• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم نماز میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں !!!

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
ایک عجیب و غریب ایکویشن :

محدثین نے کمال ایمانداری سے احادیث فقہاء تک پہچائیں۔
فقہاء نے بکمال دیانتداری و تقویٰ ان سے مسائل اخذ کیئے۔
علماء احادیث سے مستفید ہوئے عوام مسائل الفقہ سے ۔
اسے ایک مکمل فارمولا بنا دیا گیا ۔
اب ملاحظہ فرمائیں کہ فقہاء کون ؟

دنیا میں اہلسنت فقہاء کے لحاظ سے صرف چار اہلسنت طبقات (حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی) پائے جاتے ہیں۔
اب ذرا یہاں وضاحت دیکھیں :

اہلسنت صرف چار طبقات (حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی) کو کہا جاتا ہے۔
اے پلس بی بریکیٹ اسکوائر = اے اسکوائر + 2 اے بی + بی اسکوائر

یہ ھے "علم" ۔

اب ثبوت و دلائل پیش کئیے جائیں ۔

سوالات پر سوالات کرنا یا چکر پر چکر دینا کب تک؟ یا دعوی ہی واپس لے لیں !
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
پہلا جتن

امام نووی کی مانتے ہو مگر ابن مسعود رضی الللہ تعالیٰ عنہ کی نہیں مانتے۔[/ARB]
محترم! آپ حنفیت کے تعصب میں بے بصیرت ہو چکے ہیں اور حق و باطل کی تمیز کھو چکے ہیں، کبھی تو آپ مذاہب اربعہ کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں، جناب! یہ کیسا اہل سنت ہے (إمام نووی رحمہ اللہ) جو إبن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مخالفت کر رہا ہے؟ اب آپ یہ طے کریں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مخالفت کون کر رہا ہے آپ یا نووی رحمہ اللہ جو بقول آپ کے مذاہب اربعہ میں سے ہیں؟ اور رہی بات ہماری تو ہم إمام نووی کی نہیں بلکہ امام اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مانتے ہیں اور یہ آپ کا وہم ہے کہ ہم امام نووی کی مان رہے ہیں اور وہم کا کوئی علاج نہیں، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے متعلق بات اس سے پہلے بیان کردی گئی ہے کہ یہ روایت صحت و ضعف کے اعتبار سے مختلف فیہ ہے اس قابل نہیں کہ صحیح ترین روایات کا مقابلہ کر سکے؟ پھر اس میں بھی اس بات کا احتمال ہے کہ معوذتین اور تطبيق وغیرہا مسائل کی طرح إبن مسعود رضی اللہ عنہ اس موقع پر بھی بھول گئے ہوں؟ انسانی فطرت کے ناطے ایسا بعید بھی نہیں.
پہلے بتایا جاچکا کہ حدیث کا فہم محدثین کا معتبر نہیں فقہاء کا معتبر ہؤا کرتا ہے۔[//ARB]
اس بات کا فیصلہ کرنے کا حق عامی (مقلد) کو نہیں ہے، ائمہ اربعہ سے با سند ثابت کریں، اپنے دائرے میں رہ کر بات کریں تو بہتر ہے ایک عامی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ امام سے سبقت کرے!
دو واقعہ حدیث کے دو مختلف وقوع کے سبب کہا۔
ایک میں صحابہ کرام انفرادی نماز پڑھ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے۔
دوسری میں صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ انفرادی نماز پڑھتے ہوئے ہر کوئی مختلف حالت میں ہؤا کرتا ہے اس لئے اس میں کسی خاص مقام کی رفع الیدین کی نشاندہی نہیں کی گئی۔
باجماعت میں سب کا عمل ایک ہی ہؤا کرتا ہے اس لئے اس میں سلام کی تخصیص موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ماننے والا بنائے۔ آمین[/ARB]
تعصب نے ایک واقعہ کو دو بنا دیا، محترم بنا دلیل آپ کی لن ترانی کیوں مان لی جائے؟ کیا امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردان سے آپ زیادہ قابل ہیں کہ آپ کو وہ بات سوجھ رہی ہے جو ان کو نا سوجھی؟ اس روایت کو ان میں سے کس نے عدم رفع الیدین کی دلیل میں پیش کیا؟ اگر نہیں تو یہ من چاہا مطلب کیوں نکال رہے ہو؟ محترم حدیث میں ایک خاص رفع یدین سے منع کیا گیا ہے مطلق رفع سے نہیں اور وہ ہے كأنها اذناب خيل شمس اگر عند مواضع ثلاثہ اس رفع میں داخل ہے تو تکبیر تحریمہ کے وقت والا کیوں نہیں؟ جبکہ ان چاروں چگہوں پہ کئے جانے والے رفع یدین میں کوئی فرق نہیں؟
خرج علینا کا مطلب دخل علینا؛
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِذَا الناس رافعوا أيديهم في الصلاة، فَقَالَ: "مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أذناب خيل شمس اسكنوا في الصلاة"[/ARB]​


محترم یہ خرج علينا کا مطلب دخل علینا کس امام نے بیان کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آپ کو اہل رائے کی طرح حدیث کی فہم نہیں ہے، حدیث سمجھنے کے لئے تقلید امام نہیں إتباع رسول کی ضرورت ہے اور اس سے آپ کوسوں دور ہیں، آپ سے تو شاید امید نہیں لیکن احناف میں ایسے بھی لوگ پائے جاتے رہے ہیں جن کے نذدیک رفع أحب إلي بھی تھا اور آئندہ بھی ایسے کچھ لوگ ہو سکتے ہیں اس لئے حدیث کا مفہوم مختصراً بیان کیا جا رہا ہے غور سے سنئے، ابتداء میں صحابہ نماز میں سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دے دیا کرتے تھے بعد میں اس سے منع کر دیا گیا اسی درمیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی نماز سے جب فارغ ہوئے تو صحابہ فرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد نوافل میں مشغول ہو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر جانے کے لئے نکلے تو ان کو سلام کے وقت ہاتھ کے اشارے سے دائیں بائیں کرتے ہوئے دیکھا اور یہ وہی کیفیت ہے جو حرکت کے وقت سرکش گھوڑوں کی دموں کی ہوتی ہے (دائیں بائیں) جبکہ رفع یدین جو مشروع ہے وہ اوپر نیچے( کندھوں یا کان کی لوئے تک) ہوتا ہے، اسی کو حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کبھی مختصر اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اس کی تائید كأنها أذناب خيل شمس سے ہو رہی ہے یہ الفاظ ان تمام روایات میں موجود ہیں اور ان کی کیفیت وہ نہیں ہوتی جو نماز میں مشروع رفع الیدین کے وقت ہوتی ہے، اور اگر نماز والا واقعہ بقول آپ کے الگ ہے تو یہ بتایا جائے کہ نماز کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کے ہاتھ اٹھانے کی کیفیت کیسے معلوم ہو گئی؟ روایت میں تو ایسی کوئی وضاحت ہے نہیں کہ صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا ہو اور پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہوں اور نبی تو رفع یدین نا کریں لیکن صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہوئے رفع یدین کرتے جائیں؟ جبکہ انہیں اصحاب کا یہ بھی عمل منقول ہے کہ ایک نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتی اتارتے ہوئے دیکھا تو تمام نہیں اپنی جوتیاں اتار دیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا جوتیاں کیوں اتار دیں تو بڑی معصومیت سے فرمایا کہ ہم نے آپ کو جوتی اتارتے ہوئے دیکھا اس لئے ہم نے بھی اتار دیں، کیا یہ بات ماننے کے لائق ہے کہ یہی فرمانبردار صحابہ آپ کو رفع الیدین نا کرتے ہوئے دیکھیں پھر بھی اس سے باز نا آئیں؟
سلام کے وقت کے اشارہ کے لئے بھی یہی الفاظ استعمال کیئے گئے۔
کیا سلام کے وقت اشارہ اور رفع الیدین میں (سوائے ایک ہاتھ اور دو ہاتھ کے) کوئی فرق ہے؟
اگر آپ کے خیال میں فرق ہے تو براہِ کرم ایک وڈیو بنائیں جو ان دونوں کے فرق کو ظاہر کرے۔[/ARB]
سلام کے وقت کے اشارے کے لئے بھی نہیں بلکہ سلام کے وقت کے اشارے کے لئے ہی یہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں رکوع کے وقت یا تیسری رکعت والے رفع یدین کے لئے یہ الفاظ ذخیرہ حدیث میں کہیں نہیں ہیں اگر سچے ہو تو صراحت کے ساتھ پیش کرو؟ کیا یہ فرق کافی نہیں دونوں کے حکم کو الگ کرنے کے لئے؟ اس فرق کے علاوہ جو فرق ہے اس کی وضاحت اوپر ہو چکی ہے دہرانے کی ضرورت نہیں،
اس کے لئے عرض کیا تھا کہ نصوص کا مطالعہ کریں تو شائد بات سمجھ آجائے۔
میری خیال میں نزول قرآن سے نماز میں تبدیلیاں آئیں۔
ممکن ہے کہ آیت {إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي} [طه: 14] کے باعث نماز کی وہ تمام رفع الیدین ترک کی گئیں ہوں جن کے ساتھ مسنون ذکر نا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب
محترم! عالمانہ گفتگو فائدہ دیا کرتی ہے عامیانہ نہیں، ایک مقلد کا کوئی خیال نہیں ہوتا سمجھے آپ؟
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
کیا آپ ان مذکورہ نمازوں کے علاوہ (سنن و نوافل) کے لئے اس حدیث کے حکم کو مانتے ہو؟
جب آپ حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روگردانی کے لئے قیل قال سے کام لے رہے ہو تو ان مذکورہ کی دلیل دینے سے کیا فائدہ؟
یاد رہے کہ صحیح مسلم کی حدیث کی تشریح میں جو حدیث لکھی گئی وہ ان تمام کے لئے ہے۔
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
بات اصول کی ہے نا کہ مخصوص افراد کی۔
یقیناً بات اصول کی ہے، لیکن اصول پر آپ کی اجارہ داری نہیں کہ اپنے من سے جس کو چاہیں فقہاء بتائیں اور جس کو چاہیں خارج کر دیں، پھر دوسرے کے اصول کو اپنے اصولوں پر فٹ کر کے زمانہ میں ڈھنڈورا پیٹنا دیانت نہیں!
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
کیا آپ احناف کو حجت مانتے ہو؟
اگر ایسا ہے تو جھگڑا ہی ختم۔
اگر نہیں تو قرآنی حکم اور خود کے منہج سے روگردانی کا مقصد؟
اسے حجت ماننا نہیں کہتے بلکہ آئینہ دکھانا کہتے ہیں اگر آپ کو برا لگ رہا ہے تو اس آئینے کو توڑ دیجئے.
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
محدثین نے کمال ایمانداری سے احادیث فقہاء تک پہچائیں۔
فقہاء نے بکمال دیانتداری و تقویٰ ان سے مسائل اخذ کیئے۔
علماء احادیث سے مستفید ہوئے عوام مسائل الفقہ سے ۔
دل بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے!
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
دل بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اتنی معمولی اور ھلکی بات نہ سمجھیں ، ان کی باتیں علمیت سے بھر پور ہیں ۔
انکی تین سطری تحریر میں گہرائیاں ہیں ، 4 اوامر ہیں اور ان سطور کو باقاعدہ ایک فارمولا کے طور پیش کیا گیا ۔ یعنی تین سطری فارمولا میں بیان کی گئیں 4 باتیں باھم مضبوطی سے ملی ھوئی ہیں ، چاروں میں سے کسی ایک کو ڈراپ کردیں تو فارمولا ادھورا قرار پائیگا ۔ ظاھر سی بات ھیکہ فارمولا ہی اگر آدھا ادھورا ھو تو پھر کسی صحیح حل پر کیسے پہونچا جا سکتا ھے؟

جو میں نے سمجھا ھے وہ یہ ھیکہ اس فارمولے سے اہل حدیث کو اہلسنت سے خارج قرار دیا گیا ۔

اس لئے میں ان سے انکے 3 سطری فارمولے کے چاروں پوائنٹس پر ناقابل تردید دلائل و ثبوت ان سے مانگ رھا ھوں ۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام کو نماز میں رفع الیدین سے منع کرنا؛
صحيح مسلم:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ»

صحابہ کرام کا نماز میں رفع الیدین سے رک جانا؛
مصنف ابن أبي شيبة:
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا حَتَّى يَفْرُغَ»

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَلَا أُرِيكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ «فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً»

عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ عَلِيًّا، كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ لَا يَعُودُ» (روات کلھم ثقہ)

عَنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ إِلَّا حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ»

عَنِ الْأَسْوَدِ قَالَ: " رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ، ثُمَّ لَا يَعُودُ ".

قَالَ: وَرَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ، وَالشَّعْبِيَّ يَفْعَلَانِ ذَلِكَ

عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: «مَا رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَا يَفْتَتِحُ»



 
Top