محترم ہم احادیث پر یہ دیکھ کر عمل نہیں کرتے کہ کس نے ان پر عمل کیا ہے اور کس نے نہیں کیا؟ ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اگر آپ اس کو مضبوط دلائل سے ثابت کر دیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنابلہ ، شوافع والے رفع یدین اور رکوع سے اٹھتے وقت والے رفع یدین کو ترک کر دیا تھا تو ہم آپ کے ساتھ ہیں.نماز میں رکوع کو جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت کی رفع الیدین کے شوافع اور حنابلہ قائل ہیں۔
یہ دونوں تیسری رکعت کو اٹھتے وقت کی رفع الیدین کے قائل نا تھے۔
ان دونوں کا تعلق شام و یمن سے ہے جو مدینہ منورہ اور کوفہ (جسے عمر رضی اللہ تعالیٰ نے اپنے دور خلافت میں آباد کیا) سے بہت دوری پر ہیں۔
ان کے بارے کہا جاسکتا ہے کہ انہیں کوئی حدیث قابل اعتبار ذرائع کے ساتھ نا ملی ہو۔
مالکی اور حنفی دونوں نماز میں سوائے تکبیر تحریمہ کے رفع الیدین کے قائل نہیں ہیں۔
ان دونوں کا تعلق مدینہ منورہ اور کوفہ (جو کہ آخری خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دار الخلافہ تھا) سے ہے ۔
یہ دونوں شہر ایسے ہیں کہ جن کے بارے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں کوئی حدیث پہنچنے سے رہ گئی ہو۔
کیونکہ یہاں رہنے والے صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آخر دم تک رہے۔
دنیائے اسلام میں مقلدین احناف کا بولا ہوا بڑے جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ ہے آپ کا یہ قول! جس کی تردید خود مقلدین یہ کہہ کر اور بتاکر کرتے رہے ہیں کہ اہل حدیث کہہ لائے جانے والے حضرات ابن تیمیہ ابن قیم اور شوکانی رحمہم اللہ کے مقلد ہیں، حقیقت یہ ہے یہ مقلدین کے دلوں میں جما ہوا حقد و کینہ ہے عاملین حدیث کے خلاف جو وقتا فوقتاً ظاہر ہوتا رہتا ہے.
دنیائے اسلام میں انگریز دور سے پہلے ان چار (حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی) کے سوا کوئی اہلسنت مسلک نا تھا۔
یہ حنفیوں کا وہ اجماع ہے جو مقلدین کو عمل بالحديث سے روکنے کے لئے گھٹی کی طرح پلایا جاتا ہے اور ہر وہ اجماع جو نص کے مقابلے میں ہو مردود ہے، اگر آپ اجماع کی معتبر تعریف نقل فرما دیں تو ہم بھی ثابت کر دیں گے کہ یہ مقلدین کا اپنے گھر میں گھڑا ہوا اجماع ہے اور ظاہر سی بات ہے مقلدین کا اجماع نا حجت ہے اور نا دلیل.
ان چاروں کا متفقہ عمل تیسری رکعت کو اٹھتے وقت کی رفع الیدین نا کرنے کا ہے۔
یہ اجماع ہے۔
یا تو ثابت کیا جائے کہ یہ اجماع نہیں۔
یا اجماع کی مخالفت سے باز آجانا چاہیئے کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی وعید سنائی ہے۔
اللہ تعالیٰ ضد عناد سے بچائے اور آخرت کی فکر کے ساتھ صحیح راہ چلا دے۔ آمین برحمتک یا ارحم الراحمین
اس کو آپ کی جہالت کہا جائے یا عاملین حدیث کے خلاف بھرا ہوا دلوں کا کینہ و کپٹ؟ اس پوسٹ سے پہلے والی پوسٹ میں اہل حدیث کو آپ اشارۃ انگریزوں کے زمانہ کی پیداوار ثابت کرنے کی کوشش کر چکے ہو اور اس پوسٹ میں ضعیف کا ٹھپہ لگا کر ٹھکرانے کا الزام ہمارے اوپر لگا رہے ہو جبکہ ضعیف اور صحیح کا ٹھپہ تو خود مقلدین کے یہاں بھی چلتا ہے، یہ فقہاء کی تفہیم آپ ہی کو مبارک ہو جس سے قرآن و حدیث کی بجائے فقہاء کی بالا دستی ثابت ہو رہی ہو، اس میں بھلا کون سی تفہیم ہے کہ رکوع میں جاتے وقت اور اٹھتے وقت والا اور تیسری رکعت کے وقت والا رفع یدین تو سکون کے خلاف ٹھہرا اور تکبیر تحریمہ والا اور عیدین میں تکبیر زواید والا اور اپنے گھر میں گھڑا ہوا وتر والا رفع یدین عین سکون؟ محترم ہم ہر صحیح حدیث کو مانتے اور قابل عمل حدیث پر عمل کرتے ہیں، البتہ آپ اپنی پیش کردہ ان حدیثوں میں سے صرف اپنے مطلب والی کو مانتے اور اصول کرخی کی روشنی میں جو مطلب والی نہیں اس کو مطلب کے مطابق کرتے ہو.احادیث کو تو آپ لوگ ضعیف کا ٹھپہ لگا کر ٹھکراتے ہو ۔
فقہاء احادیث کی تفہیم دیا کرتے ہیں۔
کیا اس حدیث کو مانتے ہو؟
صحيح مسلم :
جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ»
اور اس کو بھی مانتے ہو؟
سنن الترمذي:
قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: «أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ».
وَفِي البَابِ عَنْ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ.
حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِينَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الكُوفَةِ
اوپر مذکور احادیث کو اقوال کے بل بوتے پر ٹھکراؤ گے یا کہ سر تسلیم خم کرو گے؟
یہ تو محدثین کی کمال دیانت اور ان کے فقہ کی دلیل ہے کہ اگر کوئی حدیث مختلف اسناد سے وارد ہے اور اس کی ایک سند ضعیف ہے دوسری صحیح تو انہوں نے سند کے ضعیف ہونے کے باوجود دوسری صحیح سند سے آنے کی وجہ سے اس کے معنی کو صحیح بتایا، آپ کوئی ایسی حدیث بتائیں جس کا معنی محدثین کی نظر میں غلط ہو اور سند بھی ضعیف ہو اس کے بعد بھی محدثین نے اس کے معنی کو صحیح بتایا ہو؟محدثین ہی ضعیف حدیث کے متن کو صحیح بتلاتے ہیں۔
انہیں اس حدیث کو ٹھکرانے کے لئے ضعیف کا جواز نا سوجھا۔
مجمل حدیث کو لے کر مفصل مفسر احادیث کو چھوڑنے والا وہی طبقہ ہے جو خود کو اہلحدیث کہلاتا ہے۔
مثال کے طور پر یہی تیسری رکعت کو کھڑے ہوتے وقت کی رفع الیدین والی حدیث ہے۔
اس میں چند جگہوں کا اثبات ہے نفی کسی جگہ کی نہیں لہٰذا مجمل ہوئی۔
مفسر وہ احادیث ہیں جو نفی اثبات پر مشتمل ہیں جنہیں آپ لوگ ٹھکراتے ہو۔
دنیا میں چار مذاہب نے رواج پایا۔
اس کے علاوہ اگر کسی کا مذہب تھا تو وہ دنیا مین کہیں بھی رواج نا پاسکا۔
آپ شاذ مذاہب بیان کرکے اس عمل کو اپنائے ہوئے ہیں جسے بالکلیہ چاروں اہلسنت نے چھوڑ دیا۔
انگریز دور سے پہلے آپ کے مذکورہ شاذ مذاہب دنیا میں کہاں مروج تھے؟ اس کی نشاندہی ضرور کیجئے گا۔ غلط بیانی اور جھوٹ سے پرہیز کیجئے گا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ نماز میں سکون اختیار کرو تو تم لوگوں کو رکوع و تیسری رکعت کی تفصیل کیوں درکار ہے؟س میں بھلا کون سی تفہیم ہے کہ رکوع میں جاتے وقت اور اٹھتے وقت والا اور تیسری رکعت کے وقت والا رفع یدین تو سکون کے خلاف ٹھہرا اور تکبیر تحریمہ والا اور عیدین میں تکبیر زواید والا اور اپنے گھر میں گھڑا ہوا وتر والا رفع یدین عین سکون؟
آپ کے علم کا اندازہ اس عبارت سے ہورہا ہے ۔اس مجروح راوی کے ضعف کا اثر کس حدیث میں ہے کس مین نہیں یہ فقہاء بتاتے ہیں اور انہی کی وضاحت معتبر ہوتی ہے۔
کونسا قاعدہ میرا خود ساختہ ہے؟یا تو آپ خود ساختہ قواعد بنا کر اگلے کو زچ کرنا چاہ رہے ہیں یا پھر آپ کو پتہ ہی نہیں اور بلا علم گفتگو فرمارہے ہیں۔
احادیث کا انکار کرنا اور اس کی دور از کار تاویلیں کرنا امام کرخی کا سکھایا ہوا گر ہے جس کو آپ جیسے مقلد بخوبی ادا کر رہے ہیں اب آپ کی پیش کی گئی ان دونوں حدیثوں کو ہی دیکھ لو حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کی وضاحت آپ کو ترمذی میں تو نظر آ گئی لیکن مسلم شریف میں نظر نہیں آئی جو اسی حدیث کے فوراً بعد انہیں جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،جس سے آپ کی دور از کار تاویلات کی پول کھل رہی ہے، مندرجہ ذیل حدیث کو تقلید اعمی کا چشمہ اتار کر حب سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبے سے پڑھو گے تو کچھ فائدے کی امید ہے جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ : صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكُنَّا إِذَا سَلَّمْنَا قُلْنَا : بِأَيْدِينَا السَّلَامُ عَلَيْكُمُ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَنَظَرَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : " مَا شَأْنُكُمْ تُشِيرُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ إِذَا سَلَّمَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَلْتَفِتْ إِلَى صَاحِبِهِ، وَلَا يُومِئْ بِيَدِهِ ".کچھ احادیث سے انکار کے لئے دور ازکار تأویلات کرتے ہو کچھ کو ضعیف کہہ کر ٹھکراتے ہو۔
]
مقلدین احناف کے مطابق اگر رکوع اور تیسری رکعت والا رفع یدین بلا دلیل سکون کے منافی ہے تو تکبیر تحریمہ والا اور تکبیر زواید اور وتر والا کیوں نہیں؟ کیا یہ رفع الیدین نماز کے باہر ہیں؟جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیا کہ نماز میں سکون اختیار کرو تو تم لوگوں کو رکوع و تیسری رکعت کی تفصیل کیوں درکار ہے؟
کیا رکوع اور تیسری رکعت نماز میں نہیں؟
بڑے عجیب آدمی ہو یار! عیدین اور وتر کی نماز نہیں تھی تو کیا ہوا؟ نماز تو تھی نا؟ ابھی تو آپ ہمیں بڑے طمطراق کے ساتھ طعنہ دے رہے تھے کہ ہم حدیث کی تاویلات اور انکار کرتے ہیں آپ کا یہ عمل آپ کے قول کی سچی تعبیر ہے، لیکن ہم بھی آپ کو کیفرکردار تک ضرور پہنچائیں گے ان شاء اللہصحیح مسلم کی حدیث میں جس رفع الیدین سے منع کیا گیا وہ نا تو عیدین کی نماز تھی اور نا ہی وتر کی۔/H2]
سنن ترمذی کی روایت وضاحت کر رہی ہے اس کے باوجود آپ فاسد تاویلات میں مگن ہو کہ یہ عیدین کی نماز نہیں تھی وتر کی نماز نہیں؟ محترم جب تقلیدی تعصب کی پٹی آنکھوں پر پڑی ہو تو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ماؤف ہو جاتی ہے اور ہر مقلد کا تقریباً یہی حال ہوتا إلا یہ کہ رب کی رحمت کا ساتھ ہو،سنن الترمذی کی روایت صحیح مسلم کی روایت کی وضاحت کر رہی ہے کہ نماز میں رفع الیدین نہیں کیا جائے گا۔
رہی یہ بات کہ کونسی رفع الیدین سکون کے خلاف ہے کونسی نہیں تو یہ پوری نصوص کی تفہیم سے حاصل ہوگا۔
نصوص کا مطالعہ کریں اور خود بھی سوچیں اور ہمیں بھی سمجھائیں۔
بناوٹی فقہاء کا یہ کام نہیں ہے جو آپ ارشاد فرما رہے ہیں وہ تو صرف اپنے مخالف نصوص کی دور از کار تاویلات ہی کرتے ہیں اور بس! اور ظاہر سی بات ہے کہ جس کے اندر اس قدر تعصب ہو اس کی وضاحت معتبر نہیں ہوتی ہے.محدثین نے تو کمال دیابنت سے کام لیتے ہوئے مجروح راوی کی نشاندہی کر دی۔
اس مجروح راوی کے ضعف کا اثر کس حدیث میں ہے کس مین نہیں یہ فقہاء بتاتے ہیں اور انہی کی وضاحت معتبر ہوتی ہے۔