• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم نماز میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں !!!

شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
جب تک آپ صحیح سند سے ثابت نہیں کر دیتے اس وقت تک اس کو جھوٹ ہی سمجھا جائے گا
رہی بات علامہ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کی تو یہ ایک محقق کی اپنی بات ہے اور ضروری نہیں ہے صحیح ہی ہو دوسرے محققین اس کو ضعیف کہتے ہیں خود شعیب الارنؤوط رحمہ اللہ نے اس کو ضعیف کہا ہے کسی کی تحقیق میں چوک ہونے کی وجہ سے اس کو جھوٹ منسوب کرنے والا کہہ کر اس کی تحقیق پر پانی پھیر دینا آپ کا کام ہے ہمارا نہیں.
یاد رہے یہ روایت مرفوع ہے اور اس عمل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل کہا گیا ہے۔
جھوٹ ہے تو اس کے دائرہ اثر کہاں تک ہوگا؟
جتنے محققین اس کو ضعیف کہتے ہیں وہ سب کیا اس کے ہمعصر اور اسی علاقہ کے باسی تھے یا ایک دوسرے پر اعتماد کرکے ضعیف کہتے ہیں؟
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
أن کی صحت اگر آپ ثابت کر دیں تو علامہ البانی رحمہ اللہ کی تطبيق ہمیں قابل قبول ہے، ہم حدیثوں کو تیرے اور میرے میں تقسیم نہیں کرتے سمجھے آپ؟
اگر کوئی محدث یا محقق کسی حدیث کو روایتاً ضعیف کہے اور متناً صحیح تو اس سے کیا بات سمجھ آئی؟
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
لیجیے جناب اہلحدیث حضرات ان جگہوں پر رفع یدین نہیں کرتے ہیں
صحيح البخاري:
وَلاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يَسْجُدُ، وَلاَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ
سنن النسائي: كِتَاب التَّطْبِيقِ بَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ لِلسُّجُودِ
أخبرنا محمد بن المثنى قال حدثنا معاذ بن هشام قال حدثني أبي عن قتادة عن نصر بن عاصم عن مالك بن الحويرث أن نبي الله صلى الله عليه وسلم كان إذا دخل في الصلاة فذكر نحوه وزاد فيه وإذا ركع فعل مثل ذلك وإذا رفع رأسه من الركوع فعل مثل ذلك وإذا رفع رأسه من السجود فعل مثل ذلك .
[حكم الألباني : صحيح]
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ جب نماز شروع فرماتے۔ پھر اسی (سابقہ حدیث) کی طرح بیان کیا۔ اس میں اتنا زیادہ کیا، اور جب رکوع کرتے، تب بھی ایسے ہی کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے، پھر بھی ایسے ہی کرتے اور جب سجدوں سے سر اٹھاتے، تب بھی ایسے ہی کرتے۔

یہ دو حدیثیں متعارض ہیں ان سے کیا سمجھا جائے؟
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
مذکورہ روایت پر کیا یہ جرح منطبق ہوتی ہے؟
جرح ہم نے نقل کر دی ہے آپ ثابت کر دیں کہ جرح اس حدیث پر منطبق نہیں ہوتی ہم آپ کی بات مان لیں گے
یاد رہے یہ روایت مرفوع ہے اور اس عمل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل کہا گیا ہے۔
جھوٹ ہے تو اس کے دائرہ اثر کہاں تک ہوگا؟
جتنے محققین اس کو ضعیف کہتے ہیں وہ سب کیا اس کے ہمعصر اور اسی علاقہ کے باسی تھے یا ایک دوسرے پر اعتماد کرکے ضعیف کہتے ہیں؟
لگتا ہے آپ کو اصول حدیث کی الف با تا.. سے بھی واقفیت نہیں ہے، جناب کسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دینے ہی سے حدیث مرفوع کہلاتی ہے چاہے وہ محض جھوٹ ہی کیوں نا ہو، جیسے حنفیوں نے امام شافعی رحمہ اللہ کی توہین میں حدیث گڑھ لی کہ" میری امت میں ایک آدمی ہوگا جس کا نام محمد بن ادریس ہوگا اس کا فتنہ ابلیس کے فتنہ سے بھی زیادہ نقصان دہ ہوگا " بہر حال اصول حدیث کا مطالعہ تعصب کو بالائے طاق رکھ کر کریں آپ کے بہت سارے سوالات حل ہو جائیں گے ان شاء اللہ
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90

مگر مجھے وہ حدیث کہیں نظر نہیں آئی جس میں اہلحدیث کہلانے والوں کی رفع الیدین کے علاوہ کی نفی یا ترک یا ممانعت پائی جاتی ہو۔
یہ آپ کی عبارت ہے خاص طور پر ملون کلمہ کو ذہن نشین کر لیں اور بتائیں آپ کی پیش کردہ ان احادیث

صحيح البخاري:
وَلاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يَسْجُدُ، وَلاَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ
صحيح مسلم:
وَلَا يَفْعَلُهُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ
صحيح مسلم:
وَلَا يَفْعَلُهُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ
میں مذکورہ مقامات پر رفع یدین کی نفی ہے یا نہیں؟
محترم! خبر اور ممانعت یا ترک کے فرق کو سمجھتے ہو کہ نہیں؟
خبر اور ممانعت یا ترک کے فرق کو اگر سمجھتے ہو تو مجھے بھی سمجھا دو؟
اس کے بعد بھی اگر فرق سمجھ نا آئے تو کسی حنفی ادارے میں جا کر شاگردی اختیار کرو پھر بھی سمجھ نا آئے تو نفی اور خبر کی گردان کرو إن شاء الله افاقہ ہو گا
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
اگر کوئی محدث یا محقق کسی حدیث کو روایتاً ضعیف کہے اور متناً صحیح تو اس سے کیا بات سمجھ آئی؟
یہی بات سمجھ آئی کہ اگر اس کی بات واقع کے مطابق ہے تو صحیح اور اگر واقع کے مطابق نہیں تو اس کی خطأ، لیکن محترم آپ بات کا بتنگڑ کیوں بنا رہے ہیں ہم نے آپ سے مطالبہ کیا تھا کہ آپ کی پیش کردہ آحادیث سے کس معتبر حنفی عالم نے رفع یدین میں تبدیلی پر استدلال کیا ہے مع حوالہ بتائیں؟ اس کا جواب تو دیا نہیں محض ادھر ادھر کی ہوائی فائرنگ کرنے میں لگے ہوئے ہیں؟
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
صحيح البخاري:
وَلاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يَسْجُدُ، وَلاَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ
سنن النسائي: كِتَاب التَّطْبِيقِ بَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ لِلسُّجُودِ
أخبرنا محمد بن المثنى قال حدثنا معاذ بن هشام قال حدثني أبي عن قتادة عن نصر بن عاصم عن مالك بن الحويرث أن نبي الله صلى الله عليه وسلم كان إذا دخل في الصلاة فذكر نحوه وزاد فيه وإذا ركع فعل مثل ذلك وإذا رفع رأسه من الركوع فعل مثل ذلك وإذا رفع رأسه من السجود فعل مثل ذلك .
[حكم الألباني : صحيح]
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ جب نماز شروع فرماتے۔ پھر اسی (سابقہ حدیث) کی طرح بیان کیا۔ اس میں اتنا زیادہ کیا، اور جب رکوع کرتے، تب بھی ایسے ہی کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے، پھر بھی ایسے ہی کرتے اور جب سجدوں سے سر اٹھاتے، تب بھی ایسے ہی کرتے۔

یہ دو حدیثیں متعارض ہیں ان سے کیا سمجھا جائے؟
اس کی تطبيق اس سے پہلے بیان کی جا چکی ہے یہ دیکھئے
أن کی صحت اگر آپ ثابت کر دیں تو علامہ البانی رحمہ اللہ کی تطبيق ہمیں قابل قبول ہے، ہم حدیثوں کو تیرے اور میرے میں تقسیم نہیں کرتے سمجھے آپ؟
کیا علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق ان احادیث سے متعلق آپ کو قابل قبول ہے؟ اگر نہیں تو اس کو پیش کرنے کا فائدہ؟ اگر قبول ہے تو ان کی پیش کردہ تطبيق شجر ممنوعہ کیوں؟
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
المجروحين لابن حبان میں اس راوی کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ثقہ راویوں کی طرف منسوب کرکے موضوع روایات بیان کرتا تھا
مذکورہ روایت پر کیا یہ جرح منطبق ہوتی ہے؟
مذکورہ روایت اس کا اپنا عمل ہے جس کی وضاحت اس نے اپنے ہم عصر سے چاہی اور اس کو دوسرے راویوں نے بیان کیا۔
ثقہ راوی سے منسوب وال شق یہاں کیسے لاگو ہوگی؟

یاد رہے یہ روایت مرفوع ہے اور اس عمل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل کہا گیا ہے۔
جھوٹ ہے تو اس کے دائرہ اثر کہاں تک ہوگا؟
اس کا جواب بھی عنایت فرما دیا جائے۔

جتنے محققین اس کو ضعیف کہتے ہیں وہ سب کیا اس کے ہمعصر اور اسی علاقہ کے باسی تھے یا ایک دوسرے پر اعتماد کرکے ضعیف کہتے ہیں؟
اس کا جواب بھی ؟
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
لگتا ہے آپ کو اصول حدیث کی الف با تا.. سے بھی واقفیت نہیں ہے، جناب کسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دینے ہی سے حدیث مرفوع کہلاتی ہے چاہے وہ محض جھوٹ ہی کیوں نا ہو، جیسے حنفیوں نے امام شافعی رحمہ اللہ کی توہین میں حدیث گڑھ لی کہ" میری امت میں ایک آدمی ہوگا جس کا نام محمد بن ادریس ہوگا اس کا فتنہ ابلیس کے فتنہ سے بھی زیادہ نقصان دہ ہوگا " بہر حال اصول حدیث کا مطالعہ تعصب کو بالائے طاق رکھ کر کریں آپ کے بہت سارے سوالات حل ہو جائیں گے ان شاء اللہ
لگتا ہے جناب کے ہاں امام شافعی کی طرف جھوٹ کی نسبت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ کی نسبت میں کوئی فرق نہیں؟
قارئین سے التماس ہے کہ ملون فقرہ کو بغور پڑھیں اور سمجھیں۔
 
Top