• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم کس کی مانیں محدث فورم کے احادیث کے مجموعہ کی یا کفایت الله صاحب کی

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
آخر میں جو سند میں نے نقل کی تھی وہ یہ ہے جس کو غازی صاحب نے کچھ اور بتادیا تھا
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، وَحَجَّاجٌ، حَدَّثَنِي شُعْبَةُ، عَنِ الْحُرِّ بْنِ صَيَّاحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَخْنَسِ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ خَطَبَ، فَنَالَ مِنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: فَقَامَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " رَسُولُ اللهِ فِي الْجَنَّةِ، وَأَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدٌ فِي الْجَنَّةِ "، ثُمَّ قَالَ: إِنْ شِئْتُمِ أخْبَرْتُكُمْ بِالْعَاشِرِ، ثُمَّ ذَكَرَ نَفْسَه(مسند احمد1637)
اور غازی صاحب نے یہ سند دیکھائی تھی
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ هِلالِ بْنِ يِسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، قَالَ: خَطَبَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَنَالَ مِنْ عَلِيٍّ، فَخَرَجَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ: أَلا تَعْجَبُ مِنْ هَذَا يَسُبُّ عَلِيًّا؟ . أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّا كُنَّا عَلَى حِرَاءٍ - أَوْ أُحُدٍ -، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اثْبُتْ حِرَاءُ - أَوْ أُحُدُ - فَإِنَّمَا عَلَيْكَ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ "، فَسَمَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَشْرَةَ فَسَمَّى: " أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، وَعَلِيًّا، وَطَلْحَةَ، وَالزُّبَيْرَ، وَسَعْدًا، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، وَسَمَّى نَفْسَهُ سَعِيدًا(رقم 1638)
اللہ سب کو مسلمان سے بدگمانی کرنے سے بچائے آمین

جناب آپ نے جو حدیث نمبر دیا تھا میں نے اسی کی سند پیش کی ہے۔
اپنے الفاظ دیکھیں:

اس کے علاوہ اس کی دیگر سند پیش ہے جس سے اس کی تائید ہوتی ہے
أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ خَطَبَ، فَنَالَ مِنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: فَقَامَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " رَسُولُ اللهِ فِي الْجَنَّةِ، وَأَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدٌ فِي الْجَنَّةِ "، ثُمَّ قَالَ: إِنْ شِئْتُمِ أخْبَرْتُكُمْ بِالْعَاشِرِ، ثُمَّ ذَكَرَ نَفْسَهُ(مسند احمد رقم 1638)
امام احمد نے اس کو ھلال بن یساف سے سعید بن زید کی سند سے مختصر نقل کیا ہے
یہ تمام دلائل اس روایت کو ثابت کرتے ہیں۔
میرا مدعا صرف یہ روایت ہے اور کچھ نہیں ہے
دیکھ لیا آپ نے
جو حدیث نمبر آپ نے دیا تھا اسی کی سند میں نے پیش کی تھی ۔
بلکہ آگے یہ بھی لکھ رکھا تھا:
امام احمد نے اس کو ھلال بن یساف سے سعید بن زید کی سند سے مختصر نقل کیا ہے

لیکن اس بار آپ نے جو روایت پیش کی اس میں ھلال بن یساف نہیں ہے ۔
اور روایت کا نمبر بھی الگ ہے۔

بہرحال آپ نے سند دوسری دی اس بار لیکن آپ کی یہ دوسری سند بھی صحیح نہیں کیونکہ اس میں عبد الرحمن بن الأخنس الكوفي ہے ۔
حافظ ابن حجر نے کہا ہے۔
عبد الرحمن بن الأخنس الكوفي مستور(3795)
اورامام ذہبی نے ضعفاء میں نقل کرکے کہا ہے۔
عبد الرحمن بن الأخنس لا يعرف(المغني في الضعفاء3521)

پتہ چلا یہ سند بھی ضعیف ہے ۔
پھر اسے پیش کرکے کیا فائدہ ؟

رہی سماع سے متعلق آپ کی گفتگو تو یاد رکھیں آپ نے اس پوری گفتگو میں اثبات سماع کی کوئی دلیل نہیں دے سکے۔
اپنی طرف سے ایک مفروضہ گھڑلیا اور اسے امام بخاری کی طرف جبرا منسوب کئے جارہے ہیں ۔
وقت ملنے پر تفصیل سے جواب دیتاہوں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)
امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)

یہ سارے محدثین ھلال بن یساف کی اس روایت کو ضعیف فرمارہے اور آپ میرے نام سے تھریڈ بناکریہ تاثر دے رہے ہیں کہ صرف میں نے اس حدیث کو ضعیف کہا ۔

اور ایک صاحب تو یہ نصحیت کرنے آگئے کہ ساری سندیں دیکھ کر حکم لگانا چاہے۔
میں نے مختصرا صرف امام نسائی کے حوالے سے تضعیف کی اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نے دوسری سندیں دیکھی ہی ۔
اطمینان رکھیں میں نے پوری تسلی کرنے کے بعد ہی اس کو ضعیف کہا ہے وہ بھی امام نسائی جیسے ماہر فن کے حوالے کے ساتھ ۔

اس لئے اگر نام ہی لکھنا تھا تو امام نسائی رحمہ اللہ کا نام بھی لکھ سکتے تھے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
شیخ محترم یہ تمام کے تمام بہت سوچنے اور سمجهنے کے بعد اور دانستہ ایسا کرتے ہیں ، اللہ آپکے علم و عمل میں برکت عطاء فرمائے اور ہر شر سے محفوظ رکهے۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
جناب آپ نے جو حدیث نمبر دیا تھا میں نے اسی کی سند پیش کی ہے۔
اپنے الفاظ دیکھیں:



دیکھ لیا آپ نے
جو حدیث نمبر آپ نے دیا تھا اسی کی سند میں نے پیش کی تھی ۔
بلکہ آگے یہ بھی لکھ رکھا تھا:
امام احمد نے اس کو ھلال بن یساف سے سعید بن زید کی سند سے مختصر نقل کیا ہے

لیکن اس بار آپ نے جو روایت پیش کی اس میں ھلال بن یساف نہیں ہے ۔
اور روایت کا نمبر بھی الگ ہے۔

بہرحال آپ نے سند دوسری دی اس بار لیکن آپ کی یہ دوسری سند بھی صحیح نہیں کیونکہ اس میں عبد الرحمن بن الأخنس الكوفي ہے ۔
حافظ ابن حجر نے کہا ہے۔
عبد الرحمن بن الأخنس الكوفي مستور(3795)
اورامام ذہبی نے ضعفاء میں نقل کرکے کہا ہے۔
عبد الرحمن بن الأخنس لا يعرف(المغني في الضعفاء3521)

پتہ چلا یہ سند بھی ضعیف ہے ۔
پھر اسے پیش کرکے کیا فائدہ ؟

رہی سماع سے متعلق آپ کی گفتگو تو یاد رکھیں آپ نے اس پوری گفتگو میں اثبات سماع کی کوئی دلیل نہیں دے سکے۔
اپنی طرف سے ایک مفروضہ گھڑلیا اور اسے امام بخاری کی طرف جبرا منسوب کئے جارہے ہیں ۔
وقت ملنے پر تفصیل سے جواب دیتاہوں۔
حدیث کا نمبر ایک آگے پیچھے ہو گیا تو اپ اس طرح کی غلط باتیں منسوب کریں گے دوبارہ اپ کے حدیث کا متن دیکھیں اور میں نے جو حدیث پیش کی ہے اس کا متن دیکھیں فرق معلوم ہو گا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ هِلالِ بْنِ يِسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، قَالَ: خَطَبَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَنَالَ مِنْ عَلِيٍّ، فَخَرَجَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ: أَلا تَعْجَبُ مِنْ هَذَا يَسُبُّ عَلِيًّا؟
یہ غازی صاحب کی حدیث کا متن ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، وَحَجَّاجٌ، حَدَّثَنِي شُعْبَةُ، عَنِ الْحُرِّ بْنِ صَيَّاحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَخْنَسِ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ خَطَبَ، فَنَالَ مِنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: فَقَامَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " رَسُولُ اللهِ فِي الْجَنَّةِ، وَأَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدٌ فِي الْجَنَّةِ "، ثُمَّ قَالَ: إِنْ شِئْتُمِ أخْبَرْتُكُمْ بِالْعَاشِرِ، ثُمَّ ذَكَرَ نَفْسَه
یہ میں نے پیش کی تھی اس میں "
أَلا تَعْجَبُ مِنْ هَذَا يَسُبُّ عَلِيًّا"
یہ الفاظ میری پیش کی روایت میں نہیں ہیں ا
دوسری بات جس کو اپ مجھول کہہ کر اس کی سند ضعیف فرما رہے ہیں وہ میں نے تائید میں پیش کی ہے یہ مجھے بھی معلوم ہے کہ اس میں ایک راوی مجھول ہے اور ایک کی سند انقطاع ہے اور تیسری سند صحیح ہے تو یہ تائید کرتی ہیں عبداللہ بن ظالم والی روایت کی
اخری بات یہ میرا مفروضہ نہیں اپ کی ہو سکتا ہے امام نسائی نے سفیان کی روایت پر بھروسہ کیا ہے جس کی وجہ سے وہ یہ مانتے ہیں کہ ھلال بن یساف 40 ہجری میں موجود نہیں تھے اور وہ صغائر تابعین میں سے ہیں جبکہ میں ثابت کر چکا کہ ھلال بن یساف نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے اور ان کا دور پایا ہےتو ان کی روایت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے بھی صحیح ہے تو ظالم سے تو ویسے ہی صحیح ہے جیسا احمد شاکر نے بھی بیان کیا ہے وگرنہ ھلال بن یساف اگر صغائر تابعین میں ہے تو کربلا کا واقعہ نہیں بیان کر سکتا ہے وہ روایت بھی منقطع ہے۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)
امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)

یہ سارے محدثین ھلال بن یساف کی اس روایت کو ضعیف فرمارہے اور آپ میرے نام سے تھریڈ بناکریہ تاثر دے رہے ہیں کہ صرف میں نے اس حدیث کو ضعیف کہا ۔

اور ایک صاحب تو یہ نصحیت کرنے آگئے کہ ساری سندیں دیکھ کر حکم لگانا چاہے۔
میں نے مختصرا صرف امام نسائی کے حوالے سے تضعیف کی اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نے دوسری سندیں دیکھی ہی ۔
اطمینان رکھیں میں نے پوری تسلی کرنے کے بعد ہی اس کو ضعیف کہا ہے وہ بھی امام نسائی جیسے ماہر فن کے حوالے کے ساتھ ۔

اس لئے اگر نام ہی لکھنا تھا تو امام نسائی رحمہ اللہ کا نام بھی لکھ سکتے تھے۔
شیخ صاحب
امام عقیلی
امام ذہبی نے صرف امام بخاری کے اقوال کو نقل کیا ہے کہاں سے یہ بھی نہیں معلوم ہے اور امام بخاری کا اس کو ضعیف کہنا انقطاع کے سبب نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ "بحسب اصحابی القتل" والی روایت کو بھی ضعیف کہتے کیونکہ اس میں ھلال بن یساف نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے درمیان میں عبداللہ بن ظالم کا واسطہ بھی نہیں ہے
اور امام بخاری صرف اس حدیث کو مانا ہے چنانچہ نقل کیا ہے
وَلَيْسَ لَهُ حَدِيثٌ إِلا هَذَا وَبِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْلُ، رَوَى عَنْهُ عَبْدُ الملك ابن مَيْسَرَةَ.
تو امام بخاری اس میں انقطاع کی وجہ سے نہیں عبداللہ بن ظالم کے لین کی وجہ سے اس کو ضعیف فرما رہے ہیں وہ بھی خاص اس سند کو نہیں اس حدیث عشرہ مبشرہ کو ہی ضعیف فرما رہے ہیں
کچھ اس پر بھی تبصرہ
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)
امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)

یہ سارے محدثین ھلال بن یساف کی اس روایت کو ضعیف فرمارہے اور آپ میرے نام سے تھریڈ بناکریہ تاثر دے رہے ہیں کہ صرف میں نے اس حدیث کو ضعیف کہا ۔

اور ایک صاحب تو یہ نصحیت کرنے آگئے کہ ساری سندیں دیکھ کر حکم لگانا چاہے۔
میں نے مختصرا صرف امام نسائی کے حوالے سے تضعیف کی اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نے دوسری سندیں دیکھی ہی ۔
اطمینان رکھیں میں نے پوری تسلی کرنے کے بعد ہی اس کو ضعیف کہا ہے وہ بھی امام نسائی جیسے ماہر فن کے حوالے کے ساتھ ۔

اس لئے اگر نام ہی لکھنا تھا تو امام نسائی رحمہ اللہ کا نام بھی لکھ سکتے تھے۔
استاد محترم @کفایت اللہ بھائی آپ نے اچھی طرح وضاحت کر دی - الله آپ کو جزایۓ خیر دے - امین -

میں ایک الگ تھریڈ بنا کر آپ سے پوچھ سکتا تھا لیکن سوچا کہ اسی تھریڈ میں ہی بات کر لیں - میں نے احادیث کی تحقیق کے سیکشن میں پوچھا تھا کہ کیا حضرت علی رضی الله نے حضرت امیر معاویہ رضی الله کے خلاف قنوت میں دعا کی -

آپ اس روایت کی اچھی تحقیق پیش کر رہے ہیں - آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں - کیوں کہ وہاں سوال جواب والے سیکشن میں جواب نہیں دیا جا سکتا -

آپ کہہ رہے ہیں کہ

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

حصین سے روایت کرنے والے ان کے مذکورہ تلامذہ یہی روایت نقل کرتے ہیں مگر ان میں کوئی بھی کسی کا نام ذکر نہیں کرتا جس پر علی رضی اللہ عنہ بد دعاکرتے ہیں ۔
لیکن حسین کے شاگرد ھشیم نے جب ان سے یہ روایت بیان کی تو معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کا نام ذکر کردیا !
ملاحظہ ہو:


امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
حدثنا هشيم ، قال : أخبرنا حصين ، قال : حدثنا عبد الرحمن بن معقل ، قال : صليت مع علي صلاة الغداة ، قال : فقنت ، فقال في قنوته : اللهم عليك بمعاوية وأشياعه وعمرو بن العاص وأشياعه ، وأبي الأعور السلمي ، وعبد الله بن قيس وأشياعه.[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 2/ 317 ]


معلوم ہوا کہ ھشیم کی روایت ایک جماعت کے خلاف ہے۔
بلکہ حصين بن عبد الرحمن السلمي کے شیخ عبد الرحمن بن معقل کے دوسرے شاگرد أبو الحسن عبيد بن الحسن کی روایت کے بھی خلاف ہے۔
مزید یہ کہ علی رضی اللہ عنہ کی روایت کا جو پہلا طریق سلمة بن كهيل کا ہے اس کے بھی خلاف ہے۔
اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کی روایت کا جودوسرا طریق عبد الله بن معقل کا ہے اس کے بھی خلاف ہے۔


لہٰذا اس قدر مخالفتوں کے بعد تنہااس سند کی وجہ سے اس روایت کو صحیح قرارنہیں دیا جاسکتا۔اس لئے راجح بات ان شاء اللہ یہی ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ والی جس روایت میں معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کے نام کی صراحت ہے وہ شاذ یعنی ضعیف ہے۔

اور محفوظ روایت صرف اتنی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ قنوت میں کچھ لوگوں پر بددعا کرتے تھے۔لیکن یہ لوگ کون تھے یہ صحیح و محفوظ روایت سے ثابت نہیں ہے ۔

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک راوی ایک جگہ روایت میں کسی کا نام لیتا ہے اور دوسری جگہ نہیں لیتا - یا وہ روایت کسی دوسری جگہ دوسرے طرق سے آ جاتی ہے - بعض اوقات سند ایک جیسی ہوتی ہے لیکن ایک میں نام ہوتا ہے اور دوسری میں نہیں - ایک میں کچھ آدھی بات ہوتی ہے اور دوسری میں پوری - اور بعض دفعہ ایسا بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ روایات لکھنے والے خود نام نہ لکھے اور باقی روایت لکھ دے -

آپ کو صرف ایک مثال دیتا ہوں -


اس کی ایک مثال آپ کو امام احمد رحمہ الله کی دو کتابوں سے دیتا ہوں

مسند امام احمد، میں ایک روایت یوں ہے

16540 حدثنا محمد بن مصعب قال حدثنا الأوزاعي عن شداد أبي عمار قال دخلت على واثلة بن الأسقع وعنده قوم فذكروا عليا فلما قاموا قال لي ألا أخبرك بما رأيت من رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت بلى قال أتيت فاطمة رضي الله تعالى عنها أسألها عن علي قالت توجه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلست أنتظره حتى جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه علي وحسن وحسين رضي الله تعالى عنهم آخذ كل واحد منهما بيده حتى دخل فأدنى عليا وفاطمة فأجلسهما بين يديه وأجلس حسنا وحسينا كل واحد منهما على فخذه ثم لف عليهم ثوبه أو قال كساء ثم تلا هذه الآية إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا وقال اللهم هؤلاء أهل بيتي وأهل بيتي أحق


حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ شداد ابی عمار واثلہ بن اسقع سے ملے اور اس وقت کچھ لوگ ان کے پاس تھے۔ وہاں حضرت علی رضی الله کا ذکر ہوا ، جب وہ چلے گئے توواثلہ نے ان سے کہا کہ کیا میں تم کو بتاؤں کہ میں نے نبی اکرم سے کیا دیکھا؟ تو شداد نے کہا جی ضرور۔ انہوں نے یہ بیان کیا کہ وہ فاطمہ رضی الله کے پاس علی رضی الله کا پوچھنے گئے۔ جس پر فاطمہ رضی الله نے انہیں کہا کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس گئے ہیں۔وہ انتظار میں بیٹھ گئے۔ پھر نبی پاک علی رضی الله اور امام حسن و حسین رضی الله کے ساتھ واپس آئے اور انہوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ پھر نبی پاک نے ان کو چادر میں جمع کیا اور آیت تطہیر کے تلاوت کی، اور کہا کہ یہ میرے اہلبیت ہیں، اور ان کا مجھ پر حق زیادہ ہے

یہ حدیث یہاں پر بھی ہے



اب اس حدیث کے مطابق جس وقت شداد واثلہ سے ملے، وہاں بس علی رضی الله کا ذکر ہوا

لیکن

امام احمد رحمہ الله اپنی کتاب فضائل الصحابہ۔ پر یہی روایت اسی سند کے ساتھ یوں لکھتے ہیں

رقم الحديث: 843
(حديث مرفوع)
نا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ وَهُوَ الْقَرْقَسَانِيُّ ، قثنا الأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ وَعِنْدَهُ قَوْمٌ ، فَذَكَرُوا عَلِيًّا فَشَتَمُوهُ ، فَشَتَمْتُهُ مَعَهُمْ ، فَلَمَّا قَامُوا ، قَالَ لِي : لِمَ شَتَمْتَ هَذَا الرَّجُلَ ؟ قُلْتُ : رَأَيْتُ الْقَوْمَ شَتَمُوهُ فَشَتَمْتُهُ مَعَهُمْ ، فَقَالَ : أَلا أُخْبِرُكَ بِمَا رَأَيْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قُلْتُ : بَلَى ، فَقَالَ : أَتَيْتُ فَاطِمَةَ أَسْأَلُهَا عَنْ عَلِيٍّ ، فَقَالَتْ : تَوَجَّهَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجَلَسْتُ أَنْتَظِرُهُ حَتَّى جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ عَلِيٌّ ، وَحَسَنٌ , وَحُسَيْنٌ ، آخِذًا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِيَدِهِ ، حَتَّى دَخَلَ فَأَدْنَى عَلِيًّا , وَفَاطِمَةَ ، فَأَجْلَسَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ، وَأَجْلَسَ حَسَنًا , وَحُسَيْنًا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى فَخِذِهِ ، ثُمَّ لَفَّ عَلَيْهِمْ ثَوْبَهُ ، أَوْ قَالَ : كِسَاءً ، " ثُمَّ تَلا هَذِهِ الآيَةَ :إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ سورة الأحزاب آية 33 ، ثُمَّ قَالَ : " اللَّهُمَّ هَؤُلاءِ أَهْلُ بَيْتِي ، وَأَهْلُ بَيْتِي أَحَقُّ " .

شداد کہتے ہیں کہ میں واثلہ سے ملا اور ان کے پاس کچھ لوگ تھے، وہاں علی کا ذکر ہوا تو انہوں نے سب و شتم کیا، میں نے بھی ان کے ہمراہ سب و شتم کیا۔ جب وہ چلے گئے تو واثلہ نے پوچھا کہ تم نے اس رجل کو کیوں سب و شتم کیا؟ میں نے کہا کہ میں نے ان لوگوں کو دیکھا کہ وہ برا بھلا کہہ رہے تھے تو میں نے بھی کہا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی اکرم سے کیا دیکھا؟....آگے تقریباً وہی الفاظ ہیں جو اوپر والی حدیث میں ہیں


اب یہاں آپ کے اصول کے مطابق ان راویوں کی کون سی بات مانی جایے گی - دونوں کتابیں لکھنے والے امام احمد
رحمہ الله ہیں ایک جگہ یہ بات فَشَتَمُوهُ ، فَشَتَمْتُهُ مَعَهُمْ ، فَلَمَّا قَامُوا ، قَالَ لِي : لِمَ شَتَمْتَ هَذَا الرَّجُلَ ؟ قُلْتُ : رَأَيْتُ الْقَوْمَ شَتَمُوهُ فَشَتَمْتُهُ مَعَهُمْ لکھ رہو ہیں اور دوسری جگہ نہیں لکھ رہے


اب یہی روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی موجود ہے- اور راوی بھی یہی ہیں



32103 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى وَاثِلَةَ وَعِنْدَهُ قَوْمٌ فَذَكَرُوا فَشَتَمُوهُ فَشَتَمَهُ مَعَهُمْ , فَقَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى , قَالَ: أَتَيْتُ فَاطِمَةَ أَسْأَلُهَا عَنْ عَلِيٍّ فَقَالَتْ: تَوَجَّهَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ , فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ عَلِيٌّ وَحَسَنٌ وَحُسَيْنٌ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا آخِذٌ بِيَدِهِ , فَأَدْنَى عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ فَأَجْلَسَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ; وَأَجْلَسَ حَسَنًا وَحُسَيْنًا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى فَخِذِهِ , ثُمَّ لَفَّ عَلَيْهِمْ ثَوْبَهُ أَوْ قَالَ: كِسَاءَهُ , ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ} [الأحزاب: 33] أَهْلَ الْبَيْتِ ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي , وَأَهْلُ بَيْتِي أَحَقُّ»



اب یہاں پر ان راویوں کو کون سی بات قبول کی جایے گی
یہ صرف ایک مثال ہے - مقصد کوئی تنقید کرنا نہیں
باقی آپ جس حدیث کو ضعیف ثابت کر رہے ہیں اس کو صحیح بھی کہا گیا
shaiba.png
2.jpg


 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
استاد محترم @کفایت اللہ بھائی آپ نے اچھی طرح وضاحت کر دی - الله آپ کو جزایۓ خیر دے - امین -

میں ایک الگ تھریڈ بنا کر آپ سے پوچھ سکتا تھا لیکن سوچا کہ اسی تھریڈ میں ہی بات کر لیں - میں نے احادیث کی تحقیق کے سیکشن میں پوچھا تھا کہ کیا حضرت علی رضی الله نے حضرت امیر معاویہ رضی الله کے خلاف قنوت میں دعا کی -

آپ اس روایت کی اچھی تحقیق پیش کر رہے ہیں - آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں - کیوں کہ وہاں سوال جواب والے سیکشن میں جواب نہیں دیا جا سکتا -

آپ کہہ رہے ہیں کہ

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

حصین سے روایت کرنے والے ان کے مذکورہ تلامذہ یہی روایت نقل کرتے ہیں مگر ان میں کوئی بھی کسی کا نام ذکر نہیں کرتا جس پر علی رضی اللہ عنہ بد دعاکرتے ہیں ۔
لیکن حسین کے شاگرد ھشیم نے جب ان سے یہ روایت بیان کی تو معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کا نام ذکر کردیا !
ملاحظہ ہو:


امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
حدثنا هشيم ، قال : أخبرنا حصين ، قال : حدثنا عبد الرحمن بن معقل ، قال : صليت مع علي صلاة الغداة ، قال : فقنت ، فقال في قنوته : اللهم عليك بمعاوية وأشياعه وعمرو بن العاص وأشياعه ، وأبي الأعور السلمي ، وعبد الله بن قيس وأشياعه.[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 2/ 317 ]


معلوم ہوا کہ ھشیم کی روایت ایک جماعت کے خلاف ہے۔
بلکہ حصين بن عبد الرحمن السلمي کے شیخ عبد الرحمن بن معقل کے دوسرے شاگرد أبو الحسن عبيد بن الحسن کی روایت کے بھی خلاف ہے۔
مزید یہ کہ علی رضی اللہ عنہ کی روایت کا جو پہلا طریق سلمة بن كهيل کا ہے اس کے بھی خلاف ہے۔
اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کی روایت کا جودوسرا طریق عبد الله بن معقل کا ہے اس کے بھی خلاف ہے۔


لہٰذا اس قدر مخالفتوں کے بعد تنہااس سند کی وجہ سے اس روایت کو صحیح قرارنہیں دیا جاسکتا۔اس لئے راجح بات ان شاء اللہ یہی ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ والی جس روایت میں معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کے نام کی صراحت ہے وہ شاذ یعنی ضعیف ہے۔

اور محفوظ روایت صرف اتنی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ قنوت میں کچھ لوگوں پر بددعا کرتے تھے۔لیکن یہ لوگ کون تھے یہ صحیح و محفوظ روایت سے ثابت نہیں ہے ۔

'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''

لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک راوی ایک جگہ روایت میں کسی کا نام لیتا ہے اور دوسری جگہ نہیں لیتا - یا وہ روایت کسی دوسری جگہ دوسرے طرق سے آ جاتی ہے - بعض اوقات سند ایک جیسی ہوتی ہے لیکن ایک میں نام ہوتا ہے اور دوسری میں نہیں - ایک میں کچھ آدھی بات ہوتی ہے اور دوسری میں پوری - اور بعض دفعہ ایسا بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ روایات لکھنے والے خود نام نہ لکھے اور باقی روایت لکھ دے -

آپ کو صرف ایک مثال دیتا ہوں -


اس کی ایک مثال آپ کو امام احمد رحمہ الله کی دو کتابوں سے دیتا ہوں

مسند امام احمد، میں ایک روایت یوں ہے

16540 حدثنا محمد بن مصعب قال حدثنا الأوزاعي عن شداد أبي عمار قال دخلت على واثلة بن الأسقع وعنده قوم فذكروا عليا فلما قاموا قال لي ألا أخبرك بما رأيت من رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت بلى قال أتيت فاطمة رضي الله تعالى عنها أسألها عن علي قالت توجه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلست أنتظره حتى جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه علي وحسن وحسين رضي الله تعالى عنهم آخذ كل واحد منهما بيده حتى دخل فأدنى عليا وفاطمة فأجلسهما بين يديه وأجلس حسنا وحسينا كل واحد منهما على فخذه ثم لف عليهم ثوبه أو قال كساء ثم تلا هذه الآية إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا وقال اللهم هؤلاء أهل بيتي وأهل بيتي أحق


حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ شداد ابی عمار واثلہ بن اسقع سے ملے اور اس وقت کچھ لوگ ان کے پاس تھے۔ وہاں حضرت علی رضی الله کا ذکر ہوا ، جب وہ چلے گئے توواثلہ نے ان سے کہا کہ کیا میں تم کو بتاؤں کہ میں نے نبی اکرم سے کیا دیکھا؟ تو شداد نے کہا جی ضرور۔ انہوں نے یہ بیان کیا کہ وہ فاطمہ رضی الله کے پاس علی رضی الله کا پوچھنے گئے۔ جس پر فاطمہ رضی الله نے انہیں کہا کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس گئے ہیں۔وہ انتظار میں بیٹھ گئے۔ پھر نبی پاک علی رضی الله اور امام حسن و حسین رضی الله کے ساتھ واپس آئے اور انہوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ پھر نبی پاک نے ان کو چادر میں جمع کیا اور آیت تطہیر کے تلاوت کی، اور کہا کہ یہ میرے اہلبیت ہیں، اور ان کا مجھ پر حق زیادہ ہے

یہ حدیث یہاں پر بھی ہے



اب اس حدیث کے مطابق جس وقت شداد واثلہ سے ملے، وہاں بس علی رضی الله کا ذکر ہوا

لیکن

امام احمد رحمہ الله اپنی کتاب فضائل الصحابہ۔ پر یہی روایت اسی سند کے ساتھ یوں لکھتے ہیں

رقم الحديث: 843
(حديث مرفوع)
نا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ وَهُوَ الْقَرْقَسَانِيُّ ، قثنا الأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ وَعِنْدَهُ قَوْمٌ ، فَذَكَرُوا عَلِيًّا فَشَتَمُوهُ ، فَشَتَمْتُهُ مَعَهُمْ ، فَلَمَّا قَامُوا ، قَالَ لِي : لِمَ شَتَمْتَ هَذَا الرَّجُلَ ؟ قُلْتُ : رَأَيْتُ الْقَوْمَ شَتَمُوهُ فَشَتَمْتُهُ مَعَهُمْ ، فَقَالَ : أَلا أُخْبِرُكَ بِمَا رَأَيْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قُلْتُ : بَلَى ، فَقَالَ : أَتَيْتُ فَاطِمَةَ أَسْأَلُهَا عَنْ عَلِيٍّ ، فَقَالَتْ : تَوَجَّهَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَجَلَسْتُ أَنْتَظِرُهُ حَتَّى جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ عَلِيٌّ ، وَحَسَنٌ , وَحُسَيْنٌ ، آخِذًا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِيَدِهِ ، حَتَّى دَخَلَ فَأَدْنَى عَلِيًّا , وَفَاطِمَةَ ، فَأَجْلَسَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ، وَأَجْلَسَ حَسَنًا , وَحُسَيْنًا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى فَخِذِهِ ، ثُمَّ لَفَّ عَلَيْهِمْ ثَوْبَهُ ، أَوْ قَالَ : كِسَاءً ، " ثُمَّ تَلا هَذِهِ الآيَةَ :إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ سورة الأحزاب آية 33 ، ثُمَّ قَالَ : " اللَّهُمَّ هَؤُلاءِ أَهْلُ بَيْتِي ، وَأَهْلُ بَيْتِي أَحَقُّ " .

شداد کہتے ہیں کہ میں واثلہ سے ملا اور ان کے پاس کچھ لوگ تھے، وہاں علی کا ذکر ہوا تو انہوں نے سب و شتم کیا، میں نے بھی ان کے ہمراہ سب و شتم کیا۔ جب وہ چلے گئے تو واثلہ نے پوچھا کہ تم نے اس رجل کو کیوں سب و شتم کیا؟ میں نے کہا کہ میں نے ان لوگوں کو دیکھا کہ وہ برا بھلا کہہ رہے تھے تو میں نے بھی کہا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی اکرم سے کیا دیکھا؟....آگے تقریباً وہی الفاظ ہیں جو اوپر والی حدیث میں ہیں


اب یہاں آپ کے اصول کے مطابق ان راویوں کی کون سی بات مانی جایے گی - دونوں کتابیں لکھنے والے امام احمد
رحمہ الله ہیں ایک جگہ یہ بات فَشَتَمُوهُ ، فَشَتَمْتُهُ مَعَهُمْ ، فَلَمَّا قَامُوا ، قَالَ لِي : لِمَ شَتَمْتَ هَذَا الرَّجُلَ ؟ قُلْتُ : رَأَيْتُ الْقَوْمَ شَتَمُوهُ فَشَتَمْتُهُ مَعَهُمْ لکھ رہو ہیں اور دوسری جگہ نہیں لکھ رہے


اب یہی روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی موجود ہے- اور راوی بھی یہی ہیں



32103 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى وَاثِلَةَ وَعِنْدَهُ قَوْمٌ فَذَكَرُوا فَشَتَمُوهُ فَشَتَمَهُ مَعَهُمْ , فَقَالَ: أَلَا أُخْبِرُكَ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى , قَالَ: أَتَيْتُ فَاطِمَةَ أَسْأَلُهَا عَنْ عَلِيٍّ فَقَالَتْ: تَوَجَّهَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ , فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ عَلِيٌّ وَحَسَنٌ وَحُسَيْنٌ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا آخِذٌ بِيَدِهِ , فَأَدْنَى عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ فَأَجْلَسَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ; وَأَجْلَسَ حَسَنًا وَحُسَيْنًا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى فَخِذِهِ , ثُمَّ لَفَّ عَلَيْهِمْ ثَوْبَهُ أَوْ قَالَ: كِسَاءَهُ , ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ} [الأحزاب: 33] أَهْلَ الْبَيْتِ ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي , وَأَهْلُ بَيْتِي أَحَقُّ»



اب یہاں پر ان راویوں کو کون سی بات قبول کی جایے گی
یہ صرف ایک مثال ہے - مقصد کوئی تنقید کرنا نہیں
باقی آپ جس حدیث کو ضعیف ثابت کر رہے ہیں اس کو صحیح بھی کہا گیا


سوال ہر کوئی کرسکتا ہے ۔
لیکن ہر کوئی ہرمسئلہ میں بحث کے قابل نہیں ہوتا۔
آپ نے سوال کیاتھا جواب دے دیا گیا ۔
اب آپ بحث کرنا چاہتے ہیں ، مگر آپ کی یہ خواہش پوری نہیں کی جاسکتی ہے کیونکہ آپ کے مراسلے سے ظاہر سے کہ آپ اختصار و اجمال کے اختلاف اور شذوذ و تفرد کے اختلاف میں فرق ہی نہیں جانتے ۔اول الذکر اختلاف سے روایت کی تضعیف نہیں کی جاتی جب کہ ثانی الذکر اختلاف ، روایت کی تضعیف کا سبب ہوتاہے۔
چونکہ یہ فارق نہ آپ سمجھ سکے اور نہ ہی اسے سمجھنے کے متحمل ہیں اس لئے مودبانہ گذارش ہے کہ دوبارہ بحث کے لئے مجھے آواز نہ دیں ۔
بارک اللہ فیک۔

واضح رہے کسی حدیث کے تعلق سے میں اپنا حاصل مطالعہ پیش کرتا ہوں ۔
لیکن اس بات کی ضد قطعا نہیں کرتا کہ ہر کوئی اسے مان لے یا زبردستی اسے کسی پر مسلط کیا جائے۔
اس لئے میری جو بات آپ قابل قبول نہ سمجھیں اسے شوق سے رد کردیں لیکن بحث کے لئے دعوت نہ دیں ، شکریہ ۔
وبارک اللہ فیکم۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
شیخ صاحب
امام عقیلی
امام ذہبی نے صرف امام بخاری کے اقوال کو نقل کیا ہے کہاں سے یہ بھی نہیں معلوم ہے اور امام بخاری کا اس کو ضعیف کہنا انقطاع کے سبب نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ "بحسب اصحابی القتل" والی روایت کو بھی ضعیف کہتے کیونکہ اس میں ھلال بن یساف نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے درمیان میں عبداللہ بن ظالم کا واسطہ بھی نہیں ہے
اور امام بخاری صرف اس حدیث کو مانا ہے چنانچہ نقل کیا ہے

تو امام بخاری اس میں انقطاع کی وجہ سے نہیں عبداللہ بن ظالم کے لین کی وجہ سے اس کو ضعیف فرما رہے ہیں وہ بھی خاص اس سند کو نہیں اس حدیث عشرہ مبشرہ کو ہی ضعیف فرما رہے ہیں
کچھ اس پر بھی تبصرہ

1۔امام نسائی کی تضعیف سے آپ کو انکار نہیں ۔
2۔امام عقیلی نے ضعفاء میں اس کی سندوں کے اضطراب کی خوب نقاب کشائی کی ہے یہ ان کی طرف سے واضح تعلیل ہے ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی امام عقیلی کی طرف اس حدیث کی تضعیف منسوب کی ہے۔
3۔امام ذہبی مستدرک میں حاکم پر تعاقب کررہے اورامام بخاری کے حوالے سے حدیث کی تضعیف نقل کررہے ہیں اب اگر امام ذہبی کی نظر میں یہ حدیث ضعیف نہ ہوتی تو امام حاکم پر تعاقب کیوں کرتے ۔
4۔امام بخاری نے تضعیف کی اس پر تو سارے اہل علم کا اتفاق ہے غالبا آپ نے بھی نفس تضعیف کاانکار نہیں کیا ہے آپ کا انکار وجہ تضعیف سے ہے۔
آپ کے حساب سے تضعیف کی وجہ عبداللہ بن ظالم کا لین ہونا ہے آپ نے لکھا:
((عبداللہ بن ظالم کے لین کی وجہ سے اس کو ضعیف فرما رہے ہیں))
آپ کے اس فہم کی دلیل بقول آپ کے :
(( امام بخاری کا اس کو ضعیف کہنا انقطاع کے سبب نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ "بحسب اصحابی القتل" والی روایت کو بھی ضعیف کہتے))
سوال یہ ہے کہ اگر پہلی روایت کو امام بخاری نے بقول آپ کے، عبداللہ بن ظالم کے لین ہونے کی وجہ سے ضعیف کہا تو اس دوسری حدیث میں بھی عبداللہ بن ظالم موجود ہے۔پھراسے ضعیف کیوں نہیں کہا؟ دیکھ لیں اب آپ ہی کی دلیل آپ ہی کر تردید کررہی ہے ۔

ابن حجررحمہ اللہ نے ابن ظالم کی تلین والی جو بات امام بخاری کی طرف منسوب کی ہے وہ صرف یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو صرف دو احادیث روایت کرنے والا بتلایا ہے اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کی مضبوط توثیق کی بنیاد نہیں ہے اسی بات کو ابن حجر رحمہ اللہ تلین سے تعبیر کررہے ہیں ۔

رہا اس کا یہ مطلب لینا کہ عبداللہ بن ظالم ہی کے سبب امام بخاری نے حدیث عشرہ کی تضعیف کی ہے تو اول اگرایسا ہوتا تو امام بخاری اس کی دونوں حدیثوں کو ضعیف کہتے۔ لیکن امام بخاری صرف پہلی حدیث کو ضعیف کہہ رہے اور دوسری حدیث پر سکوت کررہے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پہلی حدیث کی تضعیف کی بنیاد محض عبداللہ بن ظالم کا لین ہونا نہیں ہے۔
نیز لین تو جانے دیں متقدمین کسی راوی کے واضح ضعیف ہونے پر بھی عام طور پر محض اس بنیاد پر نقد نہیں کرتے تھے بلکہ سکوت کرتے تھے اور جب کلام کرتے تمام سندوں کا موازنہ کرکے کلام کرتے تھے جیساکہ کتب علل اس پر شاہد ہیں۔

اور سارے اقوال سے ہٹ کر اس حدیث کی تضعیف پر مضبوط دلیل موجود ہے اس دلیل کے ہوتے ہوئے کسی بھی امام کا کوئی قول نہ ہوتا تو بھی اس حدیث کی تضعیف ہی کی جائے گی ۔

اس تھریڈ میں شاید یہ میری آخری پوسٹ ہو۔
جہاں میں نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے وہاں فرصت ملنے پر مزید تفصیل لکھ دوں گا۔
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
ھلال بن یساف
یہ تابعین میں سے ہیں اور انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کا دور پایا ہے مگر ان سے سماع ثابت نہیں ہے چنانچہ امام بخاری نے تار یخ الکبیر میں بالجزم نقل کی ہے کہ ان کا سماع ابی مسعود البدری سے ثابت ہے

هلال بْن يساف أَبُو الحسن أدرك عليا قال مروان (ابن معاوية عن اسمعيل ) عَنْ هلال سَمِعَ أبا مَسْعُود الْأَنْصَارِيّ، وقَالَ مروان عَنْ أَبِي مالك عَنْ هلال بْن يساف مولى أشجع، روى عَنْهُ منصور بْن المعتمر وحصين وسَمِعَ سلمة بْن قيس.

اور جامع التحصیل میں موجود ہے
هلال بن يساف كان يحيى بن سعيد ينكر أنه سمع من أبي مسعود البدري وفي التهذيب أنه روى عن أبي الدرداء رضي الله عنه وقال الحافظ الذهبي وكأنه مرسل قلت له رؤية عن علي رضي الله عنه ولم يسمع منه(ترجمہ 853)
امام ابن سعد نے بھی ان کو کوفہ کےطبقہ الثانیہ میں رکھا ہے
اور انہوںان کے اساتذہ میں "سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل القرشى" کا نام موجود ہے
یہاں آپ نے بہت ساری غلطیاں کی ہے لیکن صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ جب انقطاع ثابت ہوجائے سندوں کے دراسہ سے یا ائمہ کی ایسی صراحت سے جس کی کسی امام نے مخالفت نہ کی ہو تو ایسے حالات میں معاصرت سے سماع ثابت نہیں کیا جاتا ہے۔اصول حدیث میں آج تک کسی کا یہ منہج نہیں رہاہے۔


چنانچہ البانی صاحب نے اسی وجہ سے ان کی ایک حدیث کو سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے صحیح قرار دیا ہے
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ فِتْنَةً، فَعَظَّمَ أَمْرَهَا، فَقُلْنَا: - أَوْ قَالُوا: - يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَئِنْ أَدْرَكَتْنَا هَذِهِ لَتُهْلِكَنَّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَلَّا، إِنَّ بِحَسْبِكُمُ الْقَتْلَ» ، قَالَ سَعِيدٌ: «فَرَأَيْتُ إِخْوَانِي قُتِلُوا(سنن ابو داود رقم 4277)
امام بخاری کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسری حدیث ہے۔
اول تو یہاں بھی سماع کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن اگردوسری حدیث ہونے کے سبب معاصرت کی وجہ یہاں سماع مان بھی لیا جائے تو بھی اس سے پہلی حدیث میں سماع ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ پہلی حدیث میں خاص دلیل اورائمہ کے اقوال موجود ہیں کہ وہاں سماع ثابت نہیں ۔

امام بخاری نے عبداللہ بن ظالم المازنی کے ترجمہ میں ان دو احادیث کا ذکر کیا ہے جو عبداللہ بن ظالم سے نقل ہوئی ہیں جس کو غازی صاحب رواۃ کا اختلاف نقل فرما رہے تھے
چنانچہ امام بخاری نے عشرہ مبشرہ والی حدیث نقل کی ہے جو ایک سفیان ثوری کی سند سے آئی ہے اور دوسری حصین بن عبدالرحمن کی سند سے نقل ہوئی ہے

(1) عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ظَالِمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَشَرَةٌ في الْجَنَّةِ، قَاله عُبَيْدُ بْنُ سعيد عن سفيان: عن منصورعَنْ هِلالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ التَّمِيمِيِّ، سَمِعَ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
یہ پہلی سند ہے جس کو غازی صاحب نے امام نسائی کے مطابق انقطاع مانا ہے جبکہ امام بخاری کے نذدیک یہ سند متصل ہے کیونکہ ھلال بن یساف کو 40 ہجری میں موجود مانتے ہیں اور اور سعید بن زید سے ان کی ملاقات ثابت ہے
آپ پہلے تو یہ طے کرلیں کہ امام بخاری نے کتنی حدیث ذکر کی ہے دو یا ایک ۔
کبھی آپ دو کہتے ہیں کبھی ایک ۔
دوسرا یہ کہ امام نسائی نے جس سند کو منقطع کہا ہے امام بخاری نے کدھر بھی اسے متصل نہیں کہا ہے ۔
معاصر ت کاحوالہ دے کر سماع ثابت کرنا یہ صرف آپ کاکارنامہ ہے جوخاص دلیل اورائمہ کی صراحت کے ہوتے ہوئے مردود ہے ۔
آپ اپنے اس مردود استدلال کو امام بخاری کی طرف منسوب نہ کریں۔


اور دوسری حصین سے نقل کی ہے
وَقَالَ مُسَدَّدٌ عَنْ خَالِدٍ عَنْ حُصَيْنٍ مِثْله وَلَمْ يَقُلِ التَّمِيمِيُّ،
اس پر موصوف نے ڈبل انقطاع کا حکم صادر کیا ہے جبکہ اس میں صاف موجود ہے کہ "عن حصین مثلہ ولم یقل التمیمی" حصین کی سند سے بھی اسی طرح بیان ہوا ہے مگر اس میں (عبداللہ بن ظالم) کو التمیمی نہیں کہا ہے
یہ ڈبل منقطع ہی ہے آپ کہنا چاہتے کہ امام بخاری نے التممی لقب کے عدم ذکر کی بات کہی ہے نہ کہ التممی راوی کی ۔
یہ بالکل احمقانہ سمجھ ہے ۔کیونکہ التمیمی اورمازنی دونوں ایک ہی راوی کا لقب ہے اس لئے التیمی کہیں یا مازنی یا کچھ نہ کہیں اس سے سندوں کا اختلاف ثابت ہی نہیں ہوتا اور امام بخاری سندوں کا اختلاف بتلارہے ہیں ۔
بات سمجھا کرو۔


وَقَالَ أَبُو الأَحْوَصِ: عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ هِلالٍ عَنْ سَعِيد عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَزَادَ بَعْضُهُمُ ابْنَ حَيَّانَ فيهِ وَلَمْ يَصِحَّ، وَلَيْسَ لَهُ حَدِيثٌ إِلا هَذَا وَبِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْلُ، رَوَى عَنْهُ عَبْدُ الملك ابن مَيْسَرَةَ.

یہ وہ سند ہے "ابو الاحوص عن منصور عن ھلال عن سعید" اس کے بعد امام بخاری نے یہ بتایا کہ اس دونوں احادیث کی اسناد میں بعض ابن حیان کے واسطے کا اضافہ کرتے ہیں جو صحیح نہیں ہےچنانچہ یہی نقل کیا ہے"
وَزَادَ بَعْضُهُمُ ابْنَ حَيَّانَ فيهِ وَلَمْ يَصِحَّ، "
امام بخاری نے صرف پہلی حدیث پر بات کی ہے ۔دوسری پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اور لم یصح کا تعلق حدیث سے ہے ابن حیان کے اضافہ سے نہیں ۔امام بخاری کے شاگردوں نے یہی سمجھا ہے اور محدثین نے بھی ۔ان کی سمجھ کے سامنے آپ کی سمجھ کی کیا حیثیت ۔


امام بخاری نے اس کا رد کیا ہے کہ جو ھلال بن یساف اور عبداللہ ظالم کے درمیان ابن حیان کے واسطے کے قائل ہیں کیونکہ ھلال بن یساف نے 40 ہجری میں موجود تھے اور ان کو یہ عبداللہ بن ظالم سے روایت کرنے کے لئے کسی واسطے کی حاجت نہیں کیونکہ وہ خود موجود تھے یہاں تک کے سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے بھی ان کا روایت کرنا ثابت ہے
امام بخاری نے ابن حیان کے اضافہ کا رد نہیں کیا ہے لم یصح حدیث پر حکم ہے۔
اور معاصرت والا استدلال آپ کا ہے جسے جبرا امام بخاری کے گلے ڈال رہے ہیں ۔
اور یہ استدلال باطل ہے جیساکہ پہلے بتایاگیا۔


اور پھر امام بخاری نے یہ لکھا کہ" وَلَيْسَ لَهُ حَدِيثٌ إِلا هَذَا وَبِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْلُ، رَوَى عَنْهُ عَبْدُ الملك ابن مَيْسَرَةَ.
"اس (عبداللہ بن ظالم) سے صرف یہ ایک حدیث ثابت ہے اوروہ یہ ہے" وَبِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْلُ،"اس کو عبدالملک بن میسرۃ نے عبداللہ بن ظالم سے روایت کیا ہے
یہاں آپ تضاد کے شکار ہوگئے ۔
اوپر کہا امام بخاری نے دو حدیث بتائی اوریہاں ایک کہ رہے ہیں۔
امام بخاری کے اس جملے کا صحیح مطلب یہ ہے
اور اس کی کوئی حدیث نہیں سوائے اس حدیث (یعنی حدیث عشرہ ) اور یہ حدیث بحسب اصحابی ۔۔۔الخ


دوسری حدیث "بحسب اصحابی القتل" والی کی سند یہ ہے
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ فِتْنَةً، فَعَظَّمَ أَمْرَهَا، فَقُلْنَا: - أَوْ قَالُوا: - يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَئِنْ أَدْرَكَتْنَا هَذِهِ لَتُهْلِكَنَّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَلَّا، إِنَّ بِحَسْبِكُمُ الْقَتْلَ» ، قَالَ سَعِيدٌ: «فَرَأَيْتُ إِخْوَانِي قُتِلُوا»(سنن ابو داود رقم4277)
اسی سند کو شیخ البانی نے ابوداود کی تخریج میں صحیح قرار دیا ہے اور احمد شاکر نے بھی مسند احمد رقم 1630 کے تحت یہ نقل کیا ہے "ھلال بن یساف:تابعی ثقۃ،سبق الکلام علیہ فی610،وقد جزم البخاری فی الکبیربانہ ادرک علیا وسمع ابا مسعود البدری الانصاری، وابو مسعودمات 40 فان یکون سمع سعید بن زید اولی(مسند احمد رقم 1630)
یہاں پھر آپ کا تضاد ۔
درمیاں میں صرف ایک حدیث کی بات کئے اور یہاں دو سری حدیث ۔
اور اس کا جواب اوپر ہوچکا وہ یہ کہ
اول تو یہاں بھی سماع کا کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن اگردوسری حدیث ہونے کے سبب معاصرت کی وجہ یہاں سماع مان بھی لیا جائے تو بھی اس سے پہلی حدیث میں سماع ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ پہلی حدیث میں خاص دلیل اورائمہ کے اقوال موجود ہیں کہ وہاں سماع ثابت نہیں ۔

اس سے ثابت ہے کہ ھلال بن یساف کا سعید بن زید رضی اللہ سے سماع ثابت ہے اور ان کی استاذ شاگردی کو بھی امام مزی نے تھذیب الکمال میں نقل کیا ہے
تہذیب میں استاذ اور شاگرد کی لسٹ سماع پر دلالت نہیں کرتی یہ ایک بچہ بھی جانتا۔


اور اس کی ایک سند اور ہے جس میں ھلال بن یساف نے عبداللہ ظالم سے اسی حدیث کو روایت کیا ہے
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، قَالَ: نَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: نَا مِسْعَرٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بِحَسْبِ أَصْحَابِي الْقَتْل(مسند البزار رقم1262)
امام بخاری کا ان دونوں میں سے ایک حدیث (بحسب اصحابی القتل)کو ماننا اور دوسرے کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ عشرہ مبشرہ والی روایت ان کو صرف ھلال بن یساف عن عبداللہ بن ظالم کی سند سے ملی ہے اور امام بخاری عبداللہ بن ظالم کے ضعف کے قائل تھے چنانچہ ابن حجر رحمہ اللہ تقریب میں نقل کرتے ہیں کہ "صدوق لينه البخارى(تقریب التھذیب) اور دوسری روایت چونکہ ھلال بن یساف عن سعید بن زید رضی اللہ بھی ثابت ہے جیسا ہم نے دونوں اسناد نقل کی ہے اس بنا پر امام بخاری نے دوسری حدیث"بحسب اصحابی القتل" کو صحیح کہا ہے
امام بخاری نے دوسری حدیث پرسکوت کیا ہے صحت کا فیصلہ نہیں اس لئے آپ کی بنیاد ہی غلط ہے اور اس پر نکالا گیا آپ کا نتیجہ بھی غلط ہے۔
اور آپ کی یہ بہت بڑی جسارت ہے کہ اپنی پرجہالت باتوں کو امام بخاری کی طرف منسوب کرتے جارہے ہیں ۔
اور یہ کہنا کہ عشر ہ والی حدیث امام بخاری کو صرف ابن ظالم کی سند سے ملی ہے بالکل باطل ہے۔
امام بخاری کو حدیث عشرہ کی بہت ساری سندوں معلوم ہیں اورامام بخاری حدیث عشرہ کو صحیح بھی مانتے ہیں ۔
لیکن جو حدیث عشرہ ابن ظالم کی سند سے آئی وہ صحیح نہیں مانتے ۔

ان تمام دلائل سے ثابت ہے کہ ھلال بن یساف کا سماع عبداللہ بن ظالم سے بھی ثابت ہے اور سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے
ایک بھی دلیل نہیں دیا آپ نے ۔

چنانچہ اگر اب بھی غازی صاحب یہ مانتے ہیں کہ ھلاف بن یساف کا عبداللہ بن ظالم سے سماع ثابت نہیں اور وہ امام نسائی کے قول پر اعتماد رکھتے ہیں تو پھر موصوف کو یہ ماننا ہو گا کہ سنابلی صاحب نے جو اپنی کتاب "یزید پر الزامات کا جائزہ" میں نقل کیا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کو امیر المومنین کہا ہے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی درخواست کی تھی وہ روایت بھی ضیعف ہو جائے گی پڑھ لیں
اگر کسی ایک حدیث میں کسی راوی کا کسی سے سماع ثابت نہیں تو اس کا یہ مطلب کیسے ہوگیا کہ اس کی ہر روایت میں اس کے ہر استاذ سے اس کا سماع ثابت نہیں ۔

اس میں ھلال بن یساف واقعہ کربلا بتا رہے ہیں اگر ان کا سماع عبداللہ بن ظالم سے ثابت نہیں ہے اور درمیان میں ایک واسطہ موجود ہے جو ابن حیان ہے اس ابن حیان کو صغار تابعین کے دور کا بتایا گیا ہے اور صغائر تابعین نے واقع حرہ کا دور نہیں پایا چنانچہ سنابلی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے
ظالم سے ثابت نہیں ہے اور درمیان میں ایک واسطہ موجود ہے جو ابن حیان ہے اس ابن حیان کو صغار تابعین کے دور کا بتایا گیا ہے اور صغائر تابعین نے واقع حرہ کا دور نہیں پایا چنانچہ سنابلی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے
ھلا ل بن یساف نے کسی روایت کو چھوٹے سے سن لیا تو اس کا یہ مطلب کیسے ہوگا کہ وہ بڑوں سے کوئی روایت سن ہی نہیں سکتا ہے یا اپنے دور کے واقعات کو بھی نہیں جان سکتا۔
حد کردی آپ نے ! محترم ھلال بن اساف خود واقعہ کربلا کا معاصر ہے اور کوفی بھی ہے ۔خوب سمجھ لیں۔

جس طرح ہشام بن حسان نے واقعہ حرہ نہیں پایا اسی طرح پھر ھلال بن یساف نے کس طرح واقعہ کربلا پالیا کیونکہ ان کے شیخ تو صغائر تابعین کے دور کے ہیں
اللہ ہم کو ہدایت دےکہ ہم اس قیمتی علم(علم حدیث) کو بدنام نہ کریں
ہلا ل بن یساف نے علی کا دور پایا اور واقعہ کربلا کا دور نہیں پایا !!!
عقل کس جگہ چھوڑ آئے ہو محترم !
اگرھلال نے کسی خاص روایت کو چھوٹے لوگوں سے سنا تو اس کا یہ مطلب کیسے نکلے گا کہ وہ بڑوں سے کوئی روایت نہیں سکتا یا اپنے دور بلکہ اپنے علاقے کے واقعات بھی نہیں جا ن سکتا؟؟
بے عقلی کی بھی حد ہے یانہیں ؟ '
کیا کیا کہے جارہے ہو۔
 
Top