السلام علیکم وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
انتہائی معذرت کے ساتھ کہ اس روایت کو هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِم میں انقطاع کی وجہ سے ضعیف کہا جا رہا تھا میں نے اس کی ایک اور سند نقل کی ہے جس سے اس روایت کا کم از کم حسن ہونا ثابت ہے
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ صَدَقَةَ بْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنِي رِيَاحُ بْنُ الْحَارِثِ: أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ (1) كَانَ فِي الْمَسْجِدِ الْأَكْبَرِ، وَعِنْدَهُ أَهْلُ الْكُوفَةِ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ يَسَارِهِ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ يُدْعَى سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ، فَحَيَّاهُ الْمُغِيرَةُ وَأَجْلَسَهُ عِنْدَ رِجْلَيْهِ عَلَى السَّرِيرِ. فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ فَاسْتَقْبَلَ الْمُغِيرَةَ، فَسَبَّ وَسَبَّ، فَقَالَ: مَنْ يَسُبُّ هَذَا يَا مُغِيرَةُ؟ قَالَ: يَسُبُّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: يَا مُغِيرَ بْنَ شُعْبَ، يَا مُغِيرَ بْنَ شُعْبَ ثَلاثًا، أَلا أَسْمَعُ أَصْحَابَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَبُّونَ عِنْدَكَ؟ لَا تُنْكِرُ وَلا تُغَيِّرُ، فَأَنَا أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمَا سَمِعَتِ أذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنِّي لَمْ أَكُنِ أرْوِي عَنْهُ كَذِبًا يَسْأَلُنِي عَنْهُ إِذَا لَقِيتُهُ، أَنَّهُ قَالَ: " أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ فِي الْجَنَّةِ، وَتَاسِعُ الْمُؤْمِنِينَ فِي الْجَنَّةِ " لَوْ شِئْتُ أَنْ أُسَمِّيَهُ لَسَمَّيْتُهُ، قَالَ: فَضَجَّ أَهْلُ الْمَسْجِدِ يُنَاشِدُونَهُ يَا صَاحِبَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنِ التَّاسِعُ؟ قَالَ: نَاشَدْتُمُونِي بِاللهِ، وَاللهِ عَظِيم(مسند احمد رقم 1629)
اس کا ترجمہ وجاہت صاحب نے نقل کیا ہے:
ایک مرتبہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کوفہ کی جامع مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے، ان کے دائیں بائیں اہل کوفہ بیٹھے ہوئے تھے، اتنی دیر میں حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ آگئے، حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں خوش آمدید کہا اور چارپائی کی پائنتی کے پاس انہیں بٹھا لیا، کچھ دیر کے بعد ایک کوفی حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کے سامنے آکر کھڑا ہوا اور کسی کو گالیاں دینے لگا، انہوں نے پوچھا مغیرہ! یہ کسے برا بھلا کہہ رہا ہے؟ انہوں نے کہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو، انہوں نے تین مرتبہ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کو ان کا نام لے کر پکارا اور فرمایا آپ کی موجودگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو برا بھلا کہا جارہا ہے اور آپ لوگوں کو منع نہیں کر رہے اور نہ اپنی مجلس کو تبدیل کر رہے ہیں؟ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ میرے کانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے اور میرے دل نے اسے محفوظ کیا ہے اور میں ان سے کوئی جھوٹی بات روایت نہیں کرتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو بکر جنت میں ہوں گے، عمر، علی، عثمان، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن مالک رضی اللہ عنہم اور ایک نواں مسلمان بھی جنت میں ہوگا، جس کا نام اگر میں بتانا چاہتا تو بتا سکتا ہوں ۔ اہل مسجد نے بآواز بلند انہیں قسم دے کر پوچھا کہ اے صحابی رسول! وہ نواں آدمی کون ہے؟ فرمایا تم مجھے اللہ کی قسم دے رہے ہو، اللہ کا نام بہت بڑا ہے، وہ نواں آدمی میں ہی ہوں اور دسویں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے، اس کے بعد وہ دائیں طرف چلے گئے اور فرمایا کہ بخدا! وہ ایک غزوہ جس میں کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا اور اس میں اس کا چہرہ غبار آلود ہوا، وہ تمہارے ہر عمل سے افضل ہے اگرچہ تمہیں عمر نوح ہی مل جائے۔
میرے بھائی! آپ کا یوزر آئی دی مجھے بہت پسند ہے، مگر اس آئی ڈی کا لحاظ رکھا جائے!
آپ دونوں روایت کا موقف حصہ دیکھیں! کیا وہ دونوں ایک ہی ہے، آپ کی پیش کردہ مسند احمد کی هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِم والی روایت کا مؤقوف حصہ تو والی روایت کے مؤقف حصہ کے بلکل الگ ہی نہیں بلکہ خلاف ہے!
لہٰذا یہ مؤقوف روایت حسن نہیں ہوتی بلکہ اس کا ضعف مزید واضح ہوجاتا ہے۔
دیکھیں سنن ابو داود اور سنن کبری نسائی کی جس روایت کے موقوف حصہ کو ہم ضعیف کہہ رہے ہیں وہ کیا ہے:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ عَنِ ابْنِ إِدْرِيسَ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ وَسُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ ذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ فُلَانٌ إِلَى الْكُوفَةِ، أَقَامَ فُلَانٌ خَطِيبًا، فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، فَقَالَ: أَلَا تَرَى إِلَى هَذَا الظَّالِمِ، فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ إِنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ لَمْ إِيثَمْ!-. قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ, وَالْعَرَبُ: تَقُولُ: آثَمُ-، قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَهُوَ عَلَى حِرَاءٍ: >اثْبُتْ حِرَاءُ! إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدٌ<، قُلْتُ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، َأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ. قُلْتُ: وَمَنِ الْعَاشِرُ؟ فَتَلَكَّأَ هُنَيَّةً، ثُمَّ قَالَ: أَنَا. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنِ ابْنِ حَيَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ.
جناب عبداللہ بن ظالم مازنی سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے کہا : جب فلاں کوفے میں آیا اور اس نے فلاں کو خطبے میں کھڑا کیا ( عبداللہ نے کہا ) تو سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے میرے ہاتھ دبائے اور کہا : کیا تم اس ظالم ( خطیب ) کو نہیں دیکھتے ہو ، ( غالباً وہ خطیب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ کہہ رہا تھا ۔ ) میں نو افراد کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں ، اگر دسویں کے بارے میں کہوں تو گناہ گار نہیں ہوں گا ۔ ابن ادریس نے کہا عرب لوگ «آثم» کا لفظ بولتے ہیں ( جبکہ سیدنا سعید نے «لم إيثم» ) ۔ عبداللہ کہتے ہیں ، میں نے پوچھا : وہ نو افراد کون سے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حراء پر کھڑے ہوئے تھے : ” اے حراء ٹھر جا ! تجھ پر سوائے نبی کے یا صدیق کے یا شہید کے اور کوئی نہیں ہے ۔ “ میں نے کہا اور وہ نو کون کون ہیں ؟ کہا : رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص ، ( مالک ) اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم ۔ میں نے پوچھا اور دسواں کون ہے ؟ تو وہ لمحے بھر کے لیے ٹھٹھکے پھر کہا میں ۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو اشجعی نے سفیان سے ، انہوں نے منصور سے ، انہوں نے ہلال بن یساف سے ، انہوں نے ابن حیان سے ، انہوں نے عبداللہ بن ظالم سے اسی کی سند سے مذکورہ بالا کی مانند روایت کیا ہے ۔
اور سنن نسائی کبری میں:
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَصِينٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَعَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ، وَذَكَرَ سُفْيَانُ رَجُلًا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ ظَالِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْكُوفَةَ أَقَامَ مُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ خُطَبَاءَ يَتَنَاوَلُونَ عَلِيًّا فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ فَقَالَ: «أَلَا تَرَى هَذَا الظَّالِمَ الَّذِي يَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَأَشْهَدُ عَلَى التِّسْعَةِ أَنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَى الْعَاشِرِ قُلْتُ مَنِ التِّسْعَةُ» قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَهُوَ عَلَى حِرَاءٍ: «اثْبُتْ إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ» قَالَ: وَمَنِ التِّسْعَةُ؟ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ» قُلْتُ: مَنِ الْعَاشِرُ قَالَ: «أَنَا»
مسند احمد کی روایت سنن ابو داود میں بھی موجود ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْمُثَنَّى النَّخَعِيُّ، حَدَّثَنِي جَدِّي رِيَاحُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: كُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ فُلَانٍ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ، وَعِنْدَهُ أَهْلُ الْكُوفَةِ، فَجَاءَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، فَرَحَّبَ بِهِ وَحَيَّاهُ، وَأَقْعَدَهُ عِنْدَ رِجْلِهِ عَلَى السَّرِيرِ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ يُقَالُ لَهُ: قَيْسُ بْنُ عَلْقَمَةَ-، فَاسْتَقْبَلَهُ فَسَبَّ وَسَبَّ، فَقَالَ سَعِيدٌ: مَنْ يَسُبُّ هَذَا الرَّجُلُ؟ قَالَ: يَسُبُّ عَلِيًّا، قَالَ: أَلَا أَرَى أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَبُّونَ عِنْدَكَ! ثُمَّ لَا تُنْكِرُ وَلَا تُغَيِّرُ! أَنَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ- وَإِنِّي لَغَنِيٌّ أَنْ أَقُولَ عَلَيْهِ مَا لَمْ يَقُلْ، فَيَسْأَلَنِي عَنْهُ غَدًا إِذَا لَقِيتُهُ-:- >أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ<... وَسَاقَ مَعْنَاهُ، ثُمَّ قَالَ: لَمَشْهَدُ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَغْبَرُّ فِيهِ وَجْهُهُ, خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمُرَهُ، وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوحٍ.
ریاح بن حارث کا بیان ہے کہ میں کوفہ کی مسجد میں فلاں کے پاس بیٹھا ہوا تھا ۔ ( اشارہ ہے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی طرف ) اور ان کے پاس اہل کوفہ کے کچھ لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ تو سیدنا سعید بن زبیر بن عمرہ بن نفیل رضی اللہ عنہ تشریف لائے ۔ پس انہوں ( مغیرہ ) نے انکو مرحبا کہا اور خوش آمدید کہا اور پھر انہیں اپنی چارپائی کی پائنتی کی طرف بٹھا لیا ۔ پھر اہل کوفہ میں سے ایک شخص آیا جس کا نام قیس بن علقمہ تھا ۔ انہوں نے اس کا بھی استقبال کیا ۔ پھر اس نے بدگوئی کی اور بدگوئی کی ۔ سعید نے پوچھا یہ کسے گالیاں دے رہا ہے ؟ کہا : سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ۔ تو سعید نے کہا : ( تعجب ہے ) میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سامنے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہا جا رہا ہے اور آپ ہیں کہ اسے ٹوکتے ہی نہیں اور نہ سمجھاتے ہیں ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے ، اور مجھے کوئی ایسی نہیں پڑی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ایسی بات کہہ دوں جو آپ نے نہ کہی ہو پھر کل جب آپ سے میری ملاقات ہو اور وہ مجھ سے پوچھ لیں ” ابوبکر جنت میں ہے ، عمر جنت میں ہے ۔ “ اور مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی روایت کیا ۔ پھر کہا ان میں سے کسی ایک کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( جہاد میں ) حاضر رہنا اور اس کے چہرے کا غبار آلود ہو جانا تمہاری ساری زندگی کے اعمال سے کہیں بہتر ہے خواہ تمہیں سیدنا نوح علیہ السلام کی زندگی ہی کیوں نہ مل جائے ۔
سنن أبي داؤد: كِتَابُ السُّنَّةِ »» بَابٌ فِي الْخُلَفَاءِ