• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہندوستانی پارلیمانی انتخاب 2014 - اب کی بار مودی سرکار

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ارے ہاں ۔۔۔ ابھی ابھی میں نے دیکھا ہے کہ اس تھریڈ کے تمام مراسلات کو آپ جناب نے "ناپسند" کیا ہے۔ جس کی دو وجوہات میری ناقص سمجھ میں یہ آتی ہیں :
یا تو آپ انٹرنیٹ (یا فورمز) کی دنیا میں ایکدم نئے ہیں اور یوں انٹرنیٹ کی اردو کمیونیٹی میں راقم الحروم کے تقریباَ ایک دہا طویل کاز سے ناواقف ہیں
یا پھر آپ زیریں سطح کی طنزیہ رپورٹنگ کے لب و لہجہ سے یکسر نابلد ہیں!

تھوڑا وقت نکال کر یوسف ثانی بھائی سے ان رپورٹوں کا اصل مطلب بھی سمجھ لیجئے گا۔ امید ہے کہ آپ "ناپسند" ، "پسند" یا "شکریہ" میں تبدیل ہو جائے گی۔ ;)
ہاہاہاہا
پہلے تو میں اپنا نام دیکھ کر ہی ڈر گیا کہ میں نے کب آنجناب کے گرانقدر تجزیہ کو ”ناپسند“ کیا؟ فوراً سے پیشتر ناپسند کئے گئے تمام مراسلات کو فراً فرداً چیک کیا اور ”وضاحت“ کرنے واپس نیچے آیا ہی تھا کہ اپنے نام ٹیگ شدہ فقرے پر دوبارہ نظر پڑی اور مسکرانے لگانے پر مجبور ہوگیا۔ ہاہاہاہا

یارب ”وہ“ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے ”تری“ بات​
دے اور دل ”اُن“ کو، جو نہ دے ”تجھ“ کو زباں اور :)​

پس تحریر: اصل میں اس احقر نے بار بار کے ”تلخ تجربات“ کے بعد چند ارکان کو مستقلاً ”نظر انداز“ کر رکھا ہے۔ لہٰذا ایسے ارکان کے مراسلات مجھے ”نظر“ ہی نہیں آتے ہیں۔ اور فورم وزٹ کے دوران میں نہایت "سکون" سے رہتا ہوں۔ (مسکراہٹ)۔ یہ ”خاص“ اطلاع صرف آپ جیسے ”خاص“ لوگوں کے لئے ہے۔ عام لوگوں کے لئے نہیں۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
بھارتی مسلمان نہ کبھی ڈرا ہے اور نہ آئندہ کبھی ڈرے گا

نئی دلی: بھارت میں مسلمانوں کے لئے رائج قوانین کے اطلاق کے نگران ادارے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن سید قاسم رسول الیاس کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کے ملک کا وزیراعظم بننے پر مسلمانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ 'مسلمان نہ کبھی ڈرا ہے اور نہ آئندہ کبھی ڈرے گا۔
برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے سید قاسم رسول الیاس کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو آنے والی مودی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے۔ بھارتی کا معاشرہ انتہائی مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر کھڑا ہے۔ ملک کے مسند اقتدار پر کوئی بھی بیٹھے ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مسلمان نہ کبھی ڈرا ہے اور نہ آئندہ کبھی ڈرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں بھائی چارے کی فضا کے فروغ اور عوام کو ترقی کے یکساں مواقع کی فراہمی کرنا کسی بھی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے،'نئی حکومت اپنی اس ذمہ داری کو کس طرح ادا کرتی ہے اس کا تو اندازہ کچھ وقت گزرنے کے بعد ہی ہوگا۔
واضح رہے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی واضح ترین اکثریت سے کامیاب ہوئی اور اس کی جانب سے وزارت عظمٰی کے امیدوار نریندر مودی پر ریاست گجرات میں 2002 کے مسلم کش فسادات کروانے کا الزام ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
عبداللہ طارق سہیل کا تجزیہ

بھارت میں مزے دار ماجرا ہوا ہے۔ نریندر مودی ایک چھوٹے طبقے (برہمنی لغت کے مطابق) کا چھوٹا آدمی ہے جس نے ہر موقع پر خود کا چھوٹا ہونا ثابت بھی کیا ہے۔ بھارتی عوام نے اسے بے مثال اکثریت سے اپنا نیتا چنا ہے لیکن اس کے پیچھے عوام کی آزادانہ رائے نہیں تھی۔ جمہوریت میں عوام کی آزادانہ رائے ہوتی بھی نہیں' بہت سے کھلاڑی ایسی فضا بناتے ہیں جو عوام کی رائے کو مرضی کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔ بھارت میں بھی یہی ہوا۔ برہمنی اشرافیہ کے علاوہ کارپوریٹ ایلیٹ نے ایسا ماحول بنایا اور اتنا سرمایہ لگایا کہ مودی جیت گیا اور کارپوریٹ کلاس کے پیچھے امریکہ بھی تھا اور اشرافیہ کی یہی پشت پناہی مزے دار بات ہے۔ بھارتی برہمنی اور کارپوریٹ اشرافیہ نے اپنی ترجمانی' نمائندگی اور نگہبانی کیلئے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا جو شودر سے کچھ ہی اوپر ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ پہلی بار برہمن اور شودر کے مفادات ایک ہو گئے۔ کانگریس کو اس کی نااہلی کی سزا شاید اتنی نہ ملتی اگر مسلمان نیم دلی سے اس کے ساتھ نہ ہوتے لیکن کانگرس نے مسلمانوں سے ہمیشہ کی طرح برا کیا۔ اس کی سوچ تھی کچھ بھی ہو' مسلمانوں نے کہاں جانا ہے۔

اب کیا ہوگا۔ بھارتی مسلمان بہت خوفزدہ ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نریندر مودی حکومت میں آ کر اپنا رویہّ بدل لے گا' دنیا میں اس کی بہت بدنامی ہے اور امریکہ نے تو (مجبوراً) اس کا داخلہ بھی منع کر رکھا ہے۔ وہ اس امیج کو بہتر بنائے گا اور اقلیتوں سے اچھا سلوک کرے گا۔ اقلیتوں سے مراد مسلمان ہیں۔ اس لئے کہ دوسری اقلیت سکھ ہیں' جن سے کوئی برا سلوک پہلے بھی نہیں ہو رہا۔ ان سے جو برا سلوک کانگرس 80ء کی دہائی میں کر گئی' وہی کافی ہے۔ ویسے بھی سکھ اتنی چھوٹی اقلیت ہیں کہ برہمنی اشرافیہ کو زیادہ پریشانی نہیں ۔ ان سے ''انتقام'' لینے کی بہت زیادہ وجوہات بھی نہیں ۔دوسری اقلیت عیسائی ہیں۔ اُن سے برا سلوک ہو رہا ہے لیکن اتنا برا نہیں جتنا مسلمانوں کے حصہ میں آیا ہے۔

لیکن مسئلہ صرف امیج بنانے کا نہیں ہے۔ بھارت میں سنگ پریوار کے دو حصے ہیں۔ ایک وہ جو یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان پہلے ہندو تھے' پھر دھرم بدل لیا۔ اب انہیں ان کے ''اصلی'' دھرم پر نہ لایا گیا تو بھارت ماتا دودھ نہیں بخشے گی۔ یہ لوگ شدھی ہو جائیں تو باہر سے آئے مسلمان (ترک' افغان' عرب) تھوڑے ہی رہ جائیں گے' ان کو برداشت کر لیں گے۔ سنگ پریوار کا دوسرا حصہ وہ ہے جو مہاراشٹر اور گجرات میں آباد ہے۔ یہ صرف شدھی کے طلبگار نہیں' ان کا مسئلہ انتقام بھی ہے۔ انہی سرزمینوں سے مراٹھے اٹھے تھے جن کو احمد شاہ ابدالی نے بہت بری مار ماری تھی اور انہیں تتر بتر کر دیا تھا۔ یہ لوگ بدلے کی آگ میں نہ جانے کب سے جل رہے ہیں۔ انہیں مسلمانوں کا وجود گوارا نہیں۔ سنگ پریوار میں سینکڑوں لیڈر ایسے ہوئے کہ مسلمانوں سے نفرت اور دشمنی میں ایک سے بڑھ کر ایک تھا لیکن کیا کبھی ان کے منہ سے ایسا فقرہ سنا جو مودی نے کہا؟ مودی سے پوچھا گیا کہ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا تو مودی نے کہا ہاں مجھے دکھ ہوا' میری کار کے نیچے آ کر کتے کا بچہ مر جائے تو مجھے دکھ ہوتا ہے۔

ایسا فقرہ کہنے والا اور شدھی کی آشا کے ساتھ ساتھ بدلے کی بھاؤنا میں جلتا نریندر مودی اپنا عالمی امیج ٹھیک کرنے کیلئے خود کو آخر کتنا بدلے گا اور اس کے ہزاروں کارسیوک کیا کریں گے ۔وہ اس کے ساتھ اس لئے تھے کہ اس کی سرکار آئے گی تو کھل کر ہولی کھیلیں گے۔ بی جے پی نے پچھلے مہینوں یو پی میں مسلمانوں کے کئی قتل عام کئے اور یہ قتل عام شدھی کا حصہ تھے نہ بدلے کا' یہ ہندو ووٹروں کا دل جیتنے کیلئے کرائے گئے تھے۔ مسلم دشمنی کا جو سبق بی جے پی نے ووٹروں کو پڑھا دیا ہے' حکومت میں آ کر خود ہی اسے بھول جائے گی؟ لگتا نہیں ہے کہ ایسی کایا کلپ دیکھنے کو ملے گی۔

بھارت کے مسلمانوں کیلئے یہ Blessing in Disguise ہو سکتی ہے۔ اب تک بھارت کے مسلمان دو وجہ سے مار کھاتے رہے۔ ایک تو یہ خیالِ باطل ان کے ذہن میں تھا کہ پاکستان انکی مدد کرے گا۔ یہ تو انہیں سمجھ آ گئی ہے کہ ان کا تو کیا' پاکستان کشمیریوں کی مدد بھی نہیں کرے گا۔ دوسری وجہ یہ کہ انہوں نے ''انصاف'' کی تلاش کی۔ جو اقلّیت انصاف کو ہدف بنا لے' وہ مار کھاتی ہے' اس لئے کہ انصاف کا ملنا ناممکن ہے۔ اس کے بجائے حالات سے سمجھوتہ کر کے جینے کی راہ ڈھونڈنا پڑتی ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے ملازمتیں ملیں۔ وہ انہیں کبھی ملیں نہ ملیں گی۔ راستہ یہ ہے کہ مسلمان محنت کے ذاتی کاروبار کریں۔ اچھی بات یہ ہے کہ بھارتی مسلمانوں کا ایک خاصا بڑا حصہ صورتحال کو سمجھ چکا ہے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوششیں بھی کر رہا ہے۔انہیں یہ بھی احساس ہو گیا ہے کہ ہندو جنونی قتل عام سے پہلے انہیں مشتعل کرتے ہیں' پھر واردات کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں انہیں صبر کرنا چاہئے اور وہ کر رہے ہیں۔

بھارت کی مسلمان قیادت بہت نالائق اور کافی بری ہے لیکن پاکستان کی قیادت سے پھر بھی اچھی ہے۔ چنانچہ مسلمان قیادت نے یہ بھی سیکھ لیا ہے کہ اتحاد کی جماعتیں بنا کر ہندوؤں کو ''خوفزدہ'' نہ کیا جائے۔ انہیں یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ اردو کی حفاظت کوئی بھی حکومت نہیں کرے گی' یہ کام انہی کو کرنا ہوگا۔ چنانچہ اس طرف بھی توجہ ہو رہی ہے۔ اردو کو بہرحال یہ ''بالادستی'' ہے کہ بھارت کی فلمی صنعت اردو کے بغیر چل نہیں سکتی۔ فلموں کے 90 فیصد گانے اردو میں ہوتے ہیں اور پچاس فیصد ہندی فلمیں اصل میں اردو فلمیں ہوتی ہیں۔ باقی پچاس فیصد میں بھی اکثریت ان فلموں کی ہے جن کی بولی اردو کے قریب ہے۔ شدھ ہندی والی فلم زیادہ نہیں چلتی۔

بھارت میں جو ہوگا وہ تو ہوگا' مزے کا منظر پاکستان میں ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف بے چین ہیں کہ بھارت سے دوستی کا سفر وہیں سے شروع کریں جہاں سے کارگل کے موقع پر ٹوٹا تھا۔ کیا ان کی ''محبت'' کا جواب مودی سرکار محبت سے دے گی؟ کہنا مشکل ہے لیکن یہ سمجھنا آسان ہے کہ نواز شریف کے ساتھ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کیا کرے گی۔ پہلے ہی وہ گوادر پورٹ کو فعال کرنے کا اعلان کر کے امریکہ کو ناراض کر چکے ہیں اور امریکہ ناراض تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سوا ناراض۔اسٹیبلشمنٹ بھارت سے امن کیخلاف ہے' یہ بھی ہر کوئی جانتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا کام مودی کی آمد سے آسان ہو گیا' نواز شریف کا مشکل ہو گیا۔ لیکن ایسی باتوں کا اصل فیصلہ صرف حالات کاجائزہ لے کر نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی بساط سیاست پر کچھ فیصلے ''معجزے'' بھی کرتے ہیں۔ مثلاً جب پاکستان ایٹم بم بنا رہا تھا تو امریکہ اس کا گلا دبانے کا فیصلہ کر چکا تھا اور کون تھا جو امریکہ کو روک سکتا۔ لیکن افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کی انہونی ہو گئی۔ دنیا میں وہ کہرام مچا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا راستہ صاف ہو گیا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ سوچ رہا تھا کہ اب وہ بلا شرکت غیرے دنیا کا مالک و مختار بن جائے گا لیکن پھر نائن الیون ہو گیا۔ اس کے بعد جو دہشتگرد جنگ امریکہ نے شروع کی اس میں لاکھوں مسلمان مارے گئے لیکن امریکہ بھی اس جنگ میں ایسا الجھ کے رہ گیا کہ ادھر چین طاقت بن گیا تو ادھر روس نے بھی پر پرزے نکالے۔ یوکرائن کا بحران بھی ایسا ہی واقعہ ہے جو امریکہ کی ''گلوبل پلاننگ'' میں شامل نہیں تھا۔ امریکہ چاہتا تھا کہ پاکستان کو تو موقع آنے پر دیکھ لیں گے لیکن اب اور کسی مسلمان ملک کو ایٹمی طاقت بننے کی اجازت نہیں دے گا لیکن پھر امریکہ ہی نے ایسی غلطی کر دی کہ نتیجے میں سعودی عرب ایٹمی طاقت بننے کی راہ پر چل پڑا ہے۔

نواز شریف کو بھارت کے ساتھ دوستی ہی کا رویہ رکھنا چاہئے۔ محاذ آرائی میں بھارت بھاری پڑے گا اور ہمارے ہاں ترقی کے جو تھوڑے بہت دروازے کھلے ہیں یا کھلنے والے ہیں' ان کا بیڑا غرق ہو جائے گا۔ ان کی دوستی کی مہم کا جواب بھارت اکڑ فوں سے دے گا تو عالمی رائے عامہ مودی کے ساتھ وہی کرے گی جو مودیوں سے کیا جانا چاہئے۔ مودی نے بہت سپنے دیکھے ہوں گے لیکن افغانستان میں اس کی ''سرمایہ کاری'' کا جو حشر ہونے والا ہے' امریکہ بھی اسے ہونے سے نہیں روک سکے گا۔ مودی سرکار اس کا غصہ بھی پاکستان پر نکالے گی جس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بھارت پہلے ہی اتنے غصے پاکستان پر نکال رہا ہے کہ شمار کرنا مشکل ہے۔ جہاں اتنے غصے ہیں تو ایک اور سہی۔ع
ایں ہمہ برسر علم​
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
پتہ نہیں یہ تجزیہ ہے یاپھر’’تخربہ‘‘ہے۔ اس پورے تجزیے میں تجزیہ جیسی کوئی بات نہیں ہے اگرموقع ہوتاتواس تجزیہ کا تجزیہ کرتااوربتاتاکہ تجزیہ نگار کے اس تجزیہ سے اس کا تزکیہ ہی خطرے میں پڑگیاہے۔
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
عبداللہ طارق سہیل کا تجزیہ
حضور یوسف ثانی بھائی ، آپ جیسی معتبر ہستی ایسی فالتو تحریر پیش کرے تو یقین نہیں آتا۔
قابل مطالعہ ہونا تو دور کی بات صاحب تحریر کو تو زبان و بیان پر تک قابو نہیں ہے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
پتہ نہیں یہ تجزیہ ہے یاپھر’’تخربہ‘‘ہے۔ اس پورے تجزیے میں تجزیہ جیسی کوئی بات نہیں ہے اگرموقع ہوتاتواس تجزیہ کا تجزیہ کرتااوربتاتاکہ تجزیہ نگار کے اس تجزیہ سے اس کا تزکیہ ہی خطرے میں پڑگیاہے۔
جناب شاد محترم آپ اگر حیدرآبادی کی اوپر والی پوسٹوں کو پڈھیں گے تو سمجھ آ جائے گی، وہ اس سے بڑھ کر ذو معنی ہیں
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
حضور یوسف ثانی بھائی ، آپ جیسی معتبر ہستی ایسی فالتو تحریر پیش کرے تو یقین نہیں آتا۔
قابل مطالعہ ہونا تو دور کی بات صاحب تحریر کو تو زبان و بیان پر تک قابو نہیں ہے۔
اسی لئے تو ہم نےاسے آپ کی خدمت میں ”پیش“ کیا ہے، تاکہ آپ کو ”پتہ“ چلے کہ بھارتی سیاست کے بارے میں پاکستانی ”کیسے“ سوچتے ہیں۔ (ابتسامہ)
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
اسی لئے تو ہم نےاسے آپ کی خدمت میں ”پیش“ کیا ہے، تاکہ آپ کو ”پتہ“ چلے کہ بھارتی سیاست کے بارے میں پاکستانی ”کیسے“ سوچتے ہیں۔ (ابتسامہ)
اور میں آپ کو بتا دوں کہ ۔۔۔ پاکستان کے جو بھی معتدل مزاج صحافی ہندوستانی سیاست سے متعلق اچھی سوچ کے ساتھ اچھی تحریر لکھتے ہیں وہ ہندی و انگریزی پرنٹ میڈیا میں ترجیحاَ ترجمہ ہو کر شائع ہو جاتا ہے! :)
 
Top