غازی
رکن
- شمولیت
- فروری 24، 2013
- پیغامات
- 117
- ری ایکشن اسکور
- 183
- پوائنٹ
- 90
اس کی اور بھی اسناد ہیں؟؟دوست
اللہ اپ کو جزا خیر عطا کرے کہ اپ نیک نیت ہے میرا مدعا اپ سمجھ ہی گئے ہیں مگر دوست اس کی اور بھی اسناد ہیں جو اس کو قوی کرتی ہیں
کدھر ہیں یہ اسناد؟؟؟
یہ کلام امام دارقطنی کا نہیں پتہ نہیں کہاں سے آپ نے کاپی پیسٹ کردیا اور اسے امام دارقطنی کا کلام بتا دیا ۔اور دوئم یہ کہ امام بخاری نے ان کو متصل مانا ہے اور اس کے درمیان ایک واسطہ جس کا ذکر امام دارقطنی نے علل میں کیا ہے اس کا انکار کیا ہے چنانچہ
امام دارقطنی لکھتے ہیں" عَبد اللهِ بْنُ ظَالِمٍ.
عَنْ سَعِيد بْنِ زَيد، عَنِ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم؛ عَشرَةٌ في الجَنَّةِ.
قَاله عُبَيد بْن سَعِيد، عَنْ سُفيان، عَنْ مَنصُور، عَنْ هِلاَل بْن يِساف، عَنْ عَبد اللهِ بْنِ ظَالِمٍ التَّمِيميّ، سَمِعَ سَعِيد بْنِ زَيد، عَنِ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم.
وَقَالَ مُسَدَّد: عَنْ خَالِدٍ، عَنْ حُصَين، مِثْله، وَلَمْ يَقُلِ: التَّمِيميّ.
وَقَالَ أَبو الأَحوَص: عَنْ مَنصُور، عَنْ هِلاَل، عَنْ سَعِيد، عَنِ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم.
وَزَادَ بعضُهم: ابْنَ حَيّان، فيهِ، وَلَمْ يَصِحَّ.
وَلَيْسَ لَهُ حَدِيثٌ إِلا هَذَا، وبِحَسبِ أَصحابِي القَتلُ.
بلکہ ان کی کتاب علل کا حوالہ بھی دے دیا ۔
مجھے بتائیں علل میں یہ کلام کہاں ہے ۔جلد وصفحہ کا حوالہ دیں۔
اصل میں یہ کلام امام بخاری کا ہے ۔جیساکہ آگے آرہا ہے۔
امام بخاری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:امام بخاری نے اس انقطاع کا انکار کیا یہ بات ضرور ہے کہ انہوں نے اس عشرہ مبشرہ والی اس طرق کا انکار کیا ہے مگر وہ ان دونوں کے درمیان سماع مانتے ہیں
عبد الله بن ظالم عن سعيد بن زيد عن النبي صلى الله عليه و سلم عشرة في الجنة
قاله عبيد بن سعيد عن سفيان عن منصور عن هلال بن يساف عن عبد الله بن ظالم التميمي سمع سعيد بن زيد عن النبي صلى الله عليه و سلم
وقال مسدد عن خالد عن حصين مثله ولم يقل التميمي
وقال أبو الأحوص عن منصور عن هلال عن سعيد عن النبي صلى الله عليه و سلم
وزاد بعضهم بن حيان فيه
ولم يصح
وليس له حديث إلا هذا وبحسب أصحابي القتل روى عنه عبد الملك بن ميسرة
[التاريخ الكبير للبخاري 5/ 124]
امام بخاری رحمہ اللہ نے نہ تو اس انقطاع کا انکار کیا ہے اور نہ ہی سماع مانتے ہیں ۔
انہوں نے سندوں کا اختلاف ذکر کرکے اس حدیث پر عدم صحت کاحکم لگایا ہے۔
شعیب ارنؤوط نے امام بخاری کے کلام کا یہی مطلب سمجھا ہے لکھتے ہیں:
قلنا: ثم إنه حصل فيه ما حصل من الاختلاف، ولهذا قال البخاري عنه: لم يصح.
وكنا قد ذهلنا عن تعليل البخاري والنسائي لهذا الخبر في "مسند أحمد" فحسناه، فيستدرك من هنا.
(سنن أبي داود ت الأرنؤوط 6/ 333)
امام عقيلي رحمه الله روایت کرتے ہیں:
حدثني آدم بن موسى، قال: سمعت البخاري قال: عبد الله بن ظالم، عن سعيد بن زيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولا يصح[الضعفاء للعقيلي، : 3/ 254]
امام عقیلی کی روایت سے واضح طور پر ثابت ہوگیا کہ امام بخاری عبداللہ بن ظالم عن سعید والی سند کو غیر صحیح قراردیتے ہیں اور سماع ثابت نہیں مانتے ۔
اس سے شعیب ارنووط صاحب کی بات کی تائید ہوتی ہے اور آپ کی بات کی پرزور تردید ہوتی ہے۔
اگر تسلیم کرلیں کہ امام بخاری نے لم یصح سے صرف آخری سند پرکلام کیا ہے تو اس سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ انہوں نے پہلی سند کو متصل مانا ہے؟؟
امام بخاری نے کل چار سندیں پیش کی ہے۔
پہلی سند پیش کی جس پرکوئی خصوصی حکم مذکور نہیں ۔
اس کے بعد دوسری سند پیش کی جو شدید منقطع ہے اس پر بھی کوئی خصوصی کلام نہیں ۔
اس کے بعد تیسری سند پیش کی وہ بھی منقطع ہے۔
پھرچوتھی سند کی طرف اشارہ کیا اس پر آپ کے بقول کلا م کیا ۔
لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوگیا کہ پہلی سند پر صحت یا اتصال کاحکم لگایا ہے؟
درمیاں میں یہ سند بھی ہے:
وقال مسدد عن خالد عن حصين مثله ولم يقل التميمي
یہ ڈبل منقطع ہے ۔اس پر امام بخاری کا کیا فیصلہ مانا جائے گا وہ تو بتائیں ؟؟؟؟
نیز یہ بھی ہے:
وقال أبو الأحوص عن منصور عن هلال عن سعيد عن النبي صلى الله عليه و سلم
یہ بھی منقطع ہے ۔اس پر امام بخاری کا کیا فیصلہ مانا جائے ؟؟؟
شیخ شعیب ارنووط نے صحیح ابن حبا ن کی تحقیق میں جو بھی کہا مگر سنن ابی داؤد کی تحقیق میں انہوں نے اس سند کو ڈبل منقطع ثابت کیا ہے لکھتے ہیں:شیخ شعیب نے بھی اسی بنیاد پر اس روایت کو صحیح کہا ہے چنانچہ صحیح ابن حبان کے حاشیہ میں یہی نقل کیا ہے
قال البخاري في "التاريخ" 5/125 بعد أن ذكر رواية هلال بن يساف، عن عبد الله بن ظالم، عن سعيد بن زيد: وزاد بعضهم ابن حيان فيه ولم يصح
(صحیح ابن حبان 6996)
وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، فإن هلال بن يِساف لم يسمعه من سعيد بن زيد، بينهما فيه رجلان، جاء ذكرهما في رواية سفيان الثوري الآتي ذكرها، أحدهما مبهم، وقال البخاري في "تاريخه الكبير" 5/ 124 عن هذا الحديث: لم يصح[سنن أبي داود ت الأرنؤوط 6/ 333]
نیز امام بخاری کے کلام سے انہوں نے یہاں یہ سمجھا ہے کہ امام بخاری اس حدیث کو ضعیف ہی گردانتے ہیں ۔جیساکہ انہوں نے امام بخاری سے یہاں یہی نقل کیا ہے ۔
اور امام عقیلی کی روایت سے اسی کی تائید ہوتی ہے کما تقدم ۔
بلکہ مسند احمد میں اپنی سابق تحقیق سے رجوع کا اعلان بھی ان الفاظ میں کیا:
وكنا قد ذهلنا عن تعليل البخاري والنسائي لهذا الخبر في "مسند أحمد" فحسناه، فيستدرك من هنا. (سنن أبي داود ت الأرنؤوط 6/ 333)
اور اس اعلان میں تو امام بخاری اور امام نسائی دونوں کی طرف اس حدیث کی تضعیف منسوب کردی ہے۔
اول:اس کے علاوہ شیخ احمد شاکر نے بھی اس میں اتصال ہی مانا ہے (مسند احمد رقم 1630 تحقیق احمد شاکر)
یہاں رقم 1630 کے تحت جو حدیث ہے وہ یہ ہے:
1630 - حدثنا وكيع حدثنا سفيان عن حُصين ومنصور عن هلالابن يسَاف عن سعيد بن زيد، قال وكيع مرةً: قال منصور: عن سعيد بن زيد، وقال مرةً: حصين: عن ابن ظالمٍ عن سعيد بن زيد: أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: اسكُنْ حراء، فليس عليك إلا نبيّ أو صدّيقٌ / أو شهيد، قال: وعليه النبىُّ - صلى الله عليه وسلم -، وأبو بكر، وعمر، وعثمان، َ وَعلى، وطلحة، والزبير، وسعد، وعبد الرحمن ابن وعوف، وسعيد بن زيد، رضى الله عنهم.[مسند أحمد ت شاكر 2/ 290]
اس سند میں خود امام وکیع کا اختلاف ہے ۔
1۔سفيان عن حُصين ومنصور عن هلالابن يسَاف عن سعيد بن زيد
2۔قال منصور: عن سعيد بن زيد
3۔ حصين: عن ابن ظالمٍ عن سعيد بن زيد
یہاں سب سے پہلے تو حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ اما م وکیع کا بیان کردہ کون سا طرق محفوظ ہے ؟
ابتدائی دو تو واضح طور پر منقطع ہیں ۔
اور آخری بھی بقول نسائی منقطع ہے ا س کا کوئی جواب شیخ احمد شاکر نے نہیں دیا ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ اس روایت میں یہ طریق محفوظ ہے اس کی بھی کوئی دلیل نہیں ۔
ان حالات میں شیخ شاکر رحمہ اللہ کا فیصلہ کیونکر قابل قبول ہوسکتا ہے؟؟؟
یہ دیگرسند ہے؟اس کے علاوہ اس کی دیگر سند پیش ہے جس سے اس کی تائید ہوتی ہے
أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ خَطَبَ، فَنَالَ مِنْ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: فَقَامَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " رَسُولُ اللهِ فِي الْجَنَّةِ، وَأَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدٌ فِي الْجَنَّةِ "، ثُمَّ قَالَ: إِنْ شِئْتُمِ أخْبَرْتُكُمْ بِالْعَاشِرِ، ثُمَّ ذَكَرَ نَفْسَهُ(مسند احمد رقم 1638)
امام احمد نے اس کو ھلال بن یساف سے سعید بن زید کی سند سے مختصر نقل کیا ہے
یہ تمام دلائل اس روایت کو ثابت کرتے ہیں۔
میرا مدعا صرف یہ روایت ہے اور کچھ نہیں ہے
اگر دیگر سند ہے تو آپ نے سند اڑا کر صرف متن کیوں درج کیا؟
یہ دیکھ لیں میں پوری سند درج کرتاہوں:
1638 - حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن حصين، عن هلال بن يساف، عن عبد الله بن ظالم، قال: خطب المغيرة بن شعبة فنال من علي، فخرج سعيد بن زيد، فقال: ألا تعجب من هذا يسب عليا؟ . أشهد على رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنا كنا على حراء - أو أحد -، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اثبت حراء - أو أحد - فإنما عليك صديق أو شهيد "، فسمى النبي صلى الله عليه وسلم العشرة فسمى: " أبا بكر، وعمر، وعثمان، وعليا، وطلحة، والزبير، وسعدا، وعبد الرحمن بن عوف، وسمى نفسه سعيدا " ( مسند أحمد ط الرسالة3/ 181)
اس میں بھی ھلال بن یساف عبداللہ بن ظالم سے نقل کرتے ۔
اور عبداللہ بن ظالم سے انہوں نے یہ حدیث نہیں سنی جیساکہ امام نسائی نے کہا۔
پھر یہ دیگر سند کیسے ہوئی ؟؟؟؟؟؟؟