احادیث کو تو آپ لوگ ضعیف کا ٹھپہ لگا کر ٹھکراتے ہو ۔
اگر کسی حدیث کو علت یا کسی قابل قبول بنیاد پر
ضعیف ٹہرانا آپ کے نزدیک برا کام ہے تو ہم سب سے بڑھ کر اس پر فخر کرتے ہیں
فقہاء احادیث کی تفہیم دیا کرتے ہیں۔
بالکل ۔۔ تفہیم کرتے ہیں اور روایات کو مجموعی طور پر بھی دیکھتے ہیں ناکہ ایک مجمل حدیث لے کر باقی تمام احادیث کو چھوڑتے ہیں جیسا کہ آپ نے ادھر کیا ہے:
جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ»
اس کی تفسیر ایک اور روایت میں آئی ہے کہ ادھر ہاتھ اٹھانے سے کیا مراد ہے ؟ وہ بھی آپ دیکھ چکے ہیں
اوپر مذکور احادیث کو اقوال کے بل بوتے پر ٹھکراؤ گے یا کہ سر تسلیم خم کرو گے؟
آپ کو اوپر اقوال جو بھیجے تھے وہ دعوی اجماع کے باطل ثابت ہونے کے تھے ناکہ مسئلہ ثابت کرنے کے لیے
آپ نے
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک مختلف فیہ حدیث سے استدلال کیا
جبکہ آپ کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی صاف اورصریح حدیث پیش گئی وہ آپ نے نہیں مانی آپ نے اگر نہیں ماننا تو آپ سے درخواست ہے کہ زیادہ بحثیں نہ کریں وقت بھی ضائع ہوگا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوگا ویسے بھی آپ مقلد ہیں اور مقلد کے لیے بحث مباحثہ کرنا جائز نہیں جیسا کہ اصول فقہ میں معروف ہے
اس سے اچھا ہے کہ آپ کوئی دعوت کا کام کریں فروعی مسائل میں بنا تعصب جو صحیح لگے اس پرعمل کریں اور لوگوں کو کتاب وسنت کے مطابق عمل کرنے دیں