عبداللہ عبدل
مبتدی
- شمولیت
- نومبر 23، 2011
- پیغامات
- 493
- ری ایکشن اسکور
- 2,479
- پوائنٹ
- 26
فضیلۃ الشیخ صالح فوزان الفوزان حفظہ اللہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حمد و ثناء کے بعد!یہ وہ لوگ ہیں کہ جو حکمران وقت کے خلاف خروج کرتے ہیں، جو سیدنا عثمان بن عفان ؓ کے آخری دور میں ظاہر ہوئے،اور جن کے خروج کے نتیجے میں سیدنا عثمان ؓ شہید ہوئے۔
پھر ان لوگوں کا شر وفسادسیدناعلی ؓ کی خلافت میں مزید بڑھ گیا اور انہوں نے ان کے خلاف بغاوت کی، ان کی اور دیگر صحابہ کرام ؓ کی تکفیر کی، کیونکہ انہوں نے ان کے باطل مذہب میں ان کی موافقت نہیں کی۔ اور وہ ہر اس شخص کو جو ان کے مذہب کی موافقت نہ کرے کافر کہتے ہیں، لہذا انہوں نے انسانوں میں سب سے افضل صحابہ کرام ؓ کی تکفیر کی، کیوں؟ کیونکہ انہوں نے ان کے کفر وگمراہی میں ان کی موافقت نہ کی۔
ان کا مذہب کیا ہے:
یہ لوگ سنت وجماعت سے کوئی التزام نہیں کرتے، اور نہ ہی حکمران وقت کی اطاعت کرتے ہیں۔ بلکہ اس کے خلاف خروج کو اپنی دین داری تصور کرتے ہیں۔ اور یہ کہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا ،تختہ الٹنا ہی اقامت دین ہے۔ رسول کریم ﷺ کی تعلیمات کے بالکل برعکس کہ آپ ﷺ نے حکمرانوں کی اطاعت کی وصیت فرمائی ہے۔ اور اللہ تعالی کے اس فرمان کے بھی برعکس:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ﴾
النساء: 59
اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالی کی اور اطاعت کرو رسول اللہ ﷺ کی، اور جو تمہارے حکمران ہیں ان کی بھی
اللہ تعالی نے حکمرانوں کی اطاعت کو دین میں سے قرار دیا ہے اسی طرح سے نبی کریم ﷺ نے حکمرانوں کی اطاعت کو دین میں سے قرار دیا ہے، فرمایا:
)وصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ تَأَمَّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ، وَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا (
میں تمہیں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرنے اور حکمرانوں کی سننے اور اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، اگرچہ تم پر کسی غلام ہی کو حاکم کیوں نہ بنادیا جائے، کیونکہ تم میں سے جو میرے بعد زیادہ عرصہ زندہ رہا تو وہ بہت اختلاف دیکھے گا
پس حکمرانوں کی اطاعت دین میں سے ہے۔۔۔ اور خوارج کہتے ہیں کہ: نہیں جی، ہم تو آزاد ہیں۔ یہی طریقہ ہے آجکل ہونے والے حکومت مخالف انقلابات کا۔
الغرض خوارج اپنی ان حرکتوں سے مسلمانوں میں تفریق، حکومت کے خلاف بغاوت، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی چاہتے ہیں۔ اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا کافر ہے۔
کبیرہ گناہ کا مرتکب جیسے زانی، چور، شرابی وغیرہ ان کے نزدیک کافر ہیں۔ جبکہ اہل سنت والجماعت کا اعتدال پر مبنی عقیدہ ہے کہ ایسا شخص “مسلم ناقص الایمان” (ناقص یا کمزور ایمان والا مسلمان)[2] ہے۔یا اسے “الفاسق الملی” (ملت اسلامیہ میں باقی رہنے والا فاسق شخص) یا پھر “مؤمن بایمانہ فاسق بکبیرتہ” (وہ اپنے ایمان کی وجہ سے مومن ہے اور اپنے کبیرہ گناہ کی وجہ سے فاسق ہے) کہتے ہیں۔ کیونکہ دائرہ اسلام سے صرف شرک یا معروف ومشہور نواقض اسلام میں سے کسی کے ارتکاب کے ذریعہ سے ہی نکلا جاسکتا ہے۔ لیکن شرک کے علاوہ دیگر معاصی وگناہ انسان کو اصل ایمان سے خارج نہیں کرتے اگرچہ کبیرہ گناہ ہی کیوں نہ ہوں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ﴾
النساء: 48
بے شک اللہ تعالی اس کے ساتھ شرک کیے جانے کو ہرگز بھی معاف نہیں فرماتے، اس کے علاوہ جو گناہ جس کے لیے چاہیں معاف فرمادیتے ہیں
خوارج کہتے ہیں کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہے، اللہ تعالی اسے ہرگز بھی معاف نہیں فرمائیں گے اور وہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہے گا۔ اور یہ جو کچھ کتاب اللہ میں آیا ہے اس کے خلاف ہے، سبب یہی ہے کہ ان کے پاس فقہ (دینی سمجھ بوجھ وعلم) نہیں ۔ اس بات پر ذرا غور کریں کہ ان کا اتنی بڑی گمراہی میں مبتلا ہونے کا سبب یہی ہے کہ ان کے پاس فقہ نہیں۔ حالانکہ وہ ایسی جماعت ہیں کہ جو عبادت، نماز، روزہ اور تلاوت قرآن پاک وغیرہ میں انتہائی شدت ومحنت کرتے ہیں، اور ان کے یہاں شدید غیرت بھی پائی جاتی ہے لیکن دینی فقہ وصحیح سمجھ نہیں، اور واقعی یہ بہت بڑی آفت ہے۔
کیونکہ لازم ہے کہ عبادت، زہد ، تقوی وورع میں اجتہاد وکوشش، فقہ فی الدین وعلم کے ساتھ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے اوصاف اپنے صحابہ کے سامنے بیان فرمائے کہ تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے سامنے حقیر سمجھو گے اور ان کی عبادت کے سامنے اپنی عبادت کو ہیچ تصور کرو گے، پھر فرمایا:
يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ
وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرکمان سے نکل جاتا ہے) اپنی عبادتوں کے باوجود، اپنی خیر وصلاح کے باوجود، اپنے قیام اللیل وتہجد کے باوجود۔ چونکہ ان کا عبادات میں محنت واجتہاد کرنا صحیح بنیادوں اور صحیح علم پر استوار نہیں تو وہ خود ان کے لیے اور امت کے لیے گمراہی، وبال وشر کا سبب بن گیا۔
کبھی بھی خوارج کے بارے میں یہ نہیں سنا گیا کہ وہ کافروں سے جہاد وقتال کررہے ہیں بلکہ ان کا تو کام ہی مسلمانوں کے خلاف جہاد وقتال کرنا ہے، جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ’’ (
اہل اسلام کو قتل کرتے ہیں اور اہل اوثان (بت پرستوں/کافروں) کو چھوڑ دیتے ہیں
ہم خوارج کی پوری تاریخ میں نہیں جانتے کہ انہوں نے کبھی کفار ومشرکین کے خلاف قتال کیا ہو، بلکہ یہ تو ہمیشہ مسلمانوں ہی سے قتال کرتے ہیں: سیدنا عثمان، علی بن ابی طالب، زبیر بن عوام اور جلیل القدر صحابہ کرام ؓ کو قتل کیا، اور آج تک مسلمانوں ہی کو قتل کرتے چلے آرہے ہیں۔
اس کا سبب یہی ہے کہ اپنے تقوی وورع، عبادت ودین میں محنت کے باوجود دین سے جہالت اور ان تمام عبادات ومحنتوں کا علمِ صحیح کی اساس پر نہ ہونا، خود ان پر وبال بن گیا۔ اسی لیے علامہ ابن القیمؒ نے ان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
ولھم نصوص قصروا فی فھمھا
فاتو من التقصیر فی العرفان
فاتو من التقصیر فی العرفان
ان کے پاس کچھ نصوص (دلائل) ہیں جن کے صحیح فہم سے وہ قاصر ہیں پس وہ حقیقی علم وعرفان کو پانے میں تقصیر کا شکار ہیں
وہ نصوص ودلائل سے استدلال تو کرتے ہیں لیکن انہیں اس کا صحیح فہم حاصل نہیں ہوتا۔ وہ کتاب وسنت میں گناہوں پر وعید وسزا کے دلائل سے استدلال کرتے ہیں مگر اس کا صحیح معنی نہیں سمجھتے۔ وہ دوسرے دلائل کی طرف رجوع نہیں کرتےکہ جن میں گناہ ہونے کے باوجود مغفرت کا وعدہ ہے اور شرک کے علاوہ گناہوں کی توبہ کا ذکر ہے۔پس انہوں نے ایک طرف لے کر دوسری طرف کو بالکل چھوڑ دیا۔ یہی ان کی جہالت ہے۔
صرف دینی غیرت اور جذبہ کافی نہیں بلکہ لازم ہے کہ یہ صحیح علم اور فقہ فی الدین پر قائم ہوں۔ ضروری ہے کہ یہ غیرت وجذبہ علم ِصحیح کے نتیجے میں صادر ہوا ہو اور صحیح موقع محل پر ہواہو۔
دین کے بارے میں غیرت کرنا اور گرمجوشی دکھانا اچھی بات ہے لیکن لازم ہے کہ اسے اتباع کتاب وسنت کے ذریعہ کنٹرول وقابو کیا جائے۔
تم دین کی غیرت میں اور مسلمانوں کی خیرخواہی چاہنے میں صحابہ کرام ؓسے بڑھ کر تو نہیں ہوسکتے مگر اس کے باوجود انہوں نے خوارج کو قتل کیا ان کے عظیم خطرے اورشر کے باعث۔
ان سے سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے واقعۂ نہروان میں بہت ہی زبردست قتال فرمایا ۔ اور وہ رسول اللہ ﷺ کی اس بشارت کے مصداق بنے کہ نبی کریم ﷺ نے ان خوارج کو قتل کرنے والوں کو خیر اور جنت کی بشارت سنائی تھی۔ پس سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے انہیں قتل کیا اور اس نبوی بشارت کے مستحق قرار پائے۔
سیدنا علی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ:
سَيَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ،لا َ يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (
آخری زمانے میں ایسی قوم نکلے گی جو کم سن وکم عقل ہوگی، بظاہر تو سب سے اچھی بات کریں گے ، لیکن ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے، تم جہاں کہیں بھی ان کو پاؤ قتل کردو، کیونکہ جو بھی انہیں قتل کرے گا بروزقیامت اسے اس قتل کرنے پر اجر ملے گا)
ابو سعید الخدری ؓ خوارج اور ان کی علامات سے متعلق حدیث روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
قتلھم لیدفع شرھم عن المسلمین
(مسلمانوں سے ان کے شر کو دور کرنے کے لیے قتل کیا گیا)۔
ہر دور کے مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ اگر اس خبیث وگندے مذہب کا وجود موجود ہو تو اس کا سب سے پہلے دعوت کے ذریعہ علاج کیا جائے اور لوگوں کو اس سے متعلق علم وآگاہی دی جائے۔ لیکن اگر وہ پھر بھی نا مانیں تو ان کے شرکو دور کرنے کے لیے ان سے قتال کیا جائے۔
سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے اپنے چچا زاد بھائی سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ جو حبر الامۃ(امت کے بڑے عالم) وترجمان القرآن ہیں کو ان خوارج کے پاس بھیجا۔پس انہوں نے ان سے مناظرہ فرمایا جس کے نتیجے میں ان میں سے چھ ہزار تائب ہوکر واپس آگئے لیکن ایک بڑی تعداد نے ان میں سے رجوع نہیں کیا۔ پھر اس اتمام حجت کے بعد امیر المومنین علی بن ابی طالب ؓ نے صحابہ کرام ؓ کے ساتھ مل کر ان کے خلاف قتال فرمایا۔تاکہ ان کے شر وایذارسانی کو مسلمانوں سے دور کیا جائے۔
یہ تھا فرقۂ خوارج اور ان کا مذہب۔
المحاضرات فی العقیدۃ والدعوۃ، محاضرۃ رقم 47
کتابچے کا لنک یونی کوڈ اور پی ڈی ایف