• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گیارہ ستمبر کے واقعات کی شرعی حیثیت - شیخ حمود بن عقلاء الشعیبی رحمہ اللہ کا فتوٰی

شمولیت
ستمبر 10، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
0


گیارہ ستمبر کے واقعات کی شرعی حیثیت - شیخ حمود بن عقلاء الشعیبی رحمہ اللہ کا فتوٰی


شیخ حمودبن عقلاء الشعیبی رحمہ اللہ ………ایک تعارف

شیخ حمود بن عقلاء الشعیبی ﷫کا شمار دورِ حاضر کے ممتاز ترین علمائے دین میں ہوتا ہے۔آپ کی وسعت علمی اور بیباکانہ حق گوئی کی بدولت نہ صرف جزیرۂ عرب بلکہ تمام عالمِ اسلام میں آپ کو عزت واحترام کی نگاہ سےدیکھا گیا ۔آپ نے اپنی زبان وقلم سے تمام عمر دین کی خدمت اور مجاہدین کی بھرپور نصرت کی ۔اپنی زندگی کے آخری چند سالوں میں ………جب گیارہ ستمبر کے مبارک واقعات کے بعد امتِ مسلمہ کے حکمرانوں پر کفر کا رعب طاری تھا اور بہت سے اہلِ علم کی زبانوں پر خوف کے مارے تالے پڑچکے تھے ………آپ نے اپنی ضعیف العمری کے باوجود حق کو اعلانیہ حق کہنے کا فریضہ سر انجام دیا اور اپنے مدلّل فتاویٰ کے ذریعے جہاد کی پشیبانی کا حق ادا کیا ۔اللہ آپ کی قبر کو نور سے منور کرے اور آپ کی لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ آمین!
آپ کا پورا نام الشیخ العلامۃ ابو عبداللّٰہ حمود بن عبداللّٰہ بن محمد بن عقلاء الشعیبی الخالدی تھا۔آپ ۱۳۴۶ہجری میں سعودی عرب میں بریدۃ کے علاقے الشقة میں پیدا ہوئے۔جب سات سال کی عمر کو پہنچے تو بیماری کے سبب اپنی بینائی کھوبیٹھے ۔اس صدمے کے باجود آپ نے مدرسے میں اپنی تعلیم جاری رکھی ۔آپ کی عمدہ تعلیم و تربیت میں آپ کے والد کی انتھک کوششوں کا بڑا اہم کردار رہا۔صرف پندرہ سال کی عمر ہی میں آپ نے شیخ عبداللّٰہ بن مبارک العمری کی زیرِ سرپرستی مکمل قرآن حفظ کرلیا۔
آپ ۱۳۶۷ ہجری میں اپنے والد کے کہنے پر حصول علم کی خاطر ریاض آگئے اور فضیلۃ الشیخ عبداللطیف بن ابراہیم آلِ شیخ سے مختلف علومِ دینیہ کی بنیادی تعلیم حاصل کی ۔۱۳۶۸ ہجری میں آپ نے فضیلۃ الشیخ محمد بن ابراہیم آلِ شیخ کی شاگردی اختیار کی اور مختلف مضامین کا تفصیلی علم حاصل کیا۔آپ کے اساتذہ میں فضیلۃ الشیخ ابراہیم بن سلیمان،فضیلۃ الشیخ سعود بن رشود ،فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن محمد بن حمید اور فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن رشید وغیرہ جیسے نامور علماء بھی شامل ہیں۔
ریاض میں شعبہ شریعت قائم ہونے کے بعد آپ نے شیخ عبدالعزیز بن باز اور شیخ محمد امین شنقیطی ﷮ سے بھی کئی مضامین پڑھے ۔خصوصاً شیخ شنقیطی سے تو آپ درس کے اوقات کے بعد ان کے گھر جاکر بھی پڑھتے تھے ۔انہوں نے آپ کو اصولِ فقہ اور تفسیر کے مضامین پڑھائے۔
آپ شعبہ ٔشریعت سے اپنی تعلیم مکمل کرکے ۱۳۷۶ہجری میں فارغ ہوئے اور اسی سال ریاض کے المعہد العلمی میں بطور مدرس مقرر ہوئے ۔۱۳۷۸ہجری میں آپ کو شعبہ ٔ شریعت میں مدرس مقرر کیا گیا جہاں آپ تقریباً چالیس سال تک حدیث ،فقہ ،اصولِ فقہ ،توحید ،نحواور تفسیر وغیرہ پڑھاتے رہے، اور اسی عرصے میں ترقی کرکے 'استاذ'کے درجے تک جاپہنچے۔
آپ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں ، مثلاً:
٭ الامامة العظمیٰ
٭ مختصر عقیدة اھل السنة والجماعة
٭ البراھین المتاظھرة فی حتمیة ایمان باللّٰہ والدار الآخرة
٭ شرحِ بلوغ المرام
٭ القول المختار فی حکم الاستعانة بالکفار
٭ تسھیل الوصول الی علم الاصول

آپ ﷫نے اپنے فتاویٰ کے ذریعے مجاہدین کا زبردست دفاع کیا ۔آپ نے جن اہم موضوعات پر فتاویٰ دیئے وہ درج ذیل ہیں:
٭ ۱۱ ستمبر کے واقعات کا شرعی جواز
٭ مجاہدینِ طالبان کی حکومت………ایک اسلامی حکومت
٭ طالبان کی بت شکنی کاشرعی جواز
٭ فلپائن میں جہاد کا شرعی جواز
٭ شہیدی حملوں کا شرعی جواز
٭ قانونِ الٰہی سے ہٹ کر فیصلہ کرنے والے حکمرانوں کی شرعی حیثیت
آپ نے مسلمان معاشروں کو دین سے دور لے جانے والے عوامل کے سدِ باب کے لیے متعدد چھوٹے کتابچے بھی لکھے ،مثلاً آپ نے تصویر،محفلِ موسیقی میں شرکت اور غیر شرعی عیدیں اور جشن منانے کی شرعی حیثیت کو بخوبی واضح کیا ۔اللہ اس سچے عالم ِ دین کو بہترین جزاسے نوازے اور اپنی خصوصی رحمتوں سے ڈھانپ لے ! آمین!
آپ کے شاگردوں میں علماء ،اساتذہ اور وزراء کی ایک بہت بڑی تعداد شامل رہی ،مثلاً وزیر برائے اسلامی امور ڈاکٹر عبداللہ محسن الترکی ،وزیر انصاف ڈاکٹر عبداللہ بن محمد بن ابراہیم آلِ شیخ، ہیئة کبار العلماء کے رکن ڈاکٹر صالح بن فوزان الفوزان ،مجاہد شیخ سلمان بن فہد العودۃ ،مجاہد شیخ علی بن خضیر الخضیر،قاضی تمییز عبدالرحمن بن صالح الجبر،قاضی تمییز عبدالرحمان بن سلیمان الجار اللہ ،قاضی تمییز عبدالرحمن بن غیث ،قاضی تمییز عبدالرحمن بن عبدالعزیز الکلیة ، منطقة القصیم کے قاضی اعلیٰ شیخ عبدالرحمن بن عبداللہ العجلان ،ریاض کے قاضیٔ اعلیٰ سلیمان بن مھنا،ڈائریکٹر جنرل شعبہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر عبدالعزیز بن عبدالرحمن السعید،ڈائریکٹر شعبہ تحقیق وادّعاء محمد بن مھوس ،ڈاکٹر عبداللہ الغنیمان ،سیکریٹری وزارتِداخلہ ابراہیم بن داؤد۔
جن نمایاں شخصیات نے ماجتیر یا دکتور کے مقالے آپ ﷫کی رہنمائی اور سرپرستی میں لکھے ان میں ڈاکٹر محمد عبداللہ السکاکر،ڈاکٹر عبداللہ بن صالح المشیقع ،ڈاکٹر ناصر السعودی ،ڈاکٹر خلیفة الخلیفة اور ڈاکٹر ابراہیم بن محمد الدوسری وغیرہ بھی شامل ہیں ۔
آپ۷۶سال کی عمر میں ذی القعدہ ، ۱۴۲۲ہجری کوفوت ہوئے ۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ آپ ﷫کو آپ ﷫کی تمام تر علمی وعملی کاوشوں کی بہترین جزا عطا فرمائے اور آپ ﷫کے علم کو آپ ﷫کی بخشش کا ذریعہ بنائے ۔
وصلی اللّٰہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم اجمعین !
 
شمولیت
ستمبر 10، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
0
۱۱
ستمبر کے واقعات کی شرعی حیثیت

شیخ حمود بن عبداللّٰہ بن عقلاء الشعیبی﷫ کا فتویٰ
۲۸)جمادی الثانی،۱۴۲۲ھ(
سوال:
عالی قدر شیخ حمود بن عبداللّٰہ بن عقلاء الشعیبی ﷾!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
۱۱ ستمبر، ۲۰۰۱ء کو امریکہ میں پیش آنے والے واقعات پر بہت بحث مباحثہ اور گفتگو سننے کو ملتی ہے۔کچھ لوگ ان حملوں کو جائز قرار دیتے ہوئے ان کی تائید کرتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ ان کو ناجائز قرار دیتے ہوئے تنقید۔ان دونوں متضاد آراء میں سے کون سی رائے آپ کے خیال میں درست ہے؟براہِ کرم ذرا وضاحت سے جواب دیجیے کیو نکہ لوگوں کے ذہنوں میں اس حوالے سے بہت سے اشکالات ا ورشکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ جزا کم اللہ!
 
شمولیت
ستمبر 10، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
0
جواب:
الحمد للّٰہ رب العالمین وا لصلاة والسلام علی النبی الامین وعلی آلہ و صحا بتہ اجمعین و من صار علی نھجھم الی یوم الدین، اما بعد:
اصل جواب کی طرف آنے سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیٔے کہ کافر امریکی ریاست جب بھی کوئی فیصلہ کرتی ہے ،خصوصاً کہیں حملہ کرنے یا جنگ شروع کرنے کا فیصلہ، تو ایسا اقدام عوامی رائے کی تائید کے بغیر نہیں اٹھایا جاتا،خواہ وہ رائے عامہ ریفرنڈم یا سروے کے ذریعے معلوم کی جائے، یاکانگریس میں موجود نمائندے اس رائے کا اظہار کریں۔ایسی حالت میں ہر وہ امریکی جس نے جنگ کے حق میں آواز بلند کی محارب ہے اور کم از کم جنگ میں معاون اور مدد گار کی حیثیت سے تو ضرور ہی شریک ہے۔ان شاء اللہ مسئلے کے اس پہلو پر تفصیلی گفتگو بعد میں آئے گی۔
اسی طرح یہ سمجھ لینا بھی نہایت ضروری ہے کہ مسلمانوں اور کفار کے باہمی تعلقات سیاسی پالیسیوں اورشخصی مصلحتوں کی روشنی میں استوار نہیں کئے جاتے، بلکہ یہاں بھی رہنما اور فیصلہ کن حیثیت کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے۔قران نے اس مسئلے کی اہمیت کے پیشِ نظر اسے امت ِ مسلمہ کیلئے ا س قدر صراحت سے واضح کیا ہے کہ کسی قسم کے شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیںبچتی۔
اس مسئلے سے متعلقہ آیات دو باتوں پر مرتکز ہیں:
٭ الولاء یعنی مومنین سے دوستی و وفاداری
٭ البراء یعنی کفار سے عداوت و بیزاری
 
شمولیت
ستمبر 10، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
0
آیاتِ قرآنی کی ایک کثیر تعدادکا انہی دو باتوں پر مرتکز رہنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ’’ الولاء و البراء‘‘ کا عقیدہ دین کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے اور اسی بات پر علما ئے امت کا اجماع ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کفار کی طرف جھکنے اور ان سے دوستی و وفاداری کا تعلق قائم کرنے سے منع کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ )المآئدۃ:51
)اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست مت بناؤ۔یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو کوئی بھی انہیں اپنا دوست بنائے وہ انہی میں سے ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ )الممتحنۃ:۱
)اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمن کو دوست مت بناؤ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لا يَأْلُونَكُمْ خَبَالا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ)آلِ عمران: 118
اے ایمان والو!تم اپنا دلی دوست ایمان والوں کے سوا کسی کو نہ بناؤ،)تم نہیں دیکھتے دوسرے لوگ تو تمہاری تباہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم دکھ میں پڑ و، ان کی دشمنی تو خود ان کی زبان سے ظاہر ہو چکی ہے اور جو کچھ ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے
اسی طرح کفار سے برأت و بیزاری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اللہ فرماتے ہیں:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ )الممتحنۃ: 4
تم لوگوں کے لئے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں۔ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیاجب تک کہ تم اللہ واحد پر ایمان نہ لے آؤ
لا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الإيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ )المجادلۃ: 22
)آ پ اللہ تعالی اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں کو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت کرتے نہ پائیں گے ،گو وہ ان کے باپ،ان کے بیٹے،یا ان کے بھائی یا ان کے کنبے قبیلے کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کر کے ان کو قوت بخشی ہے
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لأبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ ٭إِلا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ )الزخرف: 27-26
)اور جب ابراہیم ( )نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ میں ان سب سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو سوائے اس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا اور وہی مجھے راہِ ہدایت دکھائے گا(
قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ )التوبۃ:24
)اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں،تمہیں اللہ اور اسکے رسول ﷺ اور اسکی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں ،تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے،اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا
 
شمولیت
ستمبر 10، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
0
دین کا ادنیٰ سا علم رکھنے والے شخص کے لئے بھی یہ بات سمجھنا مشکل نہیں ہونی چاہیئے کہ یہ اور ایسی بیسیوں دیگر آیات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ کفار سے بغض،بیزاری اور عداوت رکھنا واجب ہے۔

جب یہ بات سمجھ گئے تو جان لو کہ امریکہ ایک اسلام دشمن کافر ریاست ہے جو ہر سمت سے مسلمانوں پر حملہ آور اور ان پر اپنی بڑائی قائم کرنے کی خواہشمند ہے۔ اسی لئے امریکہ نے برطانیہ،روس اور دیگر طاقتوں کے تعاون سے سوڈان، عراق، افغانستان، اور لیبیا وغیرہ کے مسلمانوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا اور وہاں اسلام کے خاتمے کے لئے بدستور کوشاں ہے۔یہ امریکہ ہی تھا جس نے فلسطینیوں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کرنے اور بندر و خنزیر کے بھائیوں کو وہاں اکٹھا کرنے کی تحریک چلائی اور آج تک وہ فاجر یہودی ریاست کو بھر پور سفارتی،مالی اور عسکری امدادفراہم کرنے میں مشغول ہے۔یہ سب اعمالِ شر کرنے کے باوجود یہ توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ امریکہ کو مسلمانوں کا دشمن اوران کے خلاف مسلسل حالتِ جنگ میں نہ سمجھا جائے؟
جب امریکہ نے افغانستان میں مجاہدین کے ہاتھوں سوویت اتحاد کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا تواس نے یہ سمجھا کہ شاید اب دنیا میں وہی تنہا ’ سپر پاور ‘ ہے جس کے اقتدار کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں،چنانچہ اس نے زمین میں اکڑنا،تکبر کرنا،فساد پھیلانا،اور سرکشی و طغیانی کا رویہ اختیار کرنا شروع کر دیا . مگر وہ یہ بھول گیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات امریکہ سے زیادہ طاقتور اور اسے ذلیل و رسوا کرنے پر قادر ہے۔
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہمارے بعض بھائی ،حتیٰ کہ علماء بھی، امریکہ کے خوشنما ظاہر کو دیکھتے ہوئے اس کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں،اور یہ بھول جاتے ہیں کہ امریکہ نے پورے عالمِ اسلام میں قدم قدم پر قتل و غارت گری اورفتنہ و فساد کا کیسا بازار گرم کر رکھا ہے۔یہی بدنما چہرہ دراصل امریکہ کا اصلی روپ ہے!
 
شمولیت
ستمبر 10، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
0
میں یہاں ان شبہات کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں جن کا سہارا لے کر ایسے علماء اپنے مؤقف کا دفاع کرتے ہیں۔
پہلا شبہ:
ایک دلیل تو یہ سننے میں آتی ہے کہ ’’ ہمارے اور امریکہ کے درمیان کچھ معاہدات ہیں جن کی پابندی اور احترام کرنا ہم پر واجب ہے ‘‘۔
میں اس بات کے دو جواب دیتا ہوں:
اولاً ، امریکہ گیارہ ستمبر کے واقعات میں مسلمانوں کے ملوث ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت تاحال پیش نہیں کر سکااور ابھی تک یہ تمام باتیں محض الزامات کی حیثیت رکھتی ہیں………( واضح رہے کہ جس وقت یہ فتویٰ دیا گیاتھا، اس وقت تک مجاہدین نے گیارہ ستمبر کے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان نہیں کیا تھا۔ بعد میں مجاہد شیخ اسامہ بن محمد بن لادن نے اپنے متعدد بیانات میں ان حملوں کی ذمہ داری باقاعدہ طور پر قبول کی ۔ مثلاً: مجاہد شیخ اسامہ بن محمد بن لادن کا امریکی انتخابات ۲۰۰۴ءکے موقع پر امریکی عوام کے نام پیغام، ۱۰ رمضان المبارک، ۱۴۲۵ھ)………لہٰذا جب تک یہ ا لزامات ثابت نہ ہوں یہ کہنادرست نہیں کہ ہم نے کوئی معاہدہ توڑا ہے۔جہاں تک کفا ر سے اعلانِ برأت کا معاملہ ہے ،تو اس کاکسی معاہدے کے ٹوٹنے یا خلاف ورزی کرنے سے کوئی تعلق نہیں،یہ تو اللہ کی طرف سے عائد کردہ اور اس کی کتاب میں بیان شدہ ایک مستقل فریضہ ہے ۔
ثانیاً، اگر ہم یہ تسلیم کربھی لیں کہ مسلمانوں اور امریکہ کے درمیان واقعتا کوئی معاہدات موجود ہیں تو بھی یہ سوال امریکہ سے پوچھا جانا چاہیئے کہ وہ ان معاہدات کو کیوں پورا نہیں کرتا،اور کیوں ابھی تک مسلمانوں کے خلاف زیادتی اور ان کو ایذا پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے؟معاہدے کو پورا کرنا ایک نہیں ، دونوں فریقوں کی ذمہ داری ہوتی ہے اور معاہدے پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ نقضِ عہد ہوتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ )التوبۃ: 12
)اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ پھر اپنی قسموںکو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین پر حملے شروع کر دیں تو کفر کے علمبرداروں سے جنگ کرو کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔شاید کہ )پھر تلوار ہی کے زور سے(وہ باز آئیں گے(
 
شمولیت
ستمبر 10، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
0
دوسرا شبہ:
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ’’ گیارہ ستمبر کے مقتولین میں معصوم شہری بھی شامل تھے ‘‘۔
اس شبہے کے کئی جوابات دیئے جا سکتے ہیں:
۱۔ حضرت صعب بن جثا مہ نبی ٔ اکرمﷺکی یہ حدیث روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺسے ان مشرکین اہلِ بستی کے بارے میں دریافت کیاگیا جن پر رات کے وقت حملہ کیا جائے اور تاریکی کی وجہ سےحملے میں ان کی عورتیں اور بچے بھی مارے جائیں آپ ﷺنے فرمایا:
ھُمْ مِنْھُم ( بخاری :کتاب الجھاد و السیر) (وہ انہی میں سے ہیں)
اس حدیث سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ عورتیں،بچے اور وہ سب لوگ جن کو عام حالات میں دورانِ جنگ قتل کرنا ممنوع ہے، اگرمحاربین کے ساتھ یوں گھلے ملے ہوں کہ ان میں تمیز کرنا ممکن نہ رہے،تو ان کا قتل بھی جائز ہے۔درج بالا حدیث میں آپ ﷺسے رات کے وقت حملے کے بارے میں پوچھا گیا……… اور رات کے اندھیرے میں ایسی تمیز کرنا ممکن نہیں ہوتا………تو آپ ﷺنے اس حملے کو جائز قرار دیا، کیونکہ عورتوں اوربچوں کوقصداً نشانہ بنا کر مارنا درست نہیں ،البتہ اگر یہ محاربین کے ساتھ ضمناً مارے جائیں تو جائز ہے۔
۲۔مسلمان جرنیل کفار کے خلاف جنگوں میں منجنیق کے گولے برسایا کرتے تھے ، حالانکہ منجنیق کا گولہ محارب اور معصوم میں فرق نہیں کرتا،مگر پھر بھی اس ہتھیار کا استعمال مسلمانوں کا مستقل طریقہ رہا ۔ابنِ قدامہ ﷫فرماتے ہیں کہ
’’دشمن کے خلاف منجنیق نصب کرنا جائز ہے کیونکہ نبی ٔاکرم ﷺنے اہلِ طائف پر اور حضرت عمرو بن العاص نے سکندریہ والوں پر منجنیق نصب کی تھی۔‘‘)المغنی و الشرح 10/ (503
ابنِ قاسم﷫’الحاشیۃ‘ میں لکھتے ہیں:
’’چونکہ دشمن کو نقصان پہنچانے کے جواز پر علماء کا اجماع ہے، لہٰذاکفار پر منجنیق کے گولے برسانا جائز ہے،اگرچہ اس سے بچے،عورتیں،بوڑھے،اور راہب بلا ارادہ مارے جائیں۔ ‘‘ ) الحاشیۃ علی الروض 4/ (270
۳۔مسلمان فقہاء نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر کفار حملے سے بچنے کیلئے کچھ مسلمانوں کو بطور ڈھال استعمال کر رہے ہوں، تو ایسے میں حسبِ ضرورت حملہ کر دینا جائز ہے۔گو کہ ان معترضین کی اصطلاح میں وہ مسلمان’’ معصوم ‘‘ہیں،مگر فقہاء پھر بھی ایسے حملے کو درست گردانتے ہیں۔ابنِ تیمیہ ﷫فرماتے ہیں:
’’اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ اگر کفار کی فوج مسلمان قیدیوں کو بطور ڈھال استعمال کرے اور قتال نہ کرنے سے باقی مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو توقتال جاری رکھا جائے گا،اگرچہ نتیجتاً ) بطور ڈھال استعمال کئے جا نے والے(مسلمان قیدی مارے ہی کیوں نہ جائیں۔‘‘ )الفتاویٰ 28/ 546,537،ج20۔ (25
ابنِ قاسم ﷫’الحاشیۃ‘ میں لکھتے ہیں :
’’اگر کفار کسی مسلمان کو بطور ڈھال استعمال کر رہے ہوں تو ان پر حملہ کرنا جائز نہیں، سوائے اس صورت میں جب حملہ نہ کرنے سے مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو ،تو ایسے میں کفار کو مارنے کا ارادہ کر کے حملہ کیا جا سکتا ہے۔اس رائے سے کسی کو اختلاف نہیں۔‘‘ )الحاشیۃ علی الروض (271/4
یہاں میں اپنے ان بھائیوں سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں جو ۱۱ ستمبر کے حملے کو ’’دہشت گردی‘‘ کا نام دیتے ہیں :کیا امریکہ کا اپنے جہازوں اور میزائلوں سے سوڈان کی دواساز فیکٹری تباہ کرنا………یہ جانتے ہوئے کہ فیکٹری کا عملہ اور مزدور اندر موجودہیں ………دہشت گردی نہیں ؟ایسا کیوں ہے کہ امریکہ پر حملے کو دہشت گردی کی کاروائی کہنے والی بہت سی آوازیں موجود ہیں، مگر امریکی حملوں کے خلاف کوئی آواز نہیں سنائی دیتی؟ میں تو ان دونوںواقعات میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں پاتا کہ سوڈان میں جس مال سے فیکٹری قائم ہوئی تھی وہ مسلمانوں کا مال تھااور جو عملہ اور مزدور مارے گئے وہ بھی مسلمان تھے،جبکہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارتوں پر کفار کا مال خرچ ہوا تھا اور حملے میں مرنے والے بھی کفار تھے ۔کیا یہی وہ فرق ہے جس کی بنیاد پر ہمارے بہت سے بھائی ۱۱ ستمبر کے واقعے کو دہشت گردی کہتے ہیں مگر سوڈان پر حملے کے معاملے میں چپ سادھ لیتے ہیں؟؟نیز لیبیا اور عراق کے عوام پر اقتصادی پابندیاں لگا کر انہیں جس بھوک اور قحط سالی کی طرف دھکیلا گیا اور عراق و افغانستان پر جو بمباری اور حملے کئے گئے کیا وہ سب بھی دہشت گردی نہیں؟
 
شمولیت
ستمبر 10، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
0
میں یہ بھی جاننا چاہوں گا کہ ان حضرات کے نزدیک’’ معصوم افراد‘‘ سے کیا مراد ہے؟’’معصوم ‘‘سے لازماً ان تینوں معانی میں سے کوئی ایک مراد ہو گا:
۱۔وہ لوگ جنہوں نے نہ تو اپنی ریاست کے ساتھ مل کر قتال کیا،نہ ہی بدن،مال رائے ، مشورے یا کسی اورذریعے سے قتال میں معاونت کی:
یہ لوگ اگر دیگر افراد سے علیحدہ اور قابلِ تمیز رہیں تو ان کا قتل جائز نہیں،البتہ اگر یہ دوسرے لوگوں میں گھل مل جائیں تو محاربین کو نشانہ بناتے ہوئے ان کا ضمناً مارا جانا جائز ہے؛مثلاًبوڑھے، عورتیں، بچے، مریض، معذور، اور تارک ِدنیا راہب۔ابنِ قدامہ ﷫فرماتے ہیں:
’’عورتوں اور بچوں کو جان بوجھ کر نشانہ نہ بنایا جائے،لیکن اگر رات کے حملے میں یا محاربین میں گھلے ملے ہونے کی وجہ سے وہ مارے جائیں تو جائزہے ۔ اسی طرح دشمن کو قتل کرنے یا پچھاڑنے کی غرض سے ان کے جانوروں (اونٹ، گھوڑے وغیرہ( کا قتل جائز ہے۔اس رائے سے کسی کو اختلاف نہیں ۔‘‘ (المغنی و الشرح:10۔ (503
آپ ﷫کا یہ قول بھی منقول ہے کہ
’’شب خون مارنا جائز ہے۔‘‘
امام احمد بن حنبل﷫کی رائے بھی یہی ہے کہ
’’ شب خون مارنے میں کوئی حرج نہیں اور غزوۂ روم بھی تو شب خون ہی تھا۔‘‘
آپ﷫نے یہ بھی فرمایا ہے کہ
’’ہمارے علم میں نہیں کہ کسی نے شب خون کو ناپسند کیا ہو۔‘‘(المغنی و الشرح:10۔ (503
۲۔وہ لوگ جنہوں نے اپنی محارب ریاستوں کی جانب سے جنگ میں عملاً شرکت تو نہیں کی ،لیکن اپنے مال اور مشوروں سے جنگ میں معاونت کی:
یہ لوگ ’’معصوم ‘‘اور’’بے گناہ‘‘ شہری نہیں،بلکہ محاربین ہی میں سے ہیں اور فوج کی پچھلی صفوں اور کمک فراہم کرنے والے مددگار و معاونین میں شمار کئے جائیں گے۔
ابنِ عبدالبر( الا ستذکار میں( لکھتے ہیں :
’’اس بات پر علماء میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو عورتیں اور بوڑھے جنگ میں شریک ہوں ان کا قتل مباح ہے، نیز جو بچے لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور پھر عملاً لڑیں بھی ،تو ان کا قتل بھی جائز ہے۔‘‘ (الاستذکار: 14۔ (74
ابنِ قدامہ﷫نے ان عورتوں،بوڑھوں اور بچوں کے قتل کے جواز پر اجماع نقل کیا ہے جو جنگ میں اپنی قوم کی مدد کریں۔ابنِ عبدالبر﷫کا قول ہے کہ
’’اس بات پر اجماع ہے کہ حنین کے دن رسول ﷺنے درید بن الصمۃ کو اس لیے قتل کروایا کہ وہ صاحبِ رائے تھا اور اپنے مشوروں اورجنگی چالوں کے ذریعے فوج کی مدد کرتا تھا۔لہٰذا جو بوڑھا بھی اس طرح جنگ میں شریک ہو،سب علماء کے نزدیک اس کا قتل جائز ہے۔‘‘(التمھید: 16۔ (142
امام نووی﷫نے شرحِ مسلم﷫کے باب الجہاد میں صاحبِ رائے بوڑھوں کو قتل کرنے پر اجماع نقل کیا ہے۔ابنِ قاسم﷫نے ’الحاشیۃ‘ میں نقل کیا ہے کہ
’’اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ جنگ میں بذاتِ خودبلاواسطہ شریک ہونے والے اور پچھلی صفوں میں رہتے ہوئے بالواسطہ شریک ہونے والے کا شرعی حکم ایک ہے۔‘‘
یہ اجماع امام ابنِ تیمیہ﷫نے بھی نقل کیا ہے ۔نیزامام ابنِ تیمیہ﷫ کی یہ رائے بھی منقول ہے کہ
’’دشمن فوج کے ساتھی و معاونین بھی حقوق اور ذمہ داریوں میں ان کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔‘‘
۳۔وہ لوگ جو مسلمان ہوں:
ان کا قتل صرف اس وقت جائز ہے جب وہ دشمن کے ساتھ یوں گھل مل جائیں کہ انہیں مارے بغیر دشمن کو مارنا ممکن نہ ہو۔اس موضوع پر تفصیلی گفتگو مسلمان قیدیوں کو بطور ڈھال استعمال کرنے کے مسئلے میں گزر چکی ہے۔
لہٰذا وہ لوگ جو بلا سوچے سمجھے’’ معصوم‘‘ اور ’’بے گناہ افراد‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور ایسے سب لوگوں پر حملہ کرنے کو ہر حال میں ناجائز قرار دیتے ہیں،دراصل مغربی میڈیا کی عطا کردہ اصطلاحات کو بلا تنقید من وعن قبول کر کے دہرا رہے ہیں،حالانکہ یہ شرعی اصطلاحات نہیں اور بعض اوقات یہ شریعت سے متصادم بھی ہوتی ہیں۔
 
شمولیت
ستمبر 10، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
0
ایسے لوگوں کے لئے ایک جواب یہ بھی ہے کہ شریعتِ اسلامی ہمیں کفار کے ساتھ وہی معاملہ کرنے کی اجازت دیتی ہے جو انہوں نے ہمارے ساتھ کیا ہو(معاملۃ بالمثل) چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ (النحل:126
(اور اگر تم بدلہ لو ،تو اتنا ہی لینا جتنی زیادتی تم پر کی گئی تھی)
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا(الشوریٰ: (40
( اور برائی کا بدلہ اسی کے برابر کی برائی ہے
انتقام با لمثل کے جواز پر علماء کی آراء:
ابنِ تیمیہ ﷫فرماتے ہیں:
’’زیادتی کے برابر انتقام لینا مجاہدین کا حق ہے۔چنانچہ وہ چاہیں تو بطور بدلہ انتقام لیں اور چاہیں تو بخش دیں۔جہاں بدلہ لینے سے جہاد کے مقاصد کو کوئی فائدہ نہ پہنچے اور نہ ہی کفار کے لیے باعثِ عبرت بن سکے، وہاں صبر کرنا ہی افضل ہے۔البتہ اگر بدلہ لینا کفار کو دعوتِ ایمان دینے یا ان کی سرکشی توڑنے کا باعث بنے تو ایسے میں انتقامی کاروائی حدود اللہ کے قیام اور جہادِ اسلامی کا تقاضا ہے۔یہ رائے ابنِ مفلح نے ’الفروع‘ میں نقل کی ہے۔‘‘6(۔ (218
’’معصوم‘‘ اور ’’بے گناہ‘‘ کی اصطلاح کو بلا قید و تخصیص استعمال کرنے کا لازمی نتیجہ نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ﷺکے صحابہ پر(نعوذ باللہ( معصومین کے قاتل ہونے کی تہمت لگانا ہے،کیونکہ آپ ﷺنے اہلِ طائف پر حملے کے لئے منجینق نصب کی، حالانکہ منجینق اپنی ماہیت کے اعتبار سے ایک ایسا ہتھیار ہے جو’’ معصوم‘‘ اور ’’غیر معصوم‘‘ میں تمیز نہیں کر سکتا۔اسی طرح آپ ﷺنے’’ معصوم‘‘ اور’’ غیر معصوم‘‘ کی مغربی تقسیم کے برعکس بنوقریظہ کے تمام بالغ مردوں کو قتل کروایا۔
ابنِ حزم﷫’المحلی‘ میں درج ذیل حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حدیث:
عُرِضْتُ یَوْمَ قُرَیْظَة عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَکَانَ مَنْ اَنْبَتَ قُتِلَ
(مجھے (بھی( قریظہ والے دن رسول اللہ ﷺکے سامنے پیش کیا گیا، پس (اس دن بنو قریظہ کا( ہر بالغ مرد قتل کر دیا گیا(
تشریح:
’’ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل ہمیں ایک عمومی اصول عطا کرتا ہے جس کی لپیٹ سے کوئی مزدور، تاجر، کسان یامعمر فرد محفوظ نہیں رہ سکتا۔اور اسی پر علماء کا اجماع بھی ہے۔‘‘(المحلی7۔(299
ابنِ قیم(رح) زادالمعاد میں لکھتے ہیں:
’’نبی ٔ کریم ﷺکا طریقہ یہی رہا ہے کہ جب آپ کسی قوم سے صلح یا معاہدہ کرتے اور وہ قوم یا اس کے کچھ لوگ معاہدہ توڑ ڈالتے اور قوم کے باقی افراد اس نقضِ عہد کی تصدیق کرتے اور اس پر راضی رہتے تو آپ ﷺان سب کو معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والا شمار کر کے سب کے خلاف جنگ کرتے، جیسا کہ آپ ﷺنے بنی قریظہ،بنی نضیر، بنی قینقاع اور اہلِ مکہ کے خلاف غزوات میں کیا۔عہد شکنی کرنے والوں کے بارے میں یہی آپ ﷺکی سنت ہے۔‘‘
آپ﷫نے یہ بھی لکھا ہے کہ
’’ابنِ تیمیہ﷫نے مشرق کے عیسائیوں کے خلاف جنگ کرنے کا فتویٰ دیا، کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے دشمنوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مال اور اسلحہ فراہم کیاتھا۔ ابنِ تیمیہ﷫نے عیسائیوں کے اس فعل کو عہد شکنی گردانا، حالانکہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ جنگ نہیں لڑی تھی ، کیونکہ نبی ﷺنے بھی قریش کے ساتھ ایسا ہی معاملہ فرمایا تھا جب انہوں نے مسلمانوں کے حلیف قبیلے کے خلاف بنی بکر بن وائل کی مدد کی تھی۔‘‘
 
شمولیت
ستمبر 10، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
0
اختتامیہ:

ہم جانتے ہیں کہ کافر مغرب، بالخصوص امریکہ……… مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رکھے گا………اور یہ سلسلہ افغانستان،فلسطین یاشیشان تک محدود نہ رہے گا، بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جہاد اور جہاد کرنے والوں کا دنیا بھر سے مکمل صفایا کرنے کی بھرپور مہم چلائی جائے گی۔افغانستان کے خلاف امریکی اقدامات بھی اس وقت تک نہیں رکیں گے جب تک مجاہدینِ طالبان کا زور مکمل طور پر توڑ نہ دیا جائے۔
طالبان کا قصور بس یہی ہے کہ انہوں نے مجاہدین کو پناہ دی اور کفر کے سامنے جھکنے سے انکار کیا،چنانچہ ان کی ہر ممکن مد د و نصرت کرنا واجب ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ (التوبۃ: (71
(مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست و مددگار ہیں(
نیز یہ کہ
وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی (المآئدۃ: (2
(اور نیکی اور تقوے کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو(
لہٰذا مجاہدینِ طالبان کی مدد کرنا لازم ہے۔ اس مدد کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں:
مال، جان، مشوروں،اورآراء سے ؛ذرائع ابلاغ کے ذریعے ؛مجاہدین کی عزت و شہرت کے تحفظ کے ذریعے اور ان کی فتح و نصرت اور استقامت کی دعاؤں سے۔مددکرنا نہ صرف مسلمان عوام پر لازم ہے بلکہ افغانستان کے قرب و جوار میں موجود مسلمان ریاستوں کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ مغربی طاغوتی طاقتوں کے مقابلے میں مجاہدینِ طالبان کا بھر پورساتھ دیں۔یہاں یہ سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ اس تحریک کا ساتھ نہ دینا اور اسے تنہا اور سسکتا چھوڑ دینا کفار کی مدد اور مسلمانوں سے دشمنی کے مترادف ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ (المآئدۃ: (51
(اے ایمان والو! یہود و نصاری کو اپنا دوست مت بناؤ۔یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو کوئی بھی انہیں اپنا دوست بنائے وہ انہیں میں سے ہے(
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ (الممتحنۃ:۱(
(اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمن کو دوست مت بناؤ(
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ (الممتحنۃ: (4
(تم لوگوں کے لئے ابراہیم ( ( اور ان کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں۔ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیاجب تک کہ تم اللہ واحد پر ایمان نہ لے آؤ(
لا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الإيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ (المجادلۃ: (22

(آ پ اللہ تعالی اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں کو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت کرتے نہ پائیں گے ،گو وہ ان کے باپ،ان کے بیٹے،یا ان کے بھائی یا ان کے کنبے قبیلے کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کر کے ان کو قوت بخشی ہے(
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لأبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ ٭إِلا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ (الزخرف: (27-26
(اور جب ابراہیم ( (نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ میں ان سب سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو سوائے اس ذات کے جس نے مجھے پیدا کیا اور وہی مجھے راہِ ہدایت دکھائے گا(
اگر مسلمان ریاستیں یونہی بیٹھ کر یہ خونی تماشا دیکھتی رہیں تو نہ تاریخ انہیں معاف کرے گی اور نہ ہی ان ریاستوں میں بسنے والی مسلم آبادیاں۔ان مشکل حالات میں اپنے بھائیوں کو تنہا چھوڑنے والوں کو خوب سوچ لینا چاہیئے کہ اللہ کی پکڑ اور اس کاعذاب بہت سخت ہے۔
نبی ٔاکرم ﷺ کا فرمان ہے:
اَلْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ لَا یَظْلِمُہُ وَ لَا یُسْلِمُہُ مسلم : کتاب البرّ و الصّلۃ و الآداب (
(مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتاہے اور نہ اس کا ساتھ چھوڑتا ہے(
اسی طرح ،حدیثِ قدسی ہے:
مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہُ بِالْحَرْبِ (بخاری :کتاب الرقاق(
(جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی لگائی ،تو میری طرف سے اس کے خلاف اعلانِ جنگ ہے(
ایک اور فرمانِ نبوی ﷺہے:
مَنْ اُذِلَّ عِنْدَہُ مُؤْمِنٌ فَلَمْ یَنْصُرْہُ وَ ھُوَ قَادِرٌ عَلٰی اَنْ یَّنْصُرَہُ اَذَلَّہُ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلٰی رُؤُوْسِ الْخَلَائِقِ یَوْمَ الْقِیَامَة (مسنداحمد : حدیث سھل بن حنیف (
(جس شخص کے سامنے کسی مومن کو ذلیل کیا جا رہا ہو اور وہ قدرت رکھنے کے باوجود اس کی مدد نہ کرے تو اللہ قیامت کے دن اس کو تمام مخلوق کے سامنے ذلیل کریں گے(
ہم اس موقع پر پاکستان کے اہلِ اقتدار کو متوجہ کرانا چاہتے ہیں کہ اسلام دشمن امریکی فوجوں کو اپنی سرزمین میں ہوائی اڈے اور اپنے وسائل تھما دینا نہ تو حکمت کا تقاضا ہے نہ ہی سیاست کا، کیونکہ ان ایمان فروش حرکتوں کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہے۔ امریکی افواج کو یہاں جگہ دینے کا نتیجہ انہیں اپنے رازوں تک بآسانی پہنچنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔عین ممکن ہے کہ پاکستان میں قیام کے دوران امریکی افواج جو معلومات اکھٹی کریں وہ اسرائیل کو پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر ویسا ہی حملہ کرنے کا موقع دیں جیسا حملہ اس نے عراق پر کیا تھا۔یہ کیسی عجیب صورتحال ہے کہ آج پاکستان اسی پر اعتماد کر رہا ہے جو کل تک اس کا کھلا دشمن تھا!!میرے خیال میں پاکستان میں دینی طبقے ہی نہیں ،بلکہ تمام اہلِ عقل و دانش ٹھنڈے پیٹوں اس پالیسی کو گوارا نہیں کریں گے۔
ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ اپنے دین کی مدد کرے!
اپنے کلمے کو بلند کرے!
اسلام، مجاہدین اور مسلمانوں کو عزت بخشے!
امریکہ، اس کے پیروؤں اور اس کے مددگاروں کو ذلیل کرے!
یقینا وہ مسلمانوں کا ولی ہے اور ان کی مدد پر قادر ہے۔
وصلی اللّٰہ علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ اجمعین​
 
Top