• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گمراہ فرقوں کا مختصر تعارف: خوارج

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
طائفہ ممتنعہ::

ایسے گروہ کو جس نے شریعت کے احکام کو نافذ ہونے سے روک رکھا ہو، طائفہ ممتنعہ کہا جاتا ہے، طائفہ عربی میں گروہ کو کہتے ہیں اور ممتنعہ کا مطلب ہے روکنے والا. نبی صلی اللہ علیہ و سلم کئ وفات کے فورا بعد جن لوگوں سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جنگ فرمائی تھی انہیں مانعین زکوۃ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یعنی زکوۃ دینے سے روکنے والے، ان کے نزدیک زکوۃ صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی تک تھی اور بعد میں یہ کسی اور کو ادا نہیں کی جائیگی، ان کے خلاف اسی بنیاد پر جنگ کی گئی کہ وہ طائفہ ممتنعہ تھے. امام ابن تیمیہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر ایک علاقے کے لوگ اجتماعی طور پر آذان یا اقامت ترک کر دیں تو پھر بھی ان سے اس حکم پر واپس آنے تک جنگ کی جائے گی، کیونکہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ ::
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَوْاْ فَإِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور (اے اہلِ حق!) تم ان (کفر و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ (انقلابی) جنگ کرتے رہو، یہاں تک کہ (دین دشمنی کا) کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے اور سب دین (یعنی نظامِ بندگی و زندگی) اللہ ہی کا ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ اس (عمل) کو جو وہ انجام دے رہے ہیں، خوب دیکھ رہا ہے
(الانفال::39(
جب نظام کچھ اللہ کے لیے ہو اور کچھ غیر اللہ کے لیے تو قتال واجب ہے اس وت تک تک قتال واجب ہے جب تک سارا نظام ہی اللہ کے لیے نہ ہو جائے (مجموع الفتاوى(28/510(

خلاصہ:: موجودہ سسٹم کے خلاف جنگ کا اصولی جواز موجود ہے، کیوں کہ یہ نظام ، نظام کفر ہے، بھلے اس میں کام کرنے والے افراد کوئی بھی کیوں نہ ہوں.
بہت خوب... !! زرا اس قطبی فساد کےمنہج کو پیش کرنے والی سرکار کا نام بھی لوگوں کے سامنے رکھ دیں اور انکی علمی استطاعت بھی اور قابلیت بھی.
خود پاکستان میں فساد میں مصروف اور بھائی نے ناٹو کے ساتھ مل کر لیبیا میں جو شریعت نافذ کی وہ بھی لوگوں کے سامنے بیان فرمائیں
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
خلاصہ:: موجودہ سسٹم کے خلاف جنگ کا اصولی جواز موجود ہے، کیوں کہ یہ نظام ، نظام کفر ہے، بھلے اس میں کام کرنے والے افراد کوئی بھی کیوں نہ ہوں
اپنے بارے اور اپنے اہل و عیال کے بارے کیا خیال ہے جو اس کفر میں رہتے ہو اور ہجرت نہیں کرتے ا؟؟؟؟؟؟
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
شاکر بھائی میں نے پہلے ہی اس بندے بارے لکھا تھا کہ یہ اصول و ضوابط اور اخلاقیات سے باہر ہو جائے گا.. اور میں نے واضح کیا تھاکہ اگر اس نے ایسا کیا تو میں اس کے برابر سنانے کا حق محفوظ رکھتا ہوں!
آپ خود دیکھئے کہ اس جملے کا مخاطب کون ہے؟؟؟ کس برداشت کا مظاہرہ ہے یہ؟؟؟؟؟

اور یہ ایسے حقائق ہیں کہ عقل کا کوئی اندھا ہی ان کا انکار کر سکتا ہے.
اختلاف برداشت کرنے کا حوصلہ؟؟؟ شاکر بھائی اختلاف ہو تو تب نہ ، حضرت نے تو سیدھے غیر معتبرفتوے اور حکم ٹھوکنے شروع کر دیئے ہیں...
معذرت اگر مجھے کچھ سخت ہونا پڑا !
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
""ان کا انکار کوئی عقل کا اندھا ہی کر سکتا ہے""

یہ محاورہ تبھی لکھا جا تا ہے جب بات ایسی ہو کہ قریب قریب ایک بدیہی امر کے درجے کو پہنچ رہی ہو، اور اسی لیے میں نے شریعت اسلامیہ کے عدم نفاذ کے روز روشن کی طرح عیاں ہونے پر یہ فقرہ لکھا تھا.

کچھ لوگوں کو اس پر کوئی شک ہے تو میں یہ واپس لیتا ہوں، مجھے علم نہیں تھا کہ حقائق کا ایک "رخ" یہ بھی ہے !!!

باقی یہ مراسلہ کاپی پیسٹ نہیں تھا بالکل بھی میرا ہی لکھا ہوا تھا، اور طاہر بھائی کے لیے لکھا تھا، عبداللہ عبدل کو سمجھانے کی نیت نہیں تھی !!!

سو جس کے سوال کے جواب میں لکھا گیا ، وہ خود بتائے گا کہ کس نے جذبات سے زیادہ کام لیا ہے اور کس نے سلف سے مسئلے کو بیان کیا ہے.

اور شریعت اسلامیہ کے ایک حکم کا عدم نفاذ کفر اکبر تھا یا اصغر، یہ تو ابوبکر صدیق کے عمل سے ہی ظاہر ہو گیا تھا، اور باقی عبارات بھی اپنے اندر واضح ہیں.

باقی رہا قطبی فساد، تو ابوبکر صدیق اور ابن تیمیہ بھی قطبی فسادی تھے تو یہ تو سید قطب رحمہ اللہ کے منہج سلف پر ہونے کی دلیل اور ان کے لیے لیے بڑی اعزاز کی بات ہے !!١

اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ

آمین
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
عبداللہ عبدل !

میرا مراسلہ عمومی تھا لیکن باتیں آپ کو یوں چبھ رہی ہیں جیسے آپ ہی کو مخاطب کیا گیا تھا اور آپ کی دانست میں اس مملکت خداداد میں خلافت اسلامیہ کے قائم و دائم ہے اور دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں. . . . . . اگر اپ واقعی ایسا خیال کرتے ہیں تو صاف صاف بتا دیں، تاکہ میں ائندہ کے لیے آپ کے اس موقف کا احترام کر سکوں.!!!

اور اگر آُپ کا بھی یہی خیال ہے کہ؛؛

""اس نظام نے رب العالمین کی شریعت کواس زمین پر نافذ نہیں کیا ہوا ہے، اسلام کا نظام سیاست، نظام عدل، نظام معیشت و معاشرت، اجتماعی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اللہ کا قانون چلایا جاتا ہو.""

تو میرے بھائی سیخ پا کاہے کو ہوتے ہو؟؟

اور اگر ہو سکا کرے تو علم و دانش کے یہ موتی ایک ہی مراسلے میں بکھیر دیا کریں، ....شان جلالت ماب میں گستاخی نہ ہو تو ....

والسلام
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
باقی رہا قطبی فساد، تو ابوبکر صدیق اور ابن تیمیہ بھی قطبی فسادی تھے تو یہ تو سید قطب رحمہ اللہ کے منہج سلف پر ہونے کی دلیل اور ان کے لیے لیے بڑی اعزاز کی بات ہے !!
جی جی بہت اعزاز کی ب ات ہے . دو بحر ( قطبی اور سلفی ) کا ملاپ ، معجون، آمیزہ، کوٹا، مکسچر، انجذاب، گھلنا ملنا اور پھر مجمع البحرین کا وجود میں آنے والا واقع بالکل عظیم معاملہ تھا !
اللہ اس ممناہج کی کراس سے پیدا ہونے وال بریڈسے سب مسلمانوں کو محفوظ رکھے اور خالص سلف سالحین کے منہج پر غامزن رکھے!
آمین​
 

طاہر

مبتدی
شمولیت
جنوری 29، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
0
دخل اندازی معاف!
محترم طاہر! آپ کے سارے سوالوں کا مختصر جواب۔۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔۔یہ میرا خیال ہے۔۔۔۔۔۔کوئی اس سے اختلاف بھی کر سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی خروج سے کیا مراد ہے؟؟؟؟؟؟
کیا زرداری اور دیگر حکمرانوں کو عوام تختہ دار پر لٹکا دے کہ انہوں نے غیر شرعی کام کیے ہیں؟

اگر ایسا کام آپ نے ہی کرناہے تو پھر عدالتوں کو ختم کر دیں اور ہر شخص خود ہی فیصلہ کر لے کہ کون شخص غیر شرعی کام کر رہا ہے اور کس شخص کو کیا سزا دینی ہے؟؟
ایسا کام واقعی میں خوارج نے کیا اور آج کے دور میں بھی طالبان، القاعدہ اور اس قسم کی فکر رکھنے والے دیگر لوگ سر انجام دے رہے ہیں اور یہ لوگ خوارج کے گروہ ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختلاف آپ کا حق ہے مگر سوچ سمجھ کر!!!!!!
السلام و علیکم!

بھائی محمد شعبان، آپ کے جواب کا بے حد مشکور ہوں، اور دخل اندازی کی کوئی بات نہیں ہے۔

کیا زرداری اور دیگر حکمرانوں کو عوام تختہ دار پر لٹکا دے کہ انہوں نے غیر شرعی کام کیے ہیں؟
اس کا فیصلہ تو علماء اور عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ کب ان کے غیر شرعی امور کا تعین کیا جاتا ہے اور ان پر قانون کا اطلاق کب اور کیسے کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے عوام کو خود سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کرنا چاہیئے۔

اگر ایسا کام آپ نے ہی کرناہے تو پھر عدالتوں کو ختم کر دیں اور ہر شخص خود ہی فیصلہ کر لے کہ کون شخص غیر شرعی کام کر رہا ہے اور کس شخص کو کیا سزا دینی ہے؟؟
میں نے کوئی ’’ایسا کام‘‘ نہ تو تجویز کیا ہے، نہ ہی اس کا ارادہ کیا اور نہ ہی کسی ’’ایسے کام‘‘ کو کوئی مطالبہ یا اس کی جانب کوئی اشارہ اپنے مراسلے میں کیا ہے۔تو یہ قیاس یا خیال آپ نے میرے بارے میں کیسے اخذ کر لیا؟
ایسا کام واقعی میں خوارج نے کیا اور آج کے دور میں بھی طالبان، القاعدہ اور اس قسم کی فکر رکھنے والے دیگر لوگ سر انجام دے رہے ہیں اور یہ لوگ خوارج کے گروہ ہی سے تعلق رکھتے ہیں
بہت خوب۔ سیدی بوش و اوباما بھی القاعدہ اور طالبان کے بارے میں ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔
اختلاف آپ کا حق ہے مگر سوچ سمجھ کر!!!!!!
اس مفید مشورہ کے لیئے بے حد مشکور ہوں۔ اختلاف برحق ہو تو بہتر نہ کہ اختلاف برائے اختلاف۔ اللہ ہمیں اختلاف سے بچائے اور اتفاق و اتحاد عنایت کرے آمین۔

اگر ایک سوال پوچھ سکوں تو عنایتِ مزید ہو گی۔ گورنر پنچاب کے قتل بارے آپ کیا کہیں گے؟ کیا ان کے قاتل کو خوارج میں شمار کیا جائے گا؟ کیونکہ اس نے از خود گورنر پنجاب کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا؟

بہت شکریہ

والسلام و علیکم
 

طاہر

مبتدی
شمولیت
جنوری 29، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
0
اسلام علیکم

طاہر بھائی آپ نے حکمران بارے جو بھی سوال رکھے انکا نتیجہ یا تو کفر اصغر یعنی کبیرہ گناہ کی صورت میں یا پھر کفر بواح ارتدادکی صورت میں نکلتا ہے اور ان دونوں صورتوں کا انحصار فاعل کی کیفیت و حالت پر ہے....

چاہے کفر اصغر ہو یا کفر اکبر...... خروج کے مسئلے پر سلف صالحین کا موقف واضح ہے اور اس بارے ابو الحسن بھائی بہت اعلی کاوش کی ہے، میں آپ تمام اھباب سے اس کے مطالعے کی استدعا کروں گا..

اس تحقیقی مضمون کا (یونیکوڈ اور پی ڈی ایف فارمیٹ)
و علیکم السلام برادر عبداللہ عبدل

آپ کے جوب کا بے حد مشکور ہوں اور مندرجات اور فراہم کردہ رابطہ اور اس کے مواد کا مطالعہ زیرِ غور و خوص ہے۔ ان شاءاللہ جلد ہی مزید تبادلہ خیال ہو گا۔ ایک بار پھر دلی شکریہ قبول فرمائیں۔

والسلام و علیکم
 

طاہر

مبتدی
شمولیت
جنوری 29، 2012
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
0
طاہر ! میرے بھائی

جو وجوہات آپ نے بیان کی ہیں ان میں کچھ تو کفر اکبر ہیں کہ جن کو نواقض الاسلام میں شمار کیا جاتا ہے، اور کچھ دوسری اقسام ایسی ہیں جو فسق و فجور میں اتی ہیں، مثلا جیسا کہ آپ نے لھو و لعب وغیرہ کی طرف اشارہ کیا.

میرے بھائی ! مسئلہ صرف زرد آری یا کیانی رغیہ کا نہیں ہے، اور مسئلہ صرف ایک یا دو سورتوں کے ارتکاب کا بھی نہیں ہے، سادہ سا معاملہ یہ ہے کہ اس نظام نے رب العالمین کی شریعت کا اس زمین پر نافذ نہیں کیا ہوا ہے، اسلام کا نظام سیاست، نظام عدل، نظام معیشت و معاشرت، اجتماعی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اللہ کا قانون چلایا جاتا ہو.

اور یہ ایسے حقائق ہیں کہ عقل کا کوئی اندھا ہی ان کا انکار کر سکتا ہے.

ان حالات میں بات صرف زردآری ا کسی ایک دو کی نہیں رہ جاتی بات اس سارے نظام کی آجاتی ہے، جس میں اج یہ ہیں تو کل کوئی اور ہو گا... لیکن روش یہی رہے گی،،،،،، جہاں تک اصولی طور پر خروج کا معاملہ ہے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کا منکرین زکوۃ کے خلاف جہاد صرف اس بنا پر تھا کہ انہوں ننے شریعت اسلامی کے ایک رکن کے نفاذ کا انکار کیا تھا، تو یہاں تو ایک رکن بھی نافذ نہیں ہے.....

ہمارے ہاں جو فنامنا پایا جاتا ہے وہ ایک ایس صورتحال پر مشتمل ہے جس نے لوگوں کی آنکھوں میں ایک طویل عرصہ سے دھول جھونکی ہوئی ہے، لیکن قرآن و سنت اور منہج سلف اس بارے میں جو راہنمائی دیتے ہیں اس سے بات بالکل نکھر کر سامنے اجاتی ہےاس کی ایک سے زیادہ جہات( dimensions(ہیں. چند ایک کی طرف اختصار کے ساتھ اشارہ کرتا ہوں::

1::حکمران نام کے مسلمان ہیں اور شریعت کے ساتھ سلوک کفار سے بھی بدتر کر رہے ہیں، کچھ اپنے کے آئینوں پر قران و سنت کا لیبل لگا کر ، اور کہیں پر اتنی بھی زحمت گوارا نہ کرتے ہوئے، کفار سے بدتر اس لیے کہ وہ تو اسلام کے نام لیوا ہی نہیں ہیں.
((شریعت::LAW((

2:: مملکتیں اسلامی ناموں سے موسوم ہیں ، حکمرانوں کی طرح لیکن مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کردار کفار سے بھی بڑھ چرھ کر برا کر ادا کر رہی ہیں،ان کی ہر طرح مدد کر رہی ہیں، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوں.

3:: عدالتی سسٹم اس دوغلے پن سے فی الحال تک پاک ہے، کہ بتایا بھی یہی جاتا ہے کہ فیصلہ اللہ کے قانون سے نہیں ہو گا، اور کیا بھی ایمانداری سے یہی جاتا ہے !!!

4:: اللہ کے حلال(WHAT YOU CAN DO ( کو حرام(WHAT YOU CAN NOT DO( کر دیا گیا ہے او حرام کو حلال کر دیا گیا ہے. ہمارے ہاں تو شاید کوئی تاویل کر لی جائے لیکن عرب ممالک میں جہاد کو یکسر حرام قرار دے کر اس کے نام لیواؤں کو لامحدود مدت کے لیے جیلوں میں ٹھونس دیا جانا روٹین ورک ہے، سود ہمارے ہاں حلال ہے، ملکی اور صوبائی سطح پر، اسی طرح مرد و خاتوں کا باہمی رضامندی کے ساتھ بلا نکاح میل جول کی اخری حدوں تک جانا بھی حلال ٹھہرا دیا گیا ہے جو کہ اللہ کی شریعت میں حرام ہے.


اب تھوڑا سا تاریخ میں جھانکتے ہیں:: واقعہ یہ ہے کہ تاریخ اسلام میں یہ فنامنا جس کا اوپر ذکر اور نشانیاں بیان کی گئی ہیں، پہلی دفعہ تب معرض ظہور میں ایا ، جب چھٹی صدی ہجری میں تاتاریوں نے اسلام قبول کر لیا اور اس کے بعد ان میں سے ایسے گروہ نکلے جنہوں نے بعینہ وہی کام کیے جو اوپر کے چار نکات میں بیان کیے گئے ہیں.((ان میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے ،لیکن یہاں مقصود صرف سمجھانا ہے((

ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس وقت علمائے امت نے قرآن و سنت کی روشنی میں ان نام کے مسلمانوں لیکن عمل کے کفار کے ساتھ کیا رویہ روا رکھا تھا.

امام ابن کثیر رحمہ اللہ جو تفسیر قرآن میں سب سے معتبر مانے جاتے ہیں، اسی دور میں موجود تھے، اپنی شہرہ آفاق تفسیر "تفسیر القرآن العظیم" میں درج ذیل آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

أَفَحُکْمُ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُوقِنُونَ
(اگر یہ اللہ کے نازل کردہ قانون سے منہ موڑتے ہیں تو ) کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں ،اور یقین رکھنے والوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے۔‘‘
(المائدۃ:۵۰(
یہاں اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر گرفت فرمائی ہے جو دین کے محکم احکام (جو سراپا خیر اور شر کی قلعی کھولنے والے ہیں)سے رو گردانی اختیار کرنے والا ہے۔ جو احکام الٰہیہ کو چھوڑ کر انسانوں کی وضع کردہ ان آراء و خواہشات کی پیروی کرنے لگتا ہے جن کی شریعت مطہرہ میں کوئی دلیل نہیں۔

یہ شخص بالکل دورِجاہلیّت کے ان لوگوں کی مانند ہے جو اپنی آراء و خواہشات پر مبنی گمراہیوں اور جہالتوں کی روشنی میں فیصلے کرتے تھے،یا ان تاتاریوں کی مثل ہے جو اپنے فرمانروا چنگیز خان کی وضع کردہ کتاب ’یاسق‘ کو فیصل کن مانتے ہیں۔’یاسق‘ مختلف شریعتوں مثلًا یہودیت ،عیسائیت ،اسلام اور خود اس کے ذاتی نظریات و خواہشات سے اخذ کردہ احکامات کا مجموعہ ہے۔ یہ مجموعہ اس کی اولاد کے نزدیک ایک ایسی لائق تقلید شریعت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جسے یہ کتابُ اللہ اور سنت رسول اللہﷺ پر بھی ترجیح دیتے ہیں۔پس ان میں سے جو شخص بھی ایسا کرے وہ کافر ہے اور اس سے اس وقت تک قتال کرنا واجب ہے کہ جب تک وہ اپنے ہر چھوٹے بڑے فیصلے میں اللہ اور اس کے رسول کو حاکم نہ مان لے۔‘‘


یہی امام ابن کثیر اپنی تاریخ کی کتاب البدایہ والنھایہ میں تاتاریوں کے بارے میں تمام مسلمانوں کا اجماع بیان فرماتے ہیں::

""جس نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت چھوڑ کر کسی دوسری شریعت سے فیسلے کروانے شروع کر دیےتو اس نے کفر کیا، تو اس کے بارے میں کیا خیال ہے جو یاسق سے فیسلے کروائے اور انہیں کتاب و سنت پر ترجیح بھی دے؟ جس نے بھی یہ عمل کیا وہ اجماع امت کی رو سے کافر ہو گیا. اللہ فرماتے ہیں کہ:: َافَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ
کیا یہ لوگ (زمانۂ) جاہلیت کا قانون چاہتے ہیں، اور یقین رکھنے والی قوم کے لئے حکم (دینے) میں اﷲ سے بہتر کون ہو سکتا ہے.
(المائدۃ::50(
فلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا
پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں.
(النساء::65(

(البداية والنهاية) 13/ 119، ضمن أحداث عام 624هـ، عند ترجمته لجنكيز خان.

اسی دور کے مشہور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے بعد ابن قیم، تیرھویں صدی ہجری کے علامہ شوکانی اور دور حاضر میں مفسر شنقیطی، شیخ حمد بن عتیق اور علمائے عرب کی ایک کثیر جماعت ،شیخ احمد شاکر اور حامد الفقی وغیرہم نے ، جنہوں نے احوال المسلمین پر بحث کی ہے، یہی بات زور دے کر بیان کی ہے.

طائفہ ممتنعہ::

ایسے گروہ کو جس نے شریعت کے احکام کو نافذ ہونے سے روک رکھا ہو، طائفہ ممتنعہ کہا جاتا ہے، طائفہ عربی میں گروہ کو کہتے ہیں اور ممتنعہ کا مطلب ہے روکنے والا. نبی صلی اللہ علیہ و سلم کئ وفات کے فورا بعد جن لوگوں سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جنگ فرمائی تھی انہیں مانعین زکوۃ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یعنی زکوۃ دینے سے روکنے والے، ان کے نزدیک زکوۃ صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی تک تھی اور بعد میں یہ کسی اور کو ادا نہیں کی جائیگی، ان کے خلاف اسی بنیاد پر جنگ کی گئی کہ وہ طائفہ ممتنعہ تھے. امام ابن تیمیہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر ایک علاقے کے لوگ اجتماعی طور پر آذان یا اقامت ترک کر دیں تو پھر بھی ان سے اس حکم پر واپس آنے تک جنگ کی جائے گی، کیونکہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ ::
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَوْاْ فَإِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور (اے اہلِ حق!) تم ان (کفر و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ (انقلابی) جنگ کرتے رہو، یہاں تک کہ (دین دشمنی کا) کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے اور سب دین (یعنی نظامِ بندگی و زندگی) اللہ ہی کا ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ اس (عمل) کو جو وہ انجام دے رہے ہیں، خوب دیکھ رہا ہے
(الانفال::39(
جب نظام کچھ اللہ کے لیے ہو اور کچھ غیر اللہ کے لیے تو قتال واجب ہے اس وت تک تک قتال واجب ہے جب تک سارا نظام ہی اللہ کے لیے نہ ہو جائے (مجموع الفتاوى(28/510(


خلاصہ:: موجودہ سسٹم کے خلاف جنگ کا اصولی جواز موجود ہے، کیوں کہ یہ نظام ، نظام کفر ہے، بھلے اس میں کام کرنے والے افراد کوئی بھی کیوں نہ ہوں.

یہ تو ہوا پرنسپل یعنی اصول، اب اس اصول کی ایپلیکیشن کیسے ہو گی ،اس کی کیا شرائط ہیں اور کیا prerequsitesہیں ،یہ ایک الگ موضوع ہے، اس لیے فی الوقت اس ویڈیو پر ہی اکتفا کریں::

‫طائفہ ممتنعہ اور اس کے خلاف قتال | Facebook‬

﴿﴿جن احباب کا دل اس وقت مجھ پر فتاوی لگانے کے لیے مچل رہا ہو، وہ براہ کرم پہلے ویڈیو ضرور دیکھ لیں، پھر جو مزاج یار میں آئےإ﴾﴾

وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب
السلام و علیکم!

برادرم عزیز باربروسا، بے حد مشکور ہوں کہ آپ نے بہ کمال شفقت و نہایت محنت، اتنے مدلل و مفصل جواب سے نوازا۔ اللہ جل و جلا لہ آپ کی مشقت کو قبول و منصور فرمائے آمین۔

عزیز بھائی، آپ کا مراسلہ ابھی زیرِ غور و مطالعہ ہے اور محترم و مشفق بھائی عبداللہ عبدل کے مراسلے اور اس میں دیئے گئے رابطہ کے مواد کا مطالعہ اور تقابل بھی بڑا اہم ہے کہ کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکے۔ جو یقینا ایک نازک اور مشکل کام ہو گا۔ لہٰذا میں آپ دونوں بھائیوں سے بالخصوص اور دیگر تمام اخوان سے بھی دعاء کی درخواست کروں گا کہ اللہ میری مشکل کو آسان فرمائے اور ہم سب کو اخوت و اتحاد کی راہ پر گامزن فرمائے۔ آمین

ان شاء اللہ جلد ہی مزید تبادلہ خیال ہو گا۔

والسلام و علیکم
 
Top