• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہمارے بعد ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ حق پر کون تھا

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!

آجکل ایک جملہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے منسوب بہت چل رہا ہے کیا یہ ان سے ثابت ہے؟
"ہمارے بعد ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ حق پر کون تھا."
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,590
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!

آجکل ایک جملہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے منسوب بہت چل رہا ہے کیا یہ ان سے ثابت ہے؟
"ہمارے بعد ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ حق پر کون تھا."
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
سبحان اللہ ۔۔۔۔
کیا موضوع چھیڑا آپ نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ ’’ البدایہ و النہایہ ‘‘ میں امام اہل سنت احمد بن حنبل کے حالات میں لکھتے ہیں :
وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: سَمِعْتُ أَبَا سَهْلِ بْنَ زِيَادٍ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَحْمَدَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: قولوا لأهل البدع بيننا وبينكم الجنائز حين تمر.
وقد صدق الله قول أحمد في هذا، فإنه كَانَ إِمَامَ السُّنَّةِ فِي زَمَانِهِ، وَعُيُونُ مُخَالِفِيهِ أحمد بن أبي دؤاد وهو قاضي قضاة الدنيا لم يحتفل أحد بموته، ولم يتلفت إليه.
ولما مات ما شيعه إلا قليل من أعوان السلطان.
وَكَذَلِكَ الْحَارِثُ بْنُ أَسَدٍ الْمُحَاسِبِيُّ مَعَ زُهْدِهِ وَوَرَعِهِ وَتَنْقِيرِهِ وَمُحَاسَبَتِهِ نَفْسَهُ فِي خِطْرَاتِهِ وَحَرَكَاتِهِ، لَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ من الناس.
وكذلك بشر بن غياث المريسي لم يصل عليه إلا طائفة يسيرة جِدًّا، فَلِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ.

کہ امام الدارقطنی نے امام عبد اللہ بن احمد ؒ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ :
میرے والد گرامی فرمایا کرتے تھے ،اہل بدعت سے کہہ دو کہ ہمارے جنازے جب نکلیں گے تو وہی ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ کریں گے ۔‘‘
(یعنی تم سمجھتے ہو کہ ہمیں اہل اسلام کی حمایت اور ساتھ حاصل نہیں ،یا اللہ کی طرف سے قبولیت کا شرف حاصل نہیں تو )
امام ابن کثیر فرماتے ہیں :اللہ تعالی نے امام احمد ؒ کا یہ قول سچ کر دکھایا ۔کیونکہ وہ اپنے دور میں اہل سنت کے امام تھے ۔
اور انکے چوٹی کے مخالف ’’ احمد بن ابی داود ‘‘
جو چیف جسٹس بھی تھا ،اس کو جب موت آئی تو کسی نے ادھر توجہ نہ دی ۔اور اس کے جنازے کے ساتھ چند سرکاری عہدیداروں کے سوا کوئی نہ تھا ۔
اور مشہور صوفی حارث بن اسد المحاسبی باوجود اس کے کہ بڑے زاہد ، پار سا ،اور اپنے نفس کا شدید محاسبہ کرنے والے تھے ،ان کے جنازے پر بھی تین چار افراد ہی آئے ۔
اسی طرح بشر بن غیاث المریسی (جو مشہور حنفی فقیہ ابو یوسف کا شاگرد اور جہمیہ کا نمائندہ داعی تھا ) جب فوت ہوا تو محض چند افراد ہی اس کے جنازے پر حاضر تھے۔
(البداية والنهاية۔ج ۔۱۰۔۔ص ۳۷۵ )
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اسی طرح بشر بن غیاث المریسی (جو مشہور حنفی فقیہ ابو یوسف کا شاگرد اور جہمیہ کا نمائندہ داعی تھا ) جب فوت ہوا تو محض چند افراد ہی اس کے جنازے پر حاضر تھے۔
(البداية والنهاية۔ج ۔۱۰۔۔ص ۳۷۵ )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامادعثمان غنی ذو النورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جنازہ اور دفن کے معاملہ میں بھی کچھ ارشاد فرما دیں جنازوں کی کثرت اور قلت پر آخرت کے فیصلوں کا یقین رکھنے والے۔
 
شمولیت
اگست 13، 2011
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
172
پوائنٹ
82
السلام علیکم
یہ کوئی شرعی دلیل نہیں ہے - بلکہ یہ امام صاحب کے گویا کراماتی الفاظ تھے جن کو اللہ تبارک و تعالی نے پورا کر دکھایا۔ ان من عباد اللہ لو اقسم علی اللہ لابرہ کی قبیل سے کہا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,590
پوائنٹ
791
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامادعثمان غنی ذو النورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جنازہ اور دفن کے معاملہ میں بھی کچھ ارشاد فرما دیں جنازوں کی کثرت اور قلت پر آخرت کے فیصلوں کا یقین رکھنے والے۔
آپ کو نہ سوال کرنے کا ڈھنگ ہے ،اور نہ ہی اعتراض کا سلیقہ ۔۔۔
کہاں بشر بن غیاث المریسی جہمی بدعتی ۔۔اور ۔۔کہاں امام صحابہ ،امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جو یقینی جنتی ہیں ، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ۔فرشتے بھی جن سے حیاء کریں ؛
سیدنا عثمان ؓ کو تو دنیا میں انکی زندگی میں امام الانبیاء کی جانب سے جنت کا سرٹیفکیٹ مل چکا تھا ،اور پھر وہ شہادت کے عظیم رتبے پر بھی فائز ہوئے ،
اور ان کا جنازہ ایک یقینی جنتی سیدنا الامام الزبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے پڑھایا ،اور جنازہ پڑھنے والوں میں جناب علی رضی اللہ عنہ جیسی ہستی بھی تھی ،
اس لئے ان کے جنازے میں شرکاء کی تعداد کوئی اہمیت نہیں رکھتی ،

ان کے جنتی ہونے کی کئی احادیث صحیحہ سے صرف دو حدیثیں پیش خؒدمت ہیں :(یہ دونوں صحیح بخاری میں ہیں )
عن ابي موسى رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل حائطا وامرني بحفظ باب الحائط ، فجاء رجل يستاذن فقال:‏‏‏‏ " ائذن له وبشره بالجنة " ، فإذا ابو بكر ثم جاء آخر يستاذن فقال:‏‏‏‏ " ائذن له وبشره بالجنة " ، فإذا عمر ثم جاء آخر يستاذن فسكت هنيهة ثم قال:‏‏‏‏ " ائذن له وبشره بالجنة على بلوى ستصيبه " ، فإذا عثمان بن عفان. قال حماد:‏‏‏‏ وحدثنا عاصم الاحول ، وعلي بن الحكم ، سمعا ابا عثمان يحدث عن ابي موسى بنحوه ، وزاد فيه عاصم " ان النبي صلى الله عليه وسلم كان قاعدا في مكان فيه ماء قد انكشف عن ركبتيه او ركبته فلما دخل عثمان غطاها ".


سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ (بئراریس) کے اندر تشریف لے گئے اور مجھ سے فرمایا کہ میں دروازہ پر پہرہ دیتا رہوں۔ پھر ایک صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنا دو، وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر دوسرے ایک اور صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری سنا دو، وہ عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر تیسرے ایک اور صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے پھر فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور (دنیا میں) ایک آزمائش سے گزرنے کے بعد جنت کی بشارت بھی سنا دو، وہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے۔ حماد بن سلمہ نے بیان کیا، ہم سے عاصم احول اور علی بن حکم نے بیان کیا، انہوں نے ابوعثمان سے سنا اور وہ ابوموسیٰ سے اسی طرح بیان کرتے تھے، لیکن عاصم نے اپنی اس روایت میں یہ زیادہ کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے جس کے اندر پانی تھا اور آپ اپنے دونوں گھٹنے یا ایک گھٹنہ کھولے ہوئے تھے لیکن جب عثمان رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو آپ نے اپنے گھٹنے کو چھپا لیا۔
ـــــــــــــــــــــــــ
عن قتادة ان انسا رضي الله عنه حدثهم قال:‏‏‏‏ صعد النبي صلى الله عليه وسلم احدا ومعه ابو بكر ، وعمر ، وعثمان فرجف وقال:‏‏‏‏"اسكن احد اظنه ضربه برجله فليس عليك إلا نبي وصديق وشهيدان".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب احد پہاڑ پر چڑھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے تو پہاڑ کانپنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا ”احد ٹھہر جا۔“ میرا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاؤں سے مارا بھی تھا کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں۔‘‘
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اس لئے ان کے جنازے میں شرکاء کی تعداد کوئی اہمیت نہیں رکھتی ،
دوسروں کے جنازوں میں شرکاء کی کثرت (یا قلت) کی اہمیت قرآن و حدیث سے بتا دیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
آجکل ایک جملہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے منسوب بہت چل رہا ہے کیا یہ ان سے ثابت ہے؟
"ہمارے بعد ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ حق پر کون تھا."
کہ امام الدارقطنی نے امام عبد اللہ بن احمد ؒ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ :
میرے والد گرامی فرمایا کرتے تھے ،اہل بدعت سے کہہ دو کہ ہمارے جنازے جب نکلیں گے تو وہی ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ کریں گے ۔‘‘
(یعنی تم سمجھتے ہو کہ ہمیں اہل اسلام کی حمایت اور ساتھ حاصل نہیں ،یا اللہ کی طرف سے قبولیت کا شرف حاصل نہیں تو )
جنازے میں شرکاء کی تعداد کی کثرت یا قلت سے اہل اسلام کی حمایت کا فیصلہ تو شاید ممکن بھی ہو، حق پر ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا تو ممکن نہیں معلوم ہوتا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,590
پوائنٹ
791
جنازے میں شرکاء کی تعداد کی کثرت یا قلت سے اہل اسلام کی حمایت کا فیصلہ تو شاید ممکن بھی ہو، حق پر ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا تو ممکن نہیں معلوم ہوتا۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
آپ نے بالکل بجا فرمایا ۔۔۔۔۔
جنازہ کے حاضرین کی قلت و کثرت حق پر ہونے ،یا نہ ہونے کی ہر وقت بنیاد نہیں بن سکتا ۔
ہمارے دور میں بڑے نامی گرامی فساق و ظالمین کے جنازے بہت بڑے بڑے ہمارے مشاہدے میں ہیں ۔
لیکن امام احمد رحمہ اللہ کے کہنے کا ایک خاص پس منظر ہے ،
حکومت وقت اور بالادست طبقات ایک خاص عقیدہ میں راہ حق چھوڑ چکے تھے ،اور بالجبر دوسرے علماء کو اس کا قائل بنانا چاہتے تھے ،
اور ساتھ ہی اس غلط فہمی میں مبتلا بھی تھے کہ : ’’ الناس علی دین ملوکھم ‘‘ یعنی اکثریت سرکاری موقف کے ساتھ ہے ۔
حالانکہ اکثریت کی خاموشی محض حالات کے جبر کے تحت تھی ،اور اس خاموشی کو وہ اہل حق کے باطل ہونے کی دلیل سمجھ بیٹھے تھے ۔
اور امام احمد ؒ کو اس عقیدہ میں شاذ موقف و رائے والا باور کروانے کی غلطی میں مبتلا تھے ۔
تو اس خاص صورت میں جناب امام احمد ؒ کامذکورہ قول وارد ہے ،
اسی لئے ان کے الفاظ ہیں :
(قولوا لأهل البدع بيننا وبينكم الجنائز حين تمر) ’’ اہل بدعت سے کہہ دو کہ ہمارے جنازے جب نکلیں گے تو وہی ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ کریں گے ۔‘‘
یعنی یہاں اہل بدعت اور اس شخصیت کے موازنہ میں بات ہورہی ہے جس کی ساری زندگی سنت مصطفی ﷺ
کے فروغ واشاعت اور دفاع میں گزری ،
 
Last edited:
Top