• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہاتھ چھوڑ کر نماز

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
کہا تو جناب عالی کہ مناسب توجیہ بیان کی جائے گی کیونکہ نبی اکرم ﷺ سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے کبھی ہاتھ چھوڑ کر صلاۃ ادا کی ہو.
لیکن اس فعل کی کیا توجیہ بیان کی جائے گی؟
یہ فعل امام مالکؒ کا مسلک ہے یعنی اہل مدینہ کا عمل ہے اس پر اور مدینہ کے تابعین اور تبع تابعین جب یہ کرتے تھے تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ سیکھا تھا (امام مالکؒ کے اہل مدینہ کے تعامل کے مسلک کی بنیاد اسی پر ہے)۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
زبیر رضى الله عنه اور دوسرے تابعي ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے تھے؟
میرے خیال سے یہ تھریڈ ہی کافی ہے. مزید بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں
جو توجیہات اس تھریڈ میں بیان کی گئیں وہ علماء کرام نے ذکر کی ہیں لیکن جس کی بھی شروح حدیث اور فقہ کی کتب پر نظر ہے وہ جانتا ہے کہ اپنے مسلک کے اثبات کے بعد مخالف دلائل کو تطبیق دینے میں اس طرح کی توجیہات تمام علماء کرتے ہیں۔ ان کا حقیقت میں ہونا یقینی نہیں ہوتا۔
یہ تو ممکن ہے کہ سلف کے بعض بزرگ یہ افعال ان وجوہات کی بناء پر کرتے بھی ہوں لیکن کیا امام مالکؒ سے یہ بات مخفی رہ سکتی تھی؟ اور کیا امام مالکؒ ان چیزوں کی بناء پر سنت رسول کو ترک کر سکتے تھے؟ اور اس زمانے میں یہود مدینے میں کب تھے؟ جو امامؒ کو جانتا ہے وہ میرا خیال ہے یہ نہیں کہہ سکتا۔
مالکیہ کا اصل اور مضبوط مسلک ہاتھ چھوڑنے کا ہے البتہ متاخرین نے ہاتھ باندھنے کو ترجیح دی ہے۔
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
عرب سے آئی ہوئی تبلیغی جماعت میں ایک عرب کو میں نے خود دیکھا کہ وہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتا تھا۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
لیکن اس فعل کی کیا توجیہ بیان کی جائے گی؟
یہ فعل امام مالکؒ کا مسلک ہے یعنی اہل مدینہ کا عمل ہے اس پر اور مدینہ کے تابعین اور تبع تابعین جب یہ کرتے تھے تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ سیکھا تھا (امام مالکؒ کے اہل مدینہ کے تعامل کے مسلک کی بنیاد اسی پر ہے)۔
محترم بھائی!
محدثین نے توجیہات یقینا بیان کی ہوں گی آپ مراجعہ کریں. میں نے کبھی التمہید میں اس تعلق سے پڑھا تھا.
بہرحال میرا یہاں بحث کا کوئی ارادہ نہیں ہے. میں صرف مرشد صاحب سے انکا موقف جاننا چاہتا تھا. ورنہ ان دنوں میں بہت مصروف ہوں. امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک جزء کی تخریج کرنی ہے. مزید حدیث الجنۃ تحت اقدام الامہات پر مقالہ ہے جس پر ابھی کافی کام باقی ہے ابن طاہر مقدسی (المعراف بابن القیسرانی) کی کتاب الکشف عن احادیث الشہاب نہیں مل رہی اس لئے مقالہ بھی رکا ہوا ہے.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
جو توجیہات اس تھریڈ میں بیان کی گئیں وہ علماء کرام نے ذکر کی ہیں لیکن جس کی بھی شروح حدیث اور فقہ کی کتب پر نظر ہے وہ جانتا ہے کہ اپنے مسلک کے اثبات کے بعد مخالف دلائل کو تطبیق دینے میں اس طرح کی توجیہات تمام علماء کرتے ہیں۔ ان کا حقیقت میں ہونا یقینی نہیں ہوتا۔
جی جناب عالی!
ایسا کیا جاتا ہے لیکن ہر کوئی ایسا نہیں کرتا. محدثین جب کسی صحابی کے عمل کو حدیث کے خلاف دیکھتے ہیں تو تاول کرتے ہیں جیسے کہ مسئلہ تطبیق میں کی. اور اس مسئلہ میں ذہبی عصر علامہ معلمی کی تطبیق مجھے عمدہ لگتی ہے (یہ صرف بطور فائدہ کہ دیا ورنہ تطبیق کی بحث یہاں نہیں ہے)
یہ تو ممکن ہے کہ سلف کے بعض بزرگ یہ افعال ان وجوہات کی بناء پر کرتے بھی ہوں لیکن کیا امام مالکؒ سے یہ بات مخفی رہ سکتی تھی؟ اور کیا امام مالکؒ ان چیزوں کی بناء پر سنت رسول کو ترک کر سکتے تھے؟ اور اس زمانے میں یہود مدینے میں کب تھے؟ جو امامؒ کو جانتا ہے وہ میرا خیال ہے یہ نہیں کہہ سکتا۔
میں مالکیہ کا اکسپرٹ تو نہیں ہوں اس لئے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے عمل پر کچھ کہ نہیں سکتا. البتہ کسی امام سے بھی کسی بات کا مخفی رہ جانا بعید نہیں. اسکی مثال امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بن سکتے ہیں.
مالکیہ کا اصل اور مضبوط مسلک ہاتھ چھوڑنے کا ہے البتہ متاخرین نے ہاتھ باندھنے کو ترجیح دی ہے۔
گویا متاخرین نے یہ بات محسوس کر لی ہوگی کہ نبی اکرم ﷺ سے ارسال کا عمل ثابت نہیں.
واللہ اعلم

ایک بات آخر میں اگر آپ یا مرشد صاحب کے نزدیک ارسال ثابت ہے تو ارسال کریں
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
عرب سے آئی ہوئی تبلیغی جماعت میں ایک عرب کو میں نے خود دیکھا کہ وہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتا تھا۔
پیارے بھائی!
اس پر آپ کو حیرت نہیں ہونی چاہئے. ہو سکتا ہے کہ وہ مالکی ہوں. اور اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اکثر یا تمام اہل عرب کا ارسال کا موقف ہے. بلکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عرب میں مالکی بھی موجود ہیں..... فقط
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ایک بات آخر میں اگر آپ یا مرشد صاحب کے نزدیک ارسال ثابت ہے تو ارسال کریں
نہیں میرے بھائی ہمارے نزدیک راجح ہاتھ باندھنا ہے۔ لیکن مطلقاً انکار کر دینا کہ فلاں عمل نبی کریم ﷺ کا تھا ہی نہیں، اس کا مطلب ان اسلاف پر تہمت ہوتی ہے جنہوں نے اس عمل کو سیکھا، کرتے رہے اور آگے سکھایا۔ یوں کہنا چاہیے کہ ہمارے نزدیک یہ مسئلہ ثابت نہیں۔

گویا متاخرین نے یہ بات محسوس کر لی ہوگی کہ نبی اکرم ﷺ سے ارسال کا عمل ثابت نہیں.
یہ تو خیر نہیں ہے البتہ متاخرین نے یہ کہا ہے کہ حدیث سے جو چیز ثابت ہے اسے ترجیح دی جائے۔ یہ ایک اچھا طرز عمل ہے۔ اس پر ایک کتاب بھی ہے لیکن اس وقت اس کا نام میرے ذہن میں نہیں آ رہا، اس میں مالکیہ کے اس مسئلے پر ایک مالکی عالم نے تحقیق کی ہے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
نہیں میرے بھائی ہمارے نزدیک راجح ہاتھ باندھنا ہے۔ لیکن مطلقاً انکار کر دینا کہ فلاں عمل نبی کریم ﷺ کا تھا ہی نہیں، اس کا مطلب ان اسلاف پر تہمت ہوتی ہے جنہوں نے اس عمل کو سیکھا، کرتے رہے اور آگے سکھایا۔ یوں کہنا چاہیے کہ ہمارے نزدیک یہ مسئلہ ثابت نہیں۔
نبی اکرم ﷺ کی طرف کسی عمل کو منسوب کرنے کے لئے اسکا ثابت ہونا بھی ضروری ہے.
یہ اسلاف پر تہمت نہیں میرے بھائی! یہ انکے انسان ہونے کی دلیل ہے. آپ خود بھی جانتے ہیں کہ چند لوگوں سے ہی ارسال کا عمل منقول ہے. جبکہ اکثر ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں. ظاہر سی بات ہے کہ اختلاف ہوگیا. اور اختلافات کے موقع پر اللہ اور اسکے رسول کی طرف رجوع کیا جائے گا.
رہے اسلاف جو ارسال کے قائل تھے تو انکے عمل کی توجیہ و تاویل کی جائے گی ان سے حسن ظن کا اظہار کرتے ہوئے.
ہو سکتا ہے کہ کسی کے ساتھ مجبوری رہی ہو. اس لئے اس نے ارسال کیا ہو. اور یہ بعید نہیں ہے. غالبا ابن عباس یا ابن مسعود (رضی اللہ عنہم) سے کسی نے تیمم کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے تیمم کا انکار کیا. حالانکہ تیمم ثابت ہے. اور جو فتوی دیا گیا تھا وہ حالات کو دیکھتے ہوئے دیا گیا تھا. اور شاید اس کی مثال میں نے کسی سے کسی تھریڈ میں گفتگو کے دوران دی تھی. فی الحال یاد نہیں
یہ تو خیر نہیں ہے البتہ متاخرین نے یہ کہا ہے کہ حدیث سے جو چیز ثابت ہے اسے ترجیح دی جائے۔ یہ ایک اچھا طرز عمل ہے۔ اس پر ایک کتاب بھی ہے لیکن اس وقت اس کا نام میرے ذہن میں نہیں آ رہا، اس میں مالکیہ کے اس مسئلے پر ایک مالکی عالم نے تحقیق کی ہے۔
یہی ہم بھی کہتے ہیں کہ ارسال کا عمل نبی اکرم ﷺ سے ثابت نہیں ہے.
کتاب کا نام بتائے گا کبھی موقع ملا تو استفادہ کروں گا.
اللہ آپکو خوش رکھے. آمین
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
پیارے بھائی!
اس پر آپ کو حیرت نہیں ہونی چاہئے. ہو سکتا ہے کہ وہ مالکی ہوں. اور اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اکثر یا تمام اہل عرب کا ارسال کا موقف ہے. بلکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عرب میں مالکی بھی موجود ہیں..... فقط
میں نے یہی بتانے کی کوشش کی ہے کہ مالکی ابھی تک ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کو ہی مسنون خیال کرتے ہیں۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ

میں نے یہی بتانے کی کوشش کی ہے کہ مالکی ابھی تک ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کو ہی مسنون خیال کرتے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم مجھے نہیں معلوم تھا کہ ایک شخص کو دیکھ کر پورے مذہب کے متعلق فتوی لگا دیا جاتا ہے!!!!
 
Top