نہیں میرے بھائی ہمارے نزدیک راجح ہاتھ باندھنا ہے۔ لیکن مطلقاً انکار کر دینا کہ فلاں عمل نبی کریم ﷺ کا تھا ہی نہیں، اس کا مطلب ان اسلاف پر تہمت ہوتی ہے جنہوں نے اس عمل کو سیکھا، کرتے رہے اور آگے سکھایا۔ یوں کہنا چاہیے کہ ہمارے نزدیک یہ مسئلہ ثابت نہیں۔
نبی اکرم ﷺ کی طرف کسی عمل کو منسوب کرنے کے لئے اسکا ثابت ہونا بھی ضروری ہے.
یہ اسلاف پر تہمت نہیں میرے بھائی! یہ انکے انسان ہونے کی دلیل ہے. آپ خود بھی جانتے ہیں کہ چند لوگوں سے ہی ارسال کا عمل منقول ہے. جبکہ اکثر ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں. ظاہر سی بات ہے کہ اختلاف ہوگیا. اور اختلافات کے موقع پر اللہ اور اسکے رسول کی طرف رجوع کیا جائے گا.
رہے اسلاف جو ارسال کے قائل تھے تو انکے عمل کی توجیہ و تاویل کی جائے گی ان سے حسن ظن کا اظہار کرتے ہوئے.
ہو سکتا ہے کہ کسی کے ساتھ مجبوری رہی ہو. اس لئے اس نے ارسال کیا ہو. اور یہ بعید نہیں ہے. غالبا ابن عباس یا ابن مسعود (رضی اللہ عنہم) سے کسی نے تیمم کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے تیمم کا انکار کیا. حالانکہ تیمم ثابت ہے. اور جو فتوی دیا گیا تھا وہ حالات کو دیکھتے ہوئے دیا گیا تھا. اور شاید اس کی مثال میں نے کسی سے کسی تھریڈ میں گفتگو کے دوران دی تھی. فی الحال یاد نہیں
یہ تو خیر نہیں ہے البتہ متاخرین نے یہ کہا ہے کہ حدیث سے جو چیز ثابت ہے اسے ترجیح دی جائے۔ یہ ایک اچھا طرز عمل ہے۔ اس پر ایک کتاب بھی ہے لیکن اس وقت اس کا نام میرے ذہن میں نہیں آ رہا، اس میں مالکیہ کے اس مسئلے پر ایک مالکی عالم نے تحقیق کی ہے۔
یہی ہم بھی کہتے ہیں کہ ارسال کا عمل نبی اکرم ﷺ سے ثابت نہیں ہے.
کتاب کا نام بتائے گا کبھی موقع ملا تو استفادہ کروں گا.
اللہ آپکو خوش رکھے. آمین