• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم نے اپنی زندگی سے کیا سیکھا؟؟؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اور سب سے بڑی اور اہم ترین وجہ ہے ۔ ۔ ۔ شادی (ابتسامہ) شادی کے بعد ہی علیحدگی کی نوبت آتی ہے۔ دیگر وجوہات میں ۔ ۔ ۔ ۔
(انتطار کیجئے اگلی قسط کا)
Next Episodeکی کچھ جھلکیاں بھی تو ہوتی ہیں۔۔ ابتسامہ
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
اے اللہ تو ہمیں بھی ہر قسم کے غرور و تکبر سے محفوظ فرما لے۔ آمین
ارسلان بھائی! مزید یہ کہ اس ‘‘تعلیم’’ کے بعد شادی کی جاتی ہے اور الا ماشاء اللہ چند ایک کے سوا زیادہ تر علیحدگی کی زندگی گزارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ الا من رحم ربی۔
بھائی اس میں قصور "تعلیم " کا نہیں۔تکبر کا ہے۔
جو تعلیم عزت اور اخلاق سے دور لے جائے ،اس کا واقعی ہی کوئی فائدہ نہیں۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
اور سب سے بڑی اور اہم ترین وجہ ہے ۔ ۔ ۔ شادی (ابتسامہ) شادی کے بعد ہی علیحدگی کی نوبت آتی ہے۔ دیگر وجوہات میں ۔ ۔ ۔ ۔
(انتطار کیجئے اگلی قسط کا)
  1. اگر آپ کسی پودے کو ایک کیاری سے کسی دوسری کیاری منتقل کردیں تو یہ پودا معمول کے مطابق نشو نما پاکر بآسانی مکمل درخت بن جائے گا۔ لیکن اگر آپ کسی درخت کو ایک جگہ سے اکھاڑ کر کسی دوسری جگہ زمین میں پیوست کردیں تو اس درخت کے سوکھنے کا امکان زیادہ ہے بہ نسبت اس کے کہ یہ دعخت اس دوسری جگہ بھی اسی طرح مضبوط درخت بن جائے۔ گو کہ اشارہ کافی ہے لیکن جو لوگ اشارہ سمجھنے سے قاصر ہیں وہ اتنا جان لیں کہ بلوغت کے بعد لڑکی جتنی جلدی اپنے سسرال منتقل ہوجائے گی، اس کے وہاں ”ایڈجسٹ ہونے“ کے امکانات اتنے ہی روشن ہوں گے، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ آج کل بڑے شہروں میں لڑکیوں کی شادی بہت تاخیر سے ہونے لگی ہے۔
  2. آج کل کی لڑکیاں عموماً دنیوی تعلیم تو حاصل کرلیتی ہیں۔ ڈاکٹر انجینئر بن جاتی ہیں۔ بی اے، ایم پاس کرلیتی ہیں۔ لیکن عائلی زندگی سے متعلق کوئی علم حاصل نہیں کرتیں۔ شادی سے قبل بچیوں کو لازماً مستقبل کی فیملی لائف سے متعلق بھی رسمی یا غیر رسمی تعلیم دلوانی چاہئے۔ ایسی کتابیں پڑھنے کو دی جانی چاہئے۔ شارٹ کورسز کروانے چاہئے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تنظیم بمبئی میں لڑکیوں کی شادی سے متعلق شارٹ کورسز کروارہی ہے۔ پاکستان مین بھی سماجی و دینی تنظیموں کو ایسے کورسز لڑکیوں کو بالخصوص اور لڑکوں کو بالعموم کروانے چاہئے۔ لڑکیوں کو بالخصوص اس لئے تاکہ یہ شادی کے بعد ایک نئے گھرانے میں بہت سارے نئے لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنے اور ان کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کا ”ہنر“ آ سکے۔ لڑکا تو شادی کے بعد بھی انہی ”پرانے“ لوگوں کے ساتھ اسی گھر مین رہتا ہے۔ بس یہان ایک نیا فرد آجاتا ہے۔
  3. عائلی زندگی سے متعلق قرآن و حدیث کے فرمودات سے بڑھ کر کوئی ہدایت نامہ نہیں ہوسکتا۔ مسلمان بچے بچیوں کو شادی سے ایک دو سال قبل قرآن و حدیث کے یہ حصے باب بار پڑھوانے چاہئے۔ اس کے علاوہ ماہرین طب و نفسیات نے نئے شادی شدہ جوڑوں کے لئے جو جدید تحقیقات پر مبنی تحریریں لکھی ہیں، ان سے بھی واقفیت آج کے عہد میں ضروری ہے۔
  4. لڑکی کو یہ بات خاص طور سے بتلانی چاہئے کہ بہن بیٹی کی حیثیت سے اس کا مقام کچھ اور تھا اور بیوی، بہو بن کر وہ ”کچھ اور“ ہوجاتی ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر اسے یہ شعر یاد رکھنا چاہئے کہ ۔۔۔ متادے اپنی ہستی کو، اگر کچھ مرتبہ چاہے + کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے۔۔۔ ازدواجی زندگی کہ اگر پندرہ سترہ سال اس شعر کی ہدایت کے مطابق زندگی گذار لے تو اس کے گل و گلزار بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ تب تک اس کی اولاد نوجوان ہوچکی ہوگی۔ اور وہ سب کی سب اپنی ماں کی اس طرح خدمت گزار بن جائے گی کہ جنت اس کے قدموں تلے ہوگی
  5. خواتین کی زندگی کے تین اہم اسٹیج ہوتے ہیں۔ ایک بحیثت بیٹی بہن کے۔ اس اسٹیج میں اس کے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں۔ ماں، باپ، بہن، بھائی سب اس کا خیال رکھتے ہیں۔ اس کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔ عورت کی زندگی دوسرا اور مشکل ترین مرحلہ شادی کے بعد کم و بیش پندرہ برسوں تک محیط ہوتا ہے۔ اس مرحلہ میں بحیثیت بیوی، بہو اور ماں، اسے تینون محاذوں پر دن رات کام کام اور صرف کام کرنا پڑتا ہے ۔ سب کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ تاکہ ایک طرف شوہر اور سسرال مین اپنی جگہ بنا سکے تو دوسری طرف اس کی اولاد کی تعلیم و تربیت اور نشو نما بہترین طریقہ سے ہوسکے۔ جب پہلی اولاد پندرہ برس کی ہوجاتی ہے اور اس کے پیچھے درجہ بدرجہ اولاد اتنی بڑی ہونے لگتی ہے تو پھر عورت کے آرام و سکون کے دن آجاتے ہیں۔ اپنی ہی پیدا کردہ اور پرورش کردہ اولاد اسے اپنے حصار مین لے لیتی ہے۔ معاشرے میں اس کا مقام اونچا ہوجاتا ہے جو تادم مرگ قائم رہتا ہے۔ اگر پچاس ساٹھ یا ستر سالہ زندگی کے وسط میں پندرہ سترہ سالہ سخت ترین دور کو دل سے قبول کرلے تو عورت کی ساری زندگی سہانی ہی سہانی ہے۔ اور آخرت مین جنت تو ہے ہی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کون کہتا ہے کہ خدا دکھائی نہیں دیتا​
وہی دکھائی دیتا ہے جب کچھ دکھائی نہیں دیتا​
میں نے اپنی زندگی سے یہی سیکھا ہے کہ ہر معاملے میں الله ہی حامی و مددگار ہے،​
ایک قصہ سناتا ہوں جس سے یہ ثابت ہوگا کہ اللہ پر یقین کرنے والے بندے ہر معاملے میں الله سے مدد کس طرح حاصل کرتے ہیں،​
ایک پرانا قصہ یوں ہے کہ ایک مالدار شخص اپنی بیوی کو لیکر بازار کی سیر پر نکلا، دونوں ہی کافی دولت مند تھے اور تکبر بھی دونوں میں خوب بھرا تھا، ایک دن کی بات ہے کہ جب یہ جوڑا بازار کی سیر کر رہا تھا اسی وقت ایک مفلس شخص جو وہیں سے گزر رہا تھا اس کی ٹکر انجانے میں اس امیر شخص کی بیوی سے ہو گئی، جس کی وجہ سے دونوں ہی گر پڑے ، اس پر بیوی نے پورے بازار کو اپنے سر پر اٹھا لیا اور کہنے لگی کہ اس شخص نے مجھے چھیڑا اور مجھ سے جان بوجھ کر ٹکر ماری، وہ بیچارہ شخص اپنی بے گناہی کا ثبوت دیتا رہا لیکن کوئی بھی اس کی بات سے متفق نہ ہوا، آخر اس عورت کے شوہر نے اپنی بیوی کی باتوں میں آ کر اس غریب شخص کی پٹائی شروع کر دی اور پٹائی کرنے کے بعد کہا یہ میری بیوی ہے اور میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں جو بھی میری بیوی کے ساتھ ایسا کرے گا میں اس کا یہی حال کروں گا، بیچارہ غریب شخص کیا کرتا ایک تو بازار میں رسوا ہو گیا تھا اور داغدار بھی ہو گیا تھا، اس نے فورا ہی تمام لوگوں کے بیچ کھڑا ہو کر الله سے دعا کی کہ "اے الله اگر میں قصور وار ہوں تو مجھے سزا دے اور اگر یہ شخص نے مجھے تکبر کی بنا پر پیٹا ہے تو اسے اس کا بدلہ دے" اتنا کہہ کر وہ مفلس بندہ اپنی دعا ختم کرتا ہے اور جیسے ہی تین چار قدم چلتا ہے کہ بیوی کی زور سے رونے کی آواز آتی ہے کہ "ہائے میرے شوہر کو کیا ہو گیا" ،،،، پتا چلتا ہے کہ اس شخص کی جان جا چکی تھی یعنی الله نے فورا ہی اس بندے کی دعا قبول کر لی اور اسے اس کا بدلہ دے دیا، یہ سب باتیں دیکھ وہاں موجود سبھی لوگوں نے اس غریب شخص کو دوبارہ پکڑا اور کہا کہ "تونے ایسی کیا بدّعا کر دی کہ یہ شخص ہلاک ہو گیا؟" اس غریب شخص نے بڑے ہی اچھے انداز میں جواب دیا کہ "یہ بندہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا اور اسی وجہ سے اسے غصہ آیا اور اس نے مجھے مارا پیٹا ،، اسی طرح میں نے اپنے رب سے بددعا نہیں کی صرف دعا کر کے فیصلہ کرنے کو کہا اور الله نے فیصلہ کر دیا،،، کیونکہ جس طرح یہ شخص اپنی بیوی سے محبت کرتا تھا اسی طرح الله مجھ سے اس سے بڑھ کر محبت کرتا ہے اسی لئے جب میرے الله کو غصہ آیا تو الله نے اس کی جان ہی لے لی"​
اس قصے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ الله کو اپنے ہر معاملے میں آگے کرنا چاہیے الله راضی ہے تو سب راضی ،،، سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
  1. اگر آپ کسی پودے کو ایک کیاری سے کسی دوسری کیاری منتقل کردیں تو یہ پودا معمول کے مطابق نشو نما پاکر بآسانی مکمل درخت بن جائے گا۔ لیکن اگر آپ کسی درخت کو ایک جگہ سے اکھاڑ کر کسی دوسری جگہ زمین میں پیوست کردیں تو اس درخت کے سوکھنے کا امکان زیادہ ہے بہ نسبت اس کے کہ یہ دعخت اس دوسری جگہ بھی اسی طرح مضبوط درخت بن جائے۔ گو کہ اشارہ کافی ہے لیکن جو لوگ اشارہ سمجھنے سے قاصر ہیں وہ اتنا جان لیں کہ بلوغت کے بعد لڑکی جتنی جلدی اپنے سسرال منتقل ہوجائے گی، اس کے وہاں ”ایڈجسٹ ہونے“ کے امکانات اتنے ہی روشن ہوں گے، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ آج کل بڑے شہروں میں لڑکیوں کی شادی بہت تاخیر سے ہونے لگی ہے۔
  2. آج کل کی لڑکیاں عموماً دنیوی تعلیم تو حاصل کرلیتی ہیں۔ ڈاکٹر انجینئر بن جاتی ہیں۔ بی اے، ایم پاس کرلیتی ہیں۔ لیکن عائلی زندگی سے متعلق کوئی علم حاصل نہیں کرتیں۔ شادی سے قبل بچیوں کو لازماً مستقبل کی فیملی لائف سے متعلق بھی رسمی یا غیر رسمی تعلیم دلوانی چاہئے۔ ایسی کتابیں پڑھنے کو دی جانی چاہئے۔ شارٹ کورسز کروانے چاہئے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تنظیم بمبئی میں لڑکیوں کی شادی سے متعلق شارٹ کورسز کروارہی ہے۔ پاکستان مین بھی سماجی و دینی تنظیموں کو ایسے کورسز لڑکیوں کو بالخصوص اور لڑکوں کو بالعموم کروانے چاہئے۔ لڑکیوں کو بالخصوص اس لئے تاکہ یہ شادی کے بعد ایک نئے گھرانے میں بہت سارے نئے لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنے اور ان کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کا ”ہنر“ آ سکے۔ لڑکا تو شادی کے بعد بھی انہی ”پرانے“ لوگوں کے ساتھ اسی گھر مین رہتا ہے۔ بس یہان ایک نیا فرد آجاتا ہے۔
  3. عائلی زندگی سے متعلق قرآن و حدیث کے فرمودات سے بڑھ کر کوئی ہدایت نامہ نہیں ہوسکتا۔ مسلمان بچے بچیوں کو شادی سے ایک دو سال قبل قرآن و حدیث کے یہ حصے باب بار پڑھوانے چاہئے۔ اس کے علاوہ ماہرین طب و نفسیات نے نئے شادی شدہ جوڑوں کے لئے جو جدید تحقیقات پر مبنی تحریریں لکھی ہیں، ان سے بھی واقفیت آج کے عہد میں ضروری ہے۔
  4. لڑکی کو یہ بات خاص طور سے بتلانی چاہئے کہ بہن بیٹی کی حیثیت سے اس کا مقام کچھ اور تھا اور بیوی، بہو بن کر وہ ”کچھ اور“ ہوجاتی ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر اسے یہ شعر یاد رکھنا چاہئے کہ ۔۔۔ متادے اپنی ہستی کو، اگر کچھ مرتبہ چاہے + کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے۔۔۔ ازدواجی زندگی کہ اگر پندرہ سترہ سال اس شعر کی ہدایت کے مطابق زندگی گذار لے تو اس کے گل و گلزار بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ تب تک اس کی اولاد نوجوان ہوچکی ہوگی۔ اور وہ سب کی سب اپنی ماں کی اس طرح خدمت گزار بن جائے گی کہ جنت اس کے قدموں تلے ہوگی
  5. خواتین کی زندگی کے تین اہم اسٹیج ہوتے ہیں۔ ایک بحیثت بیٹی بہن کے۔ اس اسٹیج میں اس کے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں۔ ماں، باپ، بہن، بھائی سب اس کا خیال رکھتے ہیں۔ اس کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔ عورت کی زندگی دوسرا اور مشکل ترین مرحلہ شادی کے بعد کم و بیش پندرہ برسوں تک محیط ہوتا ہے۔ اس مرحلہ میں بحیثیت بیوی، بہو اور ماں، اسے تینون محاذوں پر دن رات کام کام اور صرف کام کرنا پڑتا ہے ۔ سب کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ تاکہ ایک طرف شوہر اور سسرال مین اپنی جگہ بنا سکے تو دوسری طرف اس کی اولاد کی تعلیم و تربیت اور نشو نما بہترین طریقہ سے ہوسکے۔ جب پہلی اولاد پندرہ برس کی ہوجاتی ہے اور اس کے پیچھے درجہ بدرجہ اولاد اتنی بڑی ہونے لگتی ہے تو پھر عورت کے آرام و سکون کے دن آجاتے ہیں۔ اپنی ہی پیدا کردہ اور پرورش کردہ اولاد اسے اپنے حصار مین لے لیتی ہے۔ معاشرے میں اس کا مقام اونچا ہوجاتا ہے جو تادم مرگ قائم رہتا ہے۔ اگر پچاس ساٹھ یا ستر سالہ زندگی کے وسط میں پندرہ سترہ سالہ سخت ترین دور کو دل سے قبول کرلے تو عورت کی ساری زندگی سہانی ہی سہانی ہے۔ اور آخرت مین جنت تو ہے ہی۔
بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوسف بھائی ایک اور قسط بھی دیجیئے ، جس میں مرد حضرات کی شادی سے متعلق ذمہ داریوں کا تذکرہ ہو۔کیونکہ شادی دو لوگوں کی ہوتی ہے،صرف لڑکی کی نہیں۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
ہماری زندگی میں ریس بہت ہے،،اور محور کچھ بھی نہیں سوائے دولت اور شہرت کے۔اس مقصد کے لیے شارٹ کٹ ڈھونڈے جاتے ہیں۔حرام کام کے راستے کھولے جاتے ہیں۔اور
زندگی ہار دیتے ہیں اس ریس کو پوراکرنے میں۔کاش یہی ریس اسلام کو جیت لینے کے لیے ہو،اور محور اللہ کی رضا کا حصول ہو۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوسف بھائی ایک اور قسط بھی دیجیئے ، جس میں مرد حضرات کی شادی سے متعلق ذمہ داریوں کا تذکرہ ہو۔کیونکہ شادی دو لوگوں کی ہوتی ہے،صرف لڑکی کی نہیں۔
ہا ہا ۔ ۔ ۔ ہاہاہا ۔ ۔ ۔ زبردست کہا ۔ بہت خوب۔ آپ کی بات “اپنی جگہ” سو فیصد درست سہی۔ لیکن ۔ ۔

اگر ان دونوں فریقوں میں سے صرف ایک فریق بھی “سدھر” جائے تو بھی شادی کامیاب ہوجاتی ہے۔ اور اگر دونوں سدھر جائیں تو کیا کہنے۔ یہ تو سونے پر سہاگہ والی بات ہے۔ اگر کم از کم “سدھار” سے شادی کو کامیاب بنانا ہو تو “کم از کم ایک فریق” کا سدھر جانا بھی “کافی” ہوتا ہے۔ اور اگر کسی ایک فریق کو “سدھارنا” ہو تو “لڑکی کو سدھارنا” نسبتاً آسان ہوتا ہے۔اسی لئے جملہ ماہرین ازدواجیات، بشمول ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازدواجیات کے ضمن میں “ہدایت نامہ برائے بیوی” کو کثرت سے بیان کیا ہے اور "ہدایت نامہ برائے شوہر" کم سے کم ہے۔ اس لئے کہ اگر ایک مرد میں جملہ “انسانی خوبیاں” موجود ہوں (جن کی تفاصیل سے قرآن و حدیث بھری ہوئی ہے) تو ایسا مرد بالعموم “بہترین شوہر” بھی ہوتا ہے۔ اسے پھر الگ سے “بطور شوہر” ہدایت دینے کی کم سے کم ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ایک خاتون میں جملہ "انسانی خوبیاں" موجود ہوںبھی تو وہ ایک بہترین بیٹی، ایک بہترین بہن، ایک بہترین ماں، ایک بہترین خاتون خاندان تو “بن” سکتی ہے۔ لیکن بہترین “بیوی” نہیں بن سکتی۔ اس کے لئے انہیں “خصوصی تعلیم و تربیت” کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے دنیا کی بہترین مسلمان خواتین “صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہما” تھیں۔ ان میں انسانی اور دینی خوبیاں بھی بدرجہ اتم موجود تھیں۔ لیکن اس کے باوجود “بحیثیت بیوی” ان میں سے کئی “کامیاب” نہیں ہوئیں اور وہ اپنے پہلے شوہر سے علیحدہ ہوگئیں۔ اور بعد میں اپنے اس پہلے “تلخ تجربہ” سے کچھ سیکھ کر اگلی مرتبہ بہتر بیوی ثابت ہوئیں۔
یاد رہے کہ ازدواجی زندگی میں “عورت” کے پاس “آپشنز” کی بہت “کمی” ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے اپنے اسی “کم سے کم آپشن آپشنز” میں رہتے ہوئے اپنی دنیوی زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ جبکہ مردوں کے پاس “آپشنز” کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ جیسے ۔ ۔ ۔
  1. عموماً لڑکیوں کی شادی “ہوتی” ہے، وہ شادی “کرتی” نہیں ہیں۔ لہٰذا لڑکیاں رشتوں کا “انتظار کرتی” ہیں کہ کوئی رشتہ آئے ۔۔۔ اور جب رشتے آنے لگتے ہیں تو انتظار ہوتا ہے کہ کوئی ”اچھا رشتہ” آئے۔ اور رشتہ آنے کا “دورانیہ” بہت مختصر ہوتا ہے۔ یعنی لڑکیوں کے رشتے، اس کی عمر کے “مخصوص” حصے میں ہی آتے ہیں۔ اس کے بعد رشتے آنے بندبھی ہوجاتے ہیں۔
  2. لڑکے اس معاملہ میں بائی ڈیفالٹ “خوش نصیب” ہوتے ہیں۔ وہ جب چاہے شادی کرسکتے ہیں۔ وہ جتنا چاہے رشتہ از خود “ڈھونڈ” سکتے ہیں۔ وہ عمر کے ہر حصہ میں بآسانی شادی کرسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر ان کا ایک پاؤں (بلحاظ عمر) قبر میں ہو تب بھی وہ شادی “کر سکتے” ہیں۔ خواہ اس کے فوراً بعد ان کا دوسرا پاؤں بھی کیوں نہ قبر میں چلا جائے۔ (ابتسامہ)
  3. لڑکیوں کی ایک مرتبہ شادی ہوجائے تو “شادی کی مارکیٹ” میں اس کی “مارکیٹ ویلیو” عملاً ختم ہوجاتی ہے۔ مزید شادی کا راستہ “بند” ہوجاتا ہے۔ بیوہ ہوجانے یا مطلقہ ہوجانے کی صورت میں بھی (آج ہمارے معاشرے میں بوجوہ) ایسی لڑکی کے لئے مزید شادی، تقریباً ناممکن ہوجاتی ہے۔
  4. جبکہ لڑکوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ایک شادی کے ہوتے ہوئے وہ دوسری، تیسری اور چوتھی شادی تک کرسکتا ہے۔ اور “مزے” کی بات یہ کہ اسے اس کے لئے اپنی پہلی، دوسری یا تیسری بیوی کی اجازت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر خدا نخواستہ اس کی بیوی انتقال کرجائے یا اس سے خلع لے لے یا یہ خود طلاق دے دے، کسی بھی صورت مین اس کی “مارکیٹ ویلیو” کم نہیں ہوتی۔
  5. شادی کے بعد ازدواجی زندگی میں شوہر “اگلی ڈرائیونگ وھیل” کی بائی ڈیفالٹ حیثیت رکھتا ہے۔ بیوی “پچھلی وھیل کی حیثیت” سے اگلے وھیل کے پیچھے پیچھے چلنے پر “مجبور” ہوتی ہے۔ لہٰذا پسندیدہ یا عمدہ راستہ کا “انتخاب” اس کے پاس نہیں بلکہ “”فرنٹ وھیل” کے پاس ہوتا ہے۔ اسے تو لازماً “فالو” کرنا ہوتا ہے اگر فرنٹ وھیل کی اسپیڈ اور ڈائریکشن کا ساتھ نہیں دیا تو “زندگی کی اس گاڑی” سے جدا ہونا پڑتا ہے۔ اور فرنٹ وھیل والے کے پاس تو کئی “اسپیئر وھیل” بھی ہوتے ہیں۔
  6. دنیوی اعتبار سے بھی اگر اچھی اور خوشحال زندگی گزارنی ہے تو بیوی کو شوہر کے “نقش قدم” پر چلنا پڑتا ہے اور دینی اعتبار سے جنت میں عمدہ جگہ حاصل کرنی ہے تو اللہ رسول کے بعد شوہر کی “خوشنودی” بھی لازم ہے۔ جبکہ مرد کے لئے اللہ رسول کے بعد اس کی ماں کا درجہ ہے، بیوی کا نہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ازدواجی زندگی کی کامیابی کے لئے آسان اور سہل ترین راستہ یہ ہے خواتین کی ترجیحی بنیادوں پر خصوصی تربیت کی جائے۔ کیونکہ اگر یہ تربیت پاگئیں تو نہ صرف یہ کہ خود اپنی ازدواجی زندگی کو بہتر کر لیں گی بلکہ آنے والی نسل کی تربیت بھی عمدہ طریقہ سے کر پائیں گی۔ ازدواجی معامالات میں “لڑکوں کی تربیت”کی حیثیت “ثانوی” بلکہ اس سے بھی بعد کی ہے۔ لڑکوں کے لئے تربیت کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ اسے رزق کے حصول کا طریقہ و قرینہ سکھلایا جائے۔ دوسری ضرورت اپنے ماں باپ کی دیکھ بھال کے لئے “تیار” کرناہے، تاکہ اس کی “اُخروی” زندگی ناکام نہ ہو۔ پھر اسے گھر کے “بیرونی معاملات کے امور” میں بھی ماہر ہونا چاہئے۔ اور یہ سب کی سب “مہارت” بالواسطہ طور پر اس کی “بیوی” کے بھی کام آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عموماً لڑکوں اور مردوں کو “ازدواجی معاملات کی تربیت” نہیں دی جاتی یا کم دی جاتی ہے یا بعد میں دی جاتی ہے، پہلے “کچھ اور” سکھلا یا جاتا ہے۔ عورت کے لئے دینی فرائض کے بعد اول آخر یہی “ازدواجی تربیت” کام آتی ہے۔ لہٰذا خواتین کو یہ “اعتراض” نہیں کرنا چاہئے کہ ہماری طرح لڑکوں کی بھی “ازدواجی معاملات” میں برابر کی تربیت کی جائے (ابتسامہ)
پس تحریر: ان شاء اللہ میں “مطلوبہ قسط” بھی ضرور لکھوں گا، لیکن یہ بہت مختصر ہوگا۔ (انتظار فرمائیے)
 
Top