اسے ایک مکمل فارمولا بنا دیا گیا ۔محدثین نے کمال ایمانداری سے احادیث فقہاء تک پہچائیں۔
فقہاء نے بکمال دیانتداری و تقویٰ ان سے مسائل اخذ کیئے۔
علماء احادیث سے مستفید ہوئے عوام مسائل الفقہ سے ۔
اب ذرا یہاں وضاحت دیکھیں :دنیا میں اہلسنت فقہاء کے لحاظ سے صرف چار اہلسنت طبقات (حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی) پائے جاتے ہیں۔
اے پلس بی بریکیٹ اسکوائر = اے اسکوائر + 2 اے بی + بی اسکوائراہلسنت صرف چار طبقات (حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی) کو کہا جاتا ہے۔
محترم! آپ حنفیت کے تعصب میں بے بصیرت ہو چکے ہیں اور حق و باطل کی تمیز کھو چکے ہیں، کبھی تو آپ مذاہب اربعہ کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں، جناب! یہ کیسا اہل سنت ہے (إمام نووی رحمہ اللہ) جو إبن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مخالفت کر رہا ہے؟ اب آپ یہ طے کریں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مخالفت کون کر رہا ہے آپ یا نووی رحمہ اللہ جو بقول آپ کے مذاہب اربعہ میں سے ہیں؟ اور رہی بات ہماری تو ہم إمام نووی کی نہیں بلکہ امام اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مانتے ہیں اور یہ آپ کا وہم ہے کہ ہم امام نووی کی مان رہے ہیں اور وہم کا کوئی علاج نہیں، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے متعلق بات اس سے پہلے بیان کردی گئی ہے کہ یہ روایت صحت و ضعف کے اعتبار سے مختلف فیہ ہے اس قابل نہیں کہ صحیح ترین روایات کا مقابلہ کر سکے؟ پھر اس میں بھی اس بات کا احتمال ہے کہ معوذتین اور تطبيق وغیرہا مسائل کی طرح إبن مسعود رضی اللہ عنہ اس موقع پر بھی بھول گئے ہوں؟ انسانی فطرت کے ناطے ایسا بعید بھی نہیں.پہلا جتن
امام نووی کی مانتے ہو مگر ابن مسعود رضی الللہ تعالیٰ عنہ کی نہیں مانتے۔[/ARB]
اس بات کا فیصلہ کرنے کا حق عامی (مقلد) کو نہیں ہے، ائمہ اربعہ سے با سند ثابت کریں، اپنے دائرے میں رہ کر بات کریں تو بہتر ہے ایک عامی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ امام سے سبقت کرے!پہلے بتایا جاچکا کہ حدیث کا فہم محدثین کا معتبر نہیں فقہاء کا معتبر ہؤا کرتا ہے۔[//ARB]
تعصب نے ایک واقعہ کو دو بنا دیا، محترم بنا دلیل آپ کی لن ترانی کیوں مان لی جائے؟ کیا امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردان سے آپ زیادہ قابل ہیں کہ آپ کو وہ بات سوجھ رہی ہے جو ان کو نا سوجھی؟ اس روایت کو ان میں سے کس نے عدم رفع الیدین کی دلیل میں پیش کیا؟ اگر نہیں تو یہ من چاہا مطلب کیوں نکال رہے ہو؟ محترم حدیث میں ایک خاص رفع یدین سے منع کیا گیا ہے مطلق رفع سے نہیں اور وہ ہے كأنها اذناب خيل شمس اگر عند مواضع ثلاثہ اس رفع میں داخل ہے تو تکبیر تحریمہ کے وقت والا کیوں نہیں؟ جبکہ ان چاروں چگہوں پہ کئے جانے والے رفع یدین میں کوئی فرق نہیں؟دو واقعہ حدیث کے دو مختلف وقوع کے سبب کہا۔
ایک میں صحابہ کرام انفرادی نماز پڑھ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے۔
دوسری میں صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ انفرادی نماز پڑھتے ہوئے ہر کوئی مختلف حالت میں ہؤا کرتا ہے اس لئے اس میں کسی خاص مقام کی رفع الیدین کی نشاندہی نہیں کی گئی۔
باجماعت میں سب کا عمل ایک ہی ہؤا کرتا ہے اس لئے اس میں سلام کی تخصیص موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ماننے والا بنائے۔ آمین[/ARB]
خرج علینا کا مطلب دخل علینا؛
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِذَا الناس رافعوا أيديهم في الصلاة، فَقَالَ: "مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أذناب خيل شمس اسكنوا في الصلاة"[/ARB]
سلام کے وقت کے اشارے کے لئے بھی نہیں بلکہ سلام کے وقت کے اشارے کے لئے ہی یہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں رکوع کے وقت یا تیسری رکعت والے رفع یدین کے لئے یہ الفاظ ذخیرہ حدیث میں کہیں نہیں ہیں اگر سچے ہو تو صراحت کے ساتھ پیش کرو؟ کیا یہ فرق کافی نہیں دونوں کے حکم کو الگ کرنے کے لئے؟ اس فرق کے علاوہ جو فرق ہے اس کی وضاحت اوپر ہو چکی ہے دہرانے کی ضرورت نہیں،سلام کے وقت کے اشارہ کے لئے بھی یہی الفاظ استعمال کیئے گئے۔
کیا سلام کے وقت اشارہ اور رفع الیدین میں (سوائے ایک ہاتھ اور دو ہاتھ کے) کوئی فرق ہے؟
اگر آپ کے خیال میں فرق ہے تو براہِ کرم ایک وڈیو بنائیں جو ان دونوں کے فرق کو ظاہر کرے۔[/ARB]
محترم! عالمانہ گفتگو فائدہ دیا کرتی ہے عامیانہ نہیں، ایک مقلد کا کوئی خیال نہیں ہوتا سمجھے آپ؟اس کے لئے عرض کیا تھا کہ نصوص کا مطالعہ کریں تو شائد بات سمجھ آجائے۔
میری خیال میں نزول قرآن سے نماز میں تبدیلیاں آئیں۔
ممکن ہے کہ آیت {إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي} [طه: 14] کے باعث نماز کی وہ تمام رفع الیدین ترک کی گئیں ہوں جن کے ساتھ مسنون ذکر نا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھکیا آپ ان مذکورہ نمازوں کے علاوہ (سنن و نوافل) کے لئے اس حدیث کے حکم کو مانتے ہو؟
جب آپ حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روگردانی کے لئے قیل قال سے کام لے رہے ہو تو ان مذکورہ کی دلیل دینے سے کیا فائدہ؟
یاد رہے کہ صحیح مسلم کی حدیث کی تشریح میں جو حدیث لکھی گئی وہ ان تمام کے لئے ہے۔
یقیناً بات اصول کی ہے، لیکن اصول پر آپ کی اجارہ داری نہیں کہ اپنے من سے جس کو چاہیں فقہاء بتائیں اور جس کو چاہیں خارج کر دیں، پھر دوسرے کے اصول کو اپنے اصولوں پر فٹ کر کے زمانہ میں ڈھنڈورا پیٹنا دیانت نہیں!بات اصول کی ہے نا کہ مخصوص افراد کی۔
اسے حجت ماننا نہیں کہتے بلکہ آئینہ دکھانا کہتے ہیں اگر آپ کو برا لگ رہا ہے تو اس آئینے کو توڑ دیجئے.کیا آپ احناف کو حجت مانتے ہو؟
اگر ایسا ہے تو جھگڑا ہی ختم۔
اگر نہیں تو قرآنی حکم اور خود کے منہج سے روگردانی کا مقصد؟
دل بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے!محدثین نے کمال ایمانداری سے احادیث فقہاء تک پہچائیں۔
فقہاء نے بکمال دیانتداری و تقویٰ ان سے مسائل اخذ کیئے۔
علماء احادیث سے مستفید ہوئے عوام مسائل الفقہ سے ۔
اتنی معمولی اور ھلکی بات نہ سمجھیں ، ان کی باتیں علمیت سے بھر پور ہیں ۔دل بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے