بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
محترم بھائی سب سے پہلے معذرت کہ دیر سے جواب دے پارہا ہوں اس کی وجہ کچھ تو وقت کی کمی ہے اور کچھ وجہ ہے زیادہ فورمز پر جوابات لکھنا، میں کوشش کرتا ہوں کہ اہلِ بدعت کو جلد جواب دے سکا کروں کیونکہ اُن لوگوں کو اگر دیر سے جواب دیا جائے تو کہتے ہیں کہ دیکھا ہم سے اُس کو بھگا دیا ہے اور جبکہ ان کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا جس سے بھاگا جائے، مگر یہاں کا معاملہ اُن سے بہتر ہے ہم اور آپ دین صرف اللہ اور رسولﷺ کی بات کو ہی سمجھتے ہیں الحمدللہ۔
بھائی انس نضر بھائی آپ نے لکھا ہے کہ
محترم اور عزیز بھائی!
’اجتماعی مواقع‘ میں آپ نے سب سے زیادہ اور سب سے اہم موقع یعنی آذان ونماز کا ذکر نہیں کیا۔
وحدت صرف حرام مہینوں کے آغاز واختتام، عیدین اور حج کی تاریخوں (یعنی وہ عبادات جن کا تعلق مہینوں کے ساتھ ہے) کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ دیگر ان عبادات میں بھی مطلوب ہے جن کا تعلّق گھنٹوں اور دنوں کے ساتھ ہے اور جن کی ادائیگی بکثرت ہوتی ہے۔ یہ وحدت ایک علاقے یا قریبی علاقوں میں تو ہو سکتی ہے، لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ یہ وحدت مشرق ومغرب کے علاقوں میں ہونی چاہئے تو یہ بات ممکن نہیں۔ آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ مثلاً لاہور میں نمازوں کا وقت ایک ہی ہونا چاہئے لیکن یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ لاہور، مکہ مکرمہ، لندن اور نیو یارک میں تمام نمازیں بالکل ایک ہی وقت میں پڑھی جائیں؟
تو بھائی جان اذان و نماز کا تعلق چاند کے ساتھ نہیں ہے بلکہ سورج کی حرکات کے ساتھ ہے اس لیئے پاکستان کے رہنے والے اپنے معیاری وقت پر نماز پڑھیں گے ناکہ سعودیہ کے معیاری وقت کے مطابق، نماز کی ادائیگی سورج کے ساتھ ہوتی ہے نہ کہ چاند کے ساتھ اس کی دلیل
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےنماز کے اوقات کے بارے میں پوچھا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فجر کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ
سورج کا اوپر کا کنارہ نہ نکلے اور ظہر کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے کہ جب تک کہ عصر کا وقت نہ آئے اور عصر کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ
سورج زرد نہ ہوجائے اور اس کے اوپر کا کنارہ غروب نہ ہو جائے اور مغرب کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ
شفق غائب نہ ہو جائے اور عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک رہتا ہے۔
صحیح مسلم:جلد اول:باب:پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ظہر کی نماز کا وقت
سورج ڈھلنے کے بعد ہوتا ہے اور اس وقت تک رہتا ہے کہ آدمی کا سایہ اسکی لمبائی کے برابر ہو جائے جب تک عصر کا وقت نہ آئے اور عصر کا وقت اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ
سورج زرد نہ ہو اور مغرب کی نماز کا وقت
شفق غائب ہونے تک رہتا ہے اور عشاء کی نماز کا وقت بالکل آدھی رات تک رہتا ہے اور صبح کی نماز کا وقت صبح صادق سے
سورج نکلنے تک رہتا ہے پھر جب سورج نکلنے لگے تو کچھ دیر کے لئے نماز سے رک جائے کیونکہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔
صحیح مسلم:جلد اول:باب:پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں
ان احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ نماز کا وقت سورج کی حرکات کے ساتھ ہے نہ کہ چاند کے ساتھ۔ اس لیے ہر علاقے کے رہنے والے اپنے علاقے میں سورج کی حرکات کے مطابق نماز ادا کریں گے۔ سب کو معلوم ہے کہ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور مشرق میں جو ملک جاپان یا انڈونیشیاء وغیرہ ہیں وہاں سے یہ سلسلہ شروع ہوگا جیسے ہی وہاں سورج کی شفق نظر آجائے نماز فجر کا وقت شروع ہوجائے گا اسی طرح جہاں جہاں سورج پہنچتا جائے گا وہاں کے مسلمان حدیث کے مطابق سورج کی پوزیشن کے حساب سے نماز ادا کرتے جائیں گے۔
اس تبصرہ کے بعد آپ نے لکھا ہے کہ
اسی طرح ایک علاقے یا قریب کے علاقوں کے لوگ اکٹھے عید منائیں گے لیکن مشرق ومغرب کے علاقوں کے لوگ اپنی اپنی عید اپنی اپنی رؤیت (اپنے مطلع) کے مطابق منائیں گے۔
بھائی جان اگر یہی اصول لیا جائے تو پھر گلگت کے نزدیکی علاقے چین اور افغانستان بھی تو ہیں پشاور کے نزدیکی علاقہ افغانستان بھی تو ہے اور کوئٹہ کے نزدیکی علاقے افغانستان و ایران بھی تو ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ ان علاقوں میں بھی کراچی کی گواہی تو قبول کی جاتی ہے حالانکہ کراچی کی بنسبت گلگت اور پشاور سے افغانستان بہت ہی زیادہ نزدیک ہے مگر افغانستان اور ایران کی گواہی رَد کردی جاتی ہے؟؟؟
اصل میں ان ملکی سرحدوں کی وجہ سے ہم آپس میں متفرق ہوچکے ہیں جوکہ دین اور مسلمانوں کے لیئے انتہائی خطرناک بات ہے کہ جی ہم نے گواہی پاکستان کی حدود کے اندر کی ماننی ہے!!! حالانکہ پاکستان کی حدود ایک مطلع کی حیثیت بھی نہیں رکھتی ہے مگر اس ملکی تقسیم نے ہماری اجتماعیت کو ہی تقسیم در تقسیم کردیا ہوا ہے اور ہم سب یہ بات جانتے بھی ہیں کہ اسلام میں تفرقہ پیدا کرنا انتہائی بُرا عمل ہے جس کو اللہ اور رسولﷺ نے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے، میں اس ملکی تقسیم کو نہیں مانتا کہ تم سعودی ہو، تم ہندوستانی ہو، تم افغانی ہو، تم ایرانی ہو ارے بھائیو اس ملکی تقسیم کے فتنے سے باہر نکلو کفار تو یہی چاہتے ہیں کہ ہم تقسیم در تقسیم ہوتے رہیں، میں سمجھتا ہوں کہ رؤیت ہلال کے سلسلے میں بھی ہم اسی ملکی تقسیم کی وجہ سے فتنے کا شکار ہیں ورنہ دلائل سے یہی بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ رؤیت ہلال کی گواہی مل جانے پر صیام اور عیدین کی جائیں وہ گواہی چاہے کہیں سے بھی ملے ہاں گواہی دینے والا مسلم ہو۔
آپ مزید لکھتے ہیں کہ
جب یہ بات طے ہے کہ دور کے علاقوں میں رات ودن کے آنے جانے اور سورج وچاند کے طلوع وغروب ہونے کے اوقات مختلف ہیں مثلاً ہمارے ہاں مشرق میں اگلا دن نکل آتا ہے لیکن مغرب میں ابھی رات ہوتی ہے، ابھی وہاں دن ہوتا ہے تو ہمارے ہاں اگلی رات شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ یہی معاملہ سورج وچاند کے اوقات کا بھی ہے تو دور دراز کے علاقوں کو کسی ایک علاقے کے دن ورات اور سورج وچاند کے اوقات کا پابند کیسے بنایا جا سکتا ہے؟؟!!
ہمارے ہاں پاکستان میں طلوعِ فجر ہونے پر کیا امریکہ کے مسلمانوں کو پچھلے دن کی شام میں ہی صرف نام نہاد وحدت کے نام پر نمازِ فجر پڑھنے کو کہا جائے گا؟؟!!
بھائی جان اب معاملہ آگیا ہے چاند کا تو سب سے پہلے ہمیں جاننا ہوگا کہ چاند کس مقصد کے لیے ہے تو آیئے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی اس بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں
يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ ۭ قُلْ ھِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۭ
یہ آپ سے ہلال (نئے چاند) کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہیے کہ یہ انسانوں کے لئے تاریخیں مقرر کرنے کے لئے ہے اور حج (کی تاریخ مقرر کرنے )کے لئے بھی۔
البقرہ۔ ۱۸۹
آفتاب ہمیشہ ایک صورت ایک حالت پر رہتا ہے اور چاند کی صورت بدلتی اور اس کی مقدار بڑھتی رہتی ہے اس لئے لوگوں نے چاند کے کم زیادہ ہونے کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی پہلی آیات::۱۸۷۔۱۸۸:: میں ماہ رمضان اور روزہ کا ذکر تھا اس آیت میں ہلال کا ذکر ہے اور روزہ اور رویت ہلال میں تعلق ظاہر ہے کہ ایک دوسرے پر موقوف ہے،آیت ِبالا سے واضح ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہلال (نئے چاند)کو انسانوں کے لئے تاریخیں مقرر کرنے کا ذریعہ بنایا ہے اور اور حج (کی تاریخ مقرر کرنے)کا بھی ذریعہ بنایاہے،
اس کے اور بھی مقاصد تھے کہ قرض وغیرہ کے وعدوں کی میعاد معلوم ہو جاتی ہے، عورتوں کی عدت کا وقت معلوم ہوتا ہے، حج کا وقت معلوم ہوتا ہے، مسلمانوں کے روزے کے افطار کا تعلق بھی اسی سے ہے، مسند عبدالرزاق میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی نے چاند کو لوگوں کے وقت معلوم کرنے کے لئے بنایا ہے اسے دیکھ کر روزے رکھو اسے دیکھ کر عید مناؤ اگر ابر وباراں کی وجہ سے چاند نہ دیکھ سکو تو تیس دن پورے گن لیا کرو، اس روایت کو حضرت امام حاکم نے صحیح کہا ہے۔
اس وضاحت کے بعد یہ تو معلوم ہوگیا کہ اسلام میں چاند کا گھٹنا بڑھنا تاریخوں کے مقرر کرنے کا ذریعہ ہے۔
اب سعودیہ کے ساتھ ایک تایخ پر اختلاف کیا جاتا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا، جبکہ یہ بات طے ہے کہ آسمان پر ایک ہی چاند ہے نہ کہ دو۲ ، اب جبکہ ایک ہی چاند ہے تو دو یا تین تاریخیں کیوں بنائی جاتی ہیں؟؟؟اور جبکہ سورج بھی ایک ہی ہے مگر سورج والی تاریخ میں ہم بھی اختلاف نہیں کرتے کہ جی یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ اور جاپان کی ایک ہی تاریخ ہو؟کیا کبھی کسی نے یاسا اختلاف سُنا یا کیا ہے؟یقیناً نہیں کیا ہوگا تو چاند کی تاریخ کے معاملے میں ایسا اختلاف کیوں واقع ہوگیا ہے؟؟؟
دیکھیں بھائی جان کہ اگر سعودیہ میں چاند نظر آجاتا ہے اور اس کی گواہی ہم کو مل جاتی ہے تو کیا چیز مانع ہے اس کو قبول کرنے میں؟؟؟
جبکہ پاکستان اور سعودیہ کے وقت کا فرق صرف ۲ گھنٹے ہے، اگر سعودیہ میں چاند نظر آتا ہے شام سات۷ بجے تو اس وقت پاک میں رات کے صرف ۹ بجے ہیں اور مشرق کی طرف زیادہ سے زیادہ وقت کا جو فرق ہے سعودیہ کے ساتھ وہ ہے جاپان، تو جاپان میں رات کا ایک ۱ بجا ہوگا اوراور انڈونیشیاء میں رات کے باراں ۱۲ بجے ہونگے اور وہ بھی صبح سعودیہ کے ساتھ عید یا روزہ رکھ سکیں گے اور جیسے جیسے سورج آگے کی طرف سفر جاری رکھے گا تو اس کے ساتھ ساتھ ہر علاقے والے اس دن کو عید یا روزہ رکھیں گے ۔
اب بات آتی ہے مغرب کی طرف جو ممالک ہیں وہاں کا معاملہ تو یہ معاملہ پہلے سے آسان ہے وہ اس لیے جیسے جیسے چاند مغرب کی طرف جاتا جائے گا اس کا حجم بڑھتا جائے گا اور امید ہے کہ اگر وہ سعودیہ میں نظر آگیا تھا تو وہاں کے رہنے والوں کو اور زیادہ آسانی سے نظر آسکے گا، اور اگر وہاں نظر نہیں آتا اور ان لوگوں کو چاند نظر آنے کی گواہی مل گئی ہے تو اب دیکھیں گے جو سب سے دور ملک ہے اس کا حساب کیا ہے، امریکہ کا سعودی عرب سے وقت کا فرق سب سے زیادہ ہے یعنی جب مکہ میں شام کے سات۷ بجے ہونگے تو نیویارک میں اسی دن کے ۱۲ بجے ہونگے یعنی وہ ابھی اسی دن میں ہیں، جس دن کے آخر میں سعودیہ میں چاند نظر آیا تھا تو جیسے ہی وہاں بھی شام ہوگی تو وہاں بھی اسی تناسب کے حساب سے رمضان کی پہلی رات آجائے گی بلکہ وہاں آرام سے چاند نظر آ جائے گا کیونکہ پھر چاند کی عمر زیادہ ہوچکی ہوگی اور اس کا حجم بھی اسی حساب سے زیادہ ہوچکا ہوگاجس کی وجہ سے اُسے آسانی سے دیکھا جاسکے گا۔ اگر وہاں کسی وجہ سے نہیں نظر آتا اور گواہی مل جاتی ہے تو اسلام میں گواہی پر بھی عمل کیا جاتا ہے جیسا کہ ہر ملک میں ہوتا ہے کہ کسی ایک کو چاند نظر آتا ہے اور وہ گواہی دیتا ہے تو اُس ملک میں صیام، یا عید مقرر کردی جاتی ہے مگر بھائیو اسلام ان سرحد بندیوں سے بہت آگے ہے یہ سرحد بندیاں اتحاد مسلم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، اور بعض کا کہنا یہ ہے کہ دن کے باراں ۱۲ کیسےروزہ رکھیں گے میرا ان سے سوال ہے تو کیا سعودیہ والے شام سات۷ بجے ہی روزہ رکھ لیتے ہیں؟؟؟
یقیناً نہیں ، بلکہ وہ اس رات کے بعد جو سحری ہوتی ہے اس وقت روزہ رکھتے ہیں تو اسی طرح جب نیویارک میں بھی اس رات کے بعد سحری آئے گی تو وہاں کے رہنے والے بھی روزہ رکھیں گے تو اس طرح ساری دنیا کے مسلمان ایک ہی دن میں روزہ رکھے ہوئے ہوں گے یعنی پوری دنیا کے مسلمانوں کی ایک ہی تاریخ ہوگی جیسا کہ سورج کے معاملے میں ہوتی ہے، معاملہ اس وقت خراب ہوتا ہے جب بات سمجھ میں نہ آتی ہو اور لوگ سمجھیں کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ مکہ کے ساتھ پوری دنیا کے مسلمان روزہ رکھیں گے جبکہ اس وقت جب مکہ میں سحری کا وقت ہوگا تو پاکستان، ہندوستان، بنگلادیش، انڈونیشیا وغیرہ میں تو سحری کا وقت ہی گزر چکا ہوگا تو وہ کیسے مکہ کے ساتھ روزہ رکھ سکیں گے؟؟؟
اگر اس بات کو ایسا سمجھا جائے گا تو واقعی ایسا ممکن نہیں ہے، مگر بھائیو اس طرح نہیں ہے بلکہ جیسا میں نے اوپر تفصیل سے سمجھایا ہے ویسا ہے اگر پھر بھی کوئی بہن یا بھائی بات کو نہیں سمجھ سکے تو یقیناً میرے سمجھانے میں غلطی ہے نہ کہ اس اصول میں جو کہ عیسوی تاریخ کا حساب بھی ہے کہ جیسے جیسے جہاں جہاں سورج پہنچتا جاتا ہے وہاں وہاں تاریخ تبدیل ہوتی جائے گی۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی حق بات کی طرف رہنمائی فرمائے ۔
آمین یارب العالمین