اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
آپ ہی فرمائیے کہ حلالہ کس وجہ سے مکروہ تحریمی ہے؟ کیونکہ ابھی اوپر آپ حلالہ کو بے حیائی، برا فعل وغیرہ کہہ آئے ہیں۔ اور میں نے پچھلی پوسٹ میں کہہ دیا تھا کہ آپ یہ فتویٰ پڑھنے کے بعد، اس کے دفاع میں اپنے ان الفاظ سے دستبردار ہوجائیں گے، اور آپ نے وہی کیا۔
کمال ہے کہ فعل وہی ہے۔ بس اگر دل میں چھپا کر کروں تو کسی قسم کی کراہت نہیں۔ اور اگر بطور شرط نکاح نامے پر لکھ دوں تو مکروہ تحریمی اور حرام اور لعنتی فعل۔
آپ نے صحیح کہا تھا کہ امام بخاری رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مخالفت کرتے ہیں، ورنہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہونے والی حدیث سب سے اول لا کر احناف کے مؤقف کی تردید کیوں کرتے۔ بلکہ اس حدیث کو چھپا جاتے تو معتدل مزاج امام بھی کہلاتے بلکہ سیدالفقہاء و المحدثین وغیرہ کہلانے کے لئے بھی احناف کو اعتراض نہ ہوتا۔
آپ کچھ دیر ٹھنڈے دل سے اطمینان سے اس پورے قضیے پر غور کریں۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل پر جو لعنت فرمائی تھی اور اس کو جو بے حیائی، برائی کا کام کہا تھا، کیا احناف نے اسے ایک طرح سے جائز نہیں قرار دے دیا۔ یا نرم سے نرم الفاظ میں بھی اس فعل کی قباحت و شناعت کو ختم نہیں کر دیا
؟
ان اضافی مباحث سے قطع نظر کہ ان کا مسئلہ کی علمی بحث سے تعلق نہیں۔
بات تو میں آپ کی بخوبی سمجھ رہا ہوں اور مان بھی رہا ہوں لیکن علمی بحث صرف غیرت سے تو نہیں ہوتی نا۔آپ برا نہ منائیں تو عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ بعض اوقات دلائل سے زیادہ یا دلائل کے ساتھ تھوڑی سی غیرت بھی درکار ہوتی ہے، بات کو سمجھنے کے لئے۔
قرآن نے یہ بھی کہا ہے کہ تم جہاں کہیں ہو، اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیا کرو۔ یہاں نماز و غیر نماز کی کوئی قید نہیں ہے۔
آپ بتائیے کیا ہونا چاہئے؟
اس بات کی وضاحت کیجیے
آپ قرآن کی تفسیر احادیث سے کرنے کو درست مانتے ہیں کہ نہیں؟
قرآن نے تو یہ شرط عائد کی ہے کہ خاتون دوسرے شوہر سے نکاح کرے، تو پہلے کے لئے حلال ہو جائے گی۔
لیکن حدیث تو یہ بھی شرط لگاتی ہے کہ جب تک دوسرے شوہر سے مجامعت نہ ہو، پہلے کے لئے حلال نہیں ہوگی۔ یعنی فقط نکاح حلال کرنے کے لئے کافی نہیں، صحبت ہونا ضروری ہے۔ ۔!
میں عرض کرنا چاہوں گا کہ قرآن ہی یہ شرط بھی لگاتا ہے کیوں کہ قرآن میں ہے حتی تنکح زوجا غیرہ
جب زوج کہا ہے تو زوج سے نکاح کرنے کا کیا مطلب ہوا؟ اس لیے ہم کہتے ہیں یہاں نکاح اپنے اصل لغوی معنی یعنی وطی کے معنی میں ہے اور اس عبارت کی مکمل مراد یہ بنتی ہے کہ دوسرے شخص کو شوہر بنائے یعنی شادی کرے اور اس سے مجامعت بھی کرے۔
حدیث مبارکہ میں اس معنی کی تائید ہے صرف۔
آپ نے اگر اصول فقہ پڑھے ہوں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم بھی حدیث سے قرآن کی تخصیص کو درست مانتے ہیں لیکن کچھ شرائط کے ساتھ۔ اور وہ یہ کہ حدیث سے نسخ کے لیے ضروری ہے کہ وہ خبر متواتر ہو (تا کہ اس کے ثبوت و دلالت میں قطعیت ہو) اور تخصیص کے لیے ضروری ہے خبر مشہور ہو وغیرہ وغیرہ۔
اب آپ وہ حدیث لکھیے جس کی بنا پر آپ فرماتے ہیں کہ یہ بالکل درست نہیں ہونا چاہیے۔
میں نے یہاں اپنی رائے کہاں تبدیل کی ہے مجھے علم نہیں۔ مجھے بتا دیجیے۔اور میں نے پچھلی پوسٹ میں کہہ دیا تھا کہ آپ یہ فتویٰ پڑھنے کے بعد، اس کے دفاع میں اپنے ان الفاظ سے دستبردار ہوجائیں گے، اور آپ نے وہی کیا۔
ویسے میں نے ایک اور جگہ بھی عرض کیا ہے اور یہاں بھی کرتا ہوں کہ مجھ سے غلطی ہونا ممکن ہے اور میں اپنی رائے کو غلط محسوس ہونے پر تبدیل بھی کر سکتا ہوں۔ یہ کون سا قانون ہے کہ میں اپنی غلط رائے پر چمٹا رہوں؟