ھلال بن یساف
یہ تابعین میں سے ہیں اور انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کا دور پایا ہے مگر ان سے سماع ثابت نہیں ہے چنانچہ امام بخاری نے تار یخ الکبیر میں بالجزم نقل کی ہے کہ ان کا سماع ابی مسعود البدری سے ثابت ہے
هلال بْن يساف أَبُو الحسن أدرك عليا قال مروان (ابن معاوية عن اسمعيل ) عَنْ هلال سَمِعَ أبا مَسْعُود الْأَنْصَارِيّ، وقَالَ مروان عَنْ أَبِي مالك عَنْ هلال بْن يساف مولى أشجع، روى عَنْهُ منصور بْن المعتمر وحصين وسَمِعَ سلمة بْن قيس.
اور جامع التحصیل میں موجود ہے
هلال بن يساف كان يحيى بن سعيد ينكر أنه سمع من أبي مسعود البدري وفي التهذيب أنه روى عن أبي الدرداء رضي الله عنه وقال الحافظ الذهبي وكأنه مرسل قلت له رؤية عن علي رضي الله عنه ولم يسمع منه(ترجمہ 853)
امام ابن سعد نے بھی ان کو کوفہ کےطبقہ الثانیہ میں رکھا ہے
اور انہوںان کے اساتذہ میں "سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل القرشى" کا نام موجود ہے
یہاں آپ نے بہت ساری غلطیاں کی ہے لیکن صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ جب انقطاع ثابت ہوجائے سندوں کے دراسہ سے یا ائمہ کی ایسی صراحت سے جس کی کسی امام نے مخالفت نہ کی ہو تو ایسے حالات میں معاصرت سے سماع ثابت نہیں کیا جاتا ہے۔اصول حدیث میں آج تک کسی کا یہ منہج نہیں رہاہے۔
چنانچہ البانی صاحب نے اسی وجہ سے ان کی ایک حدیث کو سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے صحیح قرار دیا ہے
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ فِتْنَةً، فَعَظَّمَ أَمْرَهَا، فَقُلْنَا: - أَوْ قَالُوا: - يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَئِنْ أَدْرَكَتْنَا هَذِهِ لَتُهْلِكَنَّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَلَّا، إِنَّ بِحَسْبِكُمُ الْقَتْلَ» ، قَالَ سَعِيدٌ: «فَرَأَيْتُ إِخْوَانِي قُتِلُوا(سنن ابو داود رقم 4277)
امام بخاری کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسری حدیث ہے۔
اول تو یہاں بھی سماع کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن اگردوسری حدیث ہونے کے سبب معاصرت کی وجہ یہاں سماع مان بھی لیا جائے تو بھی اس سے پہلی حدیث میں سماع ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ پہلی حدیث میں خاص دلیل اورائمہ کے اقوال موجود ہیں کہ وہاں سماع ثابت نہیں ۔
امام بخاری نے عبداللہ بن ظالم المازنی کے ترجمہ میں ان دو احادیث کا ذکر کیا ہے جو عبداللہ بن ظالم سے نقل ہوئی ہیں جس کو غازی صاحب رواۃ کا اختلاف نقل فرما رہے تھے
چنانچہ امام بخاری نے عشرہ مبشرہ والی حدیث نقل کی ہے جو ایک سفیان ثوری کی سند سے آئی ہے اور دوسری حصین بن عبدالرحمن کی سند سے نقل ہوئی ہے
(1) عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ظَالِمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَشَرَةٌ في الْجَنَّةِ، قَاله عُبَيْدُ بْنُ سعيد عن سفيان: عن منصورعَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ التَّمِيمِيِّ، سَمِعَ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
یہ پہلی سند ہے جس کو غازی صاحب نے امام نسائی کے مطابق انقطاع مانا ہے جبکہ امام بخاری کے نذدیک یہ سند متصل ہے کیونکہ ھلال بن یساف کو 40 ہجری میں موجود مانتے ہیں اور اور سعید بن زید سے ان کی ملاقات ثابت ہے
آپ پہلے تو یہ طے کرلیں کہ امام بخاری نے کتنی حدیث ذکر کی ہے دو یا ایک ۔
کبھی آپ دو کہتے ہیں کبھی ایک ۔
دوسرا یہ کہ امام نسائی نے جس سند کو منقطع کہا ہے امام بخاری نے کدھر بھی اسے متصل نہیں کہا ہے ۔
معاصر ت کاحوالہ دے کر سماع ثابت کرنا یہ صرف آپ کاکارنامہ ہے جوخاص دلیل اورائمہ کی صراحت کے ہوتے ہوئے مردود ہے ۔
آپ اپنے اس مردود استدلال کو امام بخاری کی طرف منسوب نہ کریں۔
اور دوسری حصین سے نقل کی ہے
وَقَالَ مُسَدَّدٌ عَنْ خَالِدٍ عَنْ حُصَيْنٍ مِثْله وَلَمْ يَقُلِ التَّمِيمِيُّ،
اس پر موصوف نے ڈبل انقطاع کا حکم صادر کیا ہے جبکہ اس میں صاف موجود ہے کہ "عن حصین مثلہ ولم یقل التمیمی" حصین کی سند سے بھی اسی طرح بیان ہوا ہے مگر اس میں (عبداللہ بن ظالم) کو التمیمی نہیں کہا ہے
یہ ڈبل منقطع ہی ہے آپ کہنا چاہتے کہ امام بخاری نے التممی لقب کے عدم ذکر کی بات کہی ہے نہ کہ التممی راوی کی ۔
یہ بالکل احمقانہ سمجھ ہے ۔کیونکہ التمیمی اورمازنی دونوں ایک ہی راوی کا لقب ہے اس لئے التیمی کہیں یا مازنی یا کچھ نہ کہیں اس سے سندوں کا اختلاف ثابت ہی نہیں ہوتا اور امام بخاری سندوں کا اختلاف بتلارہے ہیں ۔
بات سمجھا کرو۔
وَقَالَ أَبُو الأَحْوَصِ: عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ هِلالٍ عَنْ سَعِيد عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَزَادَ بَعْضُهُمُ ابْنَ حَيَّانَ فيهِ وَلَمْ يَصِحَّ، وَلَيْسَ لَهُ حَدِيثٌ إِلا هَذَا وَبِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْلُ، رَوَى عَنْهُ عَبْدُ الملك ابن مَيْسَرَةَ.
یہ وہ سند ہے "ابو الاحوص عن منصور عن ھلال عن سعید" اس کے بعد امام بخاری نے یہ بتایا کہ اس دونوں احادیث کی اسناد میں بعض ابن حیان کے واسطے کا اضافہ کرتے ہیں جو صحیح نہیں ہےچنانچہ یہی نقل کیا ہے"
وَزَادَ بَعْضُهُمُ ابْنَ حَيَّانَ فيهِ وَلَمْ يَصِحَّ، "
امام بخاری نے صرف پہلی حدیث پر بات کی ہے ۔دوسری پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اور لم یصح کا تعلق حدیث سے ہے ابن حیان کے اضافہ سے نہیں ۔امام بخاری کے شاگردوں نے یہی سمجھا ہے اور محدثین نے بھی ۔ان کی سمجھ کے سامنے آپ کی سمجھ کی کیا حیثیت ۔
امام بخاری نے اس کا رد کیا ہے کہ جو ھلال بن یساف اور عبداللہ ظالم کے درمیان ابن حیان کے واسطے کے قائل ہیں کیونکہ ھلال بن یساف نے 40 ہجری میں موجود تھے اور ان کو یہ عبداللہ بن ظالم سے روایت کرنے کے لئے کسی واسطے کی حاجت نہیں کیونکہ وہ خود موجود تھے یہاں تک کے سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے بھی ان کا روایت کرنا ثابت ہے
امام بخاری نے ابن حیان کے اضافہ کا رد نہیں کیا ہے لم یصح حدیث پر حکم ہے۔
اور معاصرت والا استدلال آپ کا ہے جسے جبرا امام بخاری کے گلے ڈال رہے ہیں ۔
اور یہ استدلال باطل ہے جیساکہ پہلے بتایاگیا۔
اور پھر امام بخاری نے یہ لکھا کہ" وَلَيْسَ لَهُ حَدِيثٌ إِلا هَذَا وَبِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْلُ، رَوَى عَنْهُ عَبْدُ الملك ابن مَيْسَرَةَ.
"اس (عبداللہ بن ظالم) سے صرف یہ ایک حدیث ثابت ہے اوروہ یہ ہے" وَبِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْلُ،"اس کو عبدالملک بن میسرۃ نے عبداللہ بن ظالم سے روایت کیا ہے
یہاں آپ تضاد کے شکار ہوگئے ۔
اوپر کہا امام بخاری نے دو حدیث بتائی اوریہاں ایک کہ رہے ہیں۔
امام بخاری کے اس جملے کا صحیح مطلب یہ ہے
اور اس کی کوئی حدیث نہیں سوائے اس حدیث (یعنی حدیث عشرہ ) اور یہ حدیث بحسب اصحابی ۔۔۔الخ
دوسری حدیث "بحسب اصحابی القتل" والی کی سند یہ ہے
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ فِتْنَةً، فَعَظَّمَ أَمْرَهَا، فَقُلْنَا: - أَوْ قَالُوا: - يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَئِنْ أَدْرَكَتْنَا هَذِهِ لَتُهْلِكَنَّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَلَّا، إِنَّ بِحَسْبِكُمُ الْقَتْلَ» ، قَالَ سَعِيدٌ: «فَرَأَيْتُ إِخْوَانِي قُتِلُوا»(سنن ابو داود رقم4277)
اسی سند کو شیخ البانی نے ابوداود کی تخریج میں صحیح قرار دیا ہے اور احمد شاکر نے بھی مسند احمد رقم 1630 کے تحت یہ نقل کیا ہے "ھلال بن یساف:تابعی ثقۃ،سبق الکلام علیہ فی610،وقد جزم البخاری فی الکبیربانہ ادرک علیا وسمع ابا مسعود البدری الانصاری، وابو مسعودمات 40 فان یکون سمع سعید بن زید اولی(مسند احمد رقم 1630)
یہاں پھر آپ کا تضاد ۔
درمیاں میں صرف ایک حدیث کی بات کئے اور یہاں دو سری حدیث ۔
اور اس کا جواب اوپر ہوچکا وہ یہ کہ
اول تو یہاں بھی سماع کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن اگردوسری حدیث ہونے کے سبب معاصرت کی وجہ یہاں سماع مان بھی لیا جائے تو بھی اس سے پہلی حدیث میں سماع ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ پہلی حدیث میں خاص دلیل اورائمہ کے اقوال موجود ہیں کہ وہاں سماع ثابت نہیں ۔
اس سے ثابت ہے کہ ھلال بن یساف کا سعید بن زید رضی اللہ سے سماع ثابت ہے اور ان کی استاذ شاگردی کو بھی امام مزی نے تھذیب الکمال میں نقل کیا ہے
تہذیب میں استاذ اور شاگرد کی لسٹ سماع پر دلالت نہیں کرتی یہ ایک بچہ بھی جانتا۔
اور اس کی ایک سند اور ہے جس میں ھلال بن یساف نے عبداللہ ظالم سے اسی حدیث کو روایت کیا ہے
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، قَالَ: نَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: نَا مِسْعَرٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْل(مسند البزار رقم1262)
امام بخاری کا ان دونوں میں سے ایک حدیث (بحسب اصحابی القتل)کو ماننا اور دوسرے کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ عشرہ مبشرہ والی روایت ان کو صرف ھلال بن یساف عن عبداللہ بن ظالم کی سند سے ملی ہے اور امام بخاری عبداللہ بن ظالم کے ضعف کے قائل تھے چنانچہ ابن حجر رحمہ اللہ تقریب میں نقل کرتے ہیں کہ "صدوق لينه البخارى(تقریب التھذیب) اور دوسری روایت چونکہ ھلال بن یساف عن سعید بن زید رضی اللہ بھی ثابت ہے جیسا ہم نے دونوں اسناد نقل کی ہے اس بنا پر امام بخاری نے دوسری حدیث"بحسب اصحابی القتل" کو صحیح کہا ہے
امام بخاری نے دوسری حدیث پرسکوت کیا ہے صحت کا فیصلہ نہیں اس لئے آپ کی بنیاد ہی غلط ہے اور اس پر نکالا گیا آپ کا نتیجہ بھی غلط ہے۔
اور آپ کی یہ بہت بڑی جسارت ہے کہ اپنی پرجہالت باتوں کو امام بخاری کی طرف منسوب کرتے جارہے ہیں ۔
اور یہ کہنا کہ عشر ہ والی حدیث امام بخاری کو صرف ابن ظالم کی سند سے ملی ہے بالکل باطل ہے۔
امام بخاری کو حدیث عشرہ کی بہت ساری سندوں معلوم ہیں اورامام بخاری حدیث عشرہ کو صحیح بھی مانتے ہیں ۔
لیکن جو حدیث عشرہ ابن ظالم کی سند سے آئی وہ صحیح نہیں مانتے ۔
ان تمام دلائل سے ثابت ہے کہ ھلال بن یساف کا سماع عبداللہ بن ظالم سے بھی ثابت ہے اور سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے
ایک بھی دلیل نہیں دیا آپ نے ۔
چنانچہ اگر اب بھی غازی صاحب یہ مانتے ہیں کہ ھلاف بن یساف کا عبداللہ بن ظالم سے سماع ثابت نہیں اور وہ امام نسائی کے قول پر اعتماد رکھتے ہیں تو پھر موصوف کو یہ ماننا ہو گا کہ سنابلی صاحب نے جو اپنی کتاب "یزید پر الزامات کا جائزہ" میں نقل کیا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کو امیر المومنین کہا ہے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی درخواست کی تھی وہ روایت بھی ضیعف ہو جائے گی پڑھ لیں
اگر کسی ایک حدیث میں کسی راوی کا کسی سے سماع ثابت نہیں تو اس کا یہ مطلب کیسے ہوگیا کہ اس کی ہر روایت میں اس کے ہر استاذ سے اس کا سماع ثابت نہیں ۔
اس میں ھلال بن یساف واقعہ کربلا بتا رہے ہیں اگر ان کا سماع عبداللہ بن ظالم سے ثابت نہیں ہے اور درمیان میں ایک واسطہ موجود ہے جو ابن حیان ہے اس ابن حیان کو صغار تابعین کے دور کا بتایا گیا ہے اور صغائر تابعین نے واقع حرہ کا دور نہیں پایا چنانچہ سنابلی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے
ظالم سے ثابت نہیں ہے اور درمیان میں ایک واسطہ موجود ہے جو ابن حیان ہے اس ابن حیان کو صغار تابعین کے دور کا بتایا گیا ہے اور صغائر تابعین نے واقع حرہ کا دور نہیں پایا چنانچہ سنابلی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے
ھلا ل بن یساف نے کسی روایت کو چھوٹے سے سن لیا تو اس کا یہ مطلب کیسے ہوگا کہ وہ بڑوں سے کوئی روایت سن ہی نہیں سکتا ہے یا اپنے دور کے واقعات کو بھی نہیں جان سکتا۔
حد کردی آپ نے ! محترم ھلال بن اساف خود واقعہ کربلا کا معاصر ہے اور کوفی بھی ہے ۔خوب سمجھ لیں۔
جس طرح ہشام بن حسان نے واقعہ حرہ نہیں پایا اسی طرح پھر ھلال بن یساف نے کس طرح واقعہ کربلا پالیا کیونکہ ان کے شیخ تو صغائر تابعین کے دور کے ہیں
اللہ ہم کو ہدایت دےکہ ہم اس قیمتی علم(علم حدیث) کو بدنام نہ کریں
ہلا ل بن یساف نے علی کا دور پایا اور واقعہ کربلا کا دور نہیں پایا !!!
عقل کس جگہ چھوڑ آئے ہو محترم !
اگرھلال نے کسی خاص روایت کو چھوٹے لوگوں سے سنا تو اس کا یہ مطلب کیسے نکلے گا کہ وہ بڑوں سے کوئی روایت نہیں سکتا یا اپنے دور بلکہ اپنے علاقے کے واقعات بھی نہیں جا ن سکتا؟؟
بے عقلی کی بھی حد ہے یانہیں ؟ '
کیا کیا کہے جارہے ہو۔