طاہر ! میرے بھائی
جو وجوہات آپ نے بیان کی ہیں ان میں کچھ تو کفر اکبر ہیں کہ جن کو نواقض الاسلام میں شمار کیا جاتا ہے، اور کچھ دوسری اقسام ایسی ہیں جو فسق و فجور میں اتی ہیں، مثلا جیسا کہ آپ نے لھو و لعب وغیرہ کی طرف اشارہ کیا.
میرے بھائی ! مسئلہ صرف زرد آری یا کیانی رغیہ کا نہیں ہے، اور مسئلہ صرف ایک یا دو سورتوں کے ارتکاب کا بھی نہیں ہے، سادہ سا معاملہ یہ ہے کہ اس نظام نے رب العالمین کی شریعت کا اس زمین پر نافذ نہیں کیا ہوا ہے، اسلام کا نظام سیاست، نظام عدل، نظام معیشت و معاشرت، اجتماعی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اللہ کا قانون چلایا جاتا ہو.
اور یہ ایسے حقائق ہیں کہ عقل کا کوئی اندھا ہی ان کا انکار کر سکتا ہے.
ان حالات میں بات صرف زردآری ا کسی ایک دو کی نہیں رہ جاتی بات اس سارے نظام کی آجاتی ہے، جس میں اج یہ ہیں تو کل کوئی اور ہو گا... لیکن روش یہی رہے گی،،،،،، جہاں تک اصولی طور پر خروج کا معاملہ ہے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کا منکرین زکوۃ کے خلاف جہاد صرف اس بنا پر تھا کہ انہوں ننے شریعت اسلامی کے ایک رکن کے نفاذ کا انکار کیا تھا، تو یہاں تو ایک رکن بھی نافذ نہیں ہے.....
ہمارے ہاں جو فنامنا پایا جاتا ہے وہ ایک ایس صورتحال پر مشتمل ہے جس نے لوگوں کی آنکھوں میں ایک طویل عرصہ سے دھول جھونکی ہوئی ہے، لیکن قرآن و سنت اور منہج سلف اس بارے میں جو راہنمائی دیتے ہیں اس سے بات بالکل نکھر کر سامنے اجاتی ہےاس کی ایک سے زیادہ جہات( dimensions(ہیں. چند ایک کی طرف اختصار کے ساتھ اشارہ کرتا ہوں::
1::حکمران نام کے مسلمان ہیں اور شریعت کے ساتھ سلوک کفار سے بھی بدتر کر رہے ہیں، کچھ اپنے کے آئینوں پر قران و سنت کا لیبل لگا کر ، اور کہیں پر اتنی بھی زحمت گوارا نہ کرتے ہوئے، کفار سے بدتر اس لیے کہ وہ تو اسلام کے نام لیوا ہی نہیں ہیں.
((شریعت::LAW((
2:: مملکتیں اسلامی ناموں سے موسوم ہیں ، حکمرانوں کی طرح لیکن مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کردار کفار سے بھی بڑھ چرھ کر برا کر ادا کر رہی ہیں،ان کی ہر طرح مدد کر رہی ہیں، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوں.
3:: عدالتی سسٹم اس دوغلے پن سے فی الحال تک پاک ہے، کہ بتایا بھی یہی جاتا ہے کہ فیصلہ اللہ کے قانون سے نہیں ہو گا، اور کیا بھی ایمانداری سے یہی جاتا ہے !!!
4:: اللہ کے حلال(WHAT YOU CAN DO ( کو حرام(WHAT YOU CAN NOT DO( کر دیا گیا ہے او حرام کو حلال کر دیا گیا ہے. ہمارے ہاں تو شاید کوئی تاویل کر لی جائے لیکن عرب ممالک میں جہاد کو یکسر حرام قرار دے کر اس کے نام لیواؤں کو لامحدود مدت کے لیے جیلوں میں ٹھونس دیا جانا روٹین ورک ہے، سود ہمارے ہاں حلال ہے، ملکی اور صوبائی سطح پر، اسی طرح مرد و خاتوں کا باہمی رضامندی کے ساتھ بلا نکاح میل جول کی اخری حدوں تک جانا بھی حلال ٹھہرا دیا گیا ہے جو کہ اللہ کی شریعت میں حرام ہے.
اب تھوڑا سا تاریخ میں جھانکتے ہیں:: واقعہ یہ ہے کہ تاریخ اسلام میں یہ فنامنا جس کا اوپر ذکر اور نشانیاں بیان کی گئی ہیں، پہلی دفعہ تب معرض ظہور میں ایا ، جب چھٹی صدی ہجری میں تاتاریوں نے اسلام قبول کر لیا اور اس کے بعد ان میں سے ایسے گروہ نکلے جنہوں نے بعینہ وہی کام کیے جو اوپر کے چار نکات میں بیان کیے گئے ہیں.((ان میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے ،لیکن یہاں مقصود صرف سمجھانا ہے((
ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس وقت علمائے امت نے قرآن و سنت کی روشنی میں ان نام کے مسلمانوں لیکن عمل کے کفار کے ساتھ کیا رویہ روا رکھا تھا.
امام ابن کثیر رحمہ اللہ جو تفسیر قرآن میں سب سے معتبر مانے جاتے ہیں، اسی دور میں موجود تھے، اپنی شہرہ آفاق تفسیر "تفسیر القرآن العظیم" میں درج ذیل آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
أَفَحُکْمُ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُوقِنُونَ
(اگر یہ اللہ کے نازل کردہ قانون سے منہ موڑتے ہیں تو ) کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں ،اور یقین رکھنے والوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے۔‘‘
(المائدۃ:۵۰(
یہاں اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر گرفت فرمائی ہے جو دین کے محکم احکام (جو سراپا خیر اور شر کی قلعی کھولنے والے ہیں)سے رو گردانی اختیار کرنے والا ہے۔ جو احکام الٰہیہ کو چھوڑ کر انسانوں کی وضع کردہ ان آراء و خواہشات کی پیروی کرنے لگتا ہے جن کی شریعت مطہرہ میں کوئی دلیل نہیں۔
یہ شخص بالکل دورِجاہلیّت کے ان لوگوں کی مانند ہے جو اپنی آراء و خواہشات پر مبنی گمراہیوں اور جہالتوں کی روشنی میں فیصلے کرتے تھے،یا ان تاتاریوں کی مثل ہے جو اپنے فرمانروا چنگیز خان کی وضع کردہ کتاب ’یاسق‘ کو فیصل کن مانتے ہیں۔’یاسق‘ مختلف شریعتوں مثلًا یہودیت ،عیسائیت ،اسلام اور خود اس کے ذاتی نظریات و خواہشات سے اخذ کردہ احکامات کا مجموعہ ہے۔ یہ مجموعہ اس کی اولاد کے نزدیک ایک ایسی لائق تقلید شریعت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جسے یہ کتابُ اللہ اور سنت رسول اللہﷺ پر بھی ترجیح دیتے ہیں۔پس ان میں سے جو شخص بھی ایسا کرے وہ کافر ہے اور اس سے اس وقت تک قتال کرنا واجب ہے کہ جب تک وہ اپنے ہر چھوٹے بڑے فیصلے میں اللہ اور اس کے رسول کو حاکم نہ مان لے۔‘‘
یہی امام ابن کثیر اپنی تاریخ کی کتاب البدایہ والنھایہ میں تاتاریوں کے بارے میں تمام مسلمانوں کا اجماع بیان فرماتے ہیں::
""جس نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت چھوڑ کر کسی دوسری شریعت سے فیسلے کروانے شروع کر دیےتو اس نے کفر کیا، تو اس کے بارے میں کیا خیال ہے جو یاسق سے فیسلے کروائے اور انہیں کتاب و سنت پر ترجیح بھی دے؟ جس نے بھی یہ عمل کیا وہ اجماع امت کی رو سے کافر ہو گیا. اللہ فرماتے ہیں کہ:: َافَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ
کیا یہ لوگ (زمانۂ) جاہلیت کا قانون چاہتے ہیں، اور یقین رکھنے والی قوم کے لئے حکم (دینے) میں اﷲ سے بہتر کون ہو سکتا ہے.
(المائدۃ::50(
فلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا
پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں.
(النساء::65(
(البداية والنهاية) 13/ 119، ضمن أحداث عام 624هـ، عند ترجمته لجنكيز خان.
اسی دور کے مشہور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے بعد ابن قیم، تیرھویں صدی ہجری کے علامہ شوکانی اور دور حاضر میں مفسر شنقیطی، شیخ حمد بن عتیق اور علمائے عرب کی ایک کثیر جماعت ،شیخ احمد شاکر اور حامد الفقی وغیرہم نے ، جنہوں نے احوال المسلمین پر بحث کی ہے، یہی بات زور دے کر بیان کی ہے.
طائفہ ممتنعہ::
ایسے گروہ کو جس نے شریعت کے احکام کو نافذ ہونے سے روک رکھا ہو، طائفہ ممتنعہ کہا جاتا ہے، طائفہ عربی میں گروہ کو کہتے ہیں اور ممتنعہ کا مطلب ہے روکنے والا. نبی صلی اللہ علیہ و سلم کئ وفات کے فورا بعد جن لوگوں سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جنگ فرمائی تھی انہیں مانعین زکوۃ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یعنی زکوۃ دینے سے روکنے والے، ان کے نزدیک زکوۃ صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی تک تھی اور بعد میں یہ کسی اور کو ادا نہیں کی جائیگی، ان کے خلاف اسی بنیاد پر جنگ کی گئی کہ وہ طائفہ ممتنعہ تھے. امام ابن تیمیہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ
اگر ایک علاقے کے لوگ اجتماعی طور پر آذان یا اقامت ترک کر دیں تو پھر بھی ان سے اس حکم پر واپس آنے تک جنگ کی جائے گی، کیونکہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ ::
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّهِ فَإِنِ انتَهَوْاْ فَإِنَّ اللّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور (اے اہلِ حق!) تم ان (کفر و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ (انقلابی) جنگ کرتے رہو، یہاں تک کہ (دین دشمنی کا) کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے اور سب دین (یعنی نظامِ بندگی و زندگی) اللہ ہی کا ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ اس (عمل) کو جو وہ انجام دے رہے ہیں، خوب دیکھ رہا ہے
(الانفال::39(
جب نظام کچھ اللہ کے لیے ہو اور کچھ غیر اللہ کے لیے تو قتال واجب ہے اس وت تک تک قتال واجب ہے جب تک سارا نظام ہی اللہ کے لیے نہ ہو جائے (مجموع الفتاوى(28/510(
خلاصہ:: موجودہ سسٹم کے خلاف جنگ کا اصولی جواز موجود ہے، کیوں کہ یہ نظام ، نظام کفر ہے، بھلے اس میں کام کرنے والے افراد کوئی بھی کیوں نہ ہوں.
یہ تو ہوا پرنسپل یعنی اصول، اب اس اصول کی ایپلیکیشن کیسے ہو گی ،اس کی کیا شرائط ہیں اور کیا prerequsitesہیں ،یہ ایک الگ موضوع ہے، اس لیے فی الوقت اس ویڈیو پر ہی اکتفا کریں::
طائفہ ممتنعہ اور اس کے خلاف قتال | Facebook
﴿﴿جن احباب کا دل اس وقت مجھ پر فتاوی لگانے کے لیے مچل رہا ہو، وہ براہ کرم پہلے ویڈیو ضرور دیکھ لیں، پھر جو مزاج یار میں آئےإ﴾﴾
وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب