• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم کس کی مانیں محدث فورم کے احادیث کے مجموعہ کی یا کفایت الله صاحب کی

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45


(باب: خلفاء کا بیان)

4648 . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ عَنِ ابْنِ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ وَسُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ ذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ فُلَانٌ إِلَى الْكُوفَةِ، أَقَامَ فُلَانٌ خَطِيبًا، فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ: أَلَا تَرَى إِلَى هَذَا الظَّالِمِ، فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ إِنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ لَمْ إِيثَمْ!-. قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ, وَالْعَرَبُ: تَقُولُ: آثَمُ-، قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَهُوَ عَلَى حِرَاءٍ: >اثْبُتْ حِرَاءُ! إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ<، قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، َأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ. قُلْتُ: وَمَنِ الْعَاشِرُ؟ فَتَلَكَّأَ هُنَيَّةً، ثُمَّ قَالَ: أَنَا. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنِ ابْنِ حَيَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ.

حکم : صحیح

جناب عبداللہ بن ظالم مازنی سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے کہا : جب فلاں کوفے میں آیا اور اس نے فلاں کو خطبے میں کھڑا کیا ( عبداللہ نے کہا ) تو سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے میرے ہاتھ دبائے اور کہا : کیا تم اس ظالم ( خطیب ) کو نہیں دیکھتے ہو ، ( غالباً وہ خطیب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ کہہ رہا تھا ۔ ) میں نو افراد کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں ، اگر دسویں کے بارے میں کہوں تو گناہ گار نہیں ہوں گا ۔ ابن ادریس نے کہا عرب لوگ «آثم» کا لفظ بولتے ہیں ( جبکہ سیدنا سعید نے «لم إيثم» ) ۔ عبداللہ کہتے ہیں ، میں نے پوچھا : وہ نو افراد کون سے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حراء پر کھڑے ہوئے تھے : ” اے حراء ٹھر جا ! تجھ پر سوائے نبی کے یا صدیق کے یا شہید کے اور کوئی نہیں ہے ۔ “ میں نے کہا اور وہ نو کون کون ہیں ؟ کہا : رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص ، ( مالک ) اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم ۔ میں نے پوچھا اور دسواں کون ہے ؟ تو وہ لمحے بھر کے لیے ٹھٹھکے پھر کہا میں ۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو اشجعی نے سفیان سے ، انہوں نے منصور سے ، انہوں نے ہلال بن یساف سے ، انہوں نے ابن حیان سے ، انہوں نے عبداللہ بن ظالم سے اسی کی سند سے مذکورہ بالا کی مانند روایت کیا ہے ۔



یہاں امام ابو داوود رحم الله نے یہاں فلاں فلاں لکھ دیا ہے - اور اس کی سند کو ٹھیک کہا گیا محدث احادیث کے مجموعہ میں

اب فلاں فلاں کا نام اسی سند سے سنن نسائی الکبریٰ میں آئ ہے - سند بلکل یہی ہے

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَصِينٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَعَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْكُوفَةَ أَقَامَ مُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ خُطَبَاءَ يَتَنَاوَلُونَ عَلِيًّا فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ فَقَالَ: «أَلَا تَرَى هَذَا الظَّالِمَ الَّذِي يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ أَنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ قُلْتُ مَنِ التِّسْعَةُ» قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَهُوَ عَلَى حِرَاءٍ: «اثْبُتْ إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ» قَالَ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ» قُلْتُ: مَنِ الْعَاشِرُ قَالَ: «أَنَا»


[السنن الكبرى للنسائي 7/ 333]


لیکن یہاں محدث فورم پر کفایت الله صاحب اس کو ضعیف قرار دے رہے ہیں


یہ بتا دیں کہ حقیقت کیا ہے - ہم کس کی مانیں محدث فورم کے احادیث کے مجموعہ کی یا کفایت الله صاحب کی
@ابن داود @عبدالمنان @عدیل سلفی @محمد نعیم یونس
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
ایک جیسی سند کو ایک جگہ صحیح اور دوسری جگہ ضعیف کہا گیا ہے - اب ایک عام بندہ کیا کرے -
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی
اس فورم پر کئی مرتبہ عرض کیا گیا ہے کہ ایک مراسلے میں دو سے زائد اراکین کو منشن ٹیگ نہ کریں، کیونکہ اس طرح کسی کو بھی اس ٹیگ کی اطلاع موصول نہیں ہوگی، البتہ کوئی رکن فورم پر گشت کرتا ہوا اُس مراسلے میں پہنچ جائے تو علیحدہ بات ہے۔ جیسا کہ میں پہنچا ہوں یہاں پر۔۔ ابتسامہ!
دوسرا آپ سے درخواست ہے کہ مجھے عامی سمجھتے ہوئے، مجھ سے درگزر فرمائیں۔۔ البتہ فورم کے حوالے سے کچھ مسئلہ ہو تو مجھے ٹیگ کرنے میں جھجک محسوس نہ کریں۔
جزاک اللہ خیرا
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
عنوان سے ہی تعصب کی بو آتی ہے. علم حاصل کرنے کا یہ طریقہ غلط ہے.
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@وجاہت صاحب! آپ عام بندے تو معلوم نہیں ہوتے! آپ ایک ''خاص عامی'' معلوم ہوتے ہیں!
آپ عام ہیں یا نہیں، اس سے قطع نظر، لیکن جاہل ضرور ہیں، اور شیطان آپ کی اس جہالت کو استعمال کرتے ہوئے آپ کے واسطے سے وسوسہ پیدا کرنے کا کام لے رہا ہے!

اب دیکھئے:
یہاں امام ابو داوود رحم الله نے یہاں فلاں فلاں لکھ دیا ہے - اور اس کی سند کو ٹھیک کہا گیا محدث احادیث کے مجموعہ میں
یہ آپ کی غلط فہمی ہے، ذرا غور سے دیکھیں، وہاں سند کو صحیح نہیں کہا، بلکہ اس حدیث کو صحیح کہا ہے!
اور یہ بات بھی ذہن میں رہے، اس روایت کے موقوف حصہ کو نہیں، بلکہ اس میں موجود مرفوع حدیث کو!
کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث دوسری اسناد سے بھی ثابت ہے، لہٰذا یہ مرفوع حدیث صحیح ہے۔
اب فلاں فلاں کا نام اسی سند سے سنن نسائی الکبریٰ میں آئ ہے - سند بلکل یہی ہے

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَصِينٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَعَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْكُوفَةَ أَقَامَ مُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ خُطَبَاءَ يَتَنَاوَلُونَ عَلِيًّا فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ فَقَالَ: «أَلَا تَرَى هَذَا الظَّالِمَ الَّذِي يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ أَنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ قُلْتُ مَنِ التِّسْعَةُ» قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَهُوَ عَلَى حِرَاءٍ: «اثْبُتْ إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ» قَالَ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ» قُلْتُ: مَنِ الْعَاشِرُ قَالَ: «أَنَا»


[السنن الكبرى للنسائي 7/ 333]


لیکن یہاں محدث فورم پر کفایت الله صاحب اس کو ضعیف قرار دے رہے ہیں
شیخ کفایت اللہ نے بالکل درست فرمایا ہے، اور اس کی دلیل بھی امام نسائی سے ہی اسی کتاب سے نقل کی ہے، اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس روایت کو امام نسائی نے چند روایات کے آگے پیچھے تین بار بیان کیا ہے، اور اسی روایت کے متعلق پہلی دو بار اس بات کی صراحت کرتے ہوئے کہ ہلال بن یساف نے عبداللہ بن ظالم سے نہیں سنا، یعنی کہ سند منقطع ہے؛

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 327 السنن الكبرى للنسائي - أحمد بن شعيب النسائي - مؤسسة الرسالة

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 332 السنن الكبرى للنسائي - أحمد بن شعيب النسائي - مؤسسة الرسالة

یاد رہے، کہ شیخ کفایت اللہ سنابلی نے اس کی سند پر حکم لگایا ہے، جبکہ اس میں موجود مرفوع حدیث شیخ کفایت اللہ سنابلی کے نزدیک بھی صحیح ہے، لیکن اس روایت کی سند کے ضعیف ہونے کے سبب اس روایت کا موقوف حصہ ثابت نہیں ہوتا، اسی طرح نہ سنن ابو داود کی روایت کا موقف حصہ ثابت ہوگا، کیونکہ دونوں کی سند ایک ہی ہیں، الا یہ کہ کسی دوسری سند سے ثابت ہوجائے، جیسے کہ اس روایت میں موجود مرفوع حدیث دوسری سند سے ثابت ہے!

تو میرے بھائی جان! یہ مرزا جہلمی والا رافضی چورن یہاں نہیں بکے گا!
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@وجاہت صاحب! آپ عام بندے تو معلوم نہیں ہوتے! آپ ایک ''خاص عام'' معلوم ہوتے ہیں!
آپ عام ہیں یا نہیں، اس سے قطع نظر، لیکن جاہل ضرور ہیں، اور شیطان آپ کی اس جہالت کو استعمال کرتے ہوئے آپ کے واسطے سے وسوسہ پیدا کرنے کا کام لے رہا ہے!

اب دیکھئے:

یہ آپ کی غلط فہمی ہے، ذرا غور سے دیکھیں، وہاں سند کو صحیح نہیں کہا، بلکہ اس حدیث کو صحیح کہا ہے!
اور یہ بات بھی ذہن میں رہے، اس روایت کے موقوف حصہ کو نہیں، بلکہ اس میں موجود مرفوع حدیث کو!
کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث دوسری اسناد سے بھی ثابت ہے، لہٰذا یہ مرفوع حدیث صحیح ہے۔


شیخ کفایت اللہ نے بالکل درست فرمایا ہے، اور اس کی دلیل بھی امام نسائی سے ہی اسی کتاب سے نقل کی ہے، اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس روایت کو امام نسائی نے چند روایات کے آگے پیچھے تین بار بیان کیا ہے، اور اسی روایت کے متعلق پہلی دو بار اس بات کی صراحت کرتے ہوئے کہ ہلال بن یساف نے عبداللہ بن ظالم سے نہیں سنا، یعنی کہ سند منقطع ہے؛

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 327 السنن الكبرى للنسائي - أحمد بن شعيب النسائي - مؤسسة الرسالة

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 332 السنن الكبرى للنسائي - أحمد بن شعيب النسائي - مؤسسة الرسالة

یاد رہے، کہ شیخ کفایت اللہ سنابلی نے اس کی سند پر حکم لگایا ہے، جبکہ اس میں موجود مرفوع حدیث شیخ کفایت اللہ سنابلی کے نزدیک بھی صحیح ہے، لیکن اس روایت کی سند کو ضعیف ہونے سے اس روایت کا موقوف حصہ ثابت نہیں ہوتا، اسی طرح نہ سنن ابو داود کی روایت کا موقف حصہ ثابت ہوگا، کیونکہ دونوں کی سند ایک ہی ہیں، الا یہ کہ کسی دوسری سند سے ثابت ہوجائے، جیسے کہ اس روایت میں موجود مرفوع حدیث دوسری سند سے ثابت ہے!

تو میرے بھائی جان! یہ مرزا جہلمی والا رافضی چورن یہاں نہیں بکے گا!
آپ کے القابات کا شکریہ - امید یہی تھی - لیکن کوئی بات نہیں - دلوں کے حال الله بہتر جانتا ہے @ابن داود صاحب دلوں کا حال نہیں جانتے -

یا آپ نہیں سمجھے یا میں سمجھا نہیں سکا -

دونو احادیث کی سند ایک جیسی ہے - سنن ابو داوود کی سند یہ ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ عَنِ ابْنِ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ وَسُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ ذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ

السنن الكبرى للنسائي کی سند

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَصِينٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَعَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنِ زَيْدٍ

مجھے پوچھنا یہ ہے کہ ایک حدیث کی سند دونوں جگہ ایک جیسی ہے - اور یہ کہا جا رہا ہے کہ

ھلال بن یساف نے یہ روایت عبداللہ بن ظالم سے نہیں سنی ہے۔

پھر سنن ابو داوود والی حدیث صحیح کیسے -

ایک بات آئ تو یہاں رکھی - میں آپ کی بات کو سمجھ نہیں سکا - جب دونوں اسناد ایک جیسی ہیں اور اس میں ہلال بن یساف نے یہ روایت عبدالله بن ظالم سے نہیں سنی تو حدیث ایک جگہ صحیح اور ایک جگہ ضعیف کیسے -
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کے القابات کا شکریہ - امید یہی تھی - لیکن کوئی بات نہیں - دلوں کے حال الله بہتر جانتا ہے @ابن داود صاحب دلوں کا حال نہیں جانتے -
ہم نے ایسی کون سی بات کی ہے جس میں دلوں کے حال بتایا گیا ہے؟
ہم نے تو وہی بات کی ہے جو آپ کی تحریر سے ظاہر ہے!
ایک بات آئ تو یہاں رکھی - میں آپ کی بات کو سمجھ نہیں سکا - جب دونوں اسناد ایک جیسی ہیں اور اس میں ہلال بن یساف نے یہ روایت عبدالله بن ظالم سے نہیں سنی تو ایک جگہ صحیح اور ایک جگہ ضعیف کیسے -
ہمارے پچھلے مراسلہ کو بغور پڑھیں! بار بار پڑھیں!
سند دونوں جگہ ضعیف ہے، اور مرفوع حصہ دونوں جگہ جو بیان ہوا ہے، ایک ہی ہے، اور وہ صحیح ہے! کیونکہ دوسری اسناد سے بھی یہ مرفوع حدیث ثابت ہے! جس کا حکم سنن ابو داود کے حوالہ سے آپ نے رقم کیا!
اور سند کا حکم شیخ کفایت اللہ سنابلی نے بتلا دیا! کہ سند ضعیف ہے، اس سند سے بیان کردہ موقوف صحیح نہیں ، جبکہ مرفوع دوسری اسناد سے ثابت ہے!
مرفوع حدیث سنن ابو داود کے حوالہ سے ہی پیش کرتا ہوں، اور وہ بھی اسی روایت سے اگلی روایت ہی ہے:
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنِ الْحُرِّ بْنِ الصَّيَّاحِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَخْنَسِ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْمَسْجِدِ، فَذَكَرَ رَجُلٌ عَلِيًّا- عَلَيْهِ السَّلَام-، فَقَامَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ: أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ يَقُولُ: >عَشْرَةٌ فِي الْجَنَّةِ: النَّبِيُّ فِي الْجَنَّةِ: وَأَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ<. وَلَوْ شِئْتُ لَسَمَّيْتُ الْعَاشِرَ! قَالَ: فَقَالُوا: مَنْ هُوَ؟ فَسَكَتَ، قَالَ: فَقَالُوا: مَنْ هُوَ؟ فَقَالَ: هُوَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ.
حکم : صحیح
جناب عبدالرحمٰن بن الاخنس سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے جب ایک شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا تو سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : ” دس اشخاص جنت میں ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں ہیں ، ابوبکر جنت میں ہیں ، عمر جنت میں ہیں ، عثمان جنت میں ہیں ، علی جنت میں ہیں ، طلحہ جنت میں ہیں ، زبیر بن عوام جنت میں ہیں ، سعد بن مالک جنت میں ہیں اور عبدالرحمٰن بن عوف جنت میں ہیں ۔ “ اگر میں چاہوں تو دسویں کا نام بھی لے سکتا ہوں ۔ لوگوں نے پوچھا وہ کون ہے ؟ تو وہ خاموش ہو رہے ۔ لوگوں نے پوچھا : وہ کون ہے تو انہوں نے کہا : وہ سعید بن زید ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں: سنن أبي داؤد: كِتَابُ السُّنَّةِ »» بَابٌ فِي الْخُلَفَاءِ
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ہم نے ایسی کون سی بات کی ہے جس میں دلوں کے حال بتایا گیا ہے؟
ہم نے تو وہی بات کی ہے جو آپ کی تحریر سے ظاہر ہے!

ہمارے پچھلے مراسلہ کو بغور پڑھیں! بار بار پڑھیں!
سند دونوں جگہ ضعیف ہے، اور مرفوع حصہ دونوں جگہ جو بیان ہوا ہے، ایک ہی ہے، اور وہ صحیح ہے! کیونکہ دوسری اسناد سے بھی یہ مرفوع حدیث ثابت ہے! جس کا حکم سنن ابو داود کے حوالہ سے آپ نے رقم کیا!
اور سند کا حکم شیخ کفایت اللہ سنابلی نے بتلا دیا! کہ سند ضعیف ہے، اس سند سے بیان کردہ موقوف صحیح نہیں ، جبکہ مرفوع دوسری اسناد سے ثابت ہے!
مرفوع حدیث سنن ابو داود کے حوالہ سے ہی پیش کرتا ہوں، اور وہ بھی اسی روایت سے اگلی روایت ہی ہے:
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنِ الْحُرِّ بْنِ الصَّيَّاحِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَخْنَسِ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْمَسْجِدِ، فَذَكَرَ رَجُلٌ عَلِيًّا- عَلَيْهِ السَّلَام-، فَقَامَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ: أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ يَقُولُ: >عَشْرَةٌ فِي الْجَنَّةِ: النَّبِيُّ فِي الْجَنَّةِ: وَأَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ<. وَلَوْ شِئْتُ لَسَمَّيْتُ الْعَاشِرَ! قَالَ: فَقَالُوا: مَنْ هُوَ؟ فَسَكَتَ، قَالَ: فَقَالُوا: مَنْ هُوَ؟ فَقَالَ: هُوَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ.
حکم : صحیح
جناب عبدالرحمٰن بن الاخنس سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے جب ایک شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا تو سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : ” دس اشخاص جنت میں ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں ہیں ، ابوبکر جنت میں ہیں ، عمر جنت میں ہیں ، عثمان جنت میں ہیں ، علی جنت میں ہیں ، طلحہ جنت میں ہیں ، زبیر بن عوام جنت میں ہیں ، سعد بن مالک جنت میں ہیں اور عبدالرحمٰن بن عوف جنت میں ہیں ۔ “ اگر میں چاہوں تو دسویں کا نام بھی لے سکتا ہوں ۔ لوگوں نے پوچھا وہ کون ہے ؟ تو وہ خاموش ہو رہے ۔ لوگوں نے پوچھا : وہ کون ہے تو انہوں نے کہا : وہ سعید بن زید ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں: سنن أبي داؤد: كِتَابُ السُّنَّةِ »» بَابٌ فِي الْخُلَفَاءِ
میں آپ کی بات ابھی بھی نہیں سمجھ رہا -


(باب: خلفاء کا بیان)

4648 .
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ عَنِ ابْنِ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ وَسُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ ذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ فُلَانٌ إِلَى الْكُوفَةِ، أَقَامَ فُلَانٌ خَطِيبًا، فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ: أَلَا تَرَى إِلَى هَذَا الظَّالِمِ، فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ إِنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ لَمْ إِيثَمْ!-. قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ, وَالْعَرَبُ: تَقُولُ: آثَمُ-، قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَهُوَ عَلَى حِرَاءٍ: >اثْبُتْ حِرَاءُ! إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ<، قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، َأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ. قُلْتُ: وَمَنِ الْعَاشِرُ؟ فَتَلَكَّأَ هُنَيَّةً، ثُمَّ قَالَ: أَنَا. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنِ ابْنِ حَيَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ.

حکم : صحیح

جناب عبداللہ بن ظالم مازنی سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے کہا : جب فلاں کوفے میں آیا اور اس نے فلاں کو خطبے میں کھڑا کیا ( عبداللہ نے کہا ) تو سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے میرے ہاتھ دبائے اور کہا : کیا تم اس ظالم ( خطیب ) کو نہیں دیکھتے ہو ، ( غالباً وہ خطیب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ کہہ رہا تھا ۔ ) میں نو افراد کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں ، اگر دسویں کے بارے میں کہوں تو گناہ گار نہیں ہوں گا ۔ ابن ادریس نے کہا عرب لوگ «آثم» کا لفظ بولتے ہیں ( جبکہ سیدنا سعید نے «لم إيثم» ) ۔ عبداللہ کہتے ہیں ، میں نے پوچھا : وہ نو افراد کون سے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حراء پر کھڑے ہوئے تھے : ” اے حراء ٹھر جا ! تجھ پر سوائے نبی کے یا صدیق کے یا شہید کے اور کوئی نہیں ہے ۔ “ میں نے کہا اور وہ نو کون کون ہیں ؟ کہا : رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص ، ( مالک ) اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم ۔ میں نے پوچھا اور دسواں کون ہے ؟ تو وہ لمحے بھر کے لیے ٹھٹھکے پھر کہا میں ۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو اشجعی نے سفیان سے ، انہوں نے منصور سے ، انہوں نے ہلال بن یساف سے ، انہوں نے ابن حیان سے ، انہوں نے عبداللہ بن ظالم سے اسی کی سند سے مذکورہ بالا کی مانند روایت کیا ہے ۔
کیا یہ حدیث صحیح ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
میں آپ کی بات ابھی بھی نہیں سمجھ رہا -


(باب: خلفاء کا بیان)

4648 .
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ عَنِ ابْنِ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ وَسُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ ذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ فُلَانٌ إِلَى الْكُوفَةِ، أَقَامَ فُلَانٌ خَطِيبًا، فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ: أَلَا تَرَى إِلَى هَذَا الظَّالِمِ، فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ إِنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ لَمْ إِيثَمْ!-. قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ, وَالْعَرَبُ: تَقُولُ: آثَمُ-، قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَهُوَ عَلَى حِرَاءٍ: >اثْبُتْ حِرَاءُ! إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ<، قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، َأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ. قُلْتُ: وَمَنِ الْعَاشِرُ؟ فَتَلَكَّأَ هُنَيَّةً، ثُمَّ قَالَ: أَنَا. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنِ ابْنِ حَيَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ.

حکم : صحیح

جناب عبداللہ بن ظالم مازنی سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے کہا : جب فلاں کوفے میں آیا اور اس نے فلاں کو خطبے میں کھڑا کیا ( عبداللہ نے کہا ) تو سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے میرے ہاتھ دبائے اور کہا : کیا تم اس ظالم ( خطیب ) کو نہیں دیکھتے ہو ، ( غالباً وہ خطیب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ کہہ رہا تھا ۔ ) میں نو افراد کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں ، اگر دسویں کے بارے میں کہوں تو گناہ گار نہیں ہوں گا ۔ ابن ادریس نے کہا عرب لوگ «آثم» کا لفظ بولتے ہیں ( جبکہ سیدنا سعید نے «لم إيثم» ) ۔ عبداللہ کہتے ہیں ، میں نے پوچھا : وہ نو افراد کون سے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حراء پر کھڑے ہوئے تھے : ” اے حراء ٹھر جا ! تجھ پر سوائے نبی کے یا صدیق کے یا شہید کے اور کوئی نہیں ہے ۔ “ میں نے کہا اور وہ نو کون کون ہیں ؟ کہا : رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص ، ( مالک ) اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم ۔ میں نے پوچھا اور دسواں کون ہے ؟ تو وہ لمحے بھر کے لیے ٹھٹھکے پھر کہا میں ۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو اشجعی نے سفیان سے ، انہوں نے منصور سے ، انہوں نے ہلال بن یساف سے ، انہوں نے ابن حیان سے ، انہوں نے عبداللہ بن ظالم سے اسی کی سند سے مذکورہ بالا کی مانند روایت کیا ہے ۔
کیا یہ حدیث صحیح ہے
اس روایت میں مرفوع حدیث صحیح ہے، جبکہ اس روایت کی سند منقطع یعنی ضعیف ہے!
 
Top