محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
جزاك الله خيرا واحسن الجزاء في الدنيا والآخرةس: آپ نے اپنی زندگی میں آنے والے افراد اور زندگی سے جڑے واقعات سے ایسا کیا سیکھا ؟؟؟ اس کا تذکرہ کریں تاکہ یہ سوچ، مشاہدات ،غور و فکر اور جستجو اللہ رب العزت کا قرب حاصل کرنے میں معاون ثابت ہو۔
ج: سوال جتنا آسان ہے، کاش کہ اس کا جواب بھی اتنا ہی آسان ہوتا۔زندگی میں آنے والے افراد اور زندگی سے جڑے واقعات اتنے زیادہ اور متنوع ہیں کہ نہ صرف ان سب کا بیان بھی مشکل ہے بلکہ ان میں سے کسی ایک دو کا انتخاب کرنا اور بھی مشکل ہے۔ جب سے یہ دھاگہ دیکھا ہے، تب سے یہی سوچ رہاہوں کہ کس فرد اور کس واقعہ کو لکھوں اور ابھی ابھی یہ خیال آیا کہ کیوں نہ ”تین عورتیں تین کہانیاں“ لکھ دوں۔ اس میں تین افراد بھی ہیں اور تین واقعہ بھی اور ایک نصیحت بھی۔
اللہ رب العزت کو انسان کا تکبر کرنا بہت زیادہ ناپسند ہے۔ ان تین عورتوں نے بھی تکبر کیا اور تینوں کو اللہ نے فوراً سزا سنا دی۔ ویسے تو تکبر کرنے میں مرد و زن دونوں ہی کسی سے کم نہین ہیں لیکن عموماً خواتین چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی تکبر کرتے ہوئے بڑی بڑی باتیں کرجاتی ہیں۔ یہ تینوں خواتین ہمارے خاندان کی ہیں۔ لہٰذا ان کے ذیل کے ”بیانات“ میں جو تکبر چھپا تھا، وہ مجھے بخوبی معلوم تھا اور ان کے ”نتائج“ آنے پر تو ان کی مزید تصدیق بھی ہوگئی۔ اللہ ہم سب کو تکبر سے بچائے۔ مختصراً واقعات یہ ہیں
- ایک خاتون کی بہو کے ہاں پہلی ڈیلیوری تھی۔ انہوں نے حکم دیا کہ پہلی ڈیلیوری ہمارے ہاں میکہ میں ہوتی ہے۔ بہو کے میکہ والے اسے اپنے گھر لے گئے اور اپنے خرچ پر ڈیلیوری کروادی۔ اب اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ ایک پاؤں مڑی ہوئی بچی کی پیدائش ہوئی۔ یہ دیکھ کر ساس صاحبہ نے تکبر سے کہا کہ اب ہم آئندہ کبھی بھی تمہا ری ڈیلیوری، تمہارے میکہ میں نہیں کروائیں گے۔ بہو کی دوسری ڈیلیوری سسرال میں ہوئی اور اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ اس مرتبہ دونوں پاؤں مڑی ہوئی بچی پیدا ہوئی
- ایک خاتون کی بیٹی کی شادی ہوئی۔ بچی کے سسرال میں کوئی تنازعہ ہوا۔ خاتون کو معلوم ہوا کہ بچی کی ساس کی کزن خاتون کو طلاق ہوچکی ہے (ویسے اس خاتون کی اپنی بہن کو بھی طلاق ہوچکی تھی)۔ لیکن اس تنازعہ کے موقع پر اس خاتون نے اپنی سمدھن کی کزن کے طلاق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑے تکبر سےکہا کہ ہم نے بھی اپنی بیٹی کس خاندان مین بیاہ دی ہے۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ ان کی ایک دوسری بیٹی کو طلاق ہوگئی جو آج تک ان کے ساتھ ہی موجود ہے۔
- ایک خاتون نے زبردستی اپنے شوہر سے خلع لے لیا۔ اور دونوں بچوں کو اپنے قبضہ میں کرلیا اور اپنے میکہ میں رہنے لگی۔ کبھی کسی محفل مین اس علیحدگی کا تذکرہ ہوا تو کسی نے ان سے ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ چلو کوئی بات نہیں۔ تمہارے پاس تمہاری اولاد تو ہے۔ خود خلع لینے والی خاتون نے بڑے تکبر سے کہا کہ اولاد کا کیا کرنا ہے۔ اب اللہ کا کرنا دیکھئے کہ بڑا بیٹا جب تعلیم ھاصل کرکے پہلے روزگار پے لگا تو پہلی ہی مہینے بس سے گر کر ہلاک ہوگیا۔ دوسری بیٹی تھی جو پڑھ لکھ کر پہلے استانی بنی پھر مزید پڑھ کر وکیل اور بعد ازاں جج بن گئی۔ اور شادی سے قبل ہی اس لرکی کو فالج ہوا۔ سالوں تک ماں اس کی دیکھ بھال کرتی رہی۔ اور ایک دن یہ بھی اللہ کے پاس چلی گئی۔
فاعتبروا یا اولی ابصار
یقین کریں، دل کر رہا ہے کہ ایک نہیں دس مرتبہ"زبردست" کا بٹن دباؤں۔۔۔ کیا زبردست پیغام دیا ہے۔ دل کی بات کہہ دی برادر آپ نے۔یہی غروروتکبر تو لوگوں کو کھائے جا رہا ہے۔ آج کل مختلف لوگوں کو مختلف چیزوں کا غرور ہے۔ سمجھنے کے لئے آپ کے شئیر کردہ واقعات بہت ہیں۔ہر حوالے سے تکبر سے بچنا چاہیے۔
یوسف بھائی! آپ نے غور کیا ہے دولت، شہرت اور دیگر چیزوں کے علاوہ لوگوں میں آج کل ایک اور چیز کا بھی تکبر ہے، اور وہ ہے "دنیاوی تعلیم" کا، آج کل کوئی ایم اے یا اس سے زیادہ ایجوکیشن حاصل کر لے تو وہ اپنے سے کم پڑھے لکھے کو حقیر سمجھتا ہے،الا ماشاءاللہ
ذرا اس پر بھی کوئی معلومات ہو تو روشنی ڈالیں۔ اس کی وجہ کیا ہے آخر؟