• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہلال اور وحدت ِاُمت

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
حالانکہ ابن ماجہ کی حدیث میں تو دور قریب سے اختلاف مطلع اور الگ الگ چاند کا ذکر ہی نہیں ہے۔ اس حدیث مبارکہ میں صرف یہ ہے کہ نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام﷢ (بادلوں وغیرہ یا کسی اور وجہ سے) شوال کا چاند نہ دیکھ سکے اگلے روز آنے والے قافلے نے گواہی دی کہ ہم نے کل چاند دیکھا ہے تو رسول کریمﷺ نے ان کی گواہی کو قبول فرمایا۔
میرے بھائی! اس زمانے میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا سفر (جن کا درمیانی فاصلہ 400 کلو میٹر ہے) تقریباً آٹھ دن میں ہوتا تھا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ آنے والا قافلہ اگلے ہی دن مدینہ منورہ پہنچ گیا، گویا انہوں نے زیادہ سے زیادہ ستر اسی کلومیٹر دور چاند دیکھا تھا۔ اتنے تھوڑے سے فاصلے پر مطلع تبدیل نہیں ہو جاتا بلکہ وہ تو اس زمانے کے مطابق مہینے مہینے کے سفر کے بعد تبدیل ہوتا تھا جیسا کہ صحیح مسلم کی سیدنا عبد اللہ بن عباس﷜ والی روایت میں ہے۔
سنن ابن ماجہ کی روایت متعلّق ایک اہم بات ذکر کرنا بھول گیا کہ آپ یہ حدیثِ مبارکہ وحدتِ رؤیتِ ہلال اور اجتماعی معاملات مثلاً عیدین وغیرہ میں وحدتِ اُمت) پر استدلال کیلئے پیش فرمائی، لیکن یہی حدیثِ مبارکہ عیدین وغیرہ پر اتحادِ امّت والے آپ کے موقف کا ردّ کر رہی ہے۔

وہ اس طرح کہ اس حدیث مبارکہ میں ہے:
أغمي علينا هلال شوال فأصبحنا صياما، فجاء ركب من آخر النهار إلى النبي ﷺ فشهدوا أنهم رأوا الهلال بالأمس، فأمر النبي عليه السلام الناس بأن يفطروا من يومهم وأن يخرجوا لعيدهم من الغد
کہ ’’ہم شوال کا چاند نہ دیکھ سکے تو ہم نے صبح کو روزہ رکھا۔ دن کے آخر میں (بعض روایات میں نصفِ نہار کا ذکر ہے) ایک قافلہ نبی کریمﷺ کے پاس آیا اور گواہی دی کہ انہوں نے کل چاند دیکھا تھا، (گویا قافلے والوں کے ہاں وہ یکم شوال کا دن تھا) تو رسول کریمﷺ نے لوگوں (یعنی مدینہ میں موجود صحابہ کرام﷢) کو حکم فرمایا کہ وہ اس دن کا روزہ توڑ دیں اور اگلے دن عید کیلئے نکلیں۔‘‘

اس حدیثِ مبارکہ سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے ان لوگوں کی رؤیتِ ہلال کی شہادت کا اعتبار کیا اور اس دن کو 30 رمضان کی بجائے یکم شوال قرار دیا لہٰذا لوگوں کو روزہ ختم کرنے کا حکم صادر فرمایا (اور ہمیں بھی اس سے کوئی اختلاف نہیں کہ مطلع ایک ہونے کی صورت میں بذاتِ خود چاند نہ دیکھ سکنے پر دیگر لوگوں کی شہادت کا ضرور اعتبار کیا جائے گا)
دوسری طرف ...
یہی حدیث مبارکہ یہ بھی صراحت سے واضح کر رہی ہے کہ نبی کریمﷺ نے قافلہ والوں کی عید میں وحدت نہیں کی (کہ اُسی دن کو - خواہ کچھ دیر بعد ہی - عید پڑھ لی ہو) بلکہ عید کی نماز کی اہمیت کے پیش نظر اسے اگلے دن (یعنی 2 شوال کو) اَدا کرنے کا حکم صادر فرمایا۔

واللہ تعالیٰ اعلم!

محترم بھائی! اگر ’وحدتِ عید‘ اتنی ہی اہم چیز تھی تو آپﷺ عید کی نماز تاخیر سے بھی پڑھ سکتے تھے۔ عید کی نماز آخر نفلی نماز ہے (اور عید الاضحیٰ تو حجاج کے پروگرام میں سرے سے شامل ہی نہیں) تو اس میں معمولی سے تاخیر کرکے اتحاد بین المسلمین جیسے ’عظیم مقصد‘ کا کیوں لحاظ نہ رکھا گیا؟؟!!

اگر مختلف مطالع والے علاقوں میں ’وحدتِ عید‘ اتنی ہی اہم تھی تو پھر حضرت کریب﷫ کی صحیح مسلم والی روایت میں جب سیدنا ابن عباس﷜ کو مکمل شرعی شہادت کا ثبوت مل گیا تو انہوں نے یا سیدنا امیر معاویہ﷢ نے وحدتِ عید کی کوشش کیوں نہ فرمائی؟؟!! وہ لوگ اسلامی روح کو ہم سے بدرجہا بہتر سمجھتے تھے اور بھلائی کے کاموں پر حریص بھی بہت زیادہ تھے اور اس کام سر انجام دینے کیلئے وقت بھی موجود تھا۔

سیدنا عمر﷜ جیسے مفکر اور مدبر - جو مصالح عامہ کے بے شمار اُمور کے موجد سمجھے جاتے ہیں - نے مدینہ نبویہ میں رہ کر لاکھوں میل پھیلی سلطنت پر حسن خوبی سے کنٹرول کیا۔ آپ﷜ اگر چاہتے تو کیا ’اتحاد بین المسلمین‘ کے اس ذریعہ پر عمل در آمد نہ کرا سکتے تھے؟! بات بات پر مجلس شوریٰ بلا کر فوری فیصلہ صادر فرما دیا کرتے تھے مگر کبھی پوری دُنیا میں وحدتِ عید یا رمضان کا مسئلہ زیر بحث نہ آیا۔ اگر اس دور میں بھی ایسی مثال نہیں ملتی تو آج اس مسئلہ پر اتنا اصرار کیوں ہے؟؟!!
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
محترم بھائی سب سے پہلے معذرت کہ دیر سے جواب دے پارہا ہوں اس کی وجہ کچھ تو وقت کی کمی ہے اور کچھ وجہ ہے زیادہ فورمز پر جوابات لکھنا، میں کوشش کرتا ہوں کہ اہلِ بدعت کو جلد جواب دے سکا کروں کیونکہ اُن لوگوں کو اگر دیر سے جواب دیا جائے تو کہتے ہیں کہ دیکھا ہم سے اُس کو بھگا دیا ہے اور جبکہ ان کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا جس سے بھاگا جائے، مگر یہاں کا معاملہ اُن سے بہتر ہے ہم اور آپ دین صرف اللہ اور رسولﷺ کی بات کو ہی سمجھتے ہیں الحمدللہ۔
بھائی انس نضر بھائی آپ نے لکھا ہے کہ
محترم اور عزیز بھائی!
’اجتماعی مواقع‘ میں آپ نے سب سے زیادہ اور سب سے اہم موقع یعنی آذان ونماز کا ذکر نہیں کیا۔
وحدت صرف حرام مہینوں کے آغاز واختتام، عیدین اور حج کی تاریخوں (یعنی وہ عبادات جن کا تعلق مہینوں کے ساتھ ہے) کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ دیگر ان عبادات میں بھی مطلوب ہے جن کا تعلّق گھنٹوں اور دنوں کے ساتھ ہے اور جن کی ادائیگی بکثرت ہوتی ہے۔ یہ وحدت ایک علاقے یا قریبی علاقوں میں تو ہو سکتی ہے، لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ یہ وحدت مشرق ومغرب کے علاقوں میں ہونی چاہئے تو یہ بات ممکن نہیں۔ آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ مثلاً لاہور میں نمازوں کا وقت ایک ہی ہونا چاہئے لیکن یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ لاہور، مکہ مکرمہ، لندن اور نیو یارک میں تمام نمازیں بالکل ایک ہی وقت میں پڑھی جائیں؟
تو بھائی جان اذان و نماز کا تعلق چاند کے ساتھ نہیں ہے بلکہ سورج کی حرکات کے ساتھ ہے اس لیئے پاکستان کے رہنے والے اپنے معیاری وقت پر نماز پڑھیں گے ناکہ سعودیہ کے معیاری وقت کے مطابق، نماز کی ادائیگی سورج کے ساتھ ہوتی ہے نہ کہ چاند کے ساتھ اس کی دلیل
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےنماز کے اوقات کے بارے میں پوچھا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فجر کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج کا اوپر کا کنارہ نہ نکلے اور ظہر کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے کہ جب تک کہ عصر کا وقت نہ آئے اور عصر کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہوجائے اور اس کے اوپر کا کنارہ غروب نہ ہو جائے اور مغرب کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ شفق غائب نہ ہو جائے اور عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک رہتا ہے۔
صحیح مسلم:جلد اول:باب:پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ظہر کی نماز کا وقت سورج ڈھلنے کے بعد ہوتا ہے اور اس وقت تک رہتا ہے کہ آدمی کا سایہ اسکی لمبائی کے برابر ہو جائے جب تک عصر کا وقت نہ آئے اور عصر کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہو اور مغرب کی نماز کا وقت شفق غائب ہونے تک رہتا ہے اور عشاء کی نماز کا وقت بالکل آدھی رات تک رہتا ہے اور صبح کی نماز کا وقت صبح صادق سے سورج نکلنے تک رہتا ہے پھر جب سورج نکلنے لگے تو کچھ دیر کے لئے نماز سے رک جائے کیونکہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔
صحیح مسلم:جلد اول:باب:پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں
ان احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ نماز کا وقت سورج کی حرکات کے ساتھ ہے نہ کہ چاند کے ساتھ۔ اس لیے ہر علاقے کے رہنے والے اپنے علاقے میں سورج کی حرکات کے مطابق نماز ادا کریں گے۔ سب کو معلوم ہے کہ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور مشرق میں جو ملک جاپان یا انڈونیشیاء وغیرہ ہیں وہاں سے یہ سلسلہ شروع ہوگا جیسے ہی وہاں سورج کی شفق نظر آجائے نماز فجر کا وقت شروع ہوجائے گا اسی طرح جہاں جہاں سورج پہنچتا جائے گا وہاں کے مسلمان حدیث کے مطابق سورج کی پوزیشن کے حساب سے نماز ادا کرتے جائیں گے۔
اس تبصرہ کے بعد آپ نے لکھا ہے کہ
اسی طرح ایک علاقے یا قریب کے علاقوں کے لوگ اکٹھے عید منائیں گے لیکن مشرق ومغرب کے علاقوں کے لوگ اپنی اپنی عید اپنی اپنی رؤیت (اپنے مطلع) کے مطابق منائیں گے۔
بھائی جان اگر یہی اصول لیا جائے تو پھر گلگت کے نزدیکی علاقے چین اور افغانستان بھی تو ہیں پشاور کے نزدیکی علاقہ افغانستان بھی تو ہے اور کوئٹہ کے نزدیکی علاقے افغانستان و ایران بھی تو ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ ان علاقوں میں بھی کراچی کی گواہی تو قبول کی جاتی ہے حالانکہ کراچی کی بنسبت گلگت اور پشاور سے افغانستان بہت ہی زیادہ نزدیک ہے مگر افغانستان اور ایران کی گواہی رَد کردی جاتی ہے؟؟؟
اصل میں ان ملکی سرحدوں کی وجہ سے ہم آپس میں متفرق ہوچکے ہیں جوکہ دین اور مسلمانوں کے لیئے انتہائی خطرناک بات ہے کہ جی ہم نے گواہی پاکستان کی حدود کے اندر کی ماننی ہے!!! حالانکہ پاکستان کی حدود ایک مطلع کی حیثیت بھی نہیں رکھتی ہے مگر اس ملکی تقسیم نے ہماری اجتماعیت کو ہی تقسیم در تقسیم کردیا ہوا ہے اور ہم سب یہ بات جانتے بھی ہیں کہ اسلام میں تفرقہ پیدا کرنا انتہائی بُرا عمل ہے جس کو اللہ اور رسولﷺ نے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے، میں اس ملکی تقسیم کو نہیں مانتا کہ تم سعودی ہو، تم ہندوستانی ہو، تم افغانی ہو، تم ایرانی ہو ارے بھائیو اس ملکی تقسیم کے فتنے سے باہر نکلو کفار تو یہی چاہتے ہیں کہ ہم تقسیم در تقسیم ہوتے رہیں، میں سمجھتا ہوں کہ رؤیت ہلال کے سلسلے میں بھی ہم اسی ملکی تقسیم کی وجہ سے فتنے کا شکار ہیں ورنہ دلائل سے یہی بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ رؤیت ہلال کی گواہی مل جانے پر صیام اور عیدین کی جائیں وہ گواہی چاہے کہیں سے بھی ملے ہاں گواہی دینے والا مسلم ہو۔
آپ مزید لکھتے ہیں کہ
جب یہ بات طے ہے کہ دور کے علاقوں میں رات ودن کے آنے جانے اور سورج وچاند کے طلوع وغروب ہونے کے اوقات مختلف ہیں مثلاً ہمارے ہاں مشرق میں اگلا دن نکل آتا ہے لیکن مغرب میں ابھی رات ہوتی ہے، ابھی وہاں دن ہوتا ہے تو ہمارے ہاں اگلی رات شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ یہی معاملہ سورج وچاند کے اوقات کا بھی ہے تو دور دراز کے علاقوں کو کسی ایک علاقے کے دن ورات اور سورج وچاند کے اوقات کا پابند کیسے بنایا جا سکتا ہے؟؟!!
ہمارے ہاں پاکستان میں طلوعِ فجر ہونے پر کیا امریکہ کے مسلمانوں کو پچھلے دن کی شام میں ہی صرف نام نہاد وحدت کے نام پر نمازِ فجر پڑھنے کو کہا جائے گا؟؟!!
بھائی جان اب معاملہ آگیا ہے چاند کا تو سب سے پہلے ہمیں جاننا ہوگا کہ چاند کس مقصد کے لیے ہے تو آیئے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی اس بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں
يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ ۭ قُلْ ھِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۭ
یہ آپ سے ہلال (نئے چاند) کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہیے کہ یہ انسانوں کے لئے تاریخیں مقرر کرنے کے لئے ہے اور حج (کی تاریخ مقرر کرنے )کے لئے بھی۔
البقرہ۔ ۱۸۹
آفتاب ہمیشہ ایک صورت ایک حالت پر رہتا ہے اور چاند کی صورت بدلتی اور اس کی مقدار بڑھتی رہتی ہے اس لئے لوگوں نے چاند کے کم زیادہ ہونے کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی پہلی آیات::۱۸۷۔۱۸۸:: میں ماہ رمضان اور روزہ کا ذکر تھا اس آیت میں ہلال کا ذکر ہے اور روزہ اور رویت ہلال میں تعلق ظاہر ہے کہ ایک دوسرے پر موقوف ہے،آیت ِبالا سے واضح ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہلال (نئے چاند)کو انسانوں کے لئے تاریخیں مقرر کرنے کا ذریعہ بنایا ہے اور اور حج (کی تاریخ مقرر کرنے)کا بھی ذریعہ بنایاہے،
اس کے اور بھی مقاصد تھے کہ قرض وغیرہ کے وعدوں کی میعاد معلوم ہو جاتی ہے، عورتوں کی عدت کا وقت معلوم ہوتا ہے، حج کا وقت معلوم ہوتا ہے، مسلمانوں کے روزے کے افطار کا تعلق بھی اسی سے ہے، مسند عبدالرزاق میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی نے چاند کو لوگوں کے وقت معلوم کرنے کے لئے بنایا ہے اسے دیکھ کر روزے رکھو اسے دیکھ کر عید مناؤ اگر ابر وباراں کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو تو تیس دن پورے گن لیا کرو، اس روایت کو حضرت امام حاکم نے صحیح کہا ہے۔
اس وضاحت کے بعد یہ تو معلوم ہوگیا کہ اسلام میں چاند کا گھٹنا بڑھنا تاریخوں کے مقرر کرنے کا ذریعہ ہے۔
اب سعودیہ کے ساتھ ایک تایخ پر اختلاف کیا جاتا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا، جبکہ یہ بات طے ہے کہ آسمان پر ایک ہی چاند ہے نہ کہ دو۲ ، اب جبکہ ایک ہی چاند ہے تو دو یا تین تاریخیں کیوں بنائی جاتی ہیں؟؟؟اور جبکہ سورج بھی ایک ہی ہے مگر سورج والی تاریخ میں ہم بھی اختلاف نہیں کرتے کہ جی یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ اور جاپان کی ایک ہی تاریخ ہو؟کیا کبھی کسی نے یاسا اختلاف سُنا یا کیا ہے؟یقیناً نہیں کیا ہوگا تو چاند کی تاریخ کے معاملے میں ایسا اختلاف کیوں واقع ہوگیا ہے؟؟؟
دیکھیں بھائی جان کہ اگر سعودیہ میں چاند نظر آجاتا ہے اور اس کی گواہی ہم کو مل جاتی ہے تو کیا چیز مانع ہے اس کو قبول کرنے میں؟؟؟
جبکہ پاکستان اور سعودیہ کے وقت کا فرق صرف ۲ گھنٹے ہے، اگر سعودیہ میں چاند نظر آتا ہے شام سات۷ بجے تو اس وقت پاک میں رات کے صرف ۹ بجے ہیں اور مشرق کی طرف زیادہ سے زیادہ وقت کا جو فرق ہے سعودیہ کے ساتھ وہ ہے جاپان، تو جاپان میں رات کا ایک ۱ بجا ہوگا اوراور انڈونیشیاء میں رات کے باراں ۱۲ بجے ہونگے اور وہ بھی صبح سعودیہ کے ساتھ عید یا روزہ رکھ سکیں گے اور جیسے جیسے سورج آگے کی طرف سفر جاری رکھے گا تو اس کے ساتھ ساتھ ہر علاقے والے اس دن کو عید یا روزہ رکھیں گے ۔
اب بات آتی ہے مغرب کی طرف جو ممالک ہیں وہاں کا معاملہ تو یہ معاملہ پہلے سے آسان ہے وہ اس لیے جیسے جیسے چاند مغرب کی طرف جاتا جائے گا اس کا حجم بڑھتا جائے گا اور امید ہے کہ اگر وہ سعودیہ میں نظر آگیا تھا تو وہاں کے رہنے والوں کو اور زیادہ آسانی سے نظر آسکے گا، اور اگر وہاں نظر نہیں آتا اور ان لوگوں کو چاند نظر آنے کی گواہی مل گئی ہے تو اب دیکھیں گے جو سب سے دور ملک ہے اس کا حساب کیا ہے، امریکہ کا سعودی عرب سے وقت کا فرق سب سے زیادہ ہے یعنی جب مکہ میں شام کے سات۷ بجے ہونگے تو نیویارک میں اسی دن کے ۱۲ بجے ہونگے یعنی وہ ابھی اسی دن میں ہیں، جس دن کے آخر میں سعودیہ میں چاند نظر آیا تھا تو جیسے ہی وہاں بھی شام ہوگی تو وہاں بھی اسی تناسب کے حساب سے رمضان کی پہلی رات آجائے گی بلکہ وہاں آرام سے چاند نظر آ جائے گا کیونکہ پھر چاند کی عمر زیادہ ہوچکی ہوگی اور اس کا حجم بھی اسی حساب سے زیادہ ہوچکا ہوگاجس کی وجہ سے اُسے آسانی سے دیکھا جاسکے گا۔ اگر وہاں کسی وجہ سے نہیں نظر آتا اور گواہی مل جاتی ہے تو اسلام میں گواہی پر بھی عمل کیا جاتا ہے جیسا کہ ہر ملک میں ہوتا ہے کہ کسی ایک کو چاند نظر آتا ہے اور وہ گواہی دیتا ہے تو اُس ملک میں صیام، یا عید مقرر کردی جاتی ہے مگر بھائیو اسلام ان سرحد بندیوں سے بہت آگے ہے یہ سرحد بندیاں اتحاد مسلم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، اور بعض کا کہنا یہ ہے کہ دن کے باراں ۱۲ کیسےروزہ رکھیں گے میرا ان سے سوال ہے تو کیا سعودیہ والے شام سات۷ بجے ہی روزہ رکھ لیتے ہیں؟؟؟
یقیناً نہیں ، بلکہ وہ اس رات کے بعد جو سحری ہوتی ہے اس وقت روزہ رکھتے ہیں تو اسی طرح جب نیویارک میں بھی اس رات کے بعد سحری آئے گی تو وہاں کے رہنے والے بھی روزہ رکھیں گے تو اس طرح ساری دنیا کے مسلمان ایک ہی دن میں روزہ رکھے ہوئے ہوں گے یعنی پوری دنیا کے مسلمانوں کی ایک ہی تاریخ ہوگی جیسا کہ سورج کے معاملے میں ہوتی ہے، معاملہ اس وقت خراب ہوتا ہے جب بات سمجھ میں نہ آتی ہو اور لوگ سمجھیں کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ مکہ کے ساتھ پوری دنیا کے مسلمان روزہ رکھیں گے جبکہ اس وقت جب مکہ میں سحری کا وقت ہوگا تو پاکستان، ہندوستان، بنگلادیش، انڈونیشیا وغیرہ میں تو سحری کا وقت ہی گزر چکا ہوگا تو وہ کیسے مکہ کے ساتھ روزہ رکھ سکیں گے؟؟؟
اگر اس بات کو ایسا سمجھا جائے گا تو واقعی ایسا ممکن نہیں ہے، مگر بھائیو اس طرح نہیں ہے بلکہ جیسا میں نے اوپر تفصیل سے سمجھایا ہے ویسا ہے اگر پھر بھی کوئی بہن یا بھائی بات کو نہیں سمجھ سکے تو یقیناً میرے سمجھانے میں غلطی ہے نہ کہ اس اصول میں جو کہ عیسوی تاریخ کا حساب بھی ہے کہ جیسے جیسے جہاں جہاں سورج پہنچتا جاتا ہے وہاں وہاں تاریخ تبدیل ہوتی جائے گی۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی حق بات کی طرف رہنمائی فرمائے ۔آمین یارب العالمین
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
بھائی انس نضر بھائی آپ نے لکھا ہے کہ
محترم اور عزیز بھائی!
’اجتماعی مواقع‘ میں آپ نے سب سے زیادہ اور سب سے اہم موقع یعنی آذان ونماز کا ذکر نہیں کیا۔
وحدت صرف حرام مہینوں کے آغاز واختتام، عیدین اور حج کی تاریخوں (یعنی وہ عبادات جن کا تعلق مہینوں کے ساتھ ہے) کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ دیگر ان عبادات میں بھی مطلوب ہے جن کا تعلّق گھنٹوں اور دنوں کے ساتھ ہے اور جن کی ادائیگی بکثرت ہوتی ہے۔ یہ وحدت ایک علاقے یا قریبی علاقوں میں تو ہو سکتی ہے، لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ یہ وحدت مشرق ومغرب کے علاقوں میں ہونی چاہئے تو یہ بات ممکن نہیں۔ آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ مثلاً لاہور میں نمازوں کا وقت ایک ہی ہونا چاہئے لیکن یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ لاہور، مکہ مکرمہ، لندن اور نیو یارک میں تمام نمازیں بالکل ایک ہی وقت میں پڑھی جائیں؟
تو بھائی جان اذان و نماز کا تعلق چاند کے ساتھ نہیں ہے بلکہ سورج کی حرکات کے ساتھ ہے اس لیئے پاکستان کے رہنے والے اپنے معیاری وقت پر نماز پڑھیں گے ناکہ سعودیہ کے معیاری وقت کے مطابق، نماز کی ادائیگی سورج کے ساتھ ہوتی ہے نہ کہ چاند کے ساتھ اس کی دلیل
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےنماز کے اوقات کے بارے میں پوچھا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فجر کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج کا اوپر کا کنارہ نہ نکلے اور ظہر کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے کہ جب تک کہ عصر کا وقت نہ آئے اور عصر کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہوجائے اور اس کے اوپر کا کنارہ غروب نہ ہو جائے اور مغرب کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ شفق غائب نہ ہو جائے اور عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک رہتا ہے۔
صحیح مسلم:جلد اول:باب:پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ظہر کی نماز کا وقت سورج ڈھلنے کے بعد ہوتا ہے اور اس وقت تک رہتا ہے کہ آدمی کا سایہ اسکی لمبائی کے برابر ہو جائے جب تک عصر کا وقت نہ آئے اور عصر کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ سورج زرد نہ ہو اور مغرب کی نماز کا وقت شفق غائب ہونے تک رہتا ہے اور عشاء کی نماز کا وقت بالکل آدھی رات تک رہتا ہے اور صبح کی نماز کا وقت صبح صادق سے سورج نکلنے تک رہتا ہے پھر جب سورج نکلنے لگے تو کچھ دیر کے لئے نماز سے رک جائے کیونکہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔
صحیح مسلم:جلد اول:باب:پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں
ان احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ نماز کا وقت سورج کی حرکات کے ساتھ ہے نہ کہ چاند کے ساتھ۔ اس لیے ہر علاقے کے رہنے والے اپنے علاقے میں سورج کی حرکات کے مطابق نماز ادا کریں گے۔ سب کو معلوم ہے کہ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور مشرق میں جو ملک جاپان یا انڈونیشیاء وغیرہ ہیں وہاں سے یہ سلسلہ شروع ہوگا جیسے ہی وہاں سورج کی شفق نظر آجائے نماز فجر کا وقت شروع ہوجائے گا اسی طرح جہاں جہاں سورج پہنچتا جائے گا وہاں کے مسلمان حدیث کے مطابق سورج کی پوزیشن کے حساب سے نماز ادا کرتے جائیں گے۔
جی بھائی مجھے آپ سے مکمل اتفاق ہے کہ آذان اور نمازیں سورج کے مطابق ہوتی ہیں نہ کہ چاند کے مطابق! اس میں تو میرے خیال میں کوئی بچہ بھی اختلاف نہیں کر سکتا کہ اس کیلئے کئی دلائل قائم کرنے کی ضرورت ہو!!

میں نے جو بات ’واضح‘ کرنے کی کوشش کی تھی، اس پر شائد آپ غور نہیں کر سکے، میں دوبارہ اپنے الفاظ کوٹ کر دیتا ہوں، میں نے لکھا تھا:

’اجتماعی مواقع‘ میں آپ نے سب سے زیادہ اور سب سے اہم موقع یعنی آذان ونماز کا ذکر نہیں کیا۔
وحدت صرف حرام مہینوں کے آغاز واختتام، عیدین اور حج کی تاریخوں (یعنی وہ عبادات جن کا تعلق مہینوں کے ساتھ ہے) کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ دیگر ان عبادات میں بھی مطلوب ہے جن کا تعلّق گھنٹوں اور دنوں کے ساتھ ہے اور جن کی ادائیگی بکثرت ہوتی ہے۔ یہ وحدت ایک علاقے یا قریبی علاقوں میں تو ہو سکتی ہے، لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ یہ وحدت مشرق ومغرب کے علاقوں میں ہونی چاہئے تو یہ بات ممکن نہیں۔ آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ مثلاً لاہور میں نمازوں کا وقت ایک ہی ہونا چاہئے لیکن یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ لاہور، مکہ مکرمہ، لندن اور نیو یارک میں تمام نمازیں بالکل ایک ہی وقت میں پڑھی جائیں؟
آپ کی بنیاد یہ تھی کہ ’اجتماعی مواقع‘ مثلاً رمضان، عیدین اور حج وغیرہ میں امت میں اتحاد ہونا چاہئے جو وحدتِ رؤیتِ ہلال کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے۔ تو میں نے یہ عرض کیا تھا کہ یہ وحدت صرف چاند سے متعلق عبادتوں میں کیوں ہونی چاہئے؟ سورج کے متعلق عبادتوں (آذان ونماز) وغیرہ میں کیوں نہیں ہونی چاہئے جو ہیں بھی نہایت کثرت سے، ایک دن میں پانچ مرتبہ؟؟!!

جس کا جواب آپ نے نہیں دیا !!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اس تبصرہ کے بعد آپ نے لکھا ہے کہ
اسی طرح ایک علاقے یا قریب کے علاقوں کے لوگ اکٹھے عید منائیں گے لیکن مشرق ومغرب کے علاقوں کے لوگ اپنی اپنی عید اپنی اپنی رؤیت (اپنے مطلع) کے مطابق منائیں گے۔
بھائی جان اگر یہی اصول لیا جائے تو پھر گلگت کے نزدیکی علاقے چین اور افغانستان بھی تو ہیں پشاور کے نزدیکی علاقہ افغانستان بھی تو ہے اور کوئٹہ کے نزدیکی علاقے افغانستان و ایران بھی تو ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ ان علاقوں میں بھی کراچی کی گواہی تو قبول کی جاتی ہے حالانکہ کراچی کی بنسبت گلگت اور پشاور سے افغانستان بہت ہی زیادہ نزدیک ہے مگر افغانستان اور ایران کی گواہی رَد کردی جاتی ہے؟؟؟
اصل میں ان ملکی سرحدوں کی وجہ سے ہم آپس میں متفرق ہوچکے ہیں جوکہ دین اور مسلمانوں کے لیئے انتہائی خطرناک بات ہے کہ جی ہم نے گواہی پاکستان کی حدود کے اندر کی ماننی ہے!!! حالانکہ پاکستان کی حدود ایک مطلع کی حیثیت بھی نہیں رکھتی ہے مگر اس ملکی تقسیم نے ہماری اجتماعیت کو ہی تقسیم در تقسیم کردیا ہوا ہے اور ہم سب یہ بات جانتے بھی ہیں کہ اسلام میں تفرقہ پیدا کرنا انتہائی بُرا عمل ہے جس کو اللہ اور رسولﷺ نے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے، میں اس ملکی تقسیم کو نہیں مانتا کہ تم سعودی ہو، تم ہندوستانی ہو، تم افغانی ہو، تم ایرانی ہو ارے بھائیو اس ملکی تقسیم کے فتنے سے باہر نکلو کفار تو یہی چاہتے ہیں کہ ہم تقسیم در تقسیم ہوتے رہیں، میں سمجھتا ہوں کہ رؤیت ہلال کے سلسلے میں بھی ہم اسی ملکی تقسیم کی وجہ سے فتنے کا شکار ہیں ورنہ دلائل سے یہی بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ رؤیت ہلال کی گواہی مل جانے پر صیام اور عیدین کی جائیں وہ گواہی چاہے کہیں سے بھی ملے ہاں گواہی دینے والا مسلم ہو۔
عزیز بھائی!
میں نے قریبی علاقوں (جن کا مطلع ایک ہی ہے) میں عبادتوں میں وحدت کی بات کی تھی اور اختلافِ مطالع والے دور کے (مثلاً مشرق ومغرب کے) علاقوں کے متعلّق عرض کیا تھا کہ ان کی عبادتوں (خواہ وہ چاند سے متعلّق عبادتیں ہوں یا سورج سے متعلّق) میں وحدت ہو نہیں ہو سکتی اور اس کیلئے میں نے شرعی بنیاد سیدنا ابن عباس﷢ کی صحیح مسلم والی روایت کو بنایا تھا، سیدنا ابن عباس ﷜ نے تو اسے نبی کریمﷺ کی طرف منسوب کیا ہے، دیگر محدثین کرام﷭ نے بھی اس سے اختلافِ مطالع ہی سمجھا ہے۔ اور آپ نے جس حدیث مبارکہ سے استدلال کیا تھا، اس کی اصل حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی تھی۔

لیکن اس موضوع پر بات کرنے کی بجائے آپ نے آج کل لوگوں کا رویہ اور ملکی حدود کی تقسیم کی بحث چھیڑ دی، جس میں مجھے آپ سے کوئی اختلاف نہیں، میں خود بھی ملکی حدود کی تقسیم کو صحیح نہیں سمجھتا۔ اور نہ ہی میرا یہ موقف ہے کہ ایک ملک کے لوگوں کو صرف اپنی ہی گواہی قبول کرنی ہے، غیر کی نہیں!

اختلافِ مطالع کا موقف رکھنے والے علماء کا کہنا یہ ہے کہ ایک مطلع میں موجود علاقوں کی گواہی آپس میں قابل قبول ہونی چاہئے۔ لیکن اختلافِ مطلع کی صورت میں، دوسرے مطلع والے علاقوں کی گواہی کو تسلیم نہیں کیا جائے گا،، خواہ وہ قریب ہوں یا دور (کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ دور کے علاقے کا مطلع لازما قریب کے علاقے سے مختلف ہو، بلکہ معاملہ الٹ بھی ہو سکتا ہے۔ تفصیل کیلئے کتاب [LINK=http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/urdu-islami-kutub/ibadaat/%D8%B1%D9%85%D8%B6%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%A8%D8%A7%D8%B1%DA%A9-%D9%88%D8%B9%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D9%84%D9%81%D8%B7%D8%B1/75-%D9%85%D8%B3%D8%A6%D9%84%DB%81-%D8%B1%D9%88%DB%8C%D8%AA-%DB%81%D9%84%D8%A7%D9%84/121-islam-ka-nizam-e-falkiyat.html]الشمس والقمر بحسبان[/LINK] دیکھئے۔) اس کی دلیل صحیح مسلم کی سیدنا ابن عباس﷜ کی حدیث مبارکہ ہے، حالانکہ یہ دونوں علاقے ایک ہی خلافت میں موجود تھے، دونوں کی حکومت ایک ہی خلیفہ کے ہاتھ میں تھی، لیکن اس کے باوجود دونوں میں مختلف دنوں میں عید کی گئی۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
آپ مزید لکھتے ہیں کہ
جب یہ بات طے ہے کہ دور کے علاقوں میں رات ودن کے آنے جانے اور سورج وچاند کے طلوع وغروب ہونے کے اوقات مختلف ہیں مثلاً ہمارے ہاں مشرق میں اگلا دن نکل آتا ہے لیکن مغرب میں ابھی رات ہوتی ہے، ابھی وہاں دن ہوتا ہے تو ہمارے ہاں اگلی رات شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ یہی معاملہ سورج وچاند کے اوقات کا بھی ہے تو دور دراز کے علاقوں کو کسی ایک علاقے کے دن ورات اور سورج وچاند کے اوقات کا پابند کیسے بنایا جا سکتا ہے؟؟!!
ہمارے ہاں پاکستان میں طلوعِ فجر ہونے پر کیا امریکہ کے مسلمانوں کو پچھلے دن کی شام میں ہی صرف نام نہاد وحدت کے نام پر نمازِ فجر پڑھنے کو کہا جائے گا؟؟!!
بھائی جان اب معاملہ آگیا ہے چاند کا تو سب سے پہلے ہمیں جاننا ہوگا کہ چاند کس مقصد کے لیے ہے تو آیئے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی اس بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں
يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ ۭ قُلْ ھِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۭ
یہ آپ سے ہلال (نئے چاند) کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہیے کہ یہ انسانوں کے لئے تاریخیں مقرر کرنے کے لئے ہے اور حج (کی تاریخ مقرر کرنے )کے لئے بھی۔
البقرہ۔ ۱۸۹
آفتاب ہمیشہ ایک صورت ایک حالت پر رہتا ہے اور چاند کی صورت بدلتی اور اس کی مقدار بڑھتی رہتی ہے اس لئے لوگوں نے چاند کے کم زیادہ ہونے کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی پہلی آیات::۱۸۷۔۱۸۸:: میں ماہ رمضان اور روزہ کا ذکر تھا اس آیت میں ہلال کا ذکر ہے اور روزہ اور رویت ہلال میں تعلق ظاہر ہے کہ ایک دوسرے پر موقوف ہے،آیت ِبالا سے واضح ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہلال (نئے چاند)کو انسانوں کے لئے تاریخیں مقرر کرنے کا ذریعہ بنایا ہے اور اور حج (کی تاریخ مقرر کرنے)کا بھی ذریعہ بنایاہے،
اس کے اور بھی مقاصد تھے کہ قرض وغیرہ کے وعدوں کی میعاد معلوم ہو جاتی ہے، عورتوں کی عدت کا وقت معلوم ہوتا ہے، حج کا وقت معلوم ہوتا ہے، مسلمانوں کے روزے کے افطار کا تعلق بھی اسی سے ہے، مسند عبدالرزاق میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی نے چاند کو لوگوں کے وقت معلوم کرنے کے لئے بنایا ہے اسے دیکھ کر روزے رکھو اسے دیکھ کر عید مناؤ اگر ابر وباراں کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو تو تیس دن پورے گن لیا کرو، اس روایت کو حضرت امام حاکم نے صحیح کہا ہے۔
اس وضاحت کے بعد یہ تو معلوم ہوگیا کہ اسلام میں چاند کا گھٹنا بڑھنا تاریخوں کے مقرر کرنے کا ذریعہ ہے۔
محترم اور پیارے بھائی!
اوپر کے تبصرے میں آپ کی کل بنیاد یہ ہے کہ چاند کو حج اور دیگر عبادات ومعاملات کے اوقات کی تحدید کیلئے بنایا گیا ہے لہٰذا صرف چاند والی عباتوں میں تو پوری دنیا میں وحدت ہونی چاہئے، سورج والی عبادتوں کیلئے نہیں۔ جس کیلئے آپ نے آیت کریمہ ﴿ يسئلونك عن الأهلة قل هي مواقيت للناس والحج ﴾ پیش فرمائی۔ مجھے آپ سے اس حد تک اتفاق ہے کہ ان چیزوں کی تحدید چاند سے بھی ہوتی ہے، لیکن میرا موقف یہ ہے کہ چاند کے علاوہ سورج، رات اور دن سے بھی ہوتی ہے۔ جس کی دلیل میں آیاتِ کریمہ پچھلی پوسٹس میں پیش کر چکا ہوں۔ اس کا بھی آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔
تو جب حساب وکتاب، عبادات ومعاملات کے اوقات اور دنوں، مہینوں اور سالوں کی تحدید چاند کے ساتھ ساتھ سورج اور رات ودن سے بھی ہوتی ہے، تو پھر صرف چاند کی وحدت چہ معنیٰ دارُد؟! سورج اور رات ودن کی وحدت کیوں نہیں؟؟!!

آپ نے حج کے علاوہ چاند کے دیگر کچھ مقاصد بیان کیے
اس کے اور بھی مقاصد تھے کہ قرض وغیرہ کے وعدوں کی میعاد معلوم ہو جاتی ہے، عورتوں کی عدت کا وقت معلوم ہوتا ہے، حج کا وقت معلوم ہوتا ہے، مسلمانوں کے روزے کے افطار کا تعلق بھی اسی سے ہے
بھائی! آپ حج یا عیدین کے حوالے سے تو وحدتِ رؤیت کے بات کرتے ہیں لیکن یہ وحدت مکمل طور پر نہ تو عید اور حج میں ممکن ہے اور نہ ہی آپ کی باقی دی گئی مثالوں میں
حج اور عیدین میں تاریخ میں وحدت ہو سکتی ہے، لیکن کیا پوری دُنیا میں عید کی نماز کے وقت میں وحدت ہو سکتی ہے؟؟!! ہرگز نہیں!

کیا حج میں یوم عرفہ کے دن حاجیوں کی خاص دُعا (ظہر تا مغرب) میں دیگر تمام دُنیا ان کے ساتھ شریک ہو سکتی ہے؟؟ ہرگز نہیں! کیا ساری دُنیا حاجیوں کے ساتھ قربانی میں شریک ہو سکتی ہے؟؟ ہرگز نہیں! وغیرہ وغیرہ

کیا قرض یا عدت کی میعاد صرف تاریخ (چاند) سے ہوتی ہے؟ گھنٹوں (سورج) سے نہیں؟؟ مثلاً اگر کوئی مجھ سے ایک لاکھ روپے قرض لیتا ہے کہ میں آنے والے جمعہ کے دن عصر سے پہلے پہلے آپ کو واپس لوٹا دوں گا؟؟

اسی طرح اگر ایک عورت نے چار مہینے دس دن عدت گزارنی ہے تو آخری دن کب ختم ہوگا؟؟ ظاہر ہے اس کا تعلق گھنٹوں (سورج) کے ساتھ ہے نہ کہ چاند کے ساتھ

یہی معاملہ روزہ افطار کا بھی ہے، آپ کے نزدیک پوری دُنیا میں کسی ایک جگہ چاند نظر آنے پوری دُنیا میں عید الفطر ہوجائے گی یعنی مکمل روزہ نہ رکھنے کیلئے (اس کا تعلق چاند سے ہے) آپ وحدتِ رؤیت کی بات کرتے ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ مشرق ومغرب میں رمضان کے ہر ہر روزے کی افطاری کی وحدت کی طرف آپ دعوت نہیں دیتے، بلکہ واضح فرماتے ہیں کہ ہر روزہ کی افطاری (مغرب کے وقت یعنی سورج کے مطابق) پوری دنیا میں اپنے اپنے حساب سے علیحدہ ہوگی؟؟؟!!!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اب سعودیہ کے ساتھ ایک تایخ پر اختلاف کیا جاتا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا، جبکہ یہ بات طے ہے کہ آسمان پر ایک ہی چاند ہے نہ کہ دو۲ ، اب جبکہ ایک ہی چاند ہے تو دو یا تین تاریخیں کیوں بنائی جاتی ہیں؟؟؟اور جبکہ سورج بھی ایک ہی ہے مگر سورج والی تاریخ میں ہم بھی اختلاف نہیں کرتے کہ جی یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ اور جاپان کی ایک ہی تاریخ ہو؟کیا کبھی کسی نے یاسا اختلاف سُنا یا کیا ہے؟یقیناً نہیں کیا ہوگا تو چاند کی تاریخ کے معاملے میں ایسا اختلاف کیوں واقع ہوگیا ہے؟؟؟
میرے بھائی! جس طرح آسمان پر ایک چاند ہے، اسی طرح ایک ہی سورج ہے۔ جب سورج میں آپ بھی اختلافِ مطالع تسلیم کرتے ہیں تو چاند میں کیوں تسلیم نہیں کرتے؟؟!! حالانکہ آپ کے پاس اپنے موقف کی دلیل بھی کوئی نہیں، سوائے ’وحدتِ امت‘ کی ایک جذباتی سی بات کے، بلکہ دلیل موجود ہے صحیح مسلم والی روایت اور وہ آپ کے موقف کے صریح مخالف ہے۔
بھائی! وحدتِ اُمت کی واقعی ہی بہت اہمیت ہے، لیکن اس کیلئے اللہ تعالیٰ ’اعتصام بالکتاب والسنہ‘ کا حکم دیا ہے، فرمانِ باری ہے: ﴿ واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا ... ﴾ ... سورۃ آل عمران

جہاں تک آپ کا یہ سوال ہے کہ سورج کی تاریخ میں تو اختلاف نہیں ہوتا تو چاند کی تاریخ میں کیوں ہوتا ہے؟؟!!
اس کا جواب یہ ہے کہ سورج ہر روز ہر علاقے میں ایک مخصوص وقت پر نکلتا ہے، جبکہ چاند کی صورت یہ نہیں۔ چاند ستائیس دن تو نظر آتا ہے دو تین دن نظر نہیں آتا اور اگر کسی علاقے میں نظر آتا ہے تو دوسرے علاقے میں نظر نہیں آتا اور یہ بات مسلّم ہے۔ اسی لئے تو حکم ہوا کہ اگر کسی علاقے میں چاند بادلوں کی بناء پر نظر نہ آئے تو وہ علاقے والے تیس دن پورے کریں، بلکہ ہر علاقے کی رؤیت کو اتنی اہمیت دی کہ اگر کوئی شخص شك والے دن کا روزہ رکھ لے تو اسے [LINK=http://www.dorar.net/enc/hadith?skeys=من+صام+اليوم+الذي+شك+فيه+&xclude=&degree_cat0=1]نبی کریمﷺ کی صریح نافرمانی[/LINK] قرار دیا گیا ہے۔ کیا اس قسم کا شک سورج کی رؤیت میں ہو سکتا ہے؟! جس کی بناء نماز پڑھنا ہی گناہ بن جائے؟؟!!

اگر سورج کی بھی چاند کی طرح منزلیں ہوتیں تو پھر شمسی تاریخ میں مشرق ومغرب میں اسی طرح اختلاف ہوتا جس طرح قمری تاریخ میں ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
دیکھیں بھائی جان کہ اگر سعودیہ میں چاند نظر آجاتا ہے اور اس کی گواہی ہم کو مل جاتی ہے تو کیا چیز مانع ہے اس کو قبول کرنے میں؟؟؟
جبکہ پاکستان اور سعودیہ کے وقت کا فرق صرف ۲ گھنٹے ہے، اگر سعودیہ میں چاند نظر آتا ہے شام سات۷ بجے تو اس وقت پاک میں رات کے صرف ۹ بجے ہیں اور مشرق کی طرف زیادہ سے زیادہ وقت کا جو فرق ہے سعودیہ کے ساتھ وہ ہے جاپان، تو جاپان میں رات کا ایک ۱ بجا ہوگا اوراور انڈونیشیاء میں رات کے باراں ۱۲ بجے ہونگے اور وہ بھی صبح سعودیہ کے ساتھ عید یا روزہ رکھ سکیں گے اور جیسے جیسے سورج آگے کی طرف سفر جاری رکھے گا تو اس کے ساتھ ساتھ ہر علاقے والے اس دن کو عید یا روزہ رکھیں گے ۔
اب بات آتی ہے مغرب کی طرف جو ممالک ہیں وہاں کا معاملہ تو یہ معاملہ پہلے سے آسان ہے وہ اس لیے جیسے جیسے چاند مغرب کی طرف جاتا جائے گا اس کا حجم بڑھتا جائے گا اور امید ہے کہ اگر وہ سعودیہ میں نظر آگیا تھا تو وہاں کے رہنے والوں کو اور زیادہ آسانی سے نظر آسکے گا، اور اگر وہاں نظر نہیں آتا اور ان لوگوں کو چاند نظر آنے کی گواہی مل گئی ہے تو اب دیکھیں گے جو سب سے دور ملک ہے اس کا حساب کیا ہے، امریکہ کا سعودی عرب سے وقت کا فرق سب سے زیادہ ہے یعنی جب مکہ میں شام کے سات۷ بجے ہونگے تو نیویارک میں اسی دن کے ۱۲ بجے ہونگے یعنی وہ ابھی اسی دن میں ہیں، جس دن کے آخر میں سعودیہ میں چاند نظر آیا تھا تو جیسے ہی وہاں بھی شام ہوگی تو وہاں بھی اسی تناسب کے حساب سے رمضان کی پہلی رات آجائے گی بلکہ وہاں آرام سے چاند نظر آ جائے گا کیونکہ پھر چاند کی عمر زیادہ ہوچکی ہوگی اور اس کا حجم بھی اسی حساب سے زیادہ ہوچکا ہوگاجس کی وجہ سے اُسے آسانی سے دیکھا جاسکے گا۔ اگر وہاں کسی وجہ سے نہیں نظر آتا اور گواہی مل جاتی ہے تو اسلام میں گواہی پر بھی عمل کیا جاتا ہے جیسا کہ ہر ملک میں ہوتا ہے کہ کسی ایک کو چاند نظر آتا ہے اور وہ گواہی دیتا ہے تو اُس ملک میں صیام، یا عید مقرر کردی جاتی ہے مگر بھائیو اسلام ان سرحد بندیوں سے بہت آگے ہے یہ سرحد بندیاں اتحاد مسلم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، اور بعض کا کہنا یہ ہے کہ دن کے باراں ۱۲ کیسےروزہ رکھیں گے میرا ان سے سوال ہے تو کیا سعودیہ والے شام سات۷ بجے ہی روزہ رکھ لیتے ہیں؟؟؟
یقیناً نہیں ، بلکہ وہ اس رات کے بعد جو سحری ہوتی ہے اس وقت روزہ رکھتے ہیں تو اسی طرح جب نیویارک میں بھی اس رات کے بعد سحری آئے گی تو وہاں کے رہنے والے بھی روزہ رکھیں گے تو اس طرح ساری دنیا کے مسلمان ایک ہی دن میں روزہ رکھے ہوئے ہوں گے یعنی پوری دنیا کے مسلمانوں کی ایک ہی تاریخ ہوگی جیسا کہ سورج کے معاملے میں ہوتی ہے، معاملہ اس وقت خراب ہوتا ہے جب بات سمجھ میں نہ آتی ہو اور لوگ سمجھیں کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ مکہ کے ساتھ پوری دنیا کے مسلمان روزہ رکھیں گے جبکہ اس وقت جب مکہ میں سحری کا وقت ہوگا تو پاکستان، ہندوستان، بنگلادیش، انڈونیشیا وغیرہ میں تو سحری کا وقت ہی گزر چکا ہوگا تو وہ کیسے مکہ کے ساتھ روزہ رکھ سکیں گے؟؟؟
اگر اس بات کو ایسا سمجھا جائے گا تو واقعی ایسا ممکن نہیں ہے، مگر بھائیو اس طرح نہیں ہے بلکہ جیسا میں نے اوپر تفصیل سے سمجھایا ہے ویسا ہے اگر پھر بھی کوئی بہن یا بھائی بات کو نہیں سمجھ سکے تو یقیناً میرے سمجھانے میں غلطی ہے نہ کہ اس اصول میں جو کہ عیسوی تاریخ کا حساب بھی ہے کہ جیسے جیسے جہاں جہاں سورج پہنچتا جاتا ہے وہاں وہاں تاریخ تبدیل ہوتی جائے گی۔
میرے حبیب!

میں نے آپ کو مولانا عبد الرحمٰن کیلانی﷫ کی کتاب الشمس والقمر بحسبان پڑھنے کا مشورہ دیا تھا، اور اس کے کچھ صفحات مخصوص بھی آپ کو بتائیے تھے جو حالیہ مسئلے سے متعلق تھے، لیکن میرے خیال میں آپ نے اس کتاب کو نہیں دیکھا۔ میں دوبارہ زور دوں گا کہ میرے کہنے پر ہی کچھ وقت نکال کر ایک چوتھا اور پانچواں باپ خاص طور پر صفحات 60 تا 70 ضرور پڑھ لیں۔

چلیں آپ کی دی ہوئی مثال ہی ڈسکس کر لیتے ہیں۔ اگر 29 رمضان المبارک کا روزہ رکھنے کے بعد مکہ مکرمہ میں کچھ تاخیر سے چاند دیکھ لیا جاتا ہے۔ اگر رات 10 بجے تک پوری دنیا میں اعلان کر دیا جائے تو اس وقت سان فرانسسکو اور لاس اینجلز وغیرہ میں 12 (دوپہر)، نیو یارک میں 3 (سہ پہر) بجے ہوں گے، جبکہ جاپان میں 4 (اگلی صبح) اور آسٹریلیا میں 5 (اگلی صبح) بجے ہوں گے۔ گویا جاپان، آسٹریلیا اور مکہ کے مسلمان 29 روزے پورے کر چکے ہوں گے، جبکہ سان فرانسسکو، لاس اینجلز اور نیو یارک والوں کے اٹھائیس روزے ہوئے ہوں گے اور انتیسواں روزہ جاری ہے۔
اب آپ ہی بتائیے کہ ’وحدتِ اُمت‘ کیلئے آپ کیا اجتہاد فرمائیں گے؟؟!!
اگر وہی چاند پوری دنیا کیلئے رؤیت قرار دے دیا جائے تو گویا فرمانِ نبویﷺ « صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته » ... صحيح بخارى ومسلم کے تحت سان فرانسسکو، لاس اینجلز اور نیو یارک والوں کو فوری روزہ توڑنا ہوگا۔ اب ان کے روزے تو 28 ہوئے ہیں، باقی مکہ، جاپان اور آسٹریلیا میں 29 ہو چکے ہیں۔ اب کیا امریکہ والے روزہ توڑ کر فوری عید کریں (اگر عید کریں تو اتحاد نہ ہوا کیونکہ مکہ، چاپان اور آسٹریلیا میں تو اگلے دن ہوگی) یا ویسے ہی روزہ توڑ دیں اور اگلے دن عید کریں اس صورت میں امریکہ والوں کے 28 روزے ہوں گے اور مکہ، جاپان اور آسٹریلیا والوں کے 29 (عید میں تو نام کا اتّحاد ہوگیا، روزوں میں ٹوٹ گیا) حالانکہ ہر ایک کو کم از کم 29 روزے پورا کرنا ضروری ہے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے: [LINK=http://www.dorar.net/enc/hadith?skeys=%D8%A7%D9%84%D8%B4%D9%87%D8%B1+%D8%AA%D8%B3%D8%B9+%D9%88%D8%B9%D8%B4%D8%B1%D9%88%D9%86+%D9%81%D8%A5%D9%86+%D8%BA%D9%85&xclude=&degree_cat0=1]« الشهر تسع وعشرون ليلة، فلا تصوموا حتى تروه، فإن غم عليكم فأكملوا العدة ثلاثين »[/LINK] ... صحیح البخاری: 1907 کہ ’’مہینہ انتیس دنوں کا ہوتا ہے، جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو، پس اگر چاند تم پر مخفی رہ جائے (بادلوں وغیرہ کی وجہ سے) تو تیس کی گنتی مکمل کرو۔‘‘

نام کا اتحاد اس لئے کہا کہ کیونکہ کچھ دنیا عید منا رہی ہوگی اور کچھ سو رہی ہوگی ...

کیا آپ ایسا ہی ’’اتحاد‘‘ (جو کتنی ہی شرعی نصوص کے مخالف ہے) چاہتے ہیں؟؟!!

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی حق بات کی طرف رہنمائی فرمائے ۔آمین یارب العالمین
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
چلیں آپ کی دی ہوئی مثال ہی ڈسکس کر لیتے ہیں۔ اگر 29 رمضان المبارک کا روزہ رکھنے کے بعد مکہ مکرمہ میں کچھ تاخیر سے چاند دیکھ لیا جاتا ہے۔ اگر رات 10 بجے تک پوری دنیا میں اعلان کر دیا جائے تو اس وقت سان فرانسسکو اور لاس اینجلز وغیرہ میں 12 (دوپہر)، نیو یارک میں 3 (سہ پہر) بجے ہوں گے، جبکہ جاپان میں 4 (اگلی صبح) اور آسٹریلیا میں 5 (اگلی صبح) بجے ہوں گے۔ گویا جاپان، آسٹریلیا اور مکہ کے مسلمان 29 روزے پورے کر چکے ہوں گے، جبکہ سان فرانسسکو، لاس اینجلز اور نیو یارک والوں کے اٹھائیس روزے ہوئے ہوں گے اور انتیسواں روزہ جاری ہے۔
اب آپ ہی بتائیے کہ ’وحدتِ اُمت‘ کیلئے آپ کیا اجتہاد فرمائیں گے؟؟!!
اگر وہی چاند پوری دنیا کیلئے رؤیت قرار دے دیا جائے تو گویا فرمانِ نبویﷺ « صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته » ... صحيح بخارى ومسلم کے تحت سان فرانسسکو، لاس اینجلز اور نیو یارک والوں کو فوری روزہ توڑنا ہوگا۔ اب ان کے روزے تو 28 ہوئے ہیں، باقی مکہ، جاپان اور آسٹریلیا میں 29 ہو چکے ہیں۔ اب کیا امریکہ والے روزہ توڑ کر فوری عید کریں (اگر عید کریں تو اتحاد نہ ہوا کیونکہ مکہ، چاپان اور آسٹریلیا میں تو اگلے دن ہوگی) یا ویسے ہی روزہ توڑ دیں اور اگلے دن عید کریں اس صورت میں امریکہ والوں کے 28 روزے ہوں گے اور مکہ، جاپان اور آسٹریلیا والوں کے 29 (عید میں تو نام کا اتّحاد ہوگیا، روزوں میں ٹوٹ گیا) حالانکہ ہر ایک کو کم از کم 29 روزے پورا کرنا ضروری ہے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے: « الشهر تسع وعشرون ليلة، فلا تصوموا حتى تروه، فإن غم عليكم فأكملوا العدة ثلاثين » ... صحیح البخاری: 1907 کہ ’’مہینہ انتیس دنوں کا ہوتا ہے، جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو، پس اگر چاند تم پر مخفی رہ جائے (بادلوں وغیرہ کی وجہ سے) تو تیس کی گنتی مکمل کرو۔‘‘

نام کا اتحاد اس لئے کہا کہ کیونکہ کچھ دنیا عید منا رہی ہوگی اور کچھ سو رہی ہوگی ...

کیا آپ ایسا ہی ’’اتحاد‘‘ (جو کتنی ہی شرعی نصوص کے مخالف ہے) چاہتے ہیں؟؟!!
ماشاء اللہ بہت آسان فہم مثال میں مسئلہ سلجھا دیا ہے۔
 
Top