عبداللہ طارق سہیل کا تجزیہ
بھارت میں مزے دار ماجرا ہوا ہے۔ نریندر مودی ایک چھوٹے طبقے (برہمنی لغت کے مطابق) کا چھوٹا آدمی ہے جس نے ہر موقع پر خود کا چھوٹا ہونا ثابت بھی کیا ہے۔ بھارتی عوام نے اسے بے مثال اکثریت سے اپنا نیتا چنا ہے لیکن اس کے پیچھے عوام کی آزادانہ رائے نہیں تھی۔ جمہوریت میں عوام کی آزادانہ رائے ہوتی بھی نہیں' بہت سے کھلاڑی ایسی فضا بناتے ہیں جو عوام کی رائے کو مرضی کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔ بھارت میں بھی یہی ہوا۔ برہمنی اشرافیہ کے علاوہ کارپوریٹ ایلیٹ نے ایسا ماحول بنایا اور اتنا سرمایہ لگایا کہ مودی جیت گیا اور کارپوریٹ کلاس کے پیچھے امریکہ بھی تھا اور اشرافیہ کی یہی پشت پناہی مزے دار بات ہے۔ بھارتی برہمنی اور کارپوریٹ اشرافیہ نے اپنی ترجمانی' نمائندگی اور نگہبانی کیلئے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا جو شودر سے کچھ ہی اوپر ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ پہلی بار برہمن اور شودر کے مفادات ایک ہو گئے۔ کانگریس کو اس کی نااہلی کی سزا شاید اتنی نہ ملتی اگر مسلمان نیم دلی سے اس کے ساتھ نہ ہوتے لیکن کانگرس نے مسلمانوں سے ہمیشہ کی طرح برا کیا۔ اس کی سوچ تھی کچھ بھی ہو' مسلمانوں نے کہاں جانا ہے۔
اب کیا ہوگا۔ بھارتی مسلمان بہت خوفزدہ ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نریندر مودی حکومت میں آ کر اپنا رویہّ بدل لے گا' دنیا میں اس کی بہت بدنامی ہے اور امریکہ نے تو (مجبوراً) اس کا داخلہ بھی منع کر رکھا ہے۔ وہ اس امیج کو بہتر بنائے گا اور اقلیتوں سے اچھا سلوک کرے گا۔ اقلیتوں سے مراد مسلمان ہیں۔ اس لئے کہ دوسری اقلیت سکھ ہیں' جن سے کوئی برا سلوک پہلے بھی نہیں ہو رہا۔ ان سے جو برا سلوک کانگرس 80ء کی دہائی میں کر گئی' وہی کافی ہے۔ ویسے بھی سکھ اتنی چھوٹی اقلیت ہیں کہ برہمنی اشرافیہ کو زیادہ پریشانی نہیں ۔ ان سے ''انتقام'' لینے کی بہت زیادہ وجوہات بھی نہیں ۔دوسری اقلیت عیسائی ہیں۔ اُن سے برا سلوک ہو رہا ہے لیکن اتنا برا نہیں جتنا مسلمانوں کے حصہ میں آیا ہے۔
لیکن مسئلہ صرف امیج بنانے کا نہیں ہے۔ بھارت میں سنگ پریوار کے دو حصے ہیں۔ ایک وہ جو یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان پہلے ہندو تھے' پھر دھرم بدل لیا۔ اب انہیں ان کے ''اصلی'' دھرم پر نہ لایا گیا تو بھارت ماتا دودھ نہیں بخشے گی۔ یہ لوگ شدھی ہو جائیں تو باہر سے آئے مسلمان (ترک' افغان' عرب) تھوڑے ہی رہ جائیں گے' ان کو برداشت کر لیں گے۔ سنگ پریوار کا دوسرا حصہ وہ ہے جو مہاراشٹر اور گجرات میں آباد ہے۔ یہ صرف شدھی کے طلبگار نہیں' ان کا مسئلہ انتقام بھی ہے۔ انہی سرزمینوں سے مراٹھے اٹھے تھے جن کو احمد شاہ ابدالی نے بہت بری مار ماری تھی اور انہیں تتر بتر کر دیا تھا۔ یہ لوگ بدلے کی آگ میں نہ جانے کب سے جل رہے ہیں۔ انہیں مسلمانوں کا وجود گوارا نہیں۔ سنگ پریوار میں سینکڑوں لیڈر ایسے ہوئے کہ مسلمانوں سے نفرت اور دشمنی میں ایک سے بڑھ کر ایک تھا لیکن کیا کبھی ان کے منہ سے ایسا فقرہ سنا جو مودی نے کہا؟ مودی سے پوچھا گیا کہ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا تو مودی نے کہا ہاں مجھے دکھ ہوا' میری کار کے نیچے آ کر کتے کا بچہ مر جائے تو مجھے دکھ ہوتا ہے۔
ایسا فقرہ کہنے والا اور شدھی کی آشا کے ساتھ ساتھ بدلے کی بھاؤنا میں جلتا نریندر مودی اپنا عالمی امیج ٹھیک کرنے کیلئے خود کو آخر کتنا بدلے گا اور اس کے ہزاروں کارسیوک کیا کریں گے ۔وہ اس کے ساتھ اس لئے تھے کہ اس کی سرکار آئے گی تو کھل کر ہولی کھیلیں گے۔ بی جے پی نے پچھلے مہینوں یو پی میں مسلمانوں کے کئی قتل عام کئے اور یہ قتل عام شدھی کا حصہ تھے نہ بدلے کا' یہ ہندو ووٹروں کا دل جیتنے کیلئے کرائے گئے تھے۔ مسلم دشمنی کا جو سبق بی جے پی نے ووٹروں کو پڑھا دیا ہے' حکومت میں آ کر خود ہی اسے بھول جائے گی؟ لگتا نہیں ہے کہ ایسی کایا کلپ دیکھنے کو ملے گی۔
بھارت کے مسلمانوں کیلئے یہ Blessing in Disguise ہو سکتی ہے۔ اب تک بھارت کے مسلمان دو وجہ سے مار کھاتے رہے۔ ایک تو یہ خیالِ باطل ان کے ذہن میں تھا کہ پاکستان انکی مدد کرے گا۔ یہ تو انہیں سمجھ آ گئی ہے کہ ان کا تو کیا' پاکستان کشمیریوں کی مدد بھی نہیں کرے گا۔ دوسری وجہ یہ کہ انہوں نے ''انصاف'' کی تلاش کی۔ جو اقلّیت انصاف کو ہدف بنا لے' وہ مار کھاتی ہے' اس لئے کہ انصاف کا ملنا ناممکن ہے۔ اس کے بجائے حالات سے سمجھوتہ کر کے جینے کی راہ ڈھونڈنا پڑتی ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے ملازمتیں ملیں۔ وہ انہیں کبھی ملیں نہ ملیں گی۔ راستہ یہ ہے کہ مسلمان محنت کے ذاتی کاروبار کریں۔ اچھی بات یہ ہے کہ بھارتی مسلمانوں کا ایک خاصا بڑا حصہ صورتحال کو سمجھ چکا ہے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوششیں بھی کر رہا ہے۔انہیں یہ بھی احساس ہو گیا ہے کہ ہندو جنونی قتل عام سے پہلے انہیں مشتعل کرتے ہیں' پھر واردات کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں انہیں صبر کرنا چاہئے اور وہ کر رہے ہیں۔
بھارت کی مسلمان قیادت بہت نالائق اور کافی بری ہے لیکن پاکستان کی قیادت سے پھر بھی اچھی ہے۔ چنانچہ مسلمان قیادت نے یہ بھی سیکھ لیا ہے کہ اتحاد کی جماعتیں بنا کر ہندوؤں کو ''خوفزدہ'' نہ کیا جائے۔ انہیں یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ اردو کی حفاظت کوئی بھی حکومت نہیں کرے گی' یہ کام انہی کو کرنا ہوگا۔ چنانچہ اس طرف بھی توجہ ہو رہی ہے۔ اردو کو بہرحال یہ ''بالادستی'' ہے کہ بھارت کی فلمی صنعت اردو کے بغیر چل نہیں سکتی۔ فلموں کے 90 فیصد گانے اردو میں ہوتے ہیں اور پچاس فیصد ہندی فلمیں اصل میں اردو فلمیں ہوتی ہیں۔ باقی پچاس فیصد میں بھی اکثریت ان فلموں کی ہے جن کی بولی اردو کے قریب ہے۔ شدھ ہندی والی فلم زیادہ نہیں چلتی۔
بھارت میں جو ہوگا وہ تو ہوگا' مزے کا منظر پاکستان میں ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف بے چین ہیں کہ بھارت سے دوستی کا سفر وہیں سے شروع کریں جہاں سے کارگل کے موقع پر ٹوٹا تھا۔ کیا ان کی ''محبت'' کا جواب مودی سرکار محبت سے دے گی؟ کہنا مشکل ہے لیکن یہ سمجھنا آسان ہے کہ نواز شریف کے ساتھ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کیا کرے گی۔ پہلے ہی وہ گوادر پورٹ کو فعال کرنے کا اعلان کر کے امریکہ کو ناراض کر چکے ہیں اور امریکہ ناراض تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سوا ناراض۔اسٹیبلشمنٹ بھارت سے امن کیخلاف ہے' یہ بھی ہر کوئی جانتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا کام مودی کی آمد سے آسان ہو گیا' نواز شریف کا مشکل ہو گیا۔ لیکن ایسی باتوں کا اصل فیصلہ صرف حالات کاجائزہ لے کر نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی بساط سیاست پر کچھ فیصلے ''معجزے'' بھی کرتے ہیں۔ مثلاً جب پاکستان ایٹم بم بنا رہا تھا تو امریکہ اس کا گلا دبانے کا فیصلہ کر چکا تھا اور کون تھا جو امریکہ کو روک سکتا۔ لیکن افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کی انہونی ہو گئی۔ دنیا میں وہ کہرام مچا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا راستہ صاف ہو گیا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ سوچ رہا تھا کہ اب وہ بلا شرکت غیرے دنیا کا مالک و مختار بن جائے گا لیکن پھر نائن الیون ہو گیا۔ اس کے بعد جو دہشتگرد جنگ امریکہ نے شروع کی اس میں لاکھوں مسلمان مارے گئے لیکن امریکہ بھی اس جنگ میں ایسا الجھ کے رہ گیا کہ ادھر چین طاقت بن گیا تو ادھر روس نے بھی پر پرزے نکالے۔ یوکرائن کا بحران بھی ایسا ہی واقعہ ہے جو امریکہ کی ''گلوبل پلاننگ'' میں شامل نہیں تھا۔ امریکہ چاہتا تھا کہ پاکستان کو تو موقع آنے پر دیکھ لیں گے لیکن اب اور کسی مسلمان ملک کو ایٹمی طاقت بننے کی اجازت نہیں دے گا لیکن پھر امریکہ ہی نے ایسی غلطی کر دی کہ نتیجے میں سعودی عرب ایٹمی طاقت بننے کی راہ پر چل پڑا ہے۔
نواز شریف کو بھارت کے ساتھ دوستی ہی کا رویہ رکھنا چاہئے۔ محاذ آرائی میں بھارت بھاری پڑے گا اور ہمارے ہاں ترقی کے جو تھوڑے بہت دروازے کھلے ہیں یا کھلنے والے ہیں' ان کا بیڑا غرق ہو جائے گا۔ ان کی دوستی کی مہم کا جواب بھارت اکڑ فوں سے دے گا تو عالمی رائے عامہ مودی کے ساتھ وہی کرے گی جو مودیوں سے کیا جانا چاہئے۔ مودی نے بہت سپنے دیکھے ہوں گے لیکن افغانستان میں اس کی ''سرمایہ کاری'' کا جو حشر ہونے والا ہے' امریکہ بھی اسے ہونے سے نہیں روک سکے گا۔ مودی سرکار اس کا غصہ بھی پاکستان پر نکالے گی جس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بھارت پہلے ہی اتنے غصے پاکستان پر نکال رہا ہے کہ شمار کرنا مشکل ہے۔ جہاں اتنے غصے ہیں تو ایک اور سہی۔ع
ایں ہمہ برسر علم