بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوسف بھائی ایک اور قسط بھی دیجیئے ، جس میں مرد حضرات کی شادی سے متعلق ذمہ داریوں کا تذکرہ ہو۔کیونکہ شادی دو لوگوں کی ہوتی ہے،صرف لڑکی کی نہیں۔
ہا ہا ۔ ۔ ۔ ہاہاہا ۔ ۔ ۔ زبردست کہا ۔ بہت خوب۔ آپ کی بات “اپنی جگہ” سو فیصد درست سہی۔ لیکن ۔ ۔
اگر ان دونوں فریقوں میں سے صرف ایک فریق بھی “سدھر” جائے تو بھی شادی کامیاب ہوجاتی ہے۔ اور اگر دونوں سدھر جائیں تو کیا کہنے۔ یہ تو سونے پر سہاگہ والی بات ہے۔ اگر کم از کم “سدھار” سے شادی کو کامیاب بنانا ہو تو “کم از کم ایک فریق” کا سدھر جانا بھی “کافی” ہوتا ہے۔ اور اگر کسی ایک فریق کو “سدھارنا” ہو تو “لڑکی کو سدھارنا” نسبتاً آسان ہوتا ہے۔اسی لئے جملہ ماہرین ازدواجیات، بشمول ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازدواجیات کے ضمن میں “ہدایت نامہ برائے بیوی” کو کثرت سے بیان کیا ہے اور "ہدایت نامہ برائے شوہر" کم سے کم ہے۔ اس لئے کہ اگر ایک مرد میں جملہ “انسانی خوبیاں” موجود ہوں (جن کی تفاصیل سے قرآن و حدیث بھری ہوئی ہے) تو ایسا مرد بالعموم “بہترین شوہر” بھی ہوتا ہے۔ اسے پھر الگ سے “بطور شوہر” ہدایت دینے کی کم سے کم ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ایک خاتون میں جملہ "انسانی خوبیاں" موجود ہوںبھی تو وہ ایک بہترین بیٹی، ایک بہترین بہن، ایک بہترین ماں، ایک بہترین خاتون خاندان تو “بن” سکتی ہے۔ لیکن بہترین “بیوی” نہیں بن سکتی۔ اس کے لئے انہیں “خصوصی تعلیم و تربیت” کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے دنیا کی بہترین مسلمان خواتین “صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہما” تھیں۔ ان میں انسانی اور دینی خوبیاں بھی بدرجہ اتم موجود تھیں۔ لیکن اس کے باوجود “بحیثیت بیوی” ان میں سے کئی “کامیاب” نہیں ہوئیں اور وہ اپنے پہلے شوہر سے علیحدہ ہوگئیں۔ اور بعد میں اپنے اس پہلے “تلخ تجربہ” سے کچھ سیکھ کر اگلی مرتبہ بہتر بیوی ثابت ہوئیں۔
یاد رہے کہ ازدواجی زندگی میں “عورت” کے پاس “آپشنز” کی بہت “کمی” ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے اپنے اسی “کم سے کم آپشن آپشنز” میں رہتے ہوئے اپنی دنیوی زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ جبکہ مردوں کے پاس “آپشنز” کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ جیسے ۔ ۔ ۔
- عموماً لڑکیوں کی شادی “ہوتی” ہے، وہ شادی “کرتی” نہیں ہیں۔ لہٰذا لڑکیاں رشتوں کا “انتظار کرتی” ہیں کہ کوئی رشتہ آئے ۔۔۔ اور جب رشتے آنے لگتے ہیں تو انتظار ہوتا ہے کہ کوئی ”اچھا رشتہ” آئے۔ اور رشتہ آنے کا “دورانیہ” بہت مختصر ہوتا ہے۔ یعنی لڑکیوں کے رشتے، اس کی عمر کے “مخصوص” حصے میں ہی آتے ہیں۔ اس کے بعد رشتے آنے بندبھی ہوجاتے ہیں۔
- لڑکے اس معاملہ میں بائی ڈیفالٹ “خوش نصیب” ہوتے ہیں۔ وہ جب چاہے شادی کرسکتے ہیں۔ وہ جتنا چاہے رشتہ از خود “ڈھونڈ” سکتے ہیں۔ وہ عمر کے ہر حصہ میں بآسانی شادی کرسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر ان کا ایک پاؤں (بلحاظ عمر) قبر میں ہو تب بھی وہ شادی “کر سکتے” ہیں۔ خواہ اس کے فوراً بعد ان کا دوسرا پاؤں بھی کیوں نہ قبر میں چلا جائے۔ (ابتسامہ)
- لڑکیوں کی ایک مرتبہ شادی ہوجائے تو “شادی کی مارکیٹ” میں اس کی “مارکیٹ ویلیو” عملاً ختم ہوجاتی ہے۔ مزید شادی کا راستہ “بند” ہوجاتا ہے۔ بیوہ ہوجانے یا مطلقہ ہوجانے کی صورت میں بھی (آج ہمارے معاشرے میں بوجوہ) ایسی لڑکی کے لئے مزید شادی، تقریباً ناممکن ہوجاتی ہے۔
- جبکہ لڑکوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ایک شادی کے ہوتے ہوئے وہ دوسری، تیسری اور چوتھی شادی تک کرسکتا ہے۔ اور “مزے” کی بات یہ کہ اسے اس کے لئے اپنی پہلی، دوسری یا تیسری بیوی کی اجازت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر خدا نخواستہ اس کی بیوی انتقال کرجائے یا اس سے خلع لے لے یا یہ خود طلاق دے دے، کسی بھی صورت مین اس کی “مارکیٹ ویلیو” کم نہیں ہوتی۔
- شادی کے بعد ازدواجی زندگی میں شوہر “اگلی ڈرائیونگ وھیل” کی بائی ڈیفالٹ حیثیت رکھتا ہے۔ بیوی “پچھلی وھیل کی حیثیت” سے اگلے وھیل کے پیچھے پیچھے چلنے پر “مجبور” ہوتی ہے۔ لہٰذا پسندیدہ یا عمدہ راستہ کا “انتخاب” اس کے پاس نہیں بلکہ “”فرنٹ وھیل” کے پاس ہوتا ہے۔ اسے تو لازماً “فالو” کرنا ہوتا ہے اگر فرنٹ وھیل کی اسپیڈ اور ڈائریکشن کا ساتھ نہیں دیا تو “زندگی کی اس گاڑی” سے جدا ہونا پڑتا ہے۔ اور فرنٹ وھیل والے کے پاس تو کئی “اسپیئر وھیل” بھی ہوتے ہیں۔
- دنیوی اعتبار سے بھی اگر اچھی اور خوشحال زندگی گزارنی ہے تو بیوی کو شوہر کے “نقش قدم” پر چلنا پڑتا ہے اور دینی اعتبار سے جنت میں عمدہ جگہ حاصل کرنی ہے تو اللہ رسول کے بعد شوہر کی “خوشنودی” بھی لازم ہے۔ جبکہ مرد کے لئے اللہ رسول کے بعد اس کی ماں کا درجہ ہے، بیوی کا نہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ازدواجی زندگی کی کامیابی کے لئے آسان اور سہل ترین راستہ یہ ہے خواتین کی ترجیحی بنیادوں پر خصوصی تربیت کی جائے۔ کیونکہ اگر یہ تربیت پاگئیں تو نہ صرف یہ کہ خود اپنی ازدواجی زندگی کو بہتر کر لیں گی بلکہ آنے والی نسل کی تربیت بھی عمدہ طریقہ سے کر پائیں گی۔ ازدواجی معامالات میں “لڑکوں کی تربیت”کی حیثیت “ثانوی” بلکہ اس سے بھی بعد کی ہے۔ لڑکوں کے لئے تربیت کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ اسے رزق کے حصول کا طریقہ و قرینہ سکھلایا جائے۔ دوسری ضرورت اپنے ماں باپ کی دیکھ بھال کے لئے “تیار” کرناہے، تاکہ اس کی “اُخروی” زندگی ناکام نہ ہو۔ پھر اسے گھر کے “بیرونی معاملات کے امور” میں بھی ماہر ہونا چاہئے۔ اور یہ سب کی سب “مہارت” بالواسطہ طور پر اس کی “بیوی” کے بھی کام آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عموماً لڑکوں اور مردوں کو “ازدواجی معاملات کی تربیت” نہیں دی جاتی یا کم دی جاتی ہے یا بعد میں دی جاتی ہے، پہلے “کچھ اور” سکھلا یا جاتا ہے۔ عورت کے لئے دینی فرائض کے بعد اول آخر یہی “ازدواجی تربیت” کام آتی ہے۔ لہٰذا خواتین کو یہ “اعتراض” نہیں کرنا چاہئے کہ ہماری طرح لڑکوں کی بھی “ازدواجی معاملات” میں برابر کی تربیت کی جائے (ابتسامہ)
پس تحریر: ان شاء اللہ میں “مطلوبہ قسط” بھی ضرور لکھوں گا، لیکن یہ بہت مختصر ہوگا۔ (انتظار فرمائیے)