوستی پالنے اور دوستی سنبھالنے والے،کوئی ان کو ملنے جاتا تو بانہیں اور دِل کھول کر ملتے،کسی کو اجنبیت کا احساس تک نہ ہونے دیتے،ہر ایک کی ذہنی سطح تک آ کر ملتے کہ زندگی بھر کے لئے اپنا نقش چھوڑ جاتے،ملنے والا خود اجازت چاہ کر اٹھتا،دِل کھول کر باتیں کرنے والے اور پوری طرح متوجہ ہوکر سننے والے،بھٹی صاحب لکھتے بھی بہت زیادہ تھے۔ اتنا لکھتے تھے کہ کتاب پر کتاب شائع ہوتی چلی جاتی تھی۔اُن کو ملنے والے حیران ہوتے تھے، ’’یہ مجلسی آدمی لکھتا کس وقت ہو گا،کہ اس کمال کا لکھ گیا۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی نے تفسیرو حدیث، فقہ و سیرت، تاریخ و ادب پر بھی خوب لکھا مگر ان کو جو شہرت، ودام ملی وہ ان کو ’’خاکہ نویسی‘‘ کے حوالے سے ملی ہے،گویا وہ اِس فن کے ’’امام‘‘تھے شخصیات پر انہوں نے جتنا زیادہ لکھا اور جس قدر لکھا۔ برصغیر کی تاریخ میں کسی اور نے کہاں لکھا ہوگا،ان کے کام کی کثرت و ندرت کے باعث ہی تو انہیں کویت کی عرب علمی شخصیات نے ’’ذہبئ دوراں‘‘ کے لقب کے ساتھ اعزازات سے نوازا تھا۔ وہ شخصیات پر لکھتے تو اس طرح لکھتے کہ پڑھنے والا یوں سمجھتا وہ تحریر نہیں پڑ رہا کوئی فلم دیکھ رہا ہے، وہ جزئیات تک لکھ جاتے۔اللہ کریم نے انہیں حافظہ بھی بلا کا عطا فرمایا تھا،عرصہ دراز گزرنے کے باوجود،جس پر لکھتے یوں کہ جس طرح وہ سامنے حرکت کر رہا ہو۔ مَیں نے ’’پیغام‘‘ ٹی وی کے لئے، ان سے18گھنٹے پر مشتمل طویل انٹرویو کیا،عنوان تھا ’’ گاہے گاہے باز خواں‘‘۔ کوئی طے شدہ سوالات نہیں تھے، بس سیٹ پر بیٹھے اور رواں ہو گئے۔مَیں سوال کرتا اور فوراً جواب میں تاریخ انڈیلنے لگتے اور اس روانی اور سلاست سے کہ ہم پر ’’کوئی حیرانی سی حیرانی ہے‘‘ والی کیفیت طاری ہو جاتی۔ وہ اپنے ایک سفر دہلی کی بات کر رہے تھے کہ مَیں نے بات کاٹ کر پوچھ لیا آپ کی مولانا شرف الدین دہلویؒ سے بھی ملاقات ہوئی؟ وہ ایک لمحہ ہچکچائے بغیر، ترنت فرمانے لگے۔ ’’ہاں!1942ء کی بات ہے، بدھ کا دن تھا، فلاں مہینے کی فلاں تاریخ،ہم ان کو ملے تو وہ گلاس میں دودھ ڈال کر اس میں روٹی کے لقمے توڑ کر ، بھگو بھگو کر کھا رہے تھے، پھر ہمارے لئے بھی منگوایا اور ہمیں بھی اپنے طعام میں شریک کر لیا۔۔۔۔۔۔ کسی واقعہ کو پون صدی گزرنے کے باوجود سنِ تاریخ، دن کے ساتھ ساتھ تمام جزئیات اور پوری باریکیوں کے ساتھ یاد رکھنا اور پھر لکھنا انہی کا کمال تھا۔ بھٹی صاحب عجزو و انکسار کا حقیقی پیکر تھے۔ اتنی بڑی علمی شخصیت ہونے کے باوجود، کبرو نخوت، ذرا سی بھی نہ تھی، کسی بھی ملنے والے پر اپنی علمیت کا رعب نہیں ڈالتے تھے نہ اُسے احساس ہونے دیتے کہ وہ کتنی بڑی شخصیت کے سامنے ہے۔ ان کی بود و باش عام سی اور بڑی سادہ تھی،مَیں نے انہیں بارہا، فٹ پاتھ پر پڑی کتابوں کے پاس بیٹھے اور کتابیں چنتے دیکھا ہے۔ پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو مَیں نے ’’ اسلام اور جمہوریت‘‘کتاب لکھی تو اس کا مقدمہ مولانا بھٹی صاحب نے لکھا، پھر16دسمبر 1999ء کے روز پریس کلب میں کتاب کی تقریب پذیرائی، نوابزاد نصر اللہ خان مرحوم کی صدارت میں ہوئی،بھٹی صاحب بھی تشریف فرما تھے، ہم زور لگا لگا کر رہ گئے، مگر مولانا اسٹیج پر تشریف فرما نہ ہوئے، حالانکہ وہاں جو بھی بڑے بڑے تھے مائیک پر آ آ کر بھٹی صاحب سے خوشہ چینی کا اعتراف کر رہے تھے۔۔۔۔ وہ حقیقتاً بے غرض تھے،ساری زندگی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا، وہ اپنی کتابوں سے کئی ناشرین کے خزانے بھر گئے ہوں گے مگر ان کا اپنا گھر، ایک چھوٹی سی گلی میں، چھوٹا سا ہی رہا۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اپنا نام، اپنے کام کے بل بوتے پر پیدا کیا، وہ نام کے لئے کام نہیں کرتے تھے، وہ تو شخصیات سے محبت کرتے تھے، اخلاص سے ان کو گمنامی سے نکال کر نمایاں کرتے تھے، ان کے اخلاص اور دل سے لکھنے کے وصف کے باعث، قدرت نے ان کو آسمانِ علم و معرفت کا تابندہ ستارا بنا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کتنے ہی گمنام لوگ تھے، جن کو بھٹی صاحب کے قلم نے تابندگی و درخشندگی عطا کر دی ہے۔ ہمارے محترم ضیاء اللہ کھوکھر، جو پیپلزپارٹی کے ادوار میں اعلیٰ ایوانوں میں راہ رکھتے تھے، وہ بھی بھٹی صاحب کے مداح ہیں، زرداری صاحب کے دورِ صدارت میں مجھے کہنے لگے ’’خواہش ہے بھٹی صاحب کو صدارتی ایوارڈ مل جائے‘‘۔ چنانچہ مَیں نے اس غرض سے روز نامہ ’’پاکستان‘‘ کے میگزین ’’زندگی‘‘ میں بھٹی صاحب کی تصنیفات و تالیفات پر ایک مفصل مضمون لکھا جو ٹائٹل اسٹوری کے طور پر شائع ہوا، (شاید اب پھر قندِ مکررکے طور پر شائع ہو جائے) اس سے ان کی علمی حیثیت کا ایک اندازا کیا جا سکتا ہے۔ وہ خود بھی(کسر نفسی کے ساتھ) اپنی سوانح عمری، آب بیتی کے طور پر ’’گزر گئی گزران‘‘ کے نام سے لکھ چکے ہیں۔ ہمارے ادارے سے ان کا ایک تعلق تھا، ہمارے ادارے کے کئی لوگ بھی ان پر مضمون و کالم لکھ چکے ہیں وہ خود بھی فرمایا کرتے تھے:’’ خاکہ نویسی‘‘ کی طرف مجھے مجیب الرحمن شامی صاحب نے دھکیلا تھا، اور ابتدائی طور پر مَیں نے ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ میں (شخصیات پر) لکھا تھا۔ مَیں اگرچہ ایک بہت چھوٹا آدمی ہوں، پھر بھی میرے لئے بھٹی صاحب ایک بزرگ، ایک مربی اور ایک بے تکلف دوست کی طرح تھے۔ وہ تو ہر ایک کے لئے دل کے دریچے کھولے رکھتے تھے، وہ اتنے بڑے تھے کہ ان کے پاس بیٹھنے والا کوئی اپنے آپ کو چھوٹا نہ سمجھتا تھا،مَیں نے تو ان کے ساتھ بعض طویل سفر کرنے کی سعادت بھی حاصل کر رکھی ہے۔۔۔ کہتے ہیں ناں! کہ ’’راہ پیا جانے یا وا پیا جانے‘‘۔ مَیں نے تو سفر کی تنہائی میں بھی اور معاملات کی یکتائی میں بھی،انہیں ہر حال میں، مخلص،درد مند اور بے غرض ہی پایا ہے۔ ان کے دل میں ہر ایک کے لئے خیر ہی خیر تھی۔ خیر نہ ہوتی تو آج کے کینہ و نفرت کے دور میں جبکہ کوئی کسی کے لئے ایک کلمہ خیر کہنے کو تیار نہیں ہوتا، وہ دوسروں پر، اتنا زیادہ اور دھرا دھر کیوں لکھتے چلے جاتے۔۔۔ کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ وہ تحریک آزادی کے سپاہی بھی تھے اور جیل یاترا بھی کر چکے تھے، بھارت کے آں جہانی صدر گیانی ذیل سنگھ، جب ریاستوں کی پرجا منڈل کے پردھان تھے تو مولانا اسحاق بھٹی سیکرٹری تھے اور ہندی ریاستوں میں انگریز مخالف سیاست کی پاداش میں قید و جبر برداشت کر چکے تھے۔ (گیانی ذیل سنگھ جب بھارتی صدر بنے تو اپنے اس دوست اور ساتھی کو بھارت یاترا کی دعوت دی، مگر مولانا کی درویشی اور بے لوثی آڑے آ گئی، آخر عمر میں ان کی شدید خواہش تھی کہ وہ اپنے آبائی شہر ’’فرید کوٹ‘‘ کو دیکھ آئیں، مولانا عبدالوہاب خلجی نے بہت کوشش کی، مگر بھارتی سفارتخانہ نے 86سال کے بوڑھے کو ویزا دینے سے انکار کر دیا)۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی کی شخصیت پر تنا لکھا جائے کم ہے، مَیں بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں،مگر دل کی عجیب کیفیت ہے، روح پر غم چھایا ہوا ہے، کچھ سوجھ نہیں رہا، کیا لکھوں، کس طرح اور کس رُخ سے لکھوں؟۔۔۔ وہ تو ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے، مصنف کتبِ کثیرہ، علم کے سمندر کے چھناور، کتب بینی اور انسان شناسی میں بہت آگے کی دُنیا کے باسی تھے، عظمتوں کی رفعت پر فائز اور دِلوں کی گہرائیوں میں عقیدت کے حامل۔۔۔ مَیں ان کے بارے میں لکھوں بھی، تو کیا لکھ پاؤں۔۔۔ مَیں صرف، دو آنسوؤں سے طوفان برپا کرنا چاہتا ہوں، تو بس یہی کہ کانٹے چھوڑ گئی آندھی لے گئی اچھے اچھے پھول بہتے رون گے دِلاں دے جانی تے ماپے تینوں گھٹ رون گے
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
درویش صفت عالم دین مولانا محمد اسحاق بھٹی کا سانحۂ ارتحال


رفیق احمد رئیس سلفی(علی گڑھ)

یہ خبر علمی ودینی حلقوں میں انتہائی رنج وغم سے سنی جائے گی کہ آج ( 22/دسمبر2015 )رات تقریباً ۳بجے جماعت اہل حدیث کی معروف علمی وادبی شخصیت ہم سے جدا ہوگئی۔میری مراد مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی ذات گرامی سے ہے۔مولانا کی عمرتقریباً ۹۰/سال کی تھی اور اس عمر میں بھی ان کی علمی سرگرمیاں بدستور جاری تھیں۔مولانا عالمی شہرت کے حامل تھے اور برصغیر کے تمام دینی،علمی اور ادبی حلقوں میں عزت واحترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔آج صبح سویرے میرے محسن اور کرم فرما مولانا عبدالرؤف ندوی حفظہ اللہ نے جب یہ خبر سنائی تو میں سکتے میں آگیا ،بڑی مشکل سے اپنی زبان سے انا للہ پڑھ سکا اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کے کلمات ادا کرسکا ۔مولانا محمد اسحاق بھٹی سے میری غائبانہ شناسائی کا حال مکتبہ فہیم کے ذمہ داروں کو بھی معلوم ہے چنانچہ تھوڑی دیر بعد جناب عزیز الرحمن صاحب کا فون آیا اور انھوں نے اسی خبر کا اعادہ کیا ۔جب میں نے تفصیل مانگی تو انھوں نے بتایا کہ شیخ عارف جاوید محمدی حفظہ اللہ کی طرف سے یہ پیغام موصول ہوا تھا کہ مولانا کی طبیعت ناساز ہے اور انھوں نے متعارفین سے دعائے صحت کی درخواست کی تھی۔

میرے محترم دوست مولانا ارشد سراج الدین مکی کو بھی مولانا سے میرے تعلق کی نوعیت معلوم تھی ،انھوں نے بھی فون کرکے تعزیت کی اور ہم نے ایک ساتھ مل کر ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔ارشد بھائی کی مولانا سے ملاقات تھی اور انھوں نے کئی بار کہا کہ کسی وقت پروگرام بناکر سفر کیا جائے اور مولانا سے بالمشافہہ گفتگو کی جائے۔(مضمون یہاں تک لکھ سکا تھا کہ دہلی سے ہمارے بزرگ دوست مولانا عزیز عمر سلفی ،مدیر ماہنامہ نوائے اسلام نے یہ اندوہناک خبر دی کہ مولانا عبداللہ مدنی جھنڈانگری کا بھی انتقال ہوگیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ مولانا مدنی کی مغفرت فرمائے اوروہ اپنے پیچھے جو ایک عظیم مشن چھوڑ گئے ہیں،ان کے بھائیوں اور بھتیجوں کو توفیق دے کہ اسے جاری رکھیں ۔مولانا انتہائی خلیق،ملنسار اورمحبت کرنے والی شخصیت تھے۔امید ہے کہ ان کا جاری کردہ ماہنامہ "نورتوحید"بہت جلد ان کی حیات وخدمات پر دستاویزی نمبر شائع کرے گا۔اللہ مجھے بھی ان کی ذات گرامی کے تعلق سے اپنے تاثرات قلم بند کرنے کی توفیق دے)

مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے میری خط وکتابت تھی ۔ان کے کئی ایک خطوط محفوظ ہیں ۔اللہ توفیق دے کہ ان خطوط کی روشنی میں ان کی علمی خدمات پر میں کوئی تفصیلی مضمون لکھ سکوں ۔ان سے فون پر بھی کبھی کبھی رابطہ ہوجایا کرتا تھا۔آخری فون انھوں نے یہ معلوم کرنے کے لیے کیا تھا کہ "چمنستان حدیث"تمھیں ملی یا نہیں ،میں نے تمھارا نسخہ شیخ عارف جاوید محمدی حفظہ اللہ کے سپرد کردیا ہے ۔بار بار اصرار کرکے انھوں نے مجھ سے میری زندگی کے حالات لکھوائےاور پھر اسے اپنے خاص اسلوب تحریر میں مرتب کرکے اپنی کتاب"چمنستان حدیث"کا حصہ بنایا ۔یہ ان کی ذرہ نوازی تھی ورنہ میں کیا اور میری علمی زندگی کیا،مجھے اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا بخوبی علم ہے ۔اللہ ان سے درگزر فرمائے اور حسن عمل کی توفیق عطاکرے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ برصغیر کی سیاسی،ثقافتی،دینی اور علمی تاریخ کا ایک چلتا پھرتادائرۃ المعارف تھے۔تذکرے اور سوانح پر جو کتابیں انھوں نے تصنیف فرمائی ہیں ،وہ اس کا زندہ ثبوت ہیں،ہزاروں واقعات ہیں جن کو ان کے قلم نے تاریخ کے صفحات میں محفوظ کردیا ہے۔ان کی کتاب زندگی کا ورق ورق عیاں ہے ،جن شخصیات پر انھوں نے لکھا ہے ،ان سے اپنے تعلق کی نوعیت ضرور واضح کی ہے اور اسی سے پتا چلتا ہے کہ ان کی علمی شخصیت میں کتنی شرافت اور محبوبیت موجود تھی۔ان کی طبیعت،مزاج،مسلک ومشرب اور مخالفین کے تعلق سے ان کی رواداری ان کی شخصیت کے اہم پہلو ہیں،جو کچھ ان کی کتابوں کے مطالعے سے میں نے سمجھا ہے ،اسے ان شاء اللہ دیر سویر قلم بند کرنے کی کوشش کروں گا۔بروقت ان کے حق میں یہ دعا کروں گا کہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے،عزیزوں اور متعلقین کو صبر جمیل عطا کرے ۔ابھی ان کا جنازہ ان کے گھر میں موجود ہے ۔کاش ہم بھی نماز جنازہ میں شریک ہوسکتے لیکن یہ کیسے ممکن ہے ۔یہ حسرت دل میں رہ گئی کہ کبھی ان سے ملاقات کرکے ان سے استفادہ کریں گے۔مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند کے سابق ناظم اعلیٰ محترم مولانا عبدالوہاب خلجی حفظہ اللہ نے کئی بار یہ بات بتائی ہے کہ جب بھی لاہور میں ان سے ملاقات ہوئی تو بار بار انھوں نے تمھارے بارے میں پوچھا۔اللہ اس غائبانہ محبت کا انھیں بھرپور صلہ عطا فرمائے،ان کی نیکیوں کو شرف قبول بخشے اور اپنے صالح بندوں میں انھیں شامل فرمائے۔

قلم وقرطاس سے زندگی بھر ان کا رشتہ رہا،وہ بہت سے علماء کے پروردہ تھے ،تقوی اور تدین سے ان کی زندگی کا گوشہ گوشہ معمور رہا ۔"گزر گئی گزران "ان کی آپ بیتی اور خود نوشت سوانح ہے۔یہ کتاب بھی درویشی کی ممتاز صفت سے مزین ہے ۔قدیم علمائے ربانیین کی صفات ان کے یہاں پائی جاتی تھیں۔بغض وحسد اور کینہ وعداوت سے ان کا سینہ خالی تھا۔ایک عالمانہ وقار کے ساتھ انھوں نے زندگی گزاری ۔ان کی تصانیف کئی ایک ہیں ،ذیل میں چند ایک کا ذکر کیا جارہا ہے:

نقوش عظمت رفتہ، بزم ارجمنداں، کاروان سلف، قافلہ حدیث،گلستان حدیث،دبستان حديث،چمنستان حدیث ، بوستان حدیث ،تذکرہ قاضی سلیمان منصورپوری، تذکرہ مولاناغلام رسول قلعوی، تذکرہ صوفی محمد عبداللہ، تذکرہ مولانااحمدالدین گکهڑوی، قصوری خاندان، ارمغان حنیف،تذکرہ مولانامحمداسماعیل سلفی،برصغیرمیں علم فقہ، برصغیرمیں اسلام کے اولین نقوش، برصغیرمیں اہل حدیث کی آمد، فقہائے پاک وہند،میاں فضل حق اور ان کی خدمات،میاں عبدالعزیز مالواڈہ، تذکرہ محدث روپڑی،برصغیرکےاہل حدیث خدام قرآن،ہفت اقلیم،برصغیرمیں اہل حدیث کی اولیات، برصغیرمیں اہل حدیث کی تدریسی خدمات، عربی کےتین ہندوستانی ادیب، آثارماضی، محفل دانشمنداں، عارفان حدیث، اسلام کی بیٹیاں،لسان القرآن،ترجمہ ریاض الصالحین، ترجمہ فہرست ابن ندیم۔

قارئین سے دعائے مغفرت کی درخواست ہے ۔اللھم اغفرلہ وارحمہ۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
مولانا محمد اسحاق بھٹی کی رحلت(روزنامہ پاکستان کا ادارتی شذرہ)

ممتاز عالم دین،مورّخ،مصنف اور ادیب مولانا محمد اسحاق بھٹی نوے برس کی عمر میں انتقال کرگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون، مولانا محمد اسحاق بھٹی علم و فضل کا گہرا سمندر تھے،ساٹھ سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے انتہائی وقیع علمی کتابوں کا ترجمہ کر کے انہوں نے اپنی زبان دانی کا لوہا منوایا، مدت العمر ادارہ ثقافت اِسلامیہ لاہور میں تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ مجلہ ’’معارف‘‘ کے ایڈیٹر رہے انہوں نے ’’الفہرست ابنِ ندیم‘‘ جیسی شہرہ آفاق کتاب کا ترجمہ کیا،اتنی بڑی علمی شخصیت ہونے کے باوجود وہ ہر قسم کے احساسِ تفاخر یا غرور علم سے کوسوں دور تھے، تمام عمر انتہائی سادگی سے گزار دی، ’’ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا‘‘ پر صحیح معنوں میں زندگی بھر عمل کیا، ان کی سوانح عمری ’’گزر گئی گزران‘‘ میں اس کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ آج کے دور میں چند حرف لکھنے والے علامہ کہلانے لگتے ہیں۔ بھٹی صاحب صحیح معنوں میں اس کے حق دار تھے،لیکن نہ اُنہیں کبھی کسی نے علامہ کہا، اور اگر کوئی کہہ بھی دیتا تو ان کا مزاج ایسا تھا کہ وہ اس ’’خراج تحسین‘‘ کو شاید قبول نہ کرتے۔مولانا محمد اسحاق بھٹی کی کتابیں اور تحریریں بہت متنوع ہیں، تفسیر،حدیث، فقہ اور تاریخ و سیر پر کتابیں لکھیں فقہا ہند و پاکستان پر ضخیم کتابیں لکھیں۔انہوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا اس کا حق ادا کر دیا، شخصیات پر لکھا تو ’’بزمِ ارجمنداں‘‘ جیسی کئی کتابیں وجود میں آئیں۔مولانا محمد اسحاق بھٹی تحریک آزادی کے سپاہی تھے، انگریزی عہد میں جب ہندوستانی ریاستوں میں ’’پرجا منڈل‘‘ کے نام سے کمیٹیاں بنیں تو وہ ان میں بہت متحرک تھے۔ گیانی ذیل سنگھ جو بعد میں آزاد ہندوستان کے صدر بھی بنے ان کمیٹیوں کے صدر اور مولانا محمد اسحاق بھٹی سیکرٹری تھے، تحریک آزادی کے دوران انہوں نے جیل بھی کاٹی، قلم سے اپنا رشتہ انہوں نے آخری عمر تک استوار رکھا، وہ ثقل سماعت کا شکار ہو گئے تھے، لیکن اُن کا حافظہ بَلا کا تھا، اپنی یاد داشت کے زور پر وہ گھنٹوں بلا تکان علمی گفتگو کرنے کا ملکہ رکھتے تھے، طرزِ زندگی اتنا سادہ تھا کہ اس لحاظ سے وہ آج کے دور کی شخصیت ہی نظر نہیں آتے تھے، اس ضعیف العمری میں بھی متحرک زندگی گزار رہے تھے، اُن کی زندگی کے آخری برس بھی ان کی لکھی ہوئی تین کتابیں شائع ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور فرو گزاشتوں سے درگزر فرمائے۔
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
میں نماز فجر پڑھکر بیٹھا ہی تھا کہ واٹ ساپ پہ ایک پیغام آیا موبائل اٹھایا اور کھولا تو یہی روح فرسا خبر نگاہوں کے سامنے آگئی کہ :عصر حاضر کاعظیم مورخ ،صاحب طرز قلمکار ،فصاحت و بلاغت سے بھر پور شخصیت ،بیحد آسان اور سہل اسلوب کا مالک کہ وقت کا طہ حسین،معلومات کا بحر بیکراں ،بیحد ملنسار،خلوص للہیت کا پیکر ،پچاسوں کتابوں کامصنف، عمر رواں کی 91 بہاریں گزار کر اپنے چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر خوشی خوشی اپنے رب حقیقی سے جا ملے ۔ایسی ہی علمی شخصیت کیلئے کہا جاتا ہے :موت العالم موت العالم۔ ایک عالم کی موت پوری دنیا کی موت ہوتی ہے ۔رب کریم کی جناب میں دست بدعا ہوں کہ اے رب کریم! تو اپنے فضل و کرم سے مولانا کی لغزشات کو درگزر فرما ۔انکی قبر کو نور سے بھر دے ، اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کر ۔ فانک غفور رحیم و علی کل شیء قدیر۔۔ جان کر من جملہ خاصان میخانہ تجھے ۔ مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اسحاق بھٹی صاحب....مجھ کو یوں ملے کہ....

ابو بکر قدوسی
سعادت کی زندگی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی کہ جو محترم اسحاق بھٹی صاحب نے گزاری.. اور عزت کی موت ان کی موت کو نہ کہا جائے تو اور کس کو کہا جائے گا..
گزری صبح عین فجر کے وقت عمر فاروق قدوسی کا برقی پیغام ملا کہ اسحاق بھٹی صاحب فوت ہو گئے ہیں .. دکھ کی لہر میرے اندر تک اتر گئی .. بیس برس پرانی شام کا دھندلا منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے ...جب شام کے سائے اتر رہے رہے تھے کہ اشرف جاوید میرے سامنے بیٹھے تھے اور کہہ رہے تھے کہ " آپ کے والد تاریخ اہل حدیث پر کام کرنا چاہ رہے تھے ، نہ کر سکے..یہ ذوق آپ کو بھی وراثت میں ملا ہے ، سو اس کام کو آگے بڑھانا آپ پر قرض ہے"...
میں نے عرض کیا " کہ قرض چکانے کی کیا صورت ہو ؟..."
کہنے لگے کہ " اسحاق بھٹی صاحب نے شخصیات پر خاصا کام کر رکھا ہے ان سے اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی درخواست کی جائے....."
اٹھتی جوانی کے دن تھے میرے اندر جوش ضرورت سے بھی کچھ زیادہ ہی تھا ..کہا..." دیر کیوں ابھی چلتے ہیں.. ہم اٹھے اور بھٹی صاحب کے گھر چل دیئے.. میری تب تک ان سے چند ہی ملاقاتیں تھیں کچھ اندازہ نہ تھا کہ کس طرح پیش آیں گئے.. ..."
" غریبوں" کی اس قدیم بستی کو ساندہ کلاں کہتے ہیں جہاں دماغ کا یہ بے پناہ امیر انسان رہتا تھا ...
ہم وہاں پہنچے ، وہ گھر میں موجود تھے ،،، ترشوائی ہوئی،،سیاہ رنگی خشخشی داڑھی، میانہ قد، گندمی رنگ ... ایک بزرگ ہمارے سامنے بیٹھے تھے... ہم نے عرض گزاری کہ "اپنا لکھا ہمیں دے دیجئے بہت سوں کا بھلا ہو گا ".. ہم نے تو جیسے جان ہی مانگ لی تھی .. اپنا لکھا جان سا ہی پیارا ہوتا ہے... کہنے لگے کہ "ادارہ ثقافت اسلامیہ کو اعتراض ہو گا " .. میں نے عرض کی کہ " آپ ادارہ چھوڑ چکے ، اب کسی کو کیا غرض کہ آپ کیا کرتے ہیں ؟..."
... ان دنوں ادارہ ثقافت کے ڈائرکٹر رشید جالندھری تھے جو مبینہ طور پر قادیانی کہے جاتے تھے اور انہوں نے بھٹی صاحب کو خاصا تنگ کیا تھا ... اس بنا پر ہی بھٹی صاحب ادارہ چھوڑ کر گھر آن بیٹھے تھے اور نصف صدی کے بعد "چھٹیاں" منا رہے تھے... ادارے کی ملازمت کے دنوں میں سراج منیر صاحب کے کہنے پر آپ نے یہ مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تھا... جب کہ "ارمغان حنیف" بھٹی صاحب کی ملازمت کے دنوں میں ہی ادارہ شائع کر چکا تھا... جو مولانا حنیف ندوی کے بارے میں بہت عمدہ کتاب تھی ..
بھٹی صاحب نے ہلکا سا انکار کیا مگر میرے اصرار کے سامنے ہار گئے ... کچھ اشرف جاوید صاحب نے بھی میرا ساتھ دیا ... اور انہوں نے کچھ مسودے میرے حوالے کر دیئے اور یوں کی پہلی کتاب "نقوش عظمت رفتہ" منظر عام پر آئی ...میں بتا چکا کہ کہ ان دنوں " آتش کو جوانی چڑھی ہوئی تھی" اور کام کا بہت شوق تھا ... اس کتاب کا ٹائٹل میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا ... حکومت ہند کی تاج محل آگرے کے بارے چھپی ہوئی ایک کتاب میرے پاس موجود تھی جس میں تاج محل کی ایک خوبصورت تصویر بھی شامل تھی ، جو کتاب کے حسب حال تھی ... یعنی"نقوش عظمت رفتہ"... اس کتاب میں اکیس شخصیات کے خاکے شامل کیے گئے ... اکتوبر ١٩٩٦ میں اس کتاب کا پہلا اڈیشن منظر عام پر آیا ... اور بہت مقبولیت حاصل کی ... احباب نے اسے بہت شوق سے پڑھا .. چونکہ اس کتاب میں بھٹی صاحب صرف اہل حدیث افراد تک محدود نہ رہے بلکہ گیارہ غیر اہل حدیث حضرات کو شامل کیا ، چناچہ یہ کتاب تمام مذھبی اور ادبی حلقوں میں مقبول ہوئی ...
بلا شبہ بھٹی صاحب کی زندگی کا دوسرا دور شروع ہو رہا تھا جس میں بہت زیادہ محبتیں اور کامرانیاں بازو وا کیے ان کی منتظر تھیں......ابو بکر قدوسی
 
Top