السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ
@اسحاق سلفی صاحب!
آجکل ایک جملہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے منسوب بہت چل رہا ہے کیا یہ ان سے ثابت ہے؟
"ہمارے بعد ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ حق پر کون تھا."
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
سبحان اللہ ۔۔۔۔
کیا موضوع چھیڑا آپ نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ ’’ البدایہ و النہایہ ‘‘ میں امام اہل سنت احمد بن حنبل کے حالات میں لکھتے ہیں :
وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: سَمِعْتُ أَبَا سَهْلِ بْنَ زِيَادٍ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَحْمَدَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: قولوا لأهل البدع بيننا وبينكم الجنائز حين تمر.
وقد صدق الله قول أحمد في هذا، فإنه كَانَ إِمَامَ السُّنَّةِ فِي زَمَانِهِ، وَعُيُونُ مُخَالِفِيهِ أحمد بن أبي دؤاد وهو قاضي قضاة الدنيا لم يحتفل أحد بموته، ولم يتلفت إليه.
ولما مات ما شيعه إلا قليل من أعوان السلطان.
وَكَذَلِكَ الْحَارِثُ بْنُ أَسَدٍ الْمُحَاسِبِيُّ مَعَ زُهْدِهِ وَوَرَعِهِ وَتَنْقِيرِهِ وَمُحَاسَبَتِهِ نَفْسَهُ فِي خِطْرَاتِهِ وَحَرَكَاتِهِ، لَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ من الناس.
وكذلك بشر بن غياث المريسي لم يصل عليه إلا طائفة يسيرة جِدًّا، فَلِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ.
کہ امام الدارقطنی نے امام عبد اللہ بن احمد ؒ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ :
میرے والد گرامی فرمایا کرتے تھے ،اہل بدعت سے کہہ دو کہ ہمارے جنازے جب نکلیں گے تو وہی ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ کریں گے ۔‘‘
(یعنی تم سمجھتے ہو کہ ہمیں اہل اسلام کی حمایت اور ساتھ حاصل نہیں ،یا اللہ کی طرف سے قبولیت کا شرف حاصل نہیں تو )
امام ابن کثیر فرماتے ہیں :اللہ تعالی نے امام احمد ؒ کا یہ قول سچ کر دکھایا ۔کیونکہ وہ اپنے دور میں اہل سنت کے امام تھے ۔
اور انکے چوٹی کے مخالف ’’ احمد بن ابی داود ‘‘
جو چیف جسٹس بھی تھا ،اس کو جب موت آئی تو کسی نے ادھر توجہ نہ دی ۔اور اس کے جنازے کے ساتھ چند سرکاری عہدیداروں کے سوا کوئی نہ تھا ۔
اور مشہور صوفی حارث بن اسد المحاسبی باوجود اس کے کہ بڑے زاہد ، پار سا ،اور اپنے نفس کا شدید محاسبہ کرنے والے تھے ،ان کے جنازے پر بھی تین چار افراد ہی آئے ۔
اسی طرح بشر بن غیاث المریسی (جو مشہور حنفی فقیہ ابو یوسف کا شاگرد اور جہمیہ کا نمائندہ داعی تھا ) جب فوت ہوا تو محض چند افراد ہی اس کے جنازے پر حاضر تھے۔
(البداية والنهاية۔ج ۔۱۰۔۔ص ۳۷۵ )